اُم طلحہ کا تعلق جرمنی سے ہے اور نائن الیون سے متاثر ہوکر انہوں نے جرمنی میں ہی اسلام قبول کیا اور وہاں ابو طلحہ سے نکاح کیا۔ ان کا یہ خط شیخ اسامہؒ کے نام ہے کہ جس میں وہ اپنے قبول اسلام اور بعد ازاں ہجرت و جہاد کی روداد نقل کرتے ہوئے ایک طرف اپنی اسلام سے محبت، اس پر عمل کی تڑپ اور امت پر شیخ اسامہ کے احسانات کا تذکرہ کرتی ہیں تو دوسری طرف ساتھ امریکیوں پر حملوں کی ضرورت بھی بتاتی ہیں اور واضح کرتی ہیں کہ نائن الیون کے مبارک حملوں نے اسلام اور دعوتِ اسلام کی کس طرح عظیم خدمت کی ہے ۔ اُم طلحہ نے سرزمین جہاد کی طر ف ہجرت کے بعد ہمہ نوع مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کیا۔انہیں اپنے محبوب شوہر اور ہجرت و جہاد کے ساتھی ابوطلحہ سے جدائی کی تکلیف سہنی پڑی، ابوطلحہ رحمہ اللہ نے افغانستان میں بگرام ائر بیس میں امریکیوں پر ایک بڑے استشہادی حملے کی قیادت کی اور امریکی ونیٹو فورسز کو بہت بڑا نقصان پہنچایا ۔ان کی شہادت کے بعد اُم طلحہ نے دوسرانکاح کیا مگر کچھ عرصہ بعد یہ دوسرے شوہر بھی ڈرون حملے میں شہید ہوگئے ، یہاں تک کہ وزیرستان پر جب امریکی پاکستانی حملہ ’ضرب عضب ‘ شر وع ہوا تو اُم طلحہ اپنے بچوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ایک اور ارض جہاد کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئیں۔ یہ ایک نومسلمہ، مہاجرہ، مجاہدہ کی ایمان افروز داستان کی فقط ایک جھلک ہے۔ یہ خط شیخ اسامہ کے گھر (ایبٹ آباد) سے ملنے والے خطوط میں شامل تھا۔ یہاں اس کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)
بسم اللہ الرحمان الرحیم و الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے انتہائی محترم امیر اور محبوب شیخ اسامہ بن لادن نصرہ اللہ کے نام…… ان کی بیٹی الزبیتھ اینا ونڈشمین (Elisabeth Anna Windischmann) (زوجہ ابو طلحہ جرمن) کی جانب سے!
اللہ کے لیے ہی تمام تر تعریفیں ہیں جس نے رستے کی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود مجھے آپ لوگوں (اہل جہاد) تک پہنچا دیا، میرے لیے رستہ آسان کیا اور کفار کی آنکھیں اندھی کردیں۔ جب میں یہاں (خراسان) اپنے شوہر کے پاس پہنچی اور مجھے معلوم ہوا کہ آپ ( محترم شیخ) ہمارے امیر ہیں اور یہ کہ میں آپ لوگوں کی جماعت کا حصہ بن گئی ہوں تو میرا دل خوشی اور فخر سے لبریز ہو گیا۔ آپ کے ذریعے اللہ نے دو مرتبہ میر ی زندگی تبدیل کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: من لم یشکر الناس لم یشکر اللہ ، ’’جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا‘‘، اسی وجہ سے میں نے قلم اٹھایا کہ میں آپ کو خط لکھوں اور آپ کا شکریہ ادا کروں۔ اس تحریر کا دوسرا مقصد آپ کے سامنے یہ واضح کرنا ہے کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کے لیے کتنی بڑی خدمت ادا کررہے ہیں۔ آپ اپنا شرعی فریضہ ادا کرکے اسلام کی خدمت کررہے ہیں اور صلیبیوں کے ساتھ وہی زبان بول رہے ہیں جس کو یہ متکبر کافر سمجھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ نے وہ رستہ اختیار کیا ہے جو بالکل صحیح ہے اور ہمیں ان شاء اللہ جلد یا بدیر اس رستے کا پھل مل کر رہے گا۔
ہمارے امیر! ہمیں آپ سے یہی امید ہے کہ آپ کبھی بھی ہتھیار نہ رکھیں گے کیونکہ یہی کفار کی سب سے بڑی خواہش ہے جبکہ ہتھیار اٹھانا ہی وہ واحد طریقہ ہے کہ جس سے مجاہدین فتح و نصرت سے ہمکنار ہوں گے ان شاء اللہ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہےکہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعے ایک بھی فرد کو ہدایت دے تو یہ آپ کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہے‘‘ ۔
۱۱ستمبر کے دن میں ٹیلی ویژن دیکھ رہی تھی اور اچانک تمام چینلوں نے ان مبارک کارروائیوں کی خبر نشر کرنا شروع کردی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سب نے آپ کا نام لینا بھی شروع کردیا اور سچ کہوں تو اگرچہ میں اس وقت کافرہ تھی لیکن مجھے متکبر امریکہ پر ہونے والے ان حملوں سے بہت خوشی محسوس ہوئی ۔ یہاں میں آپ کو یہ بھی بتاؤں کہ کفار کی کتنی بڑی تعداد تھی جو اس دن ان حملوں کی وجہ سے خوش تھی اور امریکہ کے کبر کی وجہ سے چاہتی تھی کہ اس سے مزید بڑا حملہ بھی ان پر ہوجائے۔ جب میں نے اس دن پہلی مرتبہ آپ کی تصویر دیکھی تو میرے ذہن میں کئی باتیں بیک وقت گردش کرنے لگیں ایک آدمی جس کی بڑی داڑھی ہے، اس کے سر پر پگڑی ہے اور جس کا لباس عجیب و غریب ہے…… شاید اس نے ان لوگوں کا ایشو اٹھایاہے جن کے پاس نہ پانی ہے نہ بجلی اور جو بہت بیک ورڈ ہیں اور جو کسی ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جو ہندو مت یا بدھ مت جیسا ہے۔ مختصر یہ کہ مجھے بالکل یہ توقع نہیں تھی کہ مسلمان بھی ابراہیم، موسی اور عیسی علیہم السلام کے رب کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور بعد ازاں جب مجھے معلوم ہوا تو میرے لیے یہ بہت تعجب خیز تھا کہ اسلام کی جڑیں اسی دین سے جڑی ہوئی ہیں جس پر ابراہیم علیہ السلام تھے ۔ بہر حال میں نے اس وقت خبریں دیکھنا جاری رکھا اور جب مجھے یہ پتا چلا کہ آپ ارب پتی ہیں اور آپ نے اپنا سب کچھ محض اپنے عقیدے کی وجہ سے چھوڑا ہے تو میں بہت حیران ہوئی اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ان کے یہ سب کچھ کرنے کا ضرور کوئی بڑا گہرا سبب ہوگا اور اس کے بعد میں نے حقیقت جاننے کی کوشش شروع کی اور قدم بقدم آگے بڑھتی گئی۔
یقیناً اس دور میں معلومات کے حصول کا انٹرنیٹ سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں۔ میں ایک صفحے میں داخل ہوئی مگر وہ اسلام مخالف صفحہ تھا اور وہاں میرا وہ پرانا گمان پکا ہوگیا کہ مسلمان بتوں کی پوجا کرتے ہیں، لہٰذا میں اسلام سے تھوڑی سی دور ہوگئی۔ لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا کچھ اور تھا اور یوں میں نے اسلام کے بارے میں مزید تحقیق شروع کی ۔ مجھے ایک جرمن صوفی کی ویب سائٹ ملی جس نے اسلام قبول کیا تھا۔ پہلے تو مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ کیا ایک جرمن بھی مسلمان ہوسکتا ہے! کیونکہ بصد افسوس ہماری تربیت اس طرح سے ہوئی تھی کہ ہمارا یہ خیال تھا کہ اسلام صرف عربوں اور ترکوں کا دین ہے۔ پھر جتنا میں زیادہ پڑھتی گئی تو اسلام کی اصل تصویر سے پردے ہٹتے گئے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مجھ پہ واضح ہوا کہ اسلام، مسیحیت اور یہودیت ایک ہی نور سے نکلے ادیان ہیں ۔
سب سے اہم چیز جس نے مجھے اسلام پر مضبوط کیا وہ توحید خالص اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قوی تعلق ہے۔ یہ اللہ کے ساتھ قوی اور مکمل تعلق ہی تھا کہ جس نے میری زندگی دو مرتبہ تبدیل کی۔ پہلی مرتبہ تب جب میں کلیسا (گرجا) سے دور ہوئی۔ اور دوسری مرتبہ تب جب میں اللہ ہی کے سامنے مکمل طور پر اپنے آپ کو تفویض کرنے پر مجبور ہوئی۔ میرے دل کی گہری چاہت تھی کہ میں اللہ کی اطاعت کروں کیونکہ اس سے میں نے اپنے دل کے اندر اطمینان و سکون، خوش بختی اور سلامتی پائی اور میں جان گئی کہ اب وقت آگیا ہے کہ میں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا اعلان کردوں۔ میرے دل نے اس کے سوا میرے لیے کوئی اختیار ہی نہیں چھوڑا تھا اور جو کچھ اس کے سوا تھا وہ میرے لیے ناممکن بن گیا کیونکہ میرے سامنے فقط اور فقط ایک ہی راستہ رہا اور وہ یہ کہ میں اسلام میں داخل ہو جاؤں۔
اسلام کی پاکیزگی اور محبت میرے دل کے اندر اس حد تک اتر گئی کہ میں نے دل کی گہرائیوں سے چاہا کہ میں اٹھوں اور اپنے اردگرد موجود سب لوگوں تک یہ بات پہنچاؤں کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور میں تم لوگوں کو بھی اسلام کی دعوت دیتی ہوں۔ مجھے قوی یقین تھا کہ جب میں اپنے خاندان کے سامنے اسلام کی حقیقی تصویر پیش کروں گی اور ان کے سامنے توحیدِ خالص رکھوں گی تو وہ فوراً سجدے میں گر جائیں گے۔ میں نے اپنے خاندان کو نئے سال کے پہلے دن یہ خوش خبری سنانے فیصلہ کیا کیونکہ عیسائی اس دن کو دینی لحاظ سے خوشی سے مناتے ہیں۔ لیکن میرا سارا گمان غلط ثابت ہوا اور وہ دن میرے لیے بہت بڑی مصیبت کا باعث بنا۔ انہوں نے میرے خلاف اعلان جنگ کردیا۔ ہر طرف سے جیسے مجھ پر بمباری شروع ہوگئی۔ میں ان کے اس جارحانہ رویے، اسلام کے ساتھ اپنے نئے نئے تعلق، علم اور تجربے کی کمی اور دعوت کے مضبوط دلائل اپنے پاس نہ ہونے کی وجہ سے ان کے سامنے سے کچھ پیچھے ہٹ گئی۔ میں بہت روئی اور بہت غمگین ہوئی اور بہت حیران بھی ہوئی کہ حق تو بہت واضح ہے لیکن ان کے انکار اور جہل نے انہیں اسلام کے نور کو قبول کرنے سے روک رکھا ہے۔ اور جس چیز سے میرے غم میں اضافہ ہوتا تھا وہ یہ کہ وہ اپنے غلط رستے پر ہی چلتے رہنے پر مصر تھے۔ میری مخالفت میں سب سے آگے وہ لوگ تھے جو اپنے آپ کو عیسائی یا مسلمان کہتے تھے۔ البتہ میرے جڑواں بھائی ، جن میں سے ایک ملحد تھا اور دوسرا اپنے آپ کو عیسائی کہتا تھا؛ ان میں سے جو ملحد تھا وہ جب میرے اوپر دباؤ دیکھتا جس کے بوجھ کے تحت میں اس حد تک پس گئی تھی کہ خدانخواستہ میں دین سے پھررجاتی تو وہ مجھے نصیحت کرتے ہوئے کہتا، ’’اپنا حجاب مت اتارو اور ڈٹی رہو اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے‘‘۔ یہ ایک ملحد شخص کی بات تھی جو اس وقت میرے لیے استاد بن گیا تھا۔ میرا دوسرا بھائی جو مسیحیت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا، سوائے اس کے کہ عیسی علیہ السلام کی محبت اسے جنت میں لے جائے گی ، وہ مجھ سے کہتا تھا ، ’’اگر یہی تمہارا عقیدہ ہے تو یہ صحیح ہے‘‘۔ میرا پہلا شوہر، جس کے ساتھ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی، وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو علویوں اور مسلمانوں کا ملغوبہ تھا لیکن اسلام کے ساتھ اس کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے مجھ سے کہا ، اگر تم شادی سے پہلے مسلمان ہوتی تو تمہارے لیے میرے ساتھ نکاح جائز نہ ہوتا۔ الحمدللہ میں نے اس معاملے میں بھی تحقیق کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے انٹر نیٹ پر ایک ویب سائٹ ملی۔ یہ لوگ قرآن و سنت کی پیروی کرنے والے تھے۔ وہاں ایک عالم نے مجھے بتایا کہ تمہارے لیے اس آدمی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے اور پھر میں نے اللہ کی رضا کے لیے اسے چھوڑ دیا۔
میں تنہا رہنے سے بہت خائف تھی لیکن مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملے میں خیر ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے میرے دل کے اندر روز بروز پیاس بڑھتی گئی یہاں تک کہ بعض مسلمان بھی مجھے نصیحت کرنے لگے کہ اسلام کے مطالعے میں اتنا مبالغہ مت کرو، پاگل ہوجاؤ گی۔ اس معاملے میں مجھے کسی نے سپورٹ نہیں کیا سوائے ایک خاندان کے، جس نے بعد ازاں میرے ساتھ ہجرت بھی کی۔ مجھے اس وقت بھی یقین تھا کہ اسلام میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے مجھے پریشانی ہو۔ ہاں ایک مرتبہ مجھے بہت بڑا دھچکا لگا جب میں نے ایک ویب سائٹ وزٹ کی اور میں نے دیکھا کہ اس کو چلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کررہے تھے۔ اسلام کے اندر مجھے جو سب سے اچھی چیز لگی تھی وہ یہی تھی کہ میں خالص اللہ کی عبادت کروں، لیکن یہاں ایک ایسی چیز نظر آئی جو بالکل الٹ تھی۔ پھر جب مجھے پتا چلا کہ یہ الاحباش نامی ایک گمراہ فرقہ ہے اور اسلام سے نکلا ہوا ہے تو مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی اور اللہ کا شکر ادا کیا (کہ حقیقی اسلام میں ایسا کئی عقیدہ نہیں)۔ پتھر کی مانند ایک بوجھ تھا جو میرے دل سے ہٹ گیا اور میں نے سکون کے ساتھ سانس لینا شروع کیا، اس لیے کہ میرے لیے یہ انتہائی اہم بات تھی کہ میں اللہ کی عبادت بغیر کسی واسطے کے کروں اگر (توحید خالص کا یہ عقیدہ) نہ ہوتا تو پھر مسیحیت میں کیا مسئلہ تھا، میں عیسائی ہی رہتی۔ تب مجھے معلوم ہوا کہ اسلام کے اندر فرقے بھی ہیں اور مجھے ان لوگوں سے احتیاط کرنی پڑے گی جنہوں نے دین کا جھنڈا اٹھایاہوا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ہر شر سے دور کیا اور اہل سنت والجماعت کی طرف میری رہنمائی کی۔
جب میں اکیلی تھی تو اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہوتا اور میری دعائیں فوراً قبول ہوجاتیں اور یہ میرے لیے ایک بہت ہی خوبصورت دلیل تھی اس بات کی کہ میں حق پہ ہوں اور یہ کہ میں ثابت قدم رہوں۔ میری زندگی کی تصویر میں جو خلا تھے وہ پر ہوگئے۔ میری اس تحقیق کا سب سے اول محرک گیارہ ستمبر کے مبارک حملے تھے اور اسی وجہ سے اسی وقت ہی میں نے جہاد کے موضوع کو پڑھنا شروع کیا۔ یوں اللہ نے میرے لیے ایک نیا دروازہ کھولا اور یہ بحیثیت مسلمان میری زندگی کا انتہائی اہم دروازہ تھا۔ جہاد کے بارے میں جو پہلی بات میں سمجھی وہ یہ کہ یہ دفاع کے لیے ہوتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد مجھے پتا چلا کہ جہاد کی مختلف اقسام بھی ہیں۔ میں نے سنا کہ جہاد ہر اس علاقے والوں پر فرض ہوجاتا ہے جس کے خلاف دشمنان دین لڑتے ہوں۔ پھر ایک مرحلہ آیا کہ جب میں نے پڑھا اور میں نے سنا کہ مسلمانوں پر دنیا بھر میں بہت مظالم ہورہے ہیں۔ پھر میں نے اللہ کے لیے محبت اور اللہ کے لیے نفرت کا موضوع بھی پڑھا اور طاغوت کے انکار کا موضوع بھی۔ پھر مجھے ایک نئے احساس نے گھیرا کہ یہ سب کچھ جو مجھے پتا چلا ، یہ ایمان مجھے تبھی مل سکتا ہے جب میں ایک اسلامی اجتماعیت کا حصہ بن جاؤں ۔ اس کے بعد مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر اسلام کے چھ ارکان ہوتے تو چھٹا جہاد ہوتا۔
میں نے اس مسئلے پر بھی بہت غور و خوض کیا کہ ایک اسلامی حکومت کیسے قائم ہوسکتی ہے۔ ایسی حکومت جو صحیح اسلام پر عمل کرے۔ جب میں دیکھتی کہ مسلمانوں کی کثیرتعداد کے باوجود دنیا میں کہیں اسلامی حکومت نہیں ہے تو مجھے بہت غم ہوتا۔ میں نے سنا کہ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسلامی حکومت کے قیام میں حصہ ڈالے۔ مجھے بہت دکھ ہوتا کہ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور میں کچھ نہیں کرسکتی۔ میں سوچتی کہ وہ کیا کچھ ہے جو میں اس سلسلے میں دعا کے علاوہ بھی کرسکوں ۔ میرے دکھ میں اضافہ ہوجاتا جب میں دیکھتی کہ کفار اسلامی عقیدے کے خلاف قوانین، پروپیگنڈے اور تہمتوں سمیت کیا کیا ہتھیار استعمال کررہے ہیں۔ میرے لیے بہت افسوس کی بات تھی کہ مسلمان اپنے دین میں انتہائی گری ہوئی سطح پر راضی ہیں جبکہ کفار اپنے باطل عقیدے کے ساتھ بہت مخلص ہیں۔ میں نے انٹر نیٹ پر ایک ایسی ویب سائٹ وزٹ کی جو اسلامی حکومت کے قیام کی بات تو کرتی لیکن وہ اسلام کو پرامن ذریعے سے قائم کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ میں اس وقت ہی سمجھ گئی کہ یہ ایک غیر عملی بات ہے۔ میرے خیال میں اسلامی حکومت قوت کے حصول اور استعمال کے بغیر کبھی قائم نہیں ہوسکتی نہ ہی کوئی آپ کو مفت میں اسلامی حکومت دے گا، بالخصوص تب جب آپ شریعت نافذ کرناچاہیں۔ میری اس تحقیق کے دوران مجھ پر یہ بھی واضح ہوا کہ جہاد کی ایک قسم اسلام کے فروغ کے لیے ہے۔ مجھ پر واضح ہوا کہ ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور اسلامی عدل انسانوں کے بیچ قائم کرنے کے لیے جو کوشش کریں وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے طریقے پر ہو۔ اور یہ اس لیے ہو کہ اسلام ہر دور اور ہر قوم کے لیے ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی میرے سامنے تھی کہ کوئی مسلمانوں کی عزت نہیں کرے گا مگر صرف اس وقت جب ان کے پاس قوت ہو اور کفار ان سے ڈرتے ہوں۔ عراق کے خلاف جنگ نے میرے اس عقیدے کو مزید قوی کیا۔ لیکن بعض علماء کے اقوال اور بعض مسلمانوں کی باتیں مجھے بہت تکلیف دیتی تھیں۔ ایک نومسلم کے طور پر میرے سامنے یہ مسئلہ بڑا واضح تھا کہ جب کفار مسلمانوں کی زمین پر حملہ کریں تو قریب اور پھر قریب رہنے والے مسلمانوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے۔ عراق کے قریب تر ملک سعودیہ تھا۔ لیکن مجھے بہت پریشانی ہوتی تھی اور شدید غصہ مجھے آتا جب میں دیکھتی کہ وہاں کے علماء ناصرف جہاد کی تائید نہیں کرتے بلکہ اس کے برعکس مجاہدین کو برے القابات سے نوازتے ہیں اور نوجوانوں کو اس فرض سے روکتے ہیں۔ اس دوران مجھے بعض مسلمانوں نے ڈانٹا بھی کہ عربی زبان سے نابلد ایک نومسلم خاتون ہوکر، اور اسلام کے بہت سے احکامات سے ناواقفیت کے باوجود کیوں میں اتنے اہم مسائل بارے بات کرتی ہوں۔ کہا جاتا تھا کہ علماء زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ لیکن میں دیکھتی تھی کہ جو علماء جہاد سے روکتے تھے وہ کفار کی اتحادی حکومتوں کی تائید کرتے اور یہی علماء مجاہدین کی مخالفت بھی کرتے ۔ جب ان میں سے بعض سے میں پوچھتی تو مجھے فوراً جواب ملتا کہ جاؤ! پہلے وضو کے فرائض کا علم حاصل کرو۔ یقیناً ہمیں دین کے سارے احکامات کو بقدر استطاعت سیکھنا چاہیے۔ لیکن اس قدر اہم مسئلہ کہ جس میں مسلمانوں کا خون بہتا ہو، اس میں کیسے خاموشی اختیار کی جاسکتی ہے؟ کیاصرف اس وجہ سے کہ یہ ان مجرم حکمرانوں کے مفاد میں نہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں؟ اس موضوع نے مجھے فکری اور روحانی طور بہت اذیت دی ۔ اللہ نے میرے لیے الحمدللہ آسانی پیدا کی اور ایسے مسلمانوں کے ساتھ میرا تعارف ہوگیا جن کا عقیدہ صحیح تھا اور یوں میرا دل صحیح عقیدے کے نور سے منور ہوا۔
میرے انتہائی محترم امیر صاحب!
یقین کیجیے کہ عالم انسانی (بالخصوص اہل مغرب کی بات کرتی ہوں) طلوع اسلام کے بعد اسلام کے بارے میں تلاش اور تحقیق کے حوالے سے کسی اور واقعے سے ایسے متحرک نہیں ہوا جس طرح کہ نائن الیون کے مبارک حملوں نے ان کو متحرک کیا ہے۔ کالج و یونی ورسٹی ، کام کے اماکن، شاہراہوں اور راستوں میں، جرائد اور رسالوں میں اور ٹی وی چینلوں پہ ہر جگہ لوگ اسلام سے متعلق باتیں کرنے لگے ہیں۔ بعض لائبریریوں میں تو اسلام کے حوالے سے کتابیں تک رکھی گئی ہیں۔ مساجد ایسے کافر و غیر مسلم لوگوں سے بھر جاتی ہیں جو اسلام کو سمجھنے کے لیے مسلمانوں کو دیکھنے آتے ہیں۔ اسلام کا ذکر سب کی زبانوں پہ ہے۔ جرمنی میں اسلام میں داخل یا اسلام سے متعارف ہونے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو نائن الیون کے بعد اس طرف مائل ہوئے۔ واللہ یھدی من یشاء الی صراط مستقیم۔ اس طرح آپ کو اللہ نے توفیق دی کہ آپ نے عالمی سطح پر اسلام کی دعوت صرف ایک عمل سے پھیلائی۔
بحیثیت مسلمان ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کی دعوت لوگوں تک پہنچائیں۔ اب یہ لوگ اسلام قبول کریں یا نہیں، یہ اللہ کے ہاتھ میں ہے، مگر جہاد کے ذریعے دعوت افضل بھی ہے اور زیادہ مؤثر بھی کیونکہ یہ لوگوں پر اسلام کی حقیقت واضح کرتی ہے، بنسبت اس دوسرے طریقہ کے جسے بعض لوگوں نے اپنایا ہوا ہے۔ کتنے ایسے بھی ہیں جو اسلام تو لائے ہیں مگر وہ حقیقی اسلام اور جہاد کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں۔ ہمارے شیخ ! ان لوگوں کو مت سنیے جن کا گمان ہے کہ ان حملوں نے اسلام کے حق میں برے نتائج برآمد کیے۔ ان حملوں نے اسلامی خلافت کے زوال کے بعد پہلی مرتبہ اہل صدق اور اہل کذب کی صفوں میں تمیز پیدا کردی۔ ان شاء اللہ بہت سے لوگ ان کی وجہ سے اٹھیں گے اور ان کے سامنے امت کی حالت واضح ہوگی اور یہ بھی واضح ہوگا کہ حل یہی جہاد ہے۔ میرے محترم امیر صاحب! یقین رکھیے کہ جہاد ہی دعوت کو پہنچانے کا سب سے تیز راستہ ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو ایک مرتبہ پھر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں تو ایک دفعہ پھر نائن الیون کی کارروائی کیجیے۔ اللہ آپ کو توفیق دے۔ جہاں تک آزمائشوں کا معاملہ ہے تو یہ دین کا ایک جزو ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ مسلمان کو اس کے دین پہ ثابت قدمی عطا کرے۔ لہٰذا یہ آزمائش ایک وقت تک ہوتی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ پھر اسے دور فرما دیتا ہے۔
میرے لیے گھر کا انتظام اکیلے چلانا اور تنہا یہ ذمہ داری اٹھانا انتہائی مشکل تھا۔ اس امتحان میں اللہ نے میرے اوپر اپنی یہ حکمت واضح کردی کہ گھریلو معاملات کے حوالے سے میاں بیوی کے بیچ ذمہ داریوں کی جو تقسیم ہے یہ بالکل مبنی بر عدل ہے۔ مرد گھر کے باہر خارجی معاملات کا ذمہ دار ہے اور خاندان کا بڑ اہے جب کہ بیوی داخلی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کبھی اپنے اس بندے کو اکیلا نہیں چھوڑتا جو اس پر اعتماد کرتا ہے یا اس کے ساتھ جڑا رہتا ہے اور جیسا کہ تنگی کے ساتھ وسعت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میری دو دعائیں، جو میں ہمیشہ مانگتی تھی، قبول کیں۔ پہلی یہ کہ اللہ مجھے نیک شوہر عطا کرے اور دوسری یہ کہ میں بون شہر منتقل ہوجاؤں۔ بفاریہ جیسے چھوٹے شہر میں زندگی مشکل ہوتی ہے، بالخصوص اس لیے کہ کوئی نہیں ملتا جو آپ کے ساتھ آپ کے دین پہ تعاون کرے۔ جب کہ بون اس لحاظ سے مشہور تھا کہ وہاں مسلمان موجود ہیں۔ تو اللہ نے میری دعا قبول کی اور مجھے بون شہر میں شوہر عطا کیا ۔ جب ابو طلحہ نے میری طرف شادی کا پیغام بھیجا تو ہجرت اور جہاد کو اس شادی کی شروط رکھا اور میرے اوپر ان دونوں کی اہمیت واضح کردی ۔ میں سمجھ گئی کہ میرے اوپر واجب ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سامنے جھک جاؤں اور میں ، جو کچھ میرے بس میں ہو، دین کی نصرت کے لیے خرچ کروں۔ اور یہی ہماری مبارک ازدواجی زندگی کی بنیاد کا اہم پتھر تھا۔ اور اللہ ہی کے لیے ساری تعریفیں ہیں۔ کچھ عرصہ بعد اللہ نے ہمیں بیٹا دیا اور دو گھنٹوں بعد ہی اللہ نے اسے واپس لے کر ہمارے اوپر آزمائش ڈالی، وانا للہ وانا الیہ راجعون۔ الحمدللہ اللہ نے ہمیں اب ایک اور بیٹا عطا کیا ہے اور ان شاء اللہ یہ بیٹا آپ کی طرح بنے گا اے میرے شیخ!
ارض جہاد کی طرف ہجرت نے تھوڑا سا زیادہ وقت لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے انداز سے کہ جس کی کبھی کوئی مثال نہ ہو ، میرے اوپر یہ واضح کیا کہ جب اللہ کوئی ارادہ فرمائے تو ’کن‘ کہتا ہے اور وہ ہوجاتا ہے۔ اور میں عبد اللہ بن عباسؓ کی حدیث اپنی زندگی میں شاید اس قدر گہرائی سے کبھی نہ سمجھ پاتی جس طرح اس کے بعد میں نے اسے سمجھ لیا 1۔ میرا یہاں (وزیرستان) پہنچنا درحقیقت اللہ کی طرف سے ایک معجزہ ہی تھا۔ میرے محترم امیر! میں چاہتی تھی کہ میں آپ کو افغانستان تک پہنچنے کی ان دو کوششوں کی روداد تفصیل سے لکھوں جو میں نے کی تھیں اور جن سے ایک اندھے کے سامنے بھی واضح ہوجاتا کہ اللہ ہی المدبر ذات ہے۔ لیکن اس وجہ سے تفصیل نہیں لکھتی کہ آپ کا وقت قیمتی ہے۔ میں اپنی طرف سے یہ تاکید کرتی ہوں اور سب کے سامنے یہ کہتی ہوں کہ بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اور اللہ باقاعدہ ہمیں محسوس کراتا ہے کہ اس کے وعدے حق ہیں۔ ہاں آزمائشیں میزان ہوتی ہیں، مومن کی سچائی، اس کے اخلاص، اس کے ثبات اور اس کے صبر کا۔ جب میں نے پہلی مرتبہ یہاں آنے کی کوشش کی تو میں تنہا تھی اور میرا بیٹا میرے پاس تھا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ ہاجر اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کی ہجرت کیسی تھی اور انہوں نے کیسا محسوس کیا ہوگا جب انہیں تنہا مکہ میں چھوڑا گیا، باوجود اس کے کہ انہیں یقین تھا کہ جب یہ اللہ کا امر ہے تو اللہ ان کو کبھی ضائع نہیں کریں گے ۔ پہلی کوشش میں مشکلات اور اس کی ناکامی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ہمیں واضح معجزات دکھائے اور دشمن کی نظروں سے ہمیں بچایا۔
میں اللہ سے یہ دعا کرتی ہوں کہ اللہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو جنت الفردوس عطا فرمائے کہ آپ لوگوں نے ہمیں کفار کے علاقے سے نکالنے میں مدد کی اور ہمیں مجاہدین کی زمین پر آنے کا موقع عطا کیا تاکہ ہم کفار کے خلاف جہاد کریں۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ مجھے اخلاص، صدق، صبر و ثبات دے اور میں آپ سے بھی یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ میرے خاندان کے لیے دعا کیجیے کہ اللہ انہیں ہدایت دے۔ یہ گزارش بھی آپ سے کرتی ہوں کہ میرے لیے، میرے شوہر اور میرے بیٹے کے لیے دعا کریں کہ اللہ ہمیں اپنے کلمے کی سربلندی کے لیے استعمال کرے اور ہمیں اپنے رستے میں شہادت عطا کرے۔ میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ جو کچھ آپ نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے قربان کیا اور کررہے ہیں، اللہ آپ کو اس کا اجر دے ۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے اور آپ کے خاندان کی بھی اور اللہ تعالیٰ اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کے ذریعے آپ کے دلوں میں سرو رپیدا کرے ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو قوت دے، صحت دے اور لمبی زندگی دے اور آپ کے لشکروں کو کفار کے خلاف قتال کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے مبارک حملوں کے ذریعے امت مسلمہ کی ذلت دور فرمائے۔
جان لیجیے یا شیخ کہ اللہ رب العزت نے اس جہاد کے ذریعے پوری دنیا میں امت کی امیدوں کا محور و مرکز آپ کو بنایا ہے۔ میرے محترم امیر صاحب ! میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں یتیمہ ہوں۔ اس وجہ سے نہیں کہ میرے والدین فوت ہوچکے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ کافر ہیں۔ پس میرے لیے یہ بہت بڑی عزت کی بات ہے کہ میں آپ کو اپنا والد سمجھتی ہوں ۔ پس میرے لیے اللہ کے بعد اور میرے شوہر کے بعد اس اجنبی دیار میں کوئی نہیں آپ کے سوا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
٭٭٭٭٭
1 حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا: ’’اے لڑکے ! کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں جن کے ذریعے اللہ تمہیں فائدہ دے ‘‘؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! پس آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ اللہ کی حفاظت کرو (یعنی اس کے احکام کی) اللہ تمہاری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کرو تم اسے اپنے سامنے پاؤگے، تم اسے خوشحالی میں یاد رکھو وہ تمہیں تکلیف کے وقت یاد رکھے گا، جب مانگوتو بس اللہ سے مانگو، جب مدد چاہو تواللہ سے چاہو اور جان رکھو ! اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں نفع پہنچانا چاہے تو تمہیں نفع نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سارے مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، قلم اٹھا لیے گئے اور صحیفے خشک ہوچکے اور یاد رکھو ! مصائب پر صبر کرنے میں بڑی خیر ہے کیونکہ مدد صبر کے ساتھ ہے، کشادگی تنگی کے ساتھ ہے اور آسانی سختی کے ساتھ ہے‘‘۔(مسند احمد)