نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷬ کی مستند تاریخ

عبد الستار سعید by عبد الستار سعید
9 جون 2025
in افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ, اپریل و مئی 2025
0

ایک بار پھر میوند میں

میوند قندھار شہرکے مغرب میں واقع ضلع ہے جو افغانستان کی تاریخ میں ایک معروف علاقہ جانا جاتا ہے۔ میوند پہلی دفعہ اس وقت مشہور ہوا جب برطانوی استعمار نے دوسری دفعہ افغانستان پر حملہ کیا اور اس دوران افغان مجاہدین نے برطانوی لشکر کو آمنے سامنے کی لڑائی میں میوند کے مقام پر شکست سے دوچار کیا۔

۱۸۸۰ء میں جب قندھار شہر پر انگریز قابض ہوئےتو افغان شہزادے ایوب خان نے صوبہ ہرات سے ایک بڑے لشکر کو انگریزوں کے تسلط سے قندھار شہر کو آزاد کرانے کی خاطر روانہ کیا۔ قندھار میں برطانوی فوجی سربراہ پریمروز نے جنرل باروز کی کمان میں پیادہ فوجی دستہ اور جنرل نٹل کی کمان میں ۳۵۰ سوار ایوب خان کا راستہ روکنے کے لیے ضلع گرشک بھجوا دیے۔ جولائی کی سخت گرمی میں برطانوی فوجیوں اور افغان غازیوں کا میوند کے تپتے ہوئے صحرا میں آمناسامنا ہوا اور سخت لڑائی شروع ہوئی۔ انگریز کے پاس توپ اور بھاری اسلحہ تھا، اس وجہ سے جنگ کے آغاز میں کئی مجاہدین شہید ہوئے(آج بھی میوند میں ان شہداء کے نام سے مشہور قبرستان موجود ہے)، قریب تھا کہ افغان غازیوں کو شکست ہوجاتی ، لیکن جنگ کے آخری مراحل میں ایک افغان مجاہدہ ’’ملالہ‘‘ کے رجزیہ اشعار نے غازیوں کے اندر نئی روح پھونک دی، غازی آگے بڑھے اور برطانوی لشکر کو تاریخی شکست سے دوچار کیا۔برطانوی ذرائع کے مطابق اس جنگ میں برطانوی لشکر کے ۹۶۹ فوجی ہلاک ہوئے جس میں ۲۹فوجی افسر شامل تھے۔کثیر تعداد میں فوجی زخمی ہوئے اور زیادہ تر وسائل جنگ کے میدان میں رہ گئے۔ افغانستان کی تاریخ انگریزوں کی ہلاکتوں کے اعداد و شمار اس سے بھی زیادہ بتاتی ہے۔ جیسا کہ سردار ایوب خان جنگ کے دوران افغانی لشکر کے سربراہ تھے تو انہیں اس فتح کی یاد میں غازی کے لقب سے نوازا گیا۔ اس جنگ نے میوند، ملالہ اور ایوب خان کے ناموں کو افغانستان کی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ انہی ناموں پر ملک کے مختلف علاقوں میں ہسپتال، نشریاتی و تعلیمی اداروں کے نام رکھے گئے۔ ظاہر شاہ کی حکومت کے دوران ضلع میوند کے مرکز کشک نخود میں ایک بڑا سکول بنا اور اس کا نام غازی محمد ایوب خان کے نام پر رکھا گیا۔

غازی ایوب خان تعلیمی ادارہ سوویت یونین کے حملے کے بعد ختم ہوگیا تھا، تنظیمی دور میں بھی یہ تعلیمی ادارہ ویران پڑا رہا، لیکن اس کے کمرے نسبتاً اچھی حالت میں تھے۔ ملا محمد عمر مجاہد اور ان کے ساتھی طالبان جب سنگ حصار سے میوند کے مرکز کشک نخود پہنچے، تو یہاں ان کے پاس رہائش کی جگہ نہیں تھی تو پہلی بار غازی ایوب خان نامی سکول میں پڑاؤ ڈالا اور یہی ان کا پہلا مرکز بنا۔

ایسے میں میوند نے افغانستان کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا، طالبان کی تحریک جو بعد میں امارت اسلامیہ بن گئی، اس کا آغاز بھی ضلع میوند سے ہوا اور پہلا مرکز بھی میوند کے کشک نخود میں میوند کے غازی ایوب خان کے تعلیمی ادارے میں بنا (اس وقت ضلع ژڑی نہیں بنا تھا اور سنگ حصار ضلع میوند سے مربوط تھا)۔

بندوق برداروں کے ساتھ نرمی اور سختی سے معاملے کا آغاز

ملا عمر ۱۹۹۴ء اگست کے مہینے میں اپنے ۵۴ ساتھیوں کے ساتھ جن میں صرف ۵ مسلح تھے کشک نخود پہنچ گئے اور غازی ایوب خان سکول میں مرکز بنا لیا۔ کمانڈر حاجی بشر نے ان کے ساتھ چالیس کلاشنکوفوں، پیکا، دو گاڑیوں اور چالیس لاکھ نقد افغانی رقم کا وعدہ کیا تھا۔ حاجی بشر نے، جوکہ ایک مالدار آدمی تھے اور طالبان کی تحریک کے ساتھ مخلص تھے، بعد میں طالبان کے لیے سو عدد کلاشنکوف خریدیں۔

ملا عمر اور آپ کے ساتھیوں نے پہلے روزضلع میوند کے مرکز کو اپنے کنٹرول میں لیا اور بڑی شاہراہ کو محفوظ بنایا۔ اگلے دن طالبان نے کشک نخود سے مغرب کی طرف ملنگ کاریز کے علاقے میں کمانڈر ابراہیم نامی ایک بندوق بردار کے چیک پوائنٹ کو ختم کردیا اور کمانڈر ابراہیم کو ریگستان کی طرف پسپا کردیا۔ اس طرح چیک پوائنٹس ختم کرنے کا سلسلہ عملاً شروع ہوا۔ اس روز سے ملا عمر نے تحمل کے ساتھ پہلی دفعہ خون بہانے کا راستہ روکا۔ ملک خداداد کے نام سے شامیر قلعہ کاایک کمانڈر جس کے ساتھ اس کے محافظ بھی تھے، ایک دن کشک نخود چلا آیا اور طالبان کے ساتھ منہ ماری شروع کی، معاملہ بندوق اٹھانے تک جا پہنچا۔ ایسے میں ملا صاحب نے اس کمانڈر کو، جو طالبان کو برا بھلا کہہ رہا تھا، اٹھا کر طالبان کے درمیان سے نکال دیا۔

ضلع میوند میں طالبان کے قیام کی خبر بڑی شاہراہ پر چلنے والی گاڑیوں کے ڈرائیوروں کے ذریعے دورپار کے علاقوں تک بھی پہنچ گئی اور ہر طرف سے طالبان کی آمد اور تحریک کے ساتھ جڑنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پندرہ دن بعد ملا صاحب نے طالبان کی تشکیل قندھار شہر کی طرف کردی اور سنگ حصار کے قریب عمومی سڑک پر سپین مسجد کے علاقے میں اپنا دوسرا مرکز بنایا۔

اس دوران طالبان کی آمد نے مزید زور پکڑا اور ہر روز دسیوں کے حساب سے نئے مجاہدین کی بھرتی شروع ہوگئی۔قندھار کے مشہور کمانڈر ملا محمد اخوند بھی اس تحریک کا حصہ بنے اور اپنا سارا اسلحہ تحریک کے سپرد کردیا۔ ۲۳ اگست ۱۹۹۴ء کو ملا صاحب نے بندوق برداروں کے کمانڈر داروخان اور صالح کو پسپا کرکے کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ بندوق بردار چیک پوائنٹ والے نرمی سے چیک پوائنٹ ختم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے ، سنگ حصار سے مغرب کی طرف پاشمول کے مقام پر ان کی چوکیاں اور مورچے تھے۔ ملا صاحب نے سو سے زائد طالبان کی وہاں تشکیل کردی ، پہلے گروہ کو مولوی عبدالصمد کی قیادت میں داروخان کے مورچوں کی طرف بھجوادیا اور خود ملا صاحب دسیوں طالبان کے ساتھ صالح کی چوکی اور مورچوں پر حملے کے لیے روانہ ہوئے۔یہ رات کے وقت دیہاتی علاقوں سے گزرتے ہوئے پاشمول پہنچ گئے اور وہاں بڑی سڑک کی طرف اوپر چڑھے۔ داروخان کے ساتھ دو دن فائرنگ کا تبادلہ رہا اور صالح نے بغیر لڑائی کے دوسری رات اپنے مورچے خالی کر دیے۔ بعد میں دارو خان نے بھی بھاگنے میں عافیت سمجھی اور پاشمول طالبان کے ہاتھ آ گیا۔

ملا جمعہ خان ضلع میوند گرماوک کے رہائشی تھے اور پاشمول کی اس جنگ میں شامل تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جس روز ہم نے پاشمول کا کنڑول سنبھال لیا تو وہاں کے رہائشی، جوان اورکچھ بچے جو بکریاں چرا رہے تھے ، وہ ہمارے قریب آئے، یہ بچے بہت خوش تھے اور کہہ رہے تھےبہت اچھا ہوا کہ ان بندوق برداروں کو یہاں سے بھگادیا۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ ایسے ظالم تھے کہ ہم نے کئی باران کے ہاتھوں قتل کی ہوئی عورتوں کی لاشیں دیکھیں، جو انہوں نے اپنے مورچوں کے پیچھے گڑھوں میں گرائی تھیں، اہلِ علاقہ ان لاشوں کو اٹھاکر ان کی تدفین کر دیتے۔

پاشمول کے بعد طالبان نے سنزری اور شاہ آغا کی دوراہیوں سے بھی چیک پوائنٹ ختم کردیے اور بغیر لڑائی کے وہاں کے مقامی بندوق برداروں حبیب اللہ جان، نادر جان اور نور کو بھگادیا۔ اس کے بعد طالبان کا سامنا حزب اسلامی کے کمانڈر سرکاتب سے ہوا۔ وہ چیک پوائنٹ ختم کرنے پر راضی نہیں ہوا لیکن طالبان کو راستہ دینے پر آمادہ ہوا تاکہ وہ قندھار کے ڈنڈہ نامی علاقے میں چلے جائیں اور وہاں ملا نقیب اور استاد عبدالعلیم کے جنگی خط کے درمیان اپنا مرکز بنائیں۔

اس دوران ملا صاحب کی حکمت عملی صلح اور دعوت کی تھی۔ آپ ﷫ بندوق برداروں کے مورچوں میں جاتے اور ان کو دعوت دیتے کہ عوام کو تکلیف پہنچانے سے باز آجائیں۔ طالبان ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو ضلع ڈنڈ میں پہنچے اور ۲۳ستمبر یعنی تقریبا ًایک مہینے کے اندر بندوق برداروں کو دعوت اور بات چیت کے ذریعےروکا تاکہ عام راستوں سے چیک پوائنٹس ختم کر دیں اور عوام کو تکلیف پہنچانے سے باز آجائیں۔ ملا صاحب نے قندھار شہر کے کمانڈروں سرکاتب، عبدالعلیم، امیر لالی اور دیگر کے ساتھ ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنا مقصد واضح کیا۔ کمیونزم کے دور کے کمانڈر منصور نے، جس کا غرہ نامی گاؤں میں مرکزتھا، ترنک کے پل پر چیک پوائنٹ بنایا تھا۔ ملا صاحب اس کے مرکز چلے گئے اور اسے سمجھایا کہ اپنے چیک پوائنٹ کو ختم کردے۔ قندھار شہر اور اطراف کے علاوہ بندوق برداروں کا دوسرا اہم مرکز سپین بولدک کا سرحدی شہر تھا۔ یہاں کی بڑی شاہراہ پر بھی مورچے اور چیک پوائنٹس بنائے گئے تھے اور ہر قسم کا ظلم اور بربریت جاری تھا۔ ملا صاحب نے بولدک کے چند مخلص مجاہدین ملا خالق داد اور ملا دوست محمد کے ذریعے اپنی دعوتی مہم کو بولدک تک پھیلادیا۔ بولدک کے کمانڈروں کے سامنے اپنا مقصد پیش کیا جن میں سے بعض آپ کی بات پر راضی ہوگئے لیکن محمد نبی اور اختر محمد نامی بولدک کے کماندر بندوق برداری سے پیچھے نہیں ہٹے۔

ڈنڈ میں طالبان کا تقریباً ایک مہینے سے کچھ اوپر کا عرصہ گزر گیا تھا جس میں کچھ خاص تصادم پیش نہیں آیا، لیکن یہاں گزارے وقت نےطالبان کی تحریک کو قوت اور نظم سے روشناس کیا۔ اس مرحلے میں دیگر صوبوں اور علاقوں سے تحریک کے ساتھ طالبان کے جڑنے میں تیزی آئی اور قندھار کی نامور جہادی شخصیات ملاربانی1، ملا محمد حارث، ملا بورجان اخوند2، ملا نورالدین ترابی اور روس کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والی دیگر معروف شخصیات طالبان کی تحریک میں شامل ہوگئیں۔ طالبان کی صفوں میں معروف مجاہدین کی شمولیت اور اہم ذمہ داریوں پر متعین ہونے کی وجہ سے ان تمام پروپیگنڈوں کی حیثیت ختم ہوگئی جس کے بلبوتے پر طالبان مخالفین زبان درازی کرتے اور کہتے رہتے کہ طالبان کا سابقہ جہادی دور سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مجاہدین کو ختم کرنے کی خاطر یہ تحریک اٹھی ہے۔

اسی دوران ملا محمد اخوند3کو تحریک کا عمومی عسکری مسئول بنادیا گیا۔ جب بندوق برداروں کے ساتھ کئی ہفتوں کی بات چیت بے اثر ثابت ہوئی اور بولدک کے بعض بندوق برداروں نے لڑائی کی باتیں شروع کردیں تو ۸ اکتوبر بمطابق (۳/۵/۱۴۰۱۵ ھ) کو ملا صاحب اور ملا محمد اخوند نے ضلع بولدک پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

کارروائی کرنے کے لیے عمومی کمانڈر ملا محمد اخوند، ملا عبدالخالق اخوند، ملا حمید اللہ اخوند اورملا محمد ربانی اخوند کے ساتھی ملا محمد اور ان کے ساتھ دیگر طالبان کا انتخاب ہوا۔

ملا محمد اخوند کے بیان کے مطابق کارروائی کی منصوبہ بندی کچھ اس طرح تھی کہ ضلع میوند اور ڈنڈ سے طالبان کے تمام گروپوں سے پانچ پانچ مجاہدین کا انتخاب کیا گیا۔ ملا صاحب کا حکم تھا کہ کسی کو اس منصوبے کی خبر نہیں ہونی چاہیے کہ حملہ کدھرکرنا ہے۔ بعد میں ان سب طالبان کو ضلع ژڑی میں ایک خالی مکان میں منتقل کیا گیا۔ اس جگہ سے ہر دو گاڑیوں (جن میں سے ایک حاجی بشر اور دوسری شہید لالا ملنگ کے مجموعے کی طرف سے تحریک کو دی گئی تھی) میں سے ہر ایک گاڑی میں تقریباً پچاس طالبان بیٹھ گئے۔ حرکت سے قبل طالبان کو باخبر کیا گیا کہ کہاں کارروائی کا ارادہ ہے، گاڑیوں کے پچھلے حصے پر شیٹ ڈالے تھے تاکہ روڈ پر سے گزرتے ہوئے بندوق برداروں کو خبر نہ ہو اور کارروائی کی منصوبہ بندی ظاہر نہ ہوپائے۔

ضلع بولدک سے کچھ فاصلے پر دونوں گاڑیوں کوروک دیا گیا، پلاسٹک شیٹ کو ہٹایا گیا، طالبان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر گروہ کو ان کے اہداف دئیے گئے تاکہ پہنچتے ساتھ ہی اپنے اہداف پر کام شروع کیا جائے۔ کچھ دیر ٹھہرنے کے بعد گاڑیوں نے حرکت شروع کردی، جب ضلع بولدک کے مرکز پہنچے، تو ایک گاڑی ضلعی دفتر میں داخل ہوگئی اور دوسری گاڑی چیک پوائنٹ کے ساتھ رُک گئی۔ طالبان گاڑی سے اتر گئے اور انتہائی کم وقت میں ضلعی دفتر، اس کےمحافظین، عدلیہ کا دفتر اورباقی اہم جگہوں پر قابض ہوگئے۔

اسی دن ضلع بولدک شہر کی مغربی جانب کو طالبان نے پکڑ لیا اور بندوق برداروں نے چوک کے مشرقی جانب پس قدمی کی اور ادھر ہی مورچے بنا دیے۔ دو دن اس وجہ سے جنگ رُک گئی اور قومی عمائدین کے ذریعے بات چیت جاری تھی تاکہ علاقہ بغیر لڑائی کے قبضے میں آجائے ۔لیکن دو دن بعد مغرب کے وقت جنگ کے نتیجے میں بندوق برداروں کو شکست ہوئی اور بولدک مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں آگیا۔

بولدک کی فتح ایک اہم واقعہ تھا جو میڈیا کے خبروں کی سرخی بنا اور پہلی دفعہ طالبان کے انقلاب کو اعلامی حیثیت ملی جسے ملک بھر میں اور عالمی دنیا نے ریڈیو کے ذریعے سنا۔ طالبان کی اسلامی تحریک کا قیام تین ماہ قبل ضلع میوند میں شروع ہوا تھا، بولدک کی فتح کے بعد میڈیا میں ان کا ذکرہوا، عالمی اور ملکی حقائق سے بے خبر صحافیوں نے اس خبر کو ایسے پھیلایا کہ گویا طالبان کی تحریک کا آغاز بولدک سے ہوا ہےاور یہ بے بنیاد خبر طالبان کے بارے میں اکثر مطبوعات میں ملی۔

بولدک کی مکمل فتح سے اگلی صبح ملا صاحب بولدک پہنچ گئے، ملا محمد اخوند اور دیگر مجاہدین کے ساتھ مشورے کیے، بولدک شہر کی فتح کے بعد بھی ان کی یہ رائے تھی کہ قندھار شہر کے بندوق برداروں کو بات چیت کے ذریعے ظلم اور تشدد سے باز رہنے پر قائل کیا جائے۔ اس وقت طالبان کا اہم مرکز ضلع ڈنڈ میں واقع تھا، ملا صاحب اکثر اوقات رات سنگ حصار میں اپنے گھر میں گزارتے تھے اور دن کے وقت اسی راستے سے گزر کر ضلع ڈنڈ آتے جو سرکاتب کے چیک پوائنٹ سے گزر تا تھا۔

بولدک کی فتح نے قندھار کے بڑے کمانڈروں کو خوف میں مبتلاکردیا جو اس سے قبل طالبان کو اپنے لیے کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں کررہے تھے۔ یہ کمانڈر اس بات کو سمجھ گئے کہ طالبان بالآخر ان کے چیک پوائنٹس کو بھی ختم کردیں گے۔ بولدک کی فتح کے چند دن بعد ایک رات قندھار کے کمانڈروں نے خفیہ اجلاس بلایا، اس اجلاس میں ملا نقیب کے علاوہ تمام کمانڈرز نے شرکت کی۔ یہ کمانڈرز اس بات پر متفق ہوگئے کہ طالبان کے خلاف مشترکہ طور پر جوابی حملوں کا آغاز کریں گے۔منصوبے کے مطابق سرکاتب کو یہ کام حوالے کیا گیا کہ صبح سویرے طالبان کے راہنما ملا محمد عمر مجاہد جب سنگ حصار سے ڈنڈ کی طرف جائیں گے تو راستے میں ان کو ایک کمین میں ساتھیوں سمیت قتل کردیا جائے۔ دوسری جانب منصور کی سربراہی میں امیرلالی، گل آغا ، سرکاتب اور دیگر بندوق بردار بولدک پر مشترکہ حملہ کریں گے اور طالبان کو ادھر ختم کردیں گے۔ طالبان کو ختم کرنے کا یہ منصوبہ اجلاس کے تمام شرکاء نے قبول کرلیا اور ہر ایک نےاپنےحصے کی ذمہ داری کو بخوبی ادا کرنے کا وعدہ کیا۔

لیکن اجلاس کو ختم ہوئے ابھی دو گھنٹے بھی نہیں گزریں ہوں گے کہ ملا صاحب کو ساری منصوبہ بندی کا علم ہو گیا۔ اجلاس میں شرکت کرنے والا ایک فرد، جس کی طالبان کے ساتھ ہمدردی تھی ، اجلاس ختم ہونے کے بعد سنگ حصار چلے گئے اور وہاں ملا صاحب کو خبر دی کہ کل آپ پر حملہ ہونے والا ہے۔

ملا صاحب کا مستقل ملا محمد اخوند کے ساتھ رابطہ رہتا تھا ، آپ نے فوراً ملا محمد اخوند کے ساتھ رابطہ کیا اور انہیں قندھار کے کمانڈروں کی مشترکہ منصوبہ بندی سے آگاہ کیا، اور انہیں حملے کی صورت میں دفاع اور آگے بڑھ کر حملہ کرنے کی ہدایت دی۔اگلے دن ملا صاحب خود ڈنڈ نہیں گئے اور اسی طرح سرکاتب کا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ طالبان نے بولدک میں قندھار کی جانب جانے والے راستے میں دوت کے مقام پر محمد نبی کے چیک پوائنٹ کو ختم کردیا تھا، کماندانوں کی جانب سے متوقع حملہ کرنے کی صورت میں اپنی دفاع کے لیے مزید آگے بڑھے اور انزرگی کے علاقے کو علاقائی کمانڈر ولی شاہ سے بغیر لڑائی پکڑ لیا۔ قندھار کے بندوق برداروں کے قافلے نے جو کثیر تعداد میں جنگجوؤں، ٹینکوں، توپوں اور دیگر بھاری اسلحے سے لیس تھا تخت پل کے مقام پر پڑاؤ ڈال دیا۔

بندوق برداروں نے طالبان کو پیغام بھجوایا کہ تسلیم ہوجاؤ، ورنہ ہم تم کوخاک میں ملادیں گے۔ لیکن ملا محمد اخوند جو جنگ میں کمال مہارت رکھتے تھے، آپ نے مقابل گروہ کو موقع دیا کہ منتشر ہوکر اپنی طاقت کا زور لگائے۔ طالبان دفاعی پوزیشن میں تھے اور دفاعی خط کی شکل میں ان کو روکا ہوا تھا۔ قندھار کے بندوق برداروں نے تین دن مسلسل اپنے بھاری اسلحے کا استعمال کیا اور تعارضی حملے کیے لیکن آگے بڑھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔بولدک کے شکست خوردہ بندوق برداروں محمد نبی اور اختر محمد نے اس دوران حملہ کیا بولدک کے راستے میں میل کے نام سےپل پر قابض ہوگئے اور طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، ایسے میں ملا رحمت اللہ اخوند4 نے جوابی حملہ کرکے ان کو شکست دے دی اور ان کے کچھ افراد کو قیدی بنایا جبکہ کچھ گاڑیوں سمیت دیگر سازوسامان کو اپنے قبضے میں لیا۔اس لڑائی کے ساتھ ساتھ طالبان نے بولدک کے پہاڑوں میں اس اسلحے کے ذخیرے پر بھی حملے شروع کردیے جس کا تعلق ان کمانڈروں سے تھا، طالبان اسلحے کے ذخیروں پر قابض ہوگئے اور کثیر تعداد میں جنگی سازوسامان طالبان کے ہاتھ آیا۔

تخت پل کی لڑائی میں جب بندوق برداروں کے حملے ناکام ہوئے اور ان کا زور ٹوٹ گیا تو ملامحمد اخوند نے جوابی حملہ کرنے کی منصوبہ بندی بنائی۔ ایک سو پندرہ کی تعداد میں طالبان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا، خود ملا رحمت اللہ اخوند کی مدد سے سڑک کے اس پار حملہ کیا اور نچلی جانب کی مسئولیت ملا سراج الدین اخوند کو دے دی۔ آپ نے اندھیرے میں کارروائی کا آغاز کردیا، کچھ دیر کی جنگ کے بعد دونوں اطراف کے بندوق برداروں کو شکست ہوئی اور طالبان تخت پل کے مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے، ا س جگہ سے بندوق برداروں کا تعاقب کیا اور رات و رات قندھار کے ائیر پورٹ تک ان کو پسپا کردیا۔ ملا صاحب ساری رات ملا محمد اخوند کے ساتھ مخابرے (وائرلیس سیٹ) پر رابطے میں تھے۔ جب طالبان تور کوتل سے آگے چلے گئے تو آپ نے امردیا کہ ائیر پورٹ کے ساتھ رک جائیں ایسا نہ ہ ہو کہ شہر کے اندر اندھیرے میں داخل ہونے سے نقصان اٹھانا پڑے۔

راستے میں وہ ٹینک اور گاڑیاں جو بندوق بردارچھوڑ کر بھاگ گئے تھے ان کو طالبان نے اپنے قبضے میں لیا۔ طالبان نے اگلی صبح قندھار ائیر پورٹ کو بھی اپنے قبضے میں لیا اور جب شہر کی طرف بندوق برداروں کی مزاحمت کا کوئی نام و نشان موجود نہیں تھاتو طالبان شہر کی طرف بڑھنا شروع ہوئے، اس دوران ضلع خاکریز کے وہاب خان نامی کمانڈر کا قافلہ امیر لالی کی مدد کے لیے آپہنچا، مختصر جنگ کے بعد طالبان نے ان کو شکست دے دی اور وہاب خان امیر لالی کے کمانڈروں عبداللہ خان اور بارو کی طرح طالبان کے ہاتھوں قیدی بنا۔ اس روز غرہ نامی گاؤں میں منصور کے مرکز کو بھی قبضے میں لیا گیا اور خود منصور جو پسپاہوتے وقت صحرا میں مارا گیا تھا طالبان نے اس کی لاش کو ائیرپورٹ کے دروازے میں ٹینک کی بیرل کے ساتھ لٹکا دیا۔

اسی طرح قندھار شہر میں امیر لالی، گل آغا، منصور اور عبدالعلیم کی جگہیں طالبان کے ہاتھ میں آگئیں۔ ملا نقیب نے اپنے گروہ کو ختم کردیا اور تمام وسائل اور جگہیں طالبان کے حوالے کر دیں۔ طالبان نے چند دن بعد تنہا رہ جانے والے کمانڈر سر کاتب کو بھی مختصر جنگ کے بعدعلاقے سے پسپا کردیا اور اس کے بعد خاکریز اور شاولی کوٹ کے اضلاع بھی طالبان کے ہاتھ آئے اورپھر افغانستان کا پہلا دار الحکومت اور جنوب میں تاریخی شہر قندھار بھی مکمل طور پرملا محمد عمر مجاہد کی حکومت کے تحت آیا۔

٭٭٭٭٭

1 مرحوم ملا محمد ربانی فرزند ملا امیر محمد ۱۳۷۷ھ میں صوبہ قندھار کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنا بچپن اور جوانی دینی علوم کے حصول میں صرف کی۔ ملا محمد ربانی (جوحاجی معاون صاحب کے نام سے مشہور تھے) روس کے خلاف جہاد کے دوران مولوی یونس خالص صاحب کی حزب اسلامی میں شامل تھےاور مجاہدین کی عبوری حکومت میں حج و اوقاف کے وزارت کے معاون کی مسؤلیت پر بھی رہے۔ ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں اسلامی تحریک کے آغاز کے بعد آپ اس تحریک میں شامل ہوئے اور جب دارالحکومت کابل طالبان کے ہاتھوں فتح ہوا، آپ سرپرست شوریٰ کے صدر اور بعد میں ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ حاجی معاون صاحب امارت اسلامیہ کے دوسرے بااثر راہنما تھے جو صاحبِ علم، حسنِ اخلاق، حلم، تواضع، ذہانت اور تقویٰ جیسی صفات کے حامل تھے۔ آپ کینسر کی شدید مرض کی وجہ سے ۱۴۲۲ھ ماہِ محرم کی پہلی تاریخ کو وفات پاگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

2 شہید ملا امین اللہ جو کہ ملا بورجان اخوند کے نام سے مشہور تھے، فرزند ملا محمد صادق ۱۳۷۹ھ میں صوبہ قندھار کے ضلع پنجوائی کے تلوکان علاقے میں پیدا ہوئے۔ ملا بورجان نے اپنا بچپن دینی علوم کے حصول میں گزارا اور روس کے خلاف جہاد میں آپ ایک بہادر اور نیک مجاہد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ امارت اسلامیہ کے قیام کےآغاز سے آپ اس تحریک کے ساتھ شامل رہے، اکثر لڑائیوں میں مجاہدین کی قیادت سنبھالی۔ ملا بورجان اخوند کی قیادت میں مشہور فاتحانہ کارروائیاں پکتیا کے مشرقی علاقوں سے شروع ہوئیں، صوبہ لوگر کے ضلع ازرہ، اس کے بعد صوبہ ننگرہار کے علاقے حصارک اور پھر جلال آباد شہر کو پکڑ لیا، اس کے بعد صوبہ لغمان اور کنڑ کو اپنے قبضے میں لے لیا اور پھر آپ نے کابل کو فتح کرنے کی کارروائی کا آغاز کیا۔ یہ کارروائی جب کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی اور کابل فتح ہوگیا، تو ملا بورجان اس لڑائی میں وریش مین تنگی کے علاقے میں ۲۴ ستمبر ۱۹۹۶ء کو شہید ہوئے۔ فاتحِ کابل ملا بور جان اخوند کے نام کا حصہ بنا، اسلامی تحریک کے مشہور شخصیات میں شمار کیے جاتے ہیں اور اسی راستے میں شہادت کا جام نوش کر گئے۔

3 ملا محمد اخوند فرزندِ عبدالواحد ۱۳۸۲ھ میں قندھار کے ضلع ارغنداب کے منار گاؤں میں ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے۔ روس کے خلاف جہاد کے دوران ملا محمد اخوند نے قندھار کے معروف مجاہد لالا ملنگ کے گروپ میں شامل ہوکر جہاد کا آغاز کیا۔یہ مجموعہ جوکہ مولوی محمد یونس خالص صاحب کی تنظیم کے ساتھ منسلک تھا، امارت اسلامیہ کے بعض دیگر مسؤلین ملا محمد حسن رحمانی، سید عبداللہ آغا (تورک آغا)، ملا حیات اللہ اخوند (حاجی لالا) اور کئی دیگر ذمہ داران بھی اس مجموعے کے ساتھ منسلک رہے۔طالبان کی اسلامی تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی آپؒ نے اپنے مجموعے کا سارا اسلحہ تحریک کےلیے وقف کردیا اور اپنے مجاہدین کو طالبان کی اسلامی تحریک میں شامل کردیا۔ آپ کو اسلامی تحریک کے عمومی عسکری مسئول کی حیثیت سے منتخب کیا گیا، ملا محمد اخوند کی قیادت میں ضلع بولدک اور پھر قندھار شہر فتح ہوا، اس کے بعد آپ نے ہلمند، فراہ اور نیمروز میں بھی مخالفین کے خلاف جنگیں لڑیں۔ بالاخر ۳ ستمبر ۱۹۹۵ء کو صوبہ ہلمند کے شوراب دشت میں مخالفین کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی میں شہید ہوگئے۔

4 شہید ملا رحمت اللہ اخوند فرزند الحاج ملا فیض محمد اخوند۱۹۷۱ء میں صوبہ قندھار کے ضلع ارغنداب کے جازہ گاؤں میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔

ملا رحمت اللہ اخوند اسلامی تحریک کےاولین قائدین میں سے تھے۔ قندھار شہر کی فتح، ہلمند کی کارروائیوں اور ہرات کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسلامی تحریک کے پہلے عسکری مسئول ملا محمد اخوند کی شہادت کے بعد ملا رحمت اللہ اخوند کو ان کی جگہ متعین کیا گیا۔ ملا رحمت اللہ اخوند کے پاس اپنی زندگی کے آخری ایام میں کابل کے قریب ریشخورو کے علاقے میں جنگی خط کی مسؤلیت تھی جہاں آپ ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں شہید ہوئے۔

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

Next Post

جمہوریت کا جال

Related Posts

عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | نویں قسط

12 اگست 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
سورۃ الانفال | نواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | بارہواں درس

27 مئی 2025
Next Post
جمہوریت کا جال

جمہوریت کا جال

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version