نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پچیس (۲۵)

ابو البراء الابی by ابو البراء الابی
28 فروری 2024
in حلقۂ مجاہد, فروری 2024
0

یہ تحریر تنظیم قاعدۃ الجہاد في جزیرۃ العرب سے وابستہ یمن کے ایک مجاہد لکھاری ابو البراء الاِبی کی تالیف ’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


پچیسویں وجہ: قید و بند

شیخ ابو قتادہ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

”جیل ایک آزمائش ہے۔ جو یا تو قیدی کو توڑ دیتی ہے، یا نچوڑ دیتی ہے یا پھر بار آور کرتی ہے۔ چنانچہ قیدی ہر قسم کی ملاوٹوں سے پاک ہو کر نکلتا ہے۔ نظریات کی ملاوٹیں، خواہشاتِ نفس کی ملاوٹیں…… اس طرح انسان کا ادراک ترقی پاتا ہے اور اس کا نفس اپنے آپ کو مزید نکھارنے اور اپنی تربیت کرنے کا عادی بن جاتا ہے۔ جیل کی تعریف اتنی ہی کی جاتی ہے جتنا انسان اس سے فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ نہیں کہ جیل خود قابلِ تعریف اور رہنے کے لائق ہے، کیونکہ ممکن ہے کہ انسان وہاں الٹے پاؤں پھر جائے۔ اور ممکن ہے کہ انسان ویسے ہی نکلے جیسے اس میں جاہل، اندھا اور بداخلاق داخل ہوا تھا۔ ممکن ہے کہ ان صفات میں وہ آگے بھی نکل جائے۔ اس سب کا دار و مدار انسان اور اس کی سوچ ہے کہ دنیا کا ظاہر اور معاملے کی اصل کیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ قید ہونا کوئی قابلِ تعریف مرتبہ نہیں ہے، اور نہ ہی ایسی چیز جسے انسان اس لیے حاصل کرے کہ اپنے ساتھیوں میں افضل قرار پائے۔ بلکہ دیکھا جائے کہ انسان اس تجربے سے کیا سیکھ پایا۔“

شیخ ابو محمد مقدسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

”جیل ایسی آزمائش ہے کہ جو یا بار آور کرے، یا توڑ ڈالے، یا خراب کر دے۔ یہ ایسی کہاوت ہے جسے ہم (جیل کے فارغ التحصیل) دہراتے ہیں۔ بعض افراد کو پسند ہے کہ ہمیں اس لقب سے یاد کریں۔ یہ کہاوت جیل میں ہمارے مشاہدے کی بنا پر مزید پکی ہو گئی۔ کیونکہ یہ جیل کی حقیقت اور اس میں داخل ہونے والوں پر مختلف اثرات بیان کرتی ہے۔ وہ لوگ جو اس کے کٹہروں، سلاخوں، پنجروں اور عقوبت خانوں میں زندگی گزارتے ہوں۔

جس نے اس زندگی کا مزہ نہ چکھا ہو اور قریب سے نہ دیکھا ہو، اسے قیدیوں کی جانب سے رونما ہونے والی بہت سی قلابازیوں اور بیان بازیوں پر تعجب ہو اور دھچکا لگا۔

جبکہ وہ شخص جس نے وہاں زندگی گزاری ہو اور جیل کی آزمائشوں کو جھیلا ہو اور اس کے تہہ خانوں میں اذیت اور عقوبت کے نت نئے طریقوں کا مزہ چکھا ہو، ممکن ہے کہ وہ قیدیوں پر حکم لگانے میں جلد بازی نہ کرے اور جب ان رہا شدگان کی طرف سے خلط ملط یا حتیٰ کہ الٹے سیدھے بیانات جاری ہوں تو دیکھ پرکھ لے ۔ اور جب ان قیدیوں کی طرف سے ایسے فتوے سنے جو ان کے منہج کے برعکس ہوں تو کچھ انتظار کر لے کیونکہ ممکن ہے ان میں سے بعض مجبوری کی حالت میں صادر ہوں۔

قیدی کی اہلیت اور قابلیت کم ہوتی ہے کیونکہ گمان ہے کہ اس پر دباؤ ڈالا گیا ہو یا مجبور کیا گیا ہو۔ اس لیے یہ جائز نہیں کہ جب تک وہ قید و بند سے آزاد نہ ہو جائے اس کے اقوال کی پوری ذمہ داری اس پر عائد کی جائے۔ جب وہ آزاد ہو جائے تو وہ اپنے اقوال کے بارے میں اپنی مرضی سے وضاحت دے، بغیر کسی دباؤ اور مجبوری کے۔ جہادی تحریکات کے علماء کے بارے میں یہ مزید ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ طواغیت کی دشمنی ان کے ساتھ زیادہ شدید ہوتی ہے اور ان پر دباؤ بھی زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تو ظاہری بات ہے کہ طواغیت کی دشمنی ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے ان کے سامنے تلواریں سونتیں اور اس پر اکسایا دیگر افراد کی دشمنی کی طرح نہیں ہو گی۔

اس لیے ہم نے ہر اس شخص کو نصیحت کی جو ہم سے ملنے آئے اور شیخ خضیر، شیخ ناصر فہد اور ان کی طرح دیگر علماء کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ قید میں ان سے صادر ہونے والے فتووں اور تبدیلئ آراء سے متاثر نہ ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جلد بازی نہ کرے اور ان علماء کی عزتوں کو اپنی زبان سے پامال نہ کرے۔ بلکہ دعا کرے کہ اللہ انہیں طواغیت کی چالوں سے محفوظ رکھے اور انتظار کرے یہاں تک کہ اللہ ان کو قید سے چھڑائے۔

اسی لیے ہم نے مصر کی الجماعۃ الاسلامیہ کی قیادتوں کو اپنی زبانوں سے محفوظ کیا جب ان کی طرف سے جیل کے اندر ہی آراء کی وہ تبدیلی دیکھنے کو ملی جو سب نے دیکھی۔ انہوں نے آراء کی تبدیلی کو ’نظر ثانی‘ کا نام دیا۔ اور آج تک ہم ان میں سے قید افراد کے بارے میں اپنی زبان نہیں کھولتے۔ بلکہ اللہ کی راہ میں دعوت، جہاد اور آزمائش میں ان کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔ برعکس ان کے جو جیل سے نکل گئے یا پہلے سے ہی باہر تھے۔ ایسے افراد میں سے بعض کا زمین کی پستیوں میں گر جانا اور موقف سے الٹا پھر جانا ہمیں برا لگا۔ اسی طرح ہمیں بہت برا محسوس ہوا کہ انہوں نے القاعدہ میں ہمارے مجاہد بھائیوں پر زبان دراز کی، ان سے تبریٰ کرنے کا آغاز کیا، اور انہیں جہادی عملیات پر توبہ کرنے کا کہا۔ جیسے کہ القاعدہ والوں نے کسی حرام اور گناہ کا ارتکاب کیا ہو۔ القاعدہ والوں کو اس دعوے کی بنیاد پر قصداً برا بھلا کہتے تھے کہ انہوں نے عام مسلمانوں کا قتل کیا اور مکہ اور عمرہ ادا کرنے والوں کو ہدف بنایا۔ یہ سب ان معلومات کی بنا پر جن کا اعلان کافر حکومتیں کرتی ہیں اور ان کے خبیث ذرائع ابلاغ پھیلاتے ہیں۔ حالانکہ انہیں ان حکومتوں اور ان کے ذرائع ابلاغ کے جھوٹ کا اچھی طرح تجربہ ہے کیونکہ اس سے پہلے وہ خود اس جھوٹ کی آگ سے جھلسے ہیں! وگرنہ آیا عاقل مسلمان یہ گمان کر سکتا ہے کہ القاعدہ اور ان کی طرح کے دیگر مجاہدین مسلمانوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں؟ چاہے وہ ریاض میں ہوں یا جدہ میں، یا کہیں اور۔ کجا یہ کہ وہ اللہ کی حرام کردہ سرزمین مکہ میں عمرہ کرنے والوں کو ہدف بنائیں؟ ما سوائے اگر یہ افراد مسلمانوں میں سے سی آئی اے یا ایف بی آئی کے ایجنٹ ہوں جن سے جزیرۂ عرب کی سرزمین بھر چکی ہے۔ یا ان کی مراد ایسے عمرہ کرنے والے طواغیت ہیں جو تصویریں بنانے کے لیے عمرہ کرتے ہیں تاکہ اپنی قوموں میں شائع کریں اور مسلمانوں کو عبادات کے دوران تنگ کریں۔

ہاں، جیل کبھی بہت اچھے پھل بھی دیتی ہے۔ جب داعی اور مجاہد جیل کے اوقات کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری اور عبادت میں گزارے۔ قرآن یاد کرے، علم دین سیکھے، دعوت دے، اپنے اور اوروں کے تجربوں سے فائدہ اٹھائے…… تاکہ زیادہ مضبوط ہو کر نکلے۔ اپنی دعوت کو مضبوطی سے پکڑے اور اپنے جہاد اور منہج پر ثابت قدم رہے۔

لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ٹوٹ جائے اور الٹے پاؤں پھر جائے۔ لوگوں کے عذاب کو اللہ تعالیٰ کا عذاب سمجھنے لگے۔ ایسی حالت میں وہ تبدیلی لائے، اپنے موقف سے پھر جائے اور زمیں بوس ہو جائے۔ جبکہ اس سے پہلے اسے حق کی پہنچان ہو گئی تھی، وہ حق دیکھ چکا تھا اور راہِ حق پر چل چکا تھا۔ اب وہ حق کو باطل سے خلط ملط کرنا شروع کر دیتا ہے، دین دشمن کی صفوں میں گھس جاتاہے۔ اس کی شکلیں بے شمار ہیں اور مختلف و متنوع ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے ہم عافیت، سلامتی اور خاتمہ بالخیر کا سوال کرتے ہیں۔

اور ممکن ہے کہ وہ گدلا اور کھوٹا ہو جائے۔ مطلب یہ ہے کہ جیل انسان کی طبیعت کے مطابق اسے راہِ راست سے ہٹا دیتا ہے۔ اگر وہ سختی کی طرف مائل ہو تو قید و بند اور عقوبت و اذیت اسے غلو کی طرف لے جاتی ہے۔ انہیں میں سےقید کی تکفیری نظریات نے جنم لیا، جس نے افراد کی عمومی تکفیر کی، پورے پورے معاشرے کو کافر قرار دیا۔ ان کے تکفیر کسی دلیل کے بنا پر نہیں ہوتی تھی بلکہ انتقامی اور متشدد ردِعمل تھا۔ جس سے کوئی نہیں بچتا ما سوائے جو خود ان کی طرح ہو اور ہو بہو ان کے عقائد کا حامل ہو۔ اس کے برعکس اگر قیدی کی طبیعت نرم ہو تو وہ جدید ارجاء اور جہمیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ تفریط اور مداہنت میں مبتلا ہوتا ہے۔ وہ رخصتیں یا علماء کی غلطیوں کو ڈھونڈتا ہے اور انہیں اپنانے لگتا ہے۔ سمجھ داری اور دلیل کے بنا پر نہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ جیل کی تنگی میں اس کی خواہش اور سوچ کے مطابق تھیں۔ جیل کی سختی کے نتیجے میں جینے کے اسباب ڈھونڈنے والی اس کی عقل جہاں منحرف ہوئی اسی طرح وہ اپنے پسندیدہ نظریات وضع کرتا ہے۔

یہ ساری آزمائشیں ہیں جن کے جھیلنے والوں کے ساتھ ہم رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی فضل و کرم اور احسان و توفیق سے ہمیں محفوظ رکھا۔ اہل افراط اور ان کے افراط سے بھی اور اہل تفریط اور ان کی تفریط سے۔

مزید جان لیجیے کہ سجن کے فتنے اور اللہ کے دشمن کی اذیتیں مختلف ممالک کی بنا پر کم اور زیادہ ہوتی ہیں۔ اسی طرح داعی کی اپنی دعوت اور صحیح عقیدے کے کھلم کھلا بیان کی بنا پر بھی۔ اسی طرح اس شخص کی طاغوت سے سب سے زیادہ دشمنی رکھنے والی جہادی تحریک کی قربت کی بنا پر بھی۔ اسی طرح قیدی پر قید میں گزرنے والے مرحلوں کے بنا پر بھی۔ قید کے شروع کے دنوں میں قیدِ تنہائی، لگاتار تفتیش، عقوبت خانوں کے چکر اور بیرونی دنیا سے رابطوں کے کٹ جانے کے مرحلے میں قیدی پر حالت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے بعد جب اس کا معاملہ کچھ سنبھل جائے اور اسے عمومی جیل میں منتقل کر دیا جائےجہاں وہ لوگوں سے رابطہ کر سکے تو اس کی حالت کچھ بہتر ہو جاتی ہے۔

یہ سب تفاصیل جاننے سے اور یہ کہ قیدی سے کس مرحلے اور کس حالت میں وہ بات نکلی جو اس نے کہی، اس سے اس کی حقانیت اور وقعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بہر حال جیل عموماً دباؤ اور زبردستی کی جگہ ہے۔ چنانچہ جب تک قیدی قید میں ہے تو وہ اس کی حالت کی مسلسل تبدیلی، اسے ایک قید خانے سے دوسرے میں منتقل کرنے، اس پر اچانک دباؤ پڑ جانے اور دیگر حالات کا شکار رہتا ہے۔ اور ان عناصر کا خیال رکھنا چاہیے اور پرکھنا چاہیے جب بھی قیدیوں کی طرف سے فتوے یا بیانات جاری ہوں۔ خصوصاً اگر یہ ان کے سابقہ منہج اور ان کے کردار کے مخالف ہوں۔“

شیخ ابو محمد مقدسی حفظہ اللہ نے مزید فرمایا:

”میں وہ کہتا ہوں جو کہ میں نے مسلسل تفتیش کے دوران تفتیش کاروں سے کہا: کیا تم جنوبی کوریا کے ’کیم سونگ میونگ‘ کو جانتے ہو؟ اللہ کے حکم سے وہ مجھ سے زیادہ ثابت قدم نہیں رہا ہوگا! جب تفتیش کار اس کے بارے میں دریافت کرتا تو میں بتاتا کہ وہ کھوکھلے اشتراکی نظریات کا حامل تھا۔ اس کے باوجود وہ جنوبی کوریا میں سب سے پرانا اشتراکی قیدی ہے جو اپنے نظریات کے سبب ۴۴ سال کے لیے کپڑوں کی الماری کے برابر کٹہرے میں بند رہا لیکن ایک لحظے کے لیے بھی اشتراکی نظریات پر یقین سے پیچھے نہ ہٹا۔ یہاں تک کہ اسے اس کے نظریات پر ہی رِہا کر دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت اشتراکیت کو شکست کا سامنا تھا اور سوویت یونین ٹوٹ چکی تھی اور لاکھوں اشتراکی اپنے نظریات چھوڑ چکےتھے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس شخص کو سب سے پرانا سیاسی قیدی قرار دیا ہے۔

یہ ستر سالہ شخص جیل سے تب نکلا جب اس کی جوانی جیل میں گزر گئی۔ اتنا لاغر ہو چکا تھا کہ اس کا دوست اسے سہارا دے رہا تھا۔ صحافیوں کے کیمروں کے سامنے کھڑا ہو کر بہ زبانِ حال پوری دنیا سے اور خصوصاً جنہوں نے اسے قید کیے رکھا تھا، ان سے کہہ رہا تھا: اگرچہ تم نے میرے جسم کو کمزور کر دیا ہے، ہڈیوں اور کمر کو توڑ ڈالا ہے، لیکن تم میرے ارادے اور عزم کو نہ کمزور کر سکے اور نہ کر سکو گے۔

شام کے سیاسی امن کے لیے قائم شدہ جیل میں مجاہد جمال رفعت عتیبی کو قید کیا گیا۔ اس انفرادی کٹہرے میں جو کہ تاریک اور متعفن تھا، ہر جگہ پھپوندی تھی۔ قرآن کریم پر پابندی تھی۔ وہ دور مسجدوں سے سنائی دینے والی ہر آیت کے لیے بے تاب رہتے، اسی کو دہراتے اور یاد کر لیتے۔ ایک دفعہ جرأت کرتے ہوئے انہوں نے قرآن کریم کا نسخہ طلب کیا تو انہیں جواب کٹہرے تک گھسیٹتے ہوئے گندی گالیوں کے ساتھ مار پیٹ اور مختلف قسم کی اذیتوں سے ملا۔

عتیبی فرماتے ہیں کہ جس دن مارتے ہوئے وہ مجھے کٹہرے تک لے کر گئے اس دن میں نے اپنے پہرہ دار سے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم لوگ مجھے قرآن کریم دے دیتے، میں اس کٹہرے میں ہزار سال رہ لیتا۔“

[شعر کا نثری ترجمہ]:

(اللہ کی قسم! دعوت کبھی بھی اذیتوں سے شکست نہیں کھاتی۔ تاریخ میں میری یہ قسم پوری ہو کر رہی۔

میرے ہاتھ زنجیر میں جکڑ دو، میرے سینے میں کوڑوں سے آگ لگا دو، میری گردن پر چھری رکھ دو۔

تم ایک گھڑی کے لیے میری سوچ کو گھیر نہ سکو گے۔ نہ ہی میرے ایمان کو اور نورِ یقین کو چھین سکو گے۔

نور تو میرے دل میں ہے، اور دل میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔ اور رب میرا حافظ و مددگار ہے۔)

٭٭٭٭٭

Previous Post

جمہوریت اکابر علمائے کرام کی نظر میں

Next Post

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دوسری قسط

Related Posts

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
Next Post
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version