نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | دسویں قسط

امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷬ کی مستند تاریخ

عبد الستار سعید by عبد الستار سعید
26 ستمبر 2025
in ستمبر 2025ء, افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
0

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

نیک کاموں کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا ہمیشہ سے مسلمانوں کی ذمہ داری رہی ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ؁ (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)

’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۭوَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ؁ (سورۃ آل عمران: ۱۰۴)

’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، یہی لوگ کامیاب ہیں۔‘‘

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ؀ (سورۃ التوبۃ: ۷۱)

’’ اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ ‘‘

ان الہی ارشادات کو دیکھتے ہوئے ملا محمد عمر مجاہد نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی تحریک کی اہم ذمہ داریوںمیں سے قراردیا۔ طالبان تحریک نے ابتدا ہی سے سیار گروپ کے نام سے ایک خاص مجموعہ تشکیل دیا، جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دیتا۔ مذکورہ مجموعہ کے افراد نے مفتوحہ علاقوں میں نہ صرف خانگی سطح پر بلکہ عمومی شاہراہوں، مساجد، مدارس اور عوامی مقامات پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فرائض ادا کیے۔

طالبان نے اپنا مقدس جہاد شروع کرنے کے چند ماہ بعد ہی ۱۷ ذوالقعدہ ۱۴۱۵ھ بمطابق ۱۸ اپریل ۱۹۹۵ء کوملا محمد عمر مجاہد صاحب کے خصوصی فرمان کے مطابق اس مجموعے کو محکمہ امر بالمعروف میں تبدیل کردیا اور مولوی محمد ولی صاحب کو اس محکمے کا مسئول مقرر کیا، یہ محکمہ فتحِ کابل کے بعد مستقل وزارت میں بدل دیا گیا۔

جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ افغانستان کے تمام اہلِ سنت حضرات حنفی مذہب کے پیروکار اور امامِ اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں، ملا صاحب نے بھی حنفی مذہب پر سختی سے کاربند ہونے کی وجہ سے غیر مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے نظریات اور سرگرمیوں پر پابندی لگادی تھی، اسی طرح وہ افغان معاشرے میں رائج غیر شرعی رسومات، خرافات اور بدعات سے بھی روکتے تھے۔

شرعی حجاب کی ترویج اور اختلاط کی روک تھام

عالمِ اسلام پر ایک لمبے عرصے سے ایسے نظام مسلط کیے گئے ہیں جو اسلامی احکامات کی تبلیغ، ترویج اور ان پر عمل پیرا ہونے کو درخورد اعتنا نہیں گردانتے، دیگر اسلامی احکام کے ساتھ ساتھ ایک اہم فریضہ جسے اسلامی معاشروں میں ترک کردیا گیا ہے، وہ شرعی حجاب ہے۔

افغانستان میں بادشاہی نظام کے وقت سے ہی حجاب ترک کرنے اور مرد وزن کے مابین حکومتی، تعلیمی اور دیگر اداروں میں اختلاط عام تھا، جس کے برے اثرات معاشرے میں پھیل رہے تھے، یہاں تک کہ اکثر شہروں میں مسلمان خواتین شرعی حجاب کا اہتمام نہیں کرتی تھیں اور سرکاری اداروں میں مردوں کے ساتھ اختلاط ایک معمول بن چکا تھا۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:

وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰي جُيُوْبِهِنَّ ۠ وَلَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَاۗءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِيْٓ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَاۗىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِيْنَ غَيْرِ اُولِي الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِيْنَ لَمْ يَظْهَرُوْا عَلٰي عَوْرٰتِ النِّسَاۗءِ ۠ وَلَا يَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِيْنَ مِنْ زِيْنَتِهِنَّ ۭ وَتُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ جَمِيْعًا اَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ؀ (سورۃ النور: ۳۱)

’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہوجائے۔ اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا ان کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں یا ان خدمت گزاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انھوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے۔ اور اے مومنو ! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔ ‘‘

عن عروة عن عَائِشَة رضي الله عنها قالت: لقد كان رسولُ الله صلى الله عليه وسلم يُصَلِّي الفَجر، فَيَشهَدُ معه نِسَاء مِن المُؤمِنَات، مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوطِهِنَّ، ثم يَرجِعْن إلى بُيُوتِهِنَّ مَا يُعْرِفُهُنَّ أحدٌ.(متفق علیه)

’’ حضرت عروہ سے روایت ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھتے تھے، اور مسلمان عورتیں (نماز کے لیے) حاضر ہوتیں، اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی۔ پھر وہ نماز کے بعد اپنے گھروں کو واپس لوٹ جاتیں اور کوئی انہیں پہچان نہ سکتا تھا۔‘‘

طالبان نے شہروں پر تسلط حاصل کرنے کے بعد تمام خواتین پر شرعی حجاب کی پابندی اور مرد و زن کے مابین اختلاط کو ممنوع قراردیا اور تعلیمی وسرکاری اداروں میں خواتین کی غیر ضروری آمد ورفت پر وقتی طور پر پابندی لگادی، تا آنکہ ایک ایسا منظم نظام متعارف کروا لیا جائے جس میں خواتین اختلاط اور بے پردگی سے بچتے ہوئے اپنی تعلیم اور ضروری کام سرانجام دے سکیں۔

افغانستان کی تمام خواتین نے ان احکامات کا خیر مقدم کیا اور انہیں اپنی عزت اور وقار کا ذریعہ سمجھا، لیکن بین الاقوامی اسلام دشمن قوتوں نے شرعی پردے جیسے اسلامی حکم کی شدید مذمت کی اور پروپیگنڈا جنگ کے ساتھ ساتھ سیاسی دباؤ بھی بڑھانے لگے، یہاں تک کہ ایک بار ہرات شہر میں خواتین کا ایک احتجاجی مظاہرہ بھی ترتیب دیا۔ اس سب کے باوجود ملا صاحب نے شرعی احکامات کی تطبیق میں ذرّہ بھر تساہل اور تنازل سے کام نہیں لیا۔

دیگر سرگرمیاں اور ادارہ جاتی اقدامات

نظام میں تبدیلیوں اور اداروں کی سرگرمیوں کے آغاز کے بعد مجموعی طور پر عمرانی اور انتظامی اقدامات عمل میں لائے گئے۔ اس کے بعد طالبان نے افغانستان میں بے شمار اصلاحات متعارف کرائیں۔ اس حوالے سے طالبان کا اہم مقصد بیت المال، قومی اثاثوں اور وسائل کو محفوظ کرنا تھا۔ طالبان نے قندھار اور دیگر صوبوں میں فعال اور غیر فعال جنگی وسائل جیسے ٹینک، ہیلی کاپٹر، توپ خانے اور دیگر وسائل کو جمع کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ سرکاری اسباب، تعمیرات اور وہ تمام گھر جو مختلف لوگوں کے قبضے میں تھے، واگزار کروا کر حکومتی دسترس میں دے دیے گئے۔قندھار شہر اور دیگر علاقوں میں بہت سے لوگوں نے سرکاری زمینوں پر گھر تعمیر کیے تھے، اسی طرح عام شاہراہوں کے درمیان دکانیں اور مارکیٹیں تعمیر کی تھیں، عام راستوں میں پھاٹک لگائے ہوئے تھے۔ قندھار بلدیہ نے تمام راستے کھول دیےاور ناجائز تعمیرات اور دکانوں کو منہدم کرڈالا۔

عمرانی شعبے میں بھی قابلِ ذکر اقدامات اٹھائے گئے، طالبان نے موسمِ سرما کے شروع میں صوبہ ہلمند پر قبضہ کیا اور ایک ماہ کے اندر اندر وہاں موجود بُست کی فیکٹریوں کو پھر سے فعال کر دیا اور وہاں کپاس کی پروسیسنگ کے علاوہ گھی، صابن اور چارے کی تیاری شروع کردی گئی۔

شہری ترقیاتی امور کے حوالے سے طالبان کی زیادہ توجہ مساجد اور دینی مدارس تعمیر کرنے پر تھی، اس سے پہلے پورے افغانستان میں گنتی کے چند مدارس تھے، خانہ جنگی کے دوران ان کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا، طالبان نے شہروں، دیہاتوں اور اضلاع میں مساجد اور مدارس تعمیر کیے، تاکہ نوجوان نسل کی عملی وفکری تربیت ہوسکے۔

انقلاب کے انہی ابتدائی ایام میں طالبان کی جانب سے شرعی اصلاحات اور رفاہی امور پر بھرپور توجہ سے ظاہر ہوا کہ یہ لوگ اپنے دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے والے اور ملک وملت کے لیے کتنے خیرخواہ ہیں۔

مرکزی دارالافتاء کا قیام

امارتِ اسلامی کے تمام اقدامات شریعت کے مطابق سرانجام دینے کے لیے ایک معتبر دینی وعلمی مرجع کی ضروت تھی، جو تمام مسائل و معاملات میں امارتِ اسلامی کے امیر اور دیگر تمام مسؤلین کی رہنمائی کرسکے۔

اس مقصد کے لیے ملا محمد عمر مجاہد نے قندھار میں مرکزی دارالافتاء کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی، جو فقہ حنفی کی تعلیمات کے مطابق امارتِ اسلامیہ کے تمام اقدامات کو میزانِ شریعت میں جانچے، اس ادارے نے اگرچہ ابتدا ہی سے کام شروع کردیا تھا، لیکن ۱۹۹۶ء میں ملا صاحب نے اس پر خصوصی توجہ دے کر جلیل القدر علمائے کرام اور مشائخ عظام کے مشورے سے اس ادارے کے لیے افرادِ کار کی نئی تشکیل ترتیب دی۔

امارتِ اسلامی کے قاضی القضاۃ مولوی نور محمد ثاقب جو کچھ وقت کے لیے مرکزی دار الافتاء کے رئیس بھی رہے، فرماتے ہیں:

’’سرطان ۱۳۷۵ ھ ش (بمطابق جولائی ۱۹۹۶ء) میں تحریکِ اسلامی طالبان کے امیر کی جانب سے ہم چھ علماء، مولوی نور محمد ثاقب، مولوی حاجی محمد صادق، مولوی محمد نعیم اخندزاده، مولوی فضل الرحمن، مولوی شہاب الدین دلاور اور مولوی مسلم حقانی، کو قندہار بلایاگیا۔ وہاں پہنچ کر پہلے تحریک کے رہنماؤں ملا محمد ربانی(حاجی معاون صاحب)، حاجی ملا محمد حسن اخوند، مولوی احسان اللہ احسان اور دیگر حضرات سے مجلس ہوئی، اس مجلس میں ابتدائی باتیں ہوئیں، پھر طالبان کی عالی شوری کے ارکان نے کہا کہ ہم نے دیگر علماء جیسے شیخ الحدیث عبدالعلی دیوبندی، مولوی خواص اور دیگر حضرات کو بھی مدعو کیا ہے، لہذا تفصیلی مجلس بعد میں کریں گے۔

دو دن بعد دوبارہ مجلس منعقد ہوئی، اس میں علماء کی مرکزی شوری کے رئیس مولوی عبدالغفور(سنانی) اور دیگر بڑے علماء نے شرکت کی، مجلس میں قضائی(عدالتی) معاملات اور دارالافتاء کے حوالے سے بحث ہوئی، اس مجلس میں بندہ مولوی نور محمد ثاقب کو مرکزی دارالافتاء کا رئیس اور مولوی خلیل اللہ زرمتی کو عدالت عالیہ تمیز کا رئیس مقرر کیا گیا، اس کے بعد دارالافتاء اور قضائی امور سے متعلق امیرالمؤمنین سے بھی ملاقات ہوئی۔‘‘

مرکزی دارالافتاء کے کئی اراکین تھے، جیسے شیخ الحدیث مولوی عبدالحکیم حقانی(قندھار) مولوی عبداللہ عرف خطیب صاحب(ارزگان)، مولوی حمداللہ اخندزادہ(دائی چوپان)، مولوی محمد خواص(ہلمند، کجکئی) مولوی رحیم جان آغا(میدان وردگ، سید آباد)، مولوی مسلم حقانی(بغلان)، مولوی عبدالقدیم اخندزادہ(میدان وردگ)، ان کے علاوہ دیگر علماء بھی دارالافتاء کے اراکین میں شامل تھے۔

مرکزی دارالافتاء میں عمومًا درج ذیل افراد اور اداروں سے استفتاءات اور سوالات بھیجے جاتے تھے:

  1. افغانستان کے عام عوام
  2. مختلف حکومتی ادارے
  3. عدالتی محکموں اور قاضیوں کی جانب سے، تاکہ وہ اپنے فیصلوں میں فقہی مسائل کو واضح کرسکیں
  4. امیر المومنین

مذکورہ دارالافتاء میں امارتِ اسلامیہ سے متعلق تمام اہم مسائل کے علاوہ عام عوام کے بہت سے مسائل اور استفتاءات کا جواب دیا جاتا، اسی طرح ابتدا میں رمضان اور عیدین کا اعلان بھی دارالافتاء کی ذمہ داری تھی۔ مرکزی دارالافتاء کی طرف سے پورے افغانستان کے خطباء کے لیے ایک جامع خطبہ بھی تیار کیا گیا تھا۔

اس وقت مرکزی دارالافتاء نے کافی فتاویٰ بھی صادر کیے تھے، جو (بدرالفتاوی ٰفی الفقہ الحنفی) کے نام سے پانچ جلدوں میں ترتیب دیے گئے۔ اب تک تین جلدیں چھپ چکی ہیں، باقی چوتھی اور پانچویں جلد کی ترتیب اور کمپوزنگ کا کام مکمل ہوچکا ہے، جو جلد ہی چھپ جائے گی۔

ان فتاویٰ میں اہم، ضروری اور مفید علمی مسائل کو کافی دقت، غور و خوض اور تفصیل سے معتبر کتابوں کے حوالوں سے مزین کرکے حل کیا گیا ہے۔ یہ وہ مسائل ہیں، جو روزمرہ زندگی سے متعلق ہیں، جس طرح اس وقت یہ مسائل پیش آئے تھے، ویسے ہی آج بھی ان کی ضرورت ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔

امارتِ اسلامی اور امیرالمومنین

انسان روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا مکلف ہے کہ وہ زمین پر اللہ تعالیٰ کے احکامات اور شعائرِ دین کے قیام و نفاذ کے لیے اسلامی نظام نافذ کرے۔

قرآن کریم کی آیات، نبوی ارشادات اور صحابہ کرام کے اجماع سے علمائےکرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام مسلمانوں پر فرض کفایہ ہے کہ وہ اپنے لیے امام المسلمین یا امیر منتخب کریں، اسلامی نظام کا نفاذ کریں، اور اگر اس حوالے سے کوئی بھی مسلمان کوشش نہ کرے تو تمام مسلمان اس فریضے کے ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ؀ (سورۃ یوسف: ۴۰)

’’حکم تو صرف اللہ کا ہے۔ اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہ سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا؀ (سورۃ النساء: ۵۸)

’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَنْ خَلَعَ يَدًا مِنْ طَاعَةٍ، لَقِيَ اللهَ يَوْمَ القِيَامَةِ لا حُجَّةَ لَهُ، وَمَنْ مَاتَ وَلَيْسَ فِي عُنُقِهِ بَيْعَةٌ، مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً۔(مسلم)

’’جس نے (امیر یا حکمران کی) اطاعت سے ہاتھ کھینچا، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کے پاس کوئی دلیل (عذر) نہیں ہوگی، اور جو شخص اس حال میں مرے کہ اس کی گردن میں (حاکم یا امام کی) بیعت نہ ہو، وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔‘‘

وأجمعت الصحابة على تقديم الصديق بعد اختلاف وقع بين المهاجرين والأنصار في سقيفة بني ساعدة في التعيين، حتى قالت الأنصار: منا أمير ومنكم أمير، فدفعهم أبو بكر وعمر والمهاجرون عن ذلك، وقالوا لهم: إن العرب لا تدين إلا لهذا الحي من قريش، ورووا لهم الخبر في ذلك، فرجعوا وأطاعوا لقريش. فلو كان فرض الإمامة غير واجب لا في قريش ولا في غيرهم لما ساغت هذه المناظرة والمحاورة عليها (قرطبی: ۱/۲۶۴)

’’صحابہ کرام نے حضرت صدیق اکبر (ابو بکر رضی اللہ عنہ) کو آگے بڑھانے پر اتفاق کر لیا، اس اختلاف کے بعد جو مہاجرین اور انصار کے درمیان سقیفہ بنی ساعدہ میں تعیین (یعنی خلیفہ کے انتخاب) کے بارے میں ہوا تھا۔ یہاں تک کہ انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم میں سے ہو اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہو۔ تو ابوبکر، عمر اور مہاجرین نے انہیں اس مطالبے سے روک دیا اور کہا: عرب صرف اسی قبیلے (قریش) کے لوگوں کی اطاعت کریں گے، اور انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم ﷺ کی حدیث ان کے سامنے بیان کی۔ تو انصار (اپنی بات سے) پلٹ گئے اور قریش کی بات مان لی۔ اگر امامت فرض نہ ہوتی، نہ قریش کے لیے اور نہ غیر قریش کے لیے، تو یہ مناظرے اور گفتگو کا جواز ہی نہ ہوتا۔‘‘

امام غزالی، علامہ ابن خلدون، علامہ شہرستانی، علامہ ماوردی، علامہ ابن حجرھیتمی، امام نووی، علامہ شاہ ولی اللہ اور دیگر متقدمین علمائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح کی ہے کہ اسلامی نظام کا نفاذ اور امام کی تقرری ایک اہم شرعی فریضہ ہے۔

اگرچہ خلافت راشدہ کے بعد بہت کم لوگ ہی حقیقی خلافت کے مستحق ہوئے ہیں(اس کے باوجود انہیں مسلمانوں کا امیر اور مسئول مانا گیا)، لیکن بعد کی صدیوں میں عثمانی سلطنت ہی وہ واحد مرجع تھی، جو اسلام کے دفاع اور احکام اسلام کے نفاذ میں پیش پیش رہی، اسی وجہ سے اسے خلافت عثمانیہ جیسے عظیم لقب وعنوان سے پکارا جاتاہے۔

تقریبا ایک صدی پہلے خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمانانِ عالم اسلامی نظامِ حکومت سے محروم ہوگئے، اس کے بعد پورا عالمِ اسلام مغربی استعمار کے شکنجے میں چلا گیا اور مشرق و مغرب کے کفار نے مسلمان معاشروں کے عقائد، افکار، تہذیب و ثقافت، سیاست اور اجتماعی و معاشرتی اقدار میں اپنا زہر انڈیلنے کی کوششیں شروع کردیں، جس کے نتیجے میں مسلمان معاشرے اپنے دینی اصول واقدار سے دورہوگئے، اس ہمہ جہت شکست وریخت اور مغربی رنگ میں رنگنے کے بعد ہماری سیاست اور امارت بھی بری طرح متاثر ہوئی، اس سے قبل مسلمانوں کی قیادت و حکومت شرعی امراء اور اسلامی حکومتوں کے ہاتھوں میں ہوتی، شکست کے بعد مسلمانوں نے مغرب کی تقلید میں (ریاست + قوم) کے نظریے کی بنیاد پر قوم پرستانہ، اشتراکیت پسند، لادین یا پھر مغربی طرز کے بدعتی جمہوری نظام ہائے سیاسی قبول کرلیے، جس کے نتیجے میں نہ صرف اسلام کی تشریعی وتقنینی حیثیت ختم کردی گئی بلکہ متحدہ اسلامی امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور اسلامی سیاست و حکومت عملی میدان سے بے دخل کردی گئی۔

خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد بیسویں صدی عیسوی میں اسلامی سیاسی حاکمیت کے اعادے کے لیے عالمِ اسلام کے مختلف ممالک میں سیاسی اور جہادی تحریکیں شروع ہوئیں، فکری اور دعوتی جماعتوں کی تشکیل عمل میں لائی گئیں، عوامی جدوجہد ہوئی، کچھ ممالک میں انتخابات کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوششیں ہوئیں، اور دعوت و تبلیغ سے منسلک بعض افراد نے اصلاحِ افراد کے ذریعے اسلامی انقلاب کے لیے لمبے عرصے کی پلاننگ کی اور اس میں جُت گئے۔

باوجود یہ کہ یہ تمام تر کوششیں اسلامی تاریخ کے روشن جھروکے ہیں اور مسلمانوں کی اسلامی نظام سے محبت و عقیدت کا مظہر ہیں، لیکن افسوس کا مقام یہ تھا یہ سب کوششیں اور جدوجہد صرف کوششیں ہی رہیں، یہ تمام تر مجاہدے نظری وفکری ہی رہے، عمل کی دنیا میں ان کا کوئی نام ونشان نہ تھا، انہیں کوئی عملی جامہ نہ پہناسکا، اس حوالے سے شاید ملا محمد عمر مجاہد ہی وہ شخصیت ہیں، جن پر اللہ کا خصوصی فضل واحسان ہوا کہ انہوں نے اسلامی نظام کو فکر و نظر کے بجائے عملی طور پر نافذ کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد بیسویں صدی عیسوی کے دسویں عشرے اور پندرہویں صدی ہجری کے دوسرے عشرے میں اسلامی نظام کے سرنگوں پرچم کو دوبارہ لہرایا اور پوری دنیا کے سامنے ایک بار پھر اسلامی حکومت اور شریعت کے نفاذ کا عملی نمونہ دکھادیا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

Next Post

سورۃ الانفال | سولھواں درس

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | آٹھویں قسط

26 ستمبر 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مدرسہ و مبارزہ |  پانچویں قسط
فکر و منہج

مدرسہ و مبارزہ | ساتویں قسط

26 ستمبر 2025
اَلقاعِدہ کیوں؟ | چوتھی قسط
فکر و منہج

اَلقاعِدہ کیوں؟ | چھٹی قسط

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست
صحبتِ با اہلِ دِل!

مع الأستاذ فاروق | بتیسویں نشست

26 ستمبر 2025
Next Post
سورۃ الانفال | چودھواں درس

سورۃ الانفال | سولھواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version