نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | چھٹی قسط

امارت اسلامیہ افغانستان کے مؤسس عالی قدر امیر المومنین ملا محمد عمر مجاہد﷬ کی مستند تاریخ

عبد الستار سعید by عبد الستار سعید
26 مئی 2025
in افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ, اپریل و مئی 2025
0

تیسری فصل

طالبان کے اسلامی تریئکحریک کا قیام

انقلاب کا آغاز

ملا محمد عمر مجاہد کا جہادی اور رہائشی علاقہ (سنگ حصار) جو حالیہ حکومتی نظام میں قندھار کے ضلع ژڑی کے ساتھ مربوط ہے، جبکہ اُس دور میں ضلع میوند کے ساتھ منسلک تھا۔ سنگ حصار اور اس کے قریب پنجوائی کے قرب و جوار کے علاقے جیسے زنگاوت، تلوکان، مشان اور باقی علاقوں کا اختیار ملا محمد مجاہد، ملا محمد اخوند، ملا حاجی محمد، ملا محمد صادق اور دیگر گروپوں کے مجاہدین کے ہاتھ میں تھا۔ انہوں نے حتی الامکان ان علاقوں کی سکیورٹی سنبھال لی تھی اور یہاں بندوق برداروں کو ان کی غلط سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ سنگ حصار کے مغرب میں واقع میوند کشک کا علاقہ کماندان حاجی بشر اور حاجی برگیٹ کے قبضے میں تھا۔ یہ بھی اُن مجاہدین کے ساتھ ہم آہنگ تھے اس لیے ان کا علاقہ بھی بد امنی سے محفوظ تھا۔ تمام سابقہ دور کے مجاہدین نے اپنے علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کی خاطر صوبہ قندھار کے سابقہ عمومی قاضی مولوی سید محمد (جوکہ مولوی پاسنی صاحب کے نام سے معروف تھے)کو قاضی کی حیثیت سے مقرر کیا تھا۔ آپ کی پنجوائی کے علاقے زنگاوت میں عدالت قائم کی گئی، اور تمام گروہوں کے مجاہدین اپنی باری پر شرعی عدالت کے امور کے لیے مجاہدین مہیا کرتے اور قاضی صاحب عدالتی کارروائیاں سرانجام دیتے۔

بندوق برداروں کی بدامنی کے دور میں اگرچہ ملا محمد عمر مجاہد کا مدرسہ اور سابقہ گروپ کے اردگرد کے علاقے ناکوں، ڈاکہ زنی اور افراتفری سے محفوظ تھے لیکن دوسرے مقامات سے مسلسل نا خوشگوار خبریں آتی رہتی تھیں۔ عوام کے ساتھ ناخوشگوار واقعات اور بندوق برداروں کے ظلم و بربریت نے تمام اہلِ خیر مجاہدین اور طالبان کو فکر مند کردیا تھا۔ بالآخر اس موضوع پر مشوروں اور مجالس کا آغاز ہوا کہ بندوق برداروں سے عوام کی حفاظت کیسے کی جائے۔

تحریکِ طالبان کے قیام سے قبل کئی بار اس موضوع پر سنگ حصار اور اس کے اطراف کے علاقوں کے طالبان اور سابقہ مجاہدین نے مجالس منعقد کیں۔ سید عبداللہ (تورک آغا) کہتے ہیں کہ ایک بار ملا محمد عمر مجاہد کے مدرسے میں مجلس منعقد ہوئی تھی ، جس میں ملا محمد عمر مجاہد، ملا برادر اخوند، ملا محمد اخوند سمیت چالیس طالبان نے شرکت کی ۔ مجلس کا موضوع یہی تھا کہ ہم نے جہاد کیا، قربانی دی ، صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں، اس مقصد کی خاطر کہ ایک شرعی نظام قائم ہوجائے اور ہماری قوم خوشحال ہوجائے۔ لیکن آج ہماری عوام بدکردار بندوق برداروں کے مظالم کا شکار ہے۔ لہذا جہادی مقاصد حاصل کرنے اور عوام کو اس ظلم سے نجات دلانے کی خاطر کوشش کرنی چاہیے۔

ان جیسی مجالس کو جاری رکھتے ہوئے دوسرا اجتماع سنگ حصار کے جہادی کماندان حاجی غوث الدین آقا کی بیٹھک میں منعقد ہوا۔ مولوی عبدالرحمٰن صاحب جو کہ ملا محمد عمر مجاہد کے بہنوئی اوراستاد تھے کہتے ہیں اس مجلس میں مَیں ملا صاحب کے ہمراہ چلا گیا۔ مجلس میں اکثر مساجد کے امام اور علاقے کے علمائے کرام جمع ہوئے تھے۔ ان کی مشاورت اسی بات پر ہورہی تھی کہ کیسے فساد کا راستہ روکا جائے۔ مختلف آراء کے تبادلے کے بعد اکثریت کی رائے یہ رہی کہ طالبان اپنی اپنی باری پر علاقوں کے امن و امان کی حفاظت کریں گے اور اپنے علاقوں میں مولوی پاسنی صاحب کی شرعی عدالت کو مزید مضبوط کریں گے تاکہ مجرمین کو سزا مل سکے۔

ملا محمد عمر مجاہد مجلس کے آخری کونے میں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے جب آپ کی رائے بیان کرنے کی باری آئی تو آپ نے کہا کہ بندوق برداروں کے جرائم کا راستہ روکنے کے لیے ان کے مثل اقدام کی ضرورت ہے۔ بندوق برداروں نے سب کچھ چھوڑ کر دن رات ایک کر دی ہے لیکن شیطان کے راستے پر چل نکلے ہیں اور فتنہ و فساد کو جاری رکھا ہوا ہے۔ ان جرائم کا سدِبات تبھی ممکن ہے جب ہم بھی سب کچھ چھوڑ کر اس فساد کا قلعہ قمع کرنا اپنی اولین ترجیح اور مسؤلیت سمجھ لیں اور اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے میدان میں ایسے کمربستہ ہوجائیں جیسا کہ بندوق بردار اس کے خلاف کھڑے ہیں۔ یہ مقابلہ اس طرح نہیں کیا جا سکتا کہ ہفتہ میں چند دن درس و تدریس کریں گے اور پھر ایک دن اپنی باری پر بندوق برداروں کا مقابلہ کریں گے۔

آخر میں یہ مجلس بھی سابقہ مجلسوں کی مانند بغیر کسی نتیجہ کے برخاست ہوگئی۔ مولوی عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ مجلس سے واپسی کے بعد ملا صاحب اس بات پر غمگین تھے کہ اجتماع کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا لیکن آپ ﷫ نے کہا کہ ان مجلسوں سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے خود اقدام کرتا ہوں۔

ملا صاحب نے اپنے پہلے اقدام اور توکل کے بارے میں اپنے ایک بیان میں کہا:

’’میں ایک مدرسہ میں تھا، ایک چھوٹا سا مدرسہ ہم نے بنایا تھا۔ ہم پندرہ بیس ساتھی اس میں سبق پڑھتے تھے۔ زمین میں فساد پھیل گیا، قتل و غارت گری، چوری اور ڈاکہ زنی، الغرض ہمارے وطن پر فساق و فجار قابض ہوگئے۔ گزشتہ حالات تو آپ کے علم میں ہیں کہ لوگ یہ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ اصلاح کیسے آئے گی؟ تو میں علم حاصل کررہاتھا اور ان حالات کے بارے میں فکر مند تھا۔ لیکن اگر محض میں فکرمند رہتا تو یہ دلیل میرے لیے کافی تھی کہ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا کیونکہ حالات کے بارے میں فکر مند رہنے کے علاوہ میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔ ایسے میں مَیں نے اللہ تعالیٰ پر توکل محض کیا، توکل محض کے لیے کافی قوت درکار ہوتی ہے لیکن توکل محض کا نتیجہ ناکامی نہیں۔ ‘‘

شرعی فتویٰ

ملا محمد عمر مجاہد ایک مخلص مومن کی حیثیت سے احکامِ دین کے پابند شخص تھے ۔ آپ ﷫ شریعت کا نفاذ اپنی ذاتی اوراجتماعی زندگی میں، ہرچیز سے اہم سمجھتے تھے۔ آپ ﷫ اپنے دورِحکومت میں حکومتی اقدامات کو پہلے شریعت کی نظر سے دیکھتےاور فقہ حنفی کے علمائے کرام اور مفتیان سے ان کے جائز و ناجائز کا حکم معلوم کرتے اور اس وقت تک اقدام نہ کرتے جب تک علماء کی جانب سے جواز کا فتویٰ نہ مل جاتا۔ جدید دور کے سیاسی افراد اور گروہوں کے اکثر فیصلے اپنی عقل، ہوس، ذاتی مفادات اور تحقیقاتی اداروں (تھنک ٹینکس )کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین اور شریعت کو معتبر نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن ملا صاحب شاید اس زمانے کے ایک منفرد حاکم تھے جو الٰہی شریعت کو ہر چیز پر مقدم اور معتبر سمجھتے تھے اور اپنے ہر اقدام کو پہلے شریعت کے ترازو سے تولتے تھے۔

ملا محمد عمر مجاہد اپنی تحریک کے قیام سے چند دن قبل پنجوائی زنگاوت چلے گئے تاکہ اس علاقے کے معروف عالمِ دین اور قاضی مولوی سید محمد صاحب سے اپنے اس اقدام کے بارے میں شرعی فتویٰ یا اجازت لیں۔ مولوی سید محمد (پاسنی مولوی صاحب) اصلاً صوبہ غزنی کے ضلع گیلان کے رہائشی تھے۔ آپ جید عالمِ دین اور سویت یونین کے خلاف جہاد کے دوران صوبہ قندھار کے عمومی قاضی تھے ۔ اپنے سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے سارے جنوبی صوبوں میں مشہورومعروف تھے۔ آپ نے اس وقت پنجوائی کے علاقے زنگاوت میں شرعی عدالت سنبھال رکھی تھی اور وہاں کی عوام اور مجاہدین ایک قاضی اور بزرگ عالمِ دین کی حیثیت سے آپ کا عزت و احترام کرتے تھے۔

ملا گل آغا اخوند اس سفر میں ملا صاحب کے ساتھ تھے ۔ وہ کہتے ہیں ملا صاحب اور مولوی عبدالصمد مولوی پاسنی صاحب سے ملنے ان کی عدالت میں چلے گئے۔ آپ ﷫نے مولوی صاحب کے سامنے سارے حالات بیان کردئیے کہ فساد عام ہوگیا ہے، آئے روز فتنے اور مظالم بڑھ رہے ہیں، مظلوم کی آہ سننے والا کوئی نہیں اور طرح طرح کے مظالم اور جرائم ہورہے ہیں۔ ہم ان مظالم کو روکنے کی خاطر تحریک اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ ہمیں کیا مشورہ دیتے ہیں؟ مولوی پاسنی صاحب نے کہا یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے، میں کل مزید کچھ علماء کو بلاتا ہوں پھر اس کے بعد جواب دوں گا۔ اگلے دن مولوی عبدالخالق صاحب، مولوی شاہ محمد صاحب اور ایک تیسرے عالم کو بلایا گیا اور عصر تک ان علماء کی مشاورت چلتی رہی۔ عصر کے وقت ملا صاحب کے اقدام پر متفق ہوگئے اور فساد کے خلاف ان کی مزاحمت کو ایک اہم اقدام قرار دیا۔ ملا صاحب نے انہیں کہا آپ علمائے کرام بھی ہمارے ساتھ آغاز میں ساتھی بن جائیں ، آپ کی وجہ سے ہماری صف مضبوط ہوجائے گی۔

مولوی پاسنی صاحب نے ملا صاحب کو کہا ہم آغاز میں آپ کے ساتھ اعلانیہ کھڑے نہیں ہوسکتے یہ اس لیے کہیں خدانخواستہ آپ کی حرکت ناکام ہوگئی تو ہم علماء غیر مسلح اور غیر محفوظ ہیں، پھر بندوق بردار ہر عالم کے گھر کے سامنے کھڑے ہوں گے ، ان کی بے عزتی کریں گے اور انہیں ان کے عمل کی سزا دیں گے ۔ لہذا بہتر یہی ہوگا کہ ہم اس وقت تک آپ کی حمایت کو خفیہ رکھیں، جب تک اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطا نہ کر دیں، اس کے بعد ہم پوری قوت کے ساتھ آپ کی دعوت کی حمایت کریں گے اور عملاً آپ کے ساتھ اس کام میں شریک ہوں گے۔ مولوی پاسنی صاحب اور دیگر علماء نے اس کے بعد اسی وعدے کو نبھایا اور اسلامی تحریک کے ساتھ اخلاص کے ساتھ کھڑے رہے۔ مولوی پاسنی صاحب قندھار کی فتح کے بعد صوبہ قندھار کے محکمہ استغاثہ کے صدر مقرر ہوئے اور امریکی حملے تک اسی مسؤلیت پر رہے۔

ملا صاحب علماء سے رخصت ہونے کے بعد اپنے دو نوں ساتھیوں کے ساتھ قندھار کے عظیم مجاہد شہید لالا ملنگ کے ساتھیوں کے مرکز میں چلے گئے جس کی مسؤلیت اس وقت ملا محمد اخوند کے ذمہ تھی، اس مرکز میں ملا محمد اخوند، معلم فداء محمد اور قندھار کے چند دیگر مجاہدین کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں اپنا ارادہ ظاہر کیا ۔ ان سب نے پرخلوص انداز میں ملا صاحب کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کام کا آغاز کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ یہاں رات گزارنے کے بعد ملا صاحب واپس سنگ حصار کی طرف آ گئے۔ ادھر ان کے ایک ساتھی ملا گل آغا نے مدرسہ سے چھٹی لی اور میوند کے حاجی بشر سے گاڑی لے کر مولوی عبدالصمد کے ساتھ زنگاوت، تلوکان، مشان اور پنجوائی کے گاؤں کے مدارس کی طرف روانہ ہوئے اور طلباء سے ملاقاتیں شروع کردیں۔

ظلم و فساد کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کی شرعی حیثیت

امارت اسلامیہ کے مخالفین طالبان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے ایک جائز نظام کے خلاف بغاوت کی تھی اور ان کے قیام کی کوئی شرعی توجیہ نہیں تھی۔ اس دعوے میں ایک بات واضح ہے وہ یہ کہ تنظیمی دور کے دوران آپس کی لڑائیوں میں مصروف بندوق برداروں کو کسی بھی دلیل سے جائز نظام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اس دور میں افغانستان میں ایسا کوئی نظام تھا ہی نہیں جو پورے ملک پر حاکم ہو، تاکہ فساد کو روکا جاتا اور مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کویقینی بنایا جا تا۔ بلکہ ملک پر مکمل ملوک الطوائف کا قبضہ تھا جس میں ہر کماندان اپنے علاقے میں خود سر قابض تھا۔

ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں طالبان کے قیام کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ اس بارے میں علماء کے شرعی فتویٰ کے چند نقاط پیش کرتا ہوں۔ یہ فتویٰ ۱۶ فروری ۱۹۹۵ ء کو قندھار میں اس عنوان کے تحت جاری کیا گیا تھا: افتاء العلماء في جهاد الطلباء

یہ فتویٰ جو چالیس صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کو مطالعہ کرنے سے قبل یہ بات ذہن میں ہو کہ رفع و دفع، منکرات کا راستہ روکنا، ظلم اور لوٹ مار، جرائم، زنا، قتلِ نا حق، راستے میں پھاٹک لگانا اور لواطت جیسے غلط افعال کو کون ختم کرسکتا ہے؟ اس کی روک تھام کا تعلق حاکم کے ساتھ ہے یا نہیں؟کیا کوئی گروہ یا جماعت جس کے ہاتھ میں مسلمانوں کا اختیار ہو اور جس کا کوئی حاکم یا بڑا ہو، کیا وہ گروہ یا جماعت اس قسم کے مظالم اور جرائم جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی، خرابی، بے عزتی اور قرآنی احکام سے انکار شامل ہے اس کو روک سکتی ہے؟

عن انس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم:

انصر اخاك ظالما او مظلوما. قالوا هذا ننصره مظلوما فکیف ننصره ظالما؟ قال تأخذ فوق يديه. رواه البخاري. وفى العينى كلمة فوق مقحمة او ذكرت اشارة الى الأ خذ بالا ستعلاء و القوة.. الخ عينى ۱۲/۲۹۰

مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ ظالم کو ہاتھ سے پکڑا جائے یعنی زور، قوت اور طاقت کے ذریعے اسے ظلم سے روکا جائے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے آزاد کیا جائے۔ جس قسم کی بھی طاقت اور قوت سے ممکن ہو۔

فیض الباری میں فرماتے ہیں:

ان الدنيا باسرها كالسفينة الواحدة جلس فيها كل مسلم و كافر, مطيع و عاص, فاذا فشت فيهم المعصية فلم يأخذه احد يد احد هلكوا جميعا لا محالة. فيض الباري ۳/۳۴۴

مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی حیثیت ایک کشتی کی مانند ہے۔ مسلمان اور کافر، نیک اور بد دونوں اس کشتی کے سوار ہیں۔ جب معصیت اور جرائم اوج تک پہنچ جائیں اورگناہ گار و مجرم کو کوئی روکنے والا نہ ہو تو ایسے میں یہ سب کے لیے ہلاکت ہے۔

وهكلذا ابو حنيفة رضي الله عنه يقول (وكذالك الامر بالمعروف والنهى عن المنكر بواحد و انما يصلح بالسلطان او بمن كان على ذالك اعوان صالحون و رجل يرأس عليهم مأمون علي دين الله الخ) احكام القرآن لمولانا تهانو] رحمه الله ۲/۵۳

خلاصہ یہ کہ حضرت اما ابوحنیفہ نے فرمایا کہ ظالموں اور مجرموں کو ظلم و جرائم سے روکنا اور معروف کی دعوت دینا، بزورِ قوت، جہاد اور اسلحے کے ذریعے، یہ کام ایک شخص نہیں کرسکتا بلکہ یہ کام سلطان کا ہے یا مسلمانوں کی اس جماعت کی ذمہ داری ہے جن کے افراد اور ساتھی نیک و صالح ہو اور اس جماعت کے امیر دیندار اور اللہ کے دین کے ساتھ مخلص ہو۔

حاصل کلام یہ ہے کہ آج اگر طالبان کے ہاتھ میں قوت او رطاقت ہے اور ان کا امیروساتھی بھی دیندار اور صالح ہے تو یہ اس کےپابند ہیں کہ اس عمل کو جاری رکھیں۔ واللہ اعلم

اس شرعی فتویٰ نے( جس میں مزید شرعی دلائل بھی پیش کیے گئے ہیں) وقت کے جابروں اور بندوق برداروں کے مقابل طالبان کے اصلاحی مزاحمت کو نہ صرف یہ کہ مشروع ثابت کیا بلکہ مسلمانوں کے تحفظ کو ایک لازمی امر قرار دے دیا ۔ اس فتویٰ کے آخر میں قندھار اور اس کے قرب جوار کے مشہور علمائے کرام، مولوی سید محمد (مولوی پاسنی)، مولوی عبدالعلی دیوبندی، مولوی محمد شفیع، مولوی قاسم، مولوی محمد ہارون، مولوی عبدالسلام، مولوی عبداللطیف اخوندزادہ، مولوی محمد اسلم، مولوی عبدالرزاق، مولوی عبدالغنی اور دیگر علمائے کرام نے دستخط کیے ۔ اس فتوے کی تائید ملا محمد عمر مجاہد نے بھی کی اور اس کے آخر میں آپ ﷫ نے بھی دستخط کیے۔ اس کے علاوہ اس شرعی فتوے کی بعد میں افغانستان کی سطح پر اکثر مشہور علمائے کرام نے تائید کیا اورفتنہ و فساد کے خلاف ملا محمد عمر مجاہد کی تحریک کے قیام کو وقت کی ضرورت اور ملک و ملت کی نجات کے لیے ایک شرعی اور ضروری اقدام قرار دیا۔

یہ فتوی قندھار کی فتح کے بعد ریاستِ اطلاعات و فرہنگ کی جانب سے نشر کیا گیا اور آغازِ تحریک کے موضوع کے علاوہ، ہتھیاروں کا جمع کرنا، باغیوں کے ساتھ لڑائی اور ان جیسے دیگر موضوعات کے بارے میں بھی شرعی دلائل شامل کیے گئے ۔

پہلا عملی اقدام

ملا محمد عمر مجاہد کی طرف سے طالبان کی اسلامی تحریک کے قیام میں پہلا اقدام گاؤں دیہاتوں کے مدارس میں طلبہ سے ملاقاتیں اور مزاحمت میں شامل ہونے والے طلبہ کے نام لکھنا تھا۔ اس موقع پر ملا صاحب نے ایک بیان دیا جس کا خلاصہ یہ ہے:

لوگ کہیں گے کہ یہ تحریک کب اور کیسے وجود میں آئی؟کس کی طرف سے ان کو حمایت ملی؟کس نے ان کو منظم کیا اور کس نے ان کو تربیت دی؟

اس تحریک کی ابتدا ایسے ہوئی کہ میں نے مدرسہ میں کتاب بند کر دی اور اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ ، سنگ حصار سے پیدل دریا پار کرکے زنگاوات پہنچا، زنگاوات میں سرور نامی ایک شخص (تلوکان کا رہائشی) نے موٹر سائیکل دیا ، وہاں سے ہم تلوکان چلے گئے۔ میں موٹر سائیکل چلا رہا تھا اور مولوی صاحب (مولوی عبدالصمد) میرے پیچھے سوار تھے۔ تو ہم نے صبح سے ملاقاتوں کا آغاز کیا، ایک مدرسے چلے گئے، وہاں چودہ طالبان رہ رہے تھے، ان کو جمع کرکے انہیں عرض کیا کہ اللہ کا دین پامال ہورہا ہے، فساق اور فجار سارے علاقے پر قابض ہوگئے ہیں، چوری و ڈکیتی جاری ہے، عام راستوں پر لوگوں کی عزتوں کے ساتھ کھیلا جارہا ہے، لوگوں کے اموال لوٹے جا رہے ہیں۔ اس فساد کا مقابلہ صرف مردہ باد اور زندہ باد کہ ذریعے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس کے مقابل اللہ کی رضا کے لیے اٹھنے والے ہیں، اگر کوئی نصرت کرنے کا خواہش مند ہو تو ہمارے ساتھ چلے لیکن یہ بات یاد رکھے کہ اس کے لیے حصول علم کو چھوڑنا پڑے گا اور دوسری بات یہ کہ ہمارے ساتھ کسی نے ایک افغانی پیسہ یا ایک روٹی دینے کا بھی وعدہ نہیں کیا۔لہذا وطن کے لوگوں سے، مسلمانوں سے مانگیں گے، اگر کسی نے دیا توبہت اچھا نہ دیا تو ہم اپنا کام جاری رکھیں گے۔

اور یہ بھی یاد رکھیے کہ یہ کام ایک دن یا ایک ہفتے یا ایک سال کا نہیں، دوسرا یہ کہ یہ فاسق و فاجر سخت گرمیوں کی دوپہر میں اپنے مورچوں میں بیٹھے ہوتے ہیں اور اعلانیہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں تو ہم اور آپ جو اپنے آپ کو اللہ کے دین کا سپاہی سمجھتے ہیں ، کیوں اللہ کے دین کا دفاع اعلانیہ نہیں کرسکتے؟ اتنی غفلت اور بے غیرتی بھی اچھی نہیں۔

دوسرا میں نے ان کو کہا کہ تعلیم چھوڑنی پڑے گی، نہ ہمارے پاس ایک افغانی پیسہ ہے اور نہ ہی اسلحہ، یہ چیزیں مانگنے سے پوری کریں گے۔ مرضی آپ سب کی ہے کہ اس حال میں ہمارا ساتھ دیں گے یا نہیں؟

ان چودہ افراد میں سے ایک بھی تیار نہیں ہوا، کہہ رہے تھے ہماری تو تعلیم متاثر ہورہی ہے اگر شبِ جمعہ کو کام کیا جائے تو صحیح ورنہ ہم نہیں کر سکتے۔ میں نے انہیں کہا پھر جمعہ کے بعد آگے کام کون کرے گا؟ اللہ گواہ ہے کہ یہ بات اسی طرح تھی اور میں روزِ محشر بھی اس کی گواہی دوں گا۔

اگر میں اس ایک مدرسے میں دعوت دینے کو کافی سمجھتا تو دوسرے مدارس کا رُخ نہ کرتا اور اسی مدرسہ پر قیاس کرتا اور واپسی کی راہ لیتا۔ لیکن میں نے اللہ کے ساتھ وعدہ کیا تھا اور اس کو نبھایا، اس لیے اللہ نے میرے ساتھ خیر والا معاملہ فرمایا۔

میں طلبہ کے انکار کے بعد اس مدرسے سے دوسرے مدرسہ میں آگیا، ادھر سات طلبہ پڑھ رہے تھے۔ ان کے سامنے بھی وہی بات دہرائی اور ان سب نے میرے پاس اپنے نام لکھوا دیے۔ ایسی بات نہیں تھی کہ اس مدرسے کہ طلبہ بڑے اور دوسرے مدرسے والے چھوٹے تھے، یہ سب ایک امت ہے لیکن یہ ایک ایسا پُر حکمت کام اور ایک امتحاتی دورہ تھا جس کے ساتھ میرا سامنا زندگی میں پہلی بار ہورہا تھا۔ اسی ترتیب کے ساتھ میں نے اپنی کوشش جاری رکھی اور عصر تک ۵۳ طالبان کو تیار کرسکا۔

ملا صاحب اور ان کے ساتھی مولوی عبدالصمد ہر مدرسہ جاتے اور طالبان کے سامنے موضوع کی اہمیت بتاتے اور انہیں کہتے کہ ہمارے ساتھ کون چلنے کے لیے تیار ہے تاکہ اللہ کے دین کا نفاذ اور فتنہ و فساد کو ختم کرنے کی خاطر ہمارے ساتھ مل کر جہاد کرے؟جو ہمارے ساتھ چلنے پر راضی ہے تو ہمارے پاس نام لکھوائے۔ لیکن اس بات کو بھی سمجھیے کہ یہ راستہ صرف قربانی کا راستہ ہے، ہم محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے اٹھ رہے ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اس راستے میں شہید اور زخمی ہوجائیں اور ظالم ہم پر غلبہ پالے، ہم ان سب خطرات کو اپنے ذہن میں رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ درس و تدریس کو چھوڑنا ہوگا اور محض فتنہ و فساد کے ختم کرنا اپنی ذمہ داری سمجھنی ہوگی۔

اسی طرح انہوں نے گاؤں کے تمام مدارس کے دورے کیے اور دوسرے دن کی شام کو جب ملا صاحب واپس سنگ حصار میں اپنے مدرسہ لوٹےتو ۵۳ کی تعداد میں افراد کی فہرست مرتب ہو چکی تھی اور ان افراد نے وعدہ کیا تھا کہ کل ہم سنگ حصار میں ملا صاحب کے مدرسہ پہنچیں گے اور ادھر ہی سے تحریک کا باقاعدہ آغاز کریں گے۔

ملا صاحب نے اپنے مدرسہ پہنچتے ساتھ ہی اپنے ساتھیوں اور طالبان کو بھی یہ بات اور شرائط عرض کیں جس کے بعد چند چھوٹی عمر کے طلبہ کے علاوہ سبھی نے اس کام میں اپنے نام لکھوائے۔ ایسی حالت میں جب اگلے دن سب طالبان نے مدرسہ میں جمع ہوکر مسلح ہونا تھا، ملا صاحب کے پاس اپنے مرکز کے ڈیپو میں دس بندوقوں سے بھی کم اسلحہ تھا ۔ کماندان حاجی بشر، جو ایک جہادی کماندان تھے اور علاقے کے امیر ترین افراد میں شمار کیے جاتے تھے اور اس عرصے میں ضلع میوند ان کے زیر کنٹرول تھا، وہ بھی علاقے میں حالیہ فتنہ و فساد سے سخت نالاں تھے۔ علاقے کو محفوظ بنانے کی خاطر حاجی بشر نے پہلے سے مجاہدین کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جس نے بھی علاقے کو محفوظ بنانے اور بندوق برداروں کے ضرر سے عوام کی حفاظت کی خاطر ایک منظم تحریک ترتیب دی تو اسلحہ و باقی وسائل میں مَیں ان کی مدد کروں گا۔

ملا صاحب نے طالبان کو دعوت دینے سے قبل حاجی بشر سے ملاقات کی اور ان کے سامنے اپنا ارادہ ظاہر کیا۔ مدارس کے طلبا باہمی مشورے کے ساتھ رات کو ملا صاحب کے مدرسہ پہنچے۔ زنگاوت، تلوکان، مشان اور دیگر علاقوں سے آنے والے طلبہ کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی۔

ملا صاحب کے مدرسہ کے ایک استاد مولوی عبدالرحمٰن صاحب، مدرسہ سے نسبتاً دور ایک گاؤں کی مسجد کے امام تھے، اور دن کے وقت مدرسہ تدریس کے لیے جاتے تھے۔ انہوں نے جب صبح اپنی مسجد میں فجر کی نماز پڑھی ، تو گاؤں کے ایک رہائشی عبدالغنی نے ان کو ایک عجیب خواب سنایا۔ گاؤں کے رہائشی نے مولوی عبدالرحمٰن کو بتایا کہ کل جمعہ کی شب میں نے خواب دیکھا کہ آپ کے مدرسہ میں فرشتوں کی ایک جماعت آئی ہے ، ان فرشتوں نے سفید لباس پہنا ہوا ہے اور ان کے ہاتھ نرم اور چہرے نورانی ہیں۔

ملا صاحب نے تمام طلبہ کے مدرسہ میں جمع ہونے کی ترتیب عام لوگوں سے خفیہ رکھی تھی اور سوائے چند محدود ساتھیوں کے کسی کو اس کا علم نہیں تھا ۔ تو ایسے میں گاؤں کے رہائشی کا اس طرح کا خواب دیکھنا بشارت سے کم نہیں تھا۔ مولوی عبدالرحمٰن نے بعد میں یہ خواب ملا صاحب کو سنایا اور آپ ﷫ کا اپنی مزاحمت پر یقین مزید پختہ ہوگیا۔

ملا صاحب نے طالبان کے روانہ ہونے کی خبرحاجی بشر کو دینے کے لیے صبح سویرے دو افرادضلع میوند کے مرکز کشک نخود بھجوا دیے۔ آپ نے اپنے گروپ کا اسلحہ تین عدد کلاشکوف، ایک راکٹ اور ایک ہلکی مشین گن طالبان میں تقسیم کردی۔ باقی طالبان جن کے پاس اسلحہ نہیں تھا انہوں نے درختوں سے لکڑی کاٹ کر اس سے ڈنڈے بنائے، کچھ ہی دیر بعد حاجی بشر کی طرف سے دو گاڑیاں پہنچ گئیں، طالبان اس میں سوار ہوئے اور ضلع میوند کے مرکز کشک نخود کی طرف روانہ ہو گئے۔

٭٭٭٭٭

Previous Post

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی بڑھتی قربتیں!

Next Post

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

Related Posts

عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | نویں قسط

12 اگست 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post
عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

عالمی شپنگ کمپنی سے معاہدہ: پس پردہ محرکات کیا ہیں؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version