نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

امریکہ کی اصلیت ظاہر کرتی خفیہ پاکستان کیبل دستاویزات

’دی انٹرسپٹ‘ کی نشر کردہ تحریر اور ’سائفر‘ کے اقتباس کا ترجمہ

ادارہ by ادارہ
31 اگست 2023
in پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!, اگست 2023
0

پاکستان میں پچھلے سال (مارچ ۲۰۲۲ء) میں عمران کو عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعہ اقتدار سے الگ کر دیا گیا تھا۔خود عمران خان نے اس زمانے میں اقتدار سے ہٹائے جانے سے قبل ایک خفیہ دستاویز(سائفر) کے ہونے کا انکشاف کیا تھا اور کہا تھا کہ اس کو امریکی ’آرڈر‘ پر اقتدار سے الگ کیا جا رہا ہے۔ اس وقت مجلۂ ہٰذا کے اپریل و مارچ ۲۰۲۲ء کے شمارے کے اداریے میں ہم نے اس موضوع پر کچھ تبصرہ ضبطِ تحریر میں لایا تھا جو دیکھا جا سکتا ہے۔ حالاً ماہِ اگست ۲۰۲۳ء کی ۹ تاریخ کو امریکی خبر رساں ادارے ’دی انٹرسپٹ‘ کو اسی سائفر کا متن ایک ذریسے سے موصول ہوا، جس پر دی انٹرسپٹ سے وابستہ صحافی ریان گرم اور مرتضیٰ حسین نے ایک تجزیاتی مضمون تحریر کیا، ذیل میں مضمون اسی کا ترجمہ ہے۔مجلہ نوائے غزوۂ ہند دی انٹرسپٹ کے اس مضمون کو فقط ایک مقصد کے تحت یہاں شائع کر رہا ہے۔ وہ مقصد یہ ہے کہ یہ وضاحت کی جائے کہ اس دنیا میں فساد کی جڑ اور عالمی بدمعاش نظام کو نافذ کرنے اور چلانے والی اصل قوت امریکہ ہے اور پاکستان میں اصل مقتدر قوت پاکستان فوج اور آئی ایس آئی یعنی فوجی اسٹیبلشمنٹ ہے جو اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر بڑے درجے کی پالیسی سازی میں مکمل طور پر امریکہ کی تابع ہے۔ یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ ۲۰۱۸ء میں عمران خان کو اقتدار میں لانے والی قوت بھی یہی فوجی اسٹیبلشمنٹ تھی۔ قارئین کو اس ’دانا‘ صحافی کا ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال نما تبصرہ؍مطالبہ یاد ہو گا جس میں اس صحافی نے اس مفہوم کی بات کی تھی کہ ’آپ نے نواز شریف اورزرداری کو تو لگام ڈال دی ہے، اس عمران خان کا بھی کچھ کر لیں یہ بھی بڑا ناسور ثابت ہونا ہے‘۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستانی سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے غلام ہوتے ہیں اور ان کا اپنا کوئی نظریہ ہوتا ہی نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سبھی سیاست دان کوئی نہ کوئی ٹھوس سیاسی نظریہ رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں اصل مقتدر قوت فوج ہے اور چونکہ سیاسی نظریے سے زیادہ اقتدار کی ہوس ان سیاست دانوں پر غالب ہوتی ہے [بے نظیر، زرداری، نواز شریف، شہباز شریف تا عمران خان(فی الحال بے پیندے کے لوٹوں شیخ رشید اور پرویز الٰہی قبیل کی بات نہیں ہو رہی)] تو وہ اس ہوسِ اقتدار کی خاطر اپنے سیاسی نظریے کو قربان کر دیتے ہیں، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جی حضوری کرتے ہوئے وہ مسندِ اقتدار پر پہنچتے ہیں اور پھر اس گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کی کرسی اب مضبوط ہو گئی ہے اور سولین اداروں کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ساتھ میں خدمتِ ملک کی کچھ کوشش بھی کرپشن کے ساتھ کرتے ہیں اور ہر ایک کا اس کرپشن میں اپنے حساب سے فیصدی حصہ ہوتا ہے۔ پھر جیسے ہی یہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں، جیسا کہ ماضی میں بے نظیر، نواز شریف ہوئے تو انہیں اقتدار سے الگ کر دیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ عمران خان کے ساتھ ہوا۔ عمران خان نے بین الاقوامی پالیسی میں دومعروف اقدامات اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کے بر خلاف کیے، پہلا امریکہ کو پاکستان میں فوجی اڈے دینے سے انکار (Absolutely not!) اور دوسرا یوکرین کی جنگ میں معتدل بلکہ روس کی طرف جھکاؤ والا رویہ (دینی و شرعی لحاظ تو الگ معاملہ ہے لیکن مستقبل بعید میں شاید پاکستانی سیاست کے لحاظ سے یہ فیصلہ پاکستان کے حق میں جاتا)، اس دعوے کے حق میں یہ دو حقائق بھی جاتے ہیں کہ عمران خان کو ہٹاتے ہوئے اور ہٹانے کے بعد پاکستان کا یوکرین کی جنگ میں رویہ بدل گیا رپورٹوں کے مطابق پاکستان آرڈیننس فیکڑیز (POF) کا اسلحہ یوکرین استعمال کر رہا ہے، ساتھ ہی معتمد ذرائع کے مطابق اس وقت افغانستان کی فضاؤں میں محوِ پرواز ڈرون طیارے پاکستان کے صوبۂ خیبر پختون خوا میں موجود خفیہ امریکی ہوائی اڈوں سے اڑ رہے ہیں جہاں امریکی ہینگر موجود ہیں اور ان کی حفاظت کو پاک فوج کے جوان تعینات ہیں(اور ’عہدِ وفا‘ خوب ’نبھا ‘ یا ’گا‘رہے ہیں)۔ بہر کیف، اس سب کا نتیجہ وہ سائفر نکلا جو ذیل کے مضمون کا سبب بنا۔ یہاں یہ امر واضح کرنا بھی اہم ہے کہ عمران خان پر اس وقت بھی اقتدار ہی کی ہوس غالب ہے، جس ہوس کی خاطر اس نے دین و دنیا اور اعلیٰ و سفلی ہر عمل کیا ہے ، اور اس کی دلیل یہ بات ہے کہ اقتدار سے الگ ہونے سے عین قبل اور بعد عمران خان امریکہ کو اقتدار سے ہٹائے جانے کا سبب کہتا رہا، پھر جب اس کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل نہ ہو سکی اور اس نے اقتدار کی ہوس میں حالات کا ’حقیقت پسندانہ‘ جائزہ لیا تو وہ اپنے پہلے کے بیانات سے مکر گیا اور کہنے لگا کہ میری اس وقت کی معلومات غلط تھیں مجھے امریکہ نے نہیں باجوہ نے ہٹوایا، ہائے ری عالمی سیاسی منڈی میں پاکستان کی گندی سیاست میں اقتدار کی ہوس جس میں گدھے کو باپ اور باپ کو گدھا بنانا پڑتا ہے۔اللہ پاک اہل دنیا کو امریکی نظام اور اہلِ پاکستان کو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے نجات عطا کرے اور دنیا بھر میں اقامتِ خلافت کی کوششوں کو کامیاب فرمائے، آمین! (مدیر)


’دی انٹریپٹ‘ کی حاصل کردہ پاکستانی حکومت کی ایک خفیہ دستاویز کے مطابق، امریکی محکمہ خارجہ نے ۷ مارچ ۲۰۲۲ء کی ایک ملاقات میں پاکستانی حکومت کو، یوکرین پر روسی حملے پر غیر جانبداری دکھانے کی وجہ سے، عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے پر ابھارا۔

امریکہ میں پاکستانی سفیر اور محکمۂ خارجہ کے دو اہلکاروں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات گزشتہ ڈیڑھ سال سے پاکستان میں شدید تنازعات، موشگافیوں اور قیاس آرائیوں کا موضوع رہی ہے، جبکہ عمران خان کے حامیوں اور اس کے فوجی اور سویلین مخالفین کے درمیان طاقت کے حصول کی خاطر رسہ کشی ہوتی رہی۔ سیاسی کشمکش ۵ اگست ۲۰۲۳ء کو اور بڑھ گئی جب عمران خان کو بدعنوانی کے الزام میں تین سال قید کی سزا سنائی گئی اور معزولی کے بعد اسے دوسری بار حراست میں لے لیا گیا۔ عمران خان کے مدافعین اس الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔ اس سزا نے پاکستان کے مقبول ترین سیاست دان عمران خان کو اس سال کے آخر میں پاکستان میں متوقع انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا ہے۔

پاکستانی حکومت کی لیک ہونے والی خفیہ دستاویز میں مذکور امریکی حکام سے ملاقات کے ایک ماہ بعد ، پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کا ووٹ ڈالا گیا، جس کے نتیجے میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ووٹ، پاکستان کی طاقتور فوج کی پشت پناہی سے منعقد کیے گئے تھے۔ اس وقت سے عمران خان اور اس کے حامی ، فوج اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ایک جدوجہد میں مصروف ہیں، جنہوں نے، عمران خان کے دعوے کے مطابق، اسے امریکہ کے کہنے پر اقتدار سے ہٹانے کا منصوبہ تیار کیا۔

پاکستانی کیبل کا متن، جو سفیر کی ملاقات سے تیار کیا گیا اور پاکستان منتقل کیا گیا، پہلے شائع نہیں کیا گیا تھا۔ کیبل جسے داخلی طور پر ’سائیفر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، دونوں دھونس اور لالچ کے حربوں کو ظاہر کرتا ہے ، جو محکمہ خارجہ نے عمران خان کے خلاف اپنے دباؤ میں استعمال کیے تھے، وعدہ کیا گیا کہ اگر عمران خان کو ہٹا دیا گیا تو زیادہ گرمجوشی والے تعلقات ہوں گے اور نہ ہٹایا تو تنہا کر دیا جائے گا۔

’خفیہ‘ کے لیبل والی یہ دستاویز محکمۂ خارجہ کے عہدے داروں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی روداد پر مشتمل ہے، جس میں جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ ’ڈانلڈ لو‘(Donald Lu) اور اسد مجید خان شامل ہیں جو اس وقت امریکہ میں پاکستانی سفیر تھے۔

یہ دستاویز ’دی انٹرسیپٹ‘ کو پاکستانی فوج کے ایک گمنام ذریعے نے فراہم کی تھی، جس کے بقول اس کا عمران خان یا عمران خان کی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ ’دی انٹرسیپٹ‘ اس کیبل کے متن کو ذیل میں شائع کر رہا ہے، اس میں ٹائپنگ کی معمولی غلطیوں کو درست کیا گیا ہے کیونکہ اس طرح کی تفصیلات کو، دستاویز کو ’واٹرمارک‘ کرنے اور اس کے پھیلاؤ کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

’دی انٹرسیپٹ‘ کو حاصل شدہ دستاویز کا مواد پاکستانی اخبار ’ڈان‘ اور دیگر جگہوں کی رپورٹنگ سے مطابقت رکھتا ہے، جس میں ملاقات کے حالات اور کیبل کی ہی اپنی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ، بشمول درجہ بندی کے نشانات جنہیں ’دی انٹرسیپٹ‘ کی اس پیشکش سے خارج کر دیا گیا ہے۔ کیبل میں بیان کردہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کے محرکات آگے چل کر واقعات سے ظاہر ہوئے۔ کیبل میں، امریکہ نے خان کی یوکرین جنگ کے حوالے سے خارجہ پالیسی پر اعتراض کیا۔ ان مواقف کو خان کی برطرفی کے بعد فوری طور بدل دیا گیا، جس کے بعد، ملاقات میں کیے گئے وعدے کے مطابق، امریکہ اور پاکستان کے درمیان گرمجوشی پیدا ہو گئی۔

یہ ملاقات یوکرین پر روسی حملے کے دو ہفتے بعد ہوئی، اس وقت جب عمران خان ماسکو جا رہے تھے، وہ دورہ جس نے واشنگٹن کو مشتعل کر دیا۔

۲ مارچ کو، اس ملاقات سے صرف چند دن قبل، لُو سے سینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی میں انڈیا، سری لنکا اور پاکستان کی یوکرین تنازع کے حوالے سے غیر جانبداری کے بارے میں سوال کیا گیا۔ سینیٹر ’کرس وان ہولن‘ کی اقوام متحدہ کی قرار داد، جس میں اس تنازع میں روس کے کردار کی مذمت کی گئی تھی، سے پاکستان کے باز رہنے کے حالیے فیصلے کے بارے میں سوال کے جواب میں لو نے کہا:

’’وزیر اعظم خان نے حال ہی میں ماسکو کا دورہ کیا ہے، اور اس لیے مجھے لگتا ہے کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس فیصلے کے بعد خاص طور پر وزیراعظم کے ساتھ کس طرح تعامل کیا جائے۔‘‘

وان ہولن اس بات پر ناراض نظر آئے کہ محکمہ خارجہ کے اہلکار اس مسئلے میں خان کے ساتھ رابطے میں کیوں نہیں تھے۔

اس ملاقات سے ایک دن قبل، عمران خان نے ایک ریلی سے خطاب کیا اور یورپی مطالبے، کہ پاکستان یوکرین کی پشت پر کھڑا ہو جائے ، کابراہ راست جواب دیا ۔ ’’کیا ہم تمہارے غلام ہیں؟‘‘ عمران خان ہجوم کے سامنے گرج کر بولا۔’’ہم آپ کے سامنے کیا ہیں؟ کیا ہم کوئی غلام ہیں کہ جو آپ کہیں گے ہم کر لیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’ہماری روس سے بھی دوستی ہے، ہماری امریکہ سے بھی دوستی ہے۔ ہماری چائنہ سے بھی دوستی ہے روس سے بھی ہے۔ہم کسی کیمپ میں نہیں ہیں‘‘۔

دستاویز کے مطابق ملاقات میں لو نے واضح الفاظ میں تنازع میں پاکستان کے موقف سے واشنگٹن کی ناراضگی کے بارے میں بات کی۔ دستاویز میں لو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’یہاں اور یورپ کے لوگ اس بات پر کافی متفکر ہیں کہ پاکستان (یوکرین پر) اس قدر جارحانہ طور پر غیر جانبدارانہ موقف کیوں اختیار کر رہا ہے، اگر ایسی پوزیشن ممکن بھی ہے تب بھی۔ یہ ہمیں اتنا غیر جانبدارانہ موقف نظر نہیں آتا۔‘‘ لو نے مزید کہا کہ اس نے امریکی قومی سلامتی کونسل کے ساتھ داخلی گفت و شنید کی ہے اور یہ کہ ’’یہ بالکل واضح ہے کہ یہ وزیر اعظم کی پالیسی ہے۔‘‘

لو پھر دو ٹوک انداز میں عدم اعتماد کے ووٹ کا مسئلہ اٹھاتا ہے۔ دستاویز کے مطابق لو نے کہا: ’’میرے خیال میں اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کامیاب ہو جاتا ہے، تو واشنگٹن میں سب کچھ معاف کر دیا جائے گا، کیونکہ روس کے دورے کو وزیر اعظم کے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔‘‘ اس نے مزید کہا ، ’’ورنہ، مجھے لگتا ہے کہ آگے بڑھنا مشکل ہو گا۔‘‘

لو نے خبردار کیا کہ اگر صورتحال کو حل نہ کیا گیا، تو پاکستان کے مغربی اتحادی اسے غیر اہم بنا کر رکھ دیں گے۔ ’’میں نہیں بتا سکتا کہ یورپ اسے کیسے دیکھے گا لیکن مجھے شبہہ ہے کہ ان کا ردّعمل بھی اسی جیسا ہو گا‘‘، لو نے مزید کہا کہ اگر خان اپنے عہدے پر رہے گا تو اسے یورپ اور امریکہ کی طرف سے ’’تنہاکر دیے جانے‘‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پاکستانی کیبل میں لو کے اقتباسات کے بارے میں پوچھا جانے پر، سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا، ’’ ان مبینہ تبصروں میں کچھ بھی ایسا ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکہ نے اس حوالے سے کوئی موقف اختیار کیا ہو کہ پاکستان کا لیڈر کسے ہونا چاہیے۔‘‘ ملر نے کہا کہ وہ نجی سفارتی بات چیت پر تبصرہ نہیں کریں گے۔

پاکستانی سفیر نے امریکی قیادت کی طرف سے تعامل کے فقدان پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا: ’’اس ہچکچاہٹ نے پاکستان میں یہ تاثر پیدا کر دیا تھا کہ ہمیں نظر انداز کیا جا رہا ہے، یا یہاں تک کہ ہمیں معمولی سمجھا جا رہا ہے۔ ایک احساس یہ بھی پایا جاتا تھا کہ جبکہ امریکہ ان تمام معاملات میں جو امریکہ کے لیے اہم ہیں پاکستان کی مکمل حمایت کی توقع کرتا ہے لیکن وہ خود بدلے میں توقعات پوری نہیں کرتا‘‘۔

دستاویز کے مطابق، بحث کا اختتام پاکستانی سفیر کی طرف سے اس امید کے اظہار کے ساتھ ہوا کہ روس یوکرین جنگ کا مسئلہ’’ ہمارے دو طرفہ تعلقات کو متاثر نہیں کرے گا‘‘۔ لو نے اسے بتایا کہ نقصان حقیقی تھا لیکن مہلک نہیں، اور عمران خان کے جانے کے بعد تعلقات معمول پر آ سکتے ہیں۔ ’’میرا استدلال یہ ہے کہ ہمارے نقطۂ نظر سے اس نے پہلے سے ہی ہمارے تعلقات میں دراڑ ڈال دی ہے‘‘، لو نے پاکستان میں ’’سیاسی صورتحال‘‘ کا معاملہ دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا، ’’چلیں چند دن انتظار کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا سیاسی صورتحال بنتی ہے ، جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس معاملے میں ہمارا کوئی بڑا اختلاف نہیں ہو گا اور یہ دراڑ بہت جلد ختم ہو جائے گی۔ دوسری صورت میں، ہمیں اس مسئلے کا براہ راست سامنا کرنا پڑے گا اور فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اسے کیسے سنبھالا جائے‘‘۔

ملاقات سے اگلے دن ، ۸ مارچ کو ، پارلیمنٹ میں خان کے مخالفین عدم اعتماد کے ووٹ کی طرف اہم طریقہ کار کے ساتھ آگے بڑھے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایک غیر رہائشی اسکالر اور امورِ پاکستان کے ماہر عارف رفیق نے کہا، ’’اس ملاقات کے وقت عمران خان کی قسمت پر مہر نہیں لگائی گئی تھی، لیکن اس کی حالت کمزور تھی‘‘۔ ’’آپ کے سامنے یہ ہے کہ بائڈن انتظامیہ پاکستانی عوام کو پیغام بھیج رہی ہے جنہیں وہ پاکستان کے حقیقی حکمران کے طور پر دیکھتی ہے، اور انہیں اشارہ دے رہی ہے کہ اگر اسے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تو حالات بہتر ہو جائیں گے۔‘‘

’دی انٹرسیپٹ‘ نے دستاویز کی تصدیق کے لیے جامع کوششیں کی ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی کے ماحول کو دیکھتے ہوئے ، پاکستانی حکومت میں موجود ذرائع سے آزادانہ تصدیق حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں پاکستانی سفارت خانے نے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان، ملر نے کہا، ’’ ہم نے یوکرین پر روس کے حملے کے دن اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے ماسکو کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس اختلاف کو عوامی سطح پر بھی اور نجی سطح پر بھی بتایا تھا۔‘‘ اس نے مزید کہا کہ ’’امریکہ کی جانب سے پاکستان کی قیادت کے بارے میں اندرونی فیصلوں میں مداخلت کے الزامات غلط ہیں، وہ ہمیشہ سے غلط تھے اور اب بھی غلط ہیں۔

امریکی انکار

محکمہ خارجہ نے پہلے بھی اور متعدد مواقع پر اس بات کی تردید کی ہے کہ لو نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ وہ وزیر اعظم کو معزول کرے۔۸ اپریل ۲۰۲۲ء کو عمران خان کے اس الزام کے بعد کہ ایک کیبل موجود ہے جو امریکی مداخلت کے ان کے دعوے کو ثابت کرتی ہے، محکمۂ خارجہ کی ترجمان جلینا پورٹر سے اس کی صداقت کے بارے میں پوچھا گیا۔ پورٹر نے کہا، ’’مجھے دو ٹوک الفاظ میں صرف یہ کہنے دیں کہ ان الزامات میں قطعی طور پر کوئی صداقت نہیں ہے۔‘‘

جون ۲۰۲۳ء کے اوائل میں ، خان ’دی انٹرسیپٹ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو کے لیے بیٹھے اور دوبارہ ان الزامات کو دہرایا۔ اس وقت محکمہ خارجہ نے تبصرے کی درخواست کے جواب میں سابقہ تردیدوں کا حوالہ دیا۔

خان پیچھے نہیں ہٹا، اور محکمہ خارجہ نے جون اور جولائی کے دوران دوبارہ الزام کی تردید کی، کم از کم تین بار پریس کانفرنسوں میں اور ایک بار پھر پاکستان کے لیے ایک ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ کی تقریر میں، جس نے ان دعووں کو ’’پروپیگنڈہ، غلط معلومات، اور غلط معلومات‘‘ کہا۔ تازہ ترین موقع پر محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے اس سوال کا مذاق اڑایا۔ ملر نے کہا، ’’مجھے لگتا ہے کہ مجھے صرف ایک نشانی لانے کی ضرورت ہے جو میں اس سوال کے جواب میں اٹھا سکوں اور کہہ سکوں کہ یہ الزام درست نہیں ہے۔‘‘ ملر نے ہنستے ہوئے کہا اور جواب میں پریس کی جانب سے بھی قہقہے بلند ہوئے۔ ’’ میں نہیں جانتا میں اسے کتنی بار کہہ سکتا ہوں…… امریکہ پاکستان میں یا کسی بھی اور ملک میں کسی ایک سیاسی امیدوار یا پارٹی کے مقابلے میں دوسرے کے حوالے سے کوئی موقف نہیں رکھتا ۔

جبکہ کیبل پر ڈرامہ عوام اور پریس میں چل رہا ہے، پاکستانی فوج نے پاکستانی سول سوسائٹی پر ایک بے مثال حملہ شروع کیا ہے تاکہ ملک میں ماضی میں جو اختلاف رائے اور آزادانہ اظہار اپنا وجود رکھتا تھا اسے خاموش کرایا جا سکے۔

حالیہ مہینوں میں ، فوج کی زیر قیادت حکومت نے نہ صرف اختلاف کرنے والوں کے خلاف، بلکہ اپنے اداروں کے اندر مشتبہ لیک کرنے والوں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا، گزشتہ ہفتے ایک قانون پاس کیا جو بغیر وارنٹ تلاشیوں اور راز افشا کرنے والوں کے لیے جیل کی طویل سزاؤں کی اجازت دیتا ہے۔عمران خان کی حمایت کے عوامی مظاہروں سے متزلزل، جس کا اظہار اس مئی میں بڑے پیمانے پر مظاہروں اور ہنگاموں کے ایک سلسلے میں کیا گیا تھا، فوج نے اپنے لیے آمرانہ اختیارات بھی متعین کیے ہیں جو شہری آزادیوں کو بڑی حد تک کم کرتے ہیں، فوج پر تنقید کو جرم کا درجہ دیتے ہیں، ادارے کے ملک کی معیشت میں پہلے سے وسیع کردار کو مزید وسعت دیتے ہیں اور سیاسی قیادت کو ملک کے سیاسی اور سول معاملات پر مستقل ویٹو دیتے ہیں۔ جمہوریت پر یہ بڑے بڑے حملے ہوئے اور امریکی حکام کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ جولائی کے آخر میں، امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ، جنرل مائیکل کوریلا نے پاکستان کا دورہ کیا، پھر ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا دورہ ’’فوج سے فوج کے تعلقات کو مضبوط بنانے‘‘ پر مرکوز تھا، جبکہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس موسمِ گرما میں ٹیکساس سے کانگریس کے نمائندے گریگ کیسر نے نیشنل ڈیفنس آتھرائزیشن ایکٹ میں ایک اقدام شامل کرنے کی کوشش کی جس میں محکمہ خارجہ کو پاکستان میں جمہوری انحطاط پذیری کا جائزہ لینے کی ہدایت کی گئی، لیکن ایوان میں اس پر ووٹنگ منع کر دی گئی۔

پیر کو ایک پریس بریفنگ میں، اس سوال کے جواب میں کہ آیا عمران خان کا منصفانہ ٹرائل ہوا، محکمہ خارجہ کے ترجمان ملر نے کہا، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘‘۔

سیاسی افراتفری

پاکستانی فوج کے ساتھ اختلافات کے بعد خان کو اقتدار سے ہٹائے جانے سے، اسی ادارے نے جس نے اس کے سیاسی عروج تو تشکیل دیا، تئیس کروڑ کی قوم کو سیاسی اور اقتصادی بحران میں ڈال دیا ہے۔ خان کی برطرفی اور اس کی پارٹی کو دبانے کے خلاف مظاہروں نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کے اداروں کو مفلوج کر دیا ہے، جبکہ پاکستان کے موجودہ رہنما ایک ایسے معاشی بحران کا مقابلہ کر نے کی جدوجہد کر رہے ہیں جو جزوی طور پر یوکرین پر روس کے حملے کے نتیجے میں توانائی کی عالمی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات سے پیدا ہوا تھا۔ موجودہ افراتفری کے نتیجے میں ملک میں مہنگائی کی اور سرمائے کے ملک سے باہر جانے کی شرح حیران کن ہے۔

عام شہریوں کے لیے بگڑتی ہوئی صورتحال کے علاوہ، پاکستانی فوج کی ہدایات پر شدید سنسر شپ کا نظام بھی نافذ کیا گیا ہے، جس میں خبر رساں اداروں کو عمران خان کے نام کا ذکر کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے، جیسا کہ دی انٹرسیپٹ نے پہلے رپورٹ میں کہا تھا۔ سول سوسائٹی کے ہزاروں ارکان، جن میں زیادہ تر عمران خان کے حامی ہیں، کو فوج نے حراست میں لے لیا ہے، ایک کریک ڈاؤن، جس میں اس سال کے شروع میں عمران خان کی گرفتاری اور چار دن تک حراست میں رکھنے کے بعد شدت آگئی، اس سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد کی مصدقہ اطلاعات سامنے آئی ہیں، جن میں حراست میں متعدد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔

پاکستان میں کبھی بے قابو رہنے والے پریس کے خلاف کریک ڈاؤن نے خاصا تاریک موڑ لیا ہے۔ ملک سے فرار ہونے والے نامور پاکستانی صحافی ارشد شریف کو گزشتہ اکتوبر نیروبی میں ایسے حالات میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا جو متنازع ہیں۔ ایک اور معروف صحافی عمران ریاض خان کو سکیورٹی فورسز نے اس مئی میں ایک ہوائی اڈسے سے حراست میں لے لیا تھا اور اس کے بعد سے اسے دیکھا نہیں گیا۔ دونوں اس خفیہ کیبل پر رپورٹنگ کر رہے تھے، جس نے پاکستان میں تقریباً افسانوی حیثیت اختیار کر لی ہے، اور خان کی برطرفی سے قبل ان مٹھی بھر صحافیوں میں شامل تھے، جنہیں اس کے مواد کے بارے میں بریفنگ دی گئی تھی۔ پریس پر ان حملوں نے خوف کا ماحول پیدا کر دیا ہے جس نے پاکستان کے اندر رپورٹرز اور اداروں کی طرف سے دستاویز پر رپورٹنگ مکمل طور پر ناممکن بنا دی ہے۔

گزشتہ نومبر میں، عمران خان خود بھی قتل کی کوشش کا نشانہ بنا تھا، جب اسے ایک سیاسی ریلی کے دوران ایک حملے میں گولی ماری گئی تھی، جس میں وہ خود زخمی ہوا اور اس کا ایک حامی جاں بحق ہو گیا تھا۔ اس کی قید کو پاکستان کے اندر بڑے پیمانے پر، بشمول اس کی حکومت کے بہت سے ناقدین کے، فوج کی جانب سے اس کی پارٹی کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ رائے عامہ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تو غالباً عمران خان جیت جائے گا۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سکالر عارف رفیق کہتے ہیں: ’’عمران خان کو ایک مقدمے کی سماعت کے بعد جھوٹے الزامات پر سزا سنائی گئی تھی جہاں اس کے دفاع کو گواہ پیش کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اس سے پہلے وہ ایک قاتلانہ حملے میں بچ گیا تھا، اس کے ساتھ منسلک ایک صحافی کو قتل کیا گیا تھا، اور اس نے اپنے ہزاروں حامیوں کو قید ہوتے دیکھا ہے۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کہتی ہے کہ انسانی حقوق کو ان کی خارجہ پالیسی میں سب سے اوّلین حیثیت حاصل ہو گی، لیکن اب وہ نظریں چرا رہے ہیں جبکہ پاکستان ایک مکمل فوجی آمریت بننے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہ آخر کار پاکستانی فوج کا معاملہ ہے کہ جو ملک پر اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے بیرونی قوتوں کو استعمال کر رہی ہے۔ جب بھی کوئی بڑی جغرافیائی سیاسی دشمنی ہوتی ہے، چاہے وہ سرد جنگ ہو، یا دہشت گردی کے خلاف جنگ، وہ (پاکستانی فوج) جانتی ہے کہ امریکہ کو اپنے حق میں کیسے استعمال کرنا ہے۔

خان کے بارے میں کیبل کا حوالہ دینے نے بھی ان کی قانونی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، استغاثہ نے اس بات کی علیحدہ سے تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ آیا اس نے ریاستی رازوں کے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔

جمہوریت اور فوج

برسوں سے، امریکی حکومت کے پاکستانی فوج کے ساتھ سرپرستی کے تعلقات ہیں۔ جس (پاکستانی فوج) نے طویل عرصے سے ملکی سیاست میں طاقت کے حقیقی دلال کے طور پر کام کیا ہے۔ بہت سے پاکستانی ان تعلقات کو ملک کی معیشت کو ترقی دینے ، مقامی کرپشن کے ساتھ لڑنے اور ایک تعمیری خارجہ پالیسی اپنانے کے راستے میں ناقابلِ تسخیر رکاوٹ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ احساس کہ اس تعلق کی وجہ سے پاکستان میں بامعنی آزادی کا فقدان ہے، جس نے جمہوریت کے پھندے کے باوجود، ملکی سیاست میں فوج کو ایک قابو سے باہر قوت بنا دیا ہے، ایک مقبول وزیر اعظم کی برطرفی میں امریکہ کے ملوث ہونے کے الزام کو اور بھی آتش انگیز بنا دیتا ہے۔

’دی انٹرسپٹ‘ کے ذرائع نے ، جنہوں نےفوج کے ایک رکن کے طور پر اس دستاویز تک رسائی حاصل کی تھی، ملک کی فوجی قیادت سے ان کی بڑھتی ہوئی مایوسی، عمران خان کے خلاف سیاسی لڑائی میں اس کی شمولیت کے بعد فوج کے مورال پر پڑنے والے اثرات، حالیہ فوجی پروپیگنڈہ میں مرے ہوئے فوجیوں کی یادوں کا سیاسی مقاصد کے لیے استحصال اور کریک ڈاؤن کے دوران مسلح افواج کے ساتھ وسیع پیمانے پر عوام میں فوج سے محبت کے خاتمے کے بارے میں بتایا۔ ان کے خیال میں فوج پاکستان کو ۱۹۷۱ءجیسے بحران کی طرف دھکیل رہی ہے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کی علیحدگی ہوئی تھی۔

ذرائع نے مزید کہا کہ انہیں امید ہے کہ لیک ہونے والی دستاویز آخر کار اس بات کی تصدیق کر دے گی ، جوعام لوگوں کے ساتھ ساتھ مسلح افواج کےعام سپاہی کو پاکستانی فوج کے حوالے سے شکوک تھے، اور ادارے کو داخلی محاسبہ پر مجبور کرے گی۔

اس جون میں، عمران خان کی سیاسی جماعت پر فوج کے کریک ڈاؤن کے دوران، خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری، اعلیٰ بیوروکریٹ اعظم خان کو گرفتار کر کے ایک ماہ کے لیے قید حراست میں لے لیا گیا۔ دورانِ حراست اعظم خان نے مبینہ طور پر عدلیہ کے ایک رکن کے سامنے ریکارڈ کیا گیا ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ یہ کیبل واقعی اصلی تھی، لیکن سابق وزیر اعظم نے سیاسی فوائد کے لیے اس کے مواد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔

کیبل میں بیان کی گئی ملاقات کے ایک ماہ بعد، اور خان کو عہدے سے ہٹائے جانے سے چند دن قبل، اس وقت کے پاکستانی آرمی چیف قمر باجوہ نے عوامی سطح پر خان کی غیر جانبداری کو توڑتے ہوئے ایک تقریر کی اور روسی حملے کو ایک ’’بہت بڑا المیہ‘‘ قرار دیا اور روس پر تنقید کی۔ اس تبصرے نے عوامی تصویر کو کیبل میں درج لو کے نجی مشاہدے کے ساتھ جوڑ دیا ، کہ پاکستان کی غیرجانبداری عمران خان کی پالیسی تھی، لیکن فوج کی نہیں۔

عمران خان کی برطرفی کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے، اور پاکستان یوکرین تنازع میں زیادہ واضح طور پر امریکہ اور یورپی فریق کی طرف جھک رہا ہے۔ اپنی غیر جانبداری کا موقف ترک کرتے ہوئے، پاکستان اب یوکرائنی فوج کو ہتھیار فراہم کرنے والے کے طور پر ابھر رہا ہے۔ پاکستان کے تیار کردہ گولوں اور گولہ بارود کی تصاویر میدان جنگ کی تصاویر میں باقاعدگی سے نظر آتی رہتی ہیں۔ اس سال کے شروع میں ایک انٹرویو میں یورپی یونین کے ایک اہلکار نے یوکرین میں پاکستانی فوج کی پشت پناہی کی تصدیق کی تھی۔ دریں اثنا، یوکرین کے وزیر خارجہ نے اس جولائی میں پاکستان کا دورہ کیا جس کے بارے میں وسیع پیمانے پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ فوجی تعاون کے بارے میں تھا، لیکن عوامی طور پر اسے تجارت، تعلیم اور ماحولیاتی مسائل پر توجہ دینے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

امریکہ کی طرف دوبارہ جھکاؤ سے پاکستانی فوج کو منافع حاصل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ۳ اگست کو ایک پاکستانی اخبار نے رپورٹ کیا کہ پارلیمنٹ نے امریکہ کے ساتھ ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کی منظوری دی ہے ، جس میں مشترکہ مشقیں، کارروائیاں، تربیت، اڈے اور آلات شامل ہیں۔ اس معاہدے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ ۱۵ سالہ معاہدے کی جگہ لینا تھا جو ۲۰۲۰ء میں ختم ہو گیا تھا۔

پاکستانی ’’تشخیص‘‘

پاکستان کی داخلی ملکی سیاست پر لُو کے دو ٹوک تبصروں نے پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ رپورٹ کے نچلے حصے میں ایک مختصر ’’تشخیص‘‘ سیکشن میں کہا گیا ہے: ’’ڈان(ڈانلڈ یعنی) وائٹ ہاؤس کی واضح منظوری کے بغیرپالیسی میں اتنی قوی تبدیلی نہیں بیان کر سکتا تھا، جس کا اس نے بار بار حوالہ دیا تھا ۔ واضح طور پر ڈان نے پاکستان کے اندرونی سیاسی عمل کے حوالے سے جو بات کی وہ مناسب نہیں تھی۔ کیبل ایک سفارش کے ساتھ اختتام پذیر ہوتی ہے کہ ’’اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اسلام آباد میں امریکی سی ڈی اے آئی اے کو ایک مناسب سرکاری نقطہ ٔ نظر پیش کیا جائے، سی ڈی اے آئی اے کا حوالہ سفارتی مشن کے ایک قائم مقام سربراہ کے لیے ہے جبکہ اصلی سربراہ غیر حاضر ہو۔ بعد میں عمران خان کی حکومت کی طرف سے سفارتی احتجاج جاری کیا گیا۔

۲۷ مارچ ۲۰۲۲ء کو، اسی مہینے جس میں لو سے ملاقات کی گئی تھی، عمران خان نے عوامی سطح پر اس کیبل کے بارے میں بات کی، ایک ریلی میں اس کی تہہ شدہ کاپی ہوا میں لہرائی۔ عمران خان نے مبینہ طور پر پاکستان کی مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے سربراہوں کو قومی سلامتی کے اجلاس میں اس کے مندرجات سے بھی آگاہ کیا۔

یہ واضح نہیں کہ کیبل میں بتائی گئی اس ملاقات کے بعد آنے والے ہفتوں میں پاکستان امریکہ روابط میں کیا ہوا تھا۔ تاہم اگلے مہینے تک سیاسی ہوائیں اپنا رخ بدل چکی تھیں۔ ۱۰ اپریل کو ، عمران خان کو عدم اعتماد کے ووٹ میں معزول کر دیا گیا۔

نئے وزیراعظم، شہباز شریف نے بالآخر کیبل کے وجود کی تصدیق کی اور تسلیم کیا کہ لو کی طرف سے دیا گیا کچھ پیغام نامناسب تھا۔ اس نے کہا کہ پاکستان نے باضابطہ طور پر شکایت کی تھی لیکن خبردار کیا کہ کیبل خان کے وسیع تر دعووں کی تصدیق نہیں کرتی ہے۔

خان نے عوامی سطح پر بار بار کہا ہے کہ ٹاپ سیکریٹ کیبل سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی ہدایت کی تھی، لیکن بعد میں اس نے اپنی اس رائے پر نظر ثانی کی کیونکہ اس نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس کے حامیوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرے۔ اس نے جون میں انٹرویو دیوتے ہوئے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ امریکہ نے اس کی بے دخلی پر زور دیا ہوگا ، لیکن ایسا صرف اس لیے کہ اس کے ساتھ فوج نے ہیرا پھیری کی۔

خان کے معزول ہونے کے ایک سال بعد اور اس کی گرفتاری کے بعد کیبل کے مکمل متن کا انکشاف، آخر کار ایک دوسرے سے الٹ دعووں کا جائزہ لینے کی اجازت دے گا۔ عدل کی بات یہ ہے کہ سائفر کا متن شدت سے ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ نے عمارن خان کو ہٹانے پر ابھارا۔ کیبل کے مطابق، اگرچہ لو نے عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کا براہ راست حکم نہیں دیا، لیکن اس نے کہا کہ اگر عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر برقرار رہے تو پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہائی سمیت سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا، اور ساتھ ہی ساتھ ان کی برطرفی پر انعامات کا شارہ بھی دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تبصرے پاکستانی فوج کو کارروائی کرنے کے اشارے کے طور پر دیے گئے تھے۔

اپنے دیگر قانونی مسائل کے ساتھ ساتھ، خان خود بھی نئی حکومت کی جانب سے خفیہ کیبل سے معاملہ کرنے کے حوالے سے مسلسل نشانہ بنتے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ کے آخر میں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا تھا کہ عمران خان کے خلاف کیبل کے سلسلے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا، ’’عمران خان نے ریاست کے مفادات کے خلاف سازش کی ہے اور ریاست کی جانب سے ان کے خلاف ایک سفارتی مشن سے خفیہ سائفر رابطے کو بے نقاب کر کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلایا جائے گا‘‘۔

خان اب پاکستانی سیاست دانوں کی ایک طویل فہرست میں شامل ہو گئے ہیں جو فوج کے ساتھ تصادم کی وجہ سے اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام رہے ۔جیسا کہ سائفر میں نقل کیا گیا ہے، یوکرین کے تنازع کے دوران پاکستان کی عدم اتحاد کی پالیسی کے بارے میں، لو کے مطابق، خان کو امریکہ کی طرف سے ذاتی طور پر مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ عدم اعتماد کا ووٹ اور امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کے مستقبل پر اس کے اثرات پوری گفتگو میں نمایاں رہے۔

لو نے دستاویز میں خان کے عہدے پر رہنے کے امکان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ ایمانداری سے، میرے خیال میں یورپ اور امریکہ کی طرف سے وزیر اعظم کو تنہا کرنا بہت سخت ہو جائے گا۔‘‘

٭٭٭٭٭

Previous Post

جنگِ آزادی میں مسلم علماء کا مقصد: اسلام یا کچھ اور؟

Next Post

امارتِ اسلامیہ کو حاصل ہونے والی کامیابیاں

Related Posts

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

اٹھو پاکستان! بیٹی پکار رہی ہے

13 اگست 2025
کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

کلمے کے نام پر بنے ملک کے دارالامان میں بے آبرو ہوتی قوم کی بیٹیاں

13 اگست 2025
فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

فوجی اشرافیہ کی صہیونیت: پاکستانی فوج غزہ کا دفاع کیوں نہیں کرتی؟

13 اگست 2025
سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سوات سانحے کا ذمہ دار کون؟

10 جولائی 2025
سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

سیکولر مزاحمت اور نظام مسائل کا حل نہیں

7 جون 2025
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟
پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

26 مئی 2025
Next Post
امارتِ اسلامیہ کو حاصل ہونے والی کامیابیاں

امارتِ اسلامیہ کو حاصل ہونے والی کامیابیاں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version