مغربی علاقوں میں لڑائیاں اور ہرات کی فتح
۱۹۹۵ء مارچ کے شروع میں افغانستان کے مغرب میں بااثر کماندان تورن اسماعیل خان نے ہزاروں کی تعداد میں جنگجو اکٹھے کیے اور اپنے عسکری کمانڈر علاؤ الدین خان کی قیادت میں انہیں ہلمند کی طرف بھیجا۔
اسماعیل خان کے ایک حمایتی کمانڈر جنرل ظاہر عظیمی کے مطابق اس لشکرکی تعداد پچیس ہزار کےقریب تھی، اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ جیسے طالبان کی تحریک کو مکمل ختم کرنےکے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ تورن اسماعیل کے لشکر نے ضلع دلارام سے گزرتے ہوئے خاشرود کے جنوب کی جانب صوبہ ہلمند سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر ایک سنگلاخ چوٹی پر پڑاؤ ڈالا۔اس لشکر کا سامنا ملا محمد اخوند کی قیادت میں طالبان کی قلیل تعداد سے ہوا۔ ۲ مارچ کی رات اتفاقاً طالبان اور تورن اسماعیل کے لشکر کے مابین لڑائی چھڑ گئی، اس لڑائی میں طالبان تورن اسماعیل خان کے لشکر کے وسط میں پہنچ گئے جس وجہ سے اس کے جنگجوؤں کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ لڑائی میں اسماعیل خان کےسینکڑوں جنگجو یا تسلیم ہوگئے یا گرفتار ہوئے۔جنگ کے دوسرے روز علاؤ الدین خان شدید زخمی ہوا اور اس کے معاون جنرل یلانی نے مجبوراًلشکر کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے دلارام سے بیس کلومیٹر پیچھے پسپائی اختیار کی اور دریائے خاشرود کے شمالی کنارے پر خط بنادیا۔ ملامحمد عمر مجاہد کی ہدایت پر اسماعیل خان کے تمام گرفتار جنگجوؤں کو رہا کردیا گیا۔ اس اقدام نے طالبان کے بارے میں اسماعیل خان کی جنگجوؤں کے دلوں کو از سر تبدیل کردیا، ان کی دشمنی میں کمی آئی اور ہر ایک کی یہی کوشش رہی کہ طالبان کے ساتھ لڑائی کی بجائے تسلیم ہواجائے یا فرار کی راہ اختیار کرلی جائے۔ لشکر میں یہ ماحول بننے کی وجہ سے اسماعیل خان کی عسکری منصوبہ بندی ناکام ہونا شروع ہوگئی۔
افغانستان کے مغرب میں اسماعیل خان، کریم براہوی اور دیگر کمانڈروں کے ساتھ لڑائی سات مہینے تک جاری رہی، اس مرحلے میں فراہ اور نیمروز کے صوبائی مراکز اور اس سے مربوط علاقوں میں جنگ جاری تھی۔ جنگوں کا مرکز قندھار اور ہرات کی شاہراہ پر واقع فرارود کا علاقہ تھا جہاں دونوں فریق آمنے سامنے مورچہ زن تھے۔اس جنگ میں دونوں فریقوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ طالبان کے پہلے عسکری مسئول کمانڈرملا محمد اخونداور دیگر مسئولین مولوی عبدالسلام، مولوی عزت اللہ عارف سمیت کئی قیمتی ساتھی ادھر شہید ہوئے۔ اگست ۱۹۹۵ء کے آغاز میں اسماعیل خان کے جنگجوؤں نے فراہ کی طرف سے طالبان پر بڑا تعارضی حملہ کیاجس کی وجہ سے طالبان نے پسپائی اختیار کی، شوراب کے علاقے میں ملا محمد اخوند کی شہادت کے بعد طالبان کو سخت مشکلات کا سامنا کرنااور ضلع گرشک تک پیچھے ہٹنا پڑا۔اس دوران اسماعیل خان پیش قدمی کر رہا تھا اور قندھار کے سقوط کا خطرہ منڈلا رہا تھا ۔ ملامحمد عمر مجاہد جنگ کو قریب سے دیکھ رہے تھے۔ آپ نے جب جنگ کی نازک صورتحال محسوس کی تو چند ساتھیوں کے ساتھ قندھار سے گرشک روانہ ہوئےتاکہ جنگ کی قیادت سنبھالیں۔ آپ کے ہمرا ساتھیوں میں کمانڈر ملا فاضل اخوند بھی تھے۔ اس سفر میں شامل ایک ہمراہی کے مطابق جب ہم قندھار کے سرپوزی علاقے تک پہنچے، تو ایک بڑی گاڑی ہمارے راستے میں آئی جس میں کئی طالبان سوار تھے جو شہداء اور زخمیوں کو قندھار منتقل کررہے تھے۔ اس گاڑی کو ہم نے روکا۔ ان طالبان کے ساتھ ملا محمد اخوند کے معاون ملا رحمت اللہ اخوندبھی تھے۔ ملا رحمت اللہ اخوند گاڑی سے اتر گئے، ملا صاحب کو ملا محمد اخوندکی شہادت کی خبر دی اور ہلمند کے جنگی خطوط کے حالات بتائے۔ ملا رحمت اللہ اخوند جن کےچہرے سے سخت تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے اور ملا محمد اخوند کی شہادت پر ملال تھے، آپ نےملا صاحب کو کہا کہ ہلمند کی طرف صورتحال کافی خراب ہے لہٰذا ایک فوری کارروائی کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ملا صاحب جنگی صورتحال سننے کے بعدقندھار کے فوجی کیمپ کی طرف واپس ہوئے۔ کابل کے جنگی خطوط سے ملا محمد ربانی اور ملا مشر اخوند کو بلایا، ملا فاضل اخوند اور ملا رحمت اللہ سمیت ان سب مسئولین نے فوجی کیمپ میں مشورہ کیا اور اسماعیل خان کے بڑے حملے کو پسپا کرنے کے لیے منصوبہ بنایا۔ ملا رحمت اللہ اخوند کو شہید ملا محمد اخوند کی جگہ مغربی زون کا عمومی مسئول مقرر کیا۔ ملا یار محمد اخوندکو ہدایت دی کہ ان کے ساتھ ٹینک اور ہموی گاڑیاں ہلمند کی جانب روانہ کی جائیں۔ اسی دن ملا رحمت اللہ اخوند، ملا فاضل اخوند کے ہمراہ ہلمند کی طرف واپس ہوئے تاکہ متوقع جنگ میں طالبان کی قیادت کی جاسکے۔
اس لڑائی میں شامل ملا عبدالسلام مجروح کہتے ہیں کہ صبح سویرے جنگ کا آغاز ہوا، دشمن نے بھاری اسلحے کا استعمال کیا لیکن پیش قدمی نہ کرسکا اور پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوا۔ عصر تک شدید لڑائی جاری رہی اور دشمن کا لشکر واپس حوض خشک علاقے کی طرف پسپا ہوا۔ لڑائی میں طالبان کو کثیر تعداد میں جنگی وسائل، لاجسٹک مواد سے بھرے ٹرک اور قیدی ہاتھ آئے۔ اسماعیل خان کے افراد سے پندرہ بکتربند گاڑیاں جنگ کے میدان میں پیچھے رہ گئیں۔ اس روز امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد گاڑی میں ضلع گرشک آئے۔ لڑائی کے پہلے خط پر جنگی مسئولین و مجاہدین سے ملاقات کی لیکن مجاہدین نے انہیں تاکیداً کہا کہ احتیاط کریں کیونکہ دشمن کے طیارے مسلسل بمباری کررہے تھے۔لیکن ملا صاحب علاقے میں موجود رہے۔ طالبان نے گرشک کی لڑائی میں اسماعیل خان کے جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلا اور ان کا تعاقب جاری رکھتے ہوئے انہیں خاشرود کے دریا سے پیچھے دھکیل دیااور دلارام کا ضلع فتح ہوگیا۔ دلارام کی فتح کے بعد ملا صاحب کی قیادت میں عسکری مسئولین نے ضلع دلارام کے گلہ میخ کے علاقے میں ایمرجنسی اجلاس منعقد کیا جس میں ملا محمد ربانی، ملا رحمت اللہ، ملا مشر، ملا عبدالسلام مجروح اور دیگر مسئولین نے شرکت کی۔
ملا صاحب نے مجاہدین کو دو گروہوں میں تقسیم کردیا، ایک گروپ کو ججہ کی طرف اور دوسرے گروپ کو آب خرما کے خطوط پر بھجوادیا۔ ۳۱ اگست کو چکاب کے علاقے میں اسماعیل خان کے جنگجوؤں کو شکست ہوئی جس کے نتیجے میں فراہ رود کے اکثر علاقے طالبان کے ہاتھ میں آئے، لیکن مخالفین کی جانب سے اس علاقے میں مزاحمت اب بھی جاری تھی اور ان کا دفاعی خط موجود تھا۔ اگلے دن طالبان فراہ شہر میں داخل ہوئےاور افغانستان کے مغرب میں اس اہم شہر کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیا۔
اس سے پہلے کہ اسماعیل خان کے جنگجو دوبارہ منظم ہوتے، ملا محمد عمر مجاہد اسی دن ضلع فرارود چلے گئے اور طالبان کو تعارضی حملہ کرنے کا حکم دے دیا، یہ تعارضی حملہ جس کا آغاز مغرب کے بعد ہوا، اس میں طالبان دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے، ایک گروپ نے سامنے عمومی سڑک سے حملہ کیا اور دوسرے گروپ نے جنوبی سمت سے خوست کے جنگی خط سے حملہ کیا۔ اسماعیل خان کےجنگجوؤں کا خط فرارود میں تھا انہوں نے وہاں بہت ساری بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں۔ بعض طالبان بارودی سرنگوں کی ضد میں آکر شہید یا زخمی ہوئے۔ لیکن بالآخر تعارضی حملہ کامیاب ہوااور اسماعیل خان کے جنگجوؤں کا خط ٹوٹ گیا۔ اس رات طالبان نے اسماعیل خان کے ساتھیوں کا تعاقب جاری رکھا ، یہاں تک کہ صبح طالبان نے شین ڈنڈ کے ہوائی اڈے سمیت اس ضلع کے دیگر علاقے بھی پکڑ لیے اور ہرات شہر کی جانب میرداد تک کے علاقوں تک پیش قدمی کی۔
اس روز ایسی حالت میں جب ہرات کے ہوائی اڈے سے اسماعیل خان کے جنگی طیارے مسلسل اڑ رہے تھے اور سخت بمباری کررہے تھے، ملا محمد عمر مجاہد شین ڈنڈ پہنچ گئے، وہاں عسکری مسئولین کو ہدایات دیں، مشورہ اس پر ہوا کہ پہلے شین ڈنڈ کودشمن عناصر سے صاف کیا جائے اور اس کے بعد ہرات شہر کی جانب پیش قدمی کی جائے۔ ملا صاحب عصر کے وقت واپس قندھار کی طرف لوٹے۔
اگلے دنوں میں میر داود آغا کے علاقے اور شہر ہرات کے گردونواح میں بھی اسماعیل خان کے جنگجوؤں کو شکست ہوئی اور ۱۴ ستمبر ۱۹۹۵ء کو ہرات شہرکی فتح کے ساتھ افغانستان کے مغربی صوبے ہرات، فراہ اور نیمروز طالبان کے ہاتھ میں آگئے۔
ہرات کی فتح کے دوسرے روز ملا محمد عمر مجاہد قندھار سے ہیلی کاپٹر میں ہرات پہنچے، ہرات کی تاریخی جامعہ مسجد میں ایک بڑے اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں ملا محمد عمر مجاہد نے بھی شرکت کی۔ اجتماع کےآغاز میں قرآن کریم کی تلاوت کے بعد ملا محمد ربانی نے حاضرین مجلس کو اسلامی تحریک کے امیر ملا محمد عمر مجاہد کا پیغام سنایا:
’’محترم علمائے کرام، جہادی مسئولین، بزرگو، قومی عمائدین، دانشورو اور طالب علم بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
افغانستان کی گزشتہ ۱۷ سالہ تاریخ میں جو حالات گزرے وہ آپ سب کو معلوم ہیں اور اس پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ حالیہ حالات میں گزری فتوحات کے حوالے سے خصوصاً ہرات کے مومن اور مسلمان عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اسلامی تحریک اور اسلام کے بہادر غازیوں کے سامنے مزاحمت نہیں کی۔ ہماری آپ سے گزارش ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی شریعت کے سائے تلے اپنی قیمتی اور عزت مند انہ زندگی گزاریں۔ آپ سب بغیر کسی ڈر اور خوف کے اپنے معمولات زندگی اور امور جہاں کہیں بھی ہوں سرانجام دیں۔ ہم کسی کے ساتھ بھی ذاتی دشمنی نہیں رکھتے۔ ہم اس لیےاٹھے ہیں کہ در بدر اور مصیبت زدہ افغانوں کو ان بدبختوں سے آزادی دلائیں۔ یتیموں اور بیواؤں کے آنسو پونچھیں۔ تباہ و بربادملک دوبارہ آباد ہوجائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کا نظام قائم ہوجائے۔ آخر میں ایک بار پھر ہرات کے مسلمان عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
ومن الله توفيق۔‘‘
اس کے بعد ملا محمد ربانی نے اجتماع میں مفصل گفتگو کی اور اسلامی تحریک کے اہداف پر روشنی ڈالی۔ ملا صاحب نے فتح کے بعد چند دن مزید ہرات میں قیام کیا۔ اور وہاں ہرات میں خانہ ٔجہاد محل میں ملا صاحب کی قیادت میں امارت کے مسئولین نے مجلس منعقد کی جس میں درج ذیل مسئولین مقرر کیے گئے:
- ملا یار محمد : گورنر
- ملا محمد عباس اخوند : نائب گورنر
- ملا معاذ اللہ: سیکورٹی انچارج
- ملا سراج الدین: زلمی کوٹ کے۱۷ ڈیویژن کے مسئول
- حاجی ملا عبدالسلام مجروح: عسکری مسئول
ملا صاحب نے انہی دنوں صوبہ ہرات کے تجارتی اور سٹریٹجک ڈرائی پورٹ توغنڈی، جو ترکمانستان کی سرحد پر واقع ہے، کا دورہ کیا اور وہاں اسلحہ اور جنگی سازوسامان کے ڈیپو جو سویت یونین کے دور میں ادھر رہ گئے تھے ان کا معائنہ کیا اور ان کی حفاظت کے لیے طالبان مقرر کیے۔ ملا صاحب نے ترکمانستان کے ساتھ لگے بارڈر کو محفوظ بنانے کے بعد واپس قندھار کا رخ کیا۔
ابتدائی اصلاحات اور اقدامات
ملا محمد عمر مجاہد نے اسلامی تحریک کا آغاز فتنہ و فساد کے خاتمے اور اس کی جگہ شرعی نظام کے نفاذ کے مقصد سے کیا تھا۔جیساکہ ملا صاحب اپنے ہر بیان اور ہر مجلس میں اس بات کا تذکرہ کرتے تھےکہ’’ اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ کرنا ہے‘‘۔تو عملی طور بھی اس کی کوشش کرتے کہ احکام شریعت کی تطبیق اور اسلامی نظام پر قدم بہ قدم عمل کیا جائے۔
کابل کی فتح سے قبل ، امارت اسلامیہ کو ملک گیر نظام میں تبدیل کرنا اور ملک کے تمام حکومتی نظام کو رسماً شرعی بنیادوں پر استوار کرنا، طالبان نے ان سب معاملات میں شریعت کے احکامات کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی جن کا انہیں سامنا تھا یا جو ان کے استطاعت میں تھے۔اسی کے ذیل میں ہم ان شرعی اقدامات اور اصلاحات کا مختصراً ذکر کریں گے۔
فساد کا خاتمہ کرنا اور امن کا قیام
بندوق بردار، ڈاکو، راہزن اور خودسر مسلح افراد فساد کے عامل تھے جو قتل،چوری، غصب، خیانت، زنا، قمار بازی اور دیگر گناہ نہ صرف یہ کہ خود کرتے تھے بلکہ افغان معاشرے میں اسے ترویج اور ترقی دے رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان.رواه مسلم.
’’ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے ہٹا دے اور اگر یہ نہ کرسکتا ہو تو زبان سے دور کرے اور اگر اس پر بھی بس نہ چلے تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
ملا محمد عمر مجاہد اور ان کے مجاہد ساتھیوں نے اس حدیث کے مطابق منکرات اور مظالم کو ختم کرنے کی خاطر مزاحمت کا آغاز کیا اور اس کی خاطر ہاتھ، زبان اور ہر وسیلے کو بروئے کار لاتے ہوئے مفسدین کو فساد اور منکرات سے روکا۔
اس وقت کے مفسدین میں سے اکثر اپنے مقاصد کے لیے مسلمانوں کا قتل کرتے، ان کی بے عزتی کرتےاور زبردستی ان کا مال غصب کرتےاور اس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کی زمین پر فساد کا جال بچھا رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح کے مجرمین کی سزا کی بابت قرآن میں فرماتے ہیں:
اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (سورۃ المآئدہ: ۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں،یا انھیں جلا وطن کردیا جائے۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔‘‘
قرآن عظیم الشان کی یہ آیت اور ان جیسی دیگر آیاتِ کریمہ کی روشنی میں طالبان نے، چوری، ڈاکہ زنی، بلاوجہ پھاٹک لگانا اور فساد پھیلانے کی وجہ سے ان کو مار بھگایا، لڑائی کے دوران ان کو قتل کیا اور بعض ڈاکوؤں کو پھانسی دی اور طالبان جس علاقے کو بھی فتح کرتے تو وہاں سے فتنہ و فساد کا خاتمہ کرتے۔ اس عمل کی وجہ سے وہ صوبے جو طالبان کے ہاتھ میں تھے وہ امن و امان کی وجہ سے مشہور ہوگئے۔ وہاں اسلامی نظام کی برکت سے ایسا امن قائم ہوا کہ کئی مہینے گزر جانے کے باوجود کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ، قتل، چوری یا دوسرے کسی جرم کی خبر سننے کو نہ ملتی تھی۔طالبان کے اس کارنامے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو امن والے فرشتوں کا لقب دیا اور افغانستان کے ہر علاقے کے لوگوں کی یہ تمنا تھی کہ یہ نظام اور کا امن و امان ان کےعلاقوں کا بھی رخ کرے، تاکہ ان کے علاقوں پر مسلط فتنہ و فساد اور ظلم سے ان کو چھٹکارا مل جائے اور ایک عادلانہ اور امن و امان والے نظام سے ان کی زمین بھی منور ہوجائے۔
لیکن وہ علاقے جو طالبان کے قبضہ میں آئے تھے وہاں امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ اسلحہ تھا جو سابقہ سترہ سالہ دور ِانقلاب میں افغانستان لایا گیا تھاجس کی وجہ سے معاشرےمیں ہر کوئی اپنی ضرورت سے زیادہ ہلکے اور بھاری اسلحے کا مالک بن گیا تھا۔ سوویت یونین کے انخلا اور کمیونزم کی شکست کے بعد یہ اسلحہ صرف مسلمان ہم وطنوں کے قتل اور ان کو مغلوب کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ طالبان نے امن و امان قائم کرنے کے لیے اس اسلحے کو جمع کیاجس کی وجہ سے ان کی جہادی تحریک کو مدد فراہم ہوئی اور باقی اسلحے کو بیت المال کے ڈیپو میں محفوظ کردیا۔
شرعی حدود جاری کرنا
شرعی حدود اور قصاص اسلام کے عظیم احکام میں سے ہیں، باقی دنیا کی مانند افغانستان کے حکمرانوں نے بھی اس فریضے کو بھلادیا تھا اور مجرمین کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق سزا نہیں دی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (سورۃ البقرۃ: ۱۷۹)
’’اور اے عقل رکھنے والو ! تمہارے لیے قصاص میں زندگی (کا سامان ہے) امید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے) بچو گے۔‘‘
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَيْدِيَهُمَا جَزَاۗءًۢ بِمَا كَسَـبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (سورۃ المآئدہ: ۳۸)
’’اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے، دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، تاکہ ان کو اپنے کیے کا بدلہ ملے، اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہو۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔‘‘
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۠ وَّلَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۚ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَاۗىِٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ Ą (سورۃ النور: ۲)
’’زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے، اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ مومنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔ ‘‘
اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ (سورۃ المآئدۃ: ۳۳)
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کرتے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں قتل کردیا جائے، یا سولی پر چڑھا دیا جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں،یا انھیں زمین سے دور کردیا جائے یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے، اور آخرت میں ان کے لیے زبردست عذاب ہے۔‘‘
عن عمر قال: إن الله عز وجل بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وأنزل عليه الكتاب فكان فيما أنزل عليه آية الرجم، فقرأناها ووعيناها ورجم رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجمنا بعده، فأخشى إن طال بالناس زمان أن يقول قائل: لا نجد آية الرجم في كتاب الله فيضلوا بترك فريضة قد أنزلها الله، فالرجم في كتاب الله حق على من زنى إذا أحصن من الرجال والنساء إذا قامت البينة أو الحبل أو الاعتراف۔
’’حضرت عمر سے مروی ہے کہ اللہ عزوجل نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل کی۔ اسی کتاب میں آیت رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کو پڑھا اور محفوظ کرلیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے خود خطرہ ہے کہ لوگوں پر طویل زمانہ گزرے گا تو کوئی کہے گا : ہم کتاب اللہ میں آیت رجم نہیں پاتے۔ پس وہ ایسے فریضے کے انکار کے ساتھ گمراہ ہوجائیں گے جو اللہ نے نازل کیا ہے۔ پس رجم کتاب اللہ میں ہےتو زانی پر لازم ہے جبکہ وہ شادی شدہ ہو مرد ہو یا عورت۔ بشرطیکہ گواہ قائم ہوں یا حمل ظاہر ہو (عورت کے لیے) یا زانی خود اعتراف کرلے۔‘‘(صحیح بخاری)
مذکورہ الٰہی اور نبوی ارشادات کے تحت ملا محمد عمر مجاہد کو دورِ امارت میں یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود ایک بار پھر شرعی حدود کا احیا ہوا اور قاتل، زناکار، چور، ڈاکوؤں اور دیگر مجرموں پر شرعی عدالت کے حکم سے شرعی حدود نافذ کی گئیں۔
اسلامی تحریک کی طرف سے پہلی شرعی حد ڈاکوؤں پر نافذ ہوئی۔ ۳ مارچ ۱۹۹۵ء کو دو ڈاکو جنہیں طالبان نے صوبہ ہلمند میں عین ورادت کے موقع پر پکڑا تھا ،شرعی عدالت کے حکم کے مطابق قندھار میں عوام کے سامنے ان کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا گیا۔
نقدی جرمانے طالبان لوگوں سے نہیں لیتے تھے کیونکہ یہ حنفی فقہ کی نظر سے جائز نہیں ہے۔ لیکن وہ جرائم جن پر حد نافذ نہیں ہوتی تھی، اس کے مرتکبین کو تعزیراً سزا دی جاتی تھی، جیسے رشوت لینے والے اور دیگر کو کوڑے مارے جاتے تھے۔
طالبان کی جانب سے شرعی حدود جاری ہونے سے معاشرے میں امن و امان پھیلا اور مظلوم عوام کی جان، مال، عزت اور ہر چیز محفوظ ہوگئی۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭