نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دوسری قسط

معاصر جہاد کے لیے سیرتِ رسول ﷺ سے مستفاد فوائد و حِکَم!

منصور شامی by منصور شامی
28 فروری 2024
in اُسوۃ حسنۃ, فروری 2024
0

زیر نظر تحریر شیخ منصور شامی (محمد آل زیدان) شہید ﷫ کے آٹھ عربی مقالات کا اردو ترجمہ ہے۔ آپ ﷫ محرم ۱۴۳۱ھ میں وزیرستان میں شہید ہوئے۔ یہ مقالات مجلہ ’طلائع خراسان‘ میں قسط وار چھپے اور بعد ازاں مجلے کی جانب سے محرم ۱۴۳۲ھ میں کتابی شکل میں نشر ہوئے۔ ترجمے میں استفادہ اور ترجمانی کا ملا جلا اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ مترجم کی طرف سے اضافہ کردہ باتوں کو چوکور قوسین [] میں بند کیا گیا ہے۔ (مترجم)


سریۂ عبداللہ بن جحش ﷜

پس منظر

سیرت نگاروں نے لکھاہے :رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کے سترہ ماہ بعد حضرت عبد اللہ بن جحش﷜ کی سرکردگی میں بارہ مہاجرین کا دستہ مقامِ ’نخلہ‘1 کی طرف روانہ فرمایا،ایک اونٹ پر دو افراد باری باری سوار ہوتے تھے،یہ دستہ بطنِ نخلہ میں پہنچ کر قریش کے تجارتی قافلے کی تاک میں بیٹھ گیا،اسی سریے میں حضرت عبداللہ بن جحش ﷜ کو ’امیرالمومنین ‘ کا لقب دیا گیا، رسول اللہﷺ نے ایک تحریر لکھ کر ان کے حوالے کردی تھی اور ارشاد فرمایا :’’دودن سفر کرنے کے بعد اسے کھول کر پڑھنا‘‘۔جب امیرِ سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش﷜ نے دودن کے سفر کے بعد نامۂ مبارک کو کھولا تو اس میں لکھا تھا:’’اس خط کو پڑھ کر چلتے رہنا اور مکہ و طائف کے بیچ ’نخلہ‘ میں قریش کے قافلے کی گھات میں بیٹھ جانااور ہمیں اس کی خبر سے آگاہ کرنا[اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو مجبور نہ کرنا]‘‘۔یہ پڑھ کر حضرت عبداللہ بن جحش﷜ نے کہا:’’آپ ﷺ کا حکم سرآنکھوں پر‘‘۔آپ﷜ نے دوسرے ساتھیوں کو بھی یہ بات بتادی اور ان سے کہا:’’میں آپ میں سے کسی کو مجبور نہیں کرتا،جسے شہادت چاہیے وہ آگے بڑھے اور جو موت سے گھبرائے وہ واپس لوٹ جائے،میں تو ضرور آگے بڑھوں گا‘‘۔یہ سن کر سب صحابہ﷢ آگے بڑھے،سفر کے دوران حضرت سعد بن ابی وقاص﷜ اور عتبہ بن غزوان﷜ کی سواری کا مشترکہ اونٹ گم ہوگیا،لہٰذا یہ دونوں اس کی تلاش میں لگ گئے اور باقی افراد حضرت عبداللہ بن جحش ﷜ کی سرکردگی میں آگے بڑھتے رہے اور ’نخلہ‘ تک پہنچ گئے،قریش کا قافلہ کشمش، چمڑا اور دیگر سامانِ تجارت لیے اسی جگہ پہنچا،اس قافلے میں عمرو بن الحضرمی ،عبداللہ بن مغیرہ کے دو بیٹے عثمان ونوفل اور بنومغیرہ کا غلام حکم بن کیسان تھے۔مسلمان باہم مشورہ کرنے لگے:’’آج حرمت والے مہینے رجب کا آخری دن ہے،اگر اس میں ہم نے قتال کیا تو اس مہینے کی حرمت پامال ہوگی2، اور اگر انہیں جانے دیا تو رات تک یہ حدودِ حرم داخل ہوجائیں گے‘‘۔مشورے میں طے پایا کہ مسلمان ان پر حملہ کردیں،مسلمانوں میں سے ایک فرد[واقد بن عبداللہ﷜] نے تیر چلایا،جو عمرو بن الحضرمی کا جا کر لگا اور وہ مرگیا،عثمان اور حکم مسلمانوں کی قید میں آگئے،لیکن نوفل بھاگ نکلا،مسلمان قافلے کے سامان کا خمس اور قیدیوں کو لے کر مدینہ حاضر ہوئے،یہ اسلام کی پہلی غنیمت،پہلا خمس3 ،پہلا مقتول اور پہلے دو قیدی تھے۔ حرمت والے مہینے میں قتال کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے خفگی کا اظہار کیا،قریش بھی باتیں بنانے لگے:’’محمد(ﷺ) نے حرمت والے مہینوں کو پامال کردیا‘‘۔مسلمان بہت پریشان تھے،ایسے میں وحی الٰہی نے آکر ان کی پریشانی کو دور کیا:

يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ ۭ قُلْ قِتَالٌ فِيْهِ كَبِيْرٌ ۭ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَكُفْرٌۢ بِهٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۤ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِهٖ مِنْهُ اَكْبَرُ عِنْدَ اللّٰهِ ۚ وَالْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ ۭ (البقرة: 217)

’’لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے ؟ آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا، مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے۔‘‘

نوزائیدہ اسلامی مملکت کے دفاع میں مہاجرین کا کردار

[ہجرت کے بعد پہلا سریہ سِیف البحر کی طرف بھیجا گیا ،امیر حضرت حمزہؓ تھے، سریے میں تیس مہاجرین تھے، انصاری کوئی نہ تھا۔دوسرا سریہ حضرت عبیدہ بن حارثؓ کی سرکردگی میں رابغ بھیجا گیا،ساٹھ یا اسّی مہاجرین سوار ہمراہ تھے،انصاری کوئی نہیں تھا۔اسی غزوے میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے اللہ کے راستے میں پہلا تیر چلایا۔تیسرا سریہ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی سرکردگی میں خرار کی جانب روانہ ہو،بیس پیادہ مہاجرین ہمراہ تھے،انصاری کوئی نہ تھا ۔

پھر پہلا غزوہ ہوا، جس میں آپﷺ بنفسِ نفیس تشریف لے گئے،اسے ابواء بھی کہتے ہیں اور ودّان بھی،ساٹھ مہاجرین ہمراہ تھے،انصاری کوئی نہ تھا۔

پھر غزوۂ عشیرہ میں آپﷺ دوسو مہاجرین کو لے کو قریش پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلے،کوئی انصاری ہمراہ نہ تھا۔(ماخوذ از :سیرت المصطفیٰ) ]

اسلامی مملکت مدینہ منورہ کی ابتدائی جہادی مہمات میں غور کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ بیرونِ مدینہ جہادی مہمات کا پورا نہیں تو اکثر بوجھ مہاجرین پر ہی ڈالاگیا،رسول اللہﷺ کا یہ فیصلہ حکمت و مصلحت سے بھرپور تھا۔

  1. ایک حکمت اس میں یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بیعت ِ عقبہ کے موقعے پر انصار نے کہا تھا:’’یارسول اللہﷺ! جب تک آپﷺ ہجرت کرکے ہمارے یہاں تشریف نہیں لے آتے ،ہم پر آپ کی حفاظت کی ذمے داری نہیں،جب آپ ﷺ تشریف لے آئیں گے تو آپ ہماری پناہ میں ہوں گے ،ہم جس طرح اپنےبچوں اور عورتوں کا دفاع کرتے ہیں ،اسی طرح آپ کا بھی دفاع کریں گے‘‘۔ تو ممکن ہے کہ رسول اللہﷺ کو یہ اندیشہ ہو کہ انصار صرف مدینہ منورہ پر دشمن کے حملے کی صورت میں آپﷺ کی مددکرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں،اسی اندیشے کے پیشِ نظر رسول اللہﷺ نے غزوۂ بدر کے موقعے بار بار ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! مجھے مشورہ دو‘‘۔مقصد یہ تھا کہ انصار اپنی رائے کا اظہار کریں (البدایہ والنہایۃ)[آپ ﷺ کا اشارہ سمجھ کر حضرت سعدبن معاذؓ نے مکمل جانثاری کا اظہار کیا] ۔

  2. اور ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کفارِ مکہ سے براہِ راست عداوت اور دشمنی مہاجرین کی تھی،ان کے دلوں میں کفارِمکہ کے خلاف غیظ و غضب کا لاوا پک رہا تھا، کیونکہ کفارِ مکہ نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے تھے،ان سے ان کا مال و دولت بھی چھینا تھا، انہیں ان کے آبائی وطن سے بھی نکالا تھا،سو یہ بات عینِ حکمت تھی کہ کفارِ مکہ سے انتقام لینے کی ذمےداری انہی کو سونپی جاتی،اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآان کہتا ہے:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُ۝ (الحج: 39)

’’جن لوگوں سے جنگ کی جارہی ہے، انہیں اجازت دی جاتی ہے (کہ وہ اپنے دفاع میں لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے،اور یقین رکھو کہ اللہ ان کو فتح دلانے پر پوری طرح قادر ہے۔‘‘

نیز بنی اسرائیل نے جب اپنے نبی﷤ سے ایک بادشاہ مقرر کرنے کاکہا جس کی سرکردگی میں وہ جہاد کریں ،تو اپنے نبی کے ساتھ ان کے مکالمے کو قرآن یوں بیان کرتاہے:

اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ قَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاىِٕنَا. (البقرة: 246)

’’جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا تھا کہ ہمارا ایک بادشاہ مقرر کردیجیے تاکہ (اس کے جھنڈے تلے) ہم اللہ کے راستے میں جنگ کرسکیں۔ نبی نے کہا : کیا تم لوگوں سے یہ بات کچھ بعید ہے کہ جب تم پر جنگ فرض کی جائے تو تم نہ لڑو ؟ انہوں نے کہا : بھلا ہمیں کیا ہوجائے گا جو ہم اللہ کے راستے میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور اپنے بچوں کے پاس سے نکال باہر کیا گیا ہے۔‘‘

انسان کے ارادۂ جنگ کو سب سے زیادہ مشتعل کرنے والا عنصر اس کی اپنی ذات [اور اہلِ خانہ ]پر ہونے والا ظلم ہے،لہٰذا جو بھی جنگ جیتنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس جذبے کا درست استعمال اور اس سے پورا فائدہ اٹھانا سیکھے۔

آج دشمنانِ دین کی پوری کوشش یہی ہے کہ امت کو خود اس کے اپنے اوپر ہونے مظالم سے لاتعلق کردیا جائے اور اسے یہ باور کرایا جائے کہ کفار کی جنگ تو امت کے صرف ایک چھوٹے سے گروہ (مثلاً: القاعدہ یا طالبان)سے ہے[اور امت پر آنے والے مصائب کا سبب یہی چھوٹا سا گروہ ہے،اگر یہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے تو امت خوشحال ہوجائے گی]،اس پروپیگنڈے کا توڑ بہت ضروری ہے [کیونکہ یہ جنگ پوری امت کے دین ،عقیدے،خشکی ،تری،فضا،وسائل ،اقدار ،تہذیب اور اخلاقیات کی جنگ ہے]۔

  1. اس مرحلے میں بیرونی جنگ کا تمام بوجھ مہاجرین پر ڈالنے کی ایک حکمت یہ بھی ہوسکتی ہےکہ انصار کو جہاد کی ترغیب دی جائے ،دین کی خاطر سب کچھ لٹانے کا ایک عملی نمونہ ان کے سامنے رکھا جائے؛کیونکہ انسان کا دل ہمیشہ ایک حالت پر نہیں رہتا،اس میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں۔

دیکھیں !مدینہ انصار کا علاقہ ہے،مہاجرین نے وہاں آکر پناہ لی ہوئی ہے،کفار ِ مکہ کے ساتھ اصل دشمنی مہاجرین کی ہے،ایسے حالات میں انسان دوسروں کے پورے حقوق عام طور پر ادا نہیں کرپاتا،دوسروں کی خاطر اپنی جان دینے سے گریز کرتا ہے۔تو ان حالات میں جنگوں میں انصار کو آگے کرنے سے انصار کو مہاجرین کی نیت پر شک ہو سکتا تھا کہ شاید یہ ہمارا پتہ صاف کرکے خود مدینہ پر قابض ہونا چاہتے ہیں،منافقین بھی لگائی بجھائی میں لگ جاتے۔ نیز انصار ابھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے4 ،سو حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ مہاجرین آگے آگے رہیں،تاکہ شکوک و شبہات کی گنجائش ہی نہ رہے اور انصار میں بھی عملی قربانیوں کو دیکھ کر جہاد کا جذبہ پروان چڑھتا رہے،حتیٰ کہ وہ اس مسئلے کو صرف مہاجرین کا معاملہ نہ سمجھیں، بلکہ دین کی نسبت سے اپنا مسئلہ سمجھیں۔

[انصار کا خلوص ڈھکاچھپا نہیں تھا،مہاجرین کو انہوں نے اپنے اموال میں شریک کیا،بلکہ ایک انصاری حضرت سعدبن ربیع﷜ کی دو بیویاں تھیں،آپ نے اپنے مہاجر بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن عوف ﷜سے کہا:’’تمہیں ان دو میں سے جو پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوں ،تم اس سے نکاح کرلو‘‘۔لیکن آپ﷜ نے انکار کردیا۔لیکن ان کے خلوص کو جاننے کے باوجود رسول اللہﷺ نے محض اسی پر بھروسہ کرکے ان پر جہاد کا بوجھ نہیں ڈالا،بلکہ بتدریج تربیت و تزکیہ کے ذریعے ان کو ایمان کے اس درجے تک لے آئے کہ وہ مہاجرین کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھنے لگے،یہ مجاہدین کے لیے اپنے انصار سے تعامل کا ایک بہت اہم اصول ہے کہ ان کی ایمانی سطح بلند کرنے کی کوشش ضرور کی جائے ، لیکن ان پر ان کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالاجائے،جتنی نصرت کرنے کا انہوں نے وعدہ کیا ہو ان سے اس سے زیادہ کی امید نہ رکھی جائے ]۔

رازداری

رسول اللہﷺ نے حضرت عبداللہ بن جحش﷜ کے حوالے ایک خط کیا اور فرمایا:’’ابھی اس کو نہ کھولنا،دودن کے سفر کے بعد اسے کھول کر پڑھنا‘‘۔اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ جہادی کاموں کے لیے رازداری اور احتیاط ضروری ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جنگ کا پانسہ پلٹنے میں رازداری کا بہت اہم کردار ہوتا ہے،رازداری سے کام لینے والا بالعموم فتح یاب ہوتا ہے ،اور اس میں کوتاہی کرنے والا ناکام و نامراد۔بعض طفلِ نوآموز قسم کے لوگ رازداری کو بزدلی و کمزوری کے مترادف سمجھتے ہیں ،یہ ایک غلط خیال ہے۔بلکہ رازداری تو عین ِ قوت و حکمت ہے،جنگی چال اور داؤ پیچ کے زمرے میں آتی ہے۔

اہلِ توفیق ہر دور میں اسے بڑی کامیابی سے استعمال کرتے رہے ہیں،جب موسی﷤ کی والدہ نے آپ کو ایک صندوق میں بند کرکے دریا کے حوالے کیا تو ان کی بہن سے کہا: ’’تم دریا میں بہتے تابوت کاپیچھا کرتی جاؤ‘‘۔ موسیٰ﷤ کی بہن کے تعاقب کا طریقہ ذکر کرتے ہوئے اللہ جل جلالہ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ (القصص: 11)

’’چنانچہ اس نے بچے کو دور سے اس طرح دیکھا کہ ان لوگوں کو پتہ نہیں چلا۔‘‘

اور اصحابِ کہف نے بیداری کے بعد جب اپنے میں ایک فرد کو بازار کھانا خریدنے بھیجا تو رازداری کی تلقین کرتے ہوئے اس سے جو بات کہی اسے اللہ جل جلالہ نے قرآنِ کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:

وَلْيَتَلَطَّفْ وَلَا يُشْعِرَنَّ بِكُمْ اَحَدًا . (الكهف: 19)

’’اور اسے چاہیے کہ ہوشیاری سے کام کرے، اور کسی کو تمہاری خبر نہ ہونے دے۔‘‘

اس کے علاوہ بھی رازداری سے متعلقہ امور سے کتاب و سنت بھرے پڑے ہیں،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

استعینوا علیٰ قضأ حوائجکم بالکتمان فان کل ذی نعمۃ محسود.(صحيح الجامع)

’’اپنی ضرورتوں کو پورا کر نے میں رازداری سے کام لو،کیونکہ جس کو نعمت ملتی ہے،دوسرے لوگ اس سے جلنے لگتے ہیں۔‘‘

رازداری کے پیشِ نظر ہی رسول اللہﷺ نے سریے کے امیر سے بھی مقصد پوشیدہ رکھا،اس سے یہ حکم پتہ چلا کہ امیر جب مصلحت دیکھے تو اپنے مامور سے اپنا مقصود چھپا سکتا ہے۔(شرح السیر،العمدہ فی اعداد العدۃ)

کامیابی کے لیے امیر میں کن صفات کی موجودگی ضروری ہے؟

[حضرت سعد بن ابی وقاص ﷜ فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک سریے میں بھیجنے کا ارادہ کیا اور فرمایا کہ’’ میں تم پر ایسے آدمی کو امیر بناؤں گا جو تم میں سب سے زیادہ بھوک اور پیاس پر صابر ہوگا‘‘۔بعدازاں عبداللہ بن جحش﷜ کو ہمارا امیر بنایا ،یہ اسلام میں پہلے امیر تھے ۔(سیرت المصطفیٰ)]

اپنی جرأت ،بہادری اور شوقِ شہادت سے حضرت عبد اللہ بن جحش﷜ نے اپنے ساتھیوں میں بھی قربانی کی روح پھونک دی اور وہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

لشکر کا امیر پورے لشکر کی بنیاد ہوتا ہے،امیر قوی ہو تو لشکر بھی طاقتور ہوتا ہے اور امیر کمزور ہوتو لشکر بھی کمزور ہوتا ہے؛اسی لیے امام ابنِ تیمیہ﷫ فرماتے ہیں:’’جنگ کی قیادت میں متقی مگر کمزور پر طاقتور و بہادر کو ترجیح دی جائے گی،اگرچہ اس میں فسق ہو۔امام احمد بن حنبل﷫ سے یہ سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: (فاجر و بہادر کا فجور تو اس کی ذات کی حد تک ہے،لیکن اس کی شجاعت کا فائدہ مسلمانوں کو ہوگا،اور کمزور متقی کا تقویٰ اس کی ذات کی حد تک ہے،لیکن اس کی کمزوری کا نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑے گا؛لہٰذا قوی فاجر کو امیر بنایا جائے گا)‘‘۔(مجموع الفتاویٰ؛۱۴:۴۰۹)

مشہور کہاوت ہے:’’ہزارلومڑیاں جن کا قائد شیر ہوان ہزار شیروں سے بہترہیں جن کی قیادت لومڑی کے ہاتھ میں ہو‘‘۔کامیاب امیر وہی ہے جو مصیبت کے وقت ڈٹ جائے، ہمت دکھائے،دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کرے،اپنے سپاہیوں کے دلوں میں نئے ولولے پھونک دے،انہیں کامیابی کا یقین دلائے۔

دلی رضا مندی سے جنگ میں شامل ہونے کے مثبت اثرات

جب امیرِ سریہ حضرت عبد اللہ بن جحشؓ نے دودن کے سفر کے بعد نامۂ مبارک کو کھولا تو اس میں لکھا تھا:’’اس خط کو پڑھ کر چلتے رہنا اور مکہ و طائف کے بیچ ’نخلہ‘ میں قریش کے قافلے کی گھات میں بیٹھ جانااور ہمیں اس کی خبر سے آگاہ کرنا[اور اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو مجبور نہ کرنا]‘‘۔

اس واقعے اور سیرت کے دیگر واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جنگ کا فیصلہ مامور پر اس طرح مسلط نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو مجبورِ محض سمجھے ،بلکہ ایسا طرز اختیار کیا جائے کہ ماتحت جنگ کے فیصلے کو خود اپنے دل کی آواز سمجھے،[جنگ میں بسا اوقات سخت احکامات دیے جاتے ہیں،ہر ایک کی دلداری نہیں کی جاسکتی،لیکن یہاں یہ بتایا جارہا ہے کہ ماتحت جنگ لڑنے کے فیصلے کو خود پر جبر نہ سمجھے،کیونکہ اِس سے اُس کا ارادۂ جنگ متاثر ہوگا اور وہ کوئی خاص کا رکردگی نہیں دکھا سکے گا ،رہا جنگ لڑنے کا طریقہ تو ہر اچھا سپاہی یہ سمجھتا ہے کہ قائد کے احکام کو مان کر ہی جنگ درست طور پر لڑی جاسکتی ہے۔الغرض!جنگ لڑنے کا فیصلہ اور طریقہ ٔ جنگ طے کرنے کا فیصلہ دو الگ معاملات ہیں،پہلے میں سپاہی کی دلی رضامندی ضروری ہے،نہ کہ دوسرے میں۔]

انسان جب اپنی خوشی سے کوئی کام کرتا ہے تو اس کے جوہر کھلتے ہیں،وہ اپنی بہترین صلاحیتیں کھپاتا ہے اور عمدہ نتائج برآمدکرتا ہے،اس کے برعکس جب وہ خود کو کسی کام پر مجبور پاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ بے دلی سے محض احکام واوامر کو پورا کرتا ہےاور کوئی خاص کارنامہ بھی نہیں دکھا سکتا،بلکہ کبھی تو بالکل کچھ کرتا ہی نہیں، اور اگر کر بھی لے تو موقعے کی تاک میں رہتا ہے،جیسے ہی نگرانی میں کوتاہی دیکھتا ہے تو اپنا کام اور ذمے داری سے جان چھڑا کر دیگر مشغلوں میں لگ جاتا ہے۔

ابتدا میں جب جماعت کمزور ہو اور امیر کو حقیقی معنوں میں اقتدار و برتری حاصل نہ ہو تو ایسی صورت میں اس چیز کا خیا ل رکھنا اور بھی زیادہ ضروری ہے،کیونکہ لوگ جو کچھ کررہے ہوتے ہیں،اپنی خوشی سے کرتے ہیں،ایسے میں امیر پر لازم ہے کہ وہ ہر قدم حکمت سے اٹھائے،لوگوں کو یہ تاثر نہ دے کہ وہ اُن کے ساتھ زبردستی کررہا ہے،انہیں دھمکانے سے گریز کرے،ایسا کرے گا تو لوگ اس کی اطاعت سے روگردانی کرلیں گے۔

امیر کا حال لباس کی طرح ہے، جو انسان کے لیے ضروری تو ہے ،لیکن جو اپنی جسامت سے بڑے کپڑے پہنے گا وہ اُن کپڑوں میں اُلجھ کر خود ہی گرجائےگا،[لہٰذا امیر کو بھی لوگوں کی استطاعت سے زیادہ اپنی اطاعت نہیں کروانی چاہیے، ورنہ تو لوگ گرتے ہی رہیں گے اور مسافت طے کرکے منزل تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔]

یہ کہہ کر ہم کسی مسلمان کے لیے یہ دروازہ نہیں کھول رہے کہ وہ محض اپنی پسند کے امور میں امیر کی اطاعت کرے،بلکہ امیر کی اطاعت تو ہر کام میں ضروری ہے،خواہ وہ کتنا ناگوار ہی کیوں نہ ہو5 ۔ بلکہ امیر کو مامورین کے ساتھ تعامل کا طریقہ بتارہے ہیں کہ وہ اپنی حکمتِ عملی سے اپنے فیصلوں کو ماتحتوں کے دل کی آواز بنادے،تاکہ ہر ایک اس کے حکموں کی تعمیل میں اپنی بہترین صلاحیتیں کھپادے۔اس کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں،جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہر کام کی ابتدا امیر خود آگے بڑھ کر کرے،[جیسا کہ اس سریے میں امیرِ سریہ حضرت عبد اللہ بن جحش﷜ نے کیا۔]

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭


1 [مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے،مکہ سے ایک دن اور رات کا فاصلہ ہے۔]

2 [ابتدائے اسلام میں حرمت والے چار مہینوں(ذیقعدہ،ذی الحجہ، محرم،رجب) میں اقدامی جنگ کر نا ممنوع تھا،بعد میں اس کی اجازت مل گئی۔]

3 [ابھی غنائم سے متعلق احکام نازل نہیں ہوئے تھے ، حضرت عبد اللہ بن جحش ؓ نے اپنے اجتہاد سے چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے اور پانچواں رسول اللہﷺ کے لیے رکھ چھوڑا۔(سیرت المصطفیٰ)]

4 آگے چل کر فتحِ مکہ کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ نے قریش کے نومسلم ہونے کی وجہ سے چاہت کے باوجود کعبۃ اللہ کو از سرِ نو ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر نہ کیا۔

5 [البتہ امیر واضح حرام کے ارتکاب یا واضح فرض کے ترک کا حکم دے تو اس کی اطاعت حرام ہے]

Previous Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پچیس (۲۵)

Next Post

تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط

Related Posts

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | دسویں قسط

14 جولائی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | نویں قسط

9 جون 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | آٹھویں قسط

25 مئی 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | ساتویں قسط

31 مارچ 2025
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چھٹی قسط

15 نومبر 2024
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | پانچویں قسط

30 جولائی 2024
Next Post
تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط

تقویٰ کے انعامات | دوسری (وآخری) قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version