قندھار اور نظام کی پہلی بنیاد
ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں طالبان نے ۲۵ اکتوبر ۱۹۹۴ء کو افغانستان کا سابق دار الحکومت اور دوسرا بڑا شہر قندھار فتح کر لیا۔ قندھار اور اس جیسے دیگر مفتوحہ شہروں کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ ایک صالح اور معیاری نظامِ حکومت کا نفاذ تھا۔
طالبان سے قبل قندھار اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں کوئی منظم حکومت موجود نہیں تھی اور ہر جگہ افراتفری اور بدنظمی کا راج تھا۔ ملا صاحب نے اپنے پہلے اقدام میں شرعی بنیادوں پر قائم نظام اور ادارتی سسٹم کو کھڑا کرنے کی کوشش شروع کی۔
ملا محمد عمر مجاہداس اسلامی تحریک کے موسس اور رہنما تھے، آپ نے ہی اسلامی انقلاب کی دعوت دی اور تنِ تنہا بندوق برداروں کے خلاف مقابلے کے لیے مخلص مجاہدین اور طالبان کو آمادہ کرنے کے لیے قدم اٹھایا، اور خود بنفس نفیس اسلامی تحریک کے عمومی امیر یا رہنما کی حیثیت سے آگے رہے۔ آپ نے قندھار کی فتح کے بعد حکومتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے قندھار کے اہم اداروں کے لیے مسئولین منتخب کیے۔
ملا محمد حسن اخوند صوبہ قندھار کےگورنر ،
ملا محمد اخوند تحریک کے عمومی مسئول ،
ملا بورجان اخوند سکیورٹی کمانڈر،
ملا عبیداللہ اخوند مسئولِ عسکری ،
مولوی عبدالسلام ائیر پورٹ کے مسئول،
مولوی احسان اللہ احسان مالیات کے مسئول،
ملا محمد عباس اخوند قندھار شہر کے میئر،
ملا حاجی محمد اخوند بینک کے رئیس،
مولوی وکیل احمد متوکل اطلاعات و ثقافت کے صدر
اور ’ملا اللہ داد طبیب‘ کسٹمز کے سربراہ کے طور پر منتخب کیے گئے۔
ان مسئولین نے اپنے اداروں میں کام کی ابتدابالکل صفر سے کی، قندھار کے حکومتی اداروں میں نظم و ضبط کی جگہ بندوق برداری کا اثر باقی تھا، طالبان کا سب سے پہلا کام یہ تھا کہ قندھار کے عوامی اداروں اور ڈپارٹمنٹوں سے بندوق برداروں، منشیات، بد کرداری اور ظلم کے آثار کو صاف کر دیں۔
اس عرصے میں تحریک کے تنظیمی ڈھانچے میں بہتری اور وسعت کے راستے میں ملا صاحب کا اگلا کامیاب اقدام اعلی شوریٰ کی منظوری اور تشکیل تھی جس نے ابتدائی حالات میں سیاسی اور انتظامی امور میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی تحریک کی اعلی شوریٰ کے ابتداء میں آٹھ ارکان تھے لیکن بعد میں یہ تعداد کم یا زیادہ بھی ہوتی رہی۔ اس شوریٰ کے پاس اسلامی تحریک کے امیر ملا محمد عمر مجاہد کے بعد اہم اختیارات تھے اور اہم امور کے بارے میں یہ شوریٰ غور و فکر، مشورے اور فیصلے کیا کرتی تھی۔
شوریٰ کے اجلاس ابتدا میں ملا صاحب کی سربراہی میں منعقد ہوتے رہے لیکن بعد میں انتظامی امور میں ملا صاحب کی مصروفیت کی وجہ سے ملا محمد ربانی کی صدارت میں منعقد ہونے لگے۔ ملا صاحب کی توجہ تحریک کے آغاز سے ہرات کی فتح تک زیادہ تر عسکری امور کی طرف رہتی، اکثر اوقات عسکری مسئولین کے ساتھ مصروف رہتے یا جنگی علاقوں کا دورہ کرتے۔ اس مرحلے میں سیاسی امور، ملاقاتیں، عوامی اور فلاحی امور، نئے آنے والے علماء اور طلبہ کا استقبال اور اس سمیت دیگر غیر عسکری امور کی نگرانی شوریٰ کی طرف سے کی جاتی تھی۔
ملا صاحب نے قندھار کے صوبائی دفتر کو رہائش گاہ کے لیے منتخب کیا، اس دوران جب مختلف علاقوں سے مدارس کے طلبہ اور مجاہدین جوق در جوق تحریک میں شامل ہو رہے تھے، ملا صاحب ان کے ساتھ صوبائی دفتر میں ملاقات کرتے، ان کی بیعت کو قبول کرتے، ان کو اپنے ذمہ داران اور مجموعے کے امیر کی نشاندہی کراتے، اور پھر انہیں ضرورت کے پیشِ نظر عسکری یا سول کاموں پر بھجوا دیتے۔ طالبان کی تحریک سے قبل ملک کے اندر اور باہر مدارس کےطلبہ ’جمعیت طلبہ‘ یا ’اہل السنہ والجماعہ‘ جیسے مختلف اتحادوں کے نام سے موجود تھے ، طالبان کی تحریک کے آغاز کے ساتھ یہ سارے گروپ ایک صف میں شامل ہوئے اور ملا محمد عمر مجاہد کو عمومی امیر کے طور پر قبول کیا۔۱۴ دسمبر ۱۹۹۵ء کو ملا محمد عمر مجاہد نے ایک فرمان جاری کرتے ہوئے تحریک سے باہر طالبان کے تمام گروپوں یا اتحاد کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا۔ جس سے وحدتِ صفوف کو مزید تقویت ملی۔بحب
قندھار میں نظام کا ابتدائی ڈھانچہ بننے کے بعد حکومتی نظام فعال ہوگیا، بلدیہ، بینک، پانی و بجلی، صحت عامہ، تعلیم اور دیگر ریاستوں نے اپنی خدمات کا آغاز کر دیا۔ عدالتی شعبہ فعال ہوا اور روس کے خلاف جہاد کے دوران مشہور قاضی مولوی سید محمد پاسنی صاحب کو شرعی عدالت کا رئیس بنا دیا گیا۔ ثقافتی شعبے میں قندھارکا ریڈیو سٹیشن فعال ہوا اور صدائے شریعت(شریعت غږ) کے نام سے اپنی نشریات کا آغاز کر دیا، ریاستِ اطلاعات و ثقافت کی طرف سے طلوع افغان جریدہ جو کئی سال سے تاخیر کا شکار تھا شائع ہونا شروع ہوا۔
حکومتی نظام کے طویل عرصے تک فقدان کے بعد قندھار اور بعد میں افغانستان کے دیگر علاقوں میں اسلامی طالبان کی تحریک کی طرف سے جو نظام بنا، اس کی ایک خوبی یہ تھی کہ یہ نظام شرعی بنیادوں پر کھڑا تھا اور اس نظام میں ہر معاملے میں اسلامی شریعت کو ہر چیز سے بڑھ کر معتبر قانون کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ یہی نظام فتوحات کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں اور اضلاع میں بھی پھیل رہا تھا۔
طالبان مدارس سے میدانِ جنگ کی جانب
اگرچہ ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں اٹھنے والی طالبان کی تحریک کا آغاز چند ہی ماہ قبل ہوا تھا، لیکن سپین بولدک اور قندھار شہر کی فتح کے بعد پہلی بار میڈیا نے طالبان کی تحریک کے بارے میں رپورٹ شائع کرنا شروع کر دیں۔ یہ خبریں ملک کے اندر اور دوسرے ممالک میں خصوصاً مہاجر کیمپوں میں مقیم لوگوں کے لیے، جو ملک میں جاری حالات سے پریشان تھے اور ایک امید کی روشنی کے منتظر تھے، توجہ کا مرکز بنیں کہ وہ اس نئی اٹھنے والی تحریک کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور اگر یہ تحریک ان کی امیدوں کا محور ، جہادی مقاصد اور ملک کے فائدے میں ہو تو اس میں خود بھ شامل ہو جائیں۔ اسی طرح ایک جانب ملک کے مختلف علاقوں سے مخلص جہادی کمانڈر اور اہلِ خیر حضرات نے طالبان کی تحریک کے ساتھ رابطے کرنا شروع کردیے تو دوسری جانب ملک کے مختلف علاقوں اور پاکستان میں افغان مہاجر کیمپوں سے مدارس کے طلبہ نے بھی تحریک کے ساتھ روابط اور ان میں شامل ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔
ملا خیر اللہ خیر خواہ صاحب کہتے ہیں کہ مجھے طالبان کی تحریک کا اس وقت پتا چلا جب میں پاکستان کے شہر کوئٹہ میں ہجرت کی زندگی گزار رہا تھا اور مدرسہ میں دینی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ مدرسہ میں موجود افغانی طالبان جمع ہو گئے جن کی تعداد ۳۷۰ افراد پر مشتمل تھی۔ یہ سارے غریب طلبہ تھے ان کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ قندھار کا سفر کر سکیں۔ ایسے میں قندھار سے تعلق رکھنے والے ’لالک ماما‘ نامی ایک خیر خواہ نے ان طالبان کو گاڑی کا کرایہ دیا اور وہ سب طالبان قندھار پہنچ گئے اور وہاں طالبان کی تحریک کے ساتھ شامل ہوئے۔
مولوی شہاب الدین دلاور صاحب بتاتے ہیں کہ اس وقت میرا پشاور کے مہاجر کیمپ ’سیاف فیملی‘ میں مدرسہ تھا جس میں چار سو طلبہ رہتے تھے، اور اتنی ہی تعداد میں مزید طلبہ پڑھنے آتے تھے۔ اسی طرح شیخ الحدیث مولوی محمد نعیم صاحب، حاجی مولوی محمد صادق صاحب، مولوی نور محمد ثاقب صاحب اور بے شمار دیگر علمائے کرام بھی پشاور کے مدارس میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے تھے۔ جب قندھار میں اسلامی تحریک شروع ہوئی، تو یہاں مہاجر کیمپوں میں علمائے کرام جمع ہوئے اور مشاورت کی، علمائے کرام کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعی ایک اسلامی اور افغانی تحریک ہے، تو علمائے کرام نے اس کی حمایت شروع کر دی۔ مہاجر کیمپ کے بازار میں ہم نے ایک بڑے جلسے کا اہتمام کیا جس میں تمام جہادی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام نے شرکت کی۔ اس جلسہ میں مہاجر علمائے کرام نے اتفاق کے ساتھ طالبان کی اسلامی تحریک کی حمایت کی اور مدارس کے طلبہ کو اس تحریک میں شامل ہونے کی ترغیب دی۔ اس طرح قندھار کی فتح کے ایام میں ۲۵۰۰ سے زائد طلبہ صرف پشاور کے افغان مہاجرین کے مدارس سے اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ طالبان کی اسلامی تحریک کے آغاز سے قبل دینی مدارس میں افغان طلبہ کی مختلف تنظیموں کے تحت تشکیلات تھی، جو اہل السنہ والجماعہ اتحاد کے نام سے سرگرم تھے۔ طالبان کی اسلامی تحریک شروع ہونے کے بعد اس اتحاد میں شامل تمام طلبہ اسلامی تحریک میں شامل ہو گئے۔
قاری دین محمد حنیف صاحب کہتے ہیں کہ افغانستان کے شمالی صوبوں کے زیادہ تر طالبان تحریک کے آ غاز کے ساتھ ہی قندھار پہنچ گئے اور وہاں اسلامی تحریک میں شامل ہوئے۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا، جب طالبان نے صوبہ خوست فتح کیا، تو صرف صوبہ بدخشان سے ۱۱۷ طالبان نے، جو دیارِ ہجرت کے دینی مدارس میں پڑھ رہے تھے، اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑا اور خوست میں اسلامی تحریک کے ساتھ شامل ہو گئے۔
ملک اور دیارِ ہجرت کے مختلف علاقوں کے مدارس سے طالبان کی آمد اور ان کے تحریک میں شامل ہونے نے نہ صرف تحریک کی افرادی قوت میں اضافہ کیا ، بلکہ چونکہ یہ طالبان ملک کے مختلف علاقوں اور اقوام سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے یہ ایک ایسی تحریک بن گئی جو تمام اقوام کی نمائندگی کر رہی تھی۔ مدارس اور دینی تعلیم سے اٹھ کر آنے والے یہ نوجوان طلبہ وہ صالح اور مصلح لوگ تھے جنہوں نے بہت جلد افغان عوام کے دلوں میں گھر کر لیا۔ افغان عوام کو نظر آ رہا تھا کہ اب بڑی شاہراہوں پر بد کار اور فاسق بندوق برداروں کے چیک پوائنٹس اور مورچے نہیں رہے بلکہ ہر جگہ اور ہر طرف سفید پوش طالبان کے نورانی چہرے، با جماعت نمازیں، دعوتی و اصلاحی مجالس دیکھنے کو مل رہی ہیں۔ ایسے میں عوام نے طالبان کی اسلامی تحریک کو نہ صرف ایک دینی اور جہادی مقاصد کے ساتھ مخلص جماعت کی حیثیت سے قبول کیا بلکہ ان کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لیے بھی کمربستہ ہو گئے۔ یہی عوامی حمایت تھی جس کے سبب طالبان اس قابل بنے کہ انہوں نے انتہائی قلیل مدت میں ملک کے اکثر علاقوں سے بندوق برداروں کو بے دخل کر دیا۔
فتوحات اور نظام کی وسعت
قندھار میں طالبان کے مستحکم ہونے اور تمکین ملنے کے بعد اس تحریک نے سیاسی میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ اس دوران ملک کے تمام علاقوں سے علمائے کرام، مدارس کے طلبہ اور فتنہ و فساد کے خلاف جہاد میں شرکت کے خواہش مند مجاہدین ، سب نے قندھار کا رُخ کیا۔ اس وجہ سے طالبان کی تحریک کی قوت میں آئے روز اضافہ دیکھنے میں آیا اور دیگر علاقوں میں کام کے لیے راستے ہموار ہوئے۔ علمائے کرام، طلبہ اور مجاہدین اسلامی تحریک کی حمایت سمیت یہ مطالبہ بھی کر رہے تھے کہ ان کے علاقوں میں بھی تحریک کا کام شروع ہو جائے تاکہ وہاں بھی فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو۔
اسی وجہ سے دسمبر ۱۹۹۵ء میں، ملا صاحب کی قیادت میں اسلامی تحریک کے مسئولین نے تین اطراف میں تشکیلات بھیجی۔ ملا نور الدین ترابی کی قیادت میں زابل کی طرف، ملا محمد ربانی کی قیادت میں صوبہ اروزگان کی طرف اور ملا محمد اخوند کی قیادت میں صوبہ ہلمند کی طرف تشکیلات بھیجی گئیں اور اس آخری تشکیل میں ملا صاحب خود بھی شامل تھے۔
ملا محمد عمر مجاہد نے لشکر گاہ، گرشک اور ہلمند کے بعض مرکزی علاقوں پر بغیر جنگ کے قبضہ کیا، ہلمند کے شمالی اضلاع میں امیر داد اور غفار اخوندزادہ کے نام سے کمانڈروں نے طالبان کے خلاف جنگ کی ٹھانی۔ ملا صاحب نے ان کے پاس ملک کے مشہور علمائے کرام مولوی محمد صادق، مولوی موسیٰ جان، مولوی محمد میر، مولوی شہاب الدین دلاور، مولوی نور محمد ثاقب اور دیگر علماء کا وفد بھجوایا، اس کے علاوہ چند دیگر وفود بھی بھجوائے گئے اور مسلسل ان سے مطالبہ کیا کہ ناجائز کاموں سے باز آجائیں اور اس ظلم کے خاتمے کے لیے اسلامی تحریک میں شامل ہوجائیں۔ لیکن انہوں نے ان جرگوں اور مطالبات پرکان نہیں دھرے، جس کے جواب میں ملا محمد اخوند کی قیادت میں طالبان نے ان کے خلاف کارروائی شروع کردی۔ بالاخر دو دنوں تک جاری رہنے والی لڑائی میں ضلع سنگین کے ساروان قلعہ، ضلع کج کئی، موسی قلعہ اور اس سمیت دیگر علاقوں کو پکڑ لیا اور اسی طرح پورا ہلمند طالبان کے قبضے میں آگیا۔
انہی دنوں جب ملا صاحب صوبہ ہلمند کے انتظامی امور میں مصروف تھے، اروزگان بھی بغیر کسی لڑائی کے طالبان کے ہاتھ میں آگیااور طالبان کلات، شاجوئی اور قرہ باغ سے گزرتے ہوئے بغیر لڑائی کے ۱۹ جنوری کو غزنی شہر میں داخل ہوگئے۔ اس وقت غزنی پر قابض ہونے کے لیے حکمت یار اورحزبِ وحدت کے مسلح افراد بھی جمع ہو گئے تھے اور غزنی شہر کے مشرق اور جنوب میں واقع روضی اور یونٹ کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ ملا صاحب نے ۱۸ فروری کو ہیلی کاپٹر میں تاریخی شہر غزنی کا دورہ کیا اور وہاں کے حالات کا قریب سے جائزہ لیا۔ انہی دنوں غزنی شہر کے مشرق میں طالبان نے حکمت یار اور مزاری کے جنگجوؤں سے جنگیں کیں، جس میں مخالفین کو شکست ہوئی اور صوبہ وردگ کے ضلع سید آباد کو پکڑنے کے بعد طالبان میدان شہر تک پہنچ گئے۔
۱۲ فروری کو ملا صاحب نے چند مسئولین کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں پہلے غزنی اور پھر صوبہ وردگ کے ضلع سید آباد کا سفر کیا۔ اس وقت طالبان میدان شہر کے خط تک پہنچ گئے تھے لیکن میدان شہر ہاتھ میں نہیں آیا تھا۔
ماہِ رمضان میں ملا صاحب شیخ آباد آ گئے۔ سردیوں کا موسم تھا اور شدید ٹھنڈ تھی ۔ طالبان نے اس وقت تک کوئی فوجی بیس نہیں بنائی تھی۔ طالبان کے ایک کمانڈر ملا احمد اللہ اخوند نے شیخ آباد کے شہر میں ایک ہوٹل والے سے بات کی کہ پیسوں کے عوض طالبان کے مسئولین کے لیے سحری، افطاری اور رات گزارنے کا بندوبست کر دے۔
ملا صاحب نے جنگی حالات اور فتوحات کے پیشِ نظر عسکری اجلاس بلایا جس میں ملا صاحب سمیت ملا محمد ربانی، ملا نور الدین ترابی، ملا بورجان اخوند، ملا احمداللہ، ملا محمد غوث، معلم فداء محمد اور دیگر مسئولین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ میدان شہر پکڑنے کے بعد کابل کی جانب پیش قدمی نہ کی جائے، بلکہ صوبہ لوگر کی جانب پیش قدمی کی جائے کیونکہ درۂ تنگی سے حزب کے مسلح افراد نے مسلسل پیچھے کی جانب سے طالبان پر حملےکیے تھے۔ اس اجلاس میں اس بات پر بھی تاکیداً زور دیا گیا کہ احمد شاہ مسعود کے ساتھ لڑائی کے بجائے صلح کی کوشش کی جائے تاکہ مسائل بغیر جنگ کے حل ہو جائیں۔
اس اجلاس سے اگلی صبح طالبان نے میدان شہر کو حزب کے مسلح افراد سے معمولی لڑائی کے بعد فتح کر لیا اور اس کے بعد صوبہ لوگر کا مرکزی شہر پل عالم اور کابل کے ضلع چہار آسیاب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ چہار آسیاب کی فتح کے بعد ملا محمد عمر مجاہد ہیلی کاپٹر کے ذریعے پل عالم پہنچے اور وہاں طالبان کے مسئولین مولوی احسان اللہ احسان، ملا محمد ربانی، ملا محمد غوث، ملا نور الدین ترابی، ملا عبد السلام راکٹی، ملا یار محمد، ملا محمد اخوند، حاجی ملا محمد اخوند، ملا بورجان اخوند اور ان جیسے دیگر مسئولین کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کیا اور اس پہ بحث ہوئی کہ اس کے بعد آگے کا کیا اقدام ہو گا؟ فیصلہ اس بات پر ہوا کہ کابل کی طرف صرف دفاعی خطوط کو مضبوط کیا جائیے گا اور ہلمند سے فراہ کی جانب پیش قدمی شروع کردیں گے۔ کیونکہ اس وقت اسماعیل خان طالبان کے خلاف جنگجوؤں کو منظم کرنے میں مصروف تھا۔
ملا صاحب فتنہ و فساد کے خلاف جہاد میں لڑائی سے قبل صلح کو اہم حل سمجھتے تھے اور اسے اہمیت دیتے تھے۔ طالبان کو ہمیشہ تاکید کرتے کہ لڑائی سے قبل بہر صورت ان کو نرمی سے قائل کرنے کی کوشش کریں۔ طالبان نے چہار آسیاب میں حکمت یار کے زیر قبضہ علاقوں میں داخل ہونے والے مسعود کے افراد کو گرفتار کرنے کے بعد واپس رہا کر دیا اور ملا محمد ربانی کی قیادت میں ایک با صلاحیت وفد کو امر دیا کہ میدان شہر میں مسعود کے ساتھ بالمشافہ بات چیت کریں۔
ملا نور الدین ترابی کا کہنا ہے کہ جب احمد شاہ مسعود ملاقات کے لیے میدا ن شہر آ رہا تھا، تو میں قندھار میں تھا۔ ملا صاحب نے مجھے کہا کہ آج فوری طور پر ہیلی کاپٹر میں چلے جاؤ، مسعود آ رہا ہے اور اس کے ساتھ مجلس میں نرمی اور اچھے طریقے سے بات کرو اور اسے اطمینان دلاؤ کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ دیگر بندوق برداروں کی طرح معاملہ نہیں کریں گے کہ تمہیں گھر بٹھا دیں بلکہ اگر تم ہمارے ساتھ ملک میں جاری اس فتنہ و فساد کے خلاف کھڑے ہو جاؤ تو تم ہماری تحریک کی اہم شخصیات میں شمار ہو گے۔ میدان شہر میں ملاقات کے دوران جب طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے ملا محمد ربانی نے مسعود کوطالبان کے ارادے اور مقاصد بیان کیے تو اس نے کہا: مجھے یہ سمجھ آ رہی ہے کہ آپ چار چیزوں کا مطالبہ کر رہے ہیں: پہلا چیک پوائنٹ کا خاتمہ، دوسرا افغانستان میں اسلامی نظام کا نفاذ، تیسرا حکومتی اداروں سےکمیونسٹوں کو نکالنا اور چوتھا شر اور فساد کا خاتمہ۔ ہم نے کہا: جی ہاں ہمارے یہی مقاصد ہیں۔ مسعود نے کہا ان چار مقاصد پر میں بھی آپ کے ساتھ متفق ہوں، لہذا ہمارے اور آپ کے درمیان رابطہ رہے گا اور پھر اس نے اپنے ایک بندے کی ذمہ داری لگائی کہ ان کے ساتھ رابطہ جاری رکھے۔
شاید مسعود کی یہ ظاہری دوستانہ پالیسی اور اسلامی تحریک کے مقاصد کے ساتھ متفق ہونے کی وجہ سے کابل کے خطوط پر طالبان اور مسعود کے درمیان زیادہ عرصے تک جنگ کی نوبت نہیں آئی لیکن بعد میں ملنے والے شواہد سے پتا چلا کہ میدان شہر کی جانب مسعود کا سفر اور وہاں طالبان کے ساتھ متفق ہونا، یہ ایک جنگی چال تھی۔ مصنف رزاق مامون کے مطابق مسعود کے ایک قریبی ساتھی جنرل داؤد، جو اس سفر میں مسعود کے ساتھ تھا، کا کہنا ہے کہ مسعود کے اس سفر پر اس کے ساتھی راضی نہیں تھے لیکن مسعود نے اس ملاقات کی وجہ یہ بتائی کہ:
’’ اگر ہم نے طالبان کو کابل شہر کے دروازے سے کچھ عرصہ دور نہ رکھا تو یہ جنگ ہم ہار جائیں گے۔ ہمارے افراد کا حوصلہ پست ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ طالبان کو شکست دینا ناممکن ہے۔ جو شخص فتح پر یقین نہیں رکھتا وہ شکست کھا جاتا ہے۔ لہذا جس طریقے سے بھی ممکن ہو، طالبان کو ہم کابل کے جنگی خطوط پر روکے رکھیں تاکہ ہمارے افراد کو بھی یہ یقین ہو جائے کہ طالبان بھی ہماری طرح کے انسان ہیں اور گولی ان پر بھی اثر کرتی ہے۔‘‘
لیکن طالبا ن پر مسعود کی دشمنی جلد ظاہر ہو گئی۔ حزبِ وحدت کے افراد کئی سال مسعود کے ساتھ جنگیں کر چکے تھے اور اب محاصرے میں پھنس چکے تھے، فروری کے مہینے میں طالبان نے کابل کے مغرب میں حزبِ وحدت کی ہزارہ ملیشیا سے معاہدہ کیا کہ بامیان کی طرف راستہ دینے کے بدلے میں اپنا اسلحہ اور زیرِ قبضہ علاقے طالبان کے حوالے کر دیں، طالبان یکم مارچ کو کابل کے مغربی علاقوں میں داخل ہوئے تاکہ ہزارہ ملیشیا سے علاقوں کا اختیار لے لیں۔ اسی اثنا میں مسعود کے مسلح افراد نے طالبان پر حملہ کر دیا اور طالبان کو بھاری نقصان پہنچا کر کثیر تعداد کو قیدی بنا لیا۔
جس وقت طالبان کابل کی حدود میں پہنچ رہے تھے، مولوی احسان اللہ احسان کی قیادت میں طالبان کا ایک دوسرا مجموعہ جنوب مشرقی زون کے تین صوبوں (پکتیا، پکتیکا اور خوست) میں عوام کے پر جوش استقبال کے ساتھ داخل ہوگیا۔ مولوی جلال الدین حقانی اور مولوی نصر اللہ منصور نے اپنے علاقے کے تمام مجاہدین کے ساتھ اسلامی تحریک میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭