طوائف الملوکی اور سانحہ سقوطِ اندلس
پندرھویں صدی عیسوی کے سورج کے ساتھ ہی اندلس میں آخری اسلامی سلطنت غرناطہ کا سورج بھی غروب ہورہاتھا(جنوری 1492ء بمطابق ربیع الاول 897 ھ)۔یہ المیہ جس کی تکمیل اب جاکر ہوئی اس کا آغاز پونے پانچ صدی قبل 422 ھ میں ہوچکا تھا، جب وزیر ابو حزم بن جہور نے اندلس میں اموی سلطنت کے خاتمے کا اعلان کیا ، کیونکہ اموی مدعیانِ حکومت چوتھی صدی کے اواخر 399 ھ سے ایک دوسرے کے خلاف نبردآزما تھے۔ اس اعلان کا نتیجہ اس تاریخی سانحے کی صورت میں نکلا جو (ملوک الطوائف) کے نام سے معروف ہے ، اسی سے آگے چل کر طوائف الملوکی (لامرکزیت وانتشار) کی اصطلاح وضع ہوئی۔ ہر علاقے کا سردار اور ہر صوبے کا گورنر مطلق العنان حکمران بن بیٹھا۔قرطبہ ، اشبیلیہ ، مالقہ، غرناطہ ، طلیطلہ، بطلیوس، سرقسطہ جو کبھی ایک متحدہ سلطنت کے صوبے تھے ،اب خودمختار مملکتیں بن چکے تھے،کہیں بنو ہود تھے تو کہیں بنو حمود،ایک جگہ بنو جہور کا تسلط تھا تو دوسری جگہ بنو افطس کی شاہی تھی، یہیں بنو عباد کی سلطنت بھی آباد تھی اور بنورزین سے بھی مسندِ اقتدار مزین تھی۔چھوٹے چھوٹے راجواڑوں کے یہ تاجدار اپنا قطعۂ ارضی بڑھانے اور سیاسی قد اونچا کر نے کے لیے اپنے ہمسایوں کی زمین ہتھیانے کی کوشش بھی کرتے رہتے تھے اور اس کے لیے شمال کی مسیحی سلطنتوں لیون، ارگون اور قشتالیہ سے مدد لیتے نہ شرماتے تھے ،بدلے میں انہیں اپنی زمین اور قلعے دیتے تھے اور سالانہ خراج بھی ادا کرتے تھے۔
اس وقت اقوامِ متحدہ نہیں بنی تھی جس کی ساحری مسلمانوں کو اور سلادیتی، اس لیے علمائے کرام اور عامۃ المسلین نے اپنی حکومتوں کو ناقابلِ اعتبار قرار دے کر بحیرہ روم کے اُس پار نئی ابھرتی اسلامی سلطنت مرابطین کے بانی امیر یوسف بن تاشفین (400-500 ھ) کو اندلس پر حملے اور صلیبیوں کی طاقت کچلنے کی دعوت دی اور اپنی تائید ومدد کی یقین دہانی کروائی۔مسیحیوں کے اصل ارادے، اندلس سے مسلمانوں کے خاتمے، کو بھانپ کر بعض ملوک الطوائف بھی اس پر آمادہ ہوگئے ،آخر 479 ھ کو سلطان یوسف بن تاشفین اندلس میں داخل ہوئے ،مسیحیوں کے مرکز شمال کی جانب پیش قدمی کی اور زلاقہ کے میدان میں انہیں عبرت ناک شکست دی ،اس کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔ادھر ملوک الطوائف جن کی فطرت عیاشیوں نے مسخ کردی تھی حاصل شدہ غنائم اور نومفتوحہ علاقوں کی تقسیم پر باہم دست وگریباں ہوگئے اور خطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں دوبارہ عیسائی قابض نہ ہوجائیں۔ علمائے کرام نے یوسف بن تاشفین سے درخواست کی کہ آپ اندلس کے مسلمانوں کی حفاظت کے لیے اندلس کو اپنی سلطنت میں شامل کرلیں ،لیکن امیر یوسف بن تاشفینحتی الامکان مسلمانوں کے ساتھ جنگ سے بچنا چاہتے تھے ،اس لیے انکار کرتے رہے ،یہاں تک امامِ غزالیاور شمالی افریقہ کے بڑے بڑے مالکی فقہاء نیز مصر کے بڑے عالم ابوبکر طرطوشینے فتویٰ دیا کہ آپ پر لازم ہے کہ اندلس کو اپنی سلطنت میں شامل کرکے وہاں کے مسلمانوں کو عیسائیوں سے تحفظ دیں ۔چنانچہ زلاقہ کے چار سال بعد 483 ھ آپ دوبارہ اندلس گئے ،اب کی بار مسلمان ملوک الطوائف سے جنگیں ہوئیں ، ان میں معتمد بن عباد پیش پیش تھا، لیکن انہیں شکست ہوئی اور پورا اسلامی اندلس مرابطین کی سلطنت میں شامل ہوگیا۔ یوں ملوک الطوائف کاایک عہدِ ظلمت اپنے اختتام کو پہنچا۔لیکن مرابطین کے کمزور پڑنے کے بعد کچھ عرصے کے لیے یہ ملوک الطوائف پھر ابھر آئے اور اس مرتبہ موحدین نے انہیں ختم کیا ۔ کچھ عرصے خود ان کا اپنا تسلط اندلس پر کمزور پڑگیا تو یہ شجرۂ خبیثہ پھر ابھر آیا اور اس مرتبہ صلیبیوں نے انہیں صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا۔ صرف بنو احمر کی سلطنتِ غرناطہ باقی رہی وہ بھی اپنوں کے تفرقے کی وجہ سے صلیبیوں کی بھینٹ چڑھ گئی ۔تاریخ نے اپنے صفحات میں یہ عبرت بھی محفوظ کررکھی ہے کہ غرناطہ کے سقوط کے بعد جب مسلمانوں کا کوئی پرسانِ حال نہ رہا تو بعض علماء مدد لینے مراکش گئے کہ اہلِ اسلام کی مدد کی جائے ،لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی ، پھر سلطانِ مصر قائتبائی کے پاس گئے ، مگر وہ ترکی کے عثمانی حکمران بایزید ثانی کے ساتھ جنگ میں مشغول تھا ، اس لیے اس کے پاس مدد کی فرصت نہیں تھی۔
بات زیادہ لمبی ہوگئی ، لیکن امت پر آج جو ذلت و مسکنت (جو بداعمالیوں کی وجہ سے یہود پر مسلط ہوئی تھی اور اب ہم اس میں سے اپنا حصہ پارہے ہیں) طاری ہے اس کی وجوہات جاننے کے لیے اتنا پیچھے جانا ہی پڑےگا ، تاکہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر حال میں ان سے بچیں اور امت کا مستقبل روشن ہو۔ورنہ مابعد استعماری دور کا یہ بیانیہ ہی ہمارے عقائد تک تشکیل دیتا رہے گا(اور دے رہا ہے ) کہ ’دنیا میں بہت سے اسلامی ملک ہیں ،جن میں ایک ہمارا پیارا وطن بھی ہے اور ان سب نے اقوامِ متحدہ میں شامل ہو کر آپسی سرحدات کے احترام کا معاہدہ کر رکھا ہے ،اس کی خلاف ورزی کسی صورت جائز نہیں ، چاہے کفار جتنی زیادہ بدعہدی کریں ، آج کے دور میں ووٹ میں، پرچی میں سب طاقت سمٹ آئی ہے ، اب تیر وتفنگ کا زمانہ نہیں رہا وغیرہ وغیرہ‘۔
عالمِ اسلام کے گرد گھیرا تنگ
آمدم برسرِ مطلب! پانچویں صدی ہجری کے اواخر سے ساتویں صدی کے اواخر تک دوصدیوں کی صلیبی جنگوں نے عالمِ مسیحیت کو یہ سبق سکھا دیا تھا کہ عالمِ اسلام کو اطراف سے اپنے شکنجے میں کسے بغیر اس کے مرکز کو اپنے تسلط میں لانا ممکن نہیں۔ گیارھویں صدی عیسوی میں صقلیہ پر قابض ہوکر صلیبی بہت پرجوش تھے اور مسلسل جنگوں اور سازشوں سے پندرھویں صدی عیسوی کے آخر تک اندلس پر بھی قابض ہوگئے ، مشہور مؤرخ شیخ محمود شاکر سوری لکھتے ہیں کہ صلیبیوں نے عالمِ اسلام کے خلاف اب یہ منصوبہ بنایا کہ عالمِ اسلام کے مرکز (ایشیائے کوچک اور مشرقِ وسطیٰ)سے دور کے علاقوں پر قبضہ کرکے مرکز کو کمزور کیا جائے ، اس وقت اہلِ یورپ یہ دریافت کرچکے تھے کہ دنیا گول ہے ، لہٰذا اسپین کی طرف سے کولمبس پاپائے روم کی آشیرباد اور فرڈیننڈ کے لشکر اور جہازوں کے ساتھ مغرب کی جانب نکل پڑا ،تاکہ گھوم کر مشرق میں ہندوستان تک پہنچ جائے جسے اس زمانے میں خوشحالی کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا، تاکہ معاشی طور پر مضبوط ہوکر مسلمانوں کا مقابلہ کر سکے، لیکن کولمبس بجائے ہندوستان کے موجودہ براعظم امریکا میں جا پہنچا ، وہاں مقامی باشندوں (جنہیں اس نے ہندوستانی سمجھ کر ان کی تانبے جیسی رنگت کی وجہ سے سرخ ہندی کا نام دیا) کو دھوکہ دے کر کچھ کو غلام بنالایا اور بہت سا سونا(جو وہاں وافر مقدار میں تھا)لوٹ لایا، لالچی فرڈیننڈ کی رال ٹپک پڑی اور اس نے پے در پے مہمات بھیج کر وہاں قبضہ کرلیا اور سولہویں صدی عیسوی کے شروع میں پرتگالی نژاد اسپینی فرڈیننڈ میگلن نے بحر الکاہل عبور کرکے موجودہ فلپائن پر قبضہ کیا ، یہ نام اسی کا دیا ہوا ہے اور اس وقت کے اسپینی بادشاہ فلپ کے نام پر ہے ۔یہاں انہوں نے شمالی فلپائن کی اسلامی حکومت کا خاتمہ کیا ، جس کے دارالحکومت کا نام مشہور سفرنامہ نگار محمد بن ناصر العبودی کے مطابق امانۃ اللہ تھا ، جو آگے چل کر منیلا (موجودہ فلپائنی دارالحکومت)بنا۔دوسری طرف پرتگالیوں نے مشرق کی طرف توجہ کی اور مشہور بحری قزاق واسکوڈی گاما افریقہ کے مغربی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا انتہائی جنوب میں جاپہنچا ، یہاں سے مشرق کی طرف سمندر مڑ رہا تھا، یہاں اس نے مشرقی افریقہ کے ساحل کی خوشحال مگر عسکری طور پر کمزور حکومتوں کا مشاہدہ کیا ، یہاں سے وہ بحرِ ہند میں داخل ہوا اور جنوبی ہند کی بندرگاہ کالی کٹ میں جااترا۔ قصہ مختصر! اسلامی حکومتوں کی عسکری کمزوری بالخصوص بحریہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پرتگالیوں نے جگہ جگہ اپنی نوآبادیاں قائم کرلیں اور تجارت پر بھی قابض ہوگئے ، سمندر میں سفر کرنے والے جہاز حتیٰ کہ حجاجِ کرام کے جہاز بھی ان کی ترکتازیوں سے محفوظ نہ رہے ۔پرتگالیوں کی فتوحات سے باقی اقوامِ یورپ کے منہ میں بھی پانی آنے لگا ، سو ہالینڈ والے، فرانسیسی اور انگریز بھی اس جنگ میں کود گئے ، ہندوستان کی طرح بقیہ عالمِ اسلام بھی استعماری شکنجے میں پھنستا چلا گیا۔
عالمِ اسلام صلیبی استعمار کے چنگل میں
پہلی جنگِ عظیم سے پہلے عالمِ اسلام کی صورتحال کچھ یوں تھی،انگریز 1857ء میں باقاعدہ دہلی پر قابض ہوچکے تھے،اس سے پہلے 1851ء میں وہ نائجیریا پر قبضہ کرچکے تھے،1888 ء میں مصر،1898 ء میں سوڈان،1914 ء میں عراق اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد 1918 ء میں اردن و فلسطین پر بھی ان کا تسلط ہوگیا۔دوسری طرف اسی انگریز استعمار نے افغانستان پر قبضے کے لیے افغانستان سے 1840ء، 1880ء اور 1918 ء میں تین جنگیں لڑیں ، لیکن اس غیرت مند قوم نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور اسے اس محاذ پر منہ کی ہی کھانی پڑی۔
صلیبی روس بھی پیش قدمی کرتا ہوا اہم اسلامی علاقوں پر قبضہ کرتا گیا ،یہاں تک کہ 1864ء میں قفقاز،1867ء میں تاشقند، 1868ء میں بخارا، 1873ء میں خیوہ اور 1884ء میں مرو پر قابض ہوگیا۔فرانس نے 1830 ء میں خلافتِ عثمانیہ کے صوبے الجزائر پر قبضہ کرلیا، 1881ء میں تیونس، 1882ء میں سنیگال و مڈغاسکر،1912ء میں مراکش اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد1921 ء میں شام پر قبضہ کرلیا۔اٹلی نے اسلامی افریقہ کو اپنا ہدف بنایا ، 1887 ء میں صومالیہ اور اریٹیریا پر حملہ کیا اور 1911ء میں لیبیا پر قبضہ کرلیا ۔1604 ء میں ہالینڈ انڈونیشیا پر قابض ہوگیا۔
اب صلیبی یورپ ہر طرف سے عالمِ اسلام کی مشکیں کس چکا تھا اور اس قابل ہوگیا تھا کہ مرکز پر قابض ہوسکے ، جہاں پہلے ہی اس کے گماشتے اپنا زہر قوم پرستی اور وطنیت کی صورت میں پھیلا رہے تھے ، جس کے نتیجے میں آخری بااختیار عثمانی سلطان عبد الحمید ثانی کو1909 ء میں قوم پرست ترک نوجوانوں کی تنظیم جمعیت اتحاد و ترقی نے معزول کرکے قید میں ڈال دیا ، اس کے بعد اقتدار پر ناعاقبت اندیش عسکری تکون، طلعت پاشا، انور پاشا اور جمال پاشا قابض ہوگئے، جنھوں نے خلافتِ عثمانیہ کو پرائی جنگ (پہلی جنگِ عظیم موجودہ روس یوکرائن جنگ کی طرح یورپی مفادات کی جنگ تھی ، جس میں خلافت کا غیرجانبدار رہنا اسے بہت فائدے اور استحکام دے سکتا تھا) میں دھکیل دیا (اس کی تفصیل کے لیے آخری شیخ الاسلام شیخ مصطفیٰ صبری کا رسالہ ’النکیر علیٰ منکری النعمۃ‘ ہر عربی دان کو ضرور پڑھنا چاہیے)، چنانچہ شکست کے بعد جرمنی کو تو محض اپنے بیرونی مقبوضات سے ہاتھ دھونے پڑے ، لیکن خلافتِ عثمانیہ کے لیے زندگی موت کا مسئلہ بن گیا۔
خلافت کا خاتمہ
دشمنانِ اسلام یہ جانتے تھے کہ اگر ہم نے اپنے ہاتھوں سے خلافت کا خاتمہ کیا تو مسلمان انتقامی جذبے کے تحت بہت جلد دوبارہ کہیں نہ کہیں اس کی بنیاد رکھ دیں گے، جیسے ہلاکوخان کے ہاتھوں 656 ھ میں بغداد کی تباہی اور خلیفہ کے قتل کے دو سال بعد انہوں نے مصر میں خلافت کی بنیاد رکھ دی، اس لیے اس مرتبہ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ مسلمانوں میں سے ہی کسی اسلام دشمن کو منتخب کرکے اس کے ہاتھوں یہ کام کروایا جائے ، تاکہ عالمِ اسلام میں اس پر کوئی سخت ردِ عمل نہ ہو ، اس مقصد کے لیے انگریز کی نگاہِ انتخاب مصطفیٰ کمال نامی ایک ترک افسر پر پڑی ، چنانچہ اسے یونان کے خلاف ایک سازش کے تحت مصنوعی کامیابی دلا کر غازی کے لقب سے مشہور کیا گیا ، یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ غازی مصطفیٰ کمال تو ترک قوم کو آزادی دلانا چاہتا ہے ، لیکن خلیفہ جو اتحادیوں کی قید میں ہے وہ اس کا مخالف ہے، (معاملے کی چشم کشا تفصیل ثبوتوں کے ساتھ تاریخِ امتِ مسلمہ از مولانا اسماعیل ریحان جلد پنجم میں ملاحظہ کریں ) یہ پروپیگنڈا اس زور شور سے کیا گیا کہ ہندوستان جو دفاعِ خلافت میں پیش پیش رہا وہ بھی مصطفیٰ کمال کا ہم نوا بن گیا، مولانا آزاد نے الہلال میں مصطفیٰ کمال کو غازی اور محافظِ اسلام لکھا ، مولانا سید سلیمان ندوی نے مصطفیٰ کمال کے مرنے پر معارف میں تعزیتی ’شذرہ ‘لکھا اور اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا (مولانا سیدسلیمان ندوی کی تحریر ’یادِ رفتگاں‘میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے)، اب اس کی شہرت ایک فاتح مسلمان قائد کی حیثیت سے ہونے لگی ۔1923 ء میں انگریزوں نے اس کے ساتھ لوزون معاہدہ کیا جس کی رو سے خلافت کے خاتمے اور ترکی کا اسلامی تشخص مٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔آخر 1924 ء میں مصطفیٰ کمال نے از خود خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ جس پہ اقبال مرحوم نے یہ مشہورِ زمانہ شعر کہا:
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ
مابعد استعماری دور کے لیے استعمار کا منصوبہ
اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ مسلمان احیائے خلافت کی دوبارہ کوشش نہ کریں مسلمانوں میں بالخصوص ترکوں میں جدت پسندی کی زبردست مہم چلائی گئی ، فحاشی وعریانی کو فروغ دیا گیا ، شکوک وشبہات پھیلائے گئے ، خلافت کو ایک ناکام اور از کار رفتہ نظام باور کرایا گیا، اسلامی وحدت کے خاتمے کے لیے قومیت و وطنیت کو فروغ دیا گیا۔خلافت کے خاتمے سے قبل ہی اس کے خلا کو پُر کرنے کے لیے 1917 ء میں لیگ آف نیشنز نامی ایک عالمی ادارے کی بنیاد رکھ دی گئی ۔
نام نہاد آزادیاں
اب استعمار نے واپسی کے لیے رختِ سفر باندھنے کی نیت کرلی ، کیونکہ وہ جی بھر کے مقبوضہ ممالک کو لوٹ چکے تھے ، نیز ان ملکوں میں آزادی کی تحریکات بھی شروع ہوچکی تھیں ، جن کی وجہ سے ان ممالک پر قبضہ برقرار رکھنے کا خرچہ حاصل ہونے والی کمائی سے زیادہ ہوگیا تھا، پھر استعمار اپنے قبضے کے دوران ایک ایسی نسل تیار کر چکا تھا جو ذہنی غلامی کا شکار تھی اور استعمار نے زمامِ اقتدار انہی اپنے پروردوں کو سونپی ،تاکہ وہ براہِ راست قبضے کے جھنجٹ میں پڑے بغیر دور سے بیٹھ کر ڈوریں ہلاتے رہیں اور وسائل لوٹتے رہیں ۔
ان کا یہ منصوبہ اتنا مختصر المیعاد نہیں تھا ، لیکن ہوا یہ کہ مشرقی ممالک کے وسائل کی بندربانٹ پر خود چوروں میں ہاتھا پائی شروع ہوگئی اور 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہوگیا،استعماری طاقتوں کے وسائل کا بڑا حصہ اس میں خرچ ہوگیا ، جس سے وہ اپنے اخراجات کم کرنے پر مجبور ہوگئیں، چنانچہ جنگ کے فوراً بعد اسلامی ملکوں کو دھڑا دھڑآزادیاں ملنے لگیں۔ آزادی دینے کے بعد بھی استعماری طاقتوں نے یہاں کے مادی و روحانی استحصال کی سوچ ترک نہیں کی، لہٰذا آزادیاں عطا کرنے سے پہلے ہی اقوامِ متحدہ بنا کر ان نوآزاد ملکوں کو جبری معاہدوں کا پابند بنا دیا گیا۔آزادی ملی بھی تو اس طرح کہ جہاں پہلے ایک ملک تھا وہاں اب کئی ممالک بنا دیے گئے ،مسلم اکثریتی علاقوں کو جبری نقل مکانی اور نصرانیت کی تبلیغ سے مسلم اقلیتی علاقے بنادیا گیا ،فلپائن اس کی واضح مثال ہے۔ستم بالائے ستم یہ کہ نئی وطنی ریاستوں کی حدبندی اس طرح کی گئی کہ پڑوسیوں کے سرحدی تنازعات کبھی ختم نہ ہوں اور وہ انہی استعماری ملکوں کی مدد کے محتاج رہیں ۔
’آزادیوں ‘ کے بعد عالمِ اسلام میں اسلام کی حالتِ زار
غرض ! عالمِ اسلام کے موجودہ سیاسی نقشے کا حقیقی پس منظر یہ ہے ، کسی آزاد ملک نے اپنی چاہت و رضا سے نہ یہ لکیریں کھینچی ہیں ، نہ یہ معاہدے کیے ہیں اور نہ امت کے حقیقی نمائندوں کے ساتھ معاملات طے ہوئے ہیں ، بلکہ یہ معاہدات تو استعمار نے جبراً کروائے ہیں اور اپنے ہی آلہ کاروں سے کیے ہیں اور ان کے نتائج بھی کبھی امت کے حق میں نہیں گئے ، بلکہ الٹا ان سیاسی حد بندیوں اور تفرقوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے ، اب اسلامی ممالک اسرائیل کو بھی تسلیم کرکے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کررہے ہیں، جزیرۂ عرب کو فحاشی کا اڈہ بنایا جارہا ہے ،اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں باپردہ اسلام پسند خواتین کو فاسفورس بموں سے جلادیا گیا، ہم جنس پرستوں کو قانونی تحفظ دیا جارہا ہے ، تبدیلیِ جنس کے شیطانی عمل کو فرد کا حق باورکروایا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے کھلے بندوں الحاد کی دعوت دی جارہی ہے۔اقتصادی حالت دگرگوں ہے ، قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے ،نہ عزتیں محفوظ ہیں نہ مال وجان اور نہ دین وایمان۔یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ، البتہ اب کھل کر یہ چیزیں سامنے آرہی ہیں ، آزادی عطا کرنے سے قبل ہی استعمار نے ایسے نظام کے قیام کی یقین دہانی کرلی تھی جس میں معاشرہ دن بدن دین سے دور ہوتا جائے،اور واقعتاً ایسا ہوا بھی ، تفصیل کے لیے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی دو کتابیں : ’مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش‘ اور’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘ پڑھ لیں کہ عالمِ اسلام کی صورتحال اُس وقت کیا تھی ،حال کا منظرنامہ ماضی کا منطقی نتیجہ ہے ، کوئی امرِ تعجب خیز نہیں۔
بطورِ مثال مؤخر الذکر کتاب کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں، ہمارے یہاں 1973ء کا آئین مشہور ہے، یہ کتاب اسی سن میں لکھی گئی ہے :
’’اسلامی ملکوں کے حالات کا مطالعہ کرنے اور ان کی اخلاقی انارکی اور روحانی دیوالیہ پن کو دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار بڑی حد تک امریکا ہے ،امریکا چاہتا ہے کہ یہ ممالک فکری اور اخلاقی انحراف کا شکار ہو کر اس کی پناہ لینے اور اس کی زلہ ربائی کرنے پر مجبور ہوں۔‘‘
ایک طرف تو یہ سب کچھ اور اسی پر بس نہیں ، بلکہ رہے سہے اسلامی قوانین (جو استعمار کی دستبرد سے بچے رہے تھے) کو بھی کھرچ کھرچ کر ختم کیا گیا، چاہے جمہوریت ہو یا آمریت ، اسلامی دنیا میں شریعت استعماری دور کی طرح ہی معطل رہی ، بلکہ اس سے زیادہ ، کیونکہ استعمار چاہتے ہوئے بھی شریعت کو عوامی غیظ و غضب کے خوف سے مکمل معطل نہ کرسکا، یہ سبقت استعماری آلہ کاروں کے نامۂ سیاہ کا مقدر تھی، پاکستان میں ’عائلی قوانین‘ بنائے گئے ، باقی اسلامی دنیا کا حال بھی اس سے مختلف نہیں تھا ، یہاں تک کہ مخلصین یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ استعمار کا دور شاید اس نام نہاد آزادی سے بہتر تھا، ہمیں آزادی کی ایک اور جنگ لڑنی ہوگی۔
دِیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت!
مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’یہ تاریخ کا عجیب المیہ اور سیاست کی عجیب ’ستم ظریفی‘ ہے کہ کسی ملک میں جب تک آزادی کا معرکہ درپیش رہتا ہے… تو جنگِ آزادی کے رہنما…… مذہبی نعروں ہی کے ذریعے اور اللہ کے نا م کی بلندی، اسلام کی سربلندی اور اللہ کے احکام کے اجراء کا لالچ دے کر ان (اسلام پسند عوام) کو آگ سے کھیلنے اور خاک وخون میں لوٹنے کی دعوت دیتے ہیں ، اور اسی ایمانی طاقت سے (جس کے مقابلے میں کم سے کم مسلمان اقوام میں کوئی طاقت نہیں پائی جاتی ) آزادی کا قلعہ فتح کرتے ہیں اور ناقابلِ تسخیر دشمن کو سرنگوں ہونے پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی یہ ناگزیر منزل طے ہوتی ہے اور ملک کا اقتداراعلیٰ اور ان سیاسی رہنماؤں کی زبان میں ’ملک وقوم کی قسمت‘ ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے، وہ ملک کو مغربیت اور نامذہبیت (سیکولرزم)کے راستہ پر ڈال دیتے ہیں، اور جلد سے جلد مذہب اور معاشرہ کی اصلاح، اسلامی قانون (پرسنل لاء) کی تنسیخ و ترمیم اور ملک کو مغرب کے سانچہ میں ڈھالنے کا ’ضروری کام‘ شروع کردیتے ہیں اور اس میں اتنی عجلت و شدت سے کام لیتے ہیں کہ بعض اوقات وہ لوگ جنھوں نے بے دریغ قربانیاں دی تھیں، یہ سوچنے لگتے ہیں کہ انھوں نے شاید غلطی کی اور ملک کی آزادی، اسلامی زندگی اور مذہبی آزادی کے حق میں مفید ہونے کے بجائے مضر ثابت ہوئی۔1924ء کے ترکی سے لے کر 1962 ء کے الجزائر تک یہ ایک مسلسل داستان ہے ، جس میں کوئی استثناء نظر نہیں آتا۔‘‘(مسلم ممالک میں اسلام اور مغربیت کی کشمکش،ص 200-201)
خود پاکستان میں اربابِ اقتدار کی روش دیکھ کر مولانا ظفر احمد عثمانی نے 1954ء میں ہی سیاست سے کناری کشی کرلی، سید سلیمان ندوی (جو اسلامی آئین کی تشکیل کی خاطر حکومتی بلاوے پر پاکستان آئے تھے) یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ’اربابِ اقتدار نفاذِ شریعت میں سنجیدہ نہیں ، ان کے ساتھ مفاہمانہ نہیں ، مخاصمانہ جد وجہد کی ضرورت ہے‘ ۔
صورتِ واقعہ کا حکمِ شرعی
صورتحال ایسی ہوگئی جس کے متعلق حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویفرماتے ہیں:
’’(مسلمان حاکم اگر)فسقِ متعدی یعنی ظلم اختیار کرے اور اس کا محل مظلومین کا دِین ہو یعنی ان کو معاصی پر مجبور کرے ۔ مگر یہ فسق اسی وقت تک ہے جبکہ اس کا منشاء (یعنی سبب) استخفاف یا استقباحِ دین(دین کو بُرا سمجھنا ) اور استحسانِ کفر یا معصیت (کفر کو اچھا سمجھنا) نہ ہو، بلکہ اِغاظتِ مُکرَہ ہو (یعنی جس شخص پر جبر کیا جارہا ہو اسے پریشان کرنا اور غصہ دلانا مقصود ہو، جیسا اکثر کسی خاص وقتی اقتضاء سے کسی خاص شخص پر اکراہ کرنے میں ایسا ہی ہوتا ہے) ورنہ یہ بھی حقیقۃً کفر ہے…… یا فی الحال تو منشاء اکراہ کا استخفاف وغیرہ نہ ہو ،لیکن اکراہِ عام بشکلِ قانون ایسے طور پر ہو کہ ایک مدت تک اس پر عام عمل ہونے سے فی المآل ظنِ غالب ہوکہ طبائع(لوگوں کی طبیعتوں) میں استخفاف وغیرہ پیدا ہو جائے گا تو ایسا اکراہ بھی بنا بر اصل (مقدمۃ الشیٔ بحکم ذالک الشیٔ) بحکمِ کفر ہوگا ۔ ‘‘
(رسالہ: جزل الکلام فی عزل الامام ، مشمولہ : بوادر النوادر ، امداد الفتاویٰ)
اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری (صاحبِ المہند و بذل المجہود) اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
’’سلطنتِ ترکی نے قانونِ اسلامی کو چھوڑ کر قانونِ حکومت جاری کردیا ہے، میراث کے حکم کو بدل دیا ہے ،فوج کے لیے صومِ رمضان جرم قرار دے دیا ہے اور متعدد علماء بے گناہوں کو قتل کردیا تو ایسی سلطنت دائرہ انصاف سے خارج نہیں ، بلکہ دائرہ اسلام سے ہی خارج ہے‘‘۔ (ص240)
اور مفتی رشید احمد لدھیانوی نے فرمایا:
’’مگر ایسے ملک (جہاں مسلمان نفاذِ شریعت کی قدرت رکھتے ہوں) کی حکومت کو ا س وقت تک حکومتِ اسلامیہ نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ وہ احکامِ اسلام کی تنفیذ نہ کرے۔‘‘ (احسن الفتاویٰ:21;6)
حقیقی آزادی کے لیے کوششیں
اس صورتحال میں اہلِ دین نے تبدیلی کے لیے سوچنا اور تیاری کرنا شروع کردیا ، چنانچہ ایک طرف تو دینی مدراس ، خانقاہوں ،عوامی دروسِ قرآن وغیرہ دعوتی ذرائع اختیار کرکے تبلیغِ احکام کا کام شروع کردیا گیا ،تاکہ انقلابی جماعت تیار ہو، بالکل وہی طرزِ عمل جو استعمار کے خلاف اپنایا گیا تھا، پھر کچھ تحریکات حکومتوں کی اسلام دشمنیوں اور ایذارسانیوں کی وجہ سے میدانِ عمل میں کودیں ، جس کی تفصیل شیخ ابو مصعب سوری رحمہ اللہ (حیا و میتا) نے اپنی کتاب: ’عالمی جہاد کی دعوت ‘(دعوۃ المقاومۃ الاسلامیۃ العالمیۃ )میں درجِ ذیل تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہے۔
۱۔ مراکش 1963: حركة الشبيبة المغربية في المغرب الأقصى
مراکش میں عرب کے جوانوں کی تحریک۔ جس کی قیادت شیخ عبد الکریم مطیع نے کی۔ اور جس نے (جہنم مکانی ) شاہ حسن دوم کی حکومت کے خلاف کاروائی کی۔
۲۔ مصر1965: شیخ سید قطب شہید کی کوشش
انہوں نے جمال عبد الناصر کی حکومت کے خلاف مصر میں جہاد کو منظم کرنے کی کوشش کی۔
۳۔ شام 1965: شیخ مروان حدید کی تحریک
شام میں بعث پارٹی کی حکومت کے خلاف۔
۴۔ افغانستان1965-1975: مقامی اشتراکی حکومتوں کے خلاف تحریکیں
سوویت یونین کے براہ راست حملے سے پہلے افغانستان میں اشتراکی حکومتوں کے خلاف جہادی تحریکیں۔
۵۔ ترکی 1972: تنظیم (الطليعة EkiNGiLAR ہراول دستہ) کا تجربہ
ترکی میں داخلی خانہ جنگی کے دوران۔
۶۔ الجزائر 1973-1976: حركة الدولة الإسلامية
شیخ مصطفی بو یعلی شہید کی قیادت میں اسلامی ریاست کی تحریک۔
۷۔ شام 1975-1982: الطليعة المقاتلة
شیخ مروان حدید کے شاگردوں کی (جنگجو ہراول دستہ) کے نام سے شام میں مسلح جہادی انقلاب۔
۸۔ مصر 1981-1997: تنظيم الجهاد اور الجماعة الإسلامية
صدر انور السادات اور اس کے جانشین حسنی مبارک کے خلاف ان دونوں جماعتوں کی تحریک۔
۹۔ لیبیا 1986: قذافی کے خلاف جہادی کاروائی۔
۱۰۔ تونس 1986: حركة الاتجاه الإسلامي
اسلامی جہت کی تحریک کے عسکری ونگ کی محدود جہادی کاروائیاں اور انقلاب کی کوشش۔
۱۱۔ الجزائر 1991-2001: بے شمار جہادی جماعتوں کا جہادی تجربہ
[جبهة الإنقاذ الإسلامي کے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے نتیجے میں حکومتی آپریشن اور اس کے رد عمل میں ہونے والا جہاد جو کہ تقریبا 10 سال جاری رہا]۔
۱۲۔ تاجکستان1992: اشتراکی حکومت کے خلاف جہادی حملے
۱۳۔ سعودی عرب 1994: محدود قسم کی جہادی کوششیں
۱۴۔ لیبیا 1994-1996: الجماعة الإسلامية المقاتلة کا تجربہ اور جہادی کاروائیاں
۱۵۔ پاکستان 1996: تحریک نفاذ شریعت
شمال مغربی صوبہ سرحد میں مسلح انقلاب۔ [مسلح کے بجائے اسے نیم مسلح کہنا مناسب ہو گا]
۱۶۔ مغرب اسلامی1996: جہادی جماعتیں تشکیل کرنے کی کوششیں
۱۷۔ ازبکستان 1998: الحركة الإسلامية
ازبکستان میں امریکی پشت پناہی میں کریموف کی اشتراکی حکومت کے خلاف جہادی کوشش اور ازبکستان کی اسلامی تحریک کا قیام۔
۱۸۔ یمن 1999: جيش عدن أبين
یمن میں 1999 سے عدن ابین کے لشکر کا جہادی تجربہ
۱۹۔ لبنان 2000: النبطية پہاڑوں میں جہادی کوشش
جہادی تحریکات کی ناکامی کی اہم وجوہات
لیکن یہ سب تحریکات بوجوہ ناکامی سے دوچار ہوئیں یا یوں کہیں کہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکیں۔ پھر اسّی کی دہائی میں روس نے افغانستان میں علانیہ فوجی مداخلت کی ، جس کے نتیجے میں یہاں ایک متفقہ کافر کے خلاف جہاد شروع ہوا ، چونکہ روس کی شکست کا فائدہ امریکا ویورپ کو بھی تھا اس لیے اس جہاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی ،لہٰذا عرب وعجم سے مجاہدین جوق درجوق یہاں آکر شریکِ جہاد ہوئے ،یہاں اسلامی ملکوں پر مسلط طواغیت کے خلاف جہاد کرنے والوں کو بھی مل بیٹھنے کا موقع ملا۔تجربات کے تبادلے سے یہ بات سمجھ آئی کہ طواغیت کا کفر (ارتداد وزندقہ)اگرچہ کافرِ اصلی کے کفر سے زیادہ سخت ہے ،لیکن عوام کو اس کا سمجھانا مشکل ہے، اسی لیے عوامی حمایت اور اسلامی حلقوں کی تائید نہیں حاصل ہوپاتی ۔اور دوسری بات یہ کہ یہ مقامی طواغیت بھی دراصل خودمختار نہیں ، بلکہ سابقہ استعمار(جسے اب عالمی نظام کا پرفریب نام دیا گیا ہے )ہی کے آلہ کار ہیں اور خود عالمی کفر بھی چاہتا ہے کہ تبدیلی لانے والوں کا محور بس اپنا اپنا خطہ رہے ،تاکہ اسے براہِ راست جنگ نہ لڑنی پڑے (کیونکہ مابعد استعماری دور کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اسلام پسندوں کو مقامی آلہ کاروں کے ذریعے کچلا جائے)اور مقامی طور پر نام نہاد مسلمان آلہ کار کے سامنے ہونے کی وجہ سے مجاہدین کو عوامی حمایت بھی نہ ملے (بالکل وہی سوچ جس کے تحت مصطفیٰ کمال کے ہاتھوں خلافت کا خاتمہ کروایا گیا)۔
پس چہ باید کرد!؟
اب ضرورت اس بات کی تھی کہ استعمار کی اس چال کا توڑ سوچا جائے اور وہ توڑ سابقہ تجربات کی روشنی میں یہی تھا کہ امت کو ا سکے حقیقی دشمن کی پہچان کروائی جائے جو ہمیشہ پس پردہ رہ کر ڈوریاں ہلاتا آیا ہے ،چنانچہ شیخ اسامہ بن لادن شہید نے پہلے دعوت کے ذریعے امریکا کی مسلم دشمنی کو آشکار کیا ،پھر سوڈان سے اور وہاں سے نکالے جانے کے بعد افغانستان سے امریکا پر کاری ضربیں لگائیں،لیکن شیخ اسامہ چاہتے تھے امریکا کو ایک ایسی ضرب لگائی جائے کہ وہ وہ طیش میں آکر پردوں کے پیچھے کھیلنے اور قلعوں میں بیٹھ کر لڑنےکی بجائے باہر نکل آئے، پھرامت مسلمہ کی ضربوں سے اس کا معاشی دیوالیہ نکل جائے ، اس کی چودھراہٹ بھی ختم ہوجائے اور وہ عالمِ اسلام میں مداخلت کے قابل نہ رہے ،تاکہ مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں شریعت نافذ کرنے کے لیے آزاد ہوجائیں ، یہ مقامی طواغیت عالمی امداد کے بغیر ا س قابل نہیں کہ مجاہدین کی ضربیں سہہ سکیں ۔
جہاد کا پھیلاؤ
سوچ سمجھ کر اور باہمی مشاورت سے یہ سب کچھ طے کیا گیا اور اللہ نے شیخ اسامہکے سارے اندازے درست کر دکھائے ۔امریکا اپنی پوری قوت کے ساتھ افغانستان پر ٹوٹ پڑا ، نتیجتاً اسلامی امارت کا سقوط ہوا ، سانحہ قلعہ جنگی جیسے المناک واقعات رونما ہوئے،مجاہدین عارضی طور پر پسپا ہوئے، لیکن یہ پسپائی ایسی تھی جس پر مولانا ظفر علی خان کا یہ شعر جو انہوں نے دارالعلوم دیوبند کی مدح میں کہا، صادق آتا ہے
تیری اس رجعت پر ہزار اِقدام ہوں جاں سے نثار
قرنِ اول کی خبر لائی تیری الٹی زقند
دنیا بھر کے مجاہدین اپنے اپنے علاقوں میں جاکر مصروفِ جہاد ہوگئے، دوسال بعد امریکا عراق پر حملہ آور ہوا تو شیخ ابو مصعب زرقاوی شہید اپنے ساتھیوں سمیت اہم مزاحمتی قوت بن کر سامنے آئے، یمن اور صومالیہ کا جہاد اپنے پیروں پر کھڑا ہوکر طاغوتِ اکبر امریکا کی نیندیں حرام کرنے لگا ، الجزائر کی جہادی تحریک غلو وتکفیر کے تھپیڑے کھا کر سنبھلی ،مفسدین جہاد چھوڑ کر کفار کے آگے تسلیم ہوگئے اور مخلصین نے الجزائر کی تحریکِ جہاد کا عَلم اٹھایا اور حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر خود کو عالمی جہادی تحریک کے ساتھ جوڑ لیا، اس کی برکت سے ایک ڈیڑھ عشرے میں اللہ نے مالی و اس کے اطراف میں صحرائے کبریٰ کے اندر غیرت مند قبائل کو اپنے دین کی نصرت اور اپنے دشمن فرانسیسیوں کی درگت بنانے کے لیے چُن لیا۔
امارتِ اسلامی افغانستان (وفقہا اللہ)آج الحمد للہ صرف اور صرف اللہ کی نصرت کے سہارے دوبارہ قائم ہوچکی ہے اور زبانِ حال سے بتا رہی ہے کہ جس طرح اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے والے افراد مُردہ نہیں ،زندہ ہوتے ہیں ، اسی طرح اللہ کی خاطر ختم ہونے والی حکومتیں بھی جلد ہی پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور صلیبی طوفان کے آگے ’سر جھکانے‘ کا(پاکستانی فوجی ) فلسفہ اپنے حاملین کوآخرت سے پہلے دنیا میں بھی ذلیل و رسوا کرتا ہے ۔
آج کے حالات ایک اور یومِ تفریق کا تقاضا کررہے ہیں
توہینِ قرآن و ناموسِ رسالتﷺ
لیکن یورپ کی امتِ صلیب اس سب کے باوجود بھی محمد ﷺ کی اور قرآن عظیم الشان کی مسلسل توہین کے درپے ہے ، کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق جنگ میں شکست کھانے کے بعد ان اوچھی حرکتوں پر اتر آئی ہے ،اہلِ صلیب کی یہ حرکتیں جہاں ایک طرف ان کا حوصلہ ختم ہونے کی دلیل اور اسلام کو ملنے والی قریبی فتح کی نوید ہیں ، تو دوسری طرف یہ صورتحال یہ مطالبہ بھی کر رہی ہے کہ اُن پر نائن الیون جیسا ایک اور سیاہ دن مسلط کیا جائے تاکہ یہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں۔ ارشادِ باری ہے :
وَاِنْ نَّكَثُوْٓا اَيْمَانَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَىِٕمَّةَ الْكُفْرِ ۙ اِنَّهُمْ لَآ اَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُوْنَ
’’اور اگر ان لوگوں نے اپنا عہد دے دینے کے بعد اپنی قسمیں توڑ ڈالی ہوں اور تمہارے دین کو طعنے دیے ہوں، تو ایسے کفر کے سربراہوں سے اس نیت سے جنگ کرو کہ وہ باز آجائیں۔ کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘
اسلام کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ
مستشرقین اور عیسائی مبلغین ہر دور میں اپنے ہم قوموں کو اسلام سے دور کرنے اور اس کے خلاف بھڑکانے کے لیے اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بارے میں اپنے پیشرو کفارِ مکہ کی طرح ہرقسم کا جھوٹ روا رکھتے رہے ہیں ،صلیبی جنگوں کی دعوت کے موقع پر ایک یورپ میں تصویر کی بڑے پیمانے پر نمائش کی گئی ،جس میں دکھایا گیا تھا کہ ایک مسلم گھڑ سوار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مزعومہ قبر کو اپنے گھوڑے کے سموں سے روند رہا ہے اور گھوڑا اس قبر پر پیشاب کررہا ہے1۔ کہیں یہ کہا گیا کہ مسلمان بت پرست ہیں ،وحشی ایسے ہیں کہ دشمن کا گوشت کھاجاتے ہیں……’رسول اللہ ﷺ کی والدہ یہودیہ تھیں……محمد ﷺ کی تمام تعلیمات ’اساطیر الاولین‘ نامی کتاب سے ماخوذ ہیں ……وغیرہ وغیرہ‘2۔
ایک ایسا دین جس کے ماننے والوں کی عیاشی اور اسراف کے قصے ہی مغرب کو معلوم ہوں (عرب حکمرانوں کے افسانوی گلچھرے اور بدمستیاں) اور اس کے پیغام و تعلیمات پر مستشرقین نے اپنی ’تحقیقات ‘ کے دبیز پردے ڈال دیے ہوں ، بلکہ میڈیا کے شبہات و شہوات کے ذریعے ایک عام مغربی فرد کی یہ ذہنیت بنا دی گئی ہو کہ وہ اپنے یا دنیا کے مسائل و مشکلات کا حل اسلام میں ڈھونڈنے کے بجائے اسلام کو ہی (نعوذ باللہ) سارے مسائل کی جڑ سمجھتا ہو۔ایسے لوگوں کو سنجیدگی سے (شہوات وشبہات سے نکال کر) اسلام کا مطالعہ کرنے پر کیسے آمادہ کیا جائے ،تاکہ وہ اس کے محاسن اور خوبیوں سے واقف ہو کر اس سے مالامال ہوجائیں؟ یقیناً اس کے لیے ان کے سامنے مسلمانوں کا کوئی ایسا کارنامہ ہوناچاہیے کہ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں ’ان کے دین میں ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے یہ اتنی بڑی بڑی قربانیاں دے دیتے ہیں؟‘۔یہی وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا و مغرب میں اسلام کے بارے میں سنجیدہ مطالعے کا رجحان پیدا ہوا، لوگ مستشرقین کے بجائے مسلمانوں کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے لگے،اس سے بہت سے لوگوں کو ہدایت ملی اور وہ مسلمان ہوگئے،یہ دیکھ کر میڈیا نے پینترا بدلا ، اب تک سارا زور القاعدہ پر تھا…… لیکن اس پراپیگنڈےکا الٹا اثر ہوا اور یہ اللہ کی سنت ہے :
وَلَا يَحِيْقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ اِلَّا بِاَهْلِهٖ (الفاطر:43)
’’بری چالیں کسی اور کو نہیں خود اپنے چلنے والوں ہی کو گھیرے میں لے لیتی ہیں۔‘‘
یہ الٹا اثر دیکھ کر میڈیا اندرون خانہ یہ کہانی پھیلانے لگا کہ ’یہ سب تو یہودیوں کا کیا دھرا ہے ، اتنے یہودی جو وہاں کام کرتے ہیں ‘اس دن وہاں ان میں سے کوئی نہیں آیا تھا،عمارت میں بم نصب تھے ،ورنہ محض ایک ایک جہاز ٹکرانے سے پوری پوری عمارتیں کیسے زمین بوس ہوگئیں!
دجالی نظام اپنے تمام آلہ کاروں کے ساتھ مل کر دنیا تک اسلام کی حقیقی دعوت اور پیغام کو پہنچنے سے روک رہا ہے، کیونکہ اسے پتہ ہے کہ اس کے پیداکردہ تمام مسائل کا حل اسلام کے پا س موجود ہے ،اسلام میں ذات پات یا نسلی تعصب کا بھی کوئی گذر نہیں ، ایک یورپی فرد بھی اسلام لا کر وہی مقام پاتا ہے کو کسی جدی پشتی قریشی عرب مسلمان کو حاصل ہے۔
لہٰذا دعوتِ اسلام اور غیر مسلموں کی ہدایت کے نقطۂ نظر سے بھی ایک اور نائن الیون کی ضرورت ہے ۔عین ممکن ہے کہ وہ لوگ جو پہلی دفعہ سنجیدگی سے اسلام کی طرف متوجہ نہیں ہوئے تھے یا پیدا ہی اس کے بعد ہوئے ہیں (پہلے نائن الیون کو بائیس برس گزر چکے ہیں) ایک نیا نائن الیون ان کی زندگیوں کو بدل دے ۔
یقینا تلوار کی نوک پر کسی کو کلمہ نہیں پڑھایا جاسکتا ،لیکن یہ بھی حق ہے کہ جب تلوار سر پر لٹک رہی ہو انسان شہوات و تعصبات سے نکل کر حق کو پہچان لیتا ہے اور پھر دلی رضا سے قبول بھی کرلیتا ہے ، فتحِ مکہ اس کی روشن مثال ہے ،اُس دن کوئی نیا معجزہ نہیں دکھایا گیا ،لیکن قوت نے سب کو حق کے بارے میں آزادانہ سوچنے پر مجبور کردیا،نتیجتاً وہ منظر سامنے آیا جسے خود قرآنِ کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا(النصر؛2)
’’اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔‘‘
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مشہور قول ہے :
قوام الدین بکتاب یھدی وسیف ینصر
دین کا قیام راہ دکھانے والی کتاب اور رکاوٹیں دور کرکے نصرت کرنے والی تلوار کے ساتھ ہوتا ہے۔
شیخ اسامہ بن لادن شہید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
السیف یعین علیٰ فھم الحق
تلوار(قوت)حق کو سمجھنے میں (قبول کرنے میں نہیں) مدد دیتی ہے۔
اور اللہ نے تو ہمیں بھیجا ہی اس لیے ہے کہ لوگوں کو اپنے جیسے انسانوں کے بنائے نظاموں اور نظریوں کی غلامی سے نکال کر ایک اللہ رحمان و رحیم کی بندگی میں داخل کردیں۔یہی مقصدِ بعثتِ انبیاء علیہم السلام ہے ۔
عالمِ اسلام میں امریکی مداخلت
عالمی نظام بہ سرکردگیٔ امریکا کا شکنجہ عالمِ اسلام پر سے کچھ ڈھیلا تو ہوا ہے ، لیکن مکمل ٹوٹا نہیں، آج بھی ارض ِ قدس پر یہود کے قبضے کا براہ راست تعلق امریکا کی طرف سے اسرائیل کی مددو پشت پناہی ہے ۔ امریکاابھی بھی عسکری و غیر عسکری ذرائع سے عالمِ اسلام پر مسلط اپنے آلہ کاروں کی مدد کررہا ہے ، مجاہدین کے خلاف مقامی حکومتوں کی مدد کررہا ہے ، اپنی سرپرستی میں مجاہدین کے خلاف نئے نئے اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔اس شکنجے کو مکمل توڑنے کے لیے مزید کئی ایک نائن الیونوں کی ضرورت ہے ۔
احیائے خلافت اور عظمتِ رفتہ کی بحالی
خلافتِ عثمانیہ کے انحطاط و زوال کے بعد مسلمان نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں،عالمی سربراہی کی کرسی پر یکے بعد دیگرے اقوامِ کفر ہی بیٹھ رہے ہیں ۔نائن الیون اور اس کے بعد کی بیس سالہ جنگ نے امریکا کا یہ حال تو کردیا ہے کہ اب روس و چین اس کے منہ کو آنے لگے ہیں ،لیکن ابھی عالمی سطح پر مسلمان برابری کی سطح پر نہیں آئے ، بقیہ عالمِ اسلام کی تو بات ہی نہیں کرتے وہاں ویسے بھی انھی کے آلہ کار ہیں ،لیکن واحد اسلامی حکومت پر جس طرح وقتا فوقتامختلف طرح کے دباؤ ڈالے جارہے ہیں ،خواتین کے حقوق، شریعت بالخصوص حدود کی عدمِ تنفیذ، جمہوریت کی بحالی وغیرہ وغیرہ…… یہ سب حالات بتاتے ہیں کہ منزل اگر زیادہ دور نہیں تو اتنی قریب بھی نہیں ،ابھی کئی اور نائن الیون برپا کرنے ہوں گے،لہو کے کئی دریا پار کرنے ہوں گے۔
وقتِ فرصت ہے کہاں! کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
سو نائن الیون کے مبارک حملوں کی مناسبت سے یہ موقع محض ان اُنیس ابطال کو خراجِ عقیدت و تحسین پیش کرنے اور ان کے لیے دعاگو ہونے تک محدود نہیں بلکہ ہم محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے ان دشمنانِ اللہ ورسول اور باغیانِ دین و شریعت کو امتِ دعوت وجہاد کی طرف سے ایک اور یومِ تفریق کی ’نوید‘ سناتے ہیں۔
روند کر اہلِ ایمان کی بستیاں،
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو!
یہ تو ممکن نہیں عیش سے تم رہو
اور ملت ہماری عذابوں میں ہو
سنو! ہاتھی والو! آسمانوں میں لکھے نوشتے پڑھو
بڑھ رہے ہیں تمہارے قلعوں کی طرف
موت کے کچھ بگولے، کچھ آتش فشاں
جراتوں کے دھنی، ہمتوں کے نشاں
کچھ ابابیل ایسے شہیدی جواں
لو! تباہی کا اپنی تماشا کرو
عمر باقی ہے جو زخم دھوتے رہو خود پہ روتے رہو!
٭٭٭٭٭
1 نظریاتی جنگ کے محاذ ،ص71
2 اسلام اور مستشرقین:5؛23،33