زیر نظر تحریر گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے حملوں کے بعد اکتوبر ۲۰۰۱ء میں شیخ اسامہ بن لادن کے الجزیرہ ٹی وی کے نمائندے تیسیر علونی کودیے گئے انٹرویو کا اردو ترجمہ ہے۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے انٹرویو کا اردو ترجمہ آج ٹھیک تئیس سال سال بعد ایک ایسے وقت میں مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند ‘ میں شائع کیا جا رہا ہے ، جب غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے، صلیبی صہیونی دشمن ارضِ قدس پر قابض ہے۔ شیخ اسامہ نے اس انٹرویو میں جو پکار لگائی ہے اور جو نفیرِ عام اہلِ اسلام کو دی ہے اس کی اہمیت آج کے حالات میں کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ شیخ اسامہ کی یہ پر سوز باتیں دل کی آنکھوں سے پڑھیے اور میدانِ عمل میں کل نہیں آج، کچھ دیر بعد نہیں ابھی اتریے۔ (ادارہ)
تیسیر علونی: ایک سوال جو پوری دنیا کے بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں ہے، اور امریکہ کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس نیو یارک اور واشنگٹن میں ہونے والے واقعات میں آپ کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، اس پرآپ کا کیا جواب ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: الحمد لله رب العالمين والصلاة السلام على محمد وعلى آله وصحبه أجمعين
جہاں تک بات ان کاروائیوں کو دہشت گردی کے طور پر بیان کرنے کی ہے تو یہ ایک باطل بیانیہ ہے، کیونکہ یہ نوجوان جنہیں اللہ تعالیٰ نے فتح نصیب کی، انہوں نے جنگ کو امریکہ کے قلب میں پہنچا دیا اور اس کی نمایاں علامتیں، اس کی اقتصادی علامتیں اور عسکری علامتیں تباہ کیں۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا اور وہی سب کرنے والا ہے۔ جیسا کہ ہم نے سمجھا ہے جس پر ہم پہلے سے قائم ہیں کہ یہ ذاتی دفاع میں، فلسطین میں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کے دفاع میں اور اپنے مقدسات کی آزادی کے لیے ہے۔ تو اگر ان چیزوں کی تحریض دلانا دہشت گردی ہے، اور اگر اُن لوگوں کو قتل کرنا جو ہمارے بچوں کو قتل کرتے ہیں دہشت گردی ہے، تو تاریخ گواہ رہے کہ ہم دہشت گرد ہیں۔1
تیسیر علونی: اچھا شیخ، جو لوگ آپ کے بیانات اور تقاریر سنتے ہیں وہ آپ کی دھمکیوں کو امریکہ میں ہونے والے واقعات سے جوڑ سکتے ہیں۔ جیسا کہ اپنے ایک حالیہ بیان میں آپ نے کہا:
’’میں قسم کھاتا ہوں کہ امریکہ اس وقت تک امن سے نہیں رہ سکتا جب تک ہم حقیقی طور پر فلسطین میں امن نہ دیکھ لیں۔‘‘
حالات پر نظر رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے آسان ہے کہ وہ نیویارک اور واشنگٹن میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں اور آپ کی اس بات کے درمیان ربط قائم کر لے، اس بار ے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: ربط قائم کرنا آسان ہے۔
ہم نے اس کے لیے برسوں سے تحریض دلائی ہے اور اس کے لیے ہم نے بیانات اور فتوے جاری کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی ملاقاتوں میں بھی تحریض دلائی گئی اور اسے میڈیا پر نشر بھی کیا گیا۔ تو اگر ان کی یا آپ کی بات کا مقصد یہ ہے کہ یہ اس تحریض کے نتیجے میں ہوا ہے تو یہ بات ٹھیک ہے۔ ہم تحریض دلاتے ہیں اور آج تحریض دلانا بہت ضروری ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام انسانوں میں بہترین انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تحریض و ترغیب دلانے کا حکم دیا، فرمایا:
فَقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ لَا تُكَلَّفُ اِلَّا نَفْسَكَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ عَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّكُفَّ بَاْسَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۭ وَاللّٰهُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّاَشَدُّ تَنْكِيْلًا (النساء: 84)
’’ لہٰذا ( اے پیغمبر) تم اللہ کے راستے میں جنگ کرو، تم پر اپنے سوا کسی اور کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ہاں مومنوں کو ترغیب دیتے رہو، کچھ بعید نہیں کہ اللہ کافروں کی جنگ کا زور توڑ دے۔ اور اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست ہے اور اس کی سزا بڑی سخت ہے۔ ‘‘
یہ سچ ہے کہ ہم نے امریکیوں اور یہودیوں کے خلاف جنگ پر تحریض دلائی ہے۔ یہ حقیقت ہے۔
تیسیر علونی: القاعدہ کو اب ایک ایسے ملک کا سامنا ہے جو عسکری، سیاسی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دنیا کی قیادت کرتا ہے۔ یقیناً تنظیم القاعدہ کے پاس وہ معاشی ذرائع نہیں ہیں جو امریکہ کے پاس ہیں۔ القاعدہ امریکہ کو عسکری طور پر کیسے شکست دے سکتی ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: الحمد للہ، میں سمجھتا ہوں کہ یہ جنگ القاعدہ اور عالمی صلیبیوں کے درمیان نہیں ہے، یہ اسلام، اہل اسلام اور عالمی صلیبیوں کے درمیان جنگ ہے۔اور یہی تنظیم، اللہ کے فضل سے ہمارے افغان بھائیوں کے ساتھ تھی، تو لوگ آج ہی کی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کہتے تھے، کہ تم سوویت یونین کو کس طرح شکست دے سکتے ہو؟سوویت یونین نے اس وقت پوری دنیا کو خوفزدہ کر رکھا تھا۔ نیٹو سوویت یونین کے خوف سے کانپتا تھا۔ اب وہ طاقت کہاں ہےجو ہم سے اور ہمارے مجاہد بھائیوں سے ٹکرائی؟ ہمیں وہ بمشکل یاد ہے۔ وہ (سوویت یونین) بہت سی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گئی اور روس باقی بچ گیا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ جس نے ہمیں اپنی مدد و نصرت فراہم کی اور ہمیں ثابت قدم رکھا یہاں تک کہ سوویت یونین کو شکست ہوئی، وہی اللہ اسی سرزمین پر اور انہی لوگوں کے ساتھ امریکہ کو شکست دینے کے لیے ہمیں ایک بار پھر اپنی تائید و نصرت فراہم کرنے پر قادر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کی مدد کے ساتھ امریکہ کو شکست دینا ممکن ہے، اور اگر اللہ نے چاہا تو یہ ہمارے لیے ماضی میں سوویت یونین کی شکست سے بھی زیادہ آسان ہے۔
تیسیر علونی: آپ اس بات کی وضاحت کریں گے؟ یہ کیوں آسان ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: مثال کے طور پر، ہم نے اپنے بھائیوں کے ذریعے امریکیوں کو آزمایا جو صومالیہ میں ان کے خلاف جنگ میں شریک ہوئے۔ ہم نے دیکھا کہ ان کے پاس کوئی قابلِ ذکر طاقت نہیں ہے۔ امریکہ کا ایک ظاہری رعب اور چمک دمک ہے، ریاست ہائے متحدہ، جو لوگوں کو جنگ سے پہلے ہی خوفزدہ کر دیتی تھی۔ یہاں افغانستان میں موجود ہمارے بھائیوں نے صومالیہ کے کچھ مجاہدین کے ساتھ مل کر انہیں آزمایا اور االلہ تعالیٰ نے انہیں فتح یاب کیا۔ امریکہ کسی بھی چیز کی پرواکیے بغیر ، ناکامی، شکست اور بربادی کے ساتھ دم دبا کر بھاگ نکلا۔
امریکہ کسی کی توقع سے بھی زیادہ تیزی سے بھاگا۔ وہ نیو ورلڈ آرڈر کے بارے میں میڈیا پر ہونے والی زبردست دھوم دھام کو بھی بھول گیا، اور یہ بھی کہ وہ اس نظام کا مالک ہے، اور یہ بھی کہ اس کے جو جی میں آئے کرتا ہے۔ اس نے وہ تمام تجاویز بھی بھلا دیں، اپنی فوج کو جمع کیا، اور شکست کھا کر نکل گیا، الحمد للہ۔ ہم نے ۱۹۷۹ء سے ۱۹۸۹ء تک ۱۰ سال اللہ کے فضل سے روسیوں کے خلاف جنگ کا تجربہ کیا ۔ پھر ہم نے افغانستان میں کمیونسٹوں کے خلاف جنگ جاری رکھی۔ آج، ہم اپنے دوسرے دور کے اختتام پر ہیں۔ ان دو جنگوں کے درمیان کوئی موازنہ نہیں، نہ ہی اِس گروہ اور اُس گروہ کے درمیان۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنی تائید و نصرت سے نوازے اور امریکہ کی ناک کاٹ دے، بے شک اللہ اس پر قادر ہے۔
تیسیر علونی: آپ نے کہا کہ آپ اِس سرزمین (افغانستان) پر امریکہ کو شکست دینا چاہتے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ افغانستان کی سرزمین پر القاعدہ کی موجودگی کی افغان عوام کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: یہ ایک جزوی نقطۂ نظر ہے۔ جب ہم ۱۳۹۹ھ (بمطابق ۱۹۷۹ء) میں روسیوں کے خلاف مجاہدین کی مدد کے لیے افغانستان آئے تو سعودی حکومت نے مجھے باضابطہ طور پر کہا کہ میں افغانستان میں داخل نہ ہوں کیونکہ میرا خاندان سعودی قیادت سے بہت قریب ہے۔ انہوں نے مجھے پشاور میں مہاجرین کے ساتھ رہنے کا حکم دیا کیونکہ روسیوں کے ہاتھوں میری گرفتاری ہماری سوویت یونین کے خلاف مجاہدین کی مدد کا ثبوت ہوگا۔ اس وقت پوری دنیا سوویت یونین سے خوفزدہ تھی۔ میں نے ان کا حکم نہیں مانا۔ ان کا خیال تھا کہ میرا افغانستان میں داخلہ ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ میں نے ان کی بات نہیں سنی ۔
جب ہم پہلی بار افغانوں کے پاس آئے، اور ہم نے جو کچھ برداشت کیا وہ اسلامی روح کے احیاء، بچوں کی حفاظت، یہاں مسلمانوں کی مدد اور دین کی نصرت کی خاطر تھا۔ یہ ہر مسلمان کا فرض ہے، بالعموم، صرف افغانوں کا نہیں، اگر میں یا میرے بھائی جو جہاد کے لیے آئے ہیں، فلسطین میں ہمارے بھائیوں کی نصرت کے لیے یہ ذمہ داری نبھاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اکیلا اسامہ ہی اس کا بوجھ اٹھائے، یہ اللہ کی راہ میں سب پر، پوری امت پر فرض ہے کہ وہ اس بوجھ کو برداشت کریں۔ آج جہاد ہم پر، افغانوں پر اور دیگر سب پر فرض ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ تکالیف جھیل رہے ہیں، لیکن یہ ایک شرعی فریضہ ہے اور یہ ان کے لیے اور دیگر سب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کی خاطر مصائب برداشت کریں۔ جہاں تک افغانستان پر بمباری کا تعلق ہے تو یہ کوئی ذاتی انتقام نہیں ہے۔ امریکہ نے میرا پیسہ نہیں لیا اور نہ ہی مجھے کوئی نقصان پہنچایا۔ یہ بمباری ہمارے یہودیوں اور امریکیوں کے خلاف امت مسلمہ کے دفاع کی خاطر تحریض دلانے کی وجہ سے ہے۔
امریکہ کسی بھی اسلامی حکومت کے قیام کے خلاف ہے۔ اور امیر المومنین نے متعدد بار اس بات کا اظہار کیا ہے اور طالبان کے بہت سے بڑی سطح کے رہنماؤں نے بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ انہیں ان کے دین کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے نہ کہ صرف اس لیے کہ یہاں اسامہ بن لادن موجود تھا۔ اسامہ بن لادن کے آنے سے پہلے انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا، مجھ سے پہلے روسی یہاں آئے اور اب امریکی۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں اسی طرح شکست دے جس طرح اس نے ان سے پہلے ان کے اتحادیوں کو شکست دی تھی۔
تیسیر علونی: نیویارک اور واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اس پر واپس آتے ہیں۔ امریکہ پر حملوں کے بارے میں آپ کا کیا اندازہ ہے؟ ان کا امریکہ اور مسلم دنیا پر کیا اثر ہوگا؟
شیخ اسامہ بن لادن: نیویارک اور واشنگٹن میں منگل، گیارہ ستمبر کے واقعات ہر سطح پر زبردست ہیں۔ ان کے اثرات اب تک ختم نہیں ہوئے بلکہ ابھی بھی جاری ہیں۔ اورچونکہ جڑواں ٹاورز کا منہدم ہونا ایک بہت بڑا واقعہ تھا، اس کے بعد ہونے والے واقعات، اور اس کے اقتصادی اثرات پر بات کرتے ہیں جو ابھی بھی جاری ہیں۔
ان کے اپنے اعترافات کے مطابق وال سٹریٹ کی منڈی میں خسارے کی شرح ۱۶ فیصد تک پہنچ گئی اور ان کے مطابق یہ ایک ریکارڈ شرح ہے جوپہلے کبھی نہیں ہوئی۔ ۲۳۰ سال سے جب سے اس منڈی کا آغاز ہوا اتنا زبردست کریش کبھی نہیں ہوا۔ اس منڈی میں چار ٹرلین (چالیس کھرب) ڈالر سرمایہ گردش میں ہوتا ہے۔ پس اگر ہم ۱۶ فیصد کو چار ٹرلین (چالیس کھرب) ڈالر سے تقسیم کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان کے شیئرز کا نقصان اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۶۴۰ بلین (چھ کھرب چالیس ارب) ڈالر ہے۔ یہ رقم سوڈان کا ۶۴۰ سال کا بجٹ بنتی ہے۔ یہ سارا خسارہ اللہ کے فضل سے ایک ضرب کے نتیجے میں ہوا جو اللہ کی توفیق سے ایک گھنٹے میں مکمل ہو گئی۔
امریکی قومی آمدن روزانہ ۲۰ بلین (بیس ارب) ڈالر ہے اور اس حملے کے بعد وہ پہلے ہفتے میں کچھ بھی نہیں کر سکے کیونکہ وہ نفسیاتی صدمے کا شکار تھے، اور آج بھی بہت سے لوگ اس صدمے کی وجہ سے کام پر نہیں جا رہے۔ تو اگر آپ ۲۰ بلین ڈالر کو ایک ہفتے میں ضرب دیں تو یہ ۱۴۰ بلین (ایک کھرب چالیس ارب) ڈالر بنتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ اگر آپ اسے ۶۴۰ بلین (چھ کھرب چالیس ارب) ڈالر خسارے میں شامل کر لیں تو خسارہ کہاں تک پہنچا؟ تو یہ ۸۰۰ بلین (آٹھ کھرب) ڈالر تک پہنچ گیا۔
عمارتوں اور تعمیرات کا نقصان…… ہمارے نزدیک یہ ۳۰ بلین (تیس ارب) ڈالر سے زیادہ ہے۔ پھر آج تک یا آج سے دو دن قبل تک، ائیر لائن کمپنیوں نے اپنے ایک لاکھ ستر ہزار (۱۷۰،۰۰۰) ملازمین فارغ کر دیے، انہیں نوکری سے نکال دیا۔ چاہے یہ مسافر بردار ائیر لائن کمپنیاں ہوں یا طیارے بنانے والی کمپنیاں۔
امریکی تجزیاتی رپورٹس اور تحقیقات میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جڑواں ٹاورز اور پنٹا گون پر حملے کے بعد سے ۷۰ فیصد امریکی عوام آج تک ڈپریشن اور ذہنی اضطراب کا شکار ہے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشہورہوٹل کمپنی انٹر کانٹی نینٹل نے اپنے بیس ہزار ملازمین کو نوکری سے نکال دیا ہے۔ ان حملوں کےمعاشی اثرات کا درست تخمینہ ان اموال کی ضخامت، کثرت اور اثرات کی وجہ سے کوئی بھی نہیں لگا سکتا، اور اس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے، اور آپ دیکھیں گےیہ رقم اللہ تعالیٰ کے فضل سے کم از کم ایک ٹریلین (دس کھرب) ڈالر سے زیادہ تک پہنچے گی۔
ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ ان کامیاب اور بابرکت حملوں میں حصہ لینے والے بھائیوں کو شہداء میں قبول فرمائے اور انہیں جنت الفردوس الاعلیٰ عطا فرمائے۔ لیکن میری نظر میں وہاں کچھ اور بہت سنگین نتائج رونما ہوئے، جو ان ٹاورز کے گرنے سے زیادہ عظیم، بڑے اور خطرناک ہیں۔ امریکہ کی قیادت میں اس مغربی تہذیب کی اقدار منہدم ہو چکی ہیں۔ وہ عظیم معنوی ٹاورز جو آزادی، انسانی حقوق، اور انسانیت کی بات کرتے تھے، ریت کی طرح ہوا میں بکھر گئے ہیں۔
یہ بات تب واضح ہوئی جب امریکی حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے میڈیا ایجنسیوں کو ہمارے بیانات نشر کرنے سے روک دیا جن کا دورانیہ چند منٹوں سے زیادہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ انہیں احساس ہو گیا کہ سچائی امریکی عوام تک پہنچنا شروع ہو گئی ہے کہ ہم در حقیقت ان کے مطلوبہ معنی میں دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ چونکہ ہم پر فلسطین، عراق، لبنان، سوڈان، صومالیہ، کشمیر، فلپائن اور ہر جگہ حملے ہو رہے ہیں، اس لیے یہ امریکی حکومت کی جارحیت کے خلاف مسلم امت کے نوجوانوں کا ردّعمل ہے۔ لہٰذا انہوں نے یہ اعلان نشر کیا اور اس حکم پر عمل درآمد کیا اور اپنے وہ تمام دعوے بھول گئے جو وہ آزادیٔ اظہارِ رائے یا تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے حوالے سے کیا کرتے تھے۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ امریکہ میں حریت، آزادی اور انسانی حقوق ہمیشہ کے لیے قربان ہونے جا رہے ہیں الّا یہ کہ امریکی عوام جلد حقیقت کا ادراک کر لے۔ حکومت امریکی عوام کو بالخصوص اور مغرب کو بالعموم ایک گھٹن والی زندگی اور ایک ناقابل برداشت جہنم میں دھکیل رہی ہے، کیونکہ مغربی قیادت صہیونی لابی کے زیر اثر ہے اور اسرائیل کی خدمت کے لیےکام کرتی ہے، اور اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ہمارے بچوں کو ناحق قتل کرتی ہے۔
تیسیر علونی: اس کارروائی کے اثرات کے حوالے سے عالمِ اسلام میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ عالم اسلام میں لوگوں کی کثیر تعداد میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، اور آپ نے سرکاری بیانات اور ان لوگوں کے بیانات سنے ہوں گے جو بیان دینے کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ مستقل یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ بے گناہ شہریوں پر دہشت گردانہ حملے ہیں، ہم انہیں قبول نہیں کرتے، یہ دینِ اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں وغیرہ۔ آپ جو دنیا کے مختلف خطوں میں ایک نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور اس کے ذریعے عالمِ اسلام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس پر جو آپ نظر رکھتے ہیں اور اس کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے مطابق جو کچھ ہوا اس پر آپ کا تجزیہ کیا ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: میرے خیال میں ان واقعات نے ثابت کر دیا کہ امریکہ دنیا میں کس حد تک دہشت گردی کر رہا ہے۔ بش نے کہا کہ لوگ صرف دو طرح کے ہو سکتے ہیں۔ ایک بش اور اس کے حامی، اور کوئی بھی ملک جو عالمی صلیبی جنگ میں شامل نہیں ہوتا وہ لازمی طور پر دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔ اس سے زیادہ واضح دہشت گردی اور کیا ہوگی؟ بہت سی ریاستیں، جن کے پاس کسی بھی چیز کا اختیار نہیں تھا، اس عالمی متشدد دہشت گردی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گئیں، اور ابتدا میں انہیں اس کا ساتھ دینے پر مجبور ہونا پڑا اور یہ کہنا پڑا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں حالانکہ وہ سب جانتے ہیں کہ ہم اپنے بھائیوں کا اور اپنی مقدسات کا دفاع کر رہے ہیں۔ اس لیے بہت سے رہنماؤں نے، چاہے وہ مغربی ہوں یا مشرقی، اپنے بیانات میں کہا کہ مسائل اور دہشت گردی کی بنیادی جڑوں کو حل کرنا ضروری ہے۔ تو یہ مسائل کیا ہیں؟ انہوں نے کہا ’فلسطین کا مسئلہ‘۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے ایک عدل پر مبنی مسئلے کو اٹھایا ہے۔ لیکن امریکہ کے خوف سے وہ ایسا کہہ نہیں سکتے کہ ہم نے جو مسئلہ اٹھایا ہے وہ عادلانہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دہشت گرد ہیں لیکن فلسطین کا مسئلہ حل کرو۔ اس بنیاد پر، ان حملوں کے اثرات کو دیکھتے ہوئے بش اور بلیئر نے اعلان کیا، ’’فلسطین کے لیے ایک آزاد ریاست کے قیام کا وقت آ گیا ہے‘‘۔ سبحان اللہ! دہائیاں گزر گئیں لیکن وقت نہیں آیا اور اب ان حملوں کے بعد وقت آیا ہے؟ وہ ضربوں اور قتل کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں سمجھتے۔
تو جس طرح وہ ہمیں مار رہے ہیں، ہمیں انہیں مارنا ہوگا تاکہ دہشت کا توازن قائم رہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب جدید دور میں مسلمانوں اور امریکیوں کے درمیان، دو جماعتوں کے درمیان دہشت کا توازن قریب ہوا ہے۔ امریکی سیاستدان ہمارے ساتھ جو چاہتے تھے کرتے تھے۔ اور متاثرین کو چیخنے اور کراہنے کی بھی اجازت نہ تھی۔
قانا کے قتل عام (۱۹۹۶ء)2 کے بعد کلنٹن سامنے آیا اور اسنے کہا کہ ’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘۔ اس نے اسرائیلیوں پر محض تنقید کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ جب نئے صدر بش اور کولن پاول نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلے چند ماہ میں اسرائیل کا دورہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یروشلم ’اسرائیل ‘ کا ابدی دارالحکومت ہوگا، تو کانگرس اور ایوانِ نمائندگان نے ان کی تعریف و تحسین کی۔ تو یہ منافقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی منافقت نہیں اور یہ ایک واضح ظلم ہے۔
تو وہ صرف تب ہی سمجھتے ہیں جب ان کے سروں پر ضرب لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جنگ امریکہ کے اندر منتقل ہو چکی ہے۔ ان شاء اللہ ہم اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے کام کریں گے، فتح تک یا اس سے پہلے کہ ہم اپنے رب سے جا ملیں۔
تیسیر علونی: شیخ، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے زیادہ تر جوابات فلسطین اور مسئلہ فلسطین کے بارے میں ہیں۔ چلیں اسی حوالے سے سوال کرتے ہیں۔ آپ کے حالیہ بیانات اور بالخصوص ایک بیان جو کئی سال قبل نشر ہوا تھا، جس میں یہود اور صلیبیوں کے خلاف جنگ کی دعوت دی گئی تھی، تو ہم یاد دلاتے چلیں کہ اس میں ایک عنوان تھا جس میں حدیث شریف کا ایک جملہ بین القوسین درج تھا کہ ’’مشرکین کو جزیرۃ العرب سے نکال دو‘‘۔ آپ کا پورا زور امریکیوں کو جزیرۃ العرب سے نکالنے پر تھا۔ لیکن حالیہ عرصے میں ہم نے آپ کی ترجیحات میں تبدیلی دیکھی ہے، آپ مسئلہ فلسطین یا جسے آپ ’مسئلۃ الاقصیٰ‘ کہتے ہیں، کو پہلی ترجیح پر لے آئے ہیں اور حرمین کے مسئلے کو دوسری ترجیح میں لے گئے ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو اس پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: بلاشبہ جہاد مسجدِ اقصیٰ کو آزاد کرانے اور فلسطین، عراق، لبنان اور ہر مسلم ملک میں کمزوروں کی مدد کرنے لیے فرض عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جزیرۂ عرب کو کفار سے آزاد کرانا بھی فرض عین ہے۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اسامہ نے مسئلہ فلسطین کو پہلے رکھا۔بندہ فقیر نے ۱۴۰۷ھ میں مسلمانوں سے امریکی مصنوعات کا معاشی بائیکاٹ کرنے کی ترغیب دلائی تھی اور کہا تھا کہ ہمارے پیسے امریکیوں کو جاتے ہیں اور وہ اسے یہودیوں کو دیتے ہیں جو فلسطین میں ہمارے بہن بھائیوں کو قتل کرتے ہیں۔ اور یہ فرض عین ہے، اور جہاد میں فرض عین بہت سے ہیں جیسے کشمیر وغیرہ۔ اس محاذ میں جو چند سال پہلے قائم کیا گیا تھا جس کا عنوان ہی اس کا نام تھا ’’ یہودیوں اور صلیبیوں کے خلاف اسلامی محاذ‘‘ ہم نے ان دونوں معاملات کا ان کی اہمیت کے پیش نظر ذکر کیا کیونکہ بعض اوقات ہمیں ایک مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے دوسرے مقصد سے زیادہ صحیح عوامل میسر آ جاتے ہیں، تو ہم اس سمت میں حرکت کرنے لگتے ہیں لیکن دوسری سمت کی اہمیت کو نظر انداز کیے بغیر۔
تیسیر علونی: آپ کی توجہ فلسطین کے معاملے کی جانب کس چیز نے مبذول کروائی؟
شیخ اسامہ بن لادن: اس مرحلے میں، حالیہ مبارک انتفاضہ، انتفاضہ رجب، نے اس سمت میں پیش رفت میں مدد دی۔ یہ اس معاملے میں مددگار عوامل میں سے ایک تھا اور ہم نے اس جانب پیش رفت کی۔ دراصل ہم ایک واجب سے دوسرے واجب کی جانب بڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک واجب سے ایک ایسے واجب کی طرف منتقلی جس کے حوالے سے زیادہ یقین ہو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں، یہ سب ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں۔ تو مسئلہ فلسطین کے لیے امریکہ پر حملہ حرمین کے مسئلے کے لیے اس پر ضرب لگانے میں مددگار بنتا ہے اور اسی طرح اس کا الٹ بھی۔ ان امریکیوں پر حملہ، جنہیں تبوک کے علاقے میں اور مشرقی صوبے میں یہودیوں کے لیے دفاعی لکیر مانا جاتا ہے، تو ان دونوں معاملات میں کوئی تضاد نہیں۔
تیسیر علونی: شیخ، اب بات کرتے ہیں یہودیوں اور صلیبیوں کی یا جیسے آپ کہتے ہیں صلیبیوں اور یہودیوں کی، آپ نے صلیبیوں اور یہودیوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بعض دوسرے علماء نے بھی فتوے جاری کیے۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو آپ کے خیالات کا اظہار کرتے ہوں، اور کچھ جو ان کی مخالفت کرتے ہوں اور کہتے ہوں کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ کسی یہودی یا صلیبی یا عیسائی کو صرف اس کے مذہب کی وجہ سے کس شرعی دلیل کی بنیاد پر مار سکتے ہیں؟ تو ان فتاویٰ میں اختلاف ہے، یعنی آپ کا فتویٰ دیگر علماء کے فتاویٰ سے مطابقت نہیں رکھتا؟
شیخ اسامہ بن لادن: الحمد للہ، میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان امور کے بارے میں بہت سے فتاویٰ صادر ہو چکے ہیں، اور پاکستان کے مسلمانوں میں علماء کی کثیر تعداد نے فتاویٰ صادر کیے ہیں جن میں ایک نمایاں نام مفتی نظام الدین شامزئی کا ہے۔ عرب ممالک میں، بالخصوص سرزمینِ حرمین میں بہت سے واضح فتاویٰ بار بار دیے گئے ہیں ، جن میں سے ایک اہم فتویٰ حمود بن عبد اللہ بن عقلاء الشعیبی کا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت عطا فرمائے، ان کا شمار اس سرزمینِ حرمین کے کبار علماء میں سے ہوتا ہے۔ انہوں نے امریکیوں کے خلاف اور فلسطین میں اسرائیلیوں کے خلاف لڑنے کی ضرورت پر زور دیا اور ان کے خون اور مال کو حلال قرار دیا۔ اسی طرح شیخ سلیمان العلوان کی جانب سے بھی ایک فتویٰ سامنے آیا اور ایک طالب علم کی طرف سے جدید صلیبی جنگوں کی حقیقت کے بارے میں ایک کتاب شائع کی گئی، جس میں ان لوگوں کے دعووں کو رد کیا گیا جو اس جنگ کو درست نہیں مانتے، اور ان کا بھی جو اس کے شرعی جواز کو تو مانتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس میں مفاسد بھی ہیں۔ جی ہاں! میں نے اسے پڑھا ہے اور یہ ایک اچھا اور کامیاب مجموعہ ہے، اللہ اس میں برکت دے۔
تیسیر علونی: بے گناہ شہریوں کے قتل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: بے گناہ شہریوں کے قتل کا دعویٰ جیسا کہ امریکہ اور کچھ دانشور کرتے ہیں بہت عجیب بات ہے۔ کس نے کہا کہ ہمارے بچے اور شہری بے گناہ نہیں ہیں اور ان کا خون بہانا جائز ہے؟ کیا یہ کم درجے کا کام ہے؟ جب ہم ان کے بے گناہوں کو مارتے ہیں تو مشرق سے مغرب تک پوری دنیا ہم پر چیخ اٹھتی ہے، اور امریکہ اپنے اتحادیوں، ایجنٹوں اور اپنے ایجنٹوں کے بیٹوں کو اکٹھا کرتا ہے۔ کس نے کہا کہ ہمارا خون خون نہیں ہے لیکن ان کا خون خون ہے؟ یہ اعلان کس نے کیا؟ ہمارے ملکوں میں دہائیوں سے کون مارا جا رہا ہے؟ عراق میں دس لاکھ سے زیادہ بچے، دس لاکھ سے زیادہ بچے مر گئے اور دیگر اب بھی مر رہے ہیں۔ ہم کسی کی چیخ و پکار، مذمت، یا کسی کی تسلی یا تعزیت کے الفاظ کیوں نہیں سنتے؟
نبی کریم ﷺ کی ایک صحیح حدیث میں آتا ہے:
دَخَلَتْ امْرَأَةٌ النَّارَ فِي هِرَّةٍ رَبَطَتْهَا فَلَمْ تُطْعِمْهَا وَلَمْ تَدَعْهَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (البخاري)
’’ایک عورت محض ایک بلی کی وجہ سے دوزخ میں ڈال دی گئی جس نے اسے باندھ رکھا تھا، نہ تو اس کو خود کچھ کھلایا اور نہ اسے آزاد ہی کیا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھاکر اپنی جان بچالیتی۔‘‘
یہ تو ایک بلی کی بات ہے، تو پھر ان لاکھوں مسلمانوں کا کیا جو قتل کیے جا رہے ہیں؟
کہاں ہیں اہل دانش؟ کہاں ہیں ادیب؟ کہاں ہیں علماء؟ کہاں ہیں آزاد لوگ؟ کہاں ہیں وہ سب جن کے دلوں میں ذرّہ برابر بھی ایمان موجود ہے؟
یہ کیا ہے کہ جب ہم امریکی شہریوں کو مارتے ہیں تو یہ چلّا اٹھتے ہیں، جبکہ ہم روز قتل ہو رہے ہیں، ہمارے بچے روزانہ فلسطین میں قتل ہو رہے ہیں؟ لوگوں میں ایک بہت بڑا خلل واقع ہو گیا ہے، ہمیں ایک ٹھوس اور واضح مؤقف اختیار کرنے اور اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن انسانی فطرت بلا سوچے سمجھے طاقتور کی جانب جھکنے کی ہوتی ہے۔ اس لیے جب وہ ہمارے بارے میں بات کرتے ہیں تو انہیں پتہ ہوتا ہے کہ ہم ان کا جواب نہیں دیتے اور جب وہ حکومتوں اور امریکیوں کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو انہیں لاشعوری طور پر اس کا احساس ہوتا ہے۔
ماضی میں ایک عرب بادشاہ نے ایک عام عرب آدمی کو قتل کر دیا، تو لوگوں نے سمجھ لیا کہ بادشاہ انسانوں کا قتل کرتے ہیں۔ پھر مقتول کا بھائی بادشاہ کے پیچھے لگ گیا اور اسے قتل کر دیا۔ جب مظلوم کے بھائی نے خون کا بدلہ لے لیا تو لوگوں نے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ تم نے اپنے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے ایک بادشاہ کو قتل کر دیا؟ بادشاہ کا سامنا کس نے کیا؟ یہ بھی ایک جان ہے وہ بھی ایک جان ہے، اور سب جانیں برابر ہوتی ہیں اور سب مسلمانوں کا خون برابر ہے۔ اُس دور میں خون برابر ہی تھا۔ تو اس شخص نے، جو بہت سمجھدار تھا، جواب دیا: میرا بھائی میرا بادشاہ ہے۔ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں میرا بادشاہ ہے۔ اور فلسطین میں ہمارے سب بچے ہمارے بادشاہ ہیں۔ وہ جو ہمارے بچوں کو قتل کرتے ہیں تو اس کے بدلے میں ہم کفار کے بادشاہوں، صلیبیوں کے بادشاہوں اور کفار کے شہریوں کو قتل کرتے ہیں اور یہ شرعاً بھی جائز ہے اور عقلاً بھی۔
تیسیر علونی: تو آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ معاملہ بالمثل ہے۔ وہ ہمارےعام شہریوں کو مارتے ہیں تو ہم ان کےعام شہریوں کو مارتے ہیں۔
شیخ اسامہ بن لادن: تو ہم ان کے عام شہریوں کو مارتے ہیں، اور میں کہتا ہوں کہ یہ شرعی اور عقلی طور پر جائز ہے، کیونکہ جنہوں نے اس معاملے پر بات کی، انہوں نے قانونی نقطۂ نظر سے بات کی۔
تیسیر علونی: ان کی دلیل کیا ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: یہی کہ یہ جائز نہیں ہے۔ انہوں نے دلیل کے طور پر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا ہے۔ اور یہ بات نبی کریم ﷺ کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
تیسیر علونی: یہ بالکل وہی بات ہے جس کے بارے میں میں پوچھ رہا ہوں۔
شیخ اسامہ بن لادن: تاہم، بچوں اور عام شہریوں کے قتل کی یہ ممانعت قطعی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی نصوص موجود ہیں جو اس کو محدود کرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ (سورۃ النحل: ۱۲۶)
’’اور اگر تم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی تھی۔‘‘
اہل علم میں سے صاحب الاختیارات اور ابن القیم، اور شوکانی اور دیگر نے کہا اور ابن کثیر اور قرطبی رحمہم اللہ نے اپنی تفسیر میں ذکر کیا کہ اگر کفار ہماری عورتو ں اور بچوں کو قتل کرنے کا قصد کریں تو ان کو بالمثل جواب دینے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ وہ ہماری عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا دوبارہ ارادہ کرنے سے باز آجائیں۔ یہ شرعی نقطۂ نظر ہے۔ اور جو لوگ بغیر کسی علم شرعی کے بات کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ بچہ نہیں مارا جانا چاہیے تھا، حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان نوجوانوں نے جنہیں اللہ نے فتح سے نوازا، بچوں کے قتل کا ارادہ نہیں کیا تھا۔ وہ دنیا کی سب سے مضبوط فوجی طاقت کو تباہ کرنے، پینٹاگون پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جس میں چونسٹھ ہزار سے زیادہ ملازمین رہتے ہیں، ایک فوجی مرکز جس میں طاقت اور فوجی انٹیلی جنس موجود ہے۔
تیسیر علونی: ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے ٹاوروں کے بارے میں کیا کہیں گے؟
شیخ اسامہ بن لادن: ورلڈ ٹریڈ سنٹر کےیہ ٹاورز جن پر حملہ ہوا اور جہاں لوگ مارے گئے، ایک اقتصادی طاقت تھے نہ کہ بچوں کا کوئی اسکول یا کوئی رہائش گاہ۔ ان ٹاوروں میں جو لوگ موجود تھےوہ زمین پر فساد مچانے والی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے مددگار تھے۔ تو ان لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاطر ایک لمحے کے لیے ٹھہرنا ہو گا اور اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہو گا۔ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اعمال پر نظرِ ثانی کریں۔ پس ہمارا تعامل بالمثل ہے، جو لوگ ہماری عورتوں اور عام شہریوں کا قتل کرتے ہیں تو ہم ان کی عورتوں اور عام شہریوں کو قتل کریں گے جب تک کہ وہ اس سے باز نہ آ جائیں۔
تیسیر علونی: ساری دنیا کے میڈیا اداروں کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس ایجنسیاں یہ بات کرتی ہیں کہ آپ ایک بہت بڑا وسیع پیمانے کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں جو بعض اقوال کے مطابق چالیس یا پچاس ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ اور آپ کے مالی وسائل بہت زیادہ ہیں اور آپ ان وسائل کو بہت سی کارروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اور آپ اسلامی تحریکات کی مدد کرتے ہیں یا ایسی تحریکات کی جنہیں دیگر جگہوں پر دہشت گرد سمجھا جاتا ہے۔ تو آپ سے سوال یہ پوچھنا ہے کہ تنظیم القاعدہ کا وجود اسامہ بن لادن سے کس حد تک وابستہ ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: الحمد للہ، میں جو آپ نے کہا اس کی نسبت سے کہنا چاہتا ہوں اور جو آپ نے پہلے ذکر کیا اسے دوبارہ دہراتا ہوں کہ یہ معاملہ نہ تو بندۂ فقیر سے متعلق ہے اور نہ ہی تنظیم القاعدہ سے۔ ہم امت مسلمہ کے بیٹے ہیں جس کے قائد محمد ﷺ ہیں، ہمارا رب ایک ٰ، ہمارا نبی ایک (علیہ الصلاۃ والسلام)، ہمارا قبلہ ایک اور ہم ایک امت ہیں اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے۔ یہ کریم کتاب اور ہمارے نبی ﷺ کی سنت مطہرہ ہم پر ایمانی اخوت شرعاً لازم کرتی ہے۔ پس تمام مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ (سورۃ الہجرات: ۱۰)
’’حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔‘‘
یہ مسئلہ ویسا نہیں ہے جیسا مغرب اسے پیش کرتا ہے کہ کوئی خاص تنظیم ہے جس کا نام یہ ہے۔ یہ نام بہت پرانا ہے اور محض اتفاق سے ہی سامنے آیا۔ بھائی ابو عبیدہ پنجشیری رحمۃ اللہ علیہ نے نوجوانوں کی عسکری تربیت کے لیے ایک کیمپ قائم کیا تاکہ وہ ظالم، باغی، ملحد حقیقی امن پسندوں کے خلاف دہشت گردی کرنے والے سوویت اتحاد کے خلاف لڑ سکیں۔ تو اس جگہ کو ہم القاعدہ یعنی تربیتی بیس کیمپ کہا کرتے تھے، پھر یہ نام بڑھتا گیا۔ لیکن ہم امت سے علیحدہ کچھ نہیں ہیں، ہم اسی امت کے بیٹے ہیں اور ہم اس کے جزء لا ینفک ہیں۔ یہ مشرق کے سرے میں فلپائن، ملائیشیا اور انڈونیشیا سے ہند و پاکستان اور موریطانیہ تک ہونے والے یہ زبردست مظاہرے اس بات کی گواہی ہیں کہ ہم امت کے ضمیر کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان جنہوں نے نیو یارک اور واشنگٹن میں اپنی جانیں قربان کیں، اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے، یہ درحقیقت امت کے ضمیر کے حقیقی ترجمان ہیں، یہ اس امت کا متحرک ضمیر ہیں جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ظالم کے خلاف، باغی کے خلاف، مجرم کے خلاف اور اس حقیقی دہشت گرد کے خلاف جو پر امن لوگوں کو دہشت زدہ کرتا ہے، انتقام لینا ضروری ہے، اور ہر دہشت گردی مذموم نہیں ہوتی، کوئی دہشت گردی مذموم ہوتی ہے اور کوئی محمود۔ تو اگر ہم ان کی بات مان لیں، تو مجرم چور پولیس والے سے دہشت زدہ ہوتا ہے، تو کیا ہم پولیس والے سے کہیں گے کہ تم دہشت گرد ہو کیونکہ تم نے چور کو دہشت زدہ کر دیا؟ نہیں، مجرموں کے خلاف پولیس کی دہشت گردی محمود دہشت گردی ہے جبکہ مجرم کی پر امن لوگوں پر دہشت گردی مذموم ہے۔ تو امریکہ مذموم دہشت گردی کر رہا ہے وہ بھی اور ’اسرائیل‘ بھی، جبکہ ہم محمود دہشت گردی کر رہے ہیں جو انہیں فلسطین اور دیگر جگہوں پر ہمارے بچوں کو قتل کرنے سے روکتی ہے۔
تیسیر علونی: ٹھیک ہے یا شیخ! عرب دنیا میں آپ کی تنظیم القاعدہ کی کیا حکمتِ عملی ہے؟ یہ بات قابل غور ہے کہ بعض عرب ممالک نے نیو یارک اور واشنگٹن میں ہونے والے واقعات پر جو ردّ عمل ظاہر کیا وہ امریکہ کی طرف سے آپ پر لگائے گئے الزامات کی حمایت میں تھا۔ بعض عرب ممالک نے اپنے ردّعمل میں زیادہ سختی دکھائی، جیسے سعودی وزیر داخلہ کا حالیہ بیان جس میں اس نے براہ راست آپ کے حوالے سے متنبہ کیا اور آپ کے طریقے اپنانے اور آپ کی باتوں کی پیروی کرنے سے منع کیا، کیا آپ کے پاس عرب ممالک کے لیے کوئی خاص حکمت عملی ہے؟ اور سعودی وزیر داخلہ کے حالیہ بیان پر آپ کا کیا ردّ عمل ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: بلاشبہ ہم اس امت کا حصہ ہیں۔ اور ہمارا ہدف اس امت کی نصرت کرنا اور ان سے ظلم، ذلت، نا انصافی اور محکومیت کو دور کرنا ہے اور امریکہ کی جانب سے خطے میں اپنے معاونین پر عائد کردہ طے شدہ احکامات کو ختم کرنا ہے تاکہ اس امت پر اُس رب کی کتاب حاکم ہو جس نے اسے پیدا کیا۔ جو کچھ سعودی وزیر داخلہ نے کہا میں نے اس کا کچھ حصہ سنا اور اس نے براہ راست ہمارا نام لے کر الزام لگایا اور کہا کہ ہم لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں، معاذ اللہ۔ ہم مسلمان کو مسلمان ہی سمجھتے ہیں اور ہم کسی کو کافر قرار نہیں دیتے، سوائے اس کے کہ جو اُن معلوم نواقضِ اسلام میں سے کسی کا ارتکاب کرے، جو ضروریاتِ دین میں سے ہیں، جبکہ اسے معلوم ہو کہ یہ عمل ناقضِ اسلام ہے یا یہ ضروریات دین میں سے معلوم نواقض ہیں۔ لیکن عمومی طور پر ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ امت ایک کلمے پر جمع ہو جائے، اپنے رب کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت کے تحت، اور ہم اس امت کو، پوری امت کو خلافت راشدہ کے قیام کی خاطر متحرک کرنا چاہتے ہیں، جس کی بشارت ہمارے رسول ﷺ نے صحیح حدیث میں دی کہ خلافتِ راشدہ ان شاء اللہ پھر لوٹ آئے گی۔ اور امت سے مطلب یہ ہے کہ وہ اس صلیبی حملے میں اپنی کوششوں کو یکجا کرے، کیونکہ یہ صلیبی حملہ عالم اسلام کے خلاف عالم اسلام کی تاریخ کے آغاز سے لے کر اب تک سب سے سخت، خطرناک اور بے رحم حملہ ہے۔ماضی میں بھی صلیبی جنگیں گزری ہیں لیکن ایسی جنگ کا پہلے کبھی مشاہدہ نہیں ہوا۔ اور بش نے تو اپنے منہ سے اس کا (یعنی صلیبی جنگ) اعلان کیا تھا۔ تو عجیب بات یہ ہے ہمارے بارے میں وہ بات کہی جاتی ہے جو ہم نے نہیں کی اور کچھ لوگ یقین بھی کر لیتے ہیں۔ جس طرح وزیر داخلہ نے کہا اسی طرح کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اللہ کی پناہ اس بات سے۔ جب بش کہتا ہے تو اس کے لیے عذر تلاش کیے جاتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے کہ میرا کہنے کا مقصد صلیبی جنگ نہیں تھا حالانکہ اس نے خود اسے صلیبی جنگ کہا۔ دنیا آج دو حصوں میں منقسم ہے۔ اور بش نے ٹھیک کہا کہ ’’ یا تو تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردی کے ساتھ۔‘‘ یعنی یا تو صلیبیوں کے ساتھ ہو یا اسلام کے ساتھ۔ بش کا معاملہ آج یہ ہے کہ وہ صف میں سب سے آگے ہے اور ایک بڑی صلیب اٹھائے چل رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قسم جو بھی بش کے پیچھے چلا وہ محمد ﷺ کی ملت سے مرتد ہو گیا، اور یہ حکم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی سنت میں سب سے واضح احکام میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیے گئے مشائخ نے فتاویٰ دیے، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مومنین سے فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ (سورۃ المائدۃ: ۵۱)
’’ اے ایمان والو ! یہودیوں اور نصرانیوں کو یارومددگار نہ بناؤ یہ خود ہی ایک دوسرے کے یارومددگار ہیں اور تم میں سے جو شخص ان کی دوستی کا دم بھرے گا تو پھر وہ انہی میں سے ہوگا۔ یقینا اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ‘‘
اہل علم کہتے ہیں: ’’جو کافروں کا حامی (ولی) بنتاہے وہ کافر ہو گیا، اور حمایت (ولایت) کی سب سے بڑی علامت میں سے ایک یہ ہے کہ اپنے قول، ہاتھ اور زبان سے ان کی مدد کی جائے۔ تو جو لوگ بش کے پیچھے چل رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف اس کی اس جنگ میں شامل ہیں تو انہوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کفر کیا۔ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓى اَنْ تُصِيْبَنَا دَاۗىِٕرَةٌ ۭفَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰي مَآ اَ سَرُّوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ (سورۃ المائدۃ: ۵۲)
’’ چنانچہ جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) روگ ہے، تم انھیں دیکھتے ہو کہ وہ لپک لپک کر ان میں گھستے ہیں، کہتے ہیں : ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر کوئی مصیبت کا چکر آپڑے گا لیکن کچھ بعید نہیں کہ اللہ (مسلمانوں کو) فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کردے اور اس وقت یہ لوگ اس بات پر پچھتائیں جو انھوں نے اپنے دلوں میں چھپا رکھی تھی۔ ‘‘
پھر فرمایا:
وَيَقُوْلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَهٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِيْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ ۙاِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۭحَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِيْنَ
’’ اور (اس وقت) ایمان والے ( ایک دوسرے سے) کہیں گے کہ کیا یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے بڑے زور و شور سے اللہ کی قسمیں کھائی تھیں کہ وہ تمہارے ساتھ ہیں۔ ان کے اعمال غارت ہوگئے، اور وہ نامراد ہو کر رہے۔ ‘‘
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفصیل اور دیگر جگہوں پر فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ منافقین کا سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول ایک منافق اور کافر ہے۔ جب مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان اختلاف ہوا، اور رسول اللہ ﷺ نے یہودیوں کو سزا دینے کا ارادہ کیا تو منافقین کا سردار اٹھ کھڑا ہوا اور جا کر یہودیوں کی صف میں کھڑا ہو گیا اور ہمارے نبی ﷺ اور یہودیوں کے درمیان حائل ہو گیا۔ تو یہ آیت اسی کے بار ے میں اور اس جیسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
پس جو لوگ کفار کے ساتھ دوستی کرتے ہیں، انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ کفر کیا اور اس کے بعد کی آیت اس سے آگے کی بات کی وضاحت کرتی ہے، کیونکہ جو بھی کافروں کا ساتھ دے رہا ہے وہ ارتداد کر رہا ہے اس لیے یہ آیت آئی:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِهٖ فَسَوْفَ يَاْتِي اللّٰهُ بِقَوْمٍ يُّحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهٗٓ ۙ اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ ۡ يُجَاهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا يَخَافُوْنَ لَوْمَةَ لَاۗىِٕمٍ ۭ ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭوَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ (سورۃ المائدۃ: ۵۴)
’’ اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرجائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن سے وہ محبت کرتا ہوگا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے جو مومنوں کے لیے نرم اور کافروں کے لیے سخت ہوں گے ۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا، بڑے علم والا ہے۔ ‘‘
پس میں مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی دوستی سے بہت زیادہ بچیں۔ اور جو ایک لفظ کی وجہ سے ہی لغزش کھا گیا ہو، اسےاللہ سے ڈرنا چاہیے، اپنے ایمان کی تجدید کرنی چاہیے اور جو کچھ اس نے کیا ہے اس پر توبہ کرنی چاہیے۔
تیسیر علونی: چاہے ایک لفظ سے ہی کیوں نہ ہو؟
شیخ اسامہ بن لادن: چاہے ایک لفظ ہی کیو ں نہ ہو، جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے وہ مرتد ہو جاتا ہے۔ اور یہ ایک جامع ارتداد ہے۔ ولا حول ولا قوۃ إلا بالله
تیسیر علونی: لیکن ایسے لوگ تو امت میں بڑی تعداد میں ہیں؟
شیخ اسامہ بن لادن: بڑی تعداد نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے،اور اس نے اپنی پاک کتاب میں اسے بالکل واضح بیان کیا ہے۔ اور یہ سب سے واضح احکامات میں سے ہے۔
تیسیر علونی: عرب اور اسلامی حکومتوں کا کیا؟
شیخ اسامہ بن لادن: سب ایک جیسے ہیں۔ ہمیں اس بات کی پروا نہیں کہ آپ عمر کہیں یا زید۔ حق کو جان لیں اور اہل حق کو پہچان لیں۔ حق کو لوگوں کے ذریعے سے نہ جانیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور یہ ہمارے لیے ثابت چیزوں میں سے ہے۔ اگر ساری دنیا کسی چیز کو بدلنے کے لیے متفق بھی ہو جائے تو بھی یہ بات ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی اور نہ ہی ہماری قناعت میں کوئی تبدیلی لا سکتی ہے۔ یہ یا تو حق ہے یا باطل، یا اسلام ہے یا کفر۔
تیسیر علونی: کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا بعض ممالک کو عذر نہیں مل سکتاجو شاید اپنے حالات کے سبب مجبور ہیں؟ قطر کی مثال لے لیں، قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے، اس کے وزیر خارجہ نے ایک بار کہا کہ میں ایک عظیم ملک کے گھیرے میں ہوں جو مجھے بہت آسانی سے نقشے سے مٹا سکتا ہے، اس لیےامریکیوں اور دیگر ممالک کے ساتھ اتحاد کرنا میری مجبوری ہے۔ کیا کویت کے لیے کوئی عذر نہیں بن سکتا؟ کویت کی مثال لے لیں یا بحرین کی مثال لے لیں؟
شیخ اسامہ بن لادن: ان معاملات میں، اسلام کے معاملات میں، اور مومنین اور مسلمانوں کے قتل کے معاملات میں، تو جو یہ لوگ کرتے ہیں اور اکراہ کا بہانہ بناتے ہیں تو یہ اکراہ شریعت میں معتبر نہیں۔ اگر آج امیرِ قطر آئے اور وہ اپنے کسی کارندے کو حکم دے کہ وہ آپ کے بیٹے کو قتل کر دے تو ہم اس فوجی سے پوچھیں گے کہ تم نے تیسیر بھائی کے بیٹے کو قتل کیوں کیا؟ تو وہ کہے گا، میں مجبور ہوں، تیسیر، تم جانتے ہو کہ تمہاری میری نظر میں کتنی قدر ہے، لیکن میں مجبور ہوں۔ اس بہانے سے لوگوں کا خون بہائے جانے کے لیے یہ اکراہ شرعاً معتبر نہیں۔ اس فوجی کی جان آپ کے بیٹے کی جان سے افضل نہیں۔ وہ قتل کر رہا ہے، ایک مظلوم کو قتل کر رہا ہے۔ کیا اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آپ کے بیٹے کے قتل میں کسی ظالم کی معاونت کرے؟ تو یہ اکراہ شرعاً غیر معتبر ہے۔
تیسیر علونی: آپ کا سموئیل ہنٹنگٹن اور اس جیسوں کے نام نہاد اس نظریے پر کیا تبصرہ ہے کہ تہذیبوں کا تصادم ناگزیر ہے؟ آپ کا بار بار صلیبیوں اور صہیونیوں کا ذکر کرنا بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ اس نظریے کی حمایت کرتے ہیں کہ تہذیبوں کا تصادم ناگزیر ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: میری نظر میں اس میں کوئی شک نہیں، یہ ایک واضح بات ہے جو کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی مومن جو ایمان کا دعویٰ کرتا ہو ان حقائق کا انکار کرے۔ چاہے کسی خاص فرد نے کہا ہو یا نہ کہا ہو، ہمارے لیے جو چیز معتبر ہے وہ وہی ہے جو ہمیں کتاب اللہ اور ہمارے رسول ﷺ کی سنت سے ملی ہے۔ لیکن یہود اور امریکہ (ان نظریات کی صورت میں)خرافات پیش کر رہے ہیں جسے وہ سادہ لوح مسلمانوں میں پھیلا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس میں ہمارے خطے کے حکمران اور بہت سے وہ لوگ جو ثقافت سے منسلک ہیں اور امن کی اور عالمی امن کی دعوت دیتے ہیں ان کی تقلید کر رہے ہیں، یہ خرافات بالکل بے بنیاد ہیں۔
تیسیر علونی: امن؟
شیخ اسامہ بن لادن: امن، وہ نشہ جسے وہ مسلمانوں کے شعور کو مفلوج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ انہیں ذبح کیا جا سکے، اور ذبح کرنے کا سلسلہ جاری ہے، اور جب ہم اپنے دفاع کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ تم تو دہشت گرد ہو ، اور ذبح کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ پس ہمارے نبی ﷺ نے درست فرمایا کہ:
لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يُقَاتِلَ الْمُسْلِمُونَ الْيَهُودَ فَيَقْتُلَهُمْ الْمُسْلِمُونَ حَتَّى يَخْتَبِئَ الْيَهُودِيُّ وَرَاءَ الْحَجَرِ أَوْ الشَّجَرَةِ فَيَقُولُ الْحَجَرُ أَوْ الشَّجَرُ يَا مُسْلِمُ يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا يَهُودِيٌّ خَلْفِي فَتَعَالَ فَاقْتُلْهُ (مسند احمد)
’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمان یہودیوں سے قتال نہ کرلیں، چنانچہ مسلمان انہیں خوب قتل کریں گے حتیٰ کہ اگر کوئی یہودی بھاگ کر کسی پتھر یا درخت کی آڑ میں چھپنا چاہے گا تو وہ پتھر اور درخت بولے گا اے اللہ کے بندے، اے مسلمان یہ میرے پیچھے یہودی ہے، آ کر اسے قتل کر۔‘‘
جسے یہ زعم ہو کہ یہودیوں کے ساتھ ہمیشہ کے لیے امن ممکن ہے وہ جو کچھ محمد ﷺ پر نازل ہوا اس کا کفر کرتا ہے، کیونکہ یہ جنگ ہمارے اور اسلام دشمنوں کے درمیان جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ اور جسے یہ امن کہتے ہیں اور امن کا انعام کہتے ہیں یہ خرافات ہیں اور یہ انعام سب سے بڑے قاتلوں کو دیا جاتا ہے۔ یہ بیگن ہے جسے دیر یاسین (۱۹۴۸ء)کے قتل عام 3کی وجہ سے امن کے انعام سے نوازا گیا، اور یہ خائن انور سادات ہے، جس نے زمین کا، ملک کا، اس مسئلۂ فلسطین کا، شہداء کے خون کا سودا کیا، اسے بھی امن کا انعام دیا گیا۔ تو ہم ایک ایسے زمانے میں ہیں جس کے بارے میں ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے صحیح حدیث میں فرمایا:
سَيَأْتِي عَلَی النَّاسِ سَنَوَاتٌ خَدَّاعَاتُ يُصَدَّقُ فِيهَا الْکَاذِبُ وَيُکَذَّبُ فِيهَا الصَّادِقُ وَيُؤْتَمَنُ فِيهَا الْخَائِنُ وَيُخَوَّنُ فِيهَا الْأَمِينُ وَيَنْطِقُ فِيهَا الرُّوَيْبِضَةُ قِيلَ وَمَا الرُّوَيْبِضَةُ قَالَ الرَّجُلُ التَّافِهُ فِي أَمْرِ الْعَامَّةِ (ابن ماجه)
’’عنقریب لوگوں پر مکر و فریب والے سال آئیں گے، ان میں جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن، اور اس زمانہ میں ’ رُوَيْبِضَہ ‘ بات کرے گا، آپ ﷺ سے سوال کیا گیا : ’رويبضة‘ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’حقیر اور کمینہ آدمی، وہ لوگوں کے عام انتظام میں مداخلت کرے گا‘۔ ‘‘
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج عالمِ اسلام کی بڑی قیادتوں اور معروف لیڈروں کی حالت یہی ہے۔ یہ لوگ دھوکہ دہی کرتے ہیں، لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں اور ان سے جھوٹ بولتے ہیں۔ لیکن ان شاء اللہ، اللہ کی نصرت اور فتح جلد ہی آنے والی ہے۔
تیسیر علونی: تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ شیخ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں جاری بحران اور امریکہ اور اس کے حلیفوں کی طرف سے کی جانے والی جنگ کو اس انداز سے دیکھتے ہیں کہ یہ صلیبیوں اور اسلا م کے درمیان جاری تنازع کا ایک حصہ ہے۔ تو آپ اس موجودہ بحران سے نکلنے کا کیا راستہ دیکھتے ہیں؟
شیخ اسامہ بن لادن: جیسا کہ آج ذکر ہوا، ہم اس وقت ایک زبردست اور فیصلہ کن جنگ میں ہیں، جو ہمارے اور یہودیوں کے درمیان ہے، جن کی قیادت ’’اسرائیل‘‘ کر رہا ہے اور جن کی حمایت صہیونیوں اور صلیبیوں کی جانب سے کی جا رہی ہے۔ ہم اسرائیلیوں کو قتل کرنے میں کوئی ہچکچاہت محسوس نہیں کریں گے، جنہوں نے ہمارے نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے مقامِ اسراء و معراج پر قبضہ کر رکھا ہے اور جو صبح شام ہمارے بچوں کو قتل کر رہے ہیں اور ہماری عورتوں کو اور ہمارے بھائیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اور جو کوئی بھی ان کی صف میں کھڑا ہے تو اسے اپنے علاوہ کسی کو ملامت نہیں کرنی چاہیے، اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس محاصرے سے کیسے نکلنا ہے تو یہ معاملہ دوسرے فریق کے ہاتھ میں ہے۔ جبکہ ہمارا اوّلین فرض اس جارحیت کو روکنا ہے، جنہوں نے ہم پر حملہ کیا ہے انہیں یہ جارحیت ترک کرنا ہو گی۔ یہودیوں کے بارے میں ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں واضح بتایا ہے اور بشارت دی ہے کہ ہم ان سے اسی نام سے اور اسی زمین پر لڑیں گے، اس مبارک سرزمین پر جہاں سے نبی ﷺ معراج کے لیے روانہ ہوئے۔
امریکہ نے خود کو اور اپنی عوام کو پچپن سال سے زیادہ عرصے سے اس معاملے میں ملوث کر رکھا ہے، اسی نے اسرائیل کو تسلیم کیا، اسی نے اس کی حمایت کی، اسی نے ۱۳۹۳ ھ (بمطابق ۱۹۷۳ء) میں، نکسن کے دور میں، امریکہ سے تل ابیب تک ہتھیاروں، ساز و سامان، اور لوگوں کے لیے ایک فضائی پل قائم کیا، اور جنگ کی صورتحال پر اثر انداز ہوا۔4 تو پھر ہم اس کے خلاف کیوں نہ لڑیں؟ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ اس کے خلاف لڑے، اگر وہ نجات چاہتا ہے۔ ہم نے چند سادہ سے الفاظ کہے، لیکن انہوں نے امریکہ کو دہشت زدہ کر دیا اور اس کی اقدار کا خاتمہ کر دیا۔
امریکہ نے مضحکہ خیز دعوے کیے۔ اس نے کہا کہ اسامہ کے پیغامات میں دہشت گردوں کے لیے کوڈ موجود ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم کبوتر کے ذریعے ڈاک بھیجنے والے زمانے میں جی رہے ہوں، جب نہ کوئی فون، نہ مسافر، نہ انٹرنیٹ، نہ باقاعدہ ڈاک، نہ ایکسپریس میل، اور نہ الیکٹرانک میل تھی۔ یعنی بہت ہی مضحکہ خیز چیزیں جو لوگوں کی عقلوں پر طنز کرتی ہیں۔
اور الفاظ یہ تھے : ’ہم نے قسم کھائی ہے کہ امریکہ اس وقت تک امن سے نہیں رہے گا جب تک ہم فلسطین میں حقیقی معنوں میں امن نہیں دیکھ لیتے ‘۔ اس سے امریکہ بے نقاب ہو گیا اور واضح ہو گیا کہ وہ اسرائیل کی خدمت میں جتا ہوا ہے اور جو اسرائیل کے مفاد کو اپنے لوگوں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے۔ تو یہ مسئلہ آسان ہے، امریکہ اس بحران سے اس وقت تک نہیں نکل سکتا جب تک وہ جزیرۂ عرب سے باہر نہیں نکل جاتا، جب تک وہ اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا اور پورے عالمِ اسلام کے معاملات میں مداخلت بند نہیں کر دیتا۔ یہ مساوات (equations)ہم اگر کسی بھی بچے کو کسی بھی امریکی سکول میں دیں، تو وہ اسے چند سیکنڈ میں آسانی سے حل کر لے گا لیکن بش اور اس کے ساتھی اپنی خائن طبیعت کی بنا پر اسے حل کرنے سے اس وقت تک قاصر ہیں جب تک اللہ کے حکم سے تلواریں ان کے سروں پر نہ پہنچ جائیں ۔
تیسیر علونی: شیخ اسامہ، کیا آپ کے پاس اپنے ناظرین کے لیے کوئی پیغام ہے؟
شیخ اسامہ بن لادن: میں اس بحران، اس تصادم اور اس جنگ کے بارے میں کہوں گا جو اسلام اور صلیبی قوتوں کے درمیان جاری ہے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم ان شاء اللہ اس جہاد کو جاری رکھیں گے اور امت کو اس کی تحریض دلاتے رہیں گے یہاں تک کہ ہم اپنے رب سے مل جائیں اور وہ ہم سے راضی ہو۔
اور وہ جنگ جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا آج بنیادی طور پر ہمارے اور یہودیوں کے درمیان جاری ہے۔ جو بھی ملک یہودیوں کی صف میں داخل ہو گا تو وہ اپنے سوا کسی کو ملامت نہ کرے۔ اگرچہ شیخ سلیمان ابو غیث نے اپنی گزشتہ تقاریر میں صراحت کے ساتھ امریکہ اور برطانیہ کا ذکر کیا تو اس کا مقصد خاص ان کا ذکر کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد دیگر ممالک کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے اعمال کا دوبارہ جائزہ لیں۔ جاپان کا ہم سے کیا لینا دینا ہے ؟ کون ہے جو جاپان کو اس مشکل، قوی اور سخت جنگ میں دھکیل رہا ہے؟ یہ فلسطین میں ہمارے بچوں پر کھلی جارحیت ہے، اور جاپا ن ہمارے خلاف جنگ میں داخل ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے اپنےرویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ دنیا کے جنوبی کنارے پر موجود آسٹریلیا کا افغانستان کے مستضعفین سے کیا لینا دینا؟ اور فلسطین کے مستضعفین کے حال سے کیا سروکار؟ جرمنی کا اس جنگ میں کیا کام، سوائے اس کے کفر اور صلیبی جنگ ہونے کے؟ یہ جنگ صلیبی جنگوں کا ہی تسلسل ہے، جیسے پچھلی جنگیں تھیں۔ رچرڈشیر دل اور بربروسا جرمنی سے اور لوئی فرانس سے۔ اسی طرح آج بھی، جس دن بش نے صلیب بلند کی، صلیبی ممالک کا ہجوم جمع ہو گیا۔ عرب ممالک کا اس صلیبی جنگ میں کیا کام ہے اور ان کے سفارت خانے دن دہاڑے کھل کر کیوں مداخلت کر رہی ہیں؟ وہ تو صلیبی حکم پر راضی ہو چکے ہیں۔
جو بھی بش کی حمایت کرتا ہے، چاہے ایک لفظ سے ہی ہو، اور جو بھی سہولیات فراہم کرتا ہے، چاہے اسے سہولیات ہی کہہ لیں، وہ عظیم خیانت کا مرتکب ہے۔ نام بدل دیتے ہیں، یہ کوئی فوجی سہولیات نہیں ہیں، یہ ہمارے بچوں کے قتل میں ان کے ساتھ تعاون ہے اور کہتے اسے سہولیات ہیں۔ ہم کیسے یقین کر لیں کہ یہ نظام افغانستان کے عام شہریوں کے لیے چندہ جمع کرتا ہے جبکہ یہ سرزمینِ حرمین کو امریکیوں اور ان کے حلیفوں کے لیے مباح قرار دینے کا بنیادی سبب ہے؟ ہم ان پر کیسے یقین کر لیں جبکہ یہ دس لاکھ سے زائد بچوں کے قتل کا بنیادی سبب ہیں؟ ہم پوچھتے ہیں کہ جو لوگ ان حکمرانوں کی پیروی کر رہے ہیں کیا ان کے پاس دل نہیں؟ کیا ان کے پاس ایمان نہیں؟ ان کا ایمان کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے جبکہ وہ ان کافروں اور فاجروں کی اسلام کے بیٹوں کے خلاف مدد کر رہے ہیں؟ وہ ان کی عراق اور فلسطین میں ہمارے بچوں کے خلاف مدد کر رہے ہیں۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
جو لوگ امریکہ میں بے گناہوں کے بارے میں بات کرتے ہیں، انہوں نے کبھی بھی اپنے بچوں کو کھونے کا درد محسوس نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی انہوں نے اپنے بچوں کی باقیات کو فلسطین اور دیگر جگہوں پر دیکھا ہے۔ کس حق سے ہمارے فلسطینیوں کو امن سے محروم کیا جاتا ہے، انہیں ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ان کے گھروں میں، ان کی عورتوں اور بچوں کے درمیان نشانہ بنایا جاتا ہے؟ ہر روز زخمیوں اور لاشوں کو اٹھایا جاتا ہے، پھر یہ احمق آتے ہیں اور امریکہ کے مرنے والوں پر رونادھونا مچاتے ہیں، تو یہ ہمارے بچوں پر کیوں نہیں روتے؟ کیا وہ بالمثل انجام سے نہیں ڈرتے؟ اور ہمارے نبی ﷺ نے صحیح فرمایا:
مَنْ لَمْ يَغْزُ أَوْ يُجَهِّزْ غَازِيًا أَوْ يَخْلُفْ غَازِيًا فِي أَهْلِهِ بِخَيْرٍ أَصَابَهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ بِقَارِعَةٍ قَبْلَ يَوْمِ الْقِيَامَةِ (سنن ابن ماجه)
’’ جو شخص نہ جنگ کرے، نہ کسی غازی کے لیے سامان جہاد کا انتظام کرے، اور نہ ہی کسی غازی کی غیر موجودگی میں اس کے گھربار کی بھلائی کے ساتھ نگہبانی کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت آنے سے قبل اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دے گا ۔‘‘
اللہ سے ڈریں اور توبہ کریں اور بے گناہ بچوں کا محاصرہ ختم کریں۔ کیونکہ مغرب کے لوگ تو آزاد ہیں، یورپ جنگ میں داخل ہوا یہ اس کا اپنا معاملہ ہے، جبکہ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ان سے لڑیں جو یہودیوں کی صف میں کھڑے ہیں۔ امریکہ اور امریکی عوام بھی آزاد ہیں، وہ اس صف میں شامل ہوئے ہیں تو پھر جو بھی ان کے ساتھ پیش آئے گا انہیں برداشت کرنا ہوگا۔
جبکہ ہم، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم عبادت اور جہاد میں ہیں، جیسا کے ہمارے نبی ﷺ نے صحیح فرمایا:
قيام ساعة في الصف خير من عبادة ستين سنة
’’جہادی صف میں ایک ساعت کا قیام ساٹھ سال کی عبادت سے بہتر ہے۔‘‘
کیا اس سے بہتر کوئی فضیلت ہے؟ اللہ عز و جل کی رضا میں، ہم اس کے دین کے لیے جہاد کرتے ہیں۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سے اور آپ سے یہ خدمت قبول فرمائے۔
اور مسلمانوں کی نسبت سے میں کہنا چاہوں گا: اللہ تعالیٰ کی مدد پر یقین رکھیں، اور اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے رسول علیہ الصلاۃ والسلام کے حکم کے مطابق عالمی کفر کے خلاف جہاد کریں۔ بے شک خوش نصیب ہے وہ جو آج شہداء میں شمار ہو جائے، اور خوش نصیب ہے وہ جو محمد ﷺ کے پرچم تلے، اسلام کے پرچم تلے، بین الاقوامی صلیبیوں کے خلاف لڑنے کا شرف حاصل کرے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ یہود اور امریکیوں کو مارنے کے لیے آگے بڑھے، کیونکہ ان کا قتل اہم ترین واجبات میں سے شمار ہوتا ہے۔ اور اپنے نبی ﷺ کی تعلیمات کو یاد رکھیں کیونکہ آپ ﷺ نے نوجوان ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا تھا:
يَا غُلَامُ إِنِّي أُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْکَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَکَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَی أَنْ يَنْفَعُوکَ بِشَيْئٍ لَمْ يَنْفَعُوکَ إِلَّا بِشَيْئٍ قَدْ کَتَبَهُ اللَّهُ لَکَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَی أَنْ يَضُرُّوکَ بِشَيْئٍ لَمْ يَضُرُّوکَ إِلَّا بِشَيْئٍ قَدْ کَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْکَ رُفِعَتْ الْأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ (جامع ترمذی)
’’ اے لڑکے میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں وہ یہ کہ ہمیشہ اللہ کو یاد رکھ وہ تجھے محفوظ رکھے گا۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھ اسے اپنے سامنے پائے گا۔ جب مانگ تو اللہ تعالیٰ سے مانگ اور اگر مدد طلب کرو تو صرف اسی سے مدد طلب کرو اور جان لو کہ اگر پوری امت اس بات پر متفق ہوجائے کہ تمہیں کسی چیز میں فائدہ پہنچائے تو بھی وہ صرف اتنا ہی فائدہ پہنچا سکیں گے جتنا اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر تمہیں نقصان پہنچانے پر اتفاق کرلیں تو ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہ جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا۔ اس لیے کہ قلم اٹھا دیے گئے اور صحیفے خشک ہوچکے۔‘‘
پس کسی سے امریکیوں کو قتل کرنے میں مشورہ نہ مانگو، اللہ کی برکت کے ساتھ آگے بڑھو، اور اپنے رب کے ساتھ کیے وعدے کو یاد رکھو۔
آخر میں پاکستان میں اپنے بھائیوں سےاپیل کرتا ہوں: حکومت پاکستان کا مؤقف انتہائی افسوس ناک ہے اور پاکستان اس منحوس اتحاد کا ایک رکن ہے، اور یہ صلیبی اتحاد ہے۔ پس پاکستان میں ہمارے بھائی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے اس منحوس صلیبی اتحاد پر ایک بھرپور ضرب لگا ئیں گے۔ پس جو بھی امریکہ کے ساتھ کھڑا ہوا، چاہے وہ طبی سہولیات ہوں یا غیر طبی، یہ کفرِ اکبر ہے جو دین سے خارج کر دیتا ہے۔ اس لیے پاکستانی بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین اور رسول اللہ ﷺ کی نصرت کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں۔ کیونکہ آج اسلام انہیں پکار رہا ہے:
واإسلاماه! (ہائے ميرا اسلام)
واإسلاماه!
واإسلاماه!
ألا هل بلغت؟ اللهم فاشهد!(کیا میں نے دین کی بات پہنچا دی؟ اے اللہ تُو گواہ رہنا!)
ألا هل بلغت؟ اللهم فاشهد!
ألا هل بلغت؟ اللهم فاشهد!
والسلام عليكم ورحمة الله
اسامه بن محمد بن لادن
٭٭٭٭٭
1 یہاں شیخ اسامہ نے مصلحت کے تحت گیارہ ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری باقاعدہ تو قبول نہیں کی لیکن اس سے واضح انکار بھی نہیں کیا۔ گیارہ ستمبر کے حملوں کے حوالے سے سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے بعض لوگ اس انٹرویو کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ حملے القاعدہ نے نہیں کیے تھے۔ لیکن وہ اس انٹرویو میں جس طرح شیخ اسامہ نے حملہ آوروں کی تعریف کی یا جس طرح انہوں نے ان حملوں کا پس منظر، ان کےمقاصد اور ان کےاثرات کا ذکر کیا اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ شیخ اسامہ نے باضابطہ طور پر گیارہ ستمبر کے حملوں کی ذمہ داری اکتوبر ۲۰۰۴ء کے ویڈیو پیغام میں قبول کی۔۲۰۰۵ء میں سپین کی عدالت نے تیسیر علونی کو اسی انٹرویو کی وجہ سے القاعدہ کا سہولت کار قرار دیتے ہوئے ۷ سال کی قید کی سزا سنائی جس سے وہ ۲۰۱۲ء میں رہا ہوئے۔ (ادارہ)
2 قانا جنوبی لبنان کا ایک گاؤں ہے جہاں ۱۸ اپریل ۱۹۹۶ء کو اسرائیلی افواج نے بھاری توپ خانے سے اقوام متحدہ کے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی۔ اس کیمپ میں ۸۰۰ پناہ گزین مقیم تھے جن میں سے ۱۰۶ افراد ہلاک جبکہ ۱۱۶ زخمی ہوئے۔
3 دیر یاسین کا قتل عام ۹ اپریل ۱۹۴۸ء کو بیت المقدس کے قریب ایک گاؤں ’دیر یاسین ‘ میں پیش آیا جب صہیونی فوجی گروپوں، یہودی ملیشیا ’ارگن‘ اور ’لیہی‘ کے تقریباً ۱۲۰ جنگجوؤں نے اس گاؤں پر حملہ کر دیا اور سینکڑوں فلسطینی مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ انٹرنیشنل ریڈ کراس کے مطابق گاؤں کے ایک حوض سے ۱۵۰ افراد کی لاشیں ملیں اور جابجا گلیوں میں پڑی ان گنت لاشیں اس کے علاوہ تھیں۔ ہلاک کرنے سے قبل عورتوں کے ساتھ عصمت دری بھی کی گئی اور ہلاک کرنے کے بعد بڑی تعداد میں لاشوں کو مسخ بھی کیا گیا۔ متعدد افراد کو قیدی بنا کر مغربی بیت المقدس کی گلیوں میں پھرایا گیا اور اس کے بعد ہلاک کیا گیا۔ اس قتلِ عام میں مرکزی کردار یہودی ملیشیا ’ارگن‘ کا تھا جس کی کمان ’مناخم بیگن‘ کر رہا تھا۔ مناخم بیگن ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۳ء تک اسرائیل کا چھٹا وزیراعظم رہا ، اسی کے دورِ حکومت میں ۱۹۸۲ء میں صابرہ اور شاتیلا کا مشہور قتلِ عام ہوا اور اسی کو مصر کے صدر انور سادات کے ساتھ ۱۹۷۸ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ (ادارہ)
4 اکتوبر ۱۹۷۳ء میں شروع ہونے والی چوتھی عرب اسرائیل جنگ کی جانب اشارہ ہے جس میں امریکہ نے اسرائیل کو بےتحاشہ اسلحہ اور ساز و سامان فراہم کیا اور اس کی فتح کو یقینی بنایا۔(ادارہ)