نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

جمہوریت کا جال | تیسری قسط

جمہوری نظام میں شرکت کی جھوٹی امیدوں کا پردہ چاک کرتی ہوئی تحریر

محمد ابراہیم لڈوک by محمد ابراہیم لڈوک
31 اگست 2023
in جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!, اگست 2023
0

محمد ابراہیم لَڈوِک (زید مجدہ) ایک نو مسلم عالمِ دین ہیں جنہوں نے عالَمِ عرب کی کئی جامعات میں علم دین حاصل کیا۔ موصوف نے کفر کے نظام اور اس کی چالوں کو خود اسی کفری معاشرے اور نظام میں رہتے ہوئے دیکھا اور اسے باطل جانا، ثم ایمان سے مشرف ہوئے اور علمِ دین حاصل کیا اور حق کو علی وجہ البصیرۃ جانا، سمجھا اور قبول کیا، پھر اسی حق کے داعی بن گئے اور عالَمِ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے حامی اور بھرپور دفاع کرنے والے بھی بن گئے (نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ ولا نزکي علی اللہ أحدا)۔ انہی کے الفاظ میں: ’میرا نام محمد ابراہیم لَڈوِک ہے ( پیدائشی طور پر الیگزانڈر نیکولئی لڈوک)۔ میں امریکہ میں پیدا ہوا اور میں نے علومِ تاریخ، تنقیدی ادب، علمِ تہذیب، تقابلِ ادیان، فلسفۂ سیاست، فلسفۂ بعد از نو آبادیاتی نظام، اقتصادیات، اور سیاسی اقتصادیات امریکہ اور جرمنی میں پڑھے۔ یہ علوم پڑھنے کے دوران میں نے ان اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر تحقیق کی جو دنیا کو متاثر کیے ہوئے ہیں اور اسی دوران اس نتیجے پر پہنچا کہ اسلام ایک سیاسی اور اقتصادی نظام ہے جو حقیقتاً اور بہترین انداز سے ان مسائل کا حل لیے ہوئے ہے اور یوں میں رمضان ۱۴۳۳ ھ میں مسلمان ہو گیا‘، اللہ پاک ہمیں اور ہمارے بھائی محمد ابراہیم لڈوک کو استقامت علی الحق عطا فرمائے، آمین۔جدید سرمایہ دارانہ نظام، سیکولر ازم، جمہوریت، اقامتِ دین و خلافت کی اہمیت و فرضیت اور دیگر موضوعات پر آپ کی تحریرات لائقِ استفادہ ہیں۔ مجلہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ شیخ محمد ابراہیم لَڈوِک (حفظہ اللہ) کی انگریزی تالیف ’The Democracy Trap‘ کا اردو ترجمہ بطورِ مستعار مضمون پیش کر رہا ہے۔ (ادارہ)


ذرائع ابلاغ

چونکہ جمہوری نظام کے خدوخال مقبول عوامی رائے سے تشکیل پاتے ہیں، لہٰذا جو کوئی بھی رائے عامہ ہموار کرنے کی طاقت رکھتا ہووہی جمہوری نظام کو بھی کنٹرول کرنے کی قوت رکھتا ہے ۔ میڈیا کی اثر پذیری سیدھی سیدھی مال و سرمایہ پر منحصر ہے، جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اصحابِ ثروت کی دولت و طاقت برقرار رہے۔

یہی وجہ ہے کہ عالمی برادری میں شامل ہونے کے لیے کسی بھی ملک کے لیے جو بنیادی ترین شرط عائد کی جاتی ہے وہ ’آزادیٔ صحافت‘ہے۔ اگر کسی ملک میں موجود ادارے بیرونی امداد حاصل کرنے اور پھر یہ امداد فراہم کرنے والوں کے ایجنڈے اور منشا کے مطابق اپنے صحافتی وسائل استعمال کرنے کے لیے آزاد ہوں تو وہ اس ملک کے سیاسی مباحث کو بآسانی امداد فراہم کرنے والوں (آج کی دنیا کے اصحابِ اقتدار جو کافر ہیں یامنافق) کی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ کم سرمائے کے حامل لوگ ان لوگوں سے مقابلہ نہیں کر سکتے جو سرمائے کے اعتبار سے ان سے افضل ہیں۔اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ دولت مند لوگ قانون سازی کے عمل پر اثرانداز ہوتے ہوئے ایسی قانون سازی کروا سکتے ہیں جس کے ذریعے جمہوری نظام کے اصولوں کے مطابق ان کے مفادات کا تحفظ بھی ہو سکے اور انہیں دیگر لوگوں پریک گونہ برتری بھی حاصل رہے ۔

مزید یہ کہ اس سطح پر آ کر کفار کا مقابلہ کرنا کئی طرح کے پھندوں میں پھنسا دیتا ہے۔ مثلاً کفار سادہ ووٹروں کے جذبات کو مہمیز دینے کے لیے اپنی سیاسی مہم میں بے حجاب عورتوں اور موسیقی سے بھرے ہوئے اشتہارات استعمال کرتےہیں، اور جب مسلمان ان کے مقابلے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر وہ بھی بتدریج اسی قسم کے مفسدات کی طرف مائل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ’ضرورت‘ کے نعرے تلے گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جانا اس قدر آسان ہو جاتا ہے کہ بالآخر دل گناہوں کی سیاہی سے اٹ جاتے ہیں اور انہیں ان کی سیاہی محسوس ہی نہیں ہوتی۔

جب(مغرب سے آئے)یہ طور طریقے اور رواج مسلمانوں میں اس قدر پھیل جاتے ہیں اور انہیں عام مقبولیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں یہ فکر رائج ہو جاتی ہے کہ ’’زمانہ بدل گیا ہے‘‘۔اور یہ کہ کچھ اسلامی قوانین اور اصول و ضوابط پر اب عمل نہیں کیا جاتا۔ یہ بات دین کی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے، کیونکہ یہ دین کی آفاقیت کو چیلنج کرتی ہے۔ مسلمان دین کےبنیادی اصولوں کے درمیان تفریق کرنا شروع کر دیتے ہیں اور مخصوص مواقع پر نازل ہونے والے احکامِ الٰہی کو عارضی سمجھنے لگتے ہیں۔ اللّٰہ سبحانہ وتعالی فرماتے ہیں:

ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ۭ فَاَمَّا الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاۗءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاۗءَ تَاْوِيْلِهٖ وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗٓ اِلَّا اللّٰهُ وَالرّٰسِخُوْنَ فِي الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝(سورۃ آل عمران۔۷)

’’(اے رسول) وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہے جس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہے اور کچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے وہ ان متشابہ آیتوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان آیتوں کی تاویلات تلاش کریں، حالانکہ ان آیتوں کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور جن لوگوں کا علم پختہ ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ : ہم اس (مطلب) پر ایمان لاتے ہیں ( جو اللہ کو معلوم ہے) سب کچھ ہمارے پروردگار ہی کی طرف سے ہے، اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔ ‘‘

جمہوریت میں حصہ لینے والے افراد ضروری نہیں کہ ہمیشہ کفار کے میڈیا کے طریقوں کی مماثلت اختیار کرنے جیسے کاموں کی حمایت کرتے ہوں، بلکہ وہ اکثر محض اس کا ’ضرورت‘ کی پرانی دلیل کے تحت جواز ہی پیش کر رہے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ان سے حسنِ ظن کرتے ہوئے ان کے عمل کی یہ تاویل کریں تو بھی وہ ان طور طریقوں کو عوام میں رائج کرنے ، انہیں معمول کی (نارمل) شے بنا دینے اور مسلمانوں میں ان کے خلاف حساسیت ختم کر دینے کے ذمہ دار ہیں ۔اور اگر ایسی ’اسلامی‘ سیاسی تحریکوں کے قائدین خود کو دینداربھی بنا کر پیش کرتے ہیں تو یہ اور بھی زیادہ مہلک و تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ عام مسلمان عوام جن کا علم و فہم محدود ہوتا ہے بے حد آسانی سے ان گناہوں کو معمولی اور اپنی زندگیوں کا نارمل حصہ سمجھ سکتے ہیں۔1

ایک مسلمان جب میڈیا کے میدان میں کفار کے مقابلے پر، مگر اسی راستے پر چل پڑتا ہے تو بہرحال شکست ہی اس کا مقدر بنتی ہے الّا یہ کہ وہ اپنے اصولوں سے مکمل طور پر دستبردار ہو جائے۔ میڈیا کے ذریعے رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے لوگوں کی سفلی خواہشات اور جذبات کو ابھارنے سے ہمیشہ ہی زیادہ کامیابی حاصل ہوتی ہے۔ اور ایک کافر یا منافق جس کو بددیانتی، موسیقی اورعریاں و فحش مواد کے استعمال میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہوتی، وہ اس صورت میں آپ پر واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ یہ ایک اور زاویہ ہے جس سے جمہوریت مسلمانوں کو مزید فساد اورپستی کی طرف دھکیلتی ہے2۔

برائی اور فساد کو محض اس سوچ اور امید کے تحت قبول کرتے اور اپناتے چلے جانا کہ بالآخر حتمی نتیجہ جو نکلے گا، اس کے فوائد و ثمرات ان تمام مفاسد پر بھاری ہوں گے ایک غلط فہمی ہے۔ قومی و بین الاقوامی ہر دو سطح پر جمہوریت کے ضوابط اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اقتدار میں موجود لوگوں کو اقتدار میں آنے کے لیے کوشاں لوگوں کی نسبت بڑے بجٹ ملتے رہیں۔ مزید یہ کہ میڈیا کے میدان میں مقابلے کے لیے جو آلات و سامان اور ضروری وسائل درکار ہیں ان کی خریداری سے انہی سرمایہ داروں اور اصحابِ ثروت کو منافع ہو گا جن کے خلاف مسلمان جدوجہد کر رہے ہیں، اور پھر اس حاصل شدہ منافع کووہ دوبارہ اپنی میڈیا جنگ میں استعمال کریں گے، نتیجتاً طاقت، اثرورسوخ اور رائے دہندگان کی ذہن سازی کے میدانوں میں ان کی واضح برتری بہر حال قائم رہے گی۔

معیشت

جمہوریت ایک نسبتاً مہنگا نظامِ حکومت ہے۔ یہ یورپ میں بھی صرف اقتصادی ترقی کے عرصے میں یا پھر ان معاشروں میں قائم رہا جہاں غلاموں کی تعداد زیادہ تھی جیسا کہ روم اور یونان۔ معاشی تنزلی کے عرصے میں جمہوریت ترک کر کے زیادہ آمرانہ طریقِ حکومت اپنائے گئے۔ جمہوریت کی نسبت آمریت کئی گنا زیادہ مؤثر طرزِ حکومت ہے، اگرچہ اس میں ظلم و زیادتی کا احتمال زیادہ ہے، کیونکہ اس میں مختلف گروہوں کے حقوق کا احترام کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی، اور معاشی فیصلے تیزی اور بے رحمی کے ساتھ نافذ کیے جا سکتے ہیں۔

یہ حقیقت آج کے دور میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب دنیا میں شدید مالی بحران آیا تو جرمنی اور اٹلی نے فاشزم کو اپناتے ہوئے جمہوریت کو مکمل طور پر ترک کر دیا، کیونکہ آمرانہ طرزِ حکومت ان حالات کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ حتی کہ امریکہ میں بھی کئی آمرانہ اقدامات اٹھائے گئے جیسے شہریوں سے زبردستی سونا ضبط کر لینا، اشیائے ضروریہ کی تقسیم ، اور جاپانی نژاد امریکیوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں۔

جمہوریت کیوں دولت پر منحصر ہے؟ اس کے لیے طویل بحث و مباحثہ کی ضرورت ہے، اور مخالفین سے پالیسیوں پر عملدرآمد کروانا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مزید یہ کہ عوام کی تعلیم جتنی بہتر ہوگی، جمہوریت اتنی ہی فعال ہوگی اور اس تعلیم کے لیے وقت اور وسائل دونوں درکار ہوتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو سیاسی عمل میں مشغول رہنا پڑتا ہے۔ اور جب وہ ان سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں تو وہ معاشی پیداوار میں حصہ نہیں لے پاتے۔

جمہوریت کے اخراجات کا مشاہدہ خصوصاً الیکشن اور اس دوران چلنے والی مہم کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ سیاستدان اپنی مہم چلانے کے لیے، تشہیری مواد کی چھپائی اور تقسیم، جلسوں، اور طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر رقم اکٹھی کرتے ہیں۔ کسی حکمران کو اقتدار میں لانا ایک بڑی سرمایہ کاری ہے جس پر علاقےکے وسائل کی ایک بڑی مقدار خرچ ہوجاتی ہے۔

یہاں اس نظام کی منافقت کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ بھلے مسلمان اپنے وسائل کا بڑا حصہ خرچ کر کے کسی ایسے مسلمان امیدوار کو اقتدار میں لے آئیں جو دین پر اس درجہ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہ ہو جتنا کہ اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے ، تو اس کو طاقت کے بل بوتے پر عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔ یعنی مسلمانوں کی یہ تمام ترسرمایہ کاری پلک جھپکنے میں ضائع ہو گئی۔ مصر و الجزائر میں مسلمانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا جب انہوں نے جمہوریت کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔

مسلمانوں کے وسائل کا رخ لاحاصل جمہوری سلسلوں کی طرف موڑنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے وسائل کا کم تر حصہ بھی ہماری مجموعی قوت بڑھانے پر خرچ نہیں ہوتا، جس میں ہماری عسکری اور استخباراتی صلاحیت بھی شامل ہے۔ مسلمان اپنا سرمایہ ایسے علاقوں کی مسلم افواج پر جہاں حقیقی معنوں میں شریعت نافذ ہے، لگانے کے بجائے انتخابی مہمات میں جھونک دیتے ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتیں ان علاقوں میں اداروں کی تعمیر وترقی پر صرف کرتے ہیں جہاں ایسی حکومتیں اور نظام قائم ہیں جن کا حقیقی زور اصل اسلامی تعلیمات دبانے پر ہے۔

اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی حیثیت و قوّت کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے ہجرت لازمی ہے، تو جمہوری پارلیمانوں میں شامل ہو کر جو چھوٹی چھوٹی رعایتیں حاصل کی جاتی ہیں وہ درحقیقت دارالاسلام کے قیام اور اس کی توسیع میں تاخیر کا سبب بنتی ہیں۔ مسجدوں کی تعمیر، سکولوں و یونیورسٹیوں میں حجاب اوڑھنے کی اجازت اور اسلامی سکولوں کی تعمیر جیسے چھوٹے چھوٹے حقوق مل جانے سے مسلمان ایسے علاقوں میں رہائش اختیار کرنے کے حوالے سے مطمئن ہو جاتے ہیں جہاں وہ اپنے اموال سے ایسی حکومتوں اور قانونی نظام کی حمایت و نصرت کر رہے ہوتے ہیں جو اسلام کےعین متضاد ہیں۔

جوں جوں مسلمان سیاست میں آگے بڑھنا شروع ہوتے ہیں، سیکولر افراد اور کفار میں ان کے خلاف ردعمل بڑھتا چلا جاتا ہے۔ چونکہ ان تمام ممالک میں سودی معاشی نظام رائج ہیں، لہٰذا جلد یا بدیر ان کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا، اور جب یہ ہو گا تو پیچھے پیچھے تنازع اور تصادم بھی چلا آئے گا ۔ ایسے موقع پر، جمہوریت بالعموم آمریت میں بدل جاتی ہے، اور فوجی طاقتیں، خواہ اندرونی ہوں یا بیرونی…… یا دونوں اکٹھی…… بے خبر مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیں گی اور ان کے اموال پر قابض ہو جائیں گی۔ اخوان المسلمین کے ساتھ بھی مصر میں یہی کچھ ہوا تھا، اپنا بہت سا سرمایہ کھو دینے کے بعد فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور ان کی اکثر املاک ضبط کر لی گئیں۔

اس کے برعکس اگر مسلمان ان مسلم ممالک کی طرف ہجرت کر جائیں جو شریعت کے نفاذ کے قریب تر ہوں اور ان کی مقامی معیشت کو مستحکم کریں تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ ان کی دولت طویل عرصے تک مسلمانوں کے زیرِ انتظام رہے۔ جمہوری نظام میں عدم شرکت کے باعث سیکولر و مغرب زدہ ممالک میں اگر مسلمانوں کے لیے حالات خراب ہوتے ہیں تو عام طور پر مسلمانوں کو ہجرت کے لیے مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہجرت اگرچہ شروع میں زیادہ مشکل نظر آتی ہے، لیکن یہ مستقبل میں انہیں اس سے کہیں بدتر صورتحال سے بچالے گی۔

کمزوری کی حالت میں معاشی یا سیاسی طور پر مرکزی نیٹ ورک بنانا سمجھ سے بالاتر ہے، بالکل اسی طرح جیسے میدان جنگ میں اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور حریف کا براہ راست سامنا کرنا سمجھ سے بالا ہے۔ مرکزی نیٹ ورک ان ممالک میں بنانے چاہئیں جہاں طاقت کا خلا موجود ہو اور کفار کا اثر و رسوخ کمزور ترین ہو۔

جن لوگوں کے لیے ہجرت کر جانا ممکن نہیں، ان کے لیے ڈی سینٹریلائزڈ، بنیادی سطح کے نیٹ ورک قائم کرنا زیادہ معقول ہے۔ ان کو تبلیغ، تحائف کے تبادلے، اور باہمی پشت پناہی کے ذریعے بنایا جا سکتا ہے، اور جمہوریت سے مکمل آزادانہ طور پر الگ سے مضبوط نیٹ ورک بنا سکتے ہیں۔ اس طرح کے نیٹ ورکس کو ختم کرنا کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے بنسبت ان بڑے اور مرکزی نیٹ ورکس کے جو انتخابات کے لیے ضروری ہوتے ہیں، اور یہ تب واضح ہو گیا تھا کہ جب مصر میں سیسی نے کس آسانی کے ساتھ اخوان المسلمین کے نیٹ ورکس کو ختم کیا۔ اس طرح کے ڈی سینٹریلائزڈ نیٹ ورکس کو شدید مخالف حکومت یا قبضے کے خلاف غیر متوازن جنگ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فوج

رینڈ کارپوریشن جیسے عسکری و انٹیلی جنس تحقیقی اداروں کی مسلم دنیا پر شائع ہونے والی رپورٹوں میں، مغربی تجزیہ نگار (اپنی نظر میں)ان مسلمانوں کو بہترین قرار دیتے ہیں جو جمہوریت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے اور اپناتے ہوں، اور ان کو بدترین قرار دیتے ہیں جن کا رویہ اس کے برعکس ہو۔ پس جب بھی وہ کسی ملک کو کنٹرول کرنا یا اس پر قابض ہونا چاہتے ہیں ، تو وہ اس معاشرے کے صرف اس ہی طبقے کی حمایت کرتے ہیں جو سب سے بڑھ چڑھ کر جمہوریت کو اپنانے کا خواہاں ہو۔

میڈیا، انتخابی چکر، اور معاشی تسلط قائم کرنے کے طریقوں مثلاً فلاحی امداد اور معاشی پابندیوں کے ذریعے کفار کسی بھی حکمران پر دباؤ ڈال سکتے ہیں، اور اگر وہ تعاون نہ کریں تو ان کو بآسانی معاشی دباؤ اور پروپیگنڈہ کے ذریعے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ یوں کفار بڑے مؤثر انداز میں مسلم ممالک کی باگ ڈور اسی طرح سنبھالتے ہیں جیسے آپ کسی گاڑی کا سٹئیرنگ وہیل ۔

ایک دفعہ جب کوئی تعاون کرنے والا حکمران اقتدار میں آ جائے، تو جب تک وہ ملکی ترقی کو لبرل ورلڈ آرڈر کی منشا کے مطابق لے کر چلے، یہ اس کو معاشی فوائد(جو اس کو اقتدار میں رکھنے کے لیے مددگار ہو سکتے ہیں) کی پیشکش کرتے رہیں گے۔ یعنی ایسی پالیسیوں کی تنفیذ جو معاشرے کی مزاحمت کی صلاحیت کو ختم کر دیں، جیسے ٹیلی ویژن کا متعارف کرایا جانا، جو مغربی طاقت اور ثقافت کی چکا چوند کی ایک جھوٹی تصویر لوگوں کے ذہنوں میں بٹھاتا ہے۔

یہ عورت کو گھر سے باہر نکل کر کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بانجھ پن اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے، اور خاندان کی اکائی ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے سماجی و ذہنی صحت بگڑتی چلی جاتی ہے، جو لوگوں کو مادہ پرستی کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے، اور مادہ پرستی کا عروج یہ ہے کہ آپ لبرل ورلڈ آرڈر کے لیے اتنے کارآمد بن جائیں کہ یورپ و شمالی امریکہ کے طاقت کے مراکز کی طرف ہجرت کر جائیں یا کم از کم ان کی مصنوعات خریدیں اور ان کے فیشن کی پیروی کرتے رہیں۔

یہ ’’منظورِ نظر‘‘حکمران ملک کے زرعی اور صنعتی شعبوں کی تنظیمِ نو کر کے ان ممالک کی معیشت کو درآمدات پر انحصار کرنے والا بنا دیتے ہیں۔ جتنا زیادہ مسلم ممالک مغربی درآمدات پر منحصر ہوں گے، مزاحمت کا امکان اتنا ہی کم ہوتا چلاجائے گا، کیونکہ ان کو بغیر کسی فوجی مداخلت کے محض پابندیوں کے ذریعے ہی لائن پر لایا جا سکتا ہے۔

یوں، جمہوریت بڑی حد تک مسلم ممالک پر قبضے کے دوران ہونے والے عسکری اخراجات کو کم کر سکتی ہے۔

تعلیم

کسی بھی سرگرمی میں مشغول ہونے کا ایک پہلو علم اور مہارت کی ترقی بھی ہے۔ حتی کہ اگرکوئی شخص اپنا وقت ٹیلی ویژن پر مختلف پروگرام یا کھیلوں کو دیکھتے ہوئے برباد کرتا ہو، تو بھی اتنا ضرور ہوگا کہ وہ اپنے پسندیدہ پروگرام کے کرداروں یا اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کے بارے میں معلومات اور اعداد و شمار کے بارے میں آگاہی حاصل کر لے گا۔

اگر کوئی شخص لکڑیاں تراشنے میں مشغول رہتا ہے، تو وہ ایک بہتر کاریگر بن جائے گا۔ اگر کوئی تدریس کے شعبہ سے منسلک ہے، تو وقت کے ساتھ ساتھ ایک بہتر استاد بن جائے گا۔ اگر کوئی جنگ میں مشغول رہتا ہے تو وہ ایک اچھا جنگجو بن جائے گا۔

ایسے ہی جمہوریت میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے بھی کچھ خاص صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔ ان صلاحیتوں میں سفارتکاری اور اتحاد قائم کرنے کی سماجی مہارت، عوامی جذبات کا صحیح اندازہ لگانے کی صلاحیت، خطرات کا صحیح ادراک رکھنا، اور سیاسی نظام کے تحت قانونی سیاق وسباق کو سمجھنا شامل ہیں۔

پوری دنیا میں جمہوری حکومتوں کے سیاست دانوں کو چال باز اور دھوکہ بازسمجھا جاتا ہے، یہ خیال تقریباً پوری دنیا میں عام ہے۔کیونکہ عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ مسلسل اپنے بہروپ بدلتے رہتے ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے چند سرویز میں یہ بات سامنے آئی کہ لوگ استعمال شدہ گاڑیوں کی خریدوفروخت کے کاروبار(ایک ایسا کاروبار جو دھوکے اور فریب کے لیے بدنام ہے) سے منسلک لوگوں کو سیاست دانوں سے زیادہ ایماندار سمجھتے ہیں۔

دھوکہ دہی جمہوریت میں ایک عمومی خصلت ہے، کیونکہ یہ جمہوریت میں آگے بڑھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ رائے دہندگان کسی بھی امیدوار کو ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ وہ ان کی خواہشات اور ارمان پورا کرائے گا، فلہٰذا وہ امیدوار جو اپنی استطاعت سے بڑھ کر نعرے لگاتے اور وعدے کرتے ہیں، اور اس سب کے سبز باغ دکھاتے ہیں جو وہ نہیں کر سکتے، وہی ہمیشہ فتح یاب ہوتے ہیں۔ جو مسلمان جمہوریت میں حصہ لیتے ہیں وہ عموماً جھوٹ بولنے کا کوئی نہ کوئی جواز پیش کرتے ہیں، کیونکہ یہ جمہوریت میں آگے بڑھنےکے لیے ضروری ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا(صحیح مسلم۔۲۶۰۷)

’’سچ نیکی اور اچھائی کے راستے پر لے جاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، ایک آدمی سچ بولتا رہتا ہے حتی کہ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور (جہنم کی) آگ کی طرف لے جاتا ہے اور ایک آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

جمہوری سیاست میں وسیع پیمانے پر ہونے والی دھوکے بازی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر جمہوری عمل سے بے اعتنائی اور مایوسی پیدا ہو جاتی ہے، کیونکہ انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے وعدوں کو بار بار توڑا جاتا ہے، اور اکثر لوگ تمام سیاستدانوں کو بدعنوان اور غیر مخلص سمجھنے لگتے ہیں۔ تاریخی طور پربھی جمہوریت ہمیشہ بالآخر ناکام ہی ہوئی ہے، اور ہر مرتبہ اس کی جگہ مزید آمرانہ طرزِ حکومت نے لی ہے۔

جمہوریت میں شرکت سے جو صلاحیتیں پیدا کی جاتیں ہیں وہ کسی ایسے ملک میں جہاں نظامِ حکومت آمریت کی طرف منتقل ہو رہا ہو، کسی کام کی نہیں ہیں۔ جب مشکل حالات آتے ہیں تو طاقت کی زبان ہی سب سے کارآمد ثابت ہوتی ہے، لہٰذا ایسی صلاحیتیں، علم اور تعلقات پیدا کرنا جو پرتشدد تصادم میں انسان کی مدد کر سکیں کہیں زیادہ کارآمد ہیں۔

یکجہتی

عموماً، جتنا زیادہ مغربی سامراجی بیانیہ کسی ملک میں سرایت کرے گا، اتنا ہی وہ ملک پوری طرح جمہوری ہوتا جائے گا۔ کسی ملک میں ہونے والی معاشی سرگرمی اس کی قوت میں حصہ ڈالتی ہے، اور انتخابی مہمات پر خرچ کرنا بھی اس میں شامل ہے۔

تقریباً ہر جگہ جہاں مسلمانوں نے جمہوریت کے ذریعے اقتدار حاصل کرنا چاہا، وہ وہاں اقلیت میں ہیں۔ حتی کہ ترکی میں اے کے پی، جو دنیا کی بڑی ’’اسلامی‘‘پارٹیوں میں سے ایک ہے، وہ بھی پارلیمان میں اقلیت میں ہیں۔ یعنی ایک نام نہاد ’’اسلام پسند‘‘صدر ہونے کے باوجود بھی ملک بڑی حد تک سیکولر قوانین ہی کے تابع ہے۔ مطلب یہ کہ مخلص مسلمانوں کی طرف سے ملک کو ’اسلامی‘ بنانے کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششیں بھی دراصل اس سیکولر ایجنڈے کو ہی فائدہ پہنچاتی ہیں جو اتاترک کے زمانے سے حکومتی میکانزم کے اندر کا حصہ بن چکا ہے۔

اس کے برعکس ان ممالک کو دیکھیے جو شریعت کے نفاذ کے قریب تر ہیں، اور جہاں نفاذِ شریعت کی حمایت سب سے زیادہ ہے۔ افغانستان، صومالیہ، یمن، مالی، پاکستان وغیرہ۔ تقریباً ان تمام مثالوں میں یہ ممالک شدید مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کفار ان پر اپنے ’’انسانی حقوق‘‘کے جھوٹے اور مسخ شدہ تصورات کے بت کے آگے سجدہ ریز نہ ہونے کی وجہ سے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ان ممالک کو مدد کی اشد ضرورت ہے۔ ان ممالک کی طرف سفر کرنے اور وہاں اسلامی نظام کے قیام کے کام میں مدد کرانے سے وہاں رہنے والے مسلمانوں کو ٹھوس سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوں گے، بالکل اسی طرح جیسے انتخابی مہمات کی تائید و حمایت سے جمہوری معاشروں کو ٹھوس سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

اپنے وسائل کو انتخابات میں لگانا کفار کی معیشت کو ترقی دیتا ہے، کیونکہ یہ سارا پیسہ ان ممالک اور ان صنعتوں کے پاس جاتا ہے جو پہلے ہی کسی نہ کسی درجے میں ان کے کنٹرول اور اختیار میں ہیں ۔یوں اس سے مسلمان کمزور اور ہمارے دشمن مضبوط ہوتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف اپنے اموال جہاد میں لگانا مسلمانوں کو مضبوط اور کفار کو کمزور کرتا ہے، کیونکہ اس طرح سرمایہ کفار کی معیشت سے نکل کر ان علاقوں میں آ جاتا ہے جو ان کے زیرِ تسلط نہیں ہیں۔

اگر براہِ راست عسکری مدد ممکن نہ بھی ہو، پھر بھی ان علاقوں میں جہاں فعال مزاحمت جاری ہو وہاں فلاحی امداد بھیجنا بھی بڑے فوائد کا حامل ہو سکتا ہے۔ فلاحی امداد جنگ کا ایک اہم حصہ ہے، اور اسلام کے خلاف جنگ کا ایک بڑا حصہ اسی پر مشتمل ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی کے دشمن عام مسلم عوام کو غذائی اور طبی امداد فراہم کرتے ہیں، لیکن اس امداد کو ترکِ شریعت اور جمہوریت کو قبول کرنے سے مشروط کرتے ہیں ۔ یوں ان مسلمان علاقوں کی مدد کرنا جو شریعت سے قریب تر ہیں، اور جو امداد کے سب سے زیادہ مستحق بھی ہیں، ان کی حمایت کرنا براہ راست کفار کی اس قوت کو کم کرتا ہے جو کفار اپنی انسانی امداد کے ذریعے مسلم علاقوں پر قائم کر سکتے ہیں۔

بیشتر مسلمان اس طرح کی حمایت سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ وہ اس کے قانونی نتائج سے گھبراتے ہیں۔ ظاہر ہے! آپ کے خیال میں کفار ایسی سرگرمیوں کی اجازت دیں گے جو مسلمانوں پر ان کے غلبے کو ختم کرنے کا باعث بن سکتی ہوں؟ مگرجتنے زیادہ مسلمان ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے، اتنا ہی ان کاموں کے کرنے والوں کو پکڑنا اور سزا دینا مشکل ہوتا جائے گا۔ مزید یہ کہ، ہر دفعہ جب کوئی ان سرگرمیوں میں ملوث پکڑا جائے گا، تو اس سے دیگر لوگوں کے علم میں اضافہ ہو گا کہ مستقبل میں پکڑے جانے سے کیسے بچا جا سکتا ہے اور یوں یہ علم آگے بھی پھیلتا جائے گا۔

یہ خوف جو انسان اُن کاموں کے کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے جس سے کفار ناخوش ہوں، درحقیقت ایک آزمائش ہے۔

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ ۝(سورۃ البقرہ:۱۵۵)

’’اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔ ‘‘

جتنا ہمارا ایمان مضبوط ہوگا، اتنا ہی ہم قربانی دینے کو تیار ہوں گے، لیکن یہ قربانیاں ہرگز بھی کوئی نقصان نہیں ہیں۔ جو چیز بھی ہم اللہ کی خاطر چھوڑنے پر تیار ہوں گے، اللہ اس کے بدلے اس سے بہتر عطا فرمائیں گے۔

ایسی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا انتخاب کرنا جو صرف مسلمانوں کے لیے فائدہ مند ہوں بذاتِ خود ایمان کا حصہ ہے، کیونکہ مسلمانوں کے لیے محبت ایمان کا حصہ ہے۔

عَنْ أَنَسٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی چیز پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 شیخ لڈوک کی اس بات کی ایک حسی مثال ملاحظہ ہو۔ کراچی میں جہاد سے وابستہ ایک منشد ساتھی ترانے پڑھا کرتے تھے (اور اب بھی پڑھتے ہیں)اور ساتھ ہی جمہوریت میں شریک ایک مذہبی سیاسی جماعت کے کارکن بھی تھے۔ بوجوہ یہ بھائی رفتہ رفتہ جہاد سے دور ہوتے گئے اور پھر ان کا اپنی مذہبی سیاسی جماعت سے وابستہ ایک ترانہ نشر ہوا جس میں ڈھول کی تھاپ تھی (beats)۔ ان ساتھی کے جہادی تنظیم (القاعدہ) سے وابستہ امیر نے ان سے ملاقات کی اور پوچھاکہ بھیا یہ کیا کام کیا آپ نے؟ تو ان بھائی نے جواباً اپنے مرکزی سطح کے قائد کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے کہا یہ جائز ہے۔ سبحان اللہ آج نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ یہ منشد بھائی پورے ڈھول ڈھمکے کے ساتھ، مکمل ساز کے ساتھ ترانے پڑھتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اور ان بھائی کو ہدایت سے نوازے۔ (ادارہ)

2 ہمارے سامنے مصر و پاکستان کی مثالیں موجود ہیں کہ کس طرح مذہبی سیاسی جماعتیں اس میڈیائی جنگ میں دشمن کے کھینچے خطوط کے مطابق دشمن ہی کے میدان میں اتریں اور انہوں نے بے حجاب عورتوں کو اپنی دعوتی مہمات اور ویڈیوز میں ڈالا، تیونس اور ترکی میں مذہب کے علم بردار سیاست دانوں نے بعینہٖ کفار کا طریقہ اختیار کیا، کیا چند ماہ قبل (۲۰۲۳ء)ہونے والے ترکی کے انتخابات کے اشتہارات و پروگرامات میں موجود عورتوں کے ظاہر کو دیکھ کر کوئی یہ بھی دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں۔ بہر کیف یہ ہماری مسلمان بہنیں ہیں اور ہم ان کے عفت و عافیت کی دعا اپنے رب سے کرتے ہیں۔ (ادارہ)

Previous Post

امارتِ اسلامیہ کو حاصل ہونے والی کامیابیاں

Next Post

مغربی تہذیب کے دو افکار: مسلمانوں کے ایمان کے لیے نہایت خطرناک

Related Posts

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

14 جولائی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط

9 جون 2025
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | دسویں قسط

26 مئی 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | نویں قسط

31 مارچ 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | آٹھویں قسط

14 مارچ 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | چوتھی قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | ساتویں قسط

15 نومبر 2024
Next Post
مغربی تہذیب کے دو افکار: مسلمانوں کے ایمان کے لیے نہایت خطرناک

مغربی تہذیب کے دو افکار: مسلمانوں کے ایمان کے لیے نہایت خطرناک

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version