ایک بامعنی خواب
اقتدار کی خاطر تنظیموں کے مابین اختلافات افغانستان کے دیگر صوبوں کی طرح جنوبی صوبوں میں بھی بد نظمی اور خانہ جنگی کی وجہ بن گئے۔ قندھار میں ملا نقیب، استاذ عبدالحلیم، سرکاتب اور دوسرے گروپوں کے مابین لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ دوسری طرف ہلمند میں سابق مجاہدین کے درمیان پہلے سے جاری باہمی جنگوں نے مزید زور پکڑلیا۔ رئیس عبدالواحد، محمد رسول اخندزادہ، مولوی عطاء محمد اور دیگر فریقوں کے درمیان باہمی جنگیں اس قدر تیز ہوئیں کہ روز کے حساب سے دسیوں افراد قتل اور بھاری اسلحہ کے استعمال کی وجہ سےگاؤں اور گھر تباہ ہورہے تھے۔
ہلمند کی جنگوں میں حصہ لینے والا ایک کمانڈر، جس پر اس کے مخالفین کی طرف سےزمین تنگ کردی گئی تھی اور وہ بھاگنے پر مجبور ہوگیا تھا، چاہ رہا تھا کہ سنگِ حصار کے علاقے میں اسےکیمپ بنانے کے لیے جگہ دی جائے لیکن وہاں کے مقامی مجاہدین نے اس کی اجازت نہیں دی۔
اس دوران ملا محمد عمر مجاہد کے مدرسہ کے ایک طالب علم نے خواب دیکھا اور صبح اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ میں نے رات میں خواب دیکھا کہ ہمارے مدرسہ کے ساتھ منسلک اسلحہ ڈپو کی چھت منہدم ہوگئی ہے اور ڈپو میں پڑے اسلحے پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہے۔
بعض طلباء خواب سننے کی وجہ سے پریشان ہوگئے، لیکن اس طالب علم نے یہ خواب علاقے کے ایک نیک اور دیانت دار مشہور بزرگ عالم مولوی موسیٰ جان کو بیان کیا، بزرگ نے اس خواب کی مختلف تعبیر کی کہ اسلحے پر سورج کی روشنی پڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس اسلحے کی بدولت ملک بھر میں روشنی پھیلائے گا، چونکہ اسلام روشنی کی مانند ہے تو اللہ تعالیٰ اس اسلحے کے ذریعے ملک میں اسلام کو حاکم بنائے گا۔اس خواب کے معبر مولوی موسیٰ جان کچھ عرصہ بعد وفات پاگئےلیکن انہوں نے جس خواب کی تعبیر کی تھی وہ چند سال بعد پورا ہوگیا اوراسی اسلحے کے ذریعے فساد کے مقابل انقلاب برپا ہوا۔
طوائف الملوکی اور بدنظمی
افغانستان پر قابض اشتراکیت پسند نظام کی شکست کے بعد مجاہدین اس قابل نہ ہو سکے کہ ملک میں ایک متحد اور معیاری اسلامی نظام کا نفاذ کردیتے۔ بلکہ مجاہدین کا لبادہ اوڑھے بعض اقتدار کے حریص لوگوں نے پہلے ہی سےاشتراکیت پسندوں کے ساتھ خفیہ معاملات شروع کردیے تھے۔ کام اس وقت خراب ہوا جب خفیہ گٹھ جوڑ کے ذریعے برسر اقتدار پارٹی (پرچم) نے دار الحکومت کابل کے اختیارات صرف جمعیت اسلامی کے حوالے کردیے۔ دیگر اشتراکیت پسندوں نے اپنی دفاع اور نیا لبادہ اوڑھنے کے لیے ملک کے شمال میں جنرل دوستم کی سربراہی میں جنبش نامی تنظیم بنائی جس نے سابقہ حکومت کے زیادہ تر فوجی وسائل کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔
اقتدار اورقوت حاصل کرنے کی اس دوڑ میں موقع پرست اور اقتدار کے بھوکے گروپ اور تنظیمیں ملک کے مختلف علاقوں پر قابض ہوگئے اور وہاں اپنی ذاتی حکومتیں قائم کر دیں۔ ایسے میں ملک پر مکمل طور پر طوائف الملوکی کا راج ہو گیا۔ کابل میں مسعود، دوستم، مزاری، حکمت یار، سیاف، محسنی اور دیگر گروپوں کی حکومتیں بن گئیں۔ ملکی سطح پر لغمان، لوگر اور میدان وردگ پر حکمت یار کی ’حزب اسلامی‘ نے قبضہ کرلیا، کابل کے سفارتی علاقے سمیت، کاپیسا، تخار اور بدخشاں پر ربانی کی ’جمعیت‘ قابض ہوگئی، مزار ، شبرغان، سرپل اور فاریاب دوستم کے قبضے میں چلے گئے، بادغیس، ہرات اور فراہ میں اسماعیل خان نے اپنی حکومت قائم کی، بامیان اور اس کے قریب تمام ہزارہ علاقے مزاری کی حزب وحدت نے پکڑ لیے، ننگرہار حاجی قدیر کی سربراہی میں مشرقی شوریٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا جبکہ بغلان کے مرکز پر سید منصور نادری قابض ہوگیا۔باقی صوبوں میں مختلف تنظیموں اور خود سر کمانڈروں نے چھوٹے چھوٹے راجواڑےبنا لیے ۔
طاقت اور حصولِ اقتدار کے حریصوں نے ایک دوسرے کے خلاف سیاسی، تنظیمی، نسلی اور لسانی تعصبات کو بھڑکا کر ان کی بنیاد پر خونریز لڑائیاں شروع کردیں۔ اور اسی طرح قومی وسائل کو منظم طریقے سے لوٹنے، بیچنے اور تباہ کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔ ۱۹۹۲ء تا ۱۹۹۵ء تک کا زمانہ افغانستان کی تاریخ میں بدنظمی، ظلم، قتل و غارت اور سربیّت کا دور سمجھا جاتا ہے۔ جس کی نہ اس سے قبل کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی آئندہ مثال ملے گی ۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ظالم حاکم کے چند سالہ دورِ حکومت میں اتنے مظالم نہیں ہوتے اور نہ ہی اتنے حقوق تلف کیے جاتے ہیں جتنا کہ بدنظمی کی حالت میں ایک دن میں مظالم ڈھا دیے جاتے ہیں اور یہ بات انہی سالوں میں صحیح ثابت ہوئی۔مختصراً یہ کہ ان تین سالوں کے عرصے میں افغانستان میں دو صدیوں سے زیادہ عرصے پر محیط نظام کی تمام ہست و بود اور وہ قیمتی سرمایہ اور ترقی جو عسکری، اقتصادی، تعلیمی، فنی اور سماجی شعبوں میں حاصل کی گئی تھی گنوا دی گئی۔
ان خود سر اسلحہ برداروں نے ملک کے کارخانے، سرکاری محکمے، رفاہی ادارے اور قومی اثاثے لوٹ لیےاور اونے پونے داموں پڑوسی ممالک کو بیچ دیے۔افغانستان کے عسکری وسائل خصوصاً ٹینک، جہاز، بھاری اسلحہ ، ٹیکنیکل ورکشاپوں وغیرہ کو ناکارہ بناکر انہیں لوہے کی قیمت پر بیچ دیا گیا۔تعلیمی مراکز، فلاحی اور سماجی خدمات کے ادارے نہ صرف بند کر دیے گئے بلکہ ان کی عمارتوں کو بھی بھاری نقصان پہنچایا گیا۔ ملک کی معیشت کو بھی شدید دھچکا لگا۔ پہلے ایک امریکی ڈالر کی قیمت چار سو افغانی تھی، جنگوں کی وجہ سے ملکی کرنسی کی قیمت اتنی گر گئی کہ ایک ڈالرکی قیمت پچیس ہزار افغانی تک پہنچ گئی۔ تاریخی آثار کی غیر قانونی تجارت، جنگلات کی کٹائی، معدنیات لوٹنا ہر کسی کے دسترس میں آ گیا تھا۔
کابل شہر ۸۰فیصد مسماراور شہرکی منقولہ املاک لوٹ لی گئیں تھیں۔ مالی نقصانات کے ساتھ ساتھ جو معنوی نقصانات ان جنگجوؤں نے ملک کو دیےوہ بے شمار ہیں۔کابل کے مختلف کتب خانوں سے کثیر تعدادمیں کتابیں غائب ہوئیں۔ میوزیم، معلومات کے وسیع ذخائر، آرٹ گیلریاں اور نمائش گاہیں جو سالوں کی محنت کا نتیجہ تھیں اور نایاب آثار سے بھری پڑی تھیں، لوٹ لی گئیں اور ان کی بیش بہا قیمتی اشیاء کو پڑوسی ممالک میں نیلام کر دیا گیا۔
ان قومی المیوں کے علاوہ معاشرتی اور امن وسلامتی کی اعتبار سے افغانستان کے لوگوں پر ایسی کالی گھٹا چھا گئی جس کا کما حقہ بیان کرنا شاید لکھاری کے لیے ممکن نہ ہو۔ شہر شہر، قریہ قریہ اور گاؤں گاؤں اسلحہ بردار گھومنے لگے اور وہاں چیک پوسٹیں بنا دی گئیں۔ اسلحہ بردار گروہوں کے مابین خونریز لڑائیاں شروع ہوئی، جس میں زیادہ تر نقصان عوام کو پہنچا۔ مقامی اسلحہ برداروں کے مابین وقفے وقفے سے روزانہ لڑائیاں ہوتی رہتیں اور ملک کے بعض علاقوں میں تنظیموں کے مابین مسلسل اور طویل جنگیں شروع ہوگئیں۔کابل میں حزب،جمعیت، جنبش، حزبِ وحدت، اتحاد اور حرکتِ محسنی تنظیموں کے مابین خونریز جنگیں شروع ہوئیں۔ قندوز اور بغلان میں جمعیت، جنبش، حزب اور نادری ملیشیاؤں کے مابین مسلسل جنگیں جاری تھیں، شمالی صوبے خصوصاً فاریاب اور بادغیس میں دوستم اور اسماعیل خان کے درمیان لڑائیاں جاری تھیں، ہلمند میں جمعیت، حزب اور حرکت کے کمانڈروں کے درمیان جنگیں ہورہی تھی اور اسی طرح اور صوبوں میں بھی خانہ جنگی کی آگ بھڑک رہی تھی ۔ ان جنگوں میں نہ صرف یہ کہ عوام کے جان و مال کا نقصان ہورہا تھا بلکہ روز کے حساب سے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاتے، مظالم ڈھائے جاتے اور وحشیانہ تشدد کی واقعات رونما ہوتے۔
ان جنگجوؤں نے اپنی ضروریات اور اخراجات پورے کرنے کے لیے چوری اور راہزنی کے علاوہ چیک پوسٹیں بنا کر ان پر محصول چنگی وصول کرنا بھی شروع کر دی۔ ملک کے اکثر راستوں اور سڑکوں میں قدم قدم پر چیک پوسٹیں اور رکاوٹی زنجیریں لگا دی گئیں۔ چیک پوسٹوں والے عام مسافروں، ڈرائیوروں اور سوداگروں سے محصول چنگی کے نام پے پیسے بٹورتے رہتے ، اس کے علاوہ عام تنگدست لوگوں پر تشدد کرتے، ان کی تحقیر کرتے اور پیسے نہ دینے کی صورت میں مختلف سزائیں دیتے۔
مستقل جنگیں، لاقانونیت، بدکار اسلحہ برداروں کا تسلط اور بالادستی اور ان حالات میں روزگار و تعلیم کا فقدان اور عمومی بدنظمی نے ملک کو ہر لحاظ سے مکمل سقوط کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔نئی ابھرتی نسل کی پرورش اور تربیت حالات کے زیرِ اثر بے باک اور بے لگام جنگجوؤں جیسی ہورہی تھی۔یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر کم عمر لڑکے اسلحہ بردار بن جاتےاور مورچےاور چیک پوسٹ میں زندگی گزارنا پسند کیا کرتے تھے۔
ایسی اندھیر نگری میں صحیح سلامت زندگی گزارنے کے تمام امکانات ناپید ہوچکےتھے۔ اکثر علاقوں میں معاشرے کا پست کردار، بد اخلاق اور بدکار طبقہ اقتدار کے باگ دوڑ سنبھال رہا تھا اور معاشرے کے معزز افراد یعنی حقیقی مجاہدین، علمائے کرام، متقی اور پرہیزگارلوگ، علمِ دین کے طلبہ اور ملک وعوام کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے افراد بدتہذیب اسلحہ برداروں کے جبر تلے محکومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ افغان عوام شدید مایوسی کا شکار تھے، عالمی اور پڑوسی ممالک ان حالات کا تماشہ دیکھ رہے تھے اور محض افغانستان میں جاری ظلم کی خبریں نشر کرنے پر ہی اکفتا کررہے تھے۔اقوام متحدہ کی اصطلاح میں انسانی حقوق اور رفاہی اداروں کا بھی محض یہی کام تھا کہ حاکم اسلحہ بردارں کے مظالم کی لسٹ بناکر سالانہ اور ماہانہ بنیاد اس کو نشر کر دیں۔افغان قوم کو اللہ تعالیٰ کے علا وہ کسی سے امید نہیں تھی کیونکہ وہ ہر کسی سے مایوس ہوچکے تھے۔
جب ناانصافی اور ظلم اوج کو پہنچ جائے، جب جابروں کے ظلم کا خنجر گوشت کو چیرتے ہوئےمظلوموں کی ہڈیوں تک پہنچ جائے اور جب کمزور اور ناتواں بندگانِ خدا کی چیخیں عرش تک پہنچ جائیں تو ایسی حالت میں مظلوموں پر ربِ ذوالجلال کا رحم جوش میں آتا ہےاور ظالموں کی سزا کے لیے قہر کے طوفان اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں۔رات جب تاریک ہوجائے تو اس کے بعد ہی صبح کا اجالا نمودار ہوتا ہے اور جب خزاں گلشن کی خوبصوری کو چھین لیتی ہے تو اس کے بعد بہار کا موسم نمودار ہوتاہے۔
افغانستان میں بد نظمی اور ظلم کا سلسلہ اپنے آخری حد تک پہنچ گیا تھا، ایسی حالت میں ایک نورانی، اسلامی اور امن کی خواہاں تحریک کا ظہور قدرت اور فطرت کی قوانین کی مطابقت کے ساتھ بہت ضروری اور بہت اہم تھا۔
قندھار میں کیا چل رہا تھا؟
ان بدنظمی والے سالوں میں صوبہ قندھار خصوصاً قندھارشہر بھی بقیہ افغانستان کی طرح افراتفری، جنگ، فساد، بدامنی اور ہر گلی کوچے میں الگ الگ راجواڑوں کا شاہد تھا۔چونکہ قندھار شہر پر کسی تنظیم یا جنگجو کمانڈرکا مکمل قبضہ یا اپنے مدمقابل جنگجو کمانڈروں پر بالادستی حاصل نہیں تھی، اس لیے ہر کمانڈر خودسر بادشاہ تھا اس کا جو دل چاہتا وہ کرلیتا۔
ملا نقیب جو جمعیت کا رکن تھا اور قندھار میں ربانی کی حکومت کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا، وقتاً فوقتاً کابل سے اس کے پاس پیسے آتے رہتے اس لیے چیک پوسٹوں پر محصول چُنگی کے نام سے پیسے بٹورنے سے اپنے آپ کو دور رکھا تھا۔ لیکن باہمی لڑائیوں، بد اخلاقیوں اور فساد میں اس کے افراد باقی کمانداروں کے افراد سے کم نہیں تھے۔
قندھار شہر اقتدار اور قبضے کے اعتبار سے مختلف حصوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ ڈنڈ سے صوبے کے صدر مقام تک کا علاقہ ملانقیب کے قبضے میں تھا۔ صوبے کا صدر مقام، چارسو، شکاپور کا دروازہ اورہرات بازار گل آغا شیرزئی کے قبضے میں تھا۔ حضرت جی بابا، کابل دروازہ اور قشلۂ جدید امیر لالی کے قبضے میں تھا۔ قندھار کے ائیرپورٹ پر کمانڈر مغاش کے بیٹے احمدنے قبضہ کر رکھاتھا۔ سرپوزہ سے ڈنڈ اور نظرجان باغ تک کے علاقوں پر استاد عبدالعلیم قابض تھا۔ باغ پل سرکاتب کے قبضے میں تھا۔ شاہ آغا کے دوراہے اور ناگہان کمانڈر نادرجان کا علاقہ تھا۔ سنزری اور اشوغہ پر حبیب اللہ جان کی چیک پوسٹیں تھیں اور داروخان کا کولک اور سلوغی کے علاقوں پر قبضہ تھا۔ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہ یہ کمانڈر اشراکیت پسندوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ان علاقوں پر قابض ہوچکے تھے۔اشتراکیت پسندوں کے ساتھ ان کے معاہدے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد جنرل اکرم سمیت اشتراکیت پسند حکومت کے اعلیٰ عہدیداران قندھار شہر میں آزادانہ رہ رہے تھےاور بالآخر اپنی مرضی سے ملک سے نکل گئے۔ اشتراکیت پسند حکومت دور کے بعض فوجی نظم تنظیمی دور میں بھی اپنی پرانی حالت میں برقرار تھے، یعنی عصمت مسلم کا ملیشیاء جونجیب دور میں قندھار شہر اور بولدک کے مابین راستے کی حفاظت پر مامور تھا اور تنظیمی دور میں بھی پہلے کی طرح کمانڈر منصور نے شور اندام اور غرہ کلی کے علاقوں میں مورچے بنائے تھے اور ان علاقوں کا اختیار اس کے پاس تھا۔
اس طرح پر قندھار شہر نااہل اسلحہ برداروں کے مابین قریہ قریہ اور گلی گلی میں تقسیم ہوچکا تھا۔ مستقل اور متوازی حکومتیں قائم ہوچکی تھیں اور حقیقی مجاہدین شہر سے دور ضلعوں اور دیہی علاقوں میں رہ رہے تھے اور اکثر نے جہاد ختم ہونے کے بعد اپن مجموعات کو ختم کردیے تھے۔
قندھار شہر پر قابض اسلحہ برداروں کی تنظیمی و قومی عصبیت پر اور حکومتی وسائل کو لوٹنے کی خاطر ہمیشہ جنگیں ہوتی رہتیں۔ ان اسلحہ برداروں نے سب سے پہلے ان ٹینکوں اور فوجی وسائل کو کباڑ میں بیچ دیا جو سوویت افواج کے دور سے ادھر پڑے ہوئے تھے، اسی سامان میں کثیر تعداد میں وہ ناکارہ ٹینک بھی تھے جوضلع ڈنڈ کی حدود میں قندھار ہرات شاہراہ پر پڑے تھے۔یہ وہ ٹینک تھے جو روسیوں کے ساتھ دس سالہ لڑائیوں کے دوران شہید ملا نیک محمد، ملا محمد عمر مجاہد، شہید لالا ملنگ، شہید طالب جان اور دیگر مجاہدین کی طرف سے تباہ کیے گئے تھے۔ ان ٹینکوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ پوری شاہراہ پر کوکران سے پنجوائی کے دوراہے تک حکومتی افواج نے راستے کی ایک جانب دیوار کی طرح فولادی حصار بنا دیا تھا جس کی آڑ میں فوجی اپنے مورچوں تک رسدوکمک پہنچاتے تھے۔ اسلحہ برداروں نے جہاد کی ان یادگاروں اور بہادروں کے خون سے سر ہونے والے ان معرکوں کے آثارکو پہلے بموں سے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور پھر ان ٹکڑوں کو پاکستانی تاجروں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔
جہادی غنائم اور حکومتی وسائل کو نیلام کرنے اور کباڑ میں بیچنے کے بعد اسلحہ برداروں نے پیسے بٹورنے کی خاطر چیک پوسٹس بنانا شروع کردیں۔ ہر کمانڈر نے عمومی راستوں پر لوگوں سے پیسے ہتھیانے کے لیے چیک پوسٹس بنادیں۔قندھار میں چیک پوسٹوں کا اصل راستہ افغانستان کی داخلی مرکزی سرکلر شاہراہ تھی جو اس صوبے کے درمیان سے گزر رہی تھی، یعنی ہرات سے قندھار شہر تک اور پھر کابل تک پھیلی ہوئی بڑی شاہراہ۔ اسی طرح سرحدی چھوٹے شہر بولدک اور قندھار شہر کے مابین راستے پر بھی بے شمار پوسٹیں بنائی گئی تھیں۔
اگرچہ ملا محمد عمر مجاہد نےاپنے مرکز اور مدرسہ کے قریب اسلحہ برداروں کو چیک پوسٹ بنانے کی اجازت نہیں دی لیکن قندھار شہر سے ہرات تک پھیلی ہوئی سڑک پر بے شمار چیک پوسٹیں بنائی گئیں تھیں۔ عینی شاہدین کے بقول ان علاقوں میں زیادہ تر چیک پوسٹوں اور اسلحہ برداروں کے ظلم و اذیت کی وجہ سے تاجر مجبور ہوگئے کہ ہرات کی طرف سے لایا جانے والا تجارتی سامان عمومی راستے کے بجائے ریگستانی دشت کے راستوں سے ٹریکٹروں اور دیگر گاڑیوں میں سرحدی شہر بولدک منتقل کریں۔
اسلحہ بردار نہ صرف یہ کہ لوگوں سے پیسے بٹورتے تھے اور پیسوں کی خاطر ان پر تشدد اور قتل کی حد تک ان پر ظلم کرتے تھے بلکہ ان کی چیک پوسٹیں غیر اخلاقی جرائم کی آماجگاہیں تھی۔ ان چیک پوسٹوں میں معاشرے سے مفرور، بد کردار،نشئی، ڈاکو، فاسق اور فاجر لوگ جمع ہوگئے تھے، جن میں سے بعض چور ی اور ظلم کرنے کے ساتھ ساتھ زنا، لواطت، قمار بازی اور دیگر گناہوں میں بھی ملوث تھے۔
حبیب اللہ جان کی سنزری کے علاقے میں چیک پوسٹ تھی، اس نے اپنی چیک پوسٹ میں ایک کاٹنے والا کتا پال رکھا تھا ، جب کوئی اسے پیسے نہ دیتا تو کتے کے پاس اس کو بھی باندھ لیتا تاکہ راہ گیر اپنے آپ کو بچانے کی خاطر پیسے دینے پر آمادہ ہوجائے۔
چیک پوسٹوں میں موجود ان بدمعاشوں کے بارے میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ راہ چلتی گاڑیوں سے خواتین کو اتار کر ان کی عزت لوٹتے تھے۔ملا محمد عمر مجاہد سنگ حصار کے علاقے میں اپنی مسجد اور مدرسہ کے کاموں میں مصروف تھے۔ اگرچہ آپ نے اپنے مدرسہ کے قریب بڑی شاہراہ پر اسلحہ برداروں کو چیک پوسٹ بنانےکی اجازت نہیں دی تھی لیکن اردگرد کے علاقوں میں ہونے والے مظالم کو دیکھتے رہتے اور روزانہ کی بنیاد پر ان کو دل سوز خبریں ملتی رہتیں۔
ارزگان سے تعلق رکھنے والے مولوی عبدالحنان جو آپ کے جاننے والے تھے ایک دن آپ کے مرکز میں آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں قندھارشہر سے آرہا تھا تو کولک کے علاقے میں چیک پوسٹ والوں کی جانب سے ہماری گاڑی روک دی گئی۔ ایک اسلحہ بردار آگے بڑھا اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو گاڑی میں دروازے کے قریب بیٹھی تھی، اس نے بڑی بے باکی کے ساتھ اس لڑکی کے سینے کو ہاتھ لگا دیا لیکن ڈر کے مارے کسی نے بھی رد عمل نہیں دکھایا۔
ایک دن ملا محمد عمر مجاہد اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک لڑکے کو بھاگتے ہوئے دیکھا ، ان کو وہ اجنبی لگا اس لیے اسے آواز دے کر بلایا۔ لڑکا جب قریب آیا تو اس نے بتایا کہ میں ہرات کا رہنے والا ہوں،اپنی ماں کو علاج کے لیے پاکستان لے گیا تھا، واپسی پر پشمول کے علاقے میں چیک پوسٹ والوں نے مجھے گاڑی سے نیچے اتارا اور آٹھ روز مجھے قید میں رکھا آج چھوٹ کر آیا ہوں۔ اس لڑکے نے اقرار کیا کہ ان آٹھ راتوں میں کوئی ایسی رات نہیں گزری کہ جس میں ان اسلحہ برداروں نے کسی لڑکے یا خاتون کو اپنے جنسی تسکین کے لیے قیدی نہ بنایا ہو۔
ملا محمد عمر مجاہد کے ایک ساتھی اور مدرسہ کے شاگر ملا سعد اللہ بتاتے ہیں کہ ایک دن میں اور ملا برادر اخوند قندھار شہر جارہے تھے اور گاڑی کی چھت پر بیٹھے تھے۔ جب پشمول میں صالح نامی شخص کی چیک پوسٹ پہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک کمسن لڑکا جو حلیےسے ہی فاسق لگ رہا تھا، چیک پوسٹ پر بیٹھا ہوا تھا، اس نے گاڑی قریب آنے پر ڈرائیور کو گندی گالیاں دیں لیکن ڈرائیور نے اس موقع پر تحمل کا مظاہر کیا اور کوئی جواب نہیں دیا۔
ملا سعد اللہ کہتے ہیں کہ یہ صورتحال دیکھ کر میں نے ملا برادر اخوند کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ میں نے پوچھا : آپ کیوں رو رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے جہاد، قربانیوں اور شہادتوں کا نتیجہ بالآخر یہ نکلاجس کی مثال ابھی تم نے دیکھی۔ تو اس حالت پر میں کیسے نہ روؤں۔
مسلسل مظالم، ناخوشگوار واقعات، دلسوز حادثات اگر ایک طرف ملا محمد عمر مجاہد اور دیگر باضمیر مجاہدین کو فکرمند کر رہے تھے تودوسری طرف ان اسلحہ برداروں کے خلاف نفرت اور ان سے انتقام لینے کا جذبہ مسلسل ان کے سینوں میں ابل رہا تھا۔
٭٭٭٭٭