نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ناول و افسانے

کتابِ عظیم | دوسری قسط

سبیل سالک by سبیل سالک
28 فروری 2024
in ناول و افسانے, فروری 2024
0

’’یار! ایک کش لے لو گے تو کون سا عادت پڑ جائے گی!‘‘

کانوں تک کٹی زلفوں والے ایک لڑکے نے سگریٹ عماد عمر کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ وہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔

دور کرو اس کو مجھ سے !‘‘اس نے غصے سے اس کے سگریٹ والے ہاتھ پر مارا جس سے سگریٹ نیچے گر گیا ۔

’’یار کبھی کبھار تم بالکل ہی بچے بن جاتے ہو!‘‘اس لڑکے نے ملامتی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور زمین پر گرا سگریٹ اٹھانے لگا۔

اس کو اپنے اس دوست کی بے باکی پر سخت اشتعال آیا تھا۔وہ اس کے سامنے سگریٹ پی لیا کرتا تھا حالانکہ جانتا تھا کہ عماد عمر کو سگریٹ پینے سے سخت نفرت تھی۔عماد عمر نے اس کو کبھی منع تو نہیں کیا تھا مگر اس کے دوستوں میں کبھی کسی نے اس کو سگریٹ آفر کرنے کی ہمت بھی نہ کی تھی۔آج پہلی دفعہ ایک لڑکے نے اس کو سگریٹ آفر کرنے کی ہمت کی تھی اور اس کا رد عمل بالکل بے ساختہ تھا۔

’’یار صرف ایک کش!‘‘وہی لڑکا دوبارہ اس کے پیچھے پڑ گیا۔

امتحانات ختم ہوگئے تو عماد عمر کے مشغلے ہی بدل گئے۔اب وہ آزادی سے یہ فراغت کا وقت گزار سکتا تھا۔ویسے تو اس کو اپنے ماں باپ کی جانب سے کوئی بھی پابندی نہیں تھی۔مگر دادو نے اس کی تربیت بڑی محنت سے کی تھی جس کی وجہ سے وہ عموماً ان بڑے گناہوں سے بچا رہا تھا جن میں اس کی عمر کے لڑکے مبتلا ہوجاتے تھے۔ بارہا اس کا بھی ان چیزوں میں شریک ہونے کا دل کیا مگر صرف دادو کو تکلیف نہ دینے کی خاطر وہ ان غلط مشغلوں سے دور ہی رہتا تھا۔

’’عماد عمر! میری تم سے بہت امیدیں وابستہ ہیں……مجھے یقین ہے کہ تم میرے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچاؤ گے……تم میری تربیت کا لاج رکھو گے!‘‘

ہر بار جب بھی وہ کسی غلط کام کا ارادہ کرتا اس کو دادو کی وہ بات یاد آجاتی تھی۔

’’میں کہہ رہا ہوں سبحان ! آئندہ میرے سے ایسی بے ہودہ بات کرنے کی ہمت نہ کرنا!‘‘عماد عمر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تلخ لہجے میں بولا ۔

’’یار! تیری دلیری کہاں کھو گئی……عرصہ ہوگیا تیری کسی بے باکی کو دیکھے ہوئے……تو تو دن بدن ڈرپوک بنتا جارہا ہے!‘‘اب عماد عمر کا خون کھولانے کے لیے اس کا ایک دوسرا دوست بھی آگیا۔

’’تف ہے عماد عمر ! تم نے ایسے دوستوں سے دوستی کی ہی کیوں؟‘ ‘

گو کہ دادو نے کئی دفعہ اس کو یہ جملہ کہا تھا اور وہ ہر دفعہ ان کی اس بات سے چڑ جاتا تھا مگر آج اس لمحے اس نے بھی دل میں بے اختیار یہی سوچا تھا۔

’’کچھ نہیں ہوتا بے بی عماد!……تمہاری گرینڈ مام یہاں پر نہیں ہیں!……ان کو نہیں معلوم ہوگا کہ ان کا عماد عمر سگریٹ کا ایک کش لگا رہا ہے‘‘سبحان نے اس کا تمسخر اڑایا۔

اس کا جملہ سن کر عماد عمر طیش میں آگیا۔بے ساختہ دل کیا کہ اس کے ہاتھ میں تھاما سگریٹ اس کے ہاتھ سے اچک کر منہ میں ڈال لے تاکہ اس کی بہادری کی دھاک سب پر بیٹھ جائے۔وہ آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے سگریٹ لے ہی لیتا ۔مگر کچھ سوچ کر سگریٹ کی طرف بڑھتا ہاتھ یک دم پیچھے کھینچ لیا۔

’’کیوں کیا ہوا؟ کیا پھر ڈر گئے؟‘‘ اس کو ہاتھ آگے بڑھاتے دیکھ کر لڑکوں کو کچھ امید پیدا ہوگئی تھی کہ وہ ان کے ساتھ برے کام میں شریک ہو ہی جائے گا۔

’’تم سمجھتے ہو کہ میں کمزور ہوں……دراصل ان غلط کاموں سے بچنے والے لوگ اصل بہادر ہوتے ہیں!‘‘

کل ہی تو دادو نے اس کو یہ بات کہی تھی اور اس پر ان کی بات کا اثر نہ ہوا تھا۔اب یہی بات اپنے دوستوں کے سامنے دوہراتے ہوئے اس کو حیرت ہوئی تھی۔

’’بڑے اچھے ڈائیلاگ یاد رکرکھے ہیں ‘‘، دوسرا لڑکا ہنسا’’یار کسی اور کو بہلاؤ ان باتوں سے!‘‘

’’زیرک! میرے غصے کو آواز نہ دو……میں نے کہا ہے آئندہ مجھ سے فضول باتیں مت کرنا!‘‘، اب کی بار عماد بہت درشتگی سے بولا تھا۔

لڑکوں نے بھی اس کو اس کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب سمجھا۔وہ جانتے تھے کہ جب عماد عمر کو غصہ آجاتا تو کسی کا لحاظ نہ کرتا تھا۔ عماد عمر ویسے اچھے مزاج کا لڑکا تھا،وہ دوستوں سے بہت کم لڑتا تھا مگر جب اس کو غصہ آجاتا تو کسی میں بھی اس کا غصہ سہنے کی تاب نہ ہوتی تھی۔

٭٭٭٭٭

میٹرک کا ریزلٹ آؤٹ ہوگیا ۔ عماد عمر کا بہت اچھا رزلٹ آیا تھا۔ میٹرک کے بعد ایف ایس سی میں بھی اس نے ہونہار طالب علم ہونے کا ثبوت پیش کیا تھا۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد اب وہ کسی اعلیٰ یونیورسٹی سے بیچلرزکرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ مختلف یونیورسٹیزمیں اپلائی کرچکا تھا۔حماد صاحب کا خیال تھا کہ عماد عمر کو پاکستان کی بجائے باہر کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہیے ۔حسینہ خاتو ن اور دادو نے البتہ اس خیال کی بہت مخالفت کی تھی۔حسینہ خاتون تو اپنی اکلوتی اولاد کو اپنے سے دور نہ کرنا چاہتی تھیں اور دادو یورپ یا امریکہ کے معاشرے میں اس کے ایمان کے لیے بہت فکرمند رہتی تھیں۔ عماد عمر اپنی ماں اور دادی کو دکھ تو نہیں دینا چاہتا تھا مگر پاکستان کی معاشی حالت اس کے سامنے تھی اور وہ جانتا تھا کہ اپنے ہی ملک میں رہ کر اس کا کوئی خاص مستقبل نہ ہوسکے گا۔

آج کا دن اس کا اسی دوڑ دھوپ میں ہی گزر گیا تھا۔ اپنے گھر پہنچا تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔گھر میں داخل ہوتے ہی اس کو یاد آیا کہ حماد صاحب کی آج کوئی بزنس پارٹی تھی جب کہ حسینہ خاتون کسی چیرٹی لنچ پر گئی ہوئی تھیں۔نوکر بھی اپنے اپنے کام کر کے کوارٹرز میں جاچکے تھے۔

’’دادو! دادو! آپ کہاں ہیں؟‘‘اچانک دادو کا خیال آنے پر لاؤنج میں ہی کھڑے کھڑے وہ ان کو پکارنے لگا ۔

دادو کی طرف سے جواب نہ پاکر وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھا۔اب وہ دادو کے کمرے میں سوتا تو نہیں تھا مگر دادو سے اس کو ابھی بھی اتنا لگاؤ تھا کہ دن کا بہت سا حصہ ابھی بھی وہ دادو کے ساتھ ہی گزارتا تھا۔

’’السلام علیکم دادو!‘‘دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر وہ دادو کے کمرے میں داخل ہوا۔

دادو حسب معمول اپنی محبوب ترین چیز ہی سن رہی تھیں۔کمر ے کا دروازہ کھلا تو قرآن کی خوبصورت تلاوت کی آواز عماد عمر کی سماعت سے گزری۔شاید یہی وجہ تھی کہ دادو کو اس کی آمد کا معلوم نہ ہوسکا تھا۔

’’وعلیکم السلام ……آگئے تم؟‘‘دادو نے ٹیپ ریکارڈر کی آواز آہستہ کردی۔

کمرے میں تلاوت کی دھیمی سی آواز سنائی دے رہی تھی۔

’’دادو! کیا کررہی ہیں؟‘‘

’’کچھ بھی نہیں……بس اللہ کا کلام سن رہی تھی!‘‘

اس نے کچھ حیرت اور عقیدت سے ان کو دیکھا۔دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی تھی مگر اس کی دادو ابھی تک اپنی ’اصل‘ سے ہی جڑی ہوئی تھیں۔

’’تم نے نماز پڑھ لی؟‘‘اچانک کسی خیال کے تحت انہوں نے اس سے پوچھا۔

’’جی راستے میں ہی مسجد میں پڑھ لی تھی‘‘اس نے ان کی تسلی کروائی، ’’دادو پتہ ہے…… جرمنی کی ایک یونیورسٹی میں میرا ایڈمیشن ہوگیا ہے۔‘‘

وہ جانتا تھا کہ آگے سے دادو کیا ردعمل دیں گی۔مگر حسب توقع دادو نے کچھ بھی نہ کہا۔بس خاموشی سے اس کو دیکھتی رہیں۔

’’کیا ہوا دادو؟ آپ مجھے مبارکباد نہیں دیں گی؟‘‘اس نے ان کو چھیڑنے کی کوشش کی۔

’’کس بات کی مبارکباد دوں ؟……اس بات کی کہ تم میرے جنازے پر بھی نہیں پہنچ سکو گے؟ یا اس بات کی کہ اب تمہاری پوری زندگی مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ پہنچاتے گزر جائے گی!؟‘‘ ……۔

’’یہ دادو بھی نا……بلیک میلنگ بڑی اچھی کرلیتی تھیں!‘‘، وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔

’’دادو! میں صرف پڑھنے جارہا ہوں……اس کے بعد واپس آجاؤں گا ان شاء اللہ!‘‘وہ دادو کے برابر میں ہی جگہ بنا کر بیٹھ گیا۔

ان کی بوڑھی آنکھوں میں کچھ ٹوٹا تھا۔عماد عمر نے ان سے نظریں چرا لیں۔

’’دادو ! میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں واپس……‘‘

’’عماد عمر!…………میں نے تم سے اور حماد عمر سے بہت امیدیں باندھیں تھیں۔میری ہمیشہ سے یہ خواہش تھی کہ میرا بیٹا بڑا ہوکر کوئی بڑا کام کرے …………مگر حماد عمر نے میری امیدوں پر پانی پھیر دیا………… وہ بڑا ہوتے ہی دنیا کی رنگینیوں میں ہی کھو کر رہ گیا!…………پھر میں نے تمہارے اوپر بہت محنت کی عماد عمر!…………میں نے تمہیں اللہ ،اس کے رسول اور اس کی کتاب سے جوڑ کر رکھنے کی بہت کوشش کی …………مگر عماد عمر…………شاید یہ قسمت کا لکھا ہے کہ ایک بار پھر تم بھی میری تمام امیدوں پر پانی پھیرنے جارہے ہو!‘‘

دادو کی جذباتی باتیں سن کر عماد عمر حیران ہی رہ گیا تھا۔ان کا پوتا اتنی اچھی جگہ پڑھنے جارہا تھا۔ان کا تو سر فخر سے بلند ہوجانا چاہیے تھا۔اس یونیورسٹی میں تو مشکل سے کسی کو داخلہ ملتا ہے۔اور عماد عمر کو تو میرٹ پر داخلہ مل گیا تھا۔

’’دادو! میں………… میں…………کیاکہوں؟………… آپ لوگ جو ہیں نا………… ابھی تک پرانی دنیا میں ہی رہ رہے ہیں…………آج کی دنیا میں کامیابی کا معیار کچھ اور ہے!‘‘

وہ ابھی مزید کچھ کہنا چاہتا تھا کہ دادو نے اس کا جملہ اچک لیا۔

’’عماد عمر! تم نے یورپ جانا ہی ہے تو بس مجھ سے ایک وعدہ کرو‘‘دادو اس کی بات کاٹ کر بولیں۔

’’کیا؟‘‘عماد عمر نے پلکیں جھپکائے بغیر پوچھا۔

’’یہ کہ وہاں جاکر تم اپنے اللہ کو نہیں بھولو گے……اپنے نبی ﷺ کو نہیں بھولو گے……اللہ کی کتاب کو نہیں بھولو گے!‘‘دادو بولیں۔

عماد عمر نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔وہ تو سمجھا تھا نجانے وہ کیا کہنے لگی ہیں۔مگر انہوں نے تو آسان سی چیز مانگی تھی۔

یا شاید وہ اس کو آسان سمجھتا تھا۔

’’ٹھیک ہے دادو!‘‘

’’اور کبھی کسی گناہ کے قریب نہ جانا!……حلال کھانا……اور حرام سے بچنا!……چاہے وہ مال حرام ہو یا عمل حرام!‘‘

’’ٹھیک ہے دادو !‘‘عماد عمر نے دھیرے سے سر ہلایا۔

دادو کے سامنے بیٹھا وہ عماد عمر اس عماد عمر سے یکسر مختلف ہوتا تھا جس کو باہر کی دنیا جانتی تھی۔بااعتماد، تھوڑا سا ضدی اور کسی سے نہ ڈرنے والا عماد عمر اپنی دادو کے سامنے بالکل بدلا ہوا اور ایک شریف سا بچہ بن جاتا تھا۔

’’ٹھیک ہے دادو! میرا آپ سے وعدہ!‘‘

’’اور تم واپس پاکستان ضرور آؤ گے……وہاں کافروں کے غلام نہیں بن جاؤ گے!‘‘

’’ٹھیک ہے دادو! میرا آپ سے وعدہ!……اب خوش؟‘‘اس نے مسکرا کر پوچھا۔

مگر دادو کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہ آسکی بلکہ آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

’’خوش تو میں کبھی بھی نہیں ہوسکتی…………بس اب میں تمہارے لیے دعا گو رہوں گی!‘‘دادو نے اپنے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔

٭٭٭٭٭

اندھیرے کمرے میں شیشے کی قیمتی میز پر صرف ایک موم بتی جل رہی تھی۔موم بتی کی لرزتی ہوئی روشنی کمرے کو روشن کرنے کی بجائے شیطنت کا احساس دے رہی تھی۔شاید اس احساس میں شدت ان دو نفوس کی موجودگی کی وجہ سے ہورہی تھی، جو ایک دوسرے سے بالکل قریب کھڑے انتہائی پست آواز میں بات کررہے تھے۔موم بتی کی روشنی میں ان کے سائے بھی لرزتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔

’’نہیں بیٹے! ابھی اس کا وقت نہیں آیا!……… ابھی مزید انتظار کی ضرورت ہے!‘‘ موم بتی کی مدھم سی روشنی بولنے والے کے چہرے پر کریہہ سائے ڈال رہی تھی۔

سفید داڑھی والا وہ ایک بوڑھا شخص تھا جس کے جسم پر رعشہ طاری تھا۔مگر بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں شیطانیت ابھی بھی رقص کررہی تھی۔اس کے پہلو میں بھوری آنکھوں والا ایک نوجوان بیٹھا تھا۔اس کی پیٹھ ،موم بتی کی روشنی پڑنے سے پیلی پیلی لگ رہی تھی ۔ چہرہ اس کا ویسا ہی تاریک تھا جیسا کہ اس کا دل۔

’’ابا! آپ پچھلے کتنے سالوں سے اس منصوبے پر عمل کررہے ہیں………اب میرے خیال میں اس کو ٹیسٹ کرنے کا وقت آگیا ہے!‘‘

’’نہیں راحول برائٹ! نہیں!‘‘بوڑھا یک دم غصے سے بولا’’ابھی مسلمانوں کی غیرت ختم نہیں ہوئی!……… وہ ہمیں تباہ کردیں گے!‘‘

’’ابا! آپ نے جب یہ تجاویز ۱۹۴۰ء میں لندن کے ’لاج‘ میں پیش کی تھیں تب تو آپ بڑے پر امید تھے………مگر اب میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کچھ مایوس ہونے لگے ہیں!‘‘نوجوان کی آواز بھی کچھ بلند ہوگئی۔

’’راحول!…تب میں سمجھتا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کو سلا دیا ہے……… ان کو دبا دیا ہے……… مگر اب دنیا کی حالت دیکھو تو مسلمان تو ہر جگہ جاگ چکے ہیں………ہمیں نوچ ڈالنے کو بے چین ہیں!‘‘

نوجوان چند لمحے اس بوڑھے شخص کو دیکھتا رہا۔بوڑھا بھی شاید اتنا بولنے کے بعد تھک سا گیا تھا۔ قریب ہی موجود کرسی پر بیٹھ کر گہرے گہرے سانس لینے لگا۔

’’ابا! آپ کو اب فکر کی ضرورت نہیں ہے……… ہمیں فکر تب ہوتی جب ہمیں یا ہماری کمیونٹی کو کچھ گزند پہنچنے کا خطرہ ہوتا!………اب ہم اسرائیل کی سرزمین پر ہیں اور بالکل محفوظ ہیں………ہمیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا!‘‘

’’اور یہ جو فلسطینی دن رات ہمارے ناک میں دم کیے رہتے ہیں……… وہ؟‘‘ بوڑھا تنک کر بولا۔

نوجوان کے چہرے پر بھی مزید تاریکی چھا گئی۔وہ بھی گہری سوچ میں گم ہوگیا۔اس کا باپ شاید ٹھیک ہی کہتا تھا۔وہ شیشے کے محل میں رہتے ہوئے کسی دوسرے کے گھر پر پتھر نہیں اچھال سکتےتھے۔

اچانک راحول برائٹ نے اپنا سر اٹھا یا اور ایک مکرو ہ مسکراہٹ اس کے بھدے سے چہرے پر پھیل گئی۔

’’ہم ایسا کام کریں گے کہ کسی کو شک بھی نہ ہوگا کہ اس سارے منصوبے کے پیچھے ہم یہودیوں کا ہاتھ ہے!‘‘

’’دیکھ لو راحول…کہیں الٹا نقصان ہی نہ کر بیٹھنا!‘‘بوڑھے برائٹ نے ایک دفعہ پھر اس کو خبردار کرنا چاہا۔وہ جانتا تھا کہ جو کام اس کا بیٹا کرنے کا سوچ رہا تھا وہ صدیوں سے ان کا خواب تو تھا مگر یہ کام گویا آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا۔

’’نہیں ابا! اس دفعہ تم فکر ہی نہ کرنا………ہم نے چند Satanist لڑکوں میں سے ایک لڑکے کا انتخاب کیا ہے……… یہ لوگ تو ہمارے لیے تیار کھیتی ہوتے ہیں………وہ شیطان کے ایک اشارے پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجائے گا!……… مسلمانوں سے وہ شدید نفرت کرتا ہے………وہ یہ کام انجام دینے کے لیے تیار ہے۔‘‘

’’ٹھیک ہے………مگر اس کی حفاظت کا مکمل انتظام رکھنا………یہ نہ ہو کہ اس کو کوئی مسلمان نقصان پہنچا بیٹھے اور ہمارا منصوبہ الٹا پڑ جائے۔‘‘

’’ابا ! تم بے فکر رہو!……… میں نے اس کا انتظام کر لیا ہے۔‘‘

٭٭٭٭٭

جرمنی کی فلائٹ کے ٹکٹ لیے وہ اپنے گھر میں داخل ہوا ہی تھا کہ ٹھٹک کر رک گیا۔لاؤنج میں ٹی وی سکرین کے سامنے حماد صاحب ، حسینہ خاتون اور دادو کسی بات پر زور و شور سے بحث کررہے تھے۔اس کا ماتھا ٹھنکا۔یہ غیر معمولی بات تھی۔اس کے پاپا، ماما اور دادو بہت کم یوں اکٹھے بیٹھے نظر آتے تھے اور وہ بھی صبح ہی صبح ’دس بجے‘۔

’’کیا ہوا ہے؟ خیر ہے؟‘‘

اس کے ماں باپ کے چہروں پر ناگواری اور پریشانی کے آثار بہت واضح تھے مگر دادو کا چہرہ تو غصے سے سرخ ہورہا تھا۔

’’سنو…… ٹی وی پر کیا خبر چل رہی ہے!…… مر گئے ہیں مسلمان! کوئی بھی غیرت مند نہیں بچا! کوئی بھی باحمیت مسلمان اس دنیا میں نہیں بچا!‘‘ دادو کی آواز غصے سے بلند ہورہی تھی۔

بلند آواز سے بولنے اور جوش ِغضب کے باعث دادو کا جسم بری طرح لرزنے لگا تھا۔وہ صوفے پر ہی بیٹھی تھیں مگر ایسے لگ رہا تھا گویا ابھی زمین پر ڈھیر ہوجائیں گی۔

’’دادو! حوصلہ کریں……ہوا کیا ہے؟!‘‘عماد عمر جلدی سے ان کی طرف لپکا۔

خبر کی طرف تو عماد کی توجہ نہیں جاسکی تھی اس کو تو دادو کے ردعمل نے پریشان کردیا تھا۔حماد عمر اور حسینہ خاتون بھی ان کو پرسکون کرانے کی کوشش کررہے تھے۔

’’ تم پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا ہے؟!…… خود سن لو کیا ہوا ہے؟……… ان خبیثوں کی یہ مجال ہوگئی ہے!…… ہم سب مرے پڑے ہیں اسی لیے یہ ایسی ہمت کرلیتے ہیں!‘‘دادو اپنے آپ میں بالکل بھی نہیں تھیں۔

’’حماد عمر! اس میں ہم سب قصور وار ہیں……… اگر مسلمانوں کو اپنے دین سے پیار ہوتا……… اگر ہمیں اپنی کتاب سے پیار ہوتا تو کبھی ان کی یہ جرات نہ ہوتی!……… ان خبیثوں نے سمجھا کیا ہے اپنے آپ کو!… … ‘‘ کافروں پر غصہ ہوتے ہوتے اب وہ حماد عمر صاحب پر برسنے لگیں۔

’’اماں جان! یہ سب ان یہودیوں کی سازش ہے!……… یہ مسلمانوں کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں……… تاکہ کوئی مسلمان کوئی الٹی حرکت کربیٹھے اور یہ خوشی سے ڈھنڈورا پیٹتے رہیں کہ دیکھا مسلمان شدت پسند ہوتے ہیں۔‘‘ حماد عمر نے اپنے تئیں بڑا اچھا نقطہ اٹھا یا تھا۔

مگر دادو تو یہ سن کر مزید طیش میں آ گئیں۔

’’کاش کوئی ہوتا ایسا شدت پسند!……… تم سب کو ڈر ہوتا تھا نا کہ کہیں تمہارا بچہ شدت پسند نہ بن جائے……… میں نے جب تمہیں کہا تھا کہ عماد عمر اتنا ذہین ہے……… تم اس کو قرآن حفظ کروادو……… تو تم نے کہا تھا کہ تم اس کے تین سال ضائع نہیں کرنا چاہتے!……… کاش تم نے اپنے بچے کو اتنا شدت پسند بنادیا ہوتا!……… افسوس ہے تم پر حماد عمر……… اور افسوس ہے سب سے پہلے اس پر جس کی تربیت سے تم جیسے لوگ پیدا ہوتے ہیں!……… اگر مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کی کچھ اہمیت ہوتی تو یہ بندروں کی اولادیں کبھی بھی ہمارے قرآن کی توہین کا سوچ بھی نہ سکتے!‘‘

اب کی بار عماد عمر چونکا۔

’’ ہوا کیا ہے پاپا؟‘‘اس نے سرگوشی کے انداز میں حماد عمر سے پوچھا۔

’’عماد عمر! تم ان سیاسی باتوں سے دور ہی رہوتمہاری دادو کچھ ’جذباتی‘ ہورہی ہیں۔‘‘ حماد صاحب نے اس کو اشارے سے وہاں سے چلے جانے کو کہا۔

’’حماد عمر! یہ سیاسی باتیں نہیں ہیں…… یہ ہماری غیرت کا مسئلہ ہے…… یہ ہم ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی غیرت کا مسئلہ ہے…… میں دیکھتی اگر کوئی تمہاری توہین اس طرح سر عام کرتا تو تمہارا ردعمل کیا ہوتا!……تم تو عماد عمر کو اس شخص کا سر قلم کردینے بھیج دیتے!‘‘ دادو بپھر کر بولیں۔

’’اف! کیا ہوگیا ہے؟……کچھ مجھے بھی بتائیں نا!‘‘ عماد عمر نے اپنا سر پکڑ لیا۔

’’عماد عمر! جرمن کافروں نے ایک چرچ کے باہر سرعام قرآن کو جلایا ہے!……قرآن کے نسخے کے صفحے پھاڑ کر زمین پر پھینکے ہیں!……‘‘حسینہ خاتون آہستگی سے اس کے قریب ہوکر دکھ بھرے لہجے میں بولیں۔

عماد عمر کا دل ایک لمحے کو دھڑکنا ہی بھول گیا۔سینے میں ایک دم گھٹن کا احساس ہوا۔ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ گئیں۔اور جسم کے عضلات تن گئے۔

غم و غصے کا ایک طوفان تھا جو اس کے اندر اٹھا تھا۔اس کا بس چلتا تو ٹی وی کی سکرین ہی توڑ دیتا جس پر یہ منحوس خبر چل رہی تھی۔اس نے کچھ کہنے کو لب کھولے مگر پھر دوبارہ مضبوطی سے بھینچ لیے۔

وہ کیا کہتا؟…… صرف ’بولنے‘ سے ان کافروں کے دماغ کب ٹھنڈے ہوتے ہیں؟!

’’کیا دوبارہ؟‘‘ آخر کچھ دیر کے بعد اس کے مضبوطی سے بھنچے لبوں سے صرف یہی ادا ہوسکا۔

’’ہاں دوبارہ!‘‘دادو بولیں۔

’’عماد عمر! تم اندر کمرے میں جاؤ…… تمہاری پرسوں کی فلائٹ ہے…… تم تیاری کرو…… ہمارے مسلمان اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کروائیں گے…… تم فکر نہ کرو…… ان خبیثوں کی عقل ٹھکانے آجائے گی!‘‘ حماد عمر نے بھی غصے اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔

وہ سب ہی قرآن کی توہین کا سن کر غم زدہ ہوئے تھے مگر غضب کا ایک ابال تھا جو عماد عمر کے دل میں اٹھ رہا تھا۔ اس کا دل ودماغ غصے کے مارے ماؤف ہو رہا تھا۔ حماد عمر اس کے غصے کی کیفیت فوراً پہچان لیتے تھے اور جانتے تھے کہ ان کا بچہ غصے میں بالکل آپے سے باہر ہوجاتا تھا۔ اس لیے اس کو وہاں سے ہٹا دینا چاہا تھا۔

عماد عمر بھی کچھ بھی بولے بغیر لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔

٭٭٭٭٭

وہ اپنی دونوں ہتھیلیوں سے کنپٹیاں مسل رہا تھا۔ کل جو خبر سن کر اس کو غصہ چڑھا تھا، وہ اب تک اتر نے کا نام نہ لے رہاتھا۔ غصے کی لہریں اس کے پورے جسم کو جلا رہی تھیں۔ وہ ایک ان دیکھی آگ میں جل رہا تھا۔ اپنی بے بسی پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔

’’ان خبیثوں کی یہ مجال!…… مسلمانوں کے زندہ ہوتے ہوئے ان کی یہ مجال؟!…… عماد عمر کے زندہ ہوتے ہوئے ان کی یہ ہمت!‘‘

وہ غصے سے بس یہی جملے دوہرائے جارہا تھا۔

’’میرے رب کی کتاب کو ناپاک ہاتھ لگانے کی ان میں ہمت کیسے ہوئی؟‘‘وہ یہ سوچ کر بار بار بپھر رہا تھا۔

’’یہ مسلمانوں کو دکھانا کیا چاہتے ہیں؟…… یہ کہ ہم تمہارے دین کو جیسے بھی چاہیں گزند پہنچادیں تم آگے سے ہمیں کچھ جواب دینے کے قابل نہیں ہو؟!‘‘

اس کے سر میں درد کی ایک تیز لہر اٹھی تھی۔

کل سے وہ اپنے کمرے میں ہی بند پڑا تھا۔ نہ انٹرنیٹ کھولا۔ نہ ہی اپنی یونیورسٹی کی ویب سائٹ کھولی۔ الماری کے پاس اس کا سوٹ کیس ابھی تک ادھ کھلا پڑا تھا۔ آج اس کو اپنی پیکنگ مکمل کرلینی چاہیے تھی مگر اس نے کل کے بعد سے کوئی ایک بھی چیز پیک نہیں کی تھی۔ ایک دم دنیا کی ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ ہوگیا تھا۔

’’ٹھک ٹھک!‘‘

دروازہ کھٹکنے کی آواز پر وہ اپنی سوچوں سے باہر آیا۔

’’آجائیں!‘‘سپاٹ سے لہجے میں بول کر وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔

کنپٹیوں کے پاس سے دونوں ہاتھ نیچے کر لیے اور دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ کھلا اور ایک بوڑھا اور ضعیف سا وجود اندر داخل ہوا۔

’’دادو آپ؟‘‘دادو کوچھڑی کے سہارے اندر آتا دیکھ کر وہ جھٹ سے اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کی طرف لپکا۔

’’عماد عمر! سنو کیا خبر آئی ہے‘‘ دادو اس کو دیکھ کر چہکیں ’’کل جس نے جرمنی میں قرآن کی بے حرمتی کی تھی نا…… آج ایک تیونسی مسلمان نےا س پر چاقوکے وار کیے ہیں…… اس کو زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا ہے اور مسلمان کو گولی مار کر شہید کردیا گیا ہے!‘‘

’’کیا واقعی؟‘‘ اس نے بے یقینی سے پوچھا۔

سر میں درد کی جو لہریں صبح سے اٹھ رہی تھیں ۔وہ مانند پڑگئیں ۔دل اور کندھوں پر سے ایک عظیم بوجھ اترتا محسوس ہوا۔

’’یا اللہ تیرا شکر کہ غیرت مسلم ابھی زندہ ہے!‘‘اس نے جذباتی ہوکر کہا۔

’’ہاں!…… مگر میں سوچ رہی تھی کہ عماد عمر…… اگر تم کچھ دن پہلے جرمنی چلے گئے ہوتے تو تم ہی اس خبیث کو کیفر کردار تک پہنچا دیتے!‘‘ دادو ابھی تک اس کے کمرے کے دروازے پر ہی کھڑی تھیں ’’کاش وہ مسلمان تم ہوتے عماد عمر!…… کاش میں خبروں میں سنتی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے عماد عمر نے قرآن کی بے حرمتی کرنے والے کو قتل کردیا ہے!…… میرا دل کتنا ٹھنڈا ہوتا۔ ‘‘

دادو کی بات سن کر عماد عمر نے بھر پور قہقہہ لگا یا تھا۔ چند دن پہلے تک دادو اس کے جرمنی جانے پر کتنا خفا ہورہی تھیں اور اب یہ تمنا کررہی تھیں کہ کاش وہ کچھ عرصہ پہلے جرمنی چلا گیا ہوتا!

’’اندر آئیں نا دادو!‘‘ اس نے دادو کو سہارے سے اندر لانا چاہا۔

’’نہیں! بس میں اپنے کمرے میں ہی جاؤں گی……… میں نے محسوس کیا تھا کہ تم کل سے بہت ڈسٹرب ہو…… اس لیے تمہیں یہ خوشی کی خبر سنانے آئی تھی!‘‘

’’جزاکِ اللہ دادو!‘‘وہ مسکرایا۔

دادو واپس چلی گئیں۔اور عماد عمر جلدی سے اپنا لیپ ٹاپ کھول کر انٹر نیٹ دیکھنے لگا۔ اس واقعے کے بارے میں مزید تفصیلات اس کو انٹرنیٹ سے ہی مل سکتی تھیں۔

٭٭٭٭٭

’’یہ تو ویسا نہیں ہوسکا راحول جیسا ہم نے چاہا تھا!‘‘ بوڑھا یہودی آج کچھ پریشان اور بد حواس سا لگ رہا تھا۔

وہ دونوں آج بھی کمرے میں اکیلے ہی تھے مگر وقت صبح کا تھا اور کمرے کی کھڑکی پر دھرے بھاری پردوں میں سے سورج کی روشنی چھن کر آرہی تھی۔

’’میں نے جرمنی کے چانسلر سے پہلے ہی کہا تھا کہ جب یہ کام کریں تو اس شخص کی سیکورٹی کا بہت خیال رکھیں…… مگر انہوں نے بد احتیاطی کی……وہ تو شکر ہے کہ وہ مر نہیں گیا…… اس کی حالت خطرے سے باہر ہے!‘‘

بوڑھا یہودی کچھ دیر اس کو دیکھتا رہا۔پھر سر جھکا کر نفی کرنے والے انداز میں دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں گھمانے لگا۔

’’نہیں راحول!……نہیں!… … ایسے فائدہ نہیں ہوگا!……‘‘ کہتے ہوئے اس نے سر اٹھایا اور اپنے بستر سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ’’اس طرح تو الٹا لوگوں پر مسلمانوں کا رعب پڑگیا ہوگا!‘‘

راحول برائٹ اپنے باپ میخائل برائٹ کو بغور دیکھ رہا تھا۔اس کا باپ بہت ذہین تھا۔ایسا نقطہ لاتا تھا جس کی جانب کسی کی توجہ نہ گئی ہوتی تھی۔میخائل برائٹ جھکی کمر اور لرزتے ، کانپتے وجود کے ساتھ دھیرے دھیرے اور احتیاط سے ایک ایک قدم اٹھاتا کمرے کے دائیں جانب کو کھڑے راحول کے برابر میں آکر کھڑا ہوگیا۔

میخائل برائٹ جس نے ۱۹۴۰ء میں فریمیسن کے لاج میں وہ منحوس تجاویز پیش کی تھیں۔اب تک ان تجاویز پر عمل پیرا ہونے کے باوجود بہت مایوس لگ رہا تھا۔ مگر اس کی باریک آنکھوں میں بڑھاپے کے باوجود شاطرانہ چمک ابھی تک مانند نہ پڑی تھی۔

’’ہمیں دوبارہ یہ کام تب کرنا ہوگا جب ہمیں اس بات کا یقین ہوکہ ہم ان کے مقدسات کی حرمت کو پامال کریں گے اور مسلمان ہمارے معاشرے میں موجود ہونے کے باوجود ہمیں کچھ نہیں کہہ سکیں گے!…… وہ اس کو آزادی اظہار رائے ہی سمجھیں گے!‘‘ بوڑھا یہودی اپنی اجاڑ داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ’’تبھی ہمیں فائدہ ہوگا راحول……… تب ہی ہمارا ایجنڈا پورا ہوگا……… جب مسلمان اتنے کمزور ہوجائیں گے تو اس وقت دنیا میں یہودی بالادستی ایک حقیقت بن سکے گی……… جب مسلمانوں میں سے دم نکل جائے گا……… وہ وقت ہوگا جب ہم اس پوری دنیا پر حکومت کے اپنے خواب پورے کرسکیں گے! …‘‘

’’نہیں ابا! اب جو میں نے آگ لگا دی ہے……… وہ بجھنے والی نہیں……… ہمارے صہیونی اور عیسائی ساتھی اب ہمارے اشارے کے منتظر نہیں رہیں گے!……… وہ اب خود ہی تمام اقدامات اٹھائیں گے!‘‘ راحول برائٹ اپنے سر کو ہلاتے ہوئے بولا۔اس کے سر کے دونوں کو طرف لٹکی مینڈیاں اس کے سر کے ساتھ ہلتی عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھیں۔

’’ٹھیک ہے……… ہمیں کیا پروا…… اگر ’’Gentiles‘‘ کا نقصان ہو تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں!……… مگر یاد رکھنا……… کسی یہودی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے!……… راحول!‘‘ بوڑھے نے مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ مگر آخری جملہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں تنبیہ راحول نے محسوس کرلی تھی۔

’’تم بے فکر رہو ابا!‘‘

’’تمہیں پتہ ہے کہ ہمارا ایک ایک فرد کتنا قیمتی ہوتا ہے……… اگر کسی یہودی کو نقصان پہنچ گیا تو ہماری کمیونٹی یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گی! ہم صدیوں سے مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں…… اب ہم سر اٹھا کر جینا چاہتے ہیں!‘‘

’’ہم سر اٹھا کر ہی جی رہے ہیں ابا!‘‘راحول نے نخوت سے آنکھوں پر گرتے پپوٹوں کو سکیڑا’’تم دیکھتے نہیں کس طرح پوری دنیا ہماری غلام بن چکی ہے!‘‘

بوڑھے نے اثبات میں سر ہلایا پھر اپنا کانپتا لرزتا وجود سنبھالتا دوبارہ بیڈ پر بیٹھ گیا۔

’’ایسا ہی رہنا چاہیے!……جب تک ہمارا مسیح نہیں آجاتا…… ہمیں اپنی محنت جاری رکھنا ہوگی!‘‘

وہ بستر پر بیٹھ کر آہستہ آواز سے بڑبڑانے لگا۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | فروری 2024

Next Post

اسلام کا مسافر! | پہلی قسط

Related Posts

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | ساتویں قسط

12 اگست 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

14 جولائی 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
ناول و افسانے

خواب سے حقیقت تک

31 مارچ 2025
Next Post
اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

اسلام کا مسافر! | پہلی قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version