گیارہ ستمبر…… یوم تفریق…… وہ دن کہ جب اہل ایمان مجاہدین نے اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق سے کفر کے سر پر کاری ضرب لگائی۔ وہ ضرب کہ جسے یاد کرکے آج بھی عالمِ کفر بلبلا اٹھتا ہے اور ہر سال ستمبر کے مہینے میں کہیں نا کہیں مجاہدین پر کاری ضربیں لگا کر اپنا دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ قریباً ربع صدی گزر جانے کے بعد اور بیس سال افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر خائب و خاسر لوٹنے کے بعد بھی عالمِ کفر کے دل کا ٹھنڈا نہ ہونا یہ واضح کرتا ہے کہ تیر عین نشانے پر لگا ہے، زخم ابھی تک ہرا ہے اور ٹیسیں ابھی تک اٹھ رہی ہیں۔
دوسری طرف ہر سال جب ستمبر کا مہینہ آتا ہے تو مجاہدین کو بھی ویسا ہی جوش و خروش محسوس ہوتا ہے جیسا کہ پہلی مرتبہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے جہاز ٹکرانے کی خبر سن کر اور اس کے نتائج دیکھ کر ہوا تھا۔ لہٰذا مجاہدین بھی یو م تفریق کی یاد میں لکھ اور بول کر دنیا کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ہم ہی تھے کہ جنہوں نے تم کو اس روز ذلیل و رسوا کیا تھا۔
مگر کیا ہم گیارہ ستمبر ’مناتے‘ ہیں؟ ایسے ہی جیسے دنیا دیگر بہت سے دن مناتی ہے؟ منائے جانے والے دیگر بہت سے دنوں کی طرح کیا گیارہ ستمبر کا ’منایا جانا‘ بھی بس ہلے گلے اور گزرے واقعات کی خوشی منانے کے لیے ہے؟ درحقیقت ہم گیارہ ستمبر ’مناتے‘ نہیں، ہم گیارہ ستمبر کو یاد رکھتے ہیں، ہم اسے بھولنا نہیں چاہتے، اور ہم اسے اس لیے نہیں بھولنا چاہتے تاکہ فرض ہماری نگاہوں کے سامنے رہے، کفر کا سر کچلنے کی لذت اور اس کے فوائد نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے پائیں، تاکہ مجاہدینِ امت کو تحریض ملے کہ یہ وہ کام ہے جو کیا جانا چاہیے، یہ وہ میدان ہے کہ جس میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہیے، یہ وہ رزم گاہ ہے کہ جہاں مردانگی کے جوہر دکھائے جانے چاہییں اور یہ وہ وسعتیں ہیں جن کی تسخیر کے لیے اپنے دماغوں اور صلاحیتوں کو بیدار کرنا چاہیے اور اپنے جذبوں کو مہمیز دینی چاہیے۔
تاریخِ اسلام کا مطالعہ اسی لیے اہم ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے سبق حاصل کریں، اور ان جیسا بن جانے کی کوشش کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ گر یہ یقین نہ ہوتا کہ اسلام کی تاریخ معتبر اور ثقہ راویوں کے ذریعے محفوظ کی گئی ہے تو مسلمان مجاہدین کے مافوق العقل کارناموں پر یقین کرنا انسان کے لیے مشکل ہوجاتا۔ کتنی ہی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی یہ حال ہے کہ اب بھی فتوح الشام، فتوحات مصر اور ان جیسی دیگر کتب پڑھ کر ایک مومن مجاہد جہاں حیران رہ جاتا ہے وہاں وہ اپنے اندر ایک نئی توانائی، جوش، جذبہ اور ایمان کی حرارت محسوس کرتا ہے۔ وہ جان جاتا ہے کہ ان میں اور ہم میں فرق رنگ و نسل، زمان و مکان کا نہیں بلکہ ہمارے اور ان کے مابین ایمان کے درجے، تقویٰ کے معیار اور اپنے دین کے لیے تن من دھن لٹا دینے کے جذبے میں فرق ہے۔ ان کے معرکے پڑھ کر ہمیں وہ چوٹی سر کرنا ممکن نظر آنے لگتا ہے کہ جس کو سر اٹھا کر دیکھتے رہنے سے ہماری گردنیں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور یوں ہمیں اپنا قد بھی نظر آنا بند ہوگیا ہے اور ہم یہ بھول ہی گئے کہ ہمارا مقابلہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ ہی ہے۔ گر ہم ایمان و تقویٰ میں اپنے مد مقابل سے بھاری ہوں تو مقابل کی عددی و عسکری قوت ہمارے سامنے ہیچ ہے کیونکہ جو ایمان و تقوی سے لیس ہوتے ہیں اللہ رب العزت کی مدد و نصرت ان کے شامل حال ہوتی ہے۔
پس ہم گیارہ ستمبر کو اس لیے یاد رکھتے ہیں تاکہ اپنی کم ہمتی کا یہ جواز پیش کرنے کی بجائے کہ ’دورِ اسلاف اور موجودہ دور میں بہت فرق ہے‘، ’ہمیں جنگ کی بجائے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دشمن پر سبقت لے جانی چاہیے‘، ’ہمارے پاس ہے ہی کیا جو ہم اپنے سے اس قدر قوی دشمن سے لڑیں؟‘، ’ایک اکیلا فرد آخر کر ہی کیا سکتا ہے؟‘، ہم ہمت پکڑیں اور ان انیس نوجوانوں کی مثال اپنے سامنے رکھیں جو ایک ایک فرد ہی تھے مگر مقصد و منزل کے اشتراک نے انہیں ایک قوی جماعت بنا دیا۔ انہوں نے اپنی جانیں وار کر، امت کے لیے عزت و شرف کا سامان کیا۔ ہم کواشی برادران پر اس لیے فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی بڑی جمیعت کے ساتھ نہیں بلکہ محض دو افراد ہوتے ہوئے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کیا، ہم نضال حسن کو اس لیے یاد رکھتے ہیں کہ تن تنہا ہوتے ہوئے وہ کام انہوں نے کیا جو بہت سے اسلامی ملکوں کی افواج نے کرنے کا نہ سوچا، ہم عمر فاروق عبدالمطلب کو بھی نہیں بھولتے جس نے اپنے لباس میں بارودی مواد چھپا کر دشمن کا جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی، ہم مصری محمد صلاح کو بھی یاد رکھتے ہیں جو مصری پولیس میں ملازم تھے اور انہوں نے گزشتہ برس تین اسرائیلی فوجیوں کو قتل کیا، نیز ہم اپنے پیارے اردنی بھائی محمد الجازی کے بھی احسان مند ہیں کہ جنہوں نے حالیہ ماہ ستمبر میں تنہا ہوتے ہوئے بھی تین اسرائیلی فوجیوں کو قتل کیا۔ یہ تمام واقعات اور افراد ہمارے لیے مینارۂ نور ہیں جس کی روشنی میں ہم اپنے لیے منزل متعین کریں اور اپنے ٹھنڈے جذبوں کو گرمائیں۔ کچھ کر گزرنے کا وقت یہی ہے، اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو ہمارا دشمن ہمارے ساتھ وہ کچھ کرگزرے گا کہ پھر ہمیں کچھ کرنے کے قابل نہ چھوڑے گا۔
بطورِ امت ہمیں اپنے رول ماڈل یا نمونہ ہائے عمل نئے سرے سے متعین کرنے چاہییں۔ دورِ غلامی نے ہمیں آزاد قوموں کے اطوار بھلا دیے ہیں۔ اسلحے کی جگہ گیند بلے نے لے لی ہے اور نیزہ بازی، گھڑ سواری، نشانہ بازی اور تیراکی کے میدان میں مردانگی کے جوہر دکھانے والے اب مٹک مٹک کر ماڈلنگ اور اداکاری کے جوہر دکھاتے ہیں۔ قوموں کی قومیں کسی بلے باز کے عشق میں مبتلا ہیں یا کسی بھانڈ میراثی یا بہروپیے کے پیچھے پاگل۔ جو حالاتِ حاضرہ سے بہت ہی شغف رکھتا ہے وہ بھی کسی نہ کسی کرپٹ سیاست دان کے گن گاتا دکھائی دیتا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نو آبادیاتی دور تو گزر گیا مگر آزادی کسی کو بھی نہیں ملی! نہ جسموں کو اور نہ ہی ذہنوں کو! امت کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ کر ہر ٹکڑے پر اپنا ہی ایک وفادار غلام مسلط کردیا، اس غلام کا نام حکمران رکھا اور یوں آزادی کا ٹیگ لگا کر امت مسلمہ کو بحیثیت مجموعی ذہنی غلامی کی بدترین مثال بنا دیا گیا۔ حکمران نام کے یہ غلام فیصلے کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں، ان کے پاس فیصلوں کا اختیار ہے ہی کب۔ انہیں تو بس بھرے ہوئے پیٹ اور بھرے ہوئے بینک اکاؤنٹ کے بدلے اس کرسی پر بٹھایا گیا ہے جبکہ ان کی ڈوریں اب تک انہی آبادکاروں کے ہاتھوں میں ہیں۔
ہمارے لیے نمونہ ہائے عمل موتہ، یرموک اور حطین ہیں۔ نیز اسلامی تاریخ کے روشن کرداروں سے قوت عمل حاصل کرکے گیارہ ستمبر بپا کرنے والے ہمارے لیے نمونۂ عمل ہیں۔ ہم آج تک ان کو کیوں نہیں بھولے؟ کیونکہ وہ ہمارے اور اس امت کے محسن ہیں، وہ ابطال اسلام ہیں، وہ ہمارے لیے نمونۂ عمل ہیں۔ جس طرح کل صلاح الدین ایوبی نے تخت و تاج کے ہوتے ہوئے بھی منزل سے نظر نہ چرائی اور اپنی حکومت اور قوت و اختیار کو اقصیٰ کی آزادی کی راہ میں کھپایا، اپنی حکومت کی کل مدت گھوڑے پر سوار ہوکر آزادیٔ اقصیٰ کے لیے لڑتے ہوئے گزاری، تب اقصیٰ کی فتح انہیں نصیب ہوئی۔ اسی طرح آج شیخ اسامہ بن لادن نے محلات کو خیرباد کہا، عیش و عشرت کی زندگی چھوڑی اور پھر اللہ نے ان کے ہاتھ سے گیارہ ستمبر بپا کروایا جس سے عالم کفر کا سر نیچا ہوا اور اس کی پیشانی خاک آلود ہوئی۔ جس وجہ سے ہم معرکہ حطین کو نہیں بھولتے، بعینہ اسی وجہ سے ہم معرکہ گیارہ ستمبر کو بھی یاد رکھتے ہیں تاکہ ہم اپنے دشمنوں کو پہچانیں، ان کی قوت و طاقت سے ڈرنے کی بجائے بقدر استطاعت ان پر ضرب لگائیں۔ گیارہ ستمبر ہوا تو کفر اور اس کے حواری کھل کر سامنے آئے۔ جنہوں نے اہل کفر کا اتحادی بننا گوارا کیا، وہ بھی واضح ہوگئے اور جنہوں نے اہل ایمان کا، اہل جہاد کا ساتھ دینا قبول کیا اور نتائج سے بے پروا ہو کر دامے درمے سخنے قدمے ان کی مدد ونصرت کی، ان کا کردار اور نیتوں کا اخلاص بھی کھل کر سامنے آگیا۔ اسی لیے گیارہ ستمبر یوم تفریق کہلایا کہ اس نے مومنین مجاہدین کو کفار و منافقین سے چھانٹ کر الگ کر دکھایا۔ ہر ایک کو واضح طور پر اپنا خیمہ منتخب کرنا ہی پڑا، فسطاط الایمان والوں نے دل بڑے کیے، حوصلے مجتمع کیے اور اللہ کی مدد و نصرت کے بھروسے پر اپنا پڑاؤ چنا اور فسطاط النفاق والوں پر نفاق کا چولا تنگ ہوا، فیصلے کا وقت آیا تو انہوں نے صراحتاً کفر کا ساتھ دینا قبول کرلیا۔
آج طوفان الاقصیٰ کو شروع ہوئے سال بھر کا عرصہ گزر چکا ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی امت کی جانب سے اہلِ غزہ کے حق میں کوئی ایسا ردّ عمل سامنے نہیں آیا جس سے اہل غزہ کی واقعی مدد ہوئی ہو، جس کی وجہ سے ان پر سے دشمن کا دباؤ کم ہوا ہو، جس کی وجہ سے دشمنانِ امت کو اپنی سلامتی کی فکر لاحق ہوئی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ محض آج امت اس جمود کے دور سے گزر رہی ہے، امت پر یہ ادوار پہلے بھی آئے ہیں، مگر ایک ایک فرد نے اٹھ کر اس جمود کو توڑا اور ظلم کے خلاف تحریکیں اٹھائیں۔ ملا محمد عمر مجاہد ایک فرد ہی تھے، سید احمد شہید ایک فرد ہی تھے، صلاح الدین ایوبی ایک فرد ہی تھے مگر ان افراد کا ایمان اس قدر قوی اور ان کی قوت عمل اس قدر شدید تھی کہ انہوں نے بدّترین حالات میں بھی اپنی منزل کو نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دیا اور حق کا علم بلند کیے رکھا۔ ایسے ہی لوگوں اور ایسی ہی قوموں کو پھر منزل نصیب بھی ہوتی ہے۔ آج امارت اسلامیہ افغانستان اگر قائم ہوئی ہے تو جلسے جلوسوں، نعروں، مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے قائم نہیں ہوئی۔ خون دے کر قائم ہوئی ہے، مقابلہ کرکے قائم ہوئی ہے، اپنی نیت کا اخلاص اور عمل کی صلاحیت پیش کرکے قائم ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے دوستوں کو اپنے دشمنوں کے حوالے کرنے سے انکار کرکے قائم ہوئی ہے۔ یہ قوم اس لیے آزاد ہوئی ہے کہ اس نے بدترین مقبوضہ دور میں بھی اپنا دین، اپنی زبان، اپنے لباس، اپنے اقدار کا سودا نہیں کیا اور اپنے دلوں اور ذہنوں پر قبضہ نہیں ہونے دیا۔
پس جو اقصیٰ کی آزادی کے خوگر ہیں وہ جان لیں کہ اقصیٰ کبھی بھی تھالی میں رکھ پیش نہیں کی جائے گی۔ جو اسلامی نظام و شریعت کے نفاذ کے حامی ہیں وہ محض مصلوں پر بیٹھ کر اسے نافذ نہیں کرسکتے، اس کے لیے اٹھنا اور اسلحہ اٹھانا ہوگا، قربانی دینی ہوگی جان کی بھی، مال کی بھی، خواہشات نفس کی بھی، آرام و آسائش کی بھی اور اپنے اہل و عیال کی بھی۔ ہر شخص اگر یہی سوچ کر بیٹھا رہے کہ میں جہاد کے لیے نکلا تو میرے گھر والوں کی کفالت کون کرے گا، میرے بچوں کی تربیت کا ضامن کون ہوگا، میرے کاروبار کو کون سنبھالے گا، پھر تو یہ امت کبھی جہاد کے لیے نہ اٹھ سکے گی۔ اور آج تو دشمنِ اصلی اور ان کے حواریوں پر ضرب لگانا اس لیے بہت آسان ہوچکا ہے کہ وہ آزادی سے ہر جگہ گھومتے پھرتے ہیں۔ امریکی فوج مزے سے پاکستان میں بیٹھی اپنے حواریوں کو مشقیں کروا رہی ہے۔ سعودی عرب، قطر، امارات، ہر جگہ دشمنِ اصلی امریکہ کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ کیوں نہیں کوئی گرگ تنہا اٹھتا اور ان امریکی فوجیوں پر یلغار کرتا؟ جو امریکی فوج پر ضرب لگائے گا وہ براہِ راست آزادی اقصیٰ کی راہ ہموار کرنے والوں میں شامل ہوگا کیونکہ اسرائیل امریکہ کے بغیر کچھ نہیں اور امریکہ اسرائیل کے بغیر معذور ہے۔ پس ان میں سے کسی ایک پر ضرب لگانا دوسرے کو بھی کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ حال ہی میں جس اردنی بھائی محمد الجازی نے اسرائیلی فوجیوں پر فائرنگ کرکے انہیں جہنم واصل کیا وہ کوئی تربیت یافتہ مجاہد نہیں تھے بلکہ عام معاشرے میں رہنے بسنے والے ایک ٹرک ڈرائیور تھے مگر ان کی غیر ت و حمیت زندہ تھی لہٰذا انہوں نے اہل غزہ پر ہونے والے ظلم کا بقدر استطاعت بدلہ لے لیا۔ ان کا عمل ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے جس کی روشنی میں ہمیں اپنے کرنے کے کام واضح دکھائی دے رہے ہیں۔
پس اس سال کا گیارہ ستمبر ہمیں ایک اور گیارہ ستمبر کی دعوت دے رہا ہے۔ اس سال کا سات اکتوبر ایک اور سات اکتوبر کی تحریض دیتا ہے تاکہ کفر اگلی پوری صدی اپنے وہ زخم چاٹتا رہے جو خدا کرے کہ کبھی نہ بھریں، ہمیشہ رستے رہیں، ہمیشہ تکلیف دیتے رہیں اور مجاہدین امت کو اللہ رب العزت توفیق دیں کہ وہ عالم کفر کا تن ایسے ہی کئی مزید زخموں سے چھلنی کرتے چلے جائیں۔
ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ایمان خلیل
ورنہ خاکستر ہے تیری زندگی کا پیرہن
٭٭٭٭٭