نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط

وارن وائن سٹائن سے اسحاق بن سڈنی تک

نعیم نور خان by نعیم نور خان
30 مارچ 2024
in جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!, مارچ 2024
0

اسحاق صاحب کے روزمرہ معمولات

اسحاق صاحب عام طور پر اپنا سارا دن دین سیکھنے میں صرف کرتے ہیں۔ فجر کے وقت بیدار ہوتے ہیں، اپنے ساتھ موجود محافظ ساتھیوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرتے ہیں ، اور جو اذکار وہ اب تک یاد کرچکے ہیں انہیں پڑھ کر ہلکی پھلکی سی ورزش (سٹریچنگ اور واک وغیرہ) کرتے ہیں۔

ورزش کے دوران، وہ عام طور پر شیخ انور العولقی ﷫کے لیکچر ز’سیرتِ رسول اللہﷺ‘ سنتے ہیں۔ شیخ انور العولقی کی سیرت والا پورا دورہ وہ پہلے بھی ایک بار ختم کر چکے ہیں اور اب دوبارہ شروع کر چکے ہیں۔ سیرت شروع کرنے سے پہلے وہ ’الرحیق المختوم ‘کتاب بھی مکمل پڑھ چکے ہیں۔ اس کے بعد وہ تقریباً۹بجے ناشتہ کرتے ہیں اور پھر عام طور پر عربی زبان سیکھنا شروع کر تے ہیں۔ ان کے پاس عربی زبان کا ایک مکمل کورس ہے جو مدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی کی جانب سے (غیر عرب افراد) کے لیے تیار کردہ ہے۔

چچا اسحاق ﷫نے اپنے قبول ِ اسلام کے ابتدائی مہینوں ہی میں ’اللغۃ العربیۃ لغیر ناطقین بھا‘ کا کورس مکمل کر لیا تھا۔ یہ کورس ویڈیو کلاسز پر مشتمل تھاجو کہ ٹورنٹو۔ کینڈا میں عربی زبان کے مایہ ناز استاد پروفیسر آصف علی مہر نے کروایا تھا۔ یہ کورس انٹرنیٹ پر بہت عام ہے۔ چچا اسحاق کی بہت خواہش تھی کہ اگر میں اپنے وطن واپس گیا تو کینڈا جاکر پروفیسر آصف علی مہر سے ضرور ملاقات کروں گا اور ان کا شکریہ ادا کروں گا کہ ان کی محنتوں کی بدولت میں عربی زبان اور اسلام کے بہت سے احکام سیکھ پایا۔ یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ پروفیسر آصف علی مہر اور ان کے ادارے کا القاعدہ یا کسی بھی جہادی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ فقط اتفاقاً ایک مجاہد بھائی نے انٹرنیٹ پر عربی سیکھنے کی غرض سے سرچ کی تو انہیں ان محترم پروفیسر صاحب کے لیکچرز مل گئے،جنہیں وہ بھائی لے کر وزیرستان آگیا۔ مگر کچھ ہی عرصے میں ان کے لیکچرز مجاہدین کی صفوں میں اتنے ’وائرل‘ ہوئے کہ بیسیوں غیر عرب مجاہدین نے ان کی بدولت عربی زبان سیکھی۔ اللہ تعالیٰ پروفیسر صاحب کی کاوشوں کو قبول فرمائے۔

الحمدللہ، اسحاق صاحب نہ صرف عربی زبان سیکھتے ہیں ، بلکہ اپنے اردگرد کے بھائیوں کو بھی سکھاتے ہیں! لہذا، یہ جگہ کسی تعلیمی ادارے کا تاثر دیتی ہے۔ پھر ظہر سے پہلے تھوڑا سا آرام کرتے ہیں اور پھر جماعت سے ظہر ادا کرتے ہیں۔ ظہر کے بعد تمام ساتھی اجتماعی تعلیم میں انگریزی زبان میں ’ریاض الصالحین ‘کا کچھ حصہ مطالعہ کرتے ہیں۔

چونکہ اسحاق صاحب کم از کم دو مرتبہ سیرت ختم کر چکے ہیں، اس لیے جیسے ہی کوئی ساتھی حدیث سناتا ہے تو اسحاق صاحب اکثر حدیث سے حاصل ہونے والے عملی اسباق پر گفتگو کرتے ہیں۔ تمام ساتھی پھر سے عربی زبان کی تعلیم میں لگ جاتے ہیں جو تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہتی ہے۔ اسحاق صاحب عام طور پر عصر سے پہلے کچھ آرام کرتے ہیں اور پھر جماعت سے نمازِعصر ادا کرتے ہیں۔ اور اگر تھوڑی دیر کے لیے وہ سستانے کو لیٹ جاتے ہیں تو تب بھی کان میں مستقل سیرت النبی ﷺ کے دروس سنتے رہتے ہیں۔ اسی طرح روز مرہ کی واک (جو کہ وہ گھنٹوں کرتے ہیں) اس میں بھی وہ وقت سے استفادہ کرتے ہوئے مستقل دروس سنتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ دن میں وہ کم از کم ایک مرتبہ ایک ساتھی کے سامنے (اونچی آواز سے) نماز پڑھتے ہیں تاکہ نماز میں اگر اب بھی کوئی غلطی رہ گئی ہو تو دور ہوسکے۔ اپنی تلاوت بہتر بنانے کے لیے وہ اسی بھائی کو قرآن کا کچھ حصہ بھی پڑھ کا سناتے ہیں۔ تمام ساتھی مغرب اور عشاء کی نماز بھی باجماعت ادا کرتے ہیں۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد، وہ عام طور پر سیرت النبی ﷺ سنتے ہوئے ایک یا دو گھنٹے پھر سے واک کرتے ہیں اور تقریباً ساڑھے دس بجے سو جاتے ہیں۔

ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد، ان کے اور ان کے ارد گرد بھائیوں (محافظوں) کے درمیان تعلقات بہت دوستانہ اور محبت بھرے ہوچکے ہیں۔ ساتھی ان کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے ہیں اور اسحاق صاحب انہیں نصیحتیں بھی کرتے رہتے ہیں اور وہ چیزیں سکھاتے رہتے ہیں جو عموماً معمر حضرات اپنی عمر کے تجربوں سے سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات سب ساتھی مل کر اسحاق صاحب کے کمرے میں ان کی ہدایت کے مطابق کھانا بھی پکاتے ہیں۔ لہٰذا مجموعی طور پر بحمدللہ ان کا ماحول اچھا اور صحت مند ہے۔

یہ مزمل فیصل بھائی کا خط ہے جو انہوں نے چچا اسحاق کو رمضان کی آمد پر ان کی زندگی کا پہلا روزہ رکھنے کے موقع پر لکھا :

’’پیارے اسحاق بھائی!آپ کا پہلا روزہ کیسا ہے ؟ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے آپ کے لیے آسان بنائے گا۔ پیارے بھائی صبر کے بہت ثواب اورفائدے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘۔ روزہ عبادت کی ایک ایسی قسم ہے جس میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے، اور (اس کے بدلے) ہم اللہ سے اجر کی امید رکھتے ہیں، جو سب کچھ دیکھنے اور جاننے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ وہ آپ کو اس فانی دنیا میں اور آخرت کی کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی میں بہترین اجر سے نوازے۔ ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔

آپ کے اسلامی بھائی ‘‘

اور یہ چچا اسحاق کی جانب سے اس خط کا جواب ہے:

’’اے دین اسلام کے میرے بھائیو، میں آپ کے خط لکھنے کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرا پہلا روزہ تقریباً مکمل ہونے والا ہے۔ الحمدللہ یہ بہت اچھا گزرا ۔ میں روزے کے دوران مطالعہ اور تلاوت کے لیے اپنا قرآن اور اپنی عربی کتابیں ساتھ رکھنا چاہتا تھا لیکن یہ ابھی تک ہماری نئی جگہ پر نہیں لائی گئیں۔ اس جگہ پر کوئی کمپیوٹر بھی نہیں ہے اور میرا کمپیوٹر خراب پڑا ہوا ہے۔ ماشااللہ، یہ نئی جگہ… اُس جگہ سے بہت بہتر ہے جہاں ہم پہلے تھے۔ میرے کمرے میں ایک ایئر کنڈیشنر بھی ہے جو بجلی آنے پر کام کرتا ہے۔ اس سے میرے دمہ کے مرض میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کو میری خوش قسمتی کہیے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے روزے کے لیے صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ میں آپ سب کو اپنی دعاؤں میں روزانہ یاد کرتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کو سنے گا اور ان کا احسن طریقے سے جواب دے گا کیونکہ ہم سب اس کے ہاتھ میں ہیں۔ مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا ۔ آپ کااسلامی بھائی اسحاق! ‘‘

یہ فیصل مزمل بھائی (عرف عثمان) کی طرف سے چچا اسحاق کے نام ایک اور خط ہے جس میں ان کی نئی جگہ پر شفٹنگ کے حوالے سے بات کی گئی ہے:

’’بسم اللہ الرحمن الرحیم

پیارے اسحاق بھائی ! السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں آپ کو بتانے آیا تھا لیکن شاید آپ سو رہے تھے۔ ایک ساتھی نے آکر بتایا ہے کہ آج رات افطار کے بعد ہم اپنی نئی جگہ منتقل ہو جائیں گے۔ اگر آپ کو پیکنگ کے لیے کوئی مدد درکار ہو تو یہ بھائی اور مجھ سمیت دیگر ساتھی موجود ہیں۔ والسلام… عثمان

جب میں ان سے ملنے گیا تو میں نے بھائیوں سے کہا کہ وہ میرا بستر اسحاق صاحب کے کمرے میں ہی لگادیں اور یہ گیارہ راتیں میں ان کے کمرے میں ہی سوتا رہا۔ اپنے دن کا بڑا حصہ میں ان کے کمرے میں ہی گزارتا تھا ۔

میں نے ان کے لیے ایک آسان سا ابتدائی نصاب بنایا ہے جو درج ذیل ہے:

  • سیرت النبی ﷺ… از شیخ انور العولقی ( جسے وہ ایک بار مکمل کر کے دوسری مرتبہ شروع کر چکے ہیں) ۔

  • ایک بھائی کو دن میں کم از کم ایک بار نماز پڑھ کر سنانا تاکہ ان کے نماز کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔

  • اسی بھائی کے ساتھ دن میں کم از کم ایک بار قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھنا … تاکہ تلاوت بہتر ہو سکے۔

  • عربی زبان … جو وہ پہلے ہی سیکھ رہے ہیں۔ اور بحمد اللہ وہ بہت تیزی سے اس علم میں ترقی کر رہے ہیں۔

اسی طرح میں نے سیدنا ابوبکر ﷜پھر سیدنا عمر بن خطاب ﷜کی سیرت شروع کرنے کا بھی ان کو کہا ہے… دونوں شیخ انور العولقی ﷫ کی آواز میں موجود ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی یہ دونوں سیرتیں بھی مکمل کرلیں گے۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آگے کے لیے کیا نصاب بنانا ہے۔ تمام ساتھیوں سے گزارش ہے کہ اپنی تجاویز بھیجیں۔انہوں نے صلاح الدین ایوبی کی تاریخ بھی پڑھ لی ہے جو میرے ملنے سے پہلے ہی کسی بھائی نے انہیں دی تھی۔

ان کی تربیت کے حوالے سے، میری خواہش ہے کہ ان کو تدریج کے ساتھ بڑھنا چاہیے۔ اس لیے شروع میں پیچیدہ اور بڑے درجے کی کتابیں ان کے سامنے رکھنے کی بجائے، میں انہیں بنیاد سے لے کر چلنا چاہتا ہوں۔ اور جس طرح وہ آگے بڑھ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مجھے امید ہے کہ ان شاء اللہ ہم جلد ہی ان کو ایسی کتابیں دینے کے قابل ہوجائیں گے جو جدید مسائل سے متعلق ہیں۔ ہم صرف اس وقت ان کی بنیاد مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ جدید دور کے مسائل پر ان کی گرفت بآسانی ہوسکے۔

ایک شبہ!

بھائیوں کے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ’کیا اسحاق صاحب یہ سب افعال اخلاص سے کر رہے ہیں ؟ ‘جیسا کہ میں نے اوپر بھی بیان کیا کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ انسان کمزور ہے اور اس کی بصارت محدود ہے۔ اور سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے۔ ہم اپنی تمام صلاحیتوں، مشوروں اور استخاروں کے باوجود بھی صرف ایک محدود حد تک ہی چیزوں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس کے بعدہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی سے ہدایت اور بصیرت کے طلب گار ہوتے ہیں اور اسی پر ہمیں توکل ہے۔ اس دنیا میں کوئی نہیں جان سکتا کہ کسی اور کے دل میں دراصل کیا پنہاں ہے ؟! اسی لیے ہمیں لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہر کے مطابق پیش آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

لیکن چونکہ یہ ایک بہت ہی فطری سا سوال ہے اور مجھ سمیت ہر شخص کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے، اس لیے میں نے اس کے بارے میں گہرائی سے سوچا، اور جن دنوں میں اسحاق صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں رہ رہا تھا تو اس موضوع کی جانچ کے لیے میں بہت سی چیزیں نوٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے ساتھ مستقل رہنے والے ساتھیوں سے بھی کھل کر اس موضوع پر مشورے میں رہا۔ ان کے کمرے میں میرے قیام نے بحمد اللہ میری توجہ بہت سے امور کی جانب مبذول کروائی جنہیں میں بعد میں زیرِ تحریر لاؤں گا۔

سب سے پہلے، اب تک کے تمام مشاہدات اور پہلے سے طے شدہ تجزیوں کے بعد، میں نے ابھی تک کوئی ایک چیز بھی اتنی ٹھوس نہیں پائی کہ میں یہ دعویٰ کر سکوں کہ اسحاق صاحب کوئی چال چل رہے ہیں … اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے! اور نہ ہی میں نے دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے سات گھنٹے روزانہ ان کے ساتھ رہنے والے بھائیوں کی زبانی کچھ بھی ان کے بارے میں ایسا سنا ہے جو مجھے شک میں ڈال دے۔

اس کے برعکس کئی چیزیں ایسی ہیں جو مجھے یہ یقین کرنےپر ابھارتی ہیں کہ اسحاق صاحب کے یہ افعال دھوکہ نہیں ہیں …اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کے دلوں سے باخبر ہے! ان میں سے کچھ چیزیں ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں:

پچھلے نومبر سے اسحاق صاحب کو بہت قریب سے دیکھ کر، ان سے بڑے پیمانے پر پوچھ گچھ کر کے اور تفتیشی سیشنوں کے دوران کے ان کے سابقہ رویے اور اس میں آنے والے تمام اتار چڑھاؤ کو دیکھ کر ، مجھے نہایت حیرت ہوگی اگر اسحاق صاحب یہ سب کچھ ہمیں دھوکہ دینے کے لیے کر رہے ہوں۔

انہوں نے راتوں رات اسلام قبول نہیں کیا! میں نے اسلام کے بارے میں ان کے رویے میں بڑھتی ہوئی ان تبدیلیوں کو باریکی سے دیکھاہے، جن کا شروع میں کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ ان میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ ان کے لوگ اخلاقی لحاظ سے نہایت پست درجے کےہیں … ابھی مذہبی نقطہ نظر شروع نہیں ہوا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے قرآنی آیات کو ذرا دلچسپی سے سننا شروع کر دیا۔ یہ دلچسپی رفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور انہوں نے کچھ قرآنی آیات کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کردیا۔ پھر انہیں اچھا لگتا تھا جب ہم انہیں کچھ مخصوص قرآنی آیات پڑھ کر سناتے اور انگریزی مصحف سے ان کا ترجمہ پڑھ کر سناتے …یااسی طرح جب ہم انہیں رسول اللہ ﷺ اور حضرت عمر ﷜کا کوئی قصہ سناتے تو اسحاق صاحب بڑے شوق سے سنتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود انگریزی مصحف بھی پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ کبھی کبھی جب انہیں ’خدا/ God‘ کے بارے میں کچھ بات کرنی ہوتی ہے تو وہ ’اللہ/ Allah ‘ کہہ جاتے ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے وہ صرف ’God ‘کہتے تھے۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لیں تو کیا وہ اپنی اہلیہ اور خاندان کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہیں ؟ پھر انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ان کے یہاں (یعنی قید میں) ہونے کی کوئی وجہ ہے اور وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں فکر مند رہے۔ میں نے انہیں یہ قرآنی آیت دکھائی:

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰه ِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ؀ (الزمر: 53)

’’کہہ دو کہ؛ اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔‘‘

میں انہیں مسلسل کہتا کہ اللہ سے اپنے لیے آسانیاں مانگیے اور وہ جواب دیتے کہ میں ایسا کر رہا ہوں اور قرآن بھی پڑھ رہا ہوں۔ ایک موقع پر (جو مجھے یاد ہے) میں نے ان سے یہ بھی کہا تھا کہ انہیں حق کوقبول کرنے میں اپنے گھر والوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان کے گھر والے انہیں قیامت کی ہولناکیوں سے نہیں بچا سکتے۔ وہ ان تمام باتوں کو بڑی سنجیدگی سے سنتے تھے۔ اور آخری دن میں نے انہیں بہت دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ اگر اسلام قبول کیے بغیر آپ کو موت آگئی تو سیدھا جہنم میں جائیں گے۔ اور اس سب کے آخر میں ان کا یہی تبصرہ تھا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ہونے کی کوئی وجہ ہے‘۔ وہ اپنی قید کے بارے میں بات کر رہے تھے۔

نوٹ: اگلے چند نکات وہ مشاہدات ہیں جو میں نے اسحاق صاحب کے ساتھ ان کے کمرے میں تقریباً گیارہ دن رہتے ہوئے کیے تھے۔

  • جب میں نے (ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد) انہیں پہلی بار دیکھا تو میں نے کوئی بھی ایسی چیز ان میں نہیں دیکھی جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ انہوں نے دنیاوی فائدے کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔ لیکن جیسا کہ اوپر بیان ہوا، میں نے جس چیز کا ان میں اضافہ دیکھا وہ ان کے چہرے پر ایمان کا نور تھا۔ اسحاق صاحب کے امور کے ذمے دار بھائی نے بھی اس بات کا مشاہدہ کیا تھا۔

  • میں نے انہیں اپنی عبادتوں پر ڈٹنے والا پایا۔ مثال کے طور پر، میں نے انہیں کبھی نماز میں تاخیر کرتے نہیں دیکھا … اور شاید واللہ اعلم ایک بار بھی نہیں۔ جس لمحے بھائی اذان دیتے ہیں، اسحاق صاحب ہی شاید وہ پہلے شخص ہوتے ہیں جو اٹھ کر نماز کی تیاری شروع کرتےہیں۔ بعض اوقات بھائی عربی کی کلاس کے اختتام پر آرام کا وقفہ کرتے ہیں۔ اسحاق صاحب بڑھاپے کی وجہ سے تھک جاتے ہیں اور تھوڑا سستا رہے ہوتے ہیں لیکن اذان سنتے ہی فوراً وہ اپنا بستر چھوڑ کر وضو کے لیےاٹھ جاتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ آنکھیں بند کر کے رب کے حضور طویل دعائیں کر رہے ہوتے ہیں اور بظاہر وہ اس طرح اپنے ذہن کو اللہ کی طرف مرکوز کر رہے ہوتے ہیں۔ سبحان اللہ، انہوں نے مجھے عالمِ غرب کے بعض نو مسلموں کی یاد دلا دی ہے جن کا عبادت کے لیے اخلاص اور جذبہ ان پر پہلی نظر میں ہی نظر آجاتا تھا۔

  • میں نے انہیں کئی مرتبہ غیبت کے حوالے سے بہت محتاط دیکھا ہے۔ اگر وہ اپنے ساتھ رہنے والے کسی محافظ بھائی کے بارے میں کوئی عمومی سی بات بھی بتا رہے ہوتے ہیں تو اس میں بھی اس کا نام نہیں لیتے کہ کہیں یہ جملہ غیبت میں نہ چلا جائے۔ کم از کم میری عقل میں، کوئی شخص جتنا تصنع بھی کرلے اپنے گفتار میں اتنی احتیاط نہیں کرسکتا۔

  • میں نے انہیں بہت سے مواقع پر بھائیوں کی عملاً مدد کرتے دیکھا ہے… مثلاً نماز کی چادر بچھانے …اسے لپیٹنے میں، بستر یا میز کو اپنے کمرے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے وغیرہ۔ میں نے ان میں سخاوت بھی پائی… وہ اپنی کھانے کی چیزیں بزور ساتھیوں کو دیتے ہیں، جس طرح خاندانوں میں بوڑھے لوگوں کی عادت ہوتی ہے۔

  • انہوں نے مجھے ایک بار بتایا کہ کبھی کبھار جب انہیں لگتا ہے کہ وہ چیزوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں ( مثلاً بھول کر بائیں ہاتھ سے کھانا پینا وغیرہ) تو وہ اللہ سے شرمندگی سے سوال کرتے ہیں کہ ’یا اللہ کیا مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہے ؟ مجھے امید یہی ہے کہ آپ مجھ سے ناخوش نہیں ہوں گے!‘ اور انہوں نے اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا اور مجھے دکھایا کہ وہ ایسے کرتے ہیں۔ سبحان اللہ، وہ جو کچھ کہہ رہے تھے اس میں بہت سچے نظر آرہے تھے … اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے!

  • انہوں نے کبھی بھی مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی رہائی کے موضوع کو قبولِ اسلام سے نہیں جوڑا۔ اس کے برعکس میں نے انہیں کئی مرتبہ یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنا سب کچھ اللہ کو سونپ دیا ہے۔

  • میں نے ایک بار ان سے پوچھا کہ اگر وہ اُس رات (قبولِ اسلام کے بعد)فوت ہوجاتے تو کیا وہ خود کو کامیاب سمجھتے ؟ اور انہوں نے مضبوطی سے اثبات میں جواب دیا ؛جی ہاں!میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ کو موت کا کوئی خوف ہے، تو کہنے لگے؛ نہیں!

  • جب میں ان کے اسلام قبول کرنے سے پہلے ان کی جگہ سے رخصت ہورہا تھا ، تو میں نے شیخ انور العولقی کے چند ویڈیو کلپس ساتھیوں کو دیے تھے کہ یہ وارن وائن سٹائن کو دکھائیے۔ بعد میں اسحاق صاحب نے مجھے بتایا کہ جن چیزوں نے انہیں اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کرنے پر اکسایا ان میں سے ایک شیخ انور العولقی کا وہ ویڈیو لیکچر تھا جس میں انہوں نے کسی انسان کی زندگی میں پیش آئے اس موقع کے بارے میں بات کی تھی جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی بندے کو ’’کسی نیک عمل کی توفیق‘‘ سے نوازتا ہے۔ یہ لمحہ اس کی زندگی اور اس کی دنیا کو مکمل طور پر بدل دیتا ہے! سبحان اللہ، میں بخوبی سمجھ گیا کہ اسحاق صاحب کس کے بارے میں بات کر رہے ہیں کیونکہ میں ایک ایسے بھائی کو جانتا ہوں جس نے اپنی زندگی کے ایک مرحلے پر یہی لیکچر سن کر زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسحاق صاحب نے اس کلپ کو میری اور ان کے درمیان اوپر درج گفتگو کےفوراً بعد دیکھا۔ پس یہ کلپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔ (یہ کلپ اس رپورٹ کے ساتھ ہی میں بھیج رہا ہوں) براہ کرم اسے ’۸:۳۰‘ سے ’۱۹:۳۰‘ تک دیکھیں۔ اور کچھ لمحے کے لیے خود کو اسحاق صاحب کی جگہ رکھ کر تصور کریں کہ کس طرح اس کلپ کا ان پر اثر پڑا ہوگا اور اسلام قبول کرنے کے لیے ان کا دل کس حد تک اس کلپ سے کھلا ہوگا۔

  • انہوں نے مجھے عمومی گپ شپ میں یہ بھی بتایا کہ انہوں نے (اسلام قبول کرنے کا) فیصلہ انتہائی احتیاط سے کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ کبھی اس فیصلے کو بدلیں گے تو وہ (اللہ کی پکڑ میں آکر) بڑی مصیبت میں جاپڑیں گے۔

  • ایک دفعہ میری غیر موجودگی میں کئی دنوں تک ان کے دانت میں شدید درد رہا۔ انہوں نے اس درد کی شدت کوساتھیوں کے سامنے نہایت معمولی سے انداز میں بیان کیا۔ بعد میں جب میں ان سے ملنے گیا تو (ان کے بولنے کے انداز سے)مجھے معلوم ہوا کہ درد بہت شدید تھا اور ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کے چند انتہائی تکلیف دہ دن تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں صبر کر رہا ہوں۔

  • ایک دفعہ وہ کچھ باتوں پر پریشان تھے اور کھانا بھی نہیں کھا رہے تھے۔ بارش کا دن تھا اور ایک بھائی ان کی جگہ سے کچھ دور گیا ہوا تھا۔ میرا خیال ہے کہ بھائیوں نے انہیں بتایا کہ انہوں نے اس بھائی کو ان کے (یعنی اسحاق صاحب کے) کسی کام یا اس طرح کے کام کے لیے بھیجا ہوا ہے۔ اسحاق صاحب کو بہت دکھ ہوا اور بھائیوں سے پوچھا کہ انہوں نے اس بارش کے موسم میں اسے کیوں بھیجا وہ کسی مصیبت میں پڑ سکتا ہے! اسحاق صاحب نے یا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کی بحفاظت واپسی کی دعا کی یا پھر ارادہ کیا کہ اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس بھائی کو بحفاظت واپس لے آئے تو کھانا شروع کر دیں گے۔ اور چند منٹوں میں بھائی آ گیا۔ اسحاق صاحب بہت خوش ہوئے اور آج تک اس واقعہ کو اپنی دعا کی قبولیت کے طور پر (بڑے جوش سے ) بیان کرتے ہیں۔ اس چھوٹے سے واقعے سے اسحاق صاحب کا دل بہت مطمئن اور پُرسکون نظر آتا ہے، اور ان کو اپنے رب سے گمان ہے کہ اللہ ان کے ساتھ اپنا خاص کرم فرما رہا ہے۔

  • ایک بار ہمارے قریب کے علاقے میں طاغوتی فوجوں کی طرف سے مارٹر کی گولہ باری شروع ہوگئی اور ہمیں معلومات ملیں کہ بہت سے لوگ اس میں شہید ہوگئے ہیں۔ میں نے کچھ بھائیوں سے جو عمومی روٹین کی گفتگو میں مصروف تھے کہا کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں بہنوں کے لیے دعا کریں … کیونکہ حالات اب بھی کشیدہ تھے اور گولہ باری کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری تھا۔ بھائیوں نے شاید بعد میں دعا شروع کر لی ہوگی لیکن میں نے سرِدست تو ان کے رویے میں فوراً کوئی تبدیلی نہیں دیکھی۔ مگر جب میں نے اسحاق صاحب سے علیحدہ سے دعا کی درخواست کی …اور وہ اس وقت بیت الخلاء جا رہے تھے …تو ادھر ہی رک گئے اور ہاتھ اٹھا کر اللہ کے دربار میں محوِ دعا ہوگئے۔

  • وہ قرآن کی مختصر سورتیں حفظ کر رہے ہیں، اس لیے میں کبھی کبھی نمازِ مغرب میں بالقصد وہ سورتیں پڑھ لیتا تھا جو وہ اس وقت سیکھ رہے تھے۔ تاہم میں نے ان سے کبھی اس کا ذکر نہیں کیا۔ ایک دن جب میں ان کی جگہ سے رخصت ہونے لگا تو انہوں نے اس عمل پر میرا شکریہ ادا کیااور مجھے ’جزاک اللہ خیرا‘ کہنے کے لیے خاص (اپنے کمرے سے) آئے۔

  • اسحاق صاحب کا اسلام قبول کرنے سے پہلے کمرہ نہایت اندھیرا اور بیت الخلاء کا منظر نہایت ناگوار ہوتا تھا! اب الحمدللہ یہ کمرہ بالکل کسی بھی اور کمرے کی طرح ہے۔ بیت الخلاء بھی صاف ستھرا اور مرتب ہے۔ بھائی ضرورت پڑنے پر ان کا بیت الخلاء بھی استعمال کرلیتے ہیں … جبکہ اس سے پہلے بہت سے لوگ اس کام کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے! تمام تعریفیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے جس نے ہمیں اسلام سے نوازا۔

  • ایک بار عمومی بات چیت میں، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ امریکہ واپس جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں اپنی نمازوں کے اوقات کا انتظام کیسے کریں گے۔ اتنے لمبے سفر کی بابت بھی ان کی سب سے اول فکر نماز کے اوقات کے بارے میں تھی۔ ایک بار وہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا میرے لیے ان کے گھر کے قریب کی مسجد کو جاننے کے لیے انٹرنیٹ پر سرچ کرنا ممکن ہے پھر خود ہی کہنے لگے کہ میں رِہا ہو کر یہ کام خود ہی کرلوں گا۔ (اصل الفاظ اب مجھے یاد نہیں تاہم،) یہ جان لیں کہ انہوں نے ان باتوں کا اظہار صرف ہلکی پھلکی گفتگو کے دوران کیا تھا اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ سوچے سمجھے کسی پلان کے تحت تھا۔

  • میں نے انہیں ایک بہت ہی خوبصورت ویڈیو نشید (اپنے کمپیوٹر پر) دکھایاجس میں منشد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عظمت و حمدبیان کر رہا ہے۔ نشید عربی میں انگریزی سب ٹائٹلز کے ساتھ تھا۔ اسحاق صاحب کو یہ بہت پسند آیا اور انہوں نے بعد میں مجھ سے کہا کہ میں انہیں بھی یہ ویڈیو نشید کاپی کر دوں۔

یہ چند نکات اور مشاہدات تھے … ان کےقبل از اسلام اور اس کے بعد کے … جو ہمیں ان کی سچائی کے کچھ اشارے دیتے ہیں۔ اور اصل بات تو یہ ہے کہ کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کسی اور کے دل میں کیا بات ہے اور ہمیں ہدایت کی گئی ہے کہ ظاہری بنیادوں پر لوگوں کا فیصلہ کریں۔ ان شاء اللہ میں آپ بھائیوں کو وقتاً فوقتاً اسحاق صاحب اور ان کے معمولات سے باخبر رکھوں گا۔ میرا آپ حضرات کے لیے مشورہ ہے کہ بعض سمجھدار اور تجربہ کار بھائیوں کوپانچ سات دن کے لیے اسحاق صاحب کی جگہ پر بھیجیں تاکہ اسحاق صاحب اور ان کی زندگی کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ میرے خیال میں محب اللہ (جعفر) یا عزام مناسب ہونگیں۔ کیونکہ یہ اسحاق صاحب کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

یہ ہمارے آپس میں باہمی مشورے کے لحاظ سے بھی ان شاء اللہ مفید ہو گا جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ اور ان (اہلِ ایمان)کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں۔

الحمدللہ! مجاہدین کی قیادت نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور چچا اسحاق سے مجاہدین قیادت کی ملاقاتوں کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر ابو خالد باقاعدگی سے ان کے پاس میڈیکل چیک اپ کے لیے جاتے اور علاج معالجے کے بعد ان کی آپس میں اسلام، یہودیت اور عیسائیت ،امریکی حکومت کی پالیسیاں، اسرائیل اور عالم غرب کے بارے میں طویل گفتگو ہوتی۔ دونوں حضرات گھنٹوں اس قسم کے مسائل پر بحث کرتے۔ استاد احمد فاروق کو بھی ان موضوعات پر اچھی گرفت حاصل تھی۔آپ بھی چچا اسحاق سے ملنے جاتے اور تزکیۂ نفس ،تعلق باللہ، اور دیگر سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے۔ چچا اسحاق کا یہ سن کر استاد احمد فاروق سے عجیب لگاؤ پیدا ہوگیا تھا کہ وہ بھی نیویارک میں پیدا ہوئے ہیں۔ اللہ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے!

(جاری ہے، ان شاء اللہ!)

Previous Post

کتابِ عظیم | تیسری (و آخری) قسط

Next Post

خیالات کا ماہنامچہ | مارچ ۲۰۲۴ء

Related Posts

اسلام کا مسافر! | دوسری قسط
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!

اسلام کا مسافر! | تیسری(و آخری) قسط

31 مئی 2024
کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟
اداریہ

کس کے منتظر ہیں سب، معجزہ کہ زلزلہ؟

30 مارچ 2024
اُمیدِ مغفرت و رحمت
تزکیہ و احسان

اُمیدِ مغفرت و رحمت

30 مارچ 2024
سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | چوتھی قسط
اُسوۃ حسنۃ

سیرتِ رسولﷺ کے سائے میں | تیسری قسط

30 مارچ 2024
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | سولہواں درس

30 مارچ 2024
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: ستائیس (۲۷)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھبیس (۲۶)

30 مارچ 2024
Next Post
خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۴ء

خیالات کا ماہنامچہ | مارچ ۲۰۲۴ء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version