چوتھا انعام: نورِ فارِق
اور تقویٰ کا چوتھا انعام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ایک نورِ فارِق بھی عطا کرتے ہیں، ایک نور عطا کرتے ہیں جس سے برائی بھلائی کی تمیز رہتی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا (الانفال: 29)
’’اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کے ساتھ تقوی کی روش اختیار کرو گے تو وہ تمہیں (حق و باطل کی) تمیز عطا کردے گا۔‘‘
پانچواں انعام: نورِ سکینہ
اور پانچواں انعام یہ ہے کہ جو شخص تقویٰ سے رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو نورِ سکینہ عطا کرتے ہیں۔
هُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ السَّكِيْنَةَ فِيْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ…… (الفتح: 4)
’’وہی ہے جس نے ایمان والوں کے دلوں میں سکینت اتار دی۔‘‘
جس کی وجہ سے وہ ہر وقت باخدا رہتا ہے، ایک لمحہ کو اللہ کو نہیں بھول سکتا، اگر جان بوجھ کر اللہ کو بُھلا کر کسی حسین کی طرف رغبت کرنا چاہے تو اس کو اپنی موت نظر آئے گی۔ ؏
بُھلاتا ہوں پھر بھی وہ یاد آ رہے ہیں
اِنْ اَرَادَ سُوْءًا اَوْ قَصَدَ مَحْظُوْرًا عَصَمَہُ اللہُ عَنْ اِرْتِکَابِہٖ1
صاحب نسبت اگر کسی برائی کا ارادہ بھی کر لے، کسی گناہ کے ارتکاب کا قصد بھی کر لے تو ملا علی قاری شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ اگر وہ اللہ کا ولی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائیں گے اور گناہ سے بچا لیں گے۔ اس کے دل میں ایسی بے چینی آئے گی اور گناہ میں اس کو ایسی موت نظر آئے گی کہ وہ گناہ اور تقویٰ دونوں کا بیلنس نکالے گا اور کہے گا کہ نہیں بھائی! تقویٰ ہی میں فائدہ ہے، اس گناہ میں تو بہت مصیبت نظر آرہی ہے۔
نورِ سکینہ آسمان سے نازل ہوتا ہے
تو تقویٰ سے نورِ سکینہ ملتا ہے اور اَنْزَلَ سے نازل کیا کہ اس نور کو زمین سے نہیں پا سکتے، یہ پیٹرول نہیں ہے جس کو سائنس دان نکال لیں، وہ اللہ تعالیٰ جس سے خوش ہوتا ہے اس کے دل پر سکینہ نازل کرتا ہے، ھِیَ نُوْرٌ یَّسْتَقِرُّ فِی الْقَلْبِ وَبِہٖ یَثْبُتُ التَّوَجُّہُ اِلَی الْحَقِّ2…… یہ ایک نور ہے جو دل میں ٹھہر جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت باخدا رہتا ہے۔
نورِ سکینہ رکھنے والے قلب کی مثال قطب نما کی سوئی سے
جیسے قطب نما کی سوئی پر ذرا سا مقناطیس لگا ہوا ہے جس سے ہر وقت اس کا رخ شمال کی طرف رہتا ہے، اگر مقناطیس کو کھرچ دو تو سوئی کو جس طرف چاہو موڑ دو، جب تک وہ مقناطیسی پالش ہے قطب نما کی سوئی شمال کی طرف رہے گی جو مرکز ہے، مخزن ہے، سرچشمہ ہے مقناطیس کا۔ ایسے ہی جن کے دل پر اللہ کے نور کی پالش لگ گئی، اللہ تعالیٰ کے مرکزِ نور کی طرف ان کا قلب نوّے ڈگری ہر وقت رہنے پر مجبور و مضطر ہوگا۔ اگر کوئی حسین اس کو ہٹائے گا تو وہ قلب قطب نما کی سوئی کی طرح تڑپے گا یہاں تک کہ توبہ تِلّا کرکے پھر اپنا رخ صحیح نہ کر لے۔ تو سکونِ قلب بہت بڑی نعمت ہے، کسی گناہ گار کو سکون نہیں۔
اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالَم
مَعِیْشَۃً ضَنْکًا کی تفسیر یہی ہے کہ جو شخص گناہ نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ اس کی زندگی تلخ کر دیتے ہیں، ہمیشہ پریشان رہتا ہے۔ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا جملہ اسمیہ ہے اور جملہ اسمیہ دوام و ثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی ایسا شخص دواماً پریشان رہتا ہے، کھاتا ہے کوفتہ لیکن دماغ میں کوفت گھسی ہوئی ہے، ہر وقت کوفت و پریشانی، ذہنی دباؤ اور ڈپریشن، دل بے چین، گناہ بھی کرتا ہے تو گھبرایا ہوا، پریشانی میں، خراب عادت کی وجہ سے کرتا ہے، آخر میں گناہ میں کوئی مزا بھی نہیں آتا لیکن عادت سے مجبور ہو کر کرتا ہے، مگر پریشان بدحواس، بے چین رہتا ہے۔ جس کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب فرماتے ہیں ؎
اُف کتنا ہے تاریک گناہ گار کا عالَم
انوار سے معمور ہے ابرار کا عالَم
گناہ کی ذرا سی دیر کی لذت ہمیشہ کی ذلت کا سبب ہو جاتی ہے، ایسا شخص ایک دن مخلوق میں رسوا و ذلیل ہو جاتا ہے اور جو عزت حاصل تھی ہمیشہ کے لیے ذلت سے بدل جاتی ہے اور زندگی کا چین ختم ہو جاتا ہے۔ احقر کا شعر ہے ؎
لذت عارضی ملی عزت دائمی گئی
یہ ہے گناہ کا اثر راحتِ زندگی گئی
تقویٰ کا چھٹا انعام: پُرلطف زندگی
اور دوسری طرف تقویٰ کا انعام کیا ہے؟
فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً(النحل: 97)
’’اگر تم اعمالِ صالحہ کرو گے تو ہم تم کو ضرور بالضرور بالطف زندگی دیں گے۔‘‘
اللہ کی فرمانبرداری پر اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم تم کو بالطف زندگی دیں گے اور لام تاکید بانون ثقیلہ سے فرمایا۔ ہماری نالائقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اہتمام فرمایا کہ ظالم تم نفس کی بدمعاشیوں کے چکر میں ہو لہٰذا ہم یہ آیت لام تاکید بانون ثقیلہ سے نازل کر رہے ہیں تاکہ تم کو اطمینان ہو جائے کہ واقعی اللہ پُرلطف اور مزے دار زندگی دے گا ورنہ بغیر تاکید کے بھی اللہ تعالیٰ کا کلام انتہائی مؤکد ہے۔ آہ! یہ ہماری نالائقی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اتنا اہتمام فرمایا۔
تقویٰ کا ساتواں انعام: عزت و اکرام
اور ساتواں انعام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کو عزت و اکرام بھی عطا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے جو خاندان و قبائل بنائے ہیں: وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاىِٕلَ3…… سیّد، شیخ، مغل، پٹھان یہ خاندان اور قبیلے جو ہیں ان کا مقصد خالی لِتَعَارَفُوْا ہے۔ عزت ان میں نہیں ہے، یہ اس لیے ہیں کہ تعارف ہوجائے لیکن اسی کے بعد ہے: اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ4 معزز وہی لوگ ہیں جو تقویٰ سے رہتے ہیں۔ ایک سیّد بدمعاش ہے، شرابی ہے، زنا کرتا ہے اور ایک جولاہا ہے جو تقویٰ سے رہتا ہے، بتاؤ! کون افضل ہے؟ ایک کالے رنگ والا ہے لیکن اللہ کا ولی ہے اور ایک سفید گوری چمڑی والا انگریز ہے، چاہے مسلمان بھی ہو لیکن شراب اور زنا نہیں چھوڑتا تو وہ کالا حبشی اللہ کا ولی ہے، اس کے پیر دھو کر پی لو، چمڑی سے کچھ نہیں ہوتا۔ ؎
نہ گوری سے مطلب نہ کالی سے مطلب
پیا جس کو چاہیں سہاگن وہی ہے
جس کو اللہ پیار کر لے وہی سہاگن ہے، قسمت والا ہے۔ تقویٰ کا یہ ساتواں انعام ہے، اکرام۔ دنیا میں بھی تقویٰ والا معزز رہتا ہے، ہر آدمی اس سے دعا کراتا ہے اور جن لوگوں نے اپنے نفس کی اصلاح نہیں کی چاہے وہ صورتاً فرشتے رہے ہوں، گناہ میں مبتلا ہو گئے۔ تو جس سے گناہ ہو جاتا ہے کوئی اس سے دعا کراتا ہے؟ آپس میں گناہ کرنے والے دونوں بغیر سلام ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں۔ یہ بہت اہم بات بتا رہا ہوں۔ اگر کوئی شخص کسی حسین اور معشوق سے گناہ کر لے تو اس وقت دونوں سلام کے بغیر دل میں ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے ہوئے مجرمانہ طور پر الگ ہوتے ہیں، کوئی رخصت ہوتے وقت سلام بھی نہیں کرتا، کوئی یہ نہیں کہتا کہ اچھا! حضرت دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ شیطان شیطان سے دعا نہیں کراتا، دونوں سمجھ گئے کہ ہم دونوں نالائق ہیں۔
اور تقویٰ کی کیا شان ہے؟ اگر کسی نے ایک طرفہ اپنے آپ کو گناہ کے لیے پیش کیا اور دوسرا بھاگا تو اس کو سمجھتا ہے کہ ہاں! یہ متقی ہے۔ تقویٰ سے اللہ تعالیٰ دونوں جہان میں عزت دیتا ہے، یہاں تک کہ ہندو اور کافر بھی عزت کرتا ہے، کہتا ہے کہ بھائی! یہ بڑا پرہیزگار اور سادھو آدمی ہے اور جو حرام نظر ڈالتا ہے اس کو کہتا ہے کہ یہ سادھو نہیں سوادھو ہے یعنی سواد لیتا ہے، حرام لذت لیتا ہے، ہندو بھی ایسے کو گالیاں دیتا ہے۔
تقویٰ کا آٹھواں انعام: اللہ کی ولایت کا تاج
تقویٰ کا آٹھواں انعام سب سے بڑا انعام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر تم تقویٰ سے رہو گے تو ہم تمہاری غلامی کے سر پر اپنی دوستی کا تاج رکھ دیں گے یعنی تم کو ولی اللہ بنا لیں گے:
اِنْ اَوْلِيَاؤُهٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ (الانفال: 34)
’’متقی لوگوں کے سوا کسی قسم کے لوگ اس کے اولیاء نہیں ہوسکتے۔‘‘
اللہ کا ولی بن کر مرنا فائدہ مند ہے یا گناہ گار اور فاسق ہو کر مرنا؟ اور متقی ہو کر پھر کچھ دن جیو بھی تاکہ اللہ کی ولایت اور دوستی کا صحیح مزا دنیا سے لے کر جاؤ اللہ کے یہاں۔ یہ کیا کہ آج ولی اللہ ہوئے اور روح قبض ہوگئی، بے شک خاتمہ تو اچھا ہوا لیکن تم نے دنیا کی زندگی میں اللہ کی دوستی کا مزا کہاں چکھا؟ ولی ہوتے ہی تمہارا انتقال ہوگیا اور یہ دعا کرو کہ اللہ ولایت بھی دے، نسبتِ صدیقین دے یعنی ولایتِ صدیقیت کا اعلیٰ مقام اور پھر اس میں جینا بھی نصیب فرما، میں جانوں بھی تو کہ آپ کے دوستوں کو کیا کیا ملتا ہے اور کیا مزا آتا ہے آپ کا نام لینے میں اور آپ کی محبت میں کیا لطف آتا ہے؟ آپ کی محبت میں جینے کا کیا لطف ہے؟
تقویٰ کا نواں انعام: کفارۂ سیئات
تقویٰ کا ایک انعام سیئات اور برے اعمال کا کفارہ ہے: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ5 یعنی جو خطائیں اور لغزشیں اس سے سرزد ہوتی ہیں دنیا میں ان کا کفارہ اور بدل کر دیا جاتا ہے یعنی اس کو ایسے اعمالِ صالحہ کی توفیق ہو جاتی ہے جو اس کی سب لغزشوں پر غالب آ جاتے ہیں۔6
تقویٰ کا دسواں انعام: آخرت میں مغفرت
تقویٰ کے انعامات میں سے ایک انعام آخرت میں مغفرت اور سب گناہوں، خطاؤں کی معافی ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ(الانفال: 29)
’’اے ایمان والو ! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کرو گے تو وہ تمہیں (حق و باطل کی) تمیز عطا کردے گا اور تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور تمہیں مغفرت سے نوازے گا۔‘‘
گناہ چھوڑنے کے لیے تین کام
اب آخر میں ایک مضمون بیان کرتا ہوں کہ اگر گناہ چھوڑنا چاہتے ہو، متقی بننا چاہتے ہو، اللہ کا ولی بننا چاہتے ہو تو تین کام کر لو اور گناہ چھوڑنے کے لیے کتنی ہمت کرنی چاہیے؟ اس کا کیا معیار ہے؟
ہمت کیجیے
گناہ چھوڑنے کی پہلے خود ہمت کرو۔ بغیر ہمت کے کوئی کام نہیں ہوتا لہٰذا پہلے ہمت کیجیے کہ اب ہرگز یہ گناہ نہیں کروں گا۔
ہمت کو استعمال کرنے کی توفیق و ہمت مانگیے
اللہ تعالیٰ سے ہمت کی درخواست کرو کہ یا اللہ! مجھے اپنی عطا فرمودہ ہمت کو استعمال کرنے کی توفیق دے۔ ہمت ہوتی ہے، آدمی استعمال نہیں کرتا۔ اے خدا! آپ نے گناہ سے بچنے کی جو ہمت دی ہے اور تقویٰ کی جو طاقت دی ہے اس کو مجھے استعمال کی توفیق دے کیونکہ اگر طاقت نہ ہوتی تو تقویٰ فرض نہ ہوتا۔ کمزور پر تقویٰ فرض کرنا ظلم ہے اور اللہ ظلم سے پاک ہے۔ معلوم ہوا کہ تقویٰ کی طاقت ہے، گناہ سے بچنے کی طاقت ہے، ہم اس طاقت کو استعمال نہیں کرتے۔ جیسے بھینس اپنے بچے کے لیے دودھ چڑھا لیتی ہے، پھر لاکھ ڈنڈے لگاؤ نہیں اتارتی۔ اسی طرح نفس اپنی حرام خواہشات کے لیے ہمت چوری کرتا ہے، گناہ سے بچنے کی پوری ہمت استعمال نہیں کرتا، کچھ چرا لیتا ہے تاکہ اپنی بعض حرام خواہشات پوری کر سکے۔ لہٰذا اے خدا! مجھے جو ہمت آپ نے دی ہے اس کو استعمال کرنے کی توفیق دے دے۔ ہمت کو استعمال کرنے کی ہمت چاہیے۔
خاصانِ خدا سے درخواستِ دعا کیجیے
خاصانِ خدا اور مقبول بندوں سے ہمت کی دعا کراؤ، اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کی دعا قبول کرتا ہے۔ اور پہلے خود ہمت کرو اور خدا تعالیٰ سے ہمت مانگو۔
عطائے ہمت کی دعا کس اضطرار سے مانگنی چاہیے؟
اور ہمت کیسے مانگو گے؟ جیسے بلڈ کینسر ہو جائے، گردے بے کار ہو رہے ہوں تو جس دردِ دل سے اس وقت دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! مجھے صحت عطا فرما دیجیے، جس درد سے اپنی شدید جسمانی بیماری کے لیے انسان دعا کرتا ہے، جس کو ڈاکٹر جواب دے دیں کہ تمہارے گردے عنقریب بے کار ہوجائیں گے اور تمہارے جسم کا فلٹر پلانٹ خراب ہو جائے گا، سارا خون جسم سے نکالا جائے گا اور صاف کرکے پھر چڑھایا جائے گا، بچنا مشکل ہے۔ آپ بتائیے! اس وقت کیسی دعا مانگے گا؟ کس دردِ دل سے گڑگڑائے گا؟
انسان کا سب سے بڑا دشمن
بس آج کی تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کو نہ چھوڑو دوستو! بہت خسارہ کا راستہ ہے، نفس دشمن کے کہنے میں نہ آؤ۔ جس دشمن نے ہم کو بارہا مصیبت میں مبتلا کیا ہے پھر بھی اس دشمن کو نہیں پہچانتے اور عاشق نبی بنتے ہیں اور حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن نفس ہے۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
وَصَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہٖ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہٖ وَصَحْبِہٖ اَجْمَعِیْنَ
بِرَحْمَتِكَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ
٭٭٭٭٭
1 تفسیر الثعالبی: الشوریٰ (۲۸)
2 روح المعانی: ۱۱؍۲۵، دار احیاء التراث، بیروت
3 سورۃ الحجرات: ۱۳
4 سورۃ الحجرات: ۱۳
5 سورۃ الانفال: ۲۹
6 ترجمہ و تفسیر از معارف القرآن، جلد:۴