حال ہی میں انڈونیشیا میں موجود روہنگیا پناہ گزینوں کے ایک کیمپ پر مقامی طلباء نے حملہ کر دیا۔ یہ علاقہ انڈونیشیا کے شمالی سرے پر واقع آچے کا ساحلی علاقہ ہے جہاں روہنگیا پناہ گزینوں کا کیمپ ہے زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے ۔ اس کیمپ پر مقامی سکولوں کالجوں کے نوجوان طلباء نے دھاوا بول دیا تھا ۔ ایسا لگتا تھا جیسے انتہاپسند ہندو مسلمانوں پر حملہ آور ہوں ۔ لیکن یہ سب مسلمان تھے ۔ ان کے خیال میں پناہ گزینوں کی آمد سے ان کی حق تلفی ہوگی روزگار پر اثر پڑے گا۔ آچے جو نانگرو آچے دارالسلام بھی کہلاتا ہے۔ اٹھاون ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوئے اس علاقے میں ایک سو انیس جزیرے ہیں ، بہتر(۷۲) بڑے دریا ہیں اور دو نہایت خوبصورت جھیلیں ہیں۔ آچے انڈونیشیا کا باب الاسلام کہلاتا ہے کیونکہ یہاں آٹھویں صدی میں عرب تاجروں نے مقامی باشندوں کو اسلام سے متعارف کرایا۔ بہت سے عرب تاجر یہیں آباد ہوئے اور آٹھویں صدی کے آخر میں یہاں پہلی اسلامی سلطنت قائم ہوئی۔
آچے کے عوام نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے ۱۸۷۳ءمیں ولندیزیوں کے خلاف جنگ شروع کی جو دنیا کی طویل ترین جنگ شمار ہوتی ہے۔ یہ جنگ ۱۹۴۲ء تک جاری رہی۔۱۹۴۵ء میں جب مسلح جدوجہد کے بعد انڈونیشیا ولندیزی غلامی سے آزاد ہوا تو آچے انڈونیشیا کا حصہ بنا، لیکن اس کو ملک کا خصوصی خودمختاری کا علاقہ قرار دیا گیا۔ لیکن آزادی کے آٹھ سال بعد ہی اسے شمالی سماترا کے صوبے میں ضم کردیا گیا اور اس کی خصوصی خودمختاری ختم ہوگئی۔ اس صورت حال کے خلاف آچے کے عوام نے پہلے تو پر امن تحریک چلائی لیکن جب سوہارتو کی حکومت نے اس تحریک کو فوج کی طاقت کے بل پر کچلنا شروع کیا تو ۱۹۷۴ء میں مسلح جدو جہد شروع ہوئی۔ آچے کی آبادی بیالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے جس میں اکثریت عرب نژاد افراد ہیں۔ ان کے رسم و رواج اور زبان بھی انڈونیشیا کی ثقافت اور انڈونیشی زبان سے مختلف ہے۔ انڈونیشیا کی حکومت آچے کی عوام کی آزادی کی تحریک کو کچلنے پر اس لیے اٹل ہے کہ یہاں یہ علاقہ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
امریکہ اور انڈونیشیا کی سرکاری تیل کمپنی موبل آئل کارپوریشن پرتامینا آچے کے لوکسیو ماوے کے علاقے میں ۱۹۶۵ء سے تیل اور گیس نکال رہی ہیں۔ آچے کے عوام اس بات پر سخت ناراض ہیں کہ آچے کے تیل اور گیس سے انڈونیشیا کی حکومت کو پندرہ ارب ڈالر سالانہ کی آمدنی ہوتی ہے لیکن اس میں سے آچے کو ایک فی صد بھی رقم نہیں ملتی۔ امریکہ کا آچے میں مفاد خاص طور پر اس کے تیل کی دولت سے وابستہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ آچے میں انڈونیشیا کے فوج کی زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس نے دھیان نہیں دیا ہے۔ آچے کی اہم جغرافیائی اور فوجی حیثیت کی وجہ سے بھی امریکہ اس طرف اپنی آنکھیں موندے ہوئے ہے اور انڈونیشیا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آچے پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ آچے آبنائے ملاکہ پر واقع ہے جو مشرق بعید آنے جانے والے جنگی اور تیل بردار جہاز وں کی اہم گزر گاہ ہے اور یہ مغرب سے آسڑیلیا ، چین اور جاپان جانے والا واحد بحری راستہ ہے ۔
برما سے ہجرت کرکے بنگلہ دیش آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے بنگلہ دیشی حکومت کبھی انہیں زبردستی واپس بھیجنے کی کوشش کرتی ہے تو کبھی ایک ایسے بے آباد جزیرے پر منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے جو سال کا بیشتر حصہ سمندری طوفانوں اور سیلاب کی زد میں رہتا ہے۔ آئے روز کیمپ میں آگ لگ جانا بھی معمول بن چکا ہے۔ انڈونیشیا میں پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کی نمائندہ این میمن نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ کاکس بازار (بنگلہ دیش )میں سکیورٹی کی ابتر صورتحال مزید روہنگیا افراد کو فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ زیادہ تر روہنگیا اکتوبر اور مئی کے مہینوں کے درمیان کشتی کا سفر کرتے ہیں کیونکہ اس وقت ہوائیں تیز ہوتی ہیں اور حد سے زیادہ بھری کشتیاں تیز رفتار سے سفر کرتی ہیں۔ یاسمین فطوم اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ کشتی میں انڈونیشیا کی طرف سفر کر رہی تھیں تو انھیں یہ امید تھی کہ وہ اب مشکل سے نکل پائیں گی مگر ایسا نہ ہوا۔ ساحل پر مقامی لوگ برہمی سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ان کے نزدیک پناہ گزین مقامی وسائل پر ایک بوجھ ہیں۔ انھوں نے کشتی کا راستہ روک کر اسے دو مرتبہ سمند کی طرف گھسیٹا۔ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے ایک مقامی شخص چیخ کر پناہ گزینوں کو کہہ رہا ہے ’‘تم یہاں نہیں اتر سکتے! ہمیں مارنے پر مجبور نہ کرو!‘‘ جبکہ دوسری جانب بچوں اور عورتوں کو مدد مانگتے سنا جاسکتا ہے۔ یاسمین نے آبدیدہ ہو کر نشریاتی ادارے کو بتایا: ’’جب میں انڈونیشیا آئی تو میرے دو بچے تھے۔ لیکن جب انھوں نے کشتی کو پیچھے دھکیلا تو میری ایک بچی فوت ہو گئی کیونکہ وہ بیمار تھی اور ہمارے پاس خوراک نہیں تھی۔ ہمیں اس کی لاش سمندر برد کرنا پڑی۔‘‘ جب کئی دن کی غیر یقینی صورتحال کے بعد لوگوں کو کشتی سے اترنے کی اجازت ملی تو وہ رو پڑے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے درد اور دکھ بھرے سفر کا اختتام ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ وہ غمگین بھی تھے کیونکہ بیماری اور خوراک کے نہ ہونے کی وجہ سے تین مزید بچے کشتی پر فوت ہو گئے تھے۔ یاسمین ان ۱۰۸۷ روہنگیا پناہ گزینوں میں سے ہیں جو نومبر میں آچے پہنچے تھے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت انڈونیشیا کے اس مشرقی صوبے میں تقریباً ۱۲۰۰ روہنگیا پناہ گزین آباد ہیں۔
٭٭٭٭٭