ذیل میں افغانستان میں مقیم ایک خاتون کا مضمون بطورِ مستعار مضمون کے پیش کیا جارہا ہے جس میں امارتِ اسلامیہ افغانستان کو حاصل ہونے والی چند انتظامی کامیابیوں کا ذکر ہے۔ یہ دنیا مومن کے لیے جائے قرار نہیں بلکہ جائے امتحان ہے اور جائے قرار دراصل جنت ہے۔ البتہ جو اس دنیا میں اللہ کے بتائے احکامات پر عمل کرتا ہے اور عملاً شریعت کو نافذ کرتا ہے تو انعام کے طور پر اللہ جل جلالہ اس کو اس دنیا میں بھی باسعادت روحانی حیاتِ طیبہ کے ساتھ مادی نعمتوں سے بھی نوازتا ہے۔ امارتِ اسلامیہ کو حاصل ہونے والے مادی کامیابیوں میں بھی اصل جوہر اس کے حکمرانوں کا شریعتِ اسلامی کا نفاذ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ امارتِ اسلامیہ اور اس کے حکمرانوں کی حفاظت فرمائے اور اس کے امراء کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھے اور صلاح و فلاحِ دنیا و آخرت ان کا مقدر فرمائے،آمین! (ادارہ)
رواں سال ماہِ اگست کی ۱۵تاریخ کو امارتِ اسلامی افغانستان کے افغانستان پر مکمل فتح و تسلّط کو دو سال مکمل ہو جائیں گے۔ یہ وہ روشن دن ہے جس دن امارتِ اسلامی نے افغانستان کو اس پر قابض مغرب اور اس کی کٹھ پتلیوں کے تسلّط کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔
آئیے۲۰۲۱ء کے وسط سے لے کر آج تک امارتِ اسلامی کی افغانستان میں چند کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
امن و امان کی صورتحال
ملک کے طول و عرض میں سکیورٹی کی حالت پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گئی ہے اور پورے ملک میں امن قائم کیا گیا ہے۔ امریکی قبضے کے دوران لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، اگرچہ آج بھی ہمارے ملک کی سالمیت کو داعش کی جانب سے خطرہ لاحق ہے، لیکن پچھلے کچھ عرصے میں داعش کے بھی بہت سے ٹھکانے GDI (امارت اسلامیہ کی انٹیلی جنس )نے ختم کیے ہیں۔
NRF (نیشنل ریزسٹنس فرنٹ) اور ملک سے بھاگے ہوئے جنگی کمانڈر ان فتنہ پرور عناصر کی مالی امداد کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
تعمیر و ترقی
مختلف صوبوں میں اور بالخصوص کابل میں درجنوں تعمیراتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ میدان وردگ، کنڑ، قندھار، بلخ اور ننگرہار میں سڑکوں کی تعمیر، سکولوں کو سہولیات بہم پہنچانے کا کام اور زراعت کو فروغ دینے کے لیے نہروں اور آبپاشی کا نظام بہتر بنانے پر کام ہو رہا ہے۔
امارتِ اسلامی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی ملک بھر کو اپنی جاگیر سمجھنے والے مشہور و معروف بلکہ بدنامِ زمانہ جنگی سردار بزدلوں کی طرح ملک چھوڑ کر فرار ہوئے۔ ان کی زندگیوں کا مقصد و محور معصوم افغان عوام کو تکلیفیں دینا، قتل و غارت گری کرنا، زمینیں چھیننا اور رشوت ستانی جیسے غیر قانونی کاموں میں ملوث رہنا ہی تھا۔
یہاں یہ ذکر بھی بر محل ہے کہ امارتِ اسلامی کے مجاہدین نے ان جنگی لیڈروں کی حویلیوں سے بہت بڑی مقدار میں شراب برآمد کی اور ایک نالے میں ۳۰۰۰ لیٹر شراب بہائی۔
پوست کی کاشت پر پابندی
افغانستان وہ ملک تھا جو دنیا بھر کی ۹۰ فیصد افیون کی پیداوار کا ذمہ دار تھا۔ اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی امارتِ اسلامی نے پوست کی کاشت پر سخت پابندی لگائی۔ افغانستان کے صوبۂ ہلمند کی وجۂ شہرت ہی پوست کی کاشت تھی، لیکن اب یہ کاشت ۹۹ فیصد سےبھی کم ہو گئی ہے۔
(ٹیبل میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پوست کی کاشت ۱۰۰۰ ایکڑ سے بھی کم پر آ گئی ہے جبکہ گزشتہ سال یہایک لاکھ انتیس ہزار ( ۱۲۹۰۰۰) ایکڑ پر محیط تھی)۔
بعض کاشتکاروں نے اونچی دیواروں میں گھِرے پچھواڑوں میں پوست کاشت کرنے کی کوشش کی لیکن امارتِ اسلامی کے متعلقہ اداروں نے معلوم ہونے پر ان کو بھی ختم کر دیا۔
بھکاریوں کے لیے اقدامات
سڑکوں پر بھیک مانگنے والے بچوں کو اب تعلیم فراہم کی جا رہی ہے اور وہ بھکاری جو فی الواقع اتنے مجبور ہیں کہ کوئی کام کرنے کے بھی قابل نہیں، انہیں ماہانہ بنیادوں پر وظائف جاری کر دیے گئے ہیں۔
ایسے بھکاری جو مزدوری کے قابل ہیں، انہیں بائیو میٹرِک سسٹم سے گزارنے کے بعد مناسب کام دیے گئے ہیں اور ان سے آئندہ بھیک نہ مانگنے کا عہد لیا گیا ہے۔ (گو کہ گدا گری اب بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے)
میگا پروجیکٹس
1. قوش ٹیپا کینال
اس کینال کی لمبائی متوقع طور پر ۲۸۵ کلومیٹر ہو گی، اور اس سے توقع ہے کہساڑھے پانچ لاکھ (۵۵۰،۰۰۰) ایکڑ صحرائی زمین ہری بھری فصلوں میں تبدیل ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں لاکھوں افغانوں کوروزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔
2. TAPI پائپ لائن پروجیکٹ:
مولوی یعقوب مجاہد نے مَلٹی بلین ڈالر کی مالیت کے TAPI(ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور انڈیا) گیس پائپ لائن پروجیکٹ کی سکیورٹی کی بلاواسطہ ذمہ داری قبول کی ہے۔ توقع ہے کہ افغانستان کو اس پروجیکٹ کے ذریعے ۵۰۰ ملین ڈالر کی سالانہ آمدن ہو گی۔ ایک دوسرے پروجیکٹ (TAP-500) سے بھی متوقع طور پر ۱۱۰ ملین ڈالر کی آمدن ہو گی۔
3. سہ فریقی ریلوے لائن پروجیکٹ:
افغانستان نے ازبکستان اور پاکستان کے ساتھ سہ فریقی ریلوے لائن پروجیکٹ پر بھی معاہدہ کیا ہے، اس پروجیکٹ کی تکمیل ۲۰۲۷ء کے اواخر تک متوقع ہے۔ سال ۲۰۳۰ء تک توقع ہے کہ یہ ٹرینیں سالانہ ۱۵ ملین ٹن کاسامان نقل و حمل کرنے کے قابل ہو جائیں گی۔
خواتین کے لیے اقدامات
امارتِ اسلامی افغان کاروباری خواتین کے لیے سہولیات فراہم کرنے کے معاملے میں نہایت سنجیدہ ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ملک بھر کی خواتین کاروباری شخصیتوں کے لیے ۸۰۰۰ لائسنس جاری کیے گئے۔ بعض صوبوں جیسے ہرات اور کابل میں ایسے بازار تعمیر کیے گئے ہیں جوفقط خواتین کے لیے مخصوص ہیں۔
امارتِ اسلامی کے اقتدار میں آنے کے بعد، امیر المومنین نے اپنے ایک فرمان میں جبری شادیوں کو ناجائز قرار دیا اور شادی کے لیے خاتون کی رضا حاصل کرنے کو لازم کیا۔ فرمان میں یہ صراحت کی گئی کہ :’کوئی بھی خواتین کو زبردستی یا دباؤ ڈال کر شادی کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ بیوہ خاتون اپنے شوہر کی وفات کے ۱۷ ہفتوں بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے، اور نئے شوہر کا انتخاب کرنے کے لیے آزاد ہے‘۔
فرمان میں اس بات کی بھی تاکید کی گئی کہ عورت کوجاگیر نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے اس کا جائز حقِ وراثت و ملکیت دیا جائے۔ افغانستان کے بعض دور افتادہ علاقوں میں، جاگیردارانہ مسائل اور جھگڑوں کے حل کے لیے لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی تھیں ۔ امارتِ اسلامی نے اس قسم کی فرسودہ رسومات پربھی سخت پابندی عائد کی ہے۔
اگرچہ دنیا میں حقوقِ نسواں کے حوالے سے بہت زیادہ شور و غوغا ہے لیکن ہمیں یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ حقوقِ نسواں کا پرچم لہرانے والے آخر اس وقت کہاں تھے جب عام پولیس اور دیگر ملیشیائیں عورتوں کو اپنی جاگیر سمجھ کر برتاؤ کرتی تھیں۔عورتیں خود اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ اپنے ہی گھرانے کے افراد کے سامنے اپنے گھر میں ایک پولیس مین کے ہاتھوں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کی ویڈیو انٹرنیٹ پر بآسانی دستیاب ہے۔ اور اس جیسی درجنوں کہانیاں افغان معاشرےمیں بکھری پڑی ہیں۔ حیرت ہے، نجانے عالمی میڈیا اس وقت کیوں محوِ خواب تھا؟
اب الحمدللہ، امارتِ اسلامی کے سائے تلے خواتین ایسی غلاظت سے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔
منشیات کے عادی افراد کے لیے اقدامات
اقتدار میں آنے کے بعد ایک مسئلہ جس کا امارتِ اسلامی کو سامنا کرنا پڑا، وہ منشیات کا کاروبار کرنے والے اور نشےکے عادی افراد کا تھا، جو کہ ملک بھر میں ۵ ملین کے لگ بھگ تعداد میں موجود تھے۔ مستقل جنگ اور بے روزگاری کے سبب، قابل اور باصلاحیت افغان بھی نشے کی لعنت میں پڑ جاتے اور اپنی زندگیاں تباہ کر لیتے۔
کابل شہر میں موجود ’پلِ سوختہ‘ جس کا مطلب ہے ’جلتا ہوا پُل‘، سالوں سے ہزاروں نشئیوں کی آماجگاہ تھا۔ نشے کے عادی ان افراد کو اب بحالی مراکز میں داخل کر دیا گیا ہے اور اس کے بعد پُل کے نیچے کے حصّے کی مکمل صفائی اور بحالی کا کام کیا گیا ہے۔صفائی ستھرائی کا کام مکمل ہونے کے بعد اس پُل کو ’پلِ خوش بختی‘ کا نیا نام دیا گیا ہے۔
عوام کے ساتھ ہم آہنگی
۲۰۲۲ء میں خوست اور پکتیا میں آنے والے زلزلوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے سبب ہزاروں خاندانوں کے گھر تباہ ہوئے اور بہت سے لوگوں سے ان کے پیارے چھِن گئے۔ اس موقع پر وزیرِ داخلہ سراج الدین حقانی خود وہاں پہنچے اور متاثرہ لوگوں کو فوری امداد کی یقین دہانی کرائی۔
متاثرہ خاندان کے ہر فرد کو ایک لاکھ افغانی کی رقم دی گئی اور ان سے وعدہ کیا گیا کہ ان کے لیے نئے گھر تعمیر کیے جائیں گے۔ نئے گھروں کی تعمیر کا کام شروع کیا جا چکا ہے۔
امارتِ اسلامی لوگوں کو نئے ذاتی کاروبار شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تاکہ ملک کی برآمدات میں اضافہ ہو اورملکی معیشت مضبوط ہو۔ افغانی معیشت کو قوت و سہارا دینے کے لیے بہت سی نمائشوں کا انعقاد کیا گیا تاکہ افغان قوم درآمد شدہ مصنوعات کے بجائےاپنے ملک کی بنائی ہوئی اشیاء استعمال کرنے کی طرف راغب ہو ۔
تعلیم
اب تعلیم کے مسئلے کی جانب آتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں تعلیم کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ امارتِ اسلامی کے قائدین کے مطابق، وہ خواتین اور بچیوں کے لیے تعلیم فراہم کرنے سے پہلے تعلیم حاصل کرنے کے لیےایسی محفوظ فضا قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں وہ کسی بھی قسم کے نقصان یا خطرے کے اندیشے کے بغیر، بآسانی تعلیم حاصل کر سکیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ طبی تعلیم کی تحصیل میں مشغول طالبات کو ان کے تعلیمی اداروں سے نہیں روکا گیا۔
مجموعی طور پر آج کا افغانستان اس افغانستان کی نسبت کئی گنا زیادہ پر امن ہے جو مغرب کے جبری قائم کیے ہوئے جمہوری نظام، اس میں حصہ لینے والے مغرب زدہ افغانوں اور بیرونی طاقتوں کی ہمہ وقت مداخلت پر مشتمل تھا۔
٭٭٭٭٭