نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | پہلی قسط

وارن وائن سٹائن سے اسحاق بن سڈنی تک

نعیم نور خان by نعیم نور خان
28 فروری 2024
in جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!, فروری 2024
0

مقدمہ

ہمارے محبوب شیخین …شیخ اسامہ اور شیخ ایمن الظواہری کی تحریرات کا عالم غرب میں مشہور ہونا اللہ کی ایک عظیم نشانی ہے۔ وہی ہے جو اپنے محبوب بندوں کی محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے۔ یہ غزہ اور فلسطین کے ہزاروں شہداء کے پاکیزہ خون کا بھی ثمرہ ہے کہ آج روئے زمین پر بسنے والی انسانیت اسلام اور جہاد کا اصل پیغام سمجھنے کے قابل ہوگئی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان تمام اقوام کو اسلام قبول کرنے اور ہمارے امت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

اسی تناظر میں ہماری خواہش ہے کہ یو ایس ایڈ (USAID)کے ایک امریکی یہودی افسر وارن وائن سٹائن کا قصۂ اسلام آپ کی خدمت میں پیش کریں۔وارن وائن سٹائن نے مجاہدین کی قید میں اللہ کےسچے دین کو پہچان کر اسلام قبول کرلیا ۔ اور پھر ۲۰۱۵ء میں امریکی ڈرون طیاروں ہی کی ایک بمباری میں اللہ نے آپ کو منزلِ شہادت سے نوازا… نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ۔ آپ کے اسلام قبول کرنے کا اہم سبب یہ بنا کہ آپ نے مجاہدین کی زندگیوں کا اور مجاہدین کااپنے ساتھ تعامل کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ آپ نے اپنا اسلامی نام اسحاق بن سڈنی رکھا۔ اور مختصراً مجاہدین آپ کو ’’چچا اسحاق‘‘ کے نام سے جانتے تھے۔ زیرِ مطالعہ مضمون وارن وائن سٹائن کی کامل سیرت تو نہیں البتہ ان کی قید پر ایک تحقیقاتی رپورٹ ہے جو ان کے اسلام قبول کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے تحقیق کار (انٹیروگیٹر) کماندان نعیم نور خان ﷫نے تیار کرکے مجاہدین کی قیادت کو بھجوائی تھی۔

کماندان نعیم نور خان ﷫ کا تعارف

کماندان نعیم نور خان کا شمار قافلۂ شیخ اسامہ ﷫سے جڑنے والے ابتدائی پاکستانی مجاہدین میں ہوتا ہے۔ آپ اس پہلے گروپ میں شامل تھے کہ جنہوں نے ادارہ السحاب کی بنیاد ڈالی۔ ادارہ السحاب کی بہت سی ابتدائی نشریات کے انگریزی ترجمے میں آپ کی کاوشیں شامل رہیں، بلکہ ’’مغربی اقوام کے نام پیغام ‘‘کا جو دنیا آج جوق در جوق مطالعہ کر رہی ہے …اس کے انگریزی ترجمے میں بھی آپ کی صلاحیتیں شامل رہیں۔ (اس پیغام نے اہلِ غزہ کے خلاف عالمی کفریہ طاقتوں کی جنگ کو سمجھنے میں مغربی اقوام کی بہت مدد کی۔)گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں کے بعد پاکستان میں پناہ لینے والےمہاجر مجاہدین کی مدد و نصرت کے فریضے میں بھی برادر نعیم پیش پیش رہے۔ اس عرصے میں آپ خالد شیخ محمد (فک اللہ اسرہ) اور شیخ ابو حمزہ الربیع﷫ کے معاون تھے ۔ سن ۲۰۰۴ء میں سی آئی اے اور ایف بی آئی نے پاکستان کی خائن خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے تعاون سے آپ کو کراچی سے گرفتار کیا۔ جبکہ آپ اور آپ کے ساتھ وابستہ ساتھی اس وقت مغربی اہداف پر عسکری کام کی منصوبہ بندی کررہے تھےجن میں سے قابل ذکر آئی ایم ایف کے ہیڈکوارٹر پر واشنگٹن ڈی سی میں حملہ تھا۔

اللہ کے اس شیر کو کئی سال تک آئی ایس آئی کی کال کوٹھڑیوں میں طرح طرح کی تعذیب کانشانہ بنایا گیا۔ حتیٰ کہ واٹر بورڈنگ (یا پانی میں سانس گھونٹنا) کے بدنام زمانے ہتھکنڈے کو آپ پر سینکڑوں مرتبہ آزمایا گیا۔ آپ کی محترمہ اہلیہ تک کو تعذیب و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سی آئی اے نے کئی مرتبہ براہ راست آپ سے تحقیق کی ۔ لیکن یہ شیر خدا ثابت قدم رہااور اللہ نے آپ کو ان طواغیت کی قید سے بالآخر رہائی عطا فرمائی۔ رہا ہوکر آپ نے پھر سے جہاد کے لیے رختِ سفر باندھا اور ارضِ جہاد وزیرستان اور پھر افغانستان ہجرت کر لی۔ جہاں آپ نے بہت سی دینی و جہادی خدمات سرانجام دیں جن میں وارن وائن سٹائن کے قضیے کی تفتیش شامل ہے۔

۲۰۲۰ء میں محترم نعیم بھائی کا جنت النعیم کا بلاوا آپہنچا ۔نحسبہ کذالک واللہ حسیبہ۔ غزنی میں امریکی فوج نے آپ کے گھر پر فضائی چھاپہ مارا اور آپ مردانہ وار لڑتے ہوئے جام ِشہادت نوش کرگئے۔ اللہ آپ سے راضی ہوجائے اور آپ پرکروڑوں رحمتوں کا نزول ہو۔

چچا اسحاق پر لکھی گئی رپورٹ

اب ہم چچا اسحاق ﷫پر لکھی گئی رپورٹ1 کی طرف دوبارہ آتے ہیں ۔ دراصل یہ رپورٹ مرکزی قیادت کے افراد کے لیے لکھی گئی تھی اور اب اسے افادۂ عام کے لیےنشر2 کیا جارہا ہے۔ اسے پڑھنے والے قارئین اس میں تحقیق و جستجو ، سمجھ داری اور وسعت نظری کا مشاہدہ کریں گے۔ یہ دستاویز جب تیار کی گئی تھی تو اس غرض سے نہیں لکھی گئی تھی کہ اسے ساری دنیا کے سامنے لایا جائے گا بلکہ مجاہدین کی قیادت میں اس نےداخلی طور پر تقسیم ہونا تھا ۔لیکن پھر بھی اس میں قارئین تعلق باللہ ، ادبِ اختلاف اور بڑوں سے گفتگو کے آداب پائیں گے۔

یہ طاغوتی میڈیا کی جانب سے مجاہدین پر ان الزام تراشیوں کا پول بھی کھول دیتی ہے کہ مجاہدین شریعت سے روگردانی کرنے والے ،للٰہیت سے عاری، اور انسانیت کا برا سوچنے والے ہیں ۔ بلکہ اس رپورٹ کا ایک بڑا حصہ سیاستِ شرعیہ، تعلیم و تربیت اور دعوت الیٰ اللہ سے متعلق ہے۔اس رپورٹ کو آپ تنظیمی تعصبات سے بھی پاک پائیں گے۔ اس میں چلنے والی تمام بحث و مناقشہ کا موضوع یہ ہے کہ اللہ کے دین کو کیسے بلند کیا جائے، اپنی امت کے فائدے اور اس کے مصالح کا کیسے خیال رکھا جائے؟!

یہ اس بات کی طرف بھی دعوت دیتی ہے کہ انصاف سے اس رپورٹ کا مطالعہ کر کے مجاہدین اور ان کے نظریے کو سمجھا جائے۔ افغانستان، صومالیہ اور مالی میں مجاہدین کے تجربات کو انصاف کے تقاضوں پر پرکھا جائے۔ شہید اسحاق بن سیڈنی ﷫کے واقعے سے محض لطف اندوز ہونے کے لیے نہ گزرا جائے بلکہ اس قصے میں پنہاں دروس پر غور کیا جائے کہ مجاہدین کی قید میں ایک امریکی یہودی کا آنا، پھر اس کا اسلام قبول کرنا، اسلامی تعلیمات اور علومِ شریعہ کو حاصل کرنا ، ان پر مضبوطی سے ڈٹنا، پھر اس نومسلم داعیٔ دین کا اپنی قوم کو دعوت دینے کے لیے تربیتی علوم و فنون سیکھنا، پھر اپنی ہی قوم کے ہاتھوں دین کی تعلیم اور اللہ کی رضا کے حصول میں مشغول اس مرابط کا شہید ہوجانا ۔ اس سب واقعے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ یہ علم ،دعوت ،رباط اور شہداءکے خون سے معطر ایک ایسا حقیقی فسانہ ہے جس کی تاریخ میں کم ہی کوئی نظیر ملتی ہے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے ہم توفیق مانگتے ہیں کہ ہمیں چچا اسحاق ﷫اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والے استاد احمد فاروق ﷫اور آپ کے انتظامات سنبھالنے والے پاکیزہ ساتھیوں کا انتقام لینے کی توفیق عطا فرمائے جو اوبامہ انتظامیہ اور اس کے نائب ، (حالیہ امریکی صدر) جو بائیڈن کے ہاتھوں شہید کیے گئے۔ جو بائڈن ان مجرمانہ کارروائیوں کا براہِ راست سرغنہ تھا جو یہ سب افعال اپنی Counter-terrorism plus نامی مہم کی ذیل میں سر انجام دے رہا تھا۔ اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ چچا اسحاق کے گھرانے اور روئے زمین کے ہر باسی کو وہ سچا دین قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے جس میں اس کائنات کا راز پنہاں ہے اور یقیناً وہ دینِ اسلام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللّهِ شَهِيداً (الفتح: 28)

وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے، تاکہ اسے ہر دوسرے دین پر غالب کردے۔ اور (اس کی) گواہی دینے کے لیے اللہ کافی ہے۔

تعارف

وارن وائن سٹائن، ۱۹۴۱ء میں پیدا ہوئے۔ آپ ایک اعلیٰ عہدیدار امریکی یہودی تھے جنہیں اگست ۲۰۱۱ء میں لاہور، پاکستان سے اغوا کیا گیا۔ پی ایچ ڈی ڈگری کے حامل اس شخصیت کے اپنی کم عمری ہی سےاقوام متحدہ کے غیر ملکی سفارت کاروں سے اچھے تعلقات تھے۔ USAID، Peace Corpsاور اس طرح کے دیگرامریکی وفاقی اداروں میں آپ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ IFC (انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن) میں، جو کہ ورلڈ بینک گروپ کا ایک رکن ہے،آپ نے ۷ سال تک اپنی خدمات سرانجام دیں۔ جہاں آپ کی سالانہ کمائی تقریباً نوے ہزار ڈالر بنتی تھی۔

وارن وائن سٹائن نے اپنی پوری زندگی میں امریکی حکومت کے معروف اور بااثر عہدیداروں کے ساتھ کام کیا، جن میں امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ حکام، مختلف ممالک میں امریکی سفیروں ، سفارت کاروں،USAID کے ایڈمنسٹریٹرز (جو کہ امریکی صدر کی طرف سے مقررکیے جاتے ہیں) ، اسی ادارے کے اسسٹنٹ ایڈمنسٹریٹرز ،Peace Corps کے ڈائریکٹرز (مقرر شدہ از امریکی صدر) وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے سی آئی اےکے سابق چیف آف سٹیشن (Chief of Station) جان بیسٹک( John Bestic)کے ساتھ بھی مضبوط تعلقات تھے۔ دونوں خاندان آج تک ایک دوسرے کے قریب ہیں۔

۲۰۰۴ء میں وہ ایک پرائیویٹ امریکی مشاورتی ایجنسی J. E. Austin کے کنسلٹنٹ (consultant)کے طور پر پاکستان آئے اور بعد میں اس کےCountry Head (ملکی سربراہ) بن گئے۔ J. E. Austin ان کمپنیوں میں سے ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں USAID اور دیگر غیر ملکی (سرکاری) امدادی ایجنسیوں کے مختلف منصوبوں کو سنبھالنے کا کام سرانجام دے رہی ہیں ۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۱ء تک، وارن وائن سٹائن پاکستان کے لیے یو ایس ایڈ کے socioeconomic development projects (سماجی اقتصادی ترقی کے منصوبوں) میں مشغول رہے۔ جو مختلف نجی شعبوں جیسے ڈیری فارمز ، ماربل، گرینائٹ، زیور و جواہرات، آلات جراحی، فرنیچر اور باغبانی وغیرہ سے متعلق تھے۔ یو۔ ایس۔ ایڈ کے FATA Project (فاٹا پراجیکٹ) پر بھی آپ نے کام کیا جو قبائل اور صوبہ سرحد سے ’’دہشت گردوں اوردہشت گرد ی ‘‘کے خاتمے کے لیے بنایا گیا تھا۔ آپ کا برطانوی حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی ایک خفیہ میڈیا کمپین کا ٹھیکہ وصول کرنے کا بھی ارادہ تھا جس نے پاکستانی میڈیا کے روپ میں کام کرتے ہوئے ’دہشت گردی ‘کے خلاف ایک میڈیا مہم چلانی تھی لیکن اس سے پہلے ہی آپ کو مجاہدین نے گرفتار کر لیا۔

یو ایس ایڈ کے ایک پراجیکٹ میں،آپ نے کراچی کی دو مصروف ترین بندرگاہوں سے افغانستان تک کےزمینی راستے کو اپ گریڈ کرنے پر بھی کام کیا جس میں نقل و حمل کےدیگر مختلف ذرائع جیسے ریلوے اور موٹر ویز کی اصلاح پر بھی کام شامل تھا۔ انہوں نےاس بات کا اعتراف کیا کہ یہ پراجیکٹ دراصل پاکستان اور افغانستان کے درمیان نیٹو سپلائی کو آسان بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔

۲۸ فروری ۲۰۱۳ء کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے وارن وائن سٹائن کو اسلام قبول کرنے کا شرف بخشا۔ ان کا اسلامی نام اسحاق بن سڈنی ہے۔

یہ مفصل رپورٹ تین حصوں پر مشتمل ہے:

  • اسحاق صاحب کا قبولِ اسلام اور اس کے بعد کی زندگی
  • مستقبل میں اسحاق صاحب کے ساتھ کیا کیا جا سکتا ہے اس بارے میں چند گزارشات
  • اسحاق صاحب کی رہائی کے سلسلے میں امریکی حکومت کے ساتھ مذاکرات

اس موضوع کو شروع کرنے سے پہلے، میں چند باتیں بیان کرنا چاہوں گا۔ ذیل میں پڑھنے والے کو جو بھی معلومات ملیں گیں،ان کولکھنےسے پہلےمیں نے انتہائی احتیاط اور باریک بینی سے ان کا جائزہ لیا اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرتے ہوئےاس موضوع پر قلم اٹھانے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اگرچہ ہمارے دین نے ہمیں ظاہر اور ظاہری اعمال کی بنیاد پر لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرنے اور ان کے ساتھ پیش آنے کی ہدایت کی ہے، لیکن میں نے اسحاق صاحب اور ان کےاسلام قبول کرنے اور پھر اس کے بعد کی ان زندگی کا (شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے) مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا ہے۔ جن کی تفصیلات رپورٹ میں آتی رہیں گی، ان شاء اللہ۔ مزید برآں، میں ان بھائیوں سے جو اسحاق صاحب کے ساتھ تقریباً ۱۰ ماہ سے رہ رہے ہیں، اس موضوع پر تبادلۂ خیال اور مشورہ کرتا رہا ۔ اس کے باوجود قارئین کے سامنے مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ انسان کمزور ہے اور اس کی بصارت محدود ہے۔ سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے جو ساتوں آسمانوں اور زمینوں کامالک ہے۔ ہم پر بس اتنا لازم ہے کہ ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ڈریں، پورے اخلاص کے ساتھ محنت کریں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر قائم رہیں اور پھر اپنے رب پر توکل کریں۔ اور مومن کے لیے’شکست ‘نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی!

اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے قول و فعل میں اخلاص عطا فرمائے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر ثابت قدم رکھے اور ہمیں جلد اپنی نصرتوں سے نوازے۔

اسحاق صاحب کا قبولِ اسلام اور اس کے بعد کی زندگی

میری خواہش ہے کہ قاری کے ذہن پر بھرپور انداز میں اس موضو ع کی تصویر کشی کی جائے۔ اس لیے ہمیں اسحاق صاحب کے اسلام قبول کرنے تک کے مراحل اور ان میں وقتاً فوقتاً آنے والے اتار چڑھاؤ کو اچھی طرح جاننا ہوگا۔

قبل از اسلام

ان کی قید کے شروع ہی سے ہم ان کے سامنے مجاہدین اور امریکی حکومت کے رویوں کا موازنہ کرتے تھے تاکہ امریکہ سے ان کی وفاداری کو توڑا جاسکے۔ مثال کے طور پر، مجھے یاد ہے کہ پہلے تفتیشی سیشن کے دوران، ہم نے انہیں یہ باور کروایا کہ وہ جن اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہ صرف لوگوں کو استعمال کرتے ہیں، اور جب یہ لوگ کسی مصیبت میں پھنس جاتے ہیں، تو وہ انہیں بھول کر دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات بنا لیتے ہیں۔ ہم نے انہیں بتایا کہ اس کے برعکس ہم اپنے قیدی بھائیوں اور بہنوں کی رہائی کے لیے اپنی جانوں اور اپنی آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ میں نے انہیں گزشتہ سال بنوں (پاکستان) اور تکریت (عراق) میں قیدیوں کی رہائی کی کارروائیوں کی مثالیں دیں۔

پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم مختلف تحقیقاتی مرحلوں میں مجاہدین اور امریکی افواج (اور اس کے اتحادیوں) کے کردار اور اخلاقی پہلوؤں کا موازنہ کرتے۔ اور پھر انہیں سمجھاتے کہ اس حوالے سے ہمارا دین ہمیں کیا تعلیمات دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، میں نے انہیں بتایا کہ میں نے کئی سال قید میں گزارے ہیں اور ’ان کے لوگ ‘قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ ان کی تذلیل کرتے ہیں، انہیں برہنہ کرکے ان کی شرمگاہوں کی بے حرمتی کرتے ہیں، ان کی عصمت دری کرتے ہیں۔ اور میں نے انہیں احساس دلایا کہ اس کے مقابل ہم ان کے ساتھ کتنا انسانی سلوک کر رہے ہیں اور اس کی جسمانی ضروریات کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

جب چچا اسحاق گرفتار ہوئے اسی وقت سے مجاہدین کی قیادت نے ان کی پیرانہ سالی دیکھتے ہوئے ان کی حفاظت پر معمور مجاہدین کو حسنِ تعامل کی خصوصی ہدایات دی تھیں۔ مجاہدین آپ کے کھانے پینے ، دوا اور دیگر ضروریات کا پورا اہتمام رکھتے۔ آپ ﷫کی خاص امریکی طرز کی خوراک، جس کا وزیرستان کے معاشرے میں کوئی وجود نہیں تھا، اس کا پورا بندوبست کیا جاتا۔ اور بعض اوقات انہیں فراہم کرنے کی خاطر مجاہدین اپنی سیکورٹی کو داؤ پرلگا کر بڑے شہروں سے یہ انتظامات پورے کرتے۔ اس کے ساتھ ہی آپ کے دل اور دمے کی دواؤں میں بھی ناغہ نہ ہونے دیا جاتا۔ قید کے ابتدائی دنوں میں آپ کو پیٹ کی تکلیف رہنے لگی تومجاہدین ڈاکٹروں کے چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ آپ کو ساری زندگی سادہ پانی پینے کی عادت نہیں رہی اس لیے آپ کے لیے منرل واٹر تجویز کیا گیا۔ اور جو آپ کو تا دمِ شہادت مسلسل فراہم کیا جاتا رہا۔ شیخ ایمن الظواہری نے مجاہدین کو چچا اسحاق کے حوالے سے خصوصی ہدایات دیتے ہوئے فرمایاکہ: ’’یہ محترم آپ کے پاس قیدی نہیں بلکہ مہمان کی حیثیت سے ہیں ۔‘‘ اس لحاظ سے آپ پر ہونے والے بیت المال کے مصارف ایک عمومی مجاہد سے ۲۳ گنا زیادہ تھے۔ اور مجاہدین یہ سب اہتمامات کسی داد سمیٹنے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر اس کے حکم کی تعمیل میں بجا لاتے تھے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَيَتِيماً وَأَسِيراً{8} إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُوراً

اور وہ اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تو تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کھلا رہے ہیں۔ ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ کوئی شکریہ۔

ہم نے انہیں بتایا کہ ہم (دینِ اسلام میں) اپنی خواہشاتِ نفسانی کے تابع ہوکر کچھ کام بھی نہیں کرسکتےبلکہ ہمارا ہر کام شریعت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ان کوہم سمجھاتے کہ دنیا میں ناانصافی سے نجات کا یہی واحد طریقہ ہے کیونکہ ہر کوئی اگر اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے میں لگا رہے تو دنیا کبھی انصاف و سکون سے نہیں رہ سکتی!

اسی طرح اس شبہ کا ازالہ بھی ہم بار بار کرتے کہ مجاہدین اگر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ’ امریکی ہمارے بے گناہ لوگوں (مثلاً خواتین، بچوں اور بزرگوں وغیرہ) کو مار تے ہیں، اسی لیے ہم ان سے لڑ رہے ہیں‘۔ تو امریکی اور اس کے اتحادی بھی اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ’مجاہدین ہماری ٹرینوں اور دیگر غیر فوجی تنصیبات کو بموں سے اڑاتے ہیں، اس لیے ہم ان کا مقابلہ کر رہے ہیں‘۔ اب یہ کیسے جانا جائے کہ کون سا گروہ حق پر ہے؟ تو اس کے جواب میں ہم انہیں سمجھاتے کہ کوئی بھی غیر جانبدار انسان جو اسلام کے بارے میں اور اس جنگ کے تاریخی پس منظر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا، اگر ان دونوں فوجوں کا غیر جانبداری سے جائزہ لے گا تو بآسانی معلوم کر سکتا ہے کہ کون حق پر ہے! ہم خاص طور پر انہیں یہ باور کرواتے کہ وہ (امریکی) ہمارے قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتے ہیں لیکن دوسری جانب جب تک ہمارا دین ہمیں اجازت نہ دے ہم اپنے پاس موجود کافر قیدیوں کے خلاف اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرسکتے، اور اس کے شریعت میں اصول مقرر ہیں۔ ہم اس بات پر بھی روشنی ڈالتے کہ کس طرح یہ مغربی لوگ اپنے بوڑھے والدین کواولڈ ہاؤسز Old Houses میں چھوڑ دیتے ہیں، جب کہ ہمیں اپنے بوڑھے والدین کو ’اف‘ کہنا بھی ممنوع ہے۔ پھر ہم انہیں مغربی اقوام کی ہوس بھری غلیظ زندگیوں کے بارے میں بتاتے جو شراب، فحاشی، بے حیائی (حتیٰ کہ خاندان کے افراد کے ساتھ جنسی تعلقات میں ملوث ہونے، نعوذبالله من ذلك )، عریانی، منشیات وغیرہ میں غرق ہیں۔ پھر ہم ان سے پوچھتے کہ امریکہ کے افغانستان پر حملے کے تقریباً گیارہ سال گزرنے کے باجود بھی آج مجاہدین کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کی بڑی اقتصادی قوتوں کا کیا حال ہوا ہے؟ اسی طرح ہم انہیں سوچنے پر مجبور کرتےکہ جن لوگوں کا کردار اتنا پست ہو کہ وہ عوامی مقامات پر کپڑے اتارنے میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہ جھجکتے ہوں ، بھلا وہ بھی کوئی جنگ جیت پائے ہیں ؟

مذکورہ بالا باتیں محض ایک آدھ بار ان کے کان سے نہیں گزریں بلکہ مختلف انداز اور پیراؤں سے مستقل اس موضوع پر ان سے گفتگو چلتی رہتی۔ ان باتوں کو یہاں درج کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ ان کے شعور میں پیش رفت کیسے ہورہی تھی۔ یہاں ایک بات کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ میں، کم و بیش ہمیشہ ہی اسحاق صاحب کی نظر میں ان باتوں کی (چھپی ہوئی) قبولیت کو محسوس کرتا تھا۔ جب بھی ہم ان موضوعات پر گفتگو کرتے، خجالت اور احساسِ جرم سے ان کی آنکھیں (اور کبھی کبھی سر) جُھک جاتے۔

کچھ عرصے بعد، ہم نے اللہ کی عظمت کے بارے میں ان سے بات کرنا شروع کردی کہ وہ کس طرح اپنے بندوں کی ضرورت کے وقت مدد کرتا ہے۔ ہم انہیں اللہ سے آسانی طلب کرنےکی ترغیب دیتے تھے۔ ایک دفعہ میں نے انہیں قرآن کی درج ذیل آیت کا ترجمہ پڑھ کر سنایا:

أَمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاء الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلاً مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل: 62)

بھلا وہ کون ہے کہ جب کوئی بےقرار اسے پکارتا ہے تو وہ اس کی دعا قبول کرتا ہے، اور تکلیف دور کردیتا ہے اور جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے ؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) اللہ کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ نہیں ! بلکہ تم بہت کم نصیحت قبول کرتے ہو۔

اس آیت نے بظاہر ان کے دل کو چھو لیا اور بالآخر وہ کہہ اٹھے ،’’میں ہی وہ شخص ہوں جو بے قرار ہے!‘‘ انہوں نے اپنے پاس موجود انگریزی ترجمے والے مصحفِ قرآن میں وہ صفحہ نمبر نوٹ کرلیا۔ یہ مصحف پہلے ہی ساتھی ان کو فراہم کرچکے تھے۔

پھر وہ کبھی کبھی مجھ سے کہتے تھے کہ وہ اللہ سے مسلسل دعائیں کر رہے ہیں۔ اور بعض مواقع پر ان شاء اللہ اور God is great (اللہ اکبر) جیسے الفاظ بھی ان کے منہ سے نکل جاتے۔ وہ کبھی کبھی اپنے کمرے میں اکیلے ہوتے ہوئے قرآن مجید بھی پڑھتے تھے۔ دھیرے دھیرے میں نے ان کے ردِ عمل میں کچھ تبدیلی ہوتے دیکھی۔ جب بھی میں انہیں انبیاء ﷩ اور صحابہ کرام ﷢ کے قصے سناتا وہ ان باتوں کو بڑی دلچسپی سے سنتے اور بظاہر ان پر غور کرنے کی کوشش کرتے۔ میں نے انہیں سیدناعمر بن خطاب ﷜کے چند قصے سنائے اور بتایا کہ کس طرح مسلمانوں اور اسلام کے سخت دشمن ہونے کے باوجودوہ ایمان لے آئے۔

یاد رکھیں، یہ تمام باتیں ہم ان سے پوچھ گچھ کے دوران کرتے تھے۔ آخری تفتیشی سیشن کے بعد میں ان کی جگہ سےچند ہفتوں کے لیے روانہ ہوا اور اسی دوران انہیں اسلام قبول کرنے کی توفیق ہوئی۔ اس آخری مجلس میں میں نے انہیں بہت کھلے انداز میں کہہ دیا کہ اگر آپ نے اسلام قبول نہیں کیا اور اسی حالت پر آپ کو موت آگئی تو جہنم کی آگ میں آپ ہمیشہ کے لیے جلتے رہیں گے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر وہ اس دنیاوی قید کی معمولی سی مشقتیں برداشت نہیں کر سکتے تو آخرت کا لامتناہی رنج و الم کیسے برداشت کریں گے؟ آپ کی بیوی اور بیٹیوں سمیت کوئی بھی آپ کو اس ناختم ہونے والے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ میں نے ان سے کہا کہ شاید اللہ اس جگہ آپ کو اس لیے لایا ہے کہ کوئی دو ٹوک انداز میں آپ کو سچائی سے آگاہ کرسکے اور آپ خبردارہوجائیں ۔ تاکہ قیامت کے دن اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے آپ یہ نہ کہہ سکیں کہ مجھے تو اس کا علم نہیں تھا! اس پر وہ دھیرے سے کہنے لگے ؛ ’مجھے خود بھی اس بات کا احساس ہے کہ میرے یہاں آنے کی کوئی وجہ ہے۔‘

۲۳ فروری ۲۰۱۳ء کو، میں نے تفتیشی رپورٹ لکھنے کے لیے اسحاق صاحب کی جگہ سے چند ہفتوں کے لیے رخصت ہوااور ان کے ساتھ موجود بھائیوں سے کہا کہ وارن وائن سٹائن کو ذرا شیخ انور العولقی کے لیکچرز سننے کے لیے دیں۔ پانچ دن بعد، ۲۸فروری۲۰۱۳ کو، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ان کو اسلام قبول کرنے کی نعمت سے نوازا۔ یہ سب ایسے وقت میں ہوا کہ جب میں وہاں نہیں تھا اور مجھے تقریباً ایک ماہ بعد ایک بھائی کے خط سے اس کا علم ہوا۔

چچا اسحاق کو حراست میں لیے جانے کے ڈیڑھ سال بعد ان کی خدمت اور حفاظت پر معمور ساتھیوں کو ان کے اندر کچھ عجیب تبدیلیاں محسوس ہوئیں۔ آپ کے انداز اور گفتار نہایت دھیمے اور مؤدبانہ ہوتے گئے۔ ضرورت کے چند جملوں کے سوا آپ سارا دن خاموش رہتے۔ دن کے پیشتر حصے میں آپ کانوں میں ایم پی تھری ائیر فونز لگائے شیخ انور العولقی کے دروس سنتے رہتے۔ وہ فروری ۲۰۱۳ء کی ایک سرد رات تھی جب مسٹر وارن وائن سٹائن نے اپنے برابر میں موجود مجاہدین کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رات کے تقریباً ایک بج رہے تھے۔ ایک مجاہد بیدار تھا جو اپنے پہریداری کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ دروازے پر دستک سن کر وہ چلتا ہواوارن وائن سٹائن کے پاس آیا اور پوچھنے لگا؛ ’’آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟‘‘ …جی! میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔ میں تم لوگوں کے دین میں کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟‘‘یہ سن کر اس مجاہد کا پہلا فطری ردِ عمل یہ تھا کہ اس نے اپنی کلائی سے بندھی گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی اور حیرت سے پوچھنے لگا؛ ’’ابھی ابھی؟!!‘‘…چچا تیز رفتاری سے بولنے لگے؛ ’’ہاں! کیونکہ اگر میں اسی رات تمہارے دین میں داخل ہوئے بغیر مر گیا تو سیدھا آگ میں جاؤں گا‘‘۔ وہ مجاہد دوڑتا ہو دیگر ساتھیوں کی طرف گیا اور زور زور سے چلانے لگا۔ ’’اٹھو! اٹھو! چاچا کلمہ پڑھنا چاہتا ہے!‘‘۔ مرکز میں موجود پانچوں ساتھی اپنے بستروں سے اچھل کر اٹھے اور اپنی آنکھوں کو ملتے ہوئے دوڑ کر مسٹر وارن وائن سٹائن کے پاس آئے۔ ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ ’’ٹھیک ہے ! میں کلمہ پڑھتا جاؤں گا اور آپ میرے پیچھے دہراتے جائیے‘‘، مرکز کے امیر فیصل مزمل بھائی (اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک مجاہد)نے کہا۔ ’’لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘۔ تکبیر …اللہ اکبر !!!کی صداؤں سے یہ چھوٹا سا مرکز گونج اٹھا۔ اِدھر موجود سب افراد اپنی نم آنکھیں لیے ایک شخصیت سے گلے مل کر ان کا ماتھا چوم رہے تھے۔ جی ہاں یہ شخص چچا اسحاق تھے… ڈھائی ارب مسلمانوں کی سوسائٹی میں ایک نئے رکن کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ساتھیوں نے رات میں ہی پانی گرم کیا اور چچا اسحاق کو نہانے کے لیے دیا۔ ایک ساتھی نے اپنے صاف ستھرے شلوار قمیص چاچا اسحاق کو تھمائے۔ نہا کر جب چچا باہر آئے تو کہنے لگے ’’میں نے رات والی نماز (عشاء) نہیں ادا کی…‘‘ مجاہد فیصل مزمل نے ترتیب وار آپ کو نماز پڑھنا سکھائی۔ یہ وزیرستان میں جمعہ کی ایک حسین رات کا قصہ تھا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد

میں گیارہ اپریل ۲۰۱۳ءکو دوبارہ اسحاق صاحب کی جگہ پر گیا… یہ پہلا موقع تھا جب میں ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس جگہ پہنچنے سے پہلے، ایک ساتھی نے مجھے بتایا کہ اسحاق صاحب نیکیوں کے حصول کے لیے کس قدر کوشاں ہیں۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ نماز سیکھ چکے ہیں۔ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، کتابیں پڑھتے ہیں… اور عربی سیکھ رہے ہیں۔

جب شیخ ایمن الظواہری کو مسٹر وارن وائن سٹائن کے اسلام قبول کرنے کا علم ہوا تو آپ نے ہدیے کے طور پر انہیں ایک لیپ ٹاپ بھیجا۔ چچا اسحاق کے دل میں اس تحفے کی بڑی قدر تھی اور آپ اس کو علم کے حصول کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ادارہ السحاب کے پاس بعض ایسی ویڈیوز موجود تھیں جن میں چچا اسحاق لیپ ٹاپ پر کتب کے مطالعے میں نظر آتے ہیں۔ لیکن بالافسوس شمالی وزیرستان آپریشن کے نتیجے میں یہ ڈیٹا ضائع ہوگیا۔

بھائی نے مجھے بتایا کہ الحمدللہ اسحاق صاحب بلا کا حافظہ رکھتے ہیں اور کسی بھی چیز کو انتہائی سرعت سے سیکھ جاتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ کہ سبحان اللہ،اس بھائی کی باتیں میرے لیے بالکل نئی نہیں تھیں کیونکہ اس وقت تک میں اسحاق صاحب کے ساتھ (تحقیقاتی نشستوں میں) ایک طویل عرصہ گزار چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں کس قسم کی عقل سے نوازا ہے۔ بھائی نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اب ان کا چہرہ بالکل بدل گیا ہے اور ان کے چہرے پر نورِ (ایمان) کا مشاہدہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔

پھر جب میں نے اسحاق صاحب کو دیکھا تو ماشاءاللہ میں نے خود ان کے چہرے پر ایمان کے نور کا مشاہدہ کیا۔ جس لمحے میں ان کے کمرے میں داخل ہوا، انہوں نے مصافحہ کے لیے میری طرف ہاتھ بڑھایا… اور جب سے میں انہیں جانتا ہوں، وہ پہلی مرتبہ ہی ایسا کر رہے تھے۔ میں نے بھی انہیں مصافحہ کیا (یقیناً پہلی بار)، گلے لگایا اور ان کی پیشانی کا بوسہ لیا۔

دو اہم کام!

اس وقت مجھے اپنے سامنے دو نہایت اہم کام نظر آرہے تھے۔ اول: اسحاق صاحب کو مطلوبہ تربیت سے گزارنے کی کوشش کرنا۔ دوم: اطمینان حاصل کرنے کے لیے اسحاق صاحب کی حرکات و سکنات کا نہایت باریک بینی سے جائزہ لینا اور اگر ان کے معاملات درست جانب رواں ہیں تو (قیادت پر فائز) ساتھیوں کو اطمینان کروانا کہ اسحاق صاحب کا قبولِ اسلام ہمیں کسی دھوکہ دینے یا ڈرامہ رچانے کے لیے نہیں ہے۔ رپورٹ کے اگلے دو حصے انہیں مشاہدات کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو میں نے اب تک اسحاق صاحب اور ان کے قبولِ اسلام کے بعد کی زندگی کے حوالے سے کیے تھے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ!)

٭٭٭٭٭


1 بعض امنیاتی وجوہات کی بنا پر کچھ معلومات اس رپورٹ سے حذف کی گئی ہیں ۔جن کی نشاندہی ان حروف سے کی گئی ہے؛00000000

2 بعض مفید معلومات ادارہ السحاب کی جانب سے اس دستاویز میں شامل کی گئی ہیں!

Previous Post

کتابِ عظیم | دوسری قسط

Next Post

انڈونیشیا میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ پر مقامی طلباء کا حملہ

Related Posts

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | تیسری(و آخری) قسط

31 مئی 2024
اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

30 مارچ 2024
اپنی منزل، اپنا اندازِ سفر مت بھولنا!
اداریہ

اپنی منزل، اپنا اندازِ سفر مت بھولنا!

28 فروری 2024
تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط
تزکیہ و احسان

تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط

28 فروری 2024
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دوسری قسط

28 فروری 2024
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پچیس (۲۵)

28 فروری 2024
Next Post
انڈونیشیا میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ پر مقامی طلباء کا حملہ

انڈونیشیا میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ پر مقامی طلباء کا حملہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version