نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home یومِ تفریق

شیخ اسامہ بن لادن کیوں ’محسنِ امت ‘ہیں؟

افضل عبد الحمید خان by افضل عبد الحمید خان
15 نومبر 2024
in یومِ تفریق, ستمبر تا نومبر 2024
0

مجاہدین اور ان سے وابستہ نشریات میں بار ہا شیخ اسامہ ﷫ کو ’محسنِ امت‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہے اور لگتا ایسا ہے کہ آہستہ آہستہ یہ لقب اسلام کے عظیم مجاہد اسامہ بن لادن کی عمومی پہچان بن جائے گا۔لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیخ کو کس وجہ سے اس امت کا محسن کہا جاتا ہے؟اور کیا واقعہ وہ امتِ محمدی ﷺ پر کوئی احسان کر کے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس لقب کے مستحق ٹھہرے ہیں؟ تو پھر وہ ’احسان‘ کیا ہے جو محمد بن عوض بن لادن کے فرزند اسامہ نے رسولِ آخر الزمان محمد مصطفی ﷺ کی امت پر اس زمانے میں کیا ہے؟ امتِ مسلمہ کے ایک فرد کی حیثیت سے میری اور آپ سب کی فطری خواہش ہونی چاہیے کہ ایک تو ان ہستیوں کا علم ہو جنہوں نے مجھ پر احسان کیا ہے اور پھر ایک با وفا و غیور انسان کی حیثیت سے میں بھی احسان کا بدلا احسان ہی کے ذریعے چکانے کی کوشش کروں کیونکہ یہ الٰہی فرمان ہر مسلمان کو مخاطب ہےکہ هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (کیا احسان کا بدلہ احسان کے سوا بھی کچھ ہو سکتا ہے؟)۔آئیں اس دعوے کی تحقیق کرتے ہیں۔

کیا شیخ اسامہ ہی اس امت کے محسن ہیں؟

تعصب کی تاریک وادیوں سے دور رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم پہلے ہی یہ واضح کر دیں کہ شیخ اسامہ ﷫ ہی فقط اس امت کے محسن نہیں ہیں۔ بلکہ وہ امتِ مسلمہ کے محسنین کی قطار میں شریک ایک فرد ہیں۔ ہمارے محسنین بے شمار ہیں اور بلاریب ان تمام محسنین کے سردار وآقا،سید الکائنات پیارے نبی ﷺ ہیں اورحضور کے بعد دیگر تمام انبیاء کرام ﷩اور پھر صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ مجتہدین، علمائے کرام، فاتحین بلاد اسلامی، مجاہدین ِ ابطال، مشایخِ اسلام وغیرہ، یہ سب امت کے محسنین ہیں۔ بلکہ ان سے بھی پہلے ہم پر حقیقی و اصلی احسان تو اللہ رب العالمین ہی کا ہے اور اس کے بعد اللہ کی دیگر مخلوقات میں سے خاصتاً ملائکہ اور ان میں سے بھی انسانیت تک اللہ کے پیغام یعنی وحی پہچانے والے حضرت جبریل ﷩کا بھی ہم پر احسانِ عظیم ہے۔چنانچہ امت کے اہلِ خیر کی ہمیشہ سے یہ عادت رہی ہے کہ ان محسنین سے محبت رکھتے ہیں، ان سے مخلص ہوتے ہیں، ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں، ان کے طریقے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرت میں جنت الفردوس میں ان کے ساتھ اکھٹا ہونے کی تمنائیں کرتے ہیں۔ ہمارے موجودہ زمانے یعنی پندرویں صدی ہجری میں امت مسلمہ کے محسنین کی فہرست میں ایک نمایاں اور روشن نام شیخ اسامہ بن لادن﷫ کا بھی ہے جنہوں نے اپنے قول و عمل کے ساتھ امتِ مسلمہ پر بڑ احسان کیا۔

’محسن ‘اور ’امت ‘کسے کہتے ہیں؟

آگے بڑھنے سے پہلے ان دو اصطلاحوں کا معنی بھی ذہن میں تازہ کر لینا چاہیے۔جو کسی پر احسان کرے اسے محسن کہتے ہیں۔اور اگر مزید واضح کہیں تو جو کسی کو بڑا فائدہ دلائے یا کسی بڑے نقصان سے بچائے اسے اس کا محسن کہتے ہیں۔جہاں تک امّت کی اصطلاح کا معاملہ ہے تو وہ نبی اکرم محمد مصطفی ﷺ کے نام لیوا مسلمانوں کو کہتے ہیں۔ وہ جو کلمۂ توحید کے قائل ہوں، مسلمانوں کے قبلے کوہی اپنا قبلہ جانیں اور مسلمانوں ہی کے طریقے پر جانوروں کو ذبح کیا کریں، یہ سب امتِ مسلمہ کہلاتے ہیں۔ اس امت کی فہرست میں آنے کے لیے نا کسی حکومت کی رسمی اجازت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کاغذات میں اندراج کی ضرورت ہے۔ امت کا یہ دائرہ نہ کسی سرحد میں پابند ہے اور نہ کسی زبان، قوم، نسل، رنگ میں مقید ہے۔ اسی طرح وہ فرد جو پیدائشی امتی ہو اور صدیوں سے اس کے آباء و اجدا دمسلمان رہے ہوں اور وہ فرد جو آج چند گھڑیوں پہلے مسلمان ہوکر امت کی فہرست میں شامل ہوا ہو، یہ دونوں نبیِ پاکﷺ کے امتی ہونے میں برابر کا رتبہ رکھتے ہیں۔ امت اور محسن کی تعریف کو جاننے کے بعد ہم پر یہ واضح ہو گا کہ امت کا محسن وہی کہلانے کا لائق ہوگا جس نے بغیر کسی جغرافیائی یا قومی تفریق کے پوری امت پر احسان کی ہوگا۔ اس کے برعکس جس کا احسان امت کے ایک مخصوص حصے کے لیے ہوگا وہ اسی حصہ کا محسن کہلائے گا۔ جیسا کہ عربوں پر احسان کرنے والا محسنِ عرب،عجمیوں کا محسن،محسنِ عجم اور اسی طرح مختلف خطوں پر احسان کرنے والے محسنِ ہند،محسنِ پاکستان،محسنِ مصر وغیرہ کہلائیں گے نا کہ محسنِ امت۔

موجودہ زمانے میں امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ

امتِ مسلمہ کے ہمدرد اور اس کے مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لینے والے حضرات،امتِ مسلمہ کے مسائل کی ایک طویل فہرست بیان کرتے ہیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کاوشیں کرتے ہیں۔ جو مسائل بیان کیے جاتے ہیں ان میں فقر و فاقہ، غربت، جہالت، پسماندگی، بیماریاں، برائیوں کا پھیلاؤ، دینی مقدسات کی تباہی، نیکیوں کا فقدان، عبادات میں کمزوری،ظلم و ستم وغیرہ شامل ہیں۔ یہ سب مشکلات اہم بھی ہیں اور ان کا حل ضروری بھی ہے۔ لیکن ان سب مسائل کی اصل وجہ اور امت کا سب سے بڑا مسئلہ اس کے علاوہ کچھ اور ہے۔لیکن اس مسئلہ کی اہمیت واضح کرنے سے پہلے ایک مثال۔ایک شخص بہت غریب وفقیر ہے،حالانکہ اس کو اللہ نے بہت مال و دولت دی ہے۔ مگر مال کے تمام خزانوں پر ایک فرد مثال کے طور پر ’Xایکس ‘ کا قبضہ ہے اور یہ ایکس کبھی نہیں چاہتا کہ اس کا فقر دور ہو،تو جب تک اس Xایکس سے جان نہ چھڑائی جائے، کیا اس کا فقر دور ہوسکتاہے؟ ایک اور مثال سے معاشرے کے بگاڑ کےحقیقی سبب پر روشنی پڑے گی۔ اگر ایک فرد صاف اور شفاف پانی کے پائپ سے پانی پینا چاہتا ہےمگر اس صاف پانی میں یہ ایکس صاحب غلاظت اور گندگی سے بھری ایک نالی ملائے جارہے ہوں اور اس پانی کو آلودہ کیے جارہے ہوں تو بے شک صاف پانی کی پاکیزیت جتنی بھی زیادہ ہوجب تک اس غلیظ نالی کے آگے بند نہ باندھا جائے اور اِس بدمعاش ایکس کو اس کے کرتوتوں سے باز نہیں رکھا جائے گا، کیا پاکیزہ پانی کبھی مل سکتا ہے؟ چنانچہ جس جس کو صاف پانی پینا ہوگا اس کو لازماً اس ایکس کے ساتھ لڑ کر اسے کنٹرول کرنا پڑے گا۔ اور چونکہ صاف پانی پینا ہر ایک انسان کی فطری ضرورت ہے اس لیے جو بھی ایکس کے خلاف لڑے گا ہر باضمیر غیور انسان اس کا ساتھ دے گا اور جو کوئی ساتھ نہ بھی دے سکا کم از کم دل میں ایکس کے خلاف لڑنے والوں سے محبت ضرور رکھے گا۔ اس لیے کہ صاف پاکیزہ پانی ہر انسان کی ضرورت ہے۔

کیا ہم آزاد ہیں؟

امتِ مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ا س کے وسائل پر کوئی اور قابض ہے، اس کی سیاست کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں، اس کے اثاثے کسی اور کے پاس گروی ہیں، اس کی فوجیں کسی اور کے کہنے پر حرکت کرتی ہیں، اس کے معاشروں میں کسی اور کی تہذیب و ثقافت کو رائج کیا جاتا ہے اور اس سب کے برعکس امت کے اپنے نظریات و افکار اور اس کے اپنے اصول و مبادی کی بنیاد پر کھڑے ہوئے ہر عمل کو اسی ’کسی اور‘ کی قیادت میں بری طرح کچل دیا جاتا ہے۔ اسی کو تو غلام کہتے ہیں! غلام وہ ہوتا ہے جس کو نہ اپنے پیسے پر اختیار ہوتا ہے اور نہ ہی اپنے کسی وسائل پر، نہ وہ اپنی پسند سے کسی سے دوستی کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنےاختیار سے دشمنی۔ جس کا نہ اپنے مال و آل پر اختیار ہو اور نہ ہی ضمیر پر۔ اسے غلام کہتے ہیں آزاد نہیں!

تاریخ کا ادنیٰ سا طالبِ علم بھی جانتا ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے بیشتر علاقے یورپ سے آئے کفار کے باقاعدہ قبضے میں جاچکے تھے۔ برصغیر پر برطانوی راج تھا تو مشرقِ وسطی اور دیگر عرب علاقوں پر برطانیہ،فرانس،اٹلی وغیرہ کا قبضہ تھا۔صلیبیوں اور صہیونیوں نے مل کر جنگِ عظیم اوّل کے بعد 1924ء میں امت کی وحدت کی علامت سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ کردیا تھا۔ اپنے تمام مقبوضہ علاقوں میں ان کفار نے اپنے وفادار غلاموں کی جب ایک بڑی تعداد تیار کر لی تو پھر آہستہ آہستہ بیسویں صدی کے وسط میں ان تمام ممالک کو پے درپے اپنے غلاموں کے حوالے کر دیا۔ اور پھر خود واپس اپنے ملکوں میں جاکر اپنے غلاموں کے ہاتھوں نظام چلانے لگے، اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے اس استعمار کو منظم کرنے اوربہترین طریقے سے چلانے کے لیے اقوامِ متحدہ کے نام سے ایک ادارہ بنا دیا گیا۔اس سارے عمل کو ’آزادی‘ کا حسین نام دیا گیا جو موجودہ زمانے میں اس امت کو دیا گیا سب سے بڑا دھوکہ ہے۔

شیخ اسامہ کا اصل احسان

شیخ اسامہ﷫ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نےا متِ مسلمہ کے اندر اس احساس کو بیدارکیا کہ ان پر کفار کا قبضہ ہے اور ان کے تمام مسائل کا حل، کفار کے قبضہ سے نجات حاصل کرنا ہے۔آپ﷫ نےامت کی راہنمائی کی کہ ان کے حقیقی دشمن، صہیونیوں کے پشت پناہ عالمی صلیبی غنڈے ہیں جن کا عملی سربراہ امریکہ ہے۔ اس طرح شیخ اسامہ نے امریکہ ویہود کو امت کا عدوِ اکبر قرار دیا اور ان سے مقابلہ کرنے کے لیے امت کو اٹھایا۔ اس رائے و تجزیہ تک امت کے دیگر بہت سے مخلصین بھی پہنچ چکے تھے، مگر شیخ اسامہ نے امت کو عمل کی راہ دکھلائی اور جہادِ فی سبیل اللہ کا طریقہ سکھایا۔ آپ نے پوری امت کے غم کا مداوا کیا اور پوری امت کے مشترکہ دشمن کو اپنا دشمن قرار دے کر اس سے دشمنی مول لی۔ شیخ نے مسلمانوں کو دعوت دی کہ وہ اپنے دیگر تمام علاقائی،قومی،مسلکی و سیاسی اختلافات کو بھلا کر اس ایک دشمن کی سرکوبی کے لیے متوجہ ہوجائیں۔ آپ﷫ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سانپ کے سر پر ضرب لگائے بغیر اگر ہم صرف اس کی دم پر ہی وار کرتے رہیں گے تو اس طرح یہ سانپ کبھی کمزور نہ ہوگا بلکہ ہر کچھ عرصے بعد اپنے دم پر وار کرنے والوں کو ڈس کر ختم کر دے گا۔ پھر اس سانپ کے سر امریکیوں پر حملہ کے طریقے و انداز، امت کو سکھلائے اور ان میں اپنی جان اپنی امت کی خاطر فدا کرنے کا جذبہ انڈیلا۔ شیخ ﷫نے امت کو سکھایا کہ امتِ مسلمہ کی آزادی کا طریقہ یہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر تسلسل سے حملے ہوں اور ان پے در پے حملوں سے ان کو یہ باور کروایا جائے کہ ان کے لیے امن صرف اسی حالت میں ہے جب وہ امت کے علاقوں میں مداخلت ختم کر دیں۔ آپ﷫نے امت کے نوجوانوں کو فدائیوں کی شکل میں ایسی قوت اور طاقت دی جس کے مقابلے کی دنیا کی کسی کفری طاقت میں تاب نہ تھی۔ شیخ نے مسلمانوں پر ان کے سب سے خطرناک دشمن، وہ جو دوستی و امن کے دلکش لبادے میں چھپ کر ان پر وار کرتا تھا، کے جرائم، وحشتوں، ظلم و ستم اور امت پر اس کے عملی قبضہ کو واضح کیا۔ اور اس طرح امت کواپنے دشمن کےسامنے میدان میں لاکھڑا کیا، پھر خود پیچھے نہ رہے، بلکہ پوری امت کے اس سب سے بڑے دشمن امریکہ کو اپنا اساسی دشمن بنا کر،اس سے لڑائی مول لی اور اس راہ میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ اس لیے وہ پوری امت کے محسن ہیں۔ آپ نے امت پر اس کے دشمن کو واضح کیا، اس دشمن سے لڑنے کا طریقہ سکھایا، اس کے خلاف جنگ میں اتارا، پھر اس جنگ کی قیادت کی اور اس مبارک جہاد میں اپنا سب کچھ قربان کر ڈالا۔ چنانچہ جس فرد نے امت کی سب سے بڑی مصیبت کے احساس کو ان میں اجاگر کیا،اس کا حل بتایا اور اس حل تک پہنچنے کےطریقے سکھائے اور پھر اس حل کو حاصل کرنے کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر ڈالاآپ خود بتائیے!کیا ایسا شخص اپنے زمانے میں امت کا ایک بڑا محسن نہیں ہے؟

محسن کے احسان کا بدلہ کیسے چکائیں؟

جب ہم پر یہ واضح ہوا کہ شیخ اسامہ﷫ ہمارے ایک بڑے محسن ہیں تو ہم پرلازم ہے کہ اپنے اس محسن سے وفا کی خاطر اور احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنے کے الٰہی فرمان پر عمل کی خاطرہم بھی کچھ کریں۔ گو کہ ایسا کرنا دین کے دوسرے احکامات کی وجہ سے بھی ہمارے اوپر لازم ہے،مگر شیخ ﷫کے ہم پر احسانات کی بدولت ایک باوفا، غیرت مند، باضمیر اور شریف مسلمان کی علامت بھی ہے۔ اللہ نے شیخ اسامہ ﷫کو اس دنیا میں بہت کچھ عطا کیا جو شاید ہی کسی اور کو اس زمانے میں ایک ساتھ عطا کیا ہو۔ مال و دولت، جاہ وحشم، علم و قار، لوگوں کے دلوں پر راج، اعلیٰ اخلاق اور نا جانے کیا کیا۔ پس اگر وہ چاہتے تو ان صفات و انعامات کو استعمال کر کے دنیا وی معاملات میں بڑا نام پیدا کر لیتے، مگر آپ نے اپنا یہ سب کچھ اس امت کو امریکی یہودی غلامی سے نجات دلانے کی راہ میں قربان کر ڈالا۔آئیے ہم سوچتے ہیں کہ وہ کون کون سے طریقے ہوسکتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے اس محسن سے کچھ وفا کر پائیں:

  1. اپنی ایمانی حالت کو ہمیشہ اتنا بلند رکھیں کہ جب بھی اور جہاں بھی وقت آئے اپنا سب کچھ مرکزِ شر و فساد امریکہ کی تباہی کی خاطر فدا کر ڈالیں۔

  2. امریکہ و یہود کے خلاف جہاد میں دامے درنے سخنے شرکت کریں۔ اور اس راہ میں اپنا مال ادا کرنے سے لے کر جان فدا کرنے تک جو بھی بن پائے وہ کرنا۔

  3. شیخ اسامہ ﷫ نے اللہ پر یقین رکھ کر جو قسم کھائی کہ ’’امریکہ اور اس کے شہری اس وقت تک سکون کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے جب تک ہم فلسطین میں امن سے نہ رہ پائیں‘‘، اس قسم کی لاج رکھنے کے لیے منبعِ شر و فساد امریکہ و یہود کے امن و سکون کو خراب کرنے کیے ہر دم کوشاں رہیں۔

  4. اس مبارک عمل کے طریقے سیکھیں، جنگی فنون اخذ کریں، عسکری چالیں سمجھیں اور ہر ممکنہ تربیت و ٹریننگ حاصل کریں تاکہ جب اور جہاں بھی موقع ملے اس شیطانی اتحاد کو ضرب لگانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

  5. امتِ مسلمہ کو بالعموم اور دین کی خاطر اٹھنے والے مجاہدین اور داعیان کو بالخصوص امریکہ و یہود کے خلاف جہاد میں استقامت دکھائیں، ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہوں، ایک دوسرے کی مدد کریں اور باہمی اختلافات کو بھلا کر اپنی صلاحیتوں کا بڑا حصہ امت کے اس مشترکہ دشمن کے خلاف صرف کرنے کی دعوت دی دیں۔

  6. صلیبی صہیونی اتحاد کے کمزور پہلوؤں، ان کے مراکز، اہم شخصیات، گاڑیوں، اڈّوں، گھناؤنے منصوبوں، عسکری چالوں اور جاسوسوں کے بارے میں معلومات مجاہدین تک پہچائیں۔

  7. شیخ اسامہ ﷫ کی سیرت اور تاریخ کو بیان کریں، آپ﷫ کے مشن کی دعوت ہر جگہ عام کریں، شیخ ﷫سے محبت کریں، آپ ﷫کے لیے دعائیں کریں۔ اسی طرح آپ کے نام پر تعلیمی اداروں،بستیوں اورشاہراہوں کے نام رکھیں، یہ بھی ان کاموں میں سے ہیں جن سے شایدہم اپنے محسن سے وفا کا کچھ حق ادا کر پائیں۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

الآن الآن جاء القتال! اب ہی تو قتال کا وقت آیا ہے!

Next Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | قسط اوّل

Related Posts

عمر ِثالث | پہلی قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چوتھی قسط

15 نومبر 2024
طوفان الأقصی

یہ غزہ ہے!یہاں زمین کی نہیں، بقاء کی جنگ لڑی جارہی ہے! | (حصہ سوم)

15 نومبر 2024
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چھٹی قسط

15 نومبر 2024
اخباری کالموں کا جائزہ | اپریل و مئی ۲۰۲۴
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | ستمبر تا نومبر ۲۰۲۴

15 نومبر 2024
ظالم کو مار گرانے والے!
یومِ تفریق

ظالم کو مار گرانے والے!

15 نومبر 2024
سورۃ الانفال | نواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | دسواں درس

15 نومبر 2024
Next Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | قسط اوّل

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version