بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده نصر عبده وأعز جنده وهزم الأحزاب وحده، معز عباده الموحدين المجاهدين، ومذلِّ أعدائه الكافرين، أرسل رسوله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون، القائل: (فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ)، والصلاة والسلام على رسول الملحمة وقائد المجاهدين سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، ثم أما بعد:
آج كل میں ہی گیارہ ستمبر کے مبارک معرکے کو تئیس سال پورے ہو جائیں گے1۔ اور چند ہی دنوں بعد گزشتہ سال سات اکتوبر کو ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے مبارک معرکے کو بھی ایک سال گزر جائے گا۔ اور جہاں یہ حقیقت ہے کہ یہ دونوں واقعات تاریخ میں فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتے ہیں، اسی طرح ان واقعات سے دو الگ راستے بھی جدا ہوتے ہیں جہاں ایک طرف سپر پاور امریکہ اور نا قابل شکست اسرائیلی فوج کا افسانوی تصور ہے اور دوسری طرف ہمارے ممالک و مقدسات پر ان کے تسلط اور قبضے سے آزادی کی حقیقت ہے۔
اس لیے ہمیں اس مقام پر تھوڑا ٹھہر کر اچھی طرح سوچنا ہو گا تاکہ ہم اپنے لیے اسباق و عبرتیں اخذ کر سکیں۔ جس طرح گیارہ ستمبر سے پہلے اور بعد کے حالات ایک جیسے نہیں تھے، ایسے ہی سات اکتوبر کے بعد کے حالات پہلے کی طرح نہیں رہے۔ ان اسباق و عبرتوں میں سے شاید اہم ترین سبق جس پر ہمیں زیادہ سوچنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ان دونوں معرکوں کے ذمہ داران اور ان کو سر انجام دینے والے حضرات کا بلند ترین مقصد یہ تھا کہ وہ اس واجب اور فرض عین کو ادا کر سکیں جسے اکثر مسلمان چھوڑ کر لا پروابیٹھ چکے تھے، یعنی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا اور ایسے حملہ آور دشمن کو پیچھے دکھیلنا جو دین و دنیا کو برباد کرنے کے درپے ہے۔ یہ وہ فرض ہے کہ جس کے بارے میں علماء کی متفقہ رائے ہے کہ ایمان کے بعد یہ اہم ترین فرض ہے۔
ہماری امت کی اس وقت جو زبوں حالی ہے، کہ اس کے ممالک و مقدسات پر بنی نوع آدم کے خسیس ترین اور پست ترین لوگوں نے تسلط حاصل کر لیا ہے، اس کے ساتھ جس ذلت و مجبوری، قتلِ عام، دربدری اور عزتوں کی پامالی کا شکار ہو چکے ہیں اور پارہ پارہ ہو کر اپنی راہیں کھو چکے ہیں، اس کا اوّلین سبب امت کا اس فریضے کی ادائیگی سے پیچھے ہٹ کر بیٹھ جانا اور لا پروا ہو جانا ہے۔
اور شیخ اسامہ بن لادن اپنے دروس و بیانات میں اس بات کو شد و مد کے ساتھ بیان کرتے رہے کہ اس وقت کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ مسلمانوں کے بلاد و مقدسات خصوصاً جزیرۃ العرب اور فلسطین پر قابض امریکی صلیبیوں اور یہودیوں کو نکالا جائے۔ آپ ہمیشہ لوگوں کو ان سے لڑنے پر ابھارتے رہتے تھے اور ان کے خلاف مدد نہ کرنے اور نہ لڑنے کے خطرناک انجام سے ڈرایا کرتے تھے۔
آپ کہا کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی صلیبی تسلط سے آزادی کی یہ جنگ بڑی قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے اور اس کے بڑے نتائج مرتب ہوں گے۔ اور یہ واقعات لوگوں کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کر دیں گے، اور ان پر ایسے شرعی احکام مرتب ہوں گے جن کا اسلام اور نواقضِ اسلام سے گہرا تعلق ہو گا۔ اور آپ مسلمانوں کو اس لڑائی کی نوعیت اور حقیقت سمجھنے کی طرف توجہ دلاتے تھے تاکہ ان کے لیے یہ طے کرنا مشکل نہ رہے کہ وہ کس فریق کے ساتھ شامل ہوں۔
اور چونکہ گزشتہ ستر سے زائد سالوں سے یہود کا فلسطین پر قبضہ براہ راست تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے ہاں اس نا جائز قبضے کا تصور اتنا واضح تھا، اور اب بھی ہے، کہ ان کے ذہنوں میں اس حقیقت کے بارے میں کسی قسم کا خلط مباحث اور دھندلا پن نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح یہود کے خلاف قتال کرنے اور ان کے قبضے سے فلسطین کو چھڑانے میں بھی کسی دو ادنیٰ افراد کا اختلاف نہیں ہو سکتا۔
مگر جہاں تک بہت سے مسلم ممالک اور خصوصاً جزیرہ نما عرب پر امریکہ اور اس کے حلیفوں کے تسلط و قبضے کی بات ہے تو عجیب تضاد ہے کہ اکثر مسلمانوں کے ذہنوں میں اس کا تصور بالکل الٹ ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسے کتاب ’’معرکۃ الاحرار‘‘ کا مصنف کہتا ہے:
”مسلمان اقوام کو قدیم عسکری قبضوں کے خاتمے کے بعد محض ظاہری اور تصوّراتی آزادی کا دھوکا دیا گیا، حالانکہ مسلم ممالک اب بھی مقبوضہ ہی ہیں، اپنا فیصلہ کرنے کا حق ان سے چھن چکا ہے، اور ان کے خزانے لٹ چکے ہیں۔ ہماری حقیقت ایسے معاشروں کی ہے جو دشمن کے بنائے گئے دائروں میں انہی کے منصوبوں کے مطابق چل رہے ہوں، ایسے منصوبے جن پر چلنے کے اصول بھی انہوں نے ہی وضع کیے ہیں، اور جن کے بارے میں سابق امریکی صدر نکسن نے کہا تھا کہ ’ہمیں کھیل اسی طرح کھیلنا چاہیے جیسے ہم نے اسے بنایا ہے۔ اور اُنہیں بھی اسی طرح کھیلنا ہو گا جیسے ہم نے طے کر دیا ہے‘۔“
عام مسلمانوں کے ذہن میں اس دھند لاتے تصور کی وجوہات میں جہاں صلیبی ذرائع ابلاغ کی تلبیسات ہیں، وہیں درباری اور علمائے سوء کے شبہات بھی ہیں جو مسلم ممالک پر امریکی تسلط کو بنیادیں فراہم کرتے ہیں، اس بنا پر کہ صلیبی افواج اور ان کے فوجی اڈوں کا مسلم ممالک میں موجود ہونا، قبضہ ہی شمار نہیں ہوتا، بلکہ ان کا وجود مختلف ممالک کے درمیان معاہدات، توافق ناموں اور مشترکہ اسٹریٹیجک مفادات کی بنا پر ایک شرعی وجود ہے۔ حالانکہ یہ معاملہ ولاء و براء کے عقیدے کے خلاف ہے اور کفار سے برأت شرعی فرض ہے۔
اور شاید عام مسلمانوں کے ذہنوں میں اس تصور کے الٹ ہونے کی بنیادی وجہ ان حق پسند اور باطل سے نفرت کرنے والے نیک علماء کی طرف سے حق گوئی میں کوتاہی ہے، جن کو چاہیے تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ کیے گئے عہد کا تقاضا پورا کرتے ہوئے امت کو حق بیان کرتے اور ظالموں کے سامنے اس کا ببانگِ دہل اظہار کرتے، بغیر کسی حیلے و حجت یا خوف و ڈر کے، اور آگے بڑھ کر لوگوں کی قیادت اور رہنمائی کرتے، اور اس شرارے کی طرح ہوجاتے جو امت مسلمہ میں پنہاں طاقتوں کے لیے محرک بن جائے اور امت کی حرمتوں اور مقدسات کے دفاع کے لیے مسلمانوں کو اٹھ کھڑا ہونے پر ابھارے۔
لیکن چونکہ وہ پر امن رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اس لیے درمیانہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں،اور جہادی مسائل اور حملہ آور دشمن کو پسپا کرنے سے متعلق بہت سے معاملات کو وہ ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ باوجودیکہ یہ علماء عشروں سے یہ بات یقین سے جانتے ہیں کہ بہت سے مسلم ممالک بالعموم اور جزیرۂ عرب کے ممالک بالخصوص ہزاروں کی تعداد میں صلیبی امریکی فوجیوں سے بھرے ہوئے ہیں، جنہوں نے وہاں کے زمینی،بحری اور فضائی اڈوں کو اپنے مراکز بنا لیا ہے، جن کے جہاز ہماری فضاؤں میں آزاد گھومتے پھرتے اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں، جن کے جنگی اور طیارہ بردار بیڑے ہمارے سمندروں کی موجوں کو چیرتے ہوئے جس ملک کو چاہیں گھیرے میں لے لیتے ہیں اور اسے خوراک اور ادویات سے محروم کر دیتے ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بہانے فرزندانِ اسلام میں سے جس پر چاہتے ہیں بمباری کر دیتے ہیں۔ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ!
مگر شدید افسوس ہے کہ یہ علماء پھر بھی اس سب کو ایسا تسلط نہیں گردانتے کہ جس سے ہم پر جہاد فرض ہو جائے، بلکہ وہ جہاد کے وجوب سے متعلق اپنے بیانات و فتاوی کو فلسطین میں قابض یہودیوں کے خلاف قتال کرنے تک محدود رکھتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ آج ان فتاوی کی یہود پر تطبیق کرنے سے بہت سی ان پابندیوں کی وجہ سے عاجز و قاصر ہیں، وہ پابندیاں جو ان پر امریکہ کی قیادت میں صہیونی صلیبی نظام نے عائد کر رکھی ہیں۔ ان میں سے پہلی پابندی ان کٹھ پتلی حکومتوں کی صورت میں ہے جو صہیونی ریاست کے لیے ایسے محافظ کتوں کا کردار ادا کرتی ہیں، جو سب سے پہلے مجاہدین سے اور ہر اس شخص سے نمٹتی ہیں جو یہودیوں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے کا سوچے۔
حالانکہ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ صہیونی ریاست نے جو بھی جنگ مسلمانوں سے لڑی ہے (جس کی آخری کڑی غزہ میں جاری جنگ ہے)، ان سب میں امریکہ نے اس نا جائز ریاست کو ایسی ہر قسم کی فوجی، سیکورٹی، سیاسی اور اقتصادی مدد فراہم کی ہے جو اس ریاست کی بقا کی ضامن ہو اور اس کے امن کو دائمی تحفظ فراہم کرے۔ لیکن یہ سب کچھ ان مشہور و معروف علماء کو امریکہ کے سامنے پوری قوت اور بہادری سے کلمۂ حق کہنے پر مجبور نہ کر سکا، لوگوں کو امریکیوں کے خلاف قتال پر ابھارنے کے لیے ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلا، اور نہ ہی ان قابضوں کے حملوں کو روکنے کے لیے ہر مسلمان پر فرض عین جہاد کی بابت انہوں نے فتوے جاری کیے یا خطبے دیے۔
لیکن یہ اللہ کا اپنے بندوں پر فضل و کرم ہے، اور اپنی حرمتوں پر اس کی غیرت ہے کہ اس نے اپنے دین کی نصرت کے لیے ہر دور میں اور ہر جگہ ایسے بندے باقی رکھے جن کے دلوں میں اس نے ایمان ثبت کر دیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم ہوتا دیکھ کر بیٹھ نہیں سکتے، دین کے متعلق کسی قسم کی ذلت انہیں گوارا نہیں، اور نہ ہی اللہ (کے دین پر چلنے) کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے انہیں ڈر ہے۔ وہ قسمیں اٹھا چکے ہیں کہ نہ تو سکون سے سوئیں گے اور نہ ہی ان کی زندگی میں آرام آئے گا جب تک کہ ایک بھی یہودی یا صلیبی ہماری مبارک مقدس سرزمینوں پر باقی ہو۔ ان لوگوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گیارہ ستمبر اور سات اکتوبر جیسی بابرکت کارروائیاں سر انجام دیں جن سے مومنین کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچی اور اللہ کے دشمن کفار غیظ وغضب میں مبتلا ہوئے۔
اسی طرح ان دونوں واقعات نے ایک بڑا سوال جنم دیا اور وہ یہ کہ آیا معاملہ اتنا گھمبیر تھا کہ یہ سب کچھ ہو؟ دوسرے الفاظ میں آیا ان مقدس سرزمینوں کو آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا، عزتوں کو پامال ہونے سے بچانا اور دشمنوں کے حملوں کو روکنا ایسا مقصد تھا کہ جس کی خاطر امت کی طرف سے اپنے بیٹوں اور جگر گوشوں کے خون بہانے، اپنے شہروں اور ہسپتالوں کے تباہ ہونے اور خواتین و بچوں کے بے گھر ہو جانے جیسی بیش قیمت قربانیاں دی جاتیں؟
میرے خیال میں اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ہاں! بلکہ یہ معاملہ اس سے بھی زیادہ کا حق دار تھا، چاہے تمام مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا! اصحابِ اخدود کے قصے میں ہمارے لیے عبرت بھی ہے اور واضح دلیل بھی۔ توا گر ہم فرض کریں کہ آج سب کے سب فلسطینی بھائی اور مسلمانوں میں سے ان کے مدد گار فلسطین اور مسجد اقصیٰ کو غاصب یہودیوں کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے ہتھیار اٹھالیں اور پھر ان سب کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے، تو کیا کوئی یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ انہوں نے اپنی جانیں ضائع کر دیں؟ یا کوئی یہ کہہ سکے گا کہ ان کے لیے بہتر تھا کہ وہ اپنی جانیں بچانے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادیں قبول کر لیتے، فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو تسلیم کر لیتے، اور امرِ واقع کی بنا پر غلامی قبول کر لیتے اور یہودیوں کی حکمرانی میں ذلت آمیز زندگی گزار لیتے؟
اگر مسلمانوں میں سے کوئی حملہ آور گروہ آپ کے گھر کو پھلانگتا ہوا گھس آئے، آپ کا مال و متاع لوٹنا چاہے اور آپ کے گھر کی حرمت پامال کرنے کا ارادہ کرے تو اس کو بھگانے اور اس سے لڑنے میں نہ کوئی آپ سے اختلاف کرے گا اور نہ کوئی آپ کو ملامت کرے گا چاہے اس کے نتیجے میں آپ اور آپ کے تمام گھر والے مارے ہی کیوں نہ جائیں۔
اگر ایسا ہے تو پھر اگر حملہ آور ہمارے دین و ملت کے دشمن یہودی،صلیبی امریکی اور ان کے علاوہ دیگر ہوں تو اس کا کیا جواب ہو گا؟ وہ دشمن جو ہماری سرزمینوں اور مقدسات پر قبضہ کرنے کے لیے چڑھائی کریں،ہمارے وسائل لوٹیں، ہمیں دین کے معاملے میں فتنے میں مبتلا کریں، کفر کی پیروی اور اپنی ملت کی تابعداری کی طرف ہمیں دھکیلنا چاہیں، ہمارے فیصلے ہمارے ہاتھ سے چھیننا چاہیں اور ہمیں اپنے منصوبوں کے مطابق طے شدہ ایسی بھول بھلیوں میں گھمانا چاہیں، جس کھیل کے اصول خود انہوں نے وضع کیے ہوں؟
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (سورۃ البقرۃ: ۲۱۷)
”اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کے تمہیں تمہارے دین سے پھیر دیں اگر کر سکیں، اور تم میں سے جو کوئی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں اپنی جان دے گا اس کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے، ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور وہ ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔“
اور فرمایا:
وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ (سورة البقرة: 120)
”اور یہود و نصاریٰ تو آ پ سے اس وقت تک کبھی خوش نہیں ہو سکتے جب تک کے آپ ان کے دین کی پیروی نہ کرنے لگیں۔“
اور شاید ہمارے سامنے اس خاص نکتے کی سنہری مثال ملا عمر اور افغان علماء کا وہ موقف ہے جو انہوں نے شیخ اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے کے معاملے میں اپنایا۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اس مسئلے پر بہت شور مچایا گیا تھا۔ تب اس پورے معاملے کو ملا عمر نے علماء کے سامنے پیش کیا تاکہ وہ شریعت کے مطابق فیصلہ جاری کریں۔تو اس وقت کے اتحاد علمائے افغانستان کے صدر مولوی عبداللہ ذاکری شہید نے فتویٰ جاری کیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ (شیخ اسامہ کو حوالے کرنا) نہ شرعاً جائز ہے اور نہ سیاستاً، کیونکہ امریکیوں کے مطالبات یہاں پر ختم ہونے والے نہیں،بلکہ اس کے علاوہ وہ خواتین پر پردے کی پابندی ختم کرنے کا بھی مطالبہ کریں گے، قصاص اور شرعی حدود کو روکنے کا بھی مطالبہ کریں گے، تمام احکام شرعیہ کو بھی معطل کرنے کا مطالبہ کریں گے، وہ خالص کفری حکومت اور انسانوں کے وضع کردہ احکام نافذ کرنا چاہیں گے، اس کے ساتھ وہ ایسی حکومت بنائیں گے جو ان کی ایجنٹ ہو۔ پھر وہ تب ہی خوش ہوں گے جب افغان اپنے عقیدے اور صورت و سیرت میں بھی ان کی خواہش کے مطابق ہو جائیں۔ اور اگر ہم اس طرح ہو گئے تو اللہ ہرگز ہم سے راضی نہیں ہو گا۔
اور یہی ہوا کہ علماء کے فتوے کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ملا عمر نے شیخ اسامہ کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ اور یاد رکھیں کہ ان کو اس بات کا یقین تھا کہ اس فیصلے سے ان کا یہ ملک صلیبی قبضہ میں جا سکتا ہے اور اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔ میں پھر سے دہراتا ہوں کہ ملا عمر کو اس بات کا یقین تھا کہ ان کے فیصلے سے افغانستان صلیبی قبضے میں جا سکتا ہے، اور اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔ اس کے باوجود امیر المومنین ذرا سا بھی جھکنے پر آمادہ نہیں ہوئے، اور امریکی دباؤ میں قطعاً نہیں آئے اور نہ ہی اپنے دین کے معاملے میں ذلت کو گوارا کیا، اور ایک مسلمان شخص کو کفار کے حوالے کرنے کے لیے دین کے کسی مسلمہ اصول سے دستبردار نہ ہوئے۔ اور جب ان کو دھمکیاں دی گئیں کہ امریکہ ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے اپنی فوجیں اتار دے گا تو انہوں نے اپنا مشہور مقولہ ارشاد فرمایا :
’’اللہ کی قسم اگر افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بھی بجا دی جائے تو میں تب بھی اسامہ کو امریکہ کے حوالے نہیں کروں گا۔‘‘
اُس وقت امیر المومنین ملا عمر کا یہ موقف اللہ کے رسول ﷺ کے اس موقف سے کتنی مشابہت رکھتا ہے جب انہوں نے درخت کے نیچے چودہ سو صحابہ سے صرف ایک مسلمان کی خاطر موت پر بیعت لے لی، جن کو اللہ کے رسول ﷺ نے قریش کی طرف بھیجا تھا اور افواہ پھیل گئی تھی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔
میں سب مسلمانوں سے بالعموم اور ارد گرد کے ممالک مصر، اردن، شام،اور لبنان میں بسنے والے مسلمانوں سے بالخصوص کہتا ہوں! اگر رسول اللہ ﷺ نے چودہ سو صحابہ سے صرف ایک مسلمان کے قتل ہو جانے کی اس افواہ کی بنیاد پر موت کی بیعت لے لی، جو تحقیق شدہ بھی نہ تھی تو تم اپنے رب کو کیا جواب دو گے جب وہ تم سے اہل غزہ کی نصرت کے بارے میں پوچھے گا؟ تم کیا عذر بنا سکو گے جبکہ تم لوگ براہ راست دیکھتے ہو کہ بندروں اور خنزیروں کی اولاد نے غزہ میں 20 لاکھ سے زائد تمہارے مسلمان بھائیوں میں قتل و غارت کا ایک بھیانک بازار گرم کر رکھا ہے، حالانکہ یہودی تو تم سے ایک پتھر پھینکنے کی دوری پر ہیں۔
کیا تم یہ کہو گے کہ ہمیں ولی الامر نے اجازت نہیں دی کیونکہ وہ صہیونی حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقات کو معمول پر لا چکا تھا؟ یا پھر یہ بہانہ بناؤ گے کہ ہمیں ہمارے اموال اور اہل وعیال کی فکر نے یا پھر فٹبال کے مقابلوں اور ’تفریحی موسموں‘ (Entertainment Seasons)نے مصروف کر رکھا تھا؟ یا پھر یہ کہو گے کہ ہم تو زمین میں کمزور کیے گئے تھے؟ تو تب تمہیں کہا جائے گا کہ’’ کیا اللہ کی زمین اتنی وسیع نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟‘‘۔
اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! غزہ نے کسی کے لیے کوئی دلیل یا عذر باقی نہیں چھوڑا، جبکہ غزہ کے نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین نے اپنے جگر گوشوں،بہترین اموال، گھر بار اور امن جیسی قیمتی ترین چیزوں کو رسول اللہ ﷺ کے مسریٰ (سفرِ معراج پر روانہ ہونے کے مقام) پر قربان کر کے ہمیں ایمان، طلب ِ اجر، اور قربانی کے عملی اسباق سکھا دیے۔
غزہ کے جوانمردوں نے اپنے قلیل ترین وسائل، تنگ دستی، اور مددگار اور معاون کی نایابی کے باوجود اور محاصرے، بائیکاٹ، بھوک، دربدری اور بمباریوں کے باوجود، ہمیں اعداد (جہاد کی تیاری) میں نا ممکن کو ممکن کرنا سکھایا۔ انہوں نے سرنگیں کھودیں، یاسین راکٹ اور غول سنائپر ڈیزائن کیے، جاسوسی کرنے اور مارنے والے ڈرون طیارے اور قسام راکٹ بنائے۔
غزہ کے جوانمردوں نے ہمیں یہ سکھا دیا کہ اگر ہم شرعی اور تکوینی اسباب اختیار کریں، قربانی کا پکا ارادہ اور سچا عزم کریں، اور کمزوری اور بے بسی کے بہانے بنانے کے مرض سے نکل آئیں تو اس آسمان تلے کچھ بھی ہونا نا ممکن نہیں۔
اور معرکۂ طوفان الاقصیٰ سے حاصل ہونے والے ان بہت سے اسباق میں سے ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ آج یہ بات ہر خاص و عام پر بلا شک و شبہ واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ ہی اسلام اور مسلمانوں کا اوّلین دشمن ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کی طرف شیخ اسامہ بن لادن گزشتہ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے دعوت دیتے رہے اور مسلمانوں کے ذہنوں میں اس کو راسخ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ مسلمانوں کو آگاہ کرتے رہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا پہلا دشمن یہی صہیونی صلیبی گٹھ جوڑ ہے جو امریکہ کی قیادت میں پوری دنیا پر مسلط ہے۔ اور حقیقت میں مسلمانوں اور اس گٹھ جوڑ کے درمیان ایک عظیم جنگ جاری ہے۔ یہ کفر واسلام کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہے۔ اور اگر ہم جہاد سے لا پرواہ رہے تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اس جنگ کے اسلام اور مسلمانوں پرکتنے خطرناک نتائج اور برے اثرات مرتب ہوں گے۔
شیخ اسامہ یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ ہی اس کرۂ ارض پر شر کی جڑ ہے، یہی مسلمانوں پر ہونے والے ہر ظلم و جبر اور تشدد کا سبب ہے، مسلمانوں پر آنے والی ہر مصیبت کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے، یہی ہے جو ہمارے درمیان اور جزیرۂ عرب اور فلسطین میں واقع ہمارے مقدسات کی آزادی کے درمیان حائل ہے اور یہی ہے جو ہمارے اور شریعت الہٰی نافذ کرنے والی حکومت کے قیام کے بیچ رکاوٹ ہے۔ اسی لیے شیخ اسامہ اپنی دعوت میں اس کی بھر پور کوشش کرتے تھے کہ تمام مجاہدین متحد ہو جائیں، اور ان کا اوّلین اور اہم ترین ہدف سانپ کے سر امریکہ پر ضرب لگانا ہو، خصوصاً ان کے اپنے ملک میں۔ کیونکہ امریکہ اگر اس جنگ کے دائرے سے شکست کھا کر باہر ہو جائے تو اس کے باقی مدد گار اور آلہ کار کے ساتھ لڑنا آسان ہو جائے گا اور پھر وہ یکے بعد دیگرے ہارتے جائیں گے باذن اللہ۔
پس امریکہ کفر کا سر ہے جس کو جب اللہ کاٹ دے گا تو اس کے پر کاٹنا مشکل نہیں رہے گا۔ جیسا کہ حضرت عمر بن الخطاب نے ہرمزان سے مشورہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ حضرت عمر نے ہرمزان سے کہا کہ مجھے اچھا مشورہ دو کیونکہ تم اہل فارس کو زیادہ جانتے ہو۔ تو ہرمزان نے جواب دیا کہ فارس کا آج ایک سر اور دو پر ہیں۔ حضرت عمرنے پوچھا کہ سر کہاں ہے؟ اس نے کہا، نہاوند۔ پھر اس نے دونوں پروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اے امیر المومنین! آپ اگر دونوں پر کاٹ دیں تو سر کمزور پڑ جائے گا۔ جس پر حضرت عمر نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن تو نے جھوٹ کہا! بلکہ میں سر کی طرف بڑھ کر اسے کاٹوں گا، پس اگر اللہ نے اسے کاٹ دیا تو دونوں پر بھی بے کار ہو جائیں گے۔
اور اسی درست فہمِ عمری کے مطابق شیخ اسامہ نے تنظیم القاعدہ کی پالیسی بنائی۔ وہ اپنے اکثر بیانات میں امت کے دشمنوں کو ایک خبیث درخت سے تشبیہ دیا کرتے تھے کہ جس کا 50 سینٹی میٹر کا تنا امریکہ ہے، جبکہ اس کی بے شمار شاخیں مختلف موٹائی کی ہیں، ان شاخوں میں نیٹو ممالک اور خطے کی دیگر آلۂ کار حکومتیں شامل ہیں۔
ہم اس درخت کو کاٹ کر گرانا چاہتے ہیں، مگر ہماری طاقت محدود ہے تو اس کو گرانے کا زیادہ بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی توجہ امریکی تنے کو کاٹنے پر مرکوز رکھیں۔ اگر ہم نے امریکی تنے کو اندر تک کاٹنے پر توجہ دی یہاں تک کہ تیس سینٹی میٹر کی گہرائی تک پہنچ گئے اور پھر ہمیں اس کی برطانوی شاخ کو کاٹنے کا بھی موقع ملا، تو ہم ایسا نہیں کریں گے جب تک امریکی تنے کو کاٹنا ممکن ہو، کیونکہ ایسا کرنے سے ہماری کوششیں بکھر جائیں گی اور طاقتیں ضائع ہوں گی۔
اگر امریکی تنے کی کٹائی جاری رہی یہاں تک کہ وہ گر جائے تو باقی شاخیں لازما خود بخود گر جائیں گی۔ اور اس کی بہترین مثال وہ اثرات ہیں جو افغانستان میں مجاہدین کی طرف سے سوویت یونین کا تنا کاٹنے کی صورت میں پیدا ہوئے۔ جس کے نتیجے میں جنوبی یمن سے لے کر مشرقی یورپ تک اس کی شاخیں یکے بعد دیگرے گرتی چلی گئیں۔
اسی طرح معرکۂ طوفان الاقصیٰ نے وہ بات بھی ثابت کردی جو شیخ اسامہ بار بار دہرایا کرتے تھے کہ امریکہ اور یہود ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت ماضی میں بہت سے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہی مگر آج سات اکتوبر کے واقعات کے بعد ہر قریب و بعید کے سامنے یہ حقیقت اس روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی جس کا انکار ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ پس غزہ میں دسیوں ہزاروں کی تعداد میں جو خواتین اور بچے مارے گئے اور دسیوں ہزاروں عمارتیں اور گھر اپنے مکینوں پر گرا کر تباہ کیے گئے یہ سب اس گولہ بارود، ہتھیاروں اور میزائلوں سے ہوا جو امریکہ نے نا جائز صہیونی ریاست کو فراہم کیے تھے، پھر یہ سب کچھ بے شرم مغرور امریکہ کی شاباشی اور سیاسی حمایت کے ساتھ ہوا۔ امریکہ نے یہودیوں کو ہری جھنڈی دکھائی کہ وہ غزہ میں ہمارے لوگوں کا جتنا بھی قتلِ عام اور اجتماعی نسل کشی کرنا چاہیں وہ کریں، نہ کسی کی نگرانی کی انہیں پروا ہ ہو اور نہ ہی کسی کی طرف سے پوچھ گچھ کا ڈر۔ اور یوں غزہ میں اور بالعموم فلسطین میں ہمارے کمزور بھائیوں کی چوبیس گھنٹے جاری اجتماعی نسل کشی کے عمل میں امریکہ مرکزی شراکت دار بن گیا اور ا س حقیقت پر بہت سے تجزیہ نگار اور مبصرین کے علاوہ منصف مزاج غیر مسلم بھی متفق ہیں۔
معرکۂ طوفان الاقصیٰ سے یہ نتیجہ بھی سامنے آیا کہ اس نے یورپی اور امریکی عوام کے ایک بہت بڑے حلقے کے ذہنوں کی تشکیلِ نو کی۔ ان واقعات نے ان پر یہ ظاہر کیا کہ انہیں کس حد تک حقیقت سے اوجھل اور بے خبر رکھا گیا اور یہ بھی ظاہر کیا کہ کس حد تک ان کی حکومتیں انہیں دجل، جھوٹ، اور منافقت سے دھوکا دیتی رہیں۔
جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ یہ عوام لاکھوں کی تعداد میں فلسطین کی آزادی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، انہوں نے فلسطین میں جاری نسل کشی کی مذمت کی، اپنی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسرائیل کی حمایت اور اس کو ہتھیار کی فراہمی بند کی جائے، اور اسرائیل کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔
اسی طرح غزہ کے ان واقعات سے امریکہ کو دیے گئے شیخ اسامہ کے پیغامات تئیس سال بعد دوبارہ منظر عام پر آ گئے، امریکی اور بین الاقوامی سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پھیل گئے، اور لاکھوں افراد نے ان کو پڑھنے کے بعد اپنا ردّ ِعمل ظاہر کیا۔ شیخ اسامہ کی منطق اور دلائل کی بابت ان لوگوں نے اپنے تجزیوں اور نظریات کا از سر نو جائزہ لیا، اور یہ کہ شیخ اسامہ نے اپنے بیانات اور پیغامات میں جو بھی جواز پیش کیے وہ اس جنگ کا فطری اور منطقی ردِّ عمل تھا جس کا اعلان شیخ اسامہ نے امریکہ کے خلاف کیا تھا۔ کئی امریکی نوجوانوں نے ان پیغامات کو قبول کرتے ہوئے آگاہی کی مہم بھی چلائی، اور اس کے ذریعے ہر اس امیدوار کو بے نقاب کیا چاہے وہ رپبلکن پارٹی کا ہو یا ڈیموکریٹک اور ہر اس جہت اور ادارے کو بھی جو صہیونی لابی سے پیسے وصول کرتا ہو۔
اس بیان کے اختتام پر ہم مردانگی، غیرت اور حمیت سے متصف اُن افراد کو پیغام دینا چاہیں گے جو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں انفرادی جہاد کے شہسوار ہیں۔ ہم ان سے کہتے ہیں کہ آپ کے لیے عار کی بات ہو گی کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کو قتل کرنے کی کوشش کرنے والا کفر پر ہوتے ہوئے آپ سے زیادہ جرأت مند اور بہادر نکلے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایسے ممالک میں رکھا ہے جہاں آپ ملتِ کفر پر وار کر سکتے ہیں۔ کافر آپ کی رسائی میں ہیں اور آپ کے سامنے آتے جاتے ہیں۔ وہ افراد جو یہودیوں کے ہر مہلک اقدام کی تائید و حمایت کرتے ہیں، چاہے یہ افراد فوجی ہوں یا سیاست دان، پارلیمنٹیرین ہوں یا بڑے سرمایہ دار اور کمپنیوں کے مالک یا چاہے اذیت رسائی سے لطف اندوز ہونے والے رسوا کن منظر میں شامل وہ لوگ ہوں جنہوں نے کانگرس میں کھڑے ہو کر خواتین اور بچوں کے قاتل اور انسانی تاریخ کی بد ترین نسل کشی کے مرتکب مجرموں کو خوشی سے اعزاز دیا اور ان کے لیے تالیاں بجائیں۔
پس اپنی تلواریں سونت لیں، دشمن کی تاک میں رہیں، اور ان پر ٹوٹ پڑیں۔ آپ میں سے ہر ایک کا یہ نعرہ ہو کہ لا نجوتُ إن نجوا (یا تو تم بچو گے یا میں)۔ اللہ سے مدد مانگیں اور بے بسی میں مبتلا مت ہوں۔ آپ میں سے کوئی اپنے عمل کو حقیر نہ جانے، کیا معلوم اللہ تعالیٰ آپ کی انفرادی کاروائیوں کو قبولیت سے نواز ے اور ان کو پانسہ پلٹنے کا براہ راست ذریعہ بنا دے اور آنے والے واقعات اور پالیسیوں کو آپ کے فلسطینی بھائیوں کے حق میں کر دے۔
اگر آپ یہ کرنے سے انکاری ہیں تو اتنا تو آپ کے لیے ممکن ہے کہ آپ وہ کر دکھائیں جو آپ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔ جیسے ترکیہ اور کینیڈا سے آپ کے بعض مسلمان بھائیوں نے کیا اسی طرح آپ بھی مقبوضہ فلسطین کی طرف رخت سفر باندھیں اور وہاں متعدد طریقوں اور وسائل سے یہودیوں پر حملہ کریں۔ چاہے وہ استشہادی کارروائی ہو، گاڑیوں سے کچلنا ہو، خنجروں کا وار ہو، آتشیں اسلحے کے ذریعے قتل ہو یا جنگلات جلانے سمیت دیگر طریقے ہوں۔
لیکن اگر آپ لوگوں نے خاموش بیٹھے رہنے کو ترجیح دی اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جسے کل اللہ کے ہاں بطورِ عذر پیش کر سکیں تو اللہ کی قسم آپ تباہی اور خطرے کے دہانے پر ہیں۔ اپنے دین کو بچا لیں، اپنے بھائیوں کو رسوا نہ کریں، اور اللہ پر توکل کریں۔
اے فلسطین اور خصوصاً باعزت غزہ میں جیش العسرۃ(یعنی ہمہ قسم مشکلات میں گھرے لشکر) کے بہادرو! جہاں تک آپ کا تعلق ہے، میں اللہ تعالیٰ ربِّ عرشِ عظیم سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کے دلوں کو مضبوط کرے، آپ کو ثابت قدم رکھے،آپ کے نشانے درست بٹھائے، آپ کی شوکت اور طاقت میں اضافہ کرے اور ہمارے اور آپ کے دشمن کے دل پر رعب و دہشت طاری کر دے۔
آپ اپنے جہاد کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہیں۔ آپ لوگ حق پر قائم اللہ کی راہ میں قتال کر رہے ہیں، آپ کو نہ رسوا کرنے والا کوئی نقصان پہنچا سکے گا اور نہ مخالفت کرنے والا۔ قربانیوں کی کثرت، مصیبتوں کا پے درپے آنا، تعداد کی قلت، مدد گار کی نایابی اور راستے کی طوالت کہیں آپ کی مضبوطی میں کوئی رخنہ نہ ڈال دے۔ یقیناً نصرت صبر کے بل بوتے پر آتی ہے، پس اپنی جد و جہد جاری رکھیں اور مشکلات سے مت گھبرائیں، نہ سستی دکھائیں اور نہ ہی غمزدہ ہوں کہ آپ ہی بر تر و اعلیٰ ہیں۔
اپنے رب کو کثرت سے گڑگڑا تے ہوئے عاجزی سے پکاریں اور غزوۂ خندق کا وہ وقت یاد رکھیں جب نبی پاک ﷺ اپنے اصحاب کو کسریٰ و قیصر کے خزانوں کی خوشخبری سنا رہے تھے۔ مشکلات کے ساتھ اللہ کی مدد سے رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اور آپ کے پاس مدد آ چکی ہے، دشمن اللہ کی مدد سے اسی طرف چل نکلا ہے جس طرح آپ نے منصوبہ بنایا تھا اور اللہ کے فضل سے اس منصوبے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ پس کثرت سے دعائیں مانگیں، آپ ہی اس امت کا ہر اول دستہ ہیں، اپنے دین کی خاطر اپنی جانوں کو بچائے نہ رکھنا۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
٭٭٭٭٭
1 یہ بیان ۱۱ ستمبر ۲۰۲۴ء سے قبل نشر ہوا۔ (ادارہ)