اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُوْنَ (سورۃ الانفال: ۸)
’’تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے، چاہے مجرم لوگوں کو یہ بات کتنی ناگوار ہو۔‘‘
گزشتہ چند دہائیوں کی عالمی سیاست میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی طور پر دجالی قوتوں کو پوری دنیا کو شکنجے میں لینے کا خواب آسان نظر آنے لگا، انہی دنوں میں سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) کی کتاب تہذیبوں کا تصادم (The Clash of Civilizations) بہت مقبول ہوئی۔ پوری دنیا میں تیزی سے پھیلتی دجالی و ابلیسی تہذیب کا سامنا اسلام سے ہوا باقی مذاہب یا قومیں عالمی فکری یلغار کے سامنے بالکل مزاحمت نہ کر سکیں۔ ٹیکنالوجی سے لیس یہ تہذیبی یلغار اتنی شدید تھی کہ بہت سے کمزور ایمان یا کم علم مسلمان بھی خس و خاشاک کی طرح اس میں بہہ گئے۔ عالمی کفر کی پالیسی نظر آتی تھی کہ ایک بھی سپاہی مروائے بغیر پوری دنیا کو ہضم کر لیں گے۔ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری، فیشن انڈسٹری، کھیل اور آرٹ کے ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کے مضبوط شکنجے، جمہوریت اور خود ساختہ اقدار کے ڈھکوسلے الغرض اتنے شعبوں میں کفر نے سرمایہ کاری کی کہ ایک مضمون میں محض ان کے ناموں کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ یہ پالیسی آج تک جاری و ساری ہے۔
عالمی دجالی قوتوں نے ہائبرڈ وارفیئر (Hybrid Warfare)1 کے ذریعے نہ صرف مسلم بلکہ کفار کی اکثریتی آبادی والے بھی بیشتر ممالک میں اپنے کٹھ پتلی حکمران مسلط کر دئیے۔ درپردہ حمایت کرتے ہوئے مالی اور ابلاغی مہمات کے ذریعے اپنے نمائندوں کو مقبولیت دلوائی جاتی ہے، پھر ان سے عالمی دجالی ایجنڈے پر کام لیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ محض سیاسی قیادت تک محدود نہیں بلکہ افواج، عدلیہ اور میڈیا الغرض ہر اہم اور طاقتور منصب پر اپنے لوگ رکھے جاتے ہیں۔ یوں ان ممالک کے نہ صرف وسائل لوٹے جاتے ہیں بلکہ ان پر اپنی پکڑ بھی مضبوط رکھی جاتی ہے۔ اپنے ہی نمک خوار لوگوں پر مشتمل لالچی اور خائن لوگوں کے دو یا زیادہ گروہ بنا لیے جاتے ہیں اور حکومت ان میں بدلتی رہتی ہے۔ یوں عام لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک آزاد اور خودمختار ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے تمام اہم فیصلے عالمی ابلیسی قوتوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں اگر کوئی حق کی آواز اٹھے یا عالمی دجالی طاقتوں سے ماورا کوئی تحریک اٹھے تو اسے انہی کے ملک کے اداروں کے ذریعے طاقت سے کچل دیا جاتا ہے۔ دنیا کے دیگر لوگ اسے متعلقہ ملک کا داخلی معاملہ قرار دیتے ہیں کیونکہ انہیں میڈیا کے زور سے یہی باور کروایا جاتا ہے۔ اس دوران انسانی حقوق کے اداروں اور عالمی تنظیموں پر موت کا سکوت طاری رہتا ہے لیکن دوسری طرف اگر کہیں کوئی مخالف یا آزاد گروہ طاقت میں آ جائے تو اس کے خلاف تحریکیں کھڑی کی جاتی ہیں، جنہیں بھرپور مالی اور ابلاغی حمایت فراہم کی جاتی ہے اور ایسا انقلابی ماحول بنانے کی کوشش کی جاتی ہے گویا اصل معرکۂ حق و باطل تو یہی ہو جہاں طاقتور حکومت کے سامنے چند مضبوط نظریات کے لوگ ڈٹ گئے لیکن درحقیقت حکومت مخالف گروہ کے قائدین کو ہر طرح کی مراعات اور عیش و عشرت کا سامان مہیا کیا جا رہا ہوتا ہے، انہیں یورپ کے ممالک کی شہریت اور تحریک کی کامیابی پر اقتدار اور ناکامی پر بیرون ملک بہتر مستقبل کی یقین دہانی کروائی جاتی ہے۔ اگر ایسی حکومت امن عامہ کو یا اپنی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدام کرے تو میڈیا اور عالمی تنظیموں کے ذریعے حقوق کی پامالیوں کا شور مچا دیا جاتا ہے۔ پھر پابندیاں لگا کر اتنا مجبور کیا جاتا ہے کہ بلآخر حکومت دجالی کارندوں کو منتقل ہو جائے۔ اگر کہیں اس سب کے باوجود بھی مقاصد حاصل نہ ہوں تو آخر میں باقاعدہ بہانے بنا کر لشکر کشی کی جاتی ہے اور خود اپنی بنائی ہوئی اقدار اور عالمی قوانین کی چنداں پرواہ نہیں کی جاتی۔
اسلام سے جب جب کفر کا میدان کار زار میں مقابلہ ہوا تو صدیوں کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ نصرتِ خداوندی سے مسلمانوں نے عددی اور مادی طور پر بڑے اور طاقتور دشمن کو دھول چٹائی۔ اسی لیے کفر کی حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ دیگر دجالی ہتھکنڈوں سے اسلام کو سیاسی غلبے سے روکا جائے اور اس دوران عالمی دجالی تہذیب کا پھیلاؤ تیزی سے جاری رکھا جائے۔ فحاشی و عریانی کا سیلاب ہو، حرام مال، بے راہ روی ، ہم جنس پرستی، جادو، سود ، عقائد پر نقب زنی اور دیگر تمام برائیاں اتنی عام کر دی جائیں کہ مسلمانوں میں اسلام صرف نام کی حد تک باقی رہے۔ یوں دجالی تہذیب کا راستہ خاموشی سے ہموار ہو اور بلآخر اعلانیہ عالمی دجالی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا جائے۔
یوں خاموشی سے اپنی ارتدادی سرگرمیوں کا جاری رکھنا، گناہوں کا اور بدعملی کا ماحول بنانا اور کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے سے سیاسی کنٹرول مضبوط کرتے جانا کفر کے کل بھی مفاد میں تھا اور آج بھی مفاد میں ہے۔ لیکن اہل ایمان کا مفاد اسی میں پنہاں ہے کہ حق و باطل کی صفیں الگ الگ رہیں تاکہ حق و باطل میں تمیز آسان ہو۔ اس کے لیے سنت اللہ رہی ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں کو یہ سعادت بخشتا ہے کہ وہ کفر سے پوری قوت سے ٹکرا جائیں اور حق وباطل میں تفریق واضح ہو جائے جبکہ تمام تر مادی اسباب اور طاقت سے سینہ سپر ہو کر رب پر ایمان کامل کا بھی خوب عملی اظہار ہو۔ اس امت کی پہلی لڑائی کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے چنانچہ یوم بدر کو یوم الفرقان بھی کہا گیا کیونکہ اگرچہ چھوٹی موٹی جھڑپیں یا ہلکا پھلکا تصادم تو اس سے پہلے بھی ہو رہا تھا لیکن یہ وہ معرکہ تھا جس نے باقاعدہ لکیر کھینچ کر حق وباطل کی تفریق واضح کر دی۔
مبارک ہیں وہ ہستیاں جنہیں اس دور میں بھی ایک ایسے معرکے کی سعادت ملی جس نے کفر کے سارے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔ اس کی کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری دھری کی دھری رہ گئی اور حق وباطل میں تمیز آسان ہو گئی۔ پوری دنیا میں جہاد کا علم بلند ہونا شروع ہو گیا۔ آج دنیا کے ہر خطے میں مجاہدین اسلام کفر سے نبردآزما ہیں اور دن بدن قوت پکڑ رہے ہیں۔ چنانچہ وہ مبارک خواب جو محسن امت شیخ اسامہ بن لادن شہید نے بچپن میں دیکھا تھا اور اس کی تعبیر ان کے ہاتھوں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے لشکر کی تشکیل بتایا گیا تھا۔ آج اس خواب کی تعبیر دنیا بھر میں برسرِ پیکار مجاہدین کو دیکھ کر آنکھوں کے سامنے نظر آتی ہے۔ بلاشبہ معرکۂ گیارہ ستمبر کو وہ مقام حاصل ہے جس نے ایک طرف تو کفر کو تاریخی مالی نقصان پہنچایا اس کا رعب دبدبہ اور غرور توڑا اور امریکہ ناقابل تسخیر ہے کہنے والے ماتم کناں نظر آئے تو دوسری طرف حق کی متلاشی نگاہوں کے لیے تلاشِ حق آسان ہو گئی۔ دنیا بھر میں اس معرکے نے واضح طور پر دو گروہوں کی، دو نظریوں کی اور دو عقیدوں کی جنگ کو ہر خاص و عام پر عیاں کر دیا۔
ہر سال ستمبر کے مہینہ میں جب گیارہ تاریخ آتی ہے تو امریکہ میں بھی تقاریب منعقد ہوتی ہیں جن میں اپنے زخم چاٹے جاتے ہیں، دوسری طرف جب کسی مجاہد یا مومن کو اس معرکے کا خیال گزرتا ہے تو یہ اس کے لیے باعث تجدیدِ عہدِ وفا ہوتا ہے۔ آج دنیا بھر میں عالمی دجالی نظام اور اس کی تباہ کاریوں کے متعلق اتنی آگاہی پھیل چکی ہے کہ دنیا کے ہر خطے سے نوجوان اس شر کے نظام کو نیست ونابود کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
دوسری طرف عالمی کفر کے سرغنوں کو اس معرکے کے بعد سے آج تک چین کی نیند سونا نصیب نہیں ہوا۔ بیس سال تک افغانستان میں پوری دنیا کی قوت کو مجتمع کر کے چند بے سرو سامان اہل ایمان سے مقابلہ کیا گیا جن کے متعلق گیارہ ستمبر کے مبارک حملوں کے بعد دعوے یہ تھے کہ چند لمحوں میں مسل کر رکھ دیں گے لیکن اہل ایمان کی ثابت قدمی اور توکل نے طاقت اور ٹیکنالوجی کے بت پاش پاش کر دئیے تاریخ میں پھر سے لکھا گیا کہ اصل قوت ایمان ہے اس کے سامنے مادی قوت کے ذخائر کی اہمیت ایسے ہی ہے جیسے بڑے سے بڑے عدد کو صفر سے ضرب دینا، نتیجہ صفر ہی آئے گا۔ تنظیم القاعدہ پوری دنیا میں قائم و دائم اور فعال ہے بحمدللہ، خلافت کے احیاء کے عظیم مقصد کی جانب گامزن ہے جبکہ امریکہ کو تاریخی قرضوں کے بوجھ کا سامنا ہے۔ جہاد کی روشن کرنیں پوری دنیا کو منور کر رہی ہیں جبکہ ان کے مجاہدین کو مٹا دینے کے دعوے محض خود فریبی ہیں۔ ان کے دعوے کچھ بھی ہوں لیکن انہیں معلوم ہے عالمی ظلم و جبر اور گمراہی کے نظام کے خلاف آوازیں آج پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط اور توانا ہیں۔ وہ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس معرکے سے طاغوت کو گھر میں گھس کر مارنے کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ بدستور جاری ہے اور جاری رہے گا، ان شاءاللہ!
چنانچہ مغرب میں اس کے بعد کئی ایسی کاروائیاں ہو چکی ہیں جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھیں اور وہ نہیں جانتے کب انہیں کہاں سے کتنی شدید ضرب لگنے والی ہے، ان شاء اللہ۔ لیکن اللہ خوب جانتا ہے۔
کیونکہ ابلیس کے پجاریوں کی جنگ درحقیقت اللہ سے ہے۔ جس میں اللہ کے سعادت مند بندے کام آ رہے ہیں۔ جنہیں اس کا پورا بدلہ دے گا اللہ!
٭٭٭٭٭
1 ہائبرڈ وارفئیر ایک وسیع اصطلاح ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں روایتی جنگ کے علاوہ دشمن کے خلاف غیر روایتی ذرائع بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس میں گوریلا جنگ، پراپیگنڈہ، جھوٹی خبریں، سیاسی پریشر، معاشی پریشر، پراکسی جنگیں، سائبر حملے وغیرہ سب شامل ہو سکتے ہیں۔ (ادارہ)