آج کل الیکشن کا غوغا ہے۔ شاید زیرِ نظر سطور کے نشر ہونے کے دو تین دن بعد لوگوں کی ایک کثیر تعداد پچھلے چند ماہ سے جس ’محنت‘ میں مگن تھی، اس کا ’ثمرہ‘ ظاہر ہو جائے گا، یعنی انتخابات یا الیکشن کے ’نتیجے‘ میں ’منتخب‘ ہونے والے لوگ، پارلیمان، وزارتیں، حکومتیں وغیرہ۔ اہلِ دین کی جمہوری سیاسی جماعتیں بھی اس الیکشن میں خوب گرم جوش حصہ لیں گی اور چند کو شاید ’نیتجے‘ میں بھی حصہ مل جائے۔
دنیا کا ہر نظریہ، ازم، دین، اقتدار چاہتا ہے، کہ اقتدار ہی کے ذریعے یہ نظریہ، ازم اور دین، اپنے افکار و اصولوں اور قوانین کو نافذ کر سکتا ہے۔ اقتدار کے حصول کے لیے ’دینِ اسلام‘ بھی افکار، اصول، قوانین اور ہدایات وغیرہ رکھتا ہے۔ لیکن اسلام کے حصولِ اقتدار کے لیے مقاصد بھی دیگر تمام نظریات، اِزموں اور ادیان سے مختلف ہیں اور ان مقاصد کے حصول کا طریقہ بھی بالکل جدا اور نرالا ہے۔
اسلام اقتدار چاہتا ہے، لیکن اس اقتدار میں آنے کا مقصد اللّٰہ ﷻ کے کلمے کو بلند کرنا ہے، اعلائے کلمۃ اللّٰہ! اس لیے کہ اللّٰہ ﷻ اس کائنات و ماوراء الکائنات ہر ہر شئے کا بلا شرکتِ غیرے خالق و مالک، پادشاہ و شہنشاہ ہے! وہ رحیم و کریم ہے اور قہار و عدل ہے! یہ کائنات اور اس کائنات میں ریگ کے ذرّے کی مانند یہ دنیا اس نےاس لیے بنائی کہ ’ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً؟!1‘۔ وہ پادشاہ ہے اور بڑا حکیم پادشاہ ہے، اس نے اپنی حکمتِ واسعہ و بالغہ کے مطابق اس دنیا اور اس کے نظاموں کو تشکیل دیا ہے۔ شر اور خیر کو پیدا کیا ہے، ہدایت اور گمراہی کے راستوں کا تعین کیا ہے اور انہیں خوب خوب واضح کیا ہے اور ہر ہر شئے کو اس لیے بنایا ہے کہ ہر ہر شئے اس کی عبادت کرے اور ان میں دو مخلوقات کو خاص کر مکلف ٹھہرایا ہے، جنات اور انسانوں کو اور خاص ان کی تخلیق کے متعلق فرمایا ’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ2 ‘۔ پس اسلام جو اقتدار چاہتا ہے تو اس لیے کہ یہ جن و انس اللّٰہ کی عبادت، اللّٰہ کی شریعت کے بتائے طریقے کے مطابق آزادی سے کر سکیں اور اسلام کو ایوانِ اقتدار میں لانا اہلِ اسلام پر واجب اسی لیے ہے کہ یہ خود اللّٰہ ﷻ کی عبادت ہے اور کئی احکامِ اسلام اس وقت تک ادا ہی نہیں کیے جا سکتے جب تک اسلام مسندِ اقتدار پر موجود نہ ہو۔ اسی اقتدار کو نفاذِ شریعت، اقامتِ دین اور حکومتِ الٰہیہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔
جیسے اسلام کا مقصدِ اقتدار سبھی دیگر نظریات، ازموں اور ادیان سے جدا اور نرالا ہے، ایسے ہی اس اسلام کے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بھی سبھی دیگروں سے جدا اور نرالا ہے۔ دینِ اسلام صرف مقاصد اور منزل کا بیان کر کے خاموش نہیں ہو جاتا، بلکہ پورے راستے و منہج کے لیے رہنما اصول بھی بتاتا ہے اور دراصل اپنے متبعین کو اس بات کا مکلف قرار دیتا ہے کہ وہ منزل و مقصد کو نظر کے سامنے رکھتے ہوئے ، سنتِ نبوی (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)میں بتائے گئے راستے و منہج کی اتباع کریں، چاہے (بظاہر)منزل و مقصد (یعنی اقتدار)اس حیاتِ دنیوی میں حاصل نہ ہو! لیکن دینِ اسلام فقط اقتدار کے حصول کو منزل و مقصود بتاتے ہوئے ہر طریقے کو بروئے کار لانے کو درست نہیں قرار دیتا۔
حضورِ انور (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کی، آپؐ ہی کی تربیت یافتہ جماعتِ صادقہ و صالحہ (رضی اللّٰہ عنہم) کے ساتھ مبارک محنت کے نتیجے میں جو اسلام غالب ہوا وہ مقامی طور پر برِّ صغیر میں مغل سلطنت کے اختتام کے ساتھ اور عالمی طور پر ۱۹۲۴ء میں سقوطِ خلافتِ عثمانیہ کی صورت، بطورِ حاکم نظام زوال پذیر ہو گیا۔ خود اس سقوط کی پیشین گوئی احادیثِ مبارکہ میں موجود تھی اور پھر اس سقوط کے بعد ’ثم تکون خلافۃ علی منہاج النبوۃ‘ کی خوش خبری بھی احادیث میں موجود ہے۔ گویا اسلام تیرہ سو سال سے زائد تک دنیا میں مقتدر رہا۔ اسلام دنیا کی مسندِ اقتدار پر غالب ہو یا نہ ہو، بہر حال احادیثِ نبویؐ میں ایک ایسی جماعت کی نشاندہی بھی کی گئی جو ہمیشہ دینُ اللّٰہ کی خاطر بر سرِ جد و جہد رہے گی۔حالات کا اتار چڑھاؤ، دوست و دشمن کی سختی یا نرمی ، عوام و خواص کی ملامت، نئے نظاموں کے ساتھ مل کر چلنے کی روش، مقامی طور پر لوئے جرگے، پارلیمان وکونسلیں اور عالمی طور پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلیوں کی قراردادیں، حتیٰ کہ انہی سب سے وابستہ قہر و جبروت والی فوجیں اور ٹیکنالوجیاں ان اہلِ حق کا راستہ روک نہ پائیں گی۔
رسالت مآب صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تَزَالُ عِصَابَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَی أَمْرِ اللَّهِ قَاهِرِينَ لِعَدُوِّهِمْ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّی تَأْتِيَهُمْ السَّاعَةُ وَهُمْ عَلَی ذَلِكَ.‘‘ (صحيح مسلم)
’’میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللّٰہ کے حکم کی خاطر لڑتی رہے گی اور اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل رکھے گی، جو ان کی مخالفت کرے گا وہ انہیں کچھ نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اسی حالت میں قیامت واقع ہوجائے گی۔‘‘
معلوم ہوا کہ اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے جہاد ہمیشہ جاری رہے گا، اور جہاد کا قدیم و جدید قادیانی و غامدی معنیٰ نہیں، بلکہ جہاد کا وہ معنیٰ جس پر علمائے امت کا اجماع ہے، علامہ ابنِ حجر العسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :’’اس بات پر اجماع ہے کہ ’جہاد‘ سے مراد ’قتال‘ ہے اور جہاں ’فی سبیل اللّٰہ‘ کی اصطلاح آ جائے تو اس سے مراد ’جہاد‘ ہے‘‘3۔ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے کچھ لوگوں کا جہاد سے جمہوریت کی طرف آنا دراصل مشکل سے آسانی کی طرف آنا ہے، تو حقیقت یہ ہے کہ ہم مشکل سے آسانی کی طرف نہیں، بلکہ آسانی سے مشکل کی طرف گئے ہیں۔ اس آسانی سے مشکل کی طرف جانے کی دو مثالیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمیں کتاب و سنت کی واضح نصوص سے معلوم ہے کہ اعلائے کلمۃ اللّٰہ کا طریقہ ’جہاد‘ ہے، تو کیا کتاب و سنت کے طریقے کو چھوڑنا مشکل سے آسانی کی طرف آنا ہے یا آسانی سے مشکل کی طرف؟ دوسرا ہم چشمِ سر سے دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ہی خطے کے ملک افغانستان میں ’کلمۃ اللّٰہ‘ بطورِ حاکم نظام ۲۰۰۱ء میں مغلوب ہو گیا، وہاں بھی نت نئے راستے کھل گئے، ایک طرف جمہوریت کا راستہ تھا جس میں ماضی کے سبھی بڑے بڑے نامور شامل ہو گئے، ’جمہوری اسلامی افغانستان‘ کی بنا ڈالی گئی، لویہ جرگہ اور پارلیمان بنایا گیا اور یہ جرگے اور پارلیمان صرف بش و کرزئی نے نہ بنائے تھے بلکہ انبیائے کرامؑ کے وارث فضیلت مآب اہلِ جبہ و دستار سے ظاہری نسبت رکھنے والوں نے اس کی مشروعیت بیان کی تھی۔ تو دوسری طرف وہی ثور و بدر والا راستہ تھا، یہاں انبیائے کرامؑ کے وارث فضیلت مآب اہلِ جبہ و دستار حقیقتاً موجود تھے، علمِ دین اور تعلیم و تعلم سے نسبت کے سبب یہ طالبان کہلاتے تھے اور زمانہ گواہ ہے کہ طالبان کا معنیٰ دنیا مجاہدین ہی جانتی ہے۔ انہی طالبان نے بیس سال نبویؐ طریقے کے مطابق نفاذِ شریعت کی مبارک محنت کی اور ۲۰۲۱ء میں، محض بیس سال کی محنت سے آج کابل کے قلب میں مادی اعتبار سے بھی ، اہلِ ایمان کے سینوں اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتا، دنیا کا سب سے بڑا کلمے والا جھنڈا لہرا رہا ہے اور مسندِ اقتدار پر شیخ، مولوی اور ملا و حافظ و قاری براجمان ہیں اور منابر و مناروں سے ’الشیخ المجاہد ہبۃ اللّٰہ حفظہ اللّٰہ‘ کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا ہے، امیر المومنین کے نام کا ایک ایسا خطبہ، جسے اہلِ عالم نے کم و بیش سو سال تک نہ سنا تھا۔
پھر مزید چند تحریکوں اور چند ناموں کو دیکھیے۔ کیا حضرتِ مجدد نوّر اللّٰہ مرقدہ نے وقت کے بادشاہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا تھا؟ کیا انہوں نے قید خانے کی مشکل پر بادشاہ کی وزیری مشیری کی آسانی قبول کی تھی؟ حالانکہ بادشاہِ وقت نے ملک میں عمومی طور پر شریعت کا نفاذ کر رکھا تھا اور حضرتِ مجدد اگر اس کے وزیر بن جاتے تو ہمارے آج کے اہلِ دانش کے مطابق نجانے کیسی کیسی خدمتِ دین کر لیتے۔ سیّد احمد بریلوی جو رائے بریلی کی نسبت سے زیادہ آج سیّد احمد شہیدؒ کے نام سے جانے جاتے ہیں کہ انہوں نے اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے سر کٹوایا تھا اور شہادت کا جام پیا تھا، وہ تو بڑے آرام سے دِلّی تا بنگال کے اصلاحی و دعوتی دورے کرتے تھے، لاکھوں کروڑوں ان کے مریدین تھے، انہوں نے سافٹ پاور (soft power) کے ذریعے کیوں اقتدار کی راہ نہ لی اور مہران و بولان، قندھار و غزنی اور کابل و پشاور اور کشمیر و بالاکوٹ کے دروں، صحراؤں اور پہاڑوں سے گزر کر کیوں ہجرت کی اور کیوں جہاد کی راہ سے بیعتِ امامت منعقد کی اور اسی جہاد میں قتل ہو کر دریائے کنہار میں کیوں اپنا بہتا لاشہ قبول کر لیا؟ پھر وہی نہیں ان کے دستِ راست، علمِ دین کی چوٹی، خاندانِ ولی اللّٰہی کے چشم وچراغ، حضرت مولانا شاہ اسماعیل ؒصاحب نے کیوں دہلی کی عالی شان اور دنیائے علمِ دین کی مایہ ناز مسندِ حدیث سے اٹھ کر ایک ہاتھ میں شمشیر اور دوجے میں بندوق تھامی اور اپنے امیر و مرشد سیّد احمد کے ساتھ اس معرکۂ بالاکوٹ میں قتل ہو گئے؟ حضرت نانوتویؒ کے سامنے تو مشکلوں سے آسانی کے راستے بڑے کشادہ تھے کہ وہ تو حجۃ الاسلام تھے اور ان کے ساتھی زمانے کو فتویٰ دینے والے رشید احمد گنگوہیؒ، ان دونوں کو آخر کیا تھا کہ انہوں نے شاملی کا میدان سجایا، شکست کھائی، ساتھی قتل و زخمی ہوئے، دوسری جنگ لڑنے کی استطاعت نہ تھی تو مشکل و آسانی کی بات کر کے انہوں نے راستہ نہ بدلا، بلکہ اپنے عمل سے حکمِ شریعت بیان کیا کہ جب اعلائے کلمۃ اللّٰہ کے لیے جہاد بمعنیٰ قتال کی استطاعت نہ ہو تو اعداد و دعوت میں کھپ جاؤ، اسی لیے تو دار العلوم دیوبند قائم کیا گیا اور اس کے پہلے شاگرد، طالبِ علم بھی تھے اور معسکر کے پہلے زیرِ تربیت سپاہی بھی۔ علم و تلوار سے لیس ہو کر ہی یہ امامِ عزیمت شیخ الہند محمود حسنؒ قرار پائے، انہی نے فرمایا کہ دار العلوم دیوبند دراصل ایک چھاؤنی تھی جس کا مقصد ۱۸۵۷ء میں ہونے والی شکست کا انتقام لینا تھا۔ اہلِ برِّ صغیر کے لیے کیسی فخر کی بات ہے کہ اس دار العلوم دیوبند کا پہلا شاگرد و سپاہی غلبۂ اسلام کی ایک عالمی تحریک کا قائد و سپاہ سالار بنتا ہے اور یہ تحریک، تحریکِ ریشمی رومال کہلاتی ہے۔ اس زمانے کے گوانتانامو، مالٹا میں ان کو قید کیا جاتا ہے، یہ وہاں سے واپس لوٹتے ہیں تو مواقف میں رتی برابر تبدیلی نہیں آتی اور بس ایک ہی دُہائی ہر مجلس و جلسے اور ہر مسندِ حدیث و تفسیر پر دیتے ہیں کہ ’خاکم بدہن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا جھنڈا سرنگوں ہو رہا ہے‘4۔ ملا عمرؒ کچھ نرمی کا مظاہرہ کرتے، افغانستان کے چٹیل دشت و صحرا ’زابل‘ کے بجائے کچھ آسانی کی راہ اختیار کرتے تو کابل کے ’قصرِ سفید‘ میں کرزئی نہ بیٹھتا، بلکہ کچھ آسانی مزید پہلے ہی کی ہوتی تو اقتدار ہی ہاتھ سے نہ نکلتا! اسامہ بن لادنؒ نے بادشاہِ وقت کی مشیری و وزیری اور شہزادوں سی کیفیت کو اسی لیے لات ماری تھی کہ بادشاہِ وقت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے وطن جزیرۃ العرب میں صلیبی و صہیونی فوجوں کو آباد کر رہا تھا اور اقصیٰ کا سودا کر چکا تھا۔ امام شاملؒ سے شامل بسایوفؒ تک اور عمر مختارؒ سے یمن کے مشائخِ عوالقؒ تک سبھی کبھی روسی جبر کے مقابل کھڑے ہوئے، کبھی اطالوی فسطائیت سے لڑے اور کبھی انگریز کی چنگیزیت کا مقابلہ کیا۔ ان سب نے اگر آسانی کے بجائے مشکل اپنائی، وہ مشکل جو دراصل آسانی ہے، بدر و احد والی آسانی، احزاب و حنین والی آسانی تو اس لیے کہ یہ سب طواغیت کو گرا کر، غلبۂ اسلام کا جھنڈا بلند کرنا چاہتے تھے۔ یہ جانتے تھے کہ شریعتِ مطہرہ کے نفاذ کی محنت حرا کے غار سے ثور کی کٹھنائی تک لے جاتی ہے، پھر احد میں خیر الخلائق کے دندانِ اقدس شہید کرواتی ہے(ہماری اور ہماری اولادوں کی جانیں انؐ پر سو سو بار فدا ہوں، صلی اللّٰہ علیہ وسلم) ، احزاب میں ’ وَاِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَـنَاجِرَ5‘ کا منظرِ جان کنی دکھاتی ہے، حنین میں بعد از خدا بزرگ و برتر کو کفار کے گھیرے میں لاتی ہے، پھر کہیں جا کر مکہ فتح ہوتا ہے۔ یہ جانتے تھے کہ نفاذِ کتاب، کتاب اللّٰہ میں درج طریقے ’ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ 6‘ سے ہوگا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ’ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِله7‘۔ آسانی تو یہی ہے کہ باقی سب راستے عسر والے، کھوٹے اور مشکلوں بھرے راستے ہیں۔
بظاہر آسان دکھنے والے راستوں سے کہاں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ شہیدِ اسلام ملک شہباز (Malcolm X)رحمۃ اللّٰہ علیہ کامشہور قول ہے کہ ’انقلابِ فرانس کیسے آیا؟خون بہا کر۔ انقلابِ روس کیسے آیا؟ خون بہا کر۔ امریکی انقلاب کیسے آیا؟ خون بہا کر۔ایک …… ہم ہی پرامن انقلاب لانا چاہتے ہیں؟!‘ پھر آسان وہ نہیں جن کو شریعتِ مطہرہ نے آسان کہا ہے، بلکہ جمہوریت و قانون سازی کے وہ راستے جو یونان میں پیدا ہوئے، فرانس میں پلے بڑھے اور انگریزی و امریکی وحشی سرمایہ داری نے جن کو اپنی آغوش میں جگہ دے کر دنیا کا نظام بنا دیا؟ جن نظریات، نظاموں اور اِزموں کے نفاذ کا سب سے بڑا عَلَم بردار آج طاغوتِ اکبر امریکہ ہے، جس کے باقی جرائم ایک طرف، لیکن اسرائیل کی پیٹھ ٹھونکنا اور قبلۂ اول و رسولِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی جائے اسراء و معراج کے محافظوں، اہلِ غزہ پر جس کی حالیہ درندگی سارے عالَم پر واضح ہے۔ انہی راستوں سے بائیس سال قبل جب صوبۂ سرحد میں اہلِ دین کو حکومت ملی تو یہ اکثریت والی حکومت ایک ’حسبہ بل‘ منظور نہ کروا سکی، لیکن اہلِ دین کی پارلیمان میں بھاری تعداد کے باوجود ’حقوقِ نسواں بل‘ پاس ہوا، اللّٰہ کی شریعت سے دشمنی کرتے ہوئے زنا بالرضاء کو حلال کیا گیا ۔پھر کہا جاتا ہے کہ یہاں کے آئین میں قراردادِ مقاصد موجود ہے جو اللّٰہ ﷻ کو اقتدارِ اعلیٰ کا مالک قرار دیتی ہے۔ جہاں اقتدارِ اعلیٰ اللّٰہ کا ہو وہاں زنا بالرضاء حلال ہوتا ہے؟کہتے ہیں کہ یہ گناہ ہیں اور گناہوں سے بندہ کافر نہیں ہوتا، بے شک اہل السنۃ والجماعۃ کا یہی عقیدہ ہے۔ لیکن بالاجماع یہ بھی عقیدہ ہے کہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دینا کفرِ بواح ہے8۔ کیا زنا بالرضاء کو حلال قرار دینا فقط ایک گناہ اور حرام عمل ہے؟ شریعت جن خسیس بدکرداروں کو سنگسار کرنے کا کہتی ہے، ٹرانس جینڈر ایکٹ کے ذریعے قومِ لوطؑ سے بھی اسفل LGBTQ+ کو قانونی تحفظ فراہم کرنا حرام کو حلال کرنا نہیں؟ بات یہاں بھی رکی نہیں ہے بلکہ بلدیاتی انتخابات میں انہی LGBTQ+ والے ’ٹرانس جینڈر‘سدومیوں کو مخصوص حلقوں سے انتخاب لڑنے کی اجازت بھی دی گئی ہے یعنی اب ایک عالم اور ایک سدومی کی حیثیت برابر ہے، فإنّا للہ وإنّا إلیہ راجعون! پھر اگر یہ سب نہ بھی ہو تب بھی پاکستان کی جمہوریت ایسا نظام ہے، جس میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوتی ہے، اگر کوئی بظاہر حقیقتاً سلیکٹ ہو کر بھی ایوان میں پہنچے تو اس کا دائرۂ عمل فوجی اسٹیبلشمنٹ طے کرتی ہے،آئی جے آئی سے پی ڈی ایم کی پیدائش تک، بے نظیر و نواز شریف اور حال میں عمران خان کے دھڑن تختوں کے پیچھے کون کار فرما تھا؟ جس ریاست میں مقتدر (sovereign) اللّٰہ ﷻ کی ذاتِ عظیم ہو، وہاں کا قائد ’عدت‘ میں شادی کرتا ہے، پھر لگ بھگ چار سال وزیرِ اعظم رہتا ہے اور اس کو اقتدار سے اس لیے معزول نہیں کیا جاتا کہ وہ ’عدت‘ میں رُوسیاہی کا مرتکب ہوا ہے بلکہ یہاں کی اصل مقتدر قوت یعنی اسٹیبلشمنٹ کی گستاخی پر معزول کیا جاتا ہے۔ پھر یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ دراصل کس کی غلام ہے، بعض جرنیل تو صرف امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ اور پنٹاگان کے نوکر ہوتے ہیں ، لیکن ان کی مزید اعلیٰ قیادت فری میسن ہوتی ہے یا فری میسنوں سے قریبی تعلقات رکھتی ہے9۔ یہی نہیں جمہوریت مشرقی ہو یا مغربی، دراصل اس کو خفیہ ہاتھ ہی چلاتے ہیں، خفیہ ہاتھ عالمی ڈیپ سٹیٹ (deep state)کے ساتھ ساتھ شیطان کے براہِ راست پجاریوں کے ہوتے ہیں، کہنے کو ٹرمپ و اوبامہ و کلنٹن منتخب ہو کر آتے ہیں لیکن پسِ پردہ یہ کن کن گھناؤنی رسومات (rituals) میں ملوث ہوتے ہیں، تو ان کرداروں (اور دیگر عالمی بدمعاشوں) کی رُو سیاہی کی ہلکی سی جھلک Epstein papers ہیں، قاتلھم اللّٰہ!
شریعتِ مطہرہ میں سیاست کسے کہتے ہیں پر ایک واقعہ یاد آ گیا۔ راقم السطور کے ایک استاد و ساتھی، اسی اقامتِ دین کی محنت میں امریکی غلام ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے ہاتھوں اغوا کر لیے گئے۔ مختلف اذیتوں اور جیلوں سے گزرتے گزرتے ان کو اسی خفیہ ایجنسی کے زیرِ انتظام ایک قید خانے میں رکھا گیا۔ اس قید خانے میں ان مؤقر مجاہد و مرابط عالمِ دین کی ملاقات مولانا اعظم طارق شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک ساتھی سے ہو گئی، جو خود بھی جیل میں ہی قید تھے۔ مولانا شہیدؒ کے ساتھی نے ہمارے ساتھی عالمِ دین سے جمہوری سیاست کی بحث چھیڑ دی اور جمہوری انتخابی سیاست کے ذریعے غلبۂ دین کے متعلق استفسار کیا۔ اس پر ان مجاہد عالمِ دین نے مولانا شہیدؒ کے ان ساتھی کو بڑا سادہ ، بڑا عام فہم اور بڑا خوب صورت جواب دیا:
’’دین میں سیاست کا کیا مطلب ہے؟ فرض کریں کہ آپ ایک کمرے میں ہیں جس کا فرش گندگی ناپاکی سے اٹا ہوا ہے اور نماز کا وقت ہے۔ اب شریعت کا آپ سے کیا تقاضا ہے؟ تقاضا ہے کہ وقتِ نماز ہے، لیکن نماز کی شرائط میں سے ہے کہ نماز پاک جگہ پر پڑھی جائے۔ لیکن فرش ناپاک ہے تو شریعت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ اس فرش کو پاک کیا جائے۔ اب فرش پاک نہیں قیام و سجدے کی جگہ وہاں نہیں تو شریعت یہ نہیں کہتی کہ بس آپ اسی جگہ اسی کیفیت و حالت میں چند بار اللّٰہ کا نام لیں اور آپ کی نماز ادا ہو گئی! نہیں! فرش پاک کریں، پھر نماز پڑھیں۔
بالکل ایسے ہی اسلام نافذ کرنے کے لیے سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے آپ اس فرش کو پاک کریں جہاں ناپاکی پڑی ہے، اس کے بعد یہاں اسلام نافذ کریں نہ کہ یہ کہ اسی فرش پر، پہلے سے موجود نظام میں رہتے ہوئے، کچھ شقوں اور ترمیمات وغیرہ کے بعد اس کا حصہ بن جائیں اور اسی نظام میں نفاذِ اسلام کی کوششیں شروع کر دیں! یہ بات نہ شرعاً درست ہے نہ عقلاً!‘‘
پس نفاذِ دین کا راستہ اللّٰہ ﷻنے جہاد قرار فرمایا ہے، یہ پیارے مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ جہاد کا معنیٰ معلوم ہے، جیسے نماز کا معنیٰ معلوم ہے۔ چند بار زبان سے اللّٰہ اللّٰہ کہہ لینا یا فجر کی دو رکعت فرض نماز کی جگہ بہت مشقت اٹھا کر چار رکعتیں پڑھ لینا دونوں ہی شریعت میں معتبر نہیں۔ جب اللّٰہ ﷻنے رسولِ محبوب (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کو شعبِ ابی طالب، طائف اور حنین کے قید خانوں، وادیوں اور گھاٹیوں سے گزروا کر نصرت فرمائی اور غلبہ عطا کیا تو کیا آج شعبِ ابی طالب، طائف اور حنین کے بجائے زنا بالرضاء، سدومیت اور سود کو حلال قرار دینے والے دار الندوۃ (پارلیمانِ قریش) کے ذریعے اعلائے کلمۃ اللّٰہ ممکن ہے؟! حضرتِ عبد اللّٰہ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ شارعِ برحق صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللهُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلَّا كَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيُّونَ، وَأَصْحَابٌ يَأْخُذُونَ بِسُنَّتِهِ، وَيَقْتَدُونَ بِأَمْرِهِ، ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوفٌ، يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ، وَيَفْعَلُونَ مَا لَا يُؤْمَرُونَ، فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلَيْسَ وَرَاءَ ذَلِكَ مِنَ الْإِيمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ.‘‘ (رواه مسلم)
’’مجھ سے پہلے اللّٰہ نے جتنے نبی بھیجے، ان کی امت میں سے ان کے حواری اور ساتھی ہوتے تھے، جو ان کی سنت پر عمل اور ان کے حکم کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوئے، جو ایسی باتیں کہتے، جن پر عمل نہیں کرتے تھے اور وہ کام کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پس جو شخص ان سے ہاتھ سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے اور جو ان سے دل سے جہاد کرے گا، وہ مومن ہے، اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘
ایسے نظام کے خلاف دعوت دینا، اعداد یعنی اس نظام کو منہدم کرنے اور اس کو منہدم کرنے کے نبوی طریق ’جہاد فی سبیل اللّٰہ‘کی تیاری کرنا اور براہِ راست ہاتھ و زبان و دل سے جہاد کرنا ہی اصل راستہ ہے۔
اپنی منزل، اپنا اندازِ سفر مت بھولنا
بھول جانا اپنا گھر، اللّٰہ کا گھر مت بھولناتم
کو سیدھا جنت الفردوس میں لے جائے گی
اپنے پیارے مصطفیٰؐ کی رہ گزر مت بھولنا
جو ہوئی تھی اب سے چودہ سو برس پہلے طلوع
روشنی درکار ہے تو وہ سحر مت بھولنا
تشنگی اپنے ارادوں کی بجھانے کے لیے
خون میں بھی ہونا پڑ جاتا ہے تر مت بھولنا
کانٹا چبھ جائے تو کر لینا برآمد پاؤں سے
ننگی تلواروں پہ چلنے کا ہنر مت بھولنا
حق تو کہتے ہو مظفؔر تم مگر اس جرم میں
سولیوں پر بھی لٹک جاتے ہیں سر مت بھولنا
اللھم وفقنا لما تحب وترضى وخذ من دمائنا حتى ترضى .اللھم زدنا ولا تنقصنا وأکرمنا ولا تھنّا وأعطنا ولا تحرمنا وآثرنا ولا تؤثر علینا وارضنا وارض عنا. اللھم إنّا نسئلك الثّبات في الأمر ونسئلك عزیمۃ الرشد ونسئلك شكر نعمتك وحسن عبادتك. اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم واجعلنا منھم واخذل من خذل دین محمد صلی اللّٰہ
علیہ وسلم ولا تجعلنا منھم، آمین یا ربّ العالمین!
٭٭٭٭٭
1 ’’تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ الملک: ۲)
2 ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘ (سورۃ الذاریات: ۵۶)
3 بحوالہ صوتی حلقہ جاتِ درسِ کتاب ’مشاری الاشواق‘ از شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ۔
4 مجلّۂ ہٰذا کے سال ۲۰۲۳ء کے تیسرے اور چوتھے شمارے میں حضرت شیخ الہند کی بعد از رہائیٔ مالٹا کی تقاریر دیکھی جا سکتی ہیں اور انہی میں سے ایک مجلّۂ ہٰذا کے زیرِ نظر شمارے میں بھی شامل کی گئی ہے۔
5 ’’اور جب کہ آنکھیں پتھرا گئیں اور کلیجے منہ کو آگئے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب: ۱۰)
6 ’’اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو۔‘‘ (سورۃ الانفال:۳۹)
7 ’’یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللّٰہ کا ہوجائے۔‘‘(سورۃ الانفال:۳۹)
8 بے شک تکفیریت خوارج کا شیوہ ہے، لیکن اہل السنۃ کا منہج و عقیدہ تکفیر کی بحث سے خالی نہیں، ہاں یہ داعشی خوارج کی مانند بازیچۂ اطفال نہیں، بے شک یہ علمائے راسخین ہی کا کام ہے۔ بے شک مجاہدینِ اسلام کا دامن ایسے داغوں سے پاک ہے اور مجاہدین نے کبھی اہلِ دین کی جمہوری عمل میں شرکت پر تکفیر نہیں کی، بلکہ اہلِ دین کا دفاع اپنے قول و عمل سے کیا ہے اور دین اور اہلِ دین کے دفاع میں خوارجِ عصر کے خلاف بھی بر سرِ جہاد ہیں۔
9 ملاحظہ ہو مجاہد فی سبیل اللّٰہ لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز شہید رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصنیف ’یہ خاموشی کہاں تک؟‘، کہ کیسے انہیں خود امریکی دورے کے دوران فری میسن بننے کی آفر ہوئی اور اسی دورے میں اشفاق پرویز کیانی بھی امریکہ میں موجود تھا۔