نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home یومِ تفریق

گیارہ ستمبر کے حملے…… حقائق و واقعات | پہلی قسط

استفادہ: عارف ابو زید

ابو محمد المصری by ابو محمد المصری
28 ستمبر 2023
in یومِ تفریق, ستمبر 2023
0

یہ تحریر شیخ ابو محمد مصری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’عمليات 11 سبتمبر: بين الحقيقة والتشكيك‘‘ سے استفادہ ہے، جو ادارہ السحاب کی طرف سے شائع ہوئی۔ باتیں مصنفِ کتاب کی ہیں، زبان کاتبِ تحریر کی ہے۔ کتاب اس لحاظ سے اہمیت سے خالی نہیں کہ اس میں گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہے، کیونکہ اس کے مصنف خود ان واقعات کے منصوبہ سازوں میں سے ہیں۔ شیخ ابو محمد مصری ﷫شیخ اسامہ بن لادن ﷫کے دیرینہ رفقاء اور تنظیم القاعدہ کے مؤسسین میں سے ہیں اور بعداً تنظیم القاعدہ کے عمومی نائب امیر رہے یہاں تک کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے آپ کو محرم ۱۴۴۲ ھ میں نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ مجلّے میں کتاب کا انتہائی اختصار سے خلاصہ نقل کیا جا رہا ہے، تاہم اسلام اور جہاد سے محبت رکھنے والے قلم کاروں سے کتاب کا کامل اردو ترجمہ اردو داں مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کی دہائی ہے۔(مدیر)


مقدمہ

آج کے دور میں ابلاغ کے اکثر ذرائع دشمنانِ دین کے ہاتھ میں ہیں اور وہ یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ حقائق کو مسخ کردیں اور واقعات کو جھوٹ کی ملمع سازی سے پیش کریں۔ ان کے اس مکروہ کردار کا شکار سب سے زیادہ جہادی تحریکات ہوئی ہیں جن کے بارے میں انھوں نے جھوٹے قصے گھڑے اور انھیں رواج دیا۔ اکثر لکھاری اور تحقیق کار تو وہ ہیں جو خود کبھی جہادی تجربے سے نہیں گزرے اور نہ کبھی ان کے جی میں بھی آیا کہ وہ مجاہدین میں شامل ہوں اور واقعات کی اصل حقیقت جانیں، بلکہ ان کا اکثر کردار یہی رہا کہ انھوں نے دشمنانِ دین کے ابلاغی ذرائع پر نشر ہونے والے جھوٹ کو آگے نقل کرنے پر اکتفا کیا، اس دلیل پر کہ معلومات کا یہ معتمد ترین ذریعہ ہیں۔ یوں جانے یا انجانے میں یہ لوگ دشمنانِ دین کے راستے پر ہی چل پڑے۔ یہ حال دیکھ کر میں نے اپنے اوپر لازم جانا کہ میں معاصر تاریخ میں پیش آنے والے جہادی واقعات کے بارے میں ضرور لکھوں، اگرچہ مختصر ہی کچھ ہو۔

اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں ان بعض عظیم واقعات کا خود حصہ رہا ہوں جنہوں نے موجودہ دور کی سیاسی ساخت بدل کر رکھ دی۔ میں خود ان واقعات کا ایک جزو رہا ہوں، ایک سپاہی کے طور پر یا اس میں شامل افراد میں سے ایک فرد کے طور پر۔ اور الحمد للہ جہادی تحریک ان واقعات پر ختم نہیں ہوگئی، بلکہ ان سے آگے بڑھ کر مشرق ومغرب میں پھیل گئی ہے، اور آج عالمی کفر، جس کا سرغنہ امریکہ ہے، کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

باوجودیکہ اکثر لکھاری بغیر علم اور بغیر تحقیق کے جہادی واقعات پر خامہ فرسائی کر رہے ہوتے ہیں، جن میں اسلام پسند بھی شامل ہوتے ہیں، مجاہدین اس کام کی طرف توجہ نہیں کرتے، بلکہ اپنا اکثر وقت جہادی عمل کی ادائیگی اور اسے آگے بڑھانے میں ہی صرف کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہادی زندگی خود اس کی طالب ہوتی ہے، اور دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ابلاغ کے عام ذرائع پر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ لہٰذا ان کے نزدیک اہم ترین کام جہادی عمل کی ادائیگی ہوتا ہے، نہ کہ تاریخ کی تدوین۔ میں خود بھی انہی میں سے ایک تھا، مگر بہت سے ساتھیوں نے مجھ سے شدید اصرار کیا کہ میں جہاد کی تاریخ پر قلم اٹھاؤں۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ میں کوئی صاحبِ قلم نہیں ہوں اور نہ ہی لغت وادبیات کی باریکیوں سے واقف ہوں۔ جبکہ بعض ساتھی ایسے موجود ہیں جو ادب سے بھی شناسا ہیں اور جنھوں نے میرے ساتھ ہی ان واقعات کو خود دیکھا ہے، لیکن ایک طرف وہ ریا کے خوف سے قلم نہیں اٹھاتے اور دوسری طرف جہادی مصروفیات انھیں فارغ وقت نہیں دے پاتیں۔

میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ جہادی تحریکات پر لازم ہے کہ وہ حقیقی جہادی تاریخ کی تدوین کریں، تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے تجربات کی وراثت محفوظ ہوجائے۔ یہ وہ تجربات ہیں جو خون سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان کی تدوین آئندہ آنے والوں کے لیے قربانیوں کا تسلیل قائم رکھنے میں معاون ثابت ہوگی، اور وہ اس میں جہاد کے جدید تجربات کا اضافہ کریں گے، یہاں تک جہاد اپنے پاؤں پر مضبوط کھڑا ہوجائے گا اور وہ سب سے معزز پیغام جو انسانیت تک پہنچا ہے، اسے زمین پر پھیلادے گا۔ یہ پیغام پیغامِ اسلام ہے جسے خاتم الانبیاء والمرسلین محمد صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں۔

انھی اسباب کے تحت میں نے جہادی واقعات قلمبند کرنے کے لیے ہمت باندھی ہے، اور اس کام میں بعض ساتھیوں کی خصوصی مدد شامل ہے جنھوں نے مجھے خاکے لکھ کر دیے جن کی مدد سے میرے لیے واقعات کا بیان آسان ہوگیا، اور اسی طرح دستاویزات بھی مجھے فراہم کیں۔

آگے بڑھنے سے قبل میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ جہادی واقعات، بالخصوص گیارہ ستمبر کے حملوں کے بارے میں لکھی گئی بیشتر تحریرات میں حقائق کو مسخ کیا گیا ہے۔ میں ایسی بعض تحریرات کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کروں گا، معقول انداز سے اور درست واقعات کے بیان سے جن کا میں خود شاہد ہوں، اور جو واقعات میرے مشاہدے میں براہِ راست نہیں آئے، وہ ان بھائیوں کی زبانی جو خود ان کے عینی شاہد ہیں اور جنہیں میں عشروں سے جانتا ہوں۔

گیارہ ستمبر کے حملے: تمہید

جب سے تنظیم القاعدہ نے سرزمینِ افغانستان پر قدم رکھے، وہ امریکی مفادات پر ایک ایسے حملے کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی جو امریکہ کو طویل جنگ میں دھکیل دے جس میں امریکہ کے مادی وعسکری وسائل تباہ ہوجائیں، اور اس کے نتیجے میں تنظیم القاعدہ کا بنیادی اسٹریٹیجک ہدف حاصل ہوجائے، اور وہ یہ تھا کہ امتِ مسلمہ اپنے صلیبی دشمن کے خلاف بیدار ہوجائے۔

تنظیم القاعدہ ایک جہادی جماعت ضرور ہے، مگر وہ اپنے آپ کو پوری امتِ مسلمہ کی طرف سے نائب نہیں سمجھتی۔ یہ جنگ تو دراصل پوری امت کی جنگ ہے اور پوری امت نے لڑنی ہے، تاکہ اسے اپنا مقامِ عزت وشرف واپس حاصل ہوجائے، اور طویل جنگ کے نتیجے میں صلیبی دشمن اس قدر بے حال ہوجائے کہ وہ مسلم ممالک کی کٹھ پتلی حکومتوں کی پشت پناہی سے باز آجائے اور مسلم عوام خود مقامی غلام حکومتوں کے خلاف اٹھ کر آزادی وعزت حاصل کرلیں اور اپنے رب کی شریعت حاکم کردیں۔ یہی صورت ہے کہ پھر امتِ مسلمہ کے بیٹے اس قابل ہوجائیں گے وہ فلسطین سمیت اپنے مقدسات کا فیصلہ خود کریں گے اور اقوامِ متحدہ، جو درحقیقت امریکہ ہی کی وزارتِ خارجہ ہے، کی قرار دادوں کے محتاج نہ ہوں گے۔ وہ وقت ہوگا کہ مسلمان نئی تاریخ رقم کریں گے، عالمی ومقامی آلۂ کار نظام ٹوٹ جائیں گے اور مسلمان اپنے دین، ثقافت اور اخلاق کے ساتھ دنیا میں باعزت ہوں گے۔

بعض مسلمان سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ناممکن الحصول خواہشات ہیں اور مسلمان جس تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہیں، مجاہدین کے ان کارناموں سے اس میں کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا سبب یا تو ان کی نظر میں مسلمانوں کا مادی ضعف ہے ، یا پھر وہ مغربی ذرائع ابلاغ کے زیرِ اثر فکری طور پر شکست خوردہ ہوچکے ہیں۔ گویا وہ فکری ضعف کے وادی تیہ میں بھٹک رہے ہیں، جس طرح قومِ موسی علیہ السلام سیدنا موسی علیہ السلام کی بشارت کے باوجود ارضِ مقدس کی فتح سے کترائے، یہ کہتے رہے: [إِنَّ فِيهَا قَوْماً جَبَّارِينَ]، حالانکہ فتح کی بشارت کے بدلے مطلوب یہ کہنا تھا کہ [ادْخُلُواْ عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ]، نتیجتاً انھیں وادی تیہ میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا [فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ]۔ یہاں تک کہ ایک ایسی نسل تیار ہوگئی جو فکری ضعف سے محفوظ تھی اور پھر ان کے ہاتھ ارضِ مقدس فتح ہوئی۔

مسلمانوں کے حکمران بھی زبان وحال سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم میں امریکہ اور اس کے حواریوں کے مقابلے کی طاقت نہیں ہے، لیکن مسلمانوں کی اکثریت اس بزدل موقف کی حامل نہیں۔ بلکہ وہ سمجھتی ہے کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، امت طاقت و قوت کے ایسے مادی عوامل رکھتی ہے کہ اگر انھیں درست استعمال کیا جائے تو جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ ان مادی وسائل کے علاوہ مسلمان تو اپنے دین اور عقیدے کی ایسی قوت رکھتے ہیں جو کسی دوسرے کے پاس نہیں۔ ہم صحیح عقیدے کے حامل اور حق والے ہیں، فتح ونصرت کا ہم سے الٰہی وعدہ ہے، ہماری قوت کا راز ہمارے اپنے دین سے چمٹنے میں ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارا دشمن انتہائی کمزور ہے، وہ تو ہمارے بزدل حکمرانوں کی بزدلی اور کمزوری سے قوت پکڑتا ہے۔ پس اس جنگ میں جیت اتنی مشکل نہیں جتنا یہ لوگ سمجھتے ہیں۔

ہاں! ہم یہ نہیں سمجھتے کہ جنگ بہت آسان ہے اور فتح قریب میں ملنے والی ہے۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ امت اگر اپنے دین اور عقیدے سے چمٹ جائے تو فتح اور جیت ممکن ہے۔

پس تنظیم کی قیادت نے اندازہ لگایا کہ جنگ کے لیے کئی دہائیوں پر مشتمل طویل وقت درکار ہے، یہاں تک کہ دشمن تھک جائے اور ساتھ ہی امتِ مسلمہ میں فکری وسیاسی میدان میں بیداری پیدا ہوجائے۔

امریکیوں کے ساتھ براہِ راست ٹکراؤ کی ابتدا

۱۹۹۲ء سے ہی تنظیم نے امریکی مفادات کے خلاف عسکری عمل اور کچھ حصہ سیاسی عمل کا شروع کردیا تھا۔ اسی منصوبے کے تحت تنظیم نے اپنا ایک حصہ صومالیہ منتقل کیا، تاکہ وہاں امریکہ کی قیادت میں جاری عالمی منصوبے کو ناکام بنایا جائے۔ پھر تنظیم کی سوڈان کی طرف مکمل منتقلی سے قبل تنظیم نے اپنے بہت سے عسکری قائدین کو صومالیہ بھیجا تاکہ وہ افریقی براعظم میں عسکری عمل شروع کریں، وہاں افراد کو تربیت کرائیں اور مقامی باشندوں میں جہادی قیادت کی اہلیت منتقل کریں۔ اور سب سے بڑھ کر تنظیم نے اس کی کوشش کی کہ وہاں کے معاشرے میں جہادی فکر کو ترویج دی جاسکے، تاکہ صومالی مسلمان صلیبی دشمن کو ویسا سبق سکھا سکیں جیسا افغان مجاہدین نے اشتراکی روس کو سکھایا۔ اگرچہ تنظیم کو صومالیہ میں بہت سی مشکلات کا سامنا رہا، مگر اللہ کے فضل سے وہ بہت سے عسکری، سیاسی اور فکری اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کی سوچ؛ آغاز اور ارتقا

۱۹۸۰ء کی دہائی میں پاکستان کا شہر پشاور مختلف مشارب اور مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے امتِ مسلمہ کے بیٹوں کے اکٹھ کا مرکز بنا جو روس کے خلاف جہاد میں جمع ہوئے۔ ہر عمر کے، مختلف قسم کے علوم وفنون کے ماہر مسلمان جہاد کی غرض سے یہاں آئے اور انھوں نے ہر نوع کے اسلحے کی تربیت لی اور مختلف قسم کے عسکری فنون سیکھے۔ یوں اللہ کے فضل سے دشمنانِ دین کے خلاف مختلف صلاحیتوں کے حامل افراد جمع ہوگئے۔ اسی مبارک محاذ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کی سوچ پیدا ہوئی جو عمل کی دنیا میں کتنے ہی عوامل کی وجہ سے مؤخر ہوئی جس کا ذکر میں آگے کروں گا ان شاء اللہ۔

گیارہ ستمبر کے حملوں کی سوچ ایک چھوٹے سے خیال (idea)سے پروان چڑھی جو ایک بھائی نے ایک مجلس میں بیان کیا۔ یہ مجالس عام طور پر مجاہدین کی قیادت اور جہاد کے لیے آنے والوں کے درمیان جہادی موضوعات پر گفتگو کے لیے منعقد کی جاتی تھیں۔ یہ مختصر سا آئیڈیا بالآخر ایک ایسے واقعے پر تمام ہوا جس کے متعلق خود امریکیوں نے کہا: ’’ایسا صدمہ تھا جس کی کوئی مثال نہیں‘‘۔

پہلی سوچ

پشاور میں مجاہدین کے استقبالی مہمان خانوں (مضافات) میں ایک مصری پائلٹ (ہوا باز) جہاد کی نیت سے پہنچے۔ وہ اس میدان میں خاصا طویل تجربہ رکھتے تھے، کتنی ہی فضائی کمپنیوں کی ملازمت کرچکے تھے اور کتنے ہی ممالک کے سفر کرچکے تھے جن میں شمالی امریکہ بھی شامل تھا۔ ان کے بقول ان کی سابقہ زندگی دین سے دور لہو ولعب میں گزری تھی اور وہ افسوس کرتے تھے کہ وہ زندگی بھر میں دین اور امت کے لیے کچھ قربان نہ کرسکے۔ مجاہدین کی مجلسوں میں ان سے بھی کتنی ہی بار امت کی مظلومیت اور امریکہ وعالمی طاقتوں کے ظلم وستم کی بات ہوئی۔ اسی طرح کی ایک ملاقات میں جو ان کی تنظیم القاعدہ کے عسکری مسئول اور شیخ اسامہ بن لادن ﷫کے نائب شیخ ابو عبیدہ پنج شیری ﷫سے ہوئی، عالمی کفر اور اس کے خلاف جدوجہد کے متعلق بات چلی نکلی۔ یہ سن کر ان مصری پائلٹ نے اپنے آپ کو امریکی مفادات پر ضرب لگانے کے لیے پیش کر دیا اور یہ تجویز پیش کی کہ وہ کسی مسافر بردار طیارے میں ہزاروں ٹن بارودی مواد بھر کر امریکہ کی کسی مرکزی عمارت سے ٹکرا دیں۔ شیخ ابو عبیدہ پنج شیری﷫ نے یہ تجویز بہت سنجیدگی سے سنی، تاہم یہ تجویز اس وقت عمل کا جامہ نہ پہن سکی، کیونکہ اس وقت تنظیم کی ترجیحات افغان محاذ پر جہاد کو منظم کرنے، معسکرات میں تربیت فراہم کرنے اور افغان مجاہدین کی مدد کرنے میں محصور تھیں اور ابھی تک تنظیم نے دشمن کے خلاف خصوصی کارروائیوں کی پالیسی نہیں اپنائی تھی۔

میں نے یہ روایت شیخ ابو حفص کماندان ﷫اور شیخ ابو خیر مصری ﷫سے سنی ہے جو شیخ ابو عبیدہ پنج شیری ﷫کے قریب ترین لوگوں میں سے تھے اور سالوں مختلف محاذوں پر ایک ساتھ رہے تھے۔

تنظیم کی سوڈان کی طرف منتقلی اور سوچ کا ارتقا

تنظیم کی سوڈان منتقلی اور ایک محفوظ جگہ کی فراہمی کے بعد تنظیم نے سوچنا شروع کیا کہ اب امریکہ کے خلاف خاص کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ یہ سوچ تنظیم کی قیادت کے ذہن میں ہر وقت رہنے لگی، مگر اس وقت سوڈان کی زمین اس قابل نہ تھی کہ وہ اس قسم کی کارروائیوں کے ردِ عمل کو برداشت کرسکے۔ اتنا ہوا کہ جب شیخ اسامہ بن لادن ﷫نے شخصی طیارہ خریدنے کا ارادہ کیا تو بعض قریبی ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ اپنے معتمد ہوا بازوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ پھر اس سوچ نے مزید ترقی کی تو سوچا گیا کہ تنظیم کے پاس کئی ہوا باز ہونے چاہییں، شاید کہ وہ پہلی سوچ کو عملی کرنے میں بھی کام آجائیں۔ اس سوچ کے تحت دو بھائیوں کا انتخاب کیا گیا کہ وہ ہوابازی کی تعلیم حاصل کریں۔ یہ دو بھائی حسین خرستو المغربی1 اور ایھاب علی2 تھے جن میں سے اول نے نیروبی (کینیا) کے ہوابازی کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا اور دوسرے نے امریکہ کے تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے ذہن میں کسی عملی کارروائی کا خیال تک نہ تھا، بلکہ وہ تو صرف شیخ اسامہ ﷫کے طیارے کے لیے تربیت کی نیت سے گئے تھے۔

اس کے بعد پہلی سوچ میں مزید وسعت اس وقت آئی جب ہمارے پاس ایک بھائی آئے اور انھوں نے امریکی مفادات کے خلاف کارروائیوں کے لیے ہم سے مدد مانگی۔ یہ بھائی مختار بلوچ یعنی خالد شیخ محمد تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ کئی امریکی طیارے ہائی جیک کیے جائیں اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے جن میں سرِ فہرست شیخ عمر عبد الرحمن ﷫تھے، اور مطالبات نہ ماننے کی صورت میں ان طیاروں کو امریکی فضا میں ہی تباہ کردیا جائے۔ تاہم اس وقت تنظیم نے سوچا کہ سوڈان کی زمین مقامی اور عالمی ردِّ عمل برداشت نہیں کرسکتی، لہٰذا اس وقت یہ منصوبہ عملی نہ ہوسکا۔ اتنا ضرور ہوا کہ اس وقت تنظیم نے مخصوص کارروائیوں کے لیے عملی اقدامات شروع کردیے، اور کینیا میں کئی امریکی ویہودی مفادات کا ترصد کیا۔ ان ترصد کرنے والوں میں ہمارے بھائی انس سبیعی اللیبی بھی تھے جو امریکی قید خانوں میں تعذیب کے نتیجے میں شہید کر دیے گئے۔ یہ تمام منصوبے اس وقت عملی جامہ نہ پہن سکے اور مناسب حالات کے انتظار میں رہے۔

یہاں میں ایک واقعے کی وضاحت ذکر کرتا چلوں کہ۱۹۹۹ء میں مصری ہوا باز جمیل البطوطی کا طیارہ امریکی ساحل پر گر کر تباہ ہوگیا تھا جس میں موجود تمام مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ طیارہ فنی خرابی کی وجہ سے تباہ ہوا تھا اور اس میں ہوا باز کا کوئی کردار نہیں تھا۔ مگر امریکہ نے پہلی رپورٹ میں اسے دہشت گرد حملہ قرار دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ جمیل البطوطی نے جہاز میں سوار ہوتے ہوئے ’توکلت علی اللہ‘ پڑھا اور جہاز کے سقوط کے وقت تشہد (یعنی أشھد أن لا إلہ إلا اللہ وأشھد أن محمدا رسول اللہ) کہا۔ حالانکہ یہ تو مسلمان کی شان ہے کہ وہ سوار ہوتے ہوئے اللہ کو یاد کرتا ہے اور موت کے وقت تشہد ادا کرتا ہے، یہ کوئی تنظیم القاعدہ کے ساتھ تو خاص نہیں، جیسا کہ امریکیوں کا گمان ہے۔ پھر یہ بات بھی واضح کردوں کہ جمیل البطوطی کے طیارے کے سقوط نے شیخ اسامہ ﷫کے دل میں گیارہ ستمبر کے حملے کی سوچ الہام نہیں کی تھی، جیسا کہ بعض بھائیوں نے گمان کیا، بلکہ حملے کی تیاری اور حملہ آوروں کی تربیت اس طیارے کے سقوط سے پہلے سے ہو رہی تھی۔ ساتھیوں کے اس گمان کا سبب یہ ہوا کہ شیخ اسامہ﷫نے اس واقعے کے وقت یہ تبصرہ کیا تھا:

’’اگر بطوطی کا ارادہ طیارے کو از خود تباہ کرنے اور امریکیوں کے نقصان کا تھا تو کیوں نہ اس نے طیارے کو امریکہ کی مرکزی عمارتوں سے ٹکرا دیا۔ ‘‘

میں نے واضح کردیا کہ ایسا نہیں، بلکہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی تیاری کے کئی مراحل اس وقت تک پورے ہوچکے تھے۔

القاعدہ کی افغانستان میں منتقلی

تنظیم کی افغانستان منتقلی کے بعد تورا بورا کی پہاڑیوں پر کئی مشاورتی مجالس ہوئیں جن میں امریکی اہداف کے حوالے سے مشورہ کیا جاتا تھا کہ کون کون سے اہداف اہم ہیں۔ تاہم یہ امکانیات کی فراہمی تک محض مشاورت ہی تھی۔ تنظیم کے افغانستان کی طرف منتقل ہونے کے بعد خالد شیخ محمد (مختار بلوچ) کے جذبات تازہ ہوگئے اور انھوں نے پھر سے شیخ اسامہ ﷫کے پاس آنا شروع کردیا اور شیخ اسامہ ﷫پر اپنے منصوبے کے لیے زور دینے لگے۔ ان کا منصوبہ وہی تھا کہ امریکی طیاروں کو اغواء کرکے قیدیوں کی رہائی کے مطالبات رکھے جائیں اور نہ ماننے پر ان طیاروں کو فضا میں تباہ کردیا جائے۔ حقیقت میں فضا میں ہی امریکہ کی طرف سے مطالبات کے مان لینے کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے، اور یوں یہ کارروائی ابتداء سے ہی گویا استشہادی کارروائی تھی۔ خالد شیخ محمد اس سوچ کے بہت حامی تھے، پھر بالخصوص انھیں تو پہلے بھی کامیاب تجربہ تھا جب انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے فلپائن میں امریکی جہازوں میں مایع دھماکہ خیز مواد داخل کردیا تھا جو ’’منیلا کی کارروائی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ خالد شیخ محمد دوبارہ سے کارروائی کا امکان دیکھ رہے تھے۔ تنظیم کی قیادت نے ان کی اس سوچ کو رد نہیں کیا، مگر ان کی رائے تھی کہ اس سوچ میں تبدیلی لائی جائے اور ان جہازوں کا ایسا اسلحہ بنادیا جائے کہ جس سے امریکہ کی مرکزی عمارتوں پر حملہ کردیا جائے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 یہ اصلاً مراکش کے تھے جو جہاد افغان میں شرکت کے لیے اٹلی سے آئے تھے جہاں وہ شیخ انور شعبان کی دعوت سے متاثر ہوئے تھے۔ یہ تنظیم سے وابستہ رہے، یہاں تک امریکی اداروں نے نوے کی دہائی کے آخر میں انھیں اپنے ساتھ ملا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دیں، آمین۔

2 یہ اصلا مصری تھے مگر ان کے پاس امریکی شہریت تھی۔ انھیں امریکہ نے گرفتار کرلیا تھا اور کئی سال کی سزا سنادی تھی، مگر جب ثابت ہوا کہ عرصے سے ان کا مجاہدین سے کوئی تعلق نہیں تو چھوڑ دیا گیا۔ یہ واپس امریکہ چلے گئے اور پھر ان سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

Previous Post

نائن الیون نے میرے کافر دل کی دنیا بدل ڈالی

Next Post

ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

Related Posts

ظالم کو مار گرانے والے!
یومِ تفریق

ظالم کو مار گرانے والے!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

جہاد کے لیے نکلو!

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

یومِ تفریق سے طوفانُ الاقصیٰ تک

15 نومبر 2024
یومِ تفریق
یومِ تفریق

یومِ تفریق

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

شیخ اسامہ بن لادن کیوں ’محسنِ امت ‘ہیں؟

15 نومبر 2024
یومِ تفریق

ہم گیارہ ستمبر کی یاد کیوں ’مناتے‘ ہیں؟

15 نومبر 2024
Next Post
ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version