خالد شیخ محمدفک اللہ اسرہ نے یہ خط ۸ جنوری ۲۰۱۵ء کو اس وقت کے امریکی صدر بارک اوبامہ کے نام گوانتانامو بے کی جیل سے لکھا۔ جیل انتظامیہ نے اس خط کو ’پروپیگنڈہ‘ کہہ کر دبا دیا ۔ دو سال بعد گوانتانامو بے جیل کی فوجی عدالت کے جج نے حکم دیا کہ یہ خط صدر بارک اوبامہ تک پہنچایا جائے۔جس کے بعد یہ خط بارک اوبامہ کی صدارت کی مدت ختم ہونے سے چند دن پہلے وائٹ ہاؤس پہنچا۔ (ادارہ)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ قیدی مجاہد خالد شیخ محمد کا خط
جبر و استبداد کے ملک، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر، سانپ کے سر، بارک اوبامہ کے نام
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا
وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا(سورۃ العنکبوت: ۴۶)
’’اور اہلِ کتاب سے بحث نہ کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔ البتہ ان میں سے جو زیادتی کریں، ان کی بات اور ہے۔‘‘
میں تمہیں بعد والے گروہ یعنی بدکرداروں میں سے سمجھتا ہوں۔
میں تمہیں یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں تاکہ اگر تم ایک عقلمند اور آزاد صدر ہو اور اپنے فیصلوں میں خودمختار ہو (اور مجھے نہیں لگتا کہ تم ایسے ہو) تو تم اسے پڑھو، سمجھو، اور غور کرو۔ میں تمہیں ذاتی طور پر یہ خط اس لیے نہیں لکھ رہا کہ تم اس کے لائق نہیں ہو۔ تمہارے ہاتھ آج بھی غزہ میں شہید ہونے والے ہمارے بھائیوں، بہنوں اور بچوں کے خون سے تر ہیں۔ رمضان کے اس مقدس مہینے میں غزہ میں ۵۹۵ سے زیادہ بچے اور ۲۵۳ خواتین، مجموعی طور پر ۲۱۰۰ سے زیادہ شہری، شہید ہوئے۔ وزیرستان، یمن، عراق، لیبیا، افغانستان، صومالیہ اور دیگر جگہوں پر تمہارے ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کے خون کا ذکر ہی کیا ، یا وہ جنہیں تمہاری فوج نے افغانستان اور عراق میں قتل کیا۔
۲۔ امریکی صدر اور صدارت
کسی بھی امریکی یا مغربی سربراہ مملکت کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اسے لازماً ایک میکاولین (Machiavellian)صدر اور ایک پیشہ ور اور کامل جھوٹا ہونا چاہیے۔ اسے اپنے سامعین اور پوری قوم کو دھوکہ دینے میں ماہر ہونا چاہیے۔ جمہوری نظام میں اس کی قابل مذمت صلاحیت (جھوٹ اور فریب) کو جانچنے کا پہلا مقام انتخابی مہم ہے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر وہ اوول آفس اور دنیا بھر میں اپنی صدارت کے دوران اس کی مشق کرے گا۔
صدر کے زیادہ ترمصاحبین (سینیٹ اور کانگریس کے اراکین) اسی طرح کی سفلی صلاحیتوں سے لیس ہیں، لیکن ہر ایک ان صلاحیتوں کو اپنی انتخابی مہم میں سرمایہ لگانے والوں کے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اگر اسے ہیلتھ کیئر کا کاروبار کرنے والوں نے مالی اعانت فراہم کی ہے، تو وہ کسی بھی ایسے اقدام کو آگے بڑھائے گا جو ان کے مفاد میں ہو۔ اگر اسے جیل کے صنعتی گروپوں کی طرف سے مالی اعانت فراہم کی گئی ہے، تو اسے ان کے حق میں نئے قوانین کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا پڑے گا۔ اگر اسے بلیک واٹر، ہیلی برٹن یا اسلحہ سازی کی کسی اور صنعت یا ہتھیاروں کی کمپنی نے مالی امداد دی ہے، تو پھر اسے محکمہ دفاع اور امریکی فوجیوں کو مزید جنگوں میں دھکیلنا پڑے گا، وغیرہ وغیرہ۔ آخرِ کارانتظامیہ ایسے کرائے کے لوگوں سے بھر جائے گی جو اپنے سرمایہ کاروں کے مفادات کے لیے پوری محنت کرتے ہوں گے اور خمیازہ عوام بھگتے گی۔ آخر میں، یہ امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کرنے کا باعث بنے گا۔ ملک قرضوں میں ڈوب جائے گا اور آخر کار قوم مر جائے گی۔
تمہارے پیشروؤں کے جھوٹ اور فریب کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
- امریکی عوام کو جانسن انتظامیہ اور پنٹاگون نے ویتنام میں جنگ چھیڑنے کے لیے گمراہ کیا جس میں 58،000 امریکی جانیں اور لاکھوں ویت نامی جانیں ضائع ہوئیں اور بالآخر ذلت آمیز شکست کا باعث بنی۔
- نکسن واٹر گیٹ سکینڈل نے تمہاری حقیقی جمہوری اقدار اور سیاسی طاقت کو بے نقاب کر دیا۔
- ۱۹۸۱ء میں، امریکہ نے ایل موزوٹ میں سیکڑوں بے گناہ لوگوں کو ذبح کرنے کے لیے سلواڈور کے لوگوں کو تربیت دی۔
- ۱۹۸۵ء میں، امریکہ نے یرغمالیوں کے بدلے اسرائیل سے ایران کو ہتھیاروں کی ترسیل کی منظوری دی۔
- ریگن نے ۱۹۸۰ء کی دہائی کے دوران لاطینی امریکہ میں ایک گندی خفیہ جنگ کی جب اس نے نکاراگوان کانٹرا کی حمایت کی۔ وہ ملک کافی حد تک تباہ ہو گیا اور شاید کبھی بحال نہ ہو سکے۔ بین الاقوامی دہشت گردانہ حملہ کے ساتھ ایک تباہ کن معاشی جنگ بھی تھی، جسے کینہ پرور اور ظالم سپر پاور کی طرف سے الگ تھلگ کیا گیا ایک چھوٹا سا ملک مشکل سے ہی برداشت کر سکتا تھا۔
کوئی بھی اپنی اہلیت سے یا عوامی تائید سے تمہارے دفتر تک نہیں پہنچا ہوگا۔ تمہارے دفتر کی چابیاں تاجروں، لابیاں بنانے والوں اور پریشر گروپوں کے ہاتھ میں ہیں جو ووٹروں کو دھوکہ دینے کے لیے بڑے میڈیا اداروں کے مالک ہیں اور تمہاری انتخابی مہم کے لیے پیسے ادا کرتے ہیں۔
تمہارے انتخابات جیتنے سے قبل تمہارے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ تم کثیر الثقافتی پس منظر کے حامل ایک ذہین وکیل ہو، لیکن جب کوئی بھی صدر وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتا ہے اور اوول آفس میں کرسی پر بیٹھتا ہے تو اسے اپنے تمام وعدوں اور بنیادی اقدار کو بھول جانا پڑتا ہے اور اپنے آقاؤں کے کاموں پر لگنا پڑتا ہے جنہوں نے اس کی انتخابی مہم کے لیے ادائیگی کی۔ اگر وہ لابیوں کی سرپرستی میں نہیں بلکہ اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر الیکشن جیتتا ہے تو پھر بھی وہ کرائے کے غنڈوں، تاجروں، لابیوں اور ایوان اور سینیٹ میں پریشر گروپوں کے آگے مجبور ہوگا۔ خواہ وہ ایک ذہین وکیل ہو، انسانی حقوق سے بخوبی واقف ہو، وہ اپنے دشمن کو بغیر مقدمہ چلائے قتل کر سکتا ہے اور اس کی لاش کو اس کے گھر والوں کو دینے یا بطور انسان اس کا احترام کرتے ہوئے اسے دفن کرنے کی بجائے سمندر میں پھینک سکتا ہے۔ وہ بغیر کسی الزام کے لوگوں کو حراست میں لینا قبول کر سکتا ہے، بلیک سائٹس اور دیگر جگہوں پر تشدد کرنے والوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے، غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھنے کی توثیق کر سکتا ہے، اور قابض یہودیوں کو تحفظ فراہم کر سکتا ہے جو شہریوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور ان کے جرائم کو اپنے ذاتی دفاع کے طور پر استثنائی قرار دے سکتا ہے۔
۳۔ پرانا، نیا ناکام منصوبہ
امت اسلامیہ کے دشمنوں کےقائدین ساتویں صدی میں مکہ میں اسلام کے سورج کے طلوع ہونے سے لے کر آج تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنی جنگ میں کبھی نہیں رکے۔تم اور تمہارا ملک اور تمہارے اتحادی اور دوست امت مسلمہ کے خلاف جو کچھ کر رہے ہیں وہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔ یہ پیچھے یورپی نوآبادیاتی دور تک ، تاریک دور کی صلیبی جنگوں تک ، اور تمہارے آباؤاجداد کی بازنطینی سلطنت تک پہنچتا ہے۔
تم اپنے پیش روؤں، مدینہ کے یہودی اور مکہ کے مشرک قریش سرداروں کا منصوبہ جاری رکھے ہوئے ہو۔ آج اسرائیل کی حکومت مدینہ کے یہودیوں کی نمائندگی کر رہی ہے جبکہ مکہ کے مشرکینِ قریش کی نمائندگی سعودی بادشاہ، اردنی شاہ کا قریشی خاندان، متحدہ عرب امارات کے حکمران اورتمہارے نئے کرائے کا آمر سیسی کر رہا ہے، جس کی بغاوت پر تم نے آنکھ بند کر لی تھی، جسے تم اسلحہ اور پیسہ فراہم کرتے رہتے ہو۔ لیکن، جس طرح ان کے منصوبے ناکام ہو گئے، اسی طرح تمہارے بھی ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا :
وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ(سورۃ الفاطر: ۴۳)
’’……حالانکہ بری چالیں کسی اور کو نہیں خود اپنے چلنے والوں ہی کو گھیرے میں لے لیتی ہیں۔‘‘
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّواْ عَن سَبِيلِ اللّهِ فَسَيُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ وَالَّذِينَ كَفَرُواْ إِلَى جَهَنَّمَ يُحْشَرُونَ(سورۃ الانفال: ۳۶)
’’بےشک جن لوگوں نے کفر کیا وہ اپنے مال اس کام کے لیے خرچ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ لوگ خرچ تو کریں گے، مگر پھر یہ سب کچھ ان کے لیے حسرت کا سبب بن جائے گا، اور آخر کار یہ مغلوب ہوجائیں گے۔ اور ( آخرت میں) ان کافر لوگوں کو جہنم کی طرف اکٹھا کر کے لایا جائے گا۔‘‘
۴۔ وہ روشنی تھی یا تاریکی؟
اس جنگ میں روشنی اورتاریکی میں فرق کرنے کے لیے اپنے آپ سے درج ذیل سوالات پوچھو:
وہ روشنی تھی یا تاریکی جب تمہاری حکومت نے لیبیا کے مجاہد ابن الشیخ اللیبی کو گوانتانامو سے مصر میں آمر حسنی مبارک کے اور پھر آمر قذافی کے حوالے کیا تاکہ ان کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جائے ؟
وہ روشنی تھی یا تاریکی جب تمہاری حکومت نے شامی کینیڈین مسافر مہر عرار کو تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے تمہارے سابق اتحادی بشار الاسد کے حوالے کیا؟
وہ روشنی تھی یا تاریکی جب تم نے یمن میں شیخ العولقی کے ۱۶ سالہ امریکی نژاد بیٹے کو ڈرون کے ذریعے قتل کیا ؟
وہ روشنی تھی یا تاریکی جب تمہاری حکومت نے ابو غریب میں وہ سب کچھ کیا؟ یا جب تم نے اپنے فوجیوں کے جرائم کی تصاویر نشر کرنے سے انکار کیا؟
وہ روشنی تھی یا تاریکی جب تمہاری حکومت نے ایران عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی حمایت کی، حتیٰ کہ جب وہ کردوں کے خلاف زہریلی مسٹرڈ گیس استعمال کر رہا تھا؟
۵۔ نائن الیون کیوں ہوا؟ اور یہ دوبارہ کیوں ہو سکتا ہے؟
فلسطین میں ۱۹۴۸ء سے کیا گیا جنگی جرائم کا ارتکاب، اور جو آج غزہ میں ہو رہے ہیں، یہ سب سے واضح اشارہ ہیں کہ نائن الیون کیوں ہوا، اور مستقبل میں یہ دوبارہ کیوں ہو سکتا ہے۔
فروری ۱۹۹۸ء میں جب شیخ اسامہ بن لادن ، ڈاکٹر ایمن الظواہری اور دیگر (علمائے )مجاہدین نے فتویٰ جاری کیا اور تمہارے ملک اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ’’الجبهة الإسلامية العالمية لقتال اليهود والصليبيين‘‘ کے جھنڈے کے تحت جنگ کا اعلان کیا، وہ نہ صرف اپنی یا مجاہدین کے بعض گروہوں کی نمائندگی کر رہے تھے، بلکہ وہ ہر اس مسلمان کے جذبے کی نمائندگی کر رہے تھے جو محسوس کرتا ہے کہ وہ یا وہ تمہارے اور تمہارے اتحادیوں کی طرف سے براہ راست یا مغربی طاقتوں کے اس کی حکومت کو بدعنوان کٹھ پتلی حکومت بنا دینے کے نتیجے میں پراکسی کے ذریعے قابض اور مظلوم ہے ۔ جہاد کی دعوت ہر ایک مسلمان فرد، اسلامی گروہ، قبیلے یا نسلی گروہ کی حمایت کی دعوت تھی جسےتمہاری حکومت نے بالواسطہ یا بلاواسطہ دبایا ہے۔ اس لیے تمہارے خلاف جہاد کا اعلان درحقیقت ان لاکھوں لوگوں کی طرف سے ایک نفیرِ عام تھی جو فلسطین، فلپائن، چیچنیا یا عراق میں اپنی آزادی سے محروم ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل کر دیے گئے یا جنہیں تمہاری کرپٹ کی ہوئی عرب حکومتوں کی وجہ سے، جنہیں تم نے مغربی اسلحے کی صنعت کی غلام منڈی بنا رکھا ہے، روزگار نہیں مل سکا ۔ ایک طرف تم ہمارا تیل سستے داموں لوٹ رہےہو تو دوسری طرف تم اپنے ایجنٹوں اور شاہی خاندانوں کو رشوت دے کر اپنا بے کار اور بے وقعت اسلحہ مہنگے داموں بیچ رہے ہو، اس طرح قاہرہ یا کراچی یا جکارتہ کی بجائے اپنے ہی ملک کی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں روزگار کے مواقع پیدا کر رہے ہو۔ تم ہماری زمینوں پر اپنے ایجنٹوں اور آمروں کے ذریعے خفیہ اور کھلے عام اپنے جرائم کو کبھی نہیں روکتے۔
جب شیخ اسامہ بن لادن اور مجاہدین نے تمہارے اور تمہاری قوم کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تو انہوں نے تمہیں، تمہاری قوم کو اور تمہارے اتحادیوں کو دن کی روشنی میں خبردار کیا۔ نائن الیون سے پہلے، مجاہدین نے تمہیں عراق کے خلاف غیر منصفانہ پابندیاں اٹھانے کو کہا، وہ پابندیاں جو تم نے اور مغرب نے لگائیں اور جو دس لاکھ خواتین اور بچوں کی موت کا سبب بنیں۔ انہوں نے تمہیں یہودی غاصبین کی حمایت بند کرنے، کرپٹ عرب حکومتوں کی حمایت بند کرنے، اپنے فوجیوں کو واپس بلانے اور جزیرہ نما عرب میں اپنے فوجی اڈے بند کرنے کا کہا، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ انکل سام نے کبھی مجاہدین کی نصیحتوں پر کان نہیں دھرے ۔ پانی سر سے گزر جانے کے بعد ہی وہ بیدار ہوگا۔
تم ۶۰ سال سے فلسطین میں مسلمانوں کا قتلِ عام کر رہے ہو: ۴۰ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو بے دخل کرکے؛ فوجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر اسرائیل کی حمایت کے ذریعے ان کے گھروں، اسکولوں، مساجد اور بازاروں کو تباہ کرکے؛ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے ان کے تمام جرائم کا تحفظ کر کے۔ ان ۶۰ سالوں کے بدلے میں، اللہ نے نائن الیون کروانے، سرمایہ دارانہ معیشت کو تباہ کرنے، تمہیں بے خبری میں اچانک آ لینے، اور جمہوریت اور آزادی کے تمہارے دیرینہ دعووں کی تمام منافقت کو بے نقاب کرنے میں ہماری مدد کی۔
ہماری سرزمین پر تمہاری ظالمانہ خارجہ پالیسی کو روکنے کا بہترین طریقہ تلاش کرنا انتہائی ضروری تھا۔ ہم نے تمہارے خلاف جنگ نائن الیون کے واقعات سے شروع نہیں کی۔
واشنگٹن اور نیویارک میں ہونے والے دو بابرکت حملے تمام آفاقی قوانین کی پاسداری کرتے تھے اور اسلامی دنیا کے خلاف تمہاری تباہ کن پالیسیوں، یہودی صہیونی ریاست اسرائیل کے لیے تمہاری لامحدود حمایت اور اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر اسلامی دنیا میں آمرانہ حکمرانوں کی مسلسل حمایت اور تحفظ کا فطری ردعمل تھے۔
لہذا، گیارہ ستمبر کو تم نے انڈونیشیا میں جو بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب امریکی حکومت اور سی آئی اے نے انڈونیشیا کے آمر سہارتو کی حمایت اور پشت پناہی کی جب اس کی فوج کے زیرقیادت قتل عام میں لاکھوں بے زمین کسانوں کو ذبح کیا گیا۔
گیارہ ستمبر کو تم نے جنوبی فلپائن میں جو بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب تم نے منڈاناؤ میں مسلمانوں کے خلاف عیسائی حکومت کی حمایت کی جو ۲۰۰ سال سے زیادہ عرصے سے اپنی خود ارادیت اور آزادی کے خواہاں تھے۔
گیارہ ستمبر کو تم نے جو کچھ بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب تم نے جزیرہ نما عرب میں تبوک، ظہران، بحرین، کویت، عمان، اور متحدہ عرب امارات میں فوجی اڈے قائم کیے، جو کہ شرعی قوانین کے تحت حرام ہیں، تمہارے ملک کو سستی ترین قیمت پر نہ رکنے والے تیل کے سیلاب کے تحفظ کرو؛ اور بادشاہی خاندانوں کی آمرانہ حکمرانی اور جابرانہ، بدعنوان، خاندانی حکومتوں کی حمایت کے لیے اور امت مسلمہ کی آبادی کی دولت لوٹنے کے لیے؛ اور وہاں اپنے فوجی مقاصد کی تکمیل کے لیے۔
گیارہ ستمبر کو تم نے سیاسی میدان میں جو بویا تھا اس میں سے کچھ اس وقت کاٹ لیا جب تم نے اسرائیل کی طرف سے بار بار کیے جانے والے جرائم کو بچانے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ۴۵ سے زیادہ مرتبہ قراردادوں کو روک دیا۔
گیارہ ستمبر کو تم نے جو کچھ بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب امریکی حکومت نے اسرائیل کی ’’آئرن فسٹ‘‘ کی اور ۱۹۸۲ء میں لبنان پر اس کی فوج کے حملے کی حمایت اور پشت پناہی کی تھی جس میں ۱۷۰۰۰ سے زیادہ شہری مارے گئے اور جب تم نے ۱۹۸۲-۸۳، ۱۹۹۳ اور ۱۹۹۶ء میں لبنان پر اسرائیلی حکومت کی فوج کے حملے اور قتلِ عام کی حمایت اور پشت پناہی کی تھی۔
گیارہ ستمبر کو تم نے جو بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب تمہاری حکومت ۴۰سال سے شاہِ ایران اور سفاک ایرانی خفیہ ایجنسی کی پشت پناہی کر رہی تھی۔
گیارہ ستمبر کو تم نے عراق میں جو بویا تھا اس میں سے کچھ کاٹ لیا جب اینگلو سیکسن صلیبیوں نے عراقی عوام کے خلاف اجتماعی سزا کے طور پر پابندیاں عائد کیں جس کے نتیجے میں 5 لاکھ شہری مارے گئے، اس حوالے سے تمہارے سابق اٹارنی جرنل رامسے کلارک نے جو لکھا ہے وہ پڑھو۔
لہٰذا، ہر عمل کا ایک مساوی اور مخالف ردعمل ہوتا ہے، جیسا کہ نیوٹن کے قانون میں بتایا گیا ہے۔ اگر تم سیکولرز تورات، انجیل اور قرآن کے قوانین سے مطمئن نہیں ہو تو پھرتمہیں نیوٹن کے حرکت کے تیسرے قانون کو ماننا پڑے گا۔
یہ ہم نہیں ہیں جو تم سے لڑ رہے ہیں، بلکہ یہ تمہارے اپنے لوگوں کے فنڈز اور ٹیکس ہیں اور یہودی اور عیسائی صہیونی لابی کے زیر ہدایت تمہاری اپنی انتظامیہ ہے جس نے تمہیں مارا ہے۔ ہم سے بدلہ لینے کے بجائے،تمہیں مسیحی دائیں بازو اور جیری فالوال، گیری باؤر، پیٹ رابرٹسن اور جان ہیگ کے پیروکاروں کے ساتھ ساتھ سی آئی اے، ایف بی آئی، بروکلین کی یہودی برادری، AIPAC کے تاجروں ، جنگ سے نفع کمانے والوں ، اسرائیل نواز ملیشیا، اور عیسائی صیہونی آقاؤں سے بدلہ لینا چاہیے۔
اس میں ہمارا کیا قصور ہے کہ جب شیخ اسامہ بن لادن اور مجاہدین نے تمہیں واضح انتباہی پیغامات بھیجے تھے تاکہ تم اس کی تلخ فصل نہ کاٹو جو وائٹ ہاؤس کی تباہ کن پالیسیوں نے ہماری مقدس زمینوں پر بویا۔ کیا تم ان مجاہدین کے مطالبات کو بھول گئے جنہوں نے ۱۹۹۳ء میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا اور نیروبی اور دارالسلام میں امریکی سفارت خانوں پر یا یاڈسٹرائر یو ایس ایس کول کے خلاف حملوں میں حصہ لیا؟ یہ تمام حملے اوپر انہی وجوہات کی بنا پر کیے گئے تھے۔
تم امریکی ہندیوں (American Indians) کے خلاف اپنے ہی ظالمانہ اور وحشیانہ قتل عام اور ویت نام، کوریا، ٹوکیو، ہیروشیما، ناگاساکی، ڈریسڈن اور لاطینی امریکہ میں اپنے جرائم، اور چینی ڈکٹیٹر چیانگ کائی شیک اور میکسیکو کے ڈکٹیٹر سانتا اینا کرنے کے بارے میں قانونی جواب دہی سے بچ نکلے ۔ لیکن اللہ نے ہمیں اپنا دفاع کرنے اور تمہارے ہماری زمینوں پر کیے گئے جرائم کے جواب میں تمہاری ہی سرزمین پر تمہارے سب سے اہم فوجی اور تجارتی اہداف پر حملہ کرنے میں مدد کی ۔تم اپنے فوجی اڈے جاپان، جرمنی، اٹلی اور دیگر جگہوں پر رکھ سکتے ہو، لیکن مسلم سرزمین اپنی زمینوں پر کافروں کے فوجی اڈے کبھی قبول نہیں کرے گی۔
تم اورتمہارا میڈیا ، اپنی قوم کو دھوکہ دینے اور اپنے جرائم کو چھپانے کے لیے ، حقائق کو مسخ کرنے اور چیزوں کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کے ماہر ہیں۔ جیسا کہ صدر ابراہم لنکن نے کہا تھا:
’’تم سب لوگوں کو کچھ وقت کے لیے اور کچھ لوگوں کو مستقل بے وقوف بنا سکتے ہو، لیکن تم سب لوگوں کو مستقل بے وقوف نہیں بنا سکتے۔‘‘
یہ ہم نہیں تھے جنہوں نے گیارہ ستمبر کو تمہارے خلاف جنگ شروع کی، یہ تم اور ہماری زمینوں پر تمہارے ڈکٹیٹر تھے۔
ایک دن تمہارا ملک پھر وہی کاٹے گا جو تم نے اپنے ہاتھوں سے وزیرستان، پاکستان، عراق، یمن اور صومالیہ میں اپنے ڈرون پراجیکٹ اور عراق اور شام میں جو فرقہ وارانہ جنگ چھیڑ دی ہے اس کے ذریعے بویا ہے۔
تم اب بھی بار بار وہی الفاظ استعمال کرتے ہو: ’’اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے‘‘۔ تم یا تم سے پہلے کوئی امریکی صدر یہ کیوں نہیں کہہ سکتا کہ فلسطینیوں کو اسرائیلی جرائم کے خلاف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے؟ جواب بہت واضح ہے لیکن تم یہ کہہ نہیں سکتے کیونکہ تمہارے آقا شدید ناراض ہوجائیں گے۔
امریکہ اور اسرائیل چاہتے ہیں کہ فلسطین ایک بے ریاست ملک ہو۔ نہ ہوائی اڈہ، نہ زمینی یا بحری سرحدیں، نہ ہتھیار، نہ فوج، نہ آزاد معیشت، نہ ملکی سلامتی پر کوئی کنٹرول، نہ قومی خودمختاری، اور ایسا صدر جسے ہر بار سفر کے لیے اسرائیلی حکومت سے اجازت لینی پڑے۔
امریکی عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان پر ہمارے عوام اور زمینوں کے خلاف ہماری آمرانہ حکومتوں کے جرائم اور غزہ اور سارے فلسطین، عراق، افغانستان، سعودی عرب، مصر اور دیگر جگہوں پر اسرائیلی جرائم کی پوری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگرچہ تمہاری حکومت اس سے قبل فلسطین میں اپنے جرائم کو چھپانے میں کامیاب ہوئی تھی، لیکن آج ساری دنیا الجزیرہ پر تمہارے جرائم کی حقیقی تصویر دیکھ رہی ہے اور مشاہدہ کر رہی ہے۔ کوئی بھی انسان اس قتل عام کو برداشت نہیں کر سکتا۔ مجاہدین خاص طور پر ان دنوں غزہ میں اسرائیلی مظالم کی حمایت کو برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی امریکی شہری یہ جاننا چاہتا ہے کہ مجاہدین امریکہ اور اسرائیل سے نفرت کیوں کرتے ہیں اور مسلمانوں کے دلوں میں امریکہ کے خلاف یہ ساری دشمنی کیوں ہے تو وہ اس کا بہت واضح اور آسان جواب تلاش کر سکتا ہے کہ اگر وہ غزہ جائے یا کوئی بھی غیر جانبدار میڈیا چینل صرف دیکھے۔ فاکس، سی این این، بی بی سی، یا امریکی اور اسرائیل نواز چینلز کو اپنی آنکھوں پر پردہ نہ ڈالنے دیں کیونکہ وہ کبھی سچ نہیں دکھاتے، ان کا اصل کام برین واشنگ ہے۔ وہ اپنے آقاؤں کے مقاصد کے حصول کے لیے جھوٹ بولنے اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے ماہر ہیں۔
جو کچھ گیارہ ستمبر کو ہوا وہ بالکل درست تھا اور خدا کے قوانین کے مطابق عدل کا نچوڑ تھا۔ تمہاری حکومت نے انڈونیشیا، فلسطین، لبنان اور حال ہی میں غزہ، عراق، افغانستان اور پوری دنیا میں جو کچھ کیا اسے امت مسلمہ کبھی نہیں بھولے گی۔ امت مسلمہ کبھی نہیں بھولے گی جو کچھ تم اور تمہارا غنڈہ اسرائیل آج غزہ میں کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
وَقَاتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبِّ الْمُعْتَدِينَ (سورۃ البقرۃ: ۱۹۰)
’’ اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑیں لیکن حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ(سورۃ المائدۃ: ۴۵)
’’ اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔‘‘
یہ بھی عہد نامہ قدیم میں لکھا ہے:
’’تمہیں مجرموں پر رحم نہیں کرنا چاہیے! تمہارا قانون جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ہاتھ کے بدلے ہاتھ، دانت کے بدلے دانت، پاؤں کے بدلے پاؤں ہونا چاہیے۔‘‘ (کتابِ تثنیہ: ۱۹:۲۱)
۶۔ جنگی اخلاق
جہاں تک مغربی میکیاولیت (عیاری) کا تعلق ہے، اس کی مثال جمہوریت کے لوزمات میں ملتی ہے، جو قوانین اور آئین کو صرف اس وقت تک لوگوں پر واضح کرتے ہیں جب تک کہ وہ ملک کے اسٹریٹجک مفادات کے خلاف نہیں کھڑے ہوتے۔ اگر آئین کی پیروی کرتے ہوئے ان اسٹریٹجک مفادات کا حصول ممکن نہیں تو انتظامیہ کو متبادل اقدام کو قانونی شکل دینا ہوگی اور ان مفادات کے حصول کے لیے آئین کو موافق کرنا ہوگا۔ اگر ایسا کرنے میں ناکامی ہوتی ہے تو، ان مفادات کے حصول کا عمل خفیہ چینلز پر چلا جاتا ہے جو عوام، کانگریس، اور بعض اوقات صدر کی بھی نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں کیونکہ یہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرہ کار میں آتا ہے جو قومی سلامتی اور اسٹریٹیجک مفادات کے نام پر تمام قوانین کو روندتی ہیں۔ تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ تمہاری انٹیلی جنس ایجنسیاں جرمنی کے صدر کے موبائل فون یا کانگریس کے اراکین کے کمپیوٹرز کی نگرانی کر رہی تھیں۔ دوسری طرف، اگر ان اعلیٰ مفادات کو حاصل کرنے کے لیے آمروں کی حمایت یا قتل و غارت گری یا بغاوت پر اکسانے یا جنگیں چھیڑنے کی ضرورت ہو تو ملک کے بنیادی حکمرانوں کی حمایت لازماً حاصل ہونی چاہیے۔ یہ وہ تاجر ہیں جو کانگریس اور سینیٹ میں زیادہ تر ووٹوں پر قابض ہیں۔ کئی بار وہ انتظامی فیصلوں اور تھنک ٹینکس (مثلاً، رینڈ کارپوریشن) کو بھی متاثر کرتے ہیں جبکہ ساتھ ہی ساتھ میڈیا کو بھی اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ میڈیا ہر ایک کو جنگ کی ضرورت پر قائل کرنے یا ایک آمر اور اس کی حکومت کی تصویر کو چمکانے اور اس کے دشمنوں کو بدنام کرنے کے لیے ان تاجروں کے مفادات سے ہم آہنگ رپورٹس لکھتا ہے۔ وہ زبانی مذمت کو کافی سمجھتے ہوئے اس کے جرائم کو جہاں تک ممکن ہو چھپاتے ہیں اور پھر جتنی جلدی ہو سکے فائل بند کردیتے ہیں اور تھنک ٹینکس اپنی پوری کوشش کرتے ہیں کہ سیاست دانوں اور دانشوروں کو اپنے چارٹ، اعداد و شمار، گراف اور خاکوں سے قائل کرلیں کہ جنگ کو آگے بڑھانا ہو گا ورنہ جھوٹا دشمن جنگ جیت کر ہماری معیشت اور لوگوں کو مار ڈالے گا۔ جب حالیہ دنوں میں ڈکٹیٹر سیسی کے اتحادی مصر میں ایک ہزار سے زیادہ غیر مسلح مظاہرین کو قتل کر رہے ہیں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی میڈیا متاثرین پر آنسو نہیں بہاتا۔ اسی طرح جب امریکی طیاروں نے غزہ پر بمباری کرکے پورے علاقے کو تباہ کردیا اور ایک علاقے میں سو سے زائد شہریوں کو دفن کردیا اور پھر بھی مغربی میڈیا یہ بات دہرا رہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی واحد جمہوریت ہے۔
مغربی میکاولیائی حکومتوں کے لیے اخلاقیات کے کسی تصور سے دوسروں کے ساتھ معاملہ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے مفادات کی پرستش کرتی ہیں۔ پوری دنیا نے تمہارے اخلاق کو دیکھا کہ جب تم نے شیخ اسامہ بن لادن کو بغیر مقدمہ چلائے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور وکیل صدر کو ان کی لاش کو سمندر میں پھینکنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ساری دنیا نے جنگ میں طالبان کی لاشوں پر پیشاب کرتے ہوئے، یا قرآن پاک کو جلاتے ہوئے تمہارے سپاہیوں کا ’مورال‘ دیکھا۔ یا تمہارا فلوجہ میں مساجد کو تباہ کرنا یا ابو غریب یا بلیک سائٹس میں تشدد کرنے کی منظم پالیسی یا تمہارے کنٹرول میں کسی تیسرے کے ذریعے جیسا کہ تم اب صومالیہ، یمن اور دیگر جگہوں پر کر رہے ہو۔
تم نے عراق کو خون میں لتھڑا ہوا کینوس بنا دیا۔ کیا تمہارے پیشرو کو عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والا کوئی ہتھیار ملا؟ نہیں، لیکن انہیں دنیا کے سب سے بڑے امریکی سفارت خانے کے لیے ایک بہترین جگہ مل گئی، جو تیل کی کمپنیوں کے ملازمین کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے جو عراقی عوام کے تیل سے مالا مال وسائل سے فائدہ اٹھاتی ہیں، یہ منافع ان لابیوں اور پریشر گروپوں کو پہنچتا ہے، جن کے ہاتھ میں تمہارے دفتر کی چابیاں ہیں۔ کیا تمہارے پیشرو کو حکومت عراق اور القاعدہ کے درمیان براہ راست تعاون کا کوئی ثبوت ملا جیسا کہ تمہاری انٹیلی جنس اور سیکرٹری آف اسٹیٹ نے غلط دعویٰ کیا تھا؟ تم اور تمہارے اتحادیوں نے عراق کو ہزار ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کے علاوہ، تمہارے دور حکومت میں، تم نے سوڈان کو شمال اور ایک ناکام جنوب میں تقسیم کیا۔ تم اور تمہارے اتحادی اخلاقیات اور اصولوں کے ساتھ جنگ نہیں کرتے۔ اپنے آپ سے پوچھو کہ تم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ پر جو کھربوں ڈالر خرچ کیے ہیں، کیا تم عراق اور افغانستان میں دو جمہوریتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جیسا کہ تمہاری جھوٹی حکومت دن رات میڈیا کے ذریعے امریکی عوام کو بتاتی رہی ہے، یا تم نے پیچھے دو دنیا کے بد عنوان ترین ممالک چھوڑے ہیں؟ لوگ کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ تمہاری فوج، جنسی ہراسانی کی سب سے زیادہ شرح کے ساتھ، افغانستان میں خواتین کو حقوق دلا سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ شیخ اسامہ بن لادن پر رحم فرمائے، جوجنگ اور امن میں اخلاق اور اصولوں والے آدمی تھے ۔ وہ تمہاری معیشت کے دارالحکومت نیویارک شہر کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو گئے، کسی سکول، ہسپتال، ریٹائرمنٹ ہومز، یا گرجا گھریا ۸۰ لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہر کے کسی رہائشی علاقے کو تباہ کیے بغیر۔ اس کا موازنہ امریکی فضائیہ کے طرز عمل سےکر لو جہاں ان کی بمباری کے سو فیصد متاثرین بچے تھے مثلاً صوبہ کنڑ میں لکڑیاں جمع کرنے کے دوران مارے گئے ۱۲ بچے، یمن میں ماری گئیں ۲۳ خواتین اور بچے، اوروہ جو ننگرہار میں شادی کی تقریب میں مارے گئے۔ مزید برآں، اقوام متحدہ کے نادر نادری نے ۲۰۱۰ء میں افغانستان میں امریکی اسپیشل فورسز کے رات کے چھاپوں میں صرف ۸۰ شہریوں کی ہلاکت کی نشاندہی کی، لیکن حقیقی تعداد شاید ۴۰۰ سے زیادہ ہے۔ تمہاری انتظامیہ ۲۰۰۹ء سے افغانستان میں کم از کم اٹھارہ ہزار دو سو چھہتر (۱۸،۲۷۴) فضائی حملوں کی ذمہ دار ہے جن میں کم از کم گیارہ سو ساٹھ(۱۱۶۰) بغیر پائلٹ ڈرون کے ذریعے ہوئے۔
شیخ اسامہ بن لادن نے جو کچھ بھی کیا وہ تمہاری ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس، تمہارے ڈرونز، تمہارے سمارٹ اور بیوقوف بم، تمہارے ڈائم شارپنل بم، تمہارے جاسوس، تمہارے لڑاکا طیاروں، تمہارے فوجی اڈوں اور سینکڑوں سیٹلائٹس کے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے فوائد کے بغیر ہی کیا۔ انہوں نے یہ سب کچھ قندھار کے دور دراز پہاڑوں سے کیا۔ اور پھر بھی، اتنے فاصلے کے باوجود، ان کا نشانہ ہدف سے نہیں ہٹا۔ اپنے آپ سے پوچھو، کیا انہوں نے کوئی ایک ہسپتال تباہ کیا؟ کیا انہوں نے کوئی ایک سکول تباہ کیا؟ کیا انہوں نے کوئی ایک چرچ تباہ کیا؟ اسامہ بن لادن نے نیویارک میں انڈین پوائنٹ نیوکلیئر پاور سٹیشن یا سپر باؤل کو نشانہ کیوں نہیں بنایا اگر وہ شہریوں کو مارنا چاہتے تھے جیسا کہ ان پر الزام لگایا جاتا ہے؟ پھر جاؤ غزہ کا دورہ کرو اور انہی سوالات کو اپنے اوپر لاگو کرو۔
اس طرح دنیا اسامہ بن لادن کی رحمت اور شفقت کی سچی گواہ ہے۔ مجاہدین تمہیں چیلنج کرتے ہیں کہ ۱۰ بچوں کے نام ہماری عدالت میں پیش کرو جنہیں اسامہ بن لادن نے نائن الیون میں مارا۔ وہ تمہیں ایک ہزار سے زیادہ فلسطینی بچوں کے نام بتانے کے لیے تیار ہیں جو صرف تمہارے دورِ حکومت میں ۲۰۰۹ء اور ۲۰۱۴ء میں دونوں غزہ حملوں میں مارے گئے تھے اور تمہیں عراق، افغانستان اور فلسطین میں مارے گئے ایک لاکھ سے زیادہ بچوں کے نام بتانے کے لیے تیار ہیں۔ شادی کی ۱۵ سے زیادہ تقریبات پر تمہاری امریکی فضائیہ اور ڈرونز نے حملہ کیا، ۲۰۰ سے زیادہ مساجد ہیں جنہیں تم نے تباہ کیا، اورپچاس ہزار سے زیادہ گھر تباہ ہو ئے۔ مجاہدین تمہیں چیلنج کرتے ہیں کہ تم پانچ رہائشی مکانات کے پتے فراہم کرو جنہیں اسامہ بن لادن نے نائن الیون میں تباہ کیا تھا۔ افغان، عراقی اور فلسطینی عوام تمہیں پچاس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے پتے دینے کے لیے تیار ہیں جو کہ بے گھر ہوئے اور دس لاکھ سے زیادہ گیارہ ستمبر سے پہلے اور بعد میں ہلاک ہوئے اور فلوجہ کے ہسپتالوں میں ۳۰۰ سے زیادہ بچے ایسے ہیں جو معذور پیدا ہوئے کیونکہ ان کی مائیں تمہارے یورینیم بموں کی تابکاری سے متاثر ہوئی تھیں۔ تمہارے یورینیم بموں کی وجہ سے عراق میں لیوکیمیا (بلڈ کینسر) کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
تمہارے سابق اتحادی بشار الاسد کی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور دہشت گردانہ کارروائیوں پر تمہارا اخلاقی غصہ کہاں ہے؟ کیا یہ تمہاری حکومت نہیں تھی جس نے شیخ ابو مصعب السوری، ابو خالد السوری اور افغانستان اور پاکستان میں پکڑے گئے تمام شامی مجاہدین کو اس کے حوالے کیا تھا؟ کیا تم نے خبریں نہیں دیکھیں اور کئی شہروں اور ان کے مکینوں کو راکھ میں تبدیل ہوتا نہیں دیکھا ، یا تم گالف یا باسکٹ بال کھیلنے میں مصروف تھے؟ اور اس سب کے بعد، تمہاری حکومت اورتمہاری عوام ہم پر شہری اشیاء کو تباہ کرنے اور شہریوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی۔
تم ہمیشہ اپنے مفادات کو تقویت دینے کی کوشش کرتے ہو چاہے اس کا مطلب یہ ہو کہ ان کا مشرق یا مغرب کے آمروں کے ذریعہ سے تحفظ ہو۔ جب میانمار میں برمی آمروں نے ۱۹۸۸ء میں طلباء کی بغاوت کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کیا تو امریکی انتظامیہ نے سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ لیکن جب انہوں نے تیس ہزار روہنگیا مسلمانوں کی جھونپڑیوں اور گھروں کو جلایا اور دو لاکھ مسلمانوں کو بے گھر کیا تو تم نے اور تمہاری سابق وزیر خارجہ نے اور ممکنہ مستقبل کی صدر ہیلری کلنٹن نے برمی حکومت کو کروڑوں ڈالر کا انعام دیا جبکہ پوری امت مسلمہ برمی مسلمانوں پر حملے ہوتے ، انہیں بے گھر ہوتے اور بے رحمی سے قتل ہوتے دیکھتی رہی۔ تم ان مسلم اقلیتوں کو کیسے بھول گئے جو طویل عرصے سے ظلم و ستم کا شکار ہیں، جنہیں نسلوں سے ملک میں رہنے کے باوجود شہری نہیں سمجھا جاتا؟ کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے دورے کے وقت حکومت نے انسانی حقوق اور امدادی تنظیموں کو معطل کر دیا تھا جن کے بارے میں احتمال تھا کہ انہو ں نے متاثرین کی مدد کی ہو گی؟ انہوں نے ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ اور دیگر امدادی گروپوں کو معطل کر دیا۔ تاہم، تمہاری حکومت نے برمی حکومت کو مزید رقم ادا کی اور اپنے تاجروں ، وائٹ ہاؤس کے آقاؤں، کو وہاں سرمایہ کاری کرنے کی تاکید کی۔
کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اسرائیل ایک امیر ملک ہے جس کی فی کس آمدنی رومانیہ، اسپین، مصر، جنوبی کوریا اور سعودی عرب سے زیادہ ہے، جبکہ امریکہ ایک بڑھتا ہوا مقروض ملک ہے جوتمہارے ناز پروردہ، بگڑے ہوئے، لاڈلےبچے، اسرائیل کے حق میں اپنے سماجی پروگراموں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بچے، اسرائیل؟ یہ مت بھولو کہ تم ایک طرف سوپ کچن1 اور فوڈ اسٹامپ2 کے صدرہو تو دوسری طرف تم امریکی تعلیم اور صحت کے پروگراموں کے بجٹ میں سے پیسے کاٹ رہے ہو اور قتل و غارت گری کے اوزار اسرائیل کے ہاتھوں میں دینے کے لیے رقم فراہم کر رہے ہو، تاکہ انہیں فلسطینی اور لبنانی مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تم اور تمہارے عہدے پر رہنے والے فیصلہ ساز نہیں ہیں۔
کیا تمہیں یاد ہے جب تم نے ۲۰۱۳ء میں کہا تھا، ’’فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر کاشتکاری سے روکنا، کسی طالب علم کی مغربی کنارے میں گھومنے پھرنے یا فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھر سے بے گھر کرنا درست نہیں ہے‘‘؟ اور پھرتم نے فلسطینیوں کے قتل اور ان کے گھروں، کھیتوں، اسکولوں اور مساجد کو مسمار کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے آئی ڈی ایف کے اقدامات کو اسرائیل کے اپنے دفاع میں قرار دیا۔ مزید برآں، غزہ پر حملے کے دوران، تم نے اسرائیل کو مزید ہتھیار اور گولہ بارود دیا تاکہ وہ امریکی ’’پریسژن‘‘ مہلک ہتھیاروں کی تازہ ترین جنریشن کے ذریعے فلسطینیوں کا قتل عام جاری رکھ سکے کیونکہ امریکہ کے سب سے قریبی اتحادی اور بہترین دوست قصائی نیتن یاہو نے تمہیں بتایا تھا کہ مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن میں تمہارے ڈکٹیٹر اسرائیل کو حماس کو شکست دیتے ہوئے دیکھ کر خوش ہوں گے، وہی حماس جو غزہ میں تمہارے اپنے تصورِ جمہوریت اور ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔ جب تمہارے بچے وائٹ ہاؤس کے پچھلے صحن میں حفاظت کے ساتھ کھیل سکتے ہیں، تب پوری دنیا تمہارے ہتھیاروں کو فلسطینی بچوں کو رمضان کے مقدس مہینے میں غزہ کے ساحل پر کھیلنے یا ان کے کلاس رومز میں پڑھنے کے دوران مارتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا:
اسْتِكْبَاراً فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ(سورۃ الفاطر: ۴۳)
’’انہیں زمین میں اپنی بڑائی کا گھمنڈ تھا، اور انہوں نے (حق کی مخالفت میں) بری بری چالیں چلنی شروع کردیں۔ حالانکہ بری چالیں کسی اور کو نہیں خود اپنے چلنے والوں ہی کو گھیرے میں لے لیتی ہیں۔ ‘‘
مشرق و مغرب نے اپنی پالیسیوں میں بالعموم اور کافر ممالک جیسے امریکہ، فرانس، برطانیہ اور روس نے بالخصوص جس میکاولی طریقہ کار کو اپنایا ہے اس میں جنگ یا امن کے وقت میں کسی قسم کے اخلاق یا اصول نہیں ہیں۔
۷۔ بربریت
تم نے یکم اگست کو ایک اسرائیلی فوجی کے مبینہ اغوا کو بربریت کی کارروائی قرار دیا3۔تمہارے مغربی معیار میں ایک اسرائیلی فوجی کو اغوا کرنا، جو مشین گن اور ہینڈ گرنیڈ سے لیس ہے اور اس کی بٹالین جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے اور وہ شہریوں کو مارنے کے لیے آیا ہے، بربریت ہے، جبکہ تمہاری سی آئی اے نے ایک مسلمان مصری عالم کو اس وقت اغوا کیا جب وہ اٹلی میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہا تھا بربریت نہیں ہے، اور لوگوں پر تشدد کرنے کے لیے خفیہ جیلیں کھولنا بربریت نہیں ہے، اور ابو غریب میں مسلمان عراقی خواتین کی عصمت دری کرنا بربریت نہیں ہے، اور ایک وہیل چئیر پر بیٹھے معذور بوڑھے، شیخ احمد یاسین، کو امریکی ساختہ ہیل فائر میزائل کے ساتھ قتل کرنا، جب کہ وہ صبح سویرے فجر کی نماز کی ادائیگی کے لیے جا رہے تھے، بربریت نہیں ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ۵۰۰ سے زائد فلسطینی بچوں کے بارے میں تم مستقل خاموش کیوں ہو؟ جب ۱۶ سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو کیدر کو یہودی آباد کاروں نے زندہ جلا دیا تب تم نے ’بربریت‘ کی اصطلاح کیوں استعمال نہیں کی؟ کیا یہ بربریت نہیں ہے کہ سوسے زائد افراد کو بغیر کسی الزام کے ۱۲ سال سے گوانتاناموبے میں قید رکھا گیا ہے؟ کیا کلاس روم میں بچوں کی موجودگی میں اسکولوں کو نشانہ بنانا بربریت نہیں؟ کیا میرے بھائیوں اور مجھے تین سال تک اندھیروں میں گم کرنا بربریت نہیں؟ کیا تم ۱۴ سالہ افغانی لڑکے جواد اور ۱۵ سالہ عمر خضر کو بھول گئے، دونوں کو تمہارے عظیم ملک نے گوانتانامو میں قید کیا ؟
کیا غزہ میں جنگی جرائم کی مشق کرتی ہوئی اسرائیلی فوج کو گولہ بارود، بم اور قتل کے آلات بھیجنا بربریت نہیں ہے؟
کیا تمہارےخیال میں ابو غریب کی وہ تصاویر جو تم نے قومی سلامتی کے خدشات کے تحت عوام کے لیے جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا، عراق میں مسلمانوں کے خلاف تمہارے فوجیوں کی بربریت پر مبنی کارروائیوں کی عکاسی کرتی ہیں؟
کیا تمہارے خیال میں انگولا سے نکاراگوا اور کیوبا تک کی خانہ جنگیوں میں سی آئی اے کے ذریعے ان خطوں میں جو لاکھوں شہری مارے گئے ہیں ایک قسم کی بربریت ہے؟ دنیا میں اس قسم کی بربریت کا اصل منبع تم اور تمہارا ملک اور تمہاری تہذیب ہے۔
۸۔ منسلک نقشہ پڑھو
مندرجہ بالا واقعات یا تصویر کسی انتشار یا بے وقعت اتفاق کا نتیجہ نہیں ہیں، بلکہ یہ ایک درست نظام اور اچھے طریقے سے بنائے گئے منصوبوں کا نتیجہ ہیں۔ مغربی دنیا اور اسلامی دنیا کے درمیان کشمکش کو سمجھنے والا ہر شخص اس زبان کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔
میں یہاں تمہارے لیے تاریخ کی کتاب لکھنے نہیں آیا ہوں بلکہ مختصر جملوں میں لکھ رہا ہوں تاکہ کوئی بھی عقلمند مورخ اسے پڑھے اور سمجھے کہ جب سے تم نے اسرائیل کی پشت پناہی شروع کی ہے اس وقت سے لے کر آج تک فلسطین میں کیا ہو رہا ہے۔ (منسلک نقشہ دیکھ لو)۔
بیسویں صدی کے اوائل میں بڑی بین الاقوامی طاقتیں اسلامی سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ عرب دنیا میں داخل ہوئے اور اسے چھوٹے چھوٹے ممالک میں توڑ دیا، جو برطانیہ اور فرانس کے درمیان بدنام زمانہ سائیکس پیکو معاہدے کے ذریعے تقسیم ہوئے تھے۔ دوسری طرف سپین، اٹلی اور فرانس شمالی افریقی مسلم سرزمین کو تقسیم کر رہے تھے۔
کیا تم مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایک جزیرہ نما عرب کو سات ممالک میں کیوں تقسیم کیا گیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں نے تقسیم کرو اور حکومت کرو یا تقسیم کرو اور فتح کرو کا اصول لاگو کیا۔
جو بھی یہ کہتا ہے کہ آج غزہ میں تمہارے اور اسرائیلیوں کے جرائم حماس کے راکٹوں ، انسانی ڈھال کے استعمال، دہشت گردی یا سرنگوں کے استعمال کی وجہ سے ہو رہے ہیں، وہ دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
منسلک نقشے کو اچھی طرح سے پڑھو تو تم سمجھ جاؤ گے کہ تمہاری حیثیت بساط پر ایک پیادے سے زیادہ نہیں ہے اور یہ کہ تم اپنے آباؤ اجداد کے ’مینی فیسٹ ڈیسٹینی‘(Manifest Destiny) منصوبے پر کام کر رہے ہو جو سائیکس پیکو معاہدے، بالفور ڈیکلریشن سے شروع ہو کر کیمپ ڈیوڈ معاہدے تک، اوسلو معاہدے تک، وادی عربہ معاہدہ تک جاتا ہے۔ عظیم اسرائیل کو ان کے خوابوں کی سرزمین میں تعمیر کرنے کے لیے، پیدائش 15:18 میں تورات کی آیت : ’’اس دن خداوند نے ابراہیم کے ساتھ عہد باندھا اور کہا، میں تمہاری اولاد کو دیتا ہوں۔ یہ زمین، مصر کے دریا سے لے کر عظیم دریا، فرات تک‘‘ کو پورا کرنے کے لیے۔ اگر ان کا سیاسی دارالحکومت تل ابیب ہے تو تم اپنا سفارت خانہ یروشلم کیوں منتقل کرتے ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہارا عیسائی صہیونی اور لامحدود مسیحی جوش تمہیں یروشلم کا نام عظیم اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر رکھنے پر مجبور کرتا ہے؟تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اسرائیلی جھنڈے پر دو نیلی لکیریں ان کے خوابوں کی سرزمین کی سرحدوں کا حوالہ دیتی ہیں، دریائے نیل اور فرات جیسا کہ پیدائش 15:18 میں ذکر کیا گیا ہے؟ کیا یہ دریائے نیل سے فرات تک عظیم اسرائیل کی تعمیر اور قیام کے لیے اور یروشلم کی مسجد کو تباہ کر کے مدوعہ ہیکلِ سلیمانی تعمیر کرنے کے لیے نہیں ہے؟
اختتام: نائن الیون: امت کا خالص اپنا دفاع
جب ہم سابق وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ کو اے بی سی نیوز پر یہ اعلان کرتے ہوئے دیکھتے اور سنتے ہیں کہ عراقی عوام پر دس سالہ امریکی پابندیوں کے نتیجے میں نصف ملین عراقیوں کی موت درست تھی۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکی افواج دس سال کی پابندیوں کے بعد عراق پر حملہ کر رہی ہیں، ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر رہی ہیں۔ جنگ، افراتفری، اور گروہی لڑائی کا سبب بن رہی ہیں، ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کررہی ہیں، اور یورینیم کے گولوں کے استعمال سے مستقل معذوری کا سبب بن رہی ہیں ۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے زیر قبضہ تیل کی حفاظت کے لیے، دنیا کے سب سے بڑے امریکی سفارت خانے کو پیچھے چھوڑ کر امریکہ عراق سے انخلاء کر جاتا ہے۔
آخر میں، اگر اسرائیل کے اپنے دفاع کے بارے میں تمہاری سمجھ سے امریکی طیاروں، گولہ بارود اور بموں کے ساتھ تازہ ترین غزہ حملے میں اکیس سو سے زیادہ شہری مارے جا رہے ہیں، گیارہ ہزار سات سو گھر تباہ، ۲۴۳ خواتین اور ۴۵۶ بچے قتل، ۶۳ مساجد، ۱۴۱ سکول، متعدد بازار، ہسپتال، کلینک اور فیکٹریاں مسمار کی جارہی ہیں، اور غزہ میں ایک پاور پلانٹ کو تباہ کیا جا رہا ہے، پھر امریکی یہ کیوں قبول نہیں کر سکتے کہ نائین الیون مسلم دنیا میں تمہارے نہ رکنے والے جرائم کے خلاف امت کا ایک قسم کا دفاع تھا جبکہ ہم نے تو تمہاری سرزمین میں صرف معاشی اور فوجی اہداف کو تباہ کیا؟
تم اور تمہاری حکومت دہشت گردی اور دہشت گردوں کے بارے میں بات کرنے کی کوئی حیثیت نہیں رکھتی جبکہ تم دس سال تک پابندیاں لگا کر عراق میں پانچ لاکھ خواتین اور بچوں کو ایک گولی چلائے بغیر بھوک سے مار سکتے ہو۔ پابندیاں جنگ ہیں۔ یہ جنگ کی سب سے ظالمانہ شکل ہیں کیونکہ یہ پوری آبادی کو سزا دیتی ہیں، بچوں اور ان کے مستقبل کو نشانہ بناتی ہیں۔ پابندیاں لگانا بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کے مترادف ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ تمہاری سرمایہ داری اور جمہوریت کو تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جائے اور تسلیم کرلیا جائے کہ تم قوموں کو دھوکہ دینے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے ماہر ہو۔
ہمیں اپنی سرزمین پر کسی بھی جارحیت کے خلاف جہاد کرنے کا حق ہے۔ ہمیں فلسطینی، عراقی اور افغانی بچوں، عورتوں اور بزرگوں کے خون کا بدلہ لینے اور ان کا خون بہانے والوں کو سزا دینے کا حق ہے۔ اسلامی جہاد مغربی سفاک ’نو استعماریت‘ اور ’سامراجیت ‘ کا بہترین علاج ہے۔ ہم اسرائیل کوتمہاری فوجی، معاشی اور سیاسی امداد کا جواب جھوٹے امن سے نہیں دیں گے۔ اگر تمہاری حکومت اور عوام نائن الیون کو برداشت نہیں کریں گے تو پھر تم مسلمانوں سے کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ فلسطین، لبنان، جزیرہ نمائے عرب اور پوری مسلم دنیا میں تمہارے 60 سال کے جرائم کو برداشت کریں؟ میں تم سے یا تمہاری عدالت سے کبھی رحم نہیں مانگوں گا۔ جو تم کرنا چاہتے ہو کرو، میری آزادی، میری اسیری اور میری موت تمام بدکرداروں اور ظالموں کے لیے وبال ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا(جس کا مطلب ہے):
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلاَّ إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ وَنَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ أَن يُصِيبَكُمُ اللّهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِندِهِ أَوْ بِأَيْدِينَا فَتَرَبَّصُواْ إِنَّا مَعَكُم مُّتَرَبِّصُونَ (سورۃ التوبۃ: ۵۲)
’’کہہ دو کہ : تم ہمارے لیے جس چیز کے منتظر ہو، وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ( آخر کار) دو بھلائیوں میں سے ایک نہ ایک بھلائی ہمیں ملے۔ اور ہمیں تمہارے بارے میں انتظار اس کا ہے کہ اللہ تمہیں اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سزا دے۔ بس اب انتظار کرو، ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں۔‘‘
اگر تمہاری عدالت مجھے عمر قید کی سزا سناتی ہے تو میں خوشی سے اپنی کوٹھڑی میں تنہا رہ کر ساری زندگی اللہ کی عبادت کروں گا اور اپنے تمام گناہوں اور برائیوں سے توبہ کروں گا۔ اور اگر تمہاری عدالت مجھے موت کی سزا سناتی ہے تو میں اللہ اور انبیاء سے ملنے اور اپنے بہترین دوستوں کو دیکھنے، جنہیں تم نے پوری دنیا میں ناحق قتل کیا، اور شیخ اسامہ بن لادن کو دیکھنے کے لیے اور زیادہ خوش ہوں گا۔
لیکن کیا جب صلیبی سزائے موت پر عمل کریں گے تو میں مر جاؤں گا؟ میں پہلے ہی اس سوال کی وضاحت وکلاء کو کر چکا ہوں اور میں اپنا جواب اس خط کے ساتھ منسلک کردوں گا۔
٭٭٭٭٭
1 وہ جگہ جہاں سے ضرورت مندوں کو مفت یا کم قیمت پر کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
2 امریکی حکومت کا ایک پروگرام جس میں کم آمدن والے لوگوں کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
3 Obama calls Israeli soldier’s alleged abduction “barbaric”, CBS News, (August 1, 2014)