نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | دسویں قسط

سورۃ العصر کی روشنی میں

عاصم عمر سنبھلی by عاصم عمر سنبھلی
26 مئی 2025
in جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!, اپریل و مئی 2025
0

جمہو ریت میں عام ہوجانے والے منکرات

اللہ کی نازل کردہ شریعت کے خاتمے اور انسانوں کے بنائے جاہلی نظام کے نفاذ کی صورت میں انسانی معاشرہ کس طرح روز بروز خسارے کی جانب بڑھ رہا ہے، خالق کی مخلوق میں خالق کا قانون نہ نافذ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں برائیاں کتنی تیزی سے عام ہو رہی ہیں، اس کا اندازہ معاشرے کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں ان کی تفصیل یقیناً طوالت کا باعث بنے گی، چنانچہ یہاں صرف انہی اہم منکرات کو بیان کرتے ہیں جن سے خود کو بچانا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

۱۔ اللہ کی آیات و قوانین کو (پارلیمنٹ) کا محتاج بنانا

مشرقی جمہوری نظا م میں منکر اور کفر کی یہ عجیب و غریب قسم ہے۔ یہ کفر اس جمہوریت میں نہیں جسے مغربی، لبرل یا سیکولر جمہوریت کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ تو کھلم کھلا کفر کرتے ہیں اور شریعت بنانے میں خود کو آزاد کہتے ہیں۔ انہوں نے مذہب کو ریاست کے اجتماعی معاملات سے سرے سے ہی فارغ کر دیا ہے۔ اور نہ ہی ہندوستان جیسے کفری ملک کو کفر کی یہ نئی قسم ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

کفر کی یہ عجیب و غریب قسم اس جمہوریت کا کارنامہ ہے جسے اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ کی محکم آیات یعنی جو قوانین اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن میں بیان فرمائے، یا جنہیں رحمۃ للعالمینﷺ نے بیان فرمایا، انہیں ’اسلامی جمہوریت‘ میں اس وقت تک قانون نہیں مانا جا سکتا جب تک کہ پہلے اسے (پارلیمنٹ) میں بیٹھے افراد کے سامنے (العیاذ باللہ) منظوری کا محتاج نہ بنا دیا جائے، پھر پارلیمنٹ چاہے اسے قانون کے قابل سمجھے یا چاہے تو کہہ دے: ﴿ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّ لْه﴾ کہ اس کے علاوہ کوئی اور قرآن لے آؤ جسے ہم اپنا دین بنا سکیں یا اس قرآن میں کچھ تبدیلی کے ساتھ اسی کو منظور کر لو(العیاذ باللہ)۔

سو علمائے حق سے درخواست ہے کہ اس باطل کے دجل کو ہر حال میں بیان کریں، ہم سب کو اس رب کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے جہاں کسی کا اقتدار، کسی کی طاقت، کسی کی دھمکیاں نہیں چلا کرتیں، اور یہ سرکاری پروٹوکول کام نہیں آیا کرتے۔

اسے کھل کر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اللہ کے قوانین کو منظوری کے لیے پارلیمنٹ کا محتاج بنانا ایسا کفر ہے جو ملت سے خارج کر دیتا ہے۔ یہی ہر جمہوری ریاست کا ریاستی دین ہے، یہی اس جمہوریت کی جان اور روح ہے۔

پھر بھی زعم و دعویٰ یہ کہ اس ریاست میں حاکمیتِ اعلیٰ تو اللہ ہی کی ہے، ﴿سبحان اللّٰہ عما یشرکون﴾۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کیا خوب فرمایا، جیسے ابھی ترو تازہ ہو:

﴿وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِيْبًا فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىِٕہِمْ فَلَا يَصِلُ اِلَى اللّٰہِ وَمَا كَانَ لِلّٰہِ فَہُوَيَصِلُ اِلٰي شُرَكَآىِٕہِمْ سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ﴾ [الأنعام:136]e

’’اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں ان لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے ان معبودوں کا ہے جنہیں ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ ان کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے ، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے ۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔‘‘

جاہلیتِ جدیدہ کے بندے بھی اس جمہوری نظام میں یہی کہتے ہیں کہ حاکمیت کا حق تو اللہ کا ہے، لیکن عملا ً کیا کرتے ہیں کہ اللہ کے حق کو بھی اپنے بتوں (پارلیمنٹ) کو دے دیتے ہیں کہ پارلیمنٹ اللہ کے جس حکم کے ساتھ چاہے جیسا بھی معاملہ کرے، خوا ہ یہ حکم ِ رجم ہی کیوں نہ ہو جس کا منکر بالاجماع کافر ہے۔

اور جو کچھ اللہ کا حق ہے اس کا کوئی خیال ہی نہیں کرتے، یعنی جس چیز کو اللہ نے حرام کر دیا اسے حلال کرنے کا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیتے ہیں، جیسے سو د اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دینا۔ اس بارے میں اتنا بھی نہیں سوچتے کہ سود والوں کے ساتھ اللہ و رسول ﷺ کا اعلانِ جنگ ہو چکا ہے۔ اور مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دینا دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔

اس کے بر عکس ا پنے بتوں کا پورا پورا حق محفوظ رکھتے ہیں جسے ہمیشہ اللہ کے حکم و حاکمیت پر بالا دست رکھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب تک پارلیمنٹ کسی قانون کو منظور ی نہ دے دے تب تک وہ قانون بننے کے لائق نہیں سمجھا جائے گا۔ سو وہ آئین کا حصہ نہیں بن سکتا۔ حالانکہ اپنے بتوں کو کھلا اختیار دیا ہے کہ وہ قانون بناتے وقت اللہ کے حق کا خیال ہی نہیں کرتے۔ بس آئین میں لکھا ہوا ہے کہ حاکمیت کا حق اللہ کا ہے۔ فَقَالُوْا ھٰذَا لِلّٰہِ بِزَعْمِہِمْ وَھٰذَا لِشُرَكَآىِٕنَا۔

کتنا ہی برا ہے ان کا فیصلہ جو یہ مالک الملک اور عرش و کرسی کے مالک کے حق میں کر رہے ہیں۔

﴿ذٰلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلّٰهِ الْعَلِيِّ الْكَبِيرِ …… فَادْعُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُونَ﴾ [غافر:12،14]

’’یہ اس وجہ سے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کو پکارا جاتا ہے تو تم انکار کرتے ہو اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کر لیا جائے تو مان لیتے ہو، سو حکم تو اللہ ہی کے لیے ہے جو برتر و بالا ہے …… اس لیے تم اللہ ہی کو پکارو، دین کو اس کے لیے خالص کرتے ہوئے، اگر چہ کافروں کو ناگوار لگے۔‘‘

۲۔ اللہ کے ساتھ کفر: تشریع (شریعت بنانے) کا حق پارلیمنٹ کو دینا

جمہوری نظام کے ذریعے اللہ کے ساتھ کیا جانے والا یہ ایسا کفر ہے جس کے بغیر کوئی ریاست جمہوری نہیں کہلا سکتی۔ اس جمہوریت کے تحفظ کے لیے قومی ریاستوں کے اندر فوجیں موجود ہیں، جو ہر حال میں اس کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔ عالمی ادارے اس کی حفاظت کے ضامن ہیں۔

پاکستان میں مقتدر طبقے کی جانب سے مذہبی طبقے کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے کیونکہ اس کا آئین اسلامی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے آئین میں لکھا ہوا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنت ہو گا۔

اگر فوج و خفیہ ایجنسیاں یا وہ حکمراں طبقہ جو اس اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے، یہ باتیں کر کے عامۃ المسلمین کو دھوکہ دیتا ہے تو بات سمجھ میں آنے والی ہے، لیکن یہ علماء کو کیا ہوا کہ جان بوجھ کر نصف صدی سے زائد اس فریب سے نکلنا نہیں چاہتے کہ پاکستان اسلامی ریاست ہے یا اس کا آئین صرف اس لیے اسلامی ہے کہ آئین کے اوراق میں ایک جملہ لکھا ہوا ہے۔

اللہ سب کے دلوں کے بھید کو اچھی طرح جانتا ہے۔ کون اللہ کے کلمات کو تبدیل کرتا ہے، کون تاویل کے ذریعہ مقتدر طبقے کے اقتدار کی حفاظت کرتا ہے، کون اس کے بدلے اپنی جان کی امان پاتا ہے اور کون اس کے بدلے اس حقیر دنیا کی گند میں کتنا منہ مار رہا ہے…… عالم الغیب سب کو اچھی طرح پہچانتا ہے۔

حقیقت سب کے سامنے ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کے ہاتھ میں ہے یا اسی مقتدر طبقے کے ہاتھ میں؟ آج ستر سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس ملک میں اللہ کی چلی یا پارلیمنٹ کی؟

حقیقت یہ ہے کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی حاکمیتِ اعلیٰ مقتدر طبقے کے ہاتھ میں ہے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل تو یہی ہے کہ پاکستان کے آئین میں باجودیکہ یہ جملہ لکھا ہوا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں ہو گا، یا قرآن و سنت ہی پاکستان کا سپریم لاء ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت کی ہر روز پارلیمنٹ میں دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، باوجود آئین میں مذکورہ جملہ لکھا ہونے کے اصل قوت پارلیمنٹ کے پاس ہی ہے کہ وہ جب تک قرآن کے قانون کو منظوری نہ دے وہ قانون نہیں بن سکتا۔ پاکستان بننے سے لے کر اب تک کا وقت اس پر گواہ ہے۔ گواہی کے لیے کیا یہ عرصہ کم ہے کہ یہاں حاکمیتِ اعلیٰ کس کے پاس ہے؟ اس کے مقابلے میں آپ کوئی ایک واقعہ تو ایسا بتائیے کہ اس اسلامی جمہوریت میں اللہ کے کسی قانون کو بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کا محتا ج بنائے آئین کا حصہ بنا دیا گیا ہو،یا صرف ریاست کی جانب سے یہ اعلان کر دیا گیا ہو کہ چونکہ شادی شدہ زانی و زانیہ کو سنگسار کرنا اللہ کا قانون ہے، اس لیے ریاست کا بھی یہی قانون ہے، اسے پارلیمنٹ کا محتاج بنانے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح سود اللہ کے آئین میں حرام ہے، اس لیے بغیر پارلیمنٹ کا انتظار کیے آج سے سود غیر قانونی اور جرم ہے۔

لیکن ایسا نہیں ہو سکتا! کیونکہ اس سے جمہوریت کی روح تار تار ہو جائے گی، اور جمہوریت کی محافظ مقامی قوتیں (فوج ) اور عالمی قوتیں امریکہ و عالمی ادارے فوراً حرکت میں آ کر ایسے صدر یا وزیرِ اعظم کا دھڑن تختہ کر دیں گے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جمہوریت کی روح (یعنی قانون سازی میں پارلیمنٹ کی منظوری کا اصل ہونا) ہی اس ریاست پر حاکم ہے، نہ کہ آئین کے اوراق میں کالی سیاہی سے لکھا ہوا یہ جملہ: ’قرآن و سنت ہی پاکستان کا سپریم لاء ہے‘۔

اللہ کے لیے اس دھوکے سے نکل آئیے، نہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے، اور نہ قرآن و سنت کی یہاں حاکمیت ہے۔

تنبیہ: کیا پاکستان کی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے؟

اس باب میں مقتدر طبقے کی جانب سے یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ریاست نے تو کلمہ پڑھا ہے، یعنی ریاست عقیدتاً اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ حاکمیت و تشریع کا حق اللہ تعالیٰ ہی کے ساتھ خاص ہے، خرابی صرف نفاذ یعنی عمل میں ہے۔ اور مذکورہ عقیدے کو تسلیم کرتے ہوئے عمل میں خرابی سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔

ایسا سمجھنا خود ایک فحش غلطی ہے۔ تشریع کے باب میں مذکورہ عقیدہ رکھنے کے باجود اگر کوئی عملاً اس اختیار (اوامر و نواہی کے اختیار) کو کسی غیر اللہ کے سپرد کر دیتا ہے، یہ بھی کفر ہے۔ جیسا کہ اوپر نصاریٰ کے حوالے سے گزرا کہ انہوں نے اپنے راہبوں کو عقیدتاً معبود نہیں بنایا تھا، بلکہ ان کا یہی عمل تھا کہ حق ِ تشریع راہبوں کے لیے تسلیم کر لیا تھا، اسی کو قرآن نے معبود بنانا قرار دیا،جس کی تفسیر رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمائی۔

اور امام رازی﷫ نے جو کچھ اس کی تفسیر میں بیان کیا، اسے دوبارہ پڑھیے:

الْمَسْأَلَةُ الثَّانِيَةُ: الْأَكْثَرُونَ مِنَ الْمُفَسِّرِينَ قَالُوا: لَيْسَ الْمُرَادُ مِنَ الْأَرْبَابِ أَنَّهُمُ اعْتَقَدُوا فِيهِمْ أَنَّهُمْ آلِهَةُ الْعَالَمِ، بَلِ الْمُرَادُ أَنَّهُمْ أَطَاعُوهُمْ فِي أَوَامِرِهِمْ وَنَوَاهِيهِمْ۔

’’اکثر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ رب بنانے سے یہ مراد نہیں کہ انہوں نے اپنے علماء و راہبوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا شروع کر دیا تھا کہ وہ عالم کے معبود ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ احکامات اور پابندیوں میں ان(راہبوں ) کی اطاعت کرتے تھے ۔‘‘

جبکہ جمہوریت تو یہ عقیدہ رکھنے پر مجبور بھی کرتی ہے اور اس کے التزام کو واجب قرار دیتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ کوئی شہری یا کوئی رکنِ پارلیمنٹ یہ بات نہیں کر سکتا کہ میں ریاست کے اس طریقہ کار (کسی بل کی منظوری کے لیے اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنے) کو نہیں تسلیم کرتا، یہ شریعت کے خلاف ہے، اور یہ کفر ہے۔ پھر معلوم ہو جائے گا کہ اس کفر کی محافظ قوتیں ایسے شخص کو کیسا عبرت کا نشان بناتی ہیں۔

کسی بھی قوم کا مقتدر طبقہ (ملأ القوم) اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھوڑ کر خود ہی شارع کیوں بن بیٹھتا ہے؟ کیوں وہ خود ہی قانون ساز ی کرنے لگ جاتا ہے، اور اللہ کے اس اختیار کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے؟

تاکہ اس لا محدود اختیار کے ذریعہ وہ اپنے اقتدار کی بنیادیں مستحکم کر سکے، اپنی اور اپنے طبقے کی خواہشات کا تحفظ کر سکے، اس کے ذریعہ جیسے چاہے قوانین بنائے اور اس کے ذریعہ عوام کو اپنا غلام بنائے رکھے۔ پھر اس قانون سازی کو محترم بنانے کے لیے اسے مذہب یا کسی نظریے اور عقیدے کی جانب منسوب کر دیا کرتا ہے، تاکہ لوگ مذہبی عقیدت کے ساتھ اس کی عبادت کرنے لگیں اور اس کے خلاف کرنے کو گناہ سمجھیں، چنانچہ عوام ساری عمر مقتدر طبقے کی خواہشات کو پورا کرتے رہتے ہیں۔

مقتدر طبقہ یہ اختیار حاصل ہو جانے کے بعد صرف سیاسی اور معاشی قانون سازی ہی نہیں کرتا بلکہ معاشرت کو اپنے اختیارات میں جکڑنے کے لیے بھی اپنی جانب سے ہی قانون گڑھ لیا کرتا ہے،یوں وہ ایک مکمل دین ایجاد کر لیتا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی ہوتی۔

مکہ میں جاہلیتِ اولیٰ کی پارلیمنٹ (دار الندوہ) یہی کام کرتی رہی، اپنے اقتدار، اپنی سیادت و قیادت اور حکمرانی کو مستحکم و مضبوط کرنے کے لیے جس چیز کو چاہتے خود ہی قانونی (حلال) قرار دے دیتے، اور جسے چاہتے غیر قانونی(حرام) بنا دیتے۔ پھر اس قانون سازی کو مذہبی جذبات و عقیدت سے مستحکم کرنے کے لیے اسے اپنے معبودوں کی جانب منسوب کر دیتے کہ یہ سب تو تمہارے معبودوں ہی کی طرف سے ہے۔ تاکہ کم فہم عوام اس پر اعتراض کی جرأت بھی نہ کر سکیں۔

یہاں اس مذہبی سیاسی حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دور میں مقتدر طبقے نے قانون سازی کرنے کے بعد اسے اپنے معبودوں (خواہ وہ بتوں کی شکل میں تھے یا کسی عمارت یا ادارےکی شکل میں) کی جانب منسوب کیا۔ یہ مقتدر طبقہ ا س قانون سازی کو اپنی جانب منسوب نہیں کرتا۔ جدید جاہلی نظام میں حاکمیت کے کلی اختیارات کو عوام کی جانب منسوب کیا جاتا ہے، جبکہ یہ اس جاہلی نظام کا سب سے بڑا دجل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام اختیارات مقتدر طبقے کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح پتھر کے بت یا گارے مٹی کی بنی عمارت کو حاکمیت کا اختیار ثابت کر کے اس کے متولی خود سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے تھے، یا جیسے کسی مزار کا مجاور اپنی خواہشات کو مزار میں دفن انسان کی طرف منسوب کر دیا کرتا ہے۔

امام رازی﷫ اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وَقَالَ الْكَلْبِيُّ: كَانَ لِآلِهَتِهِمْ سَدَنَةٌ وَخُدَّامٌ وَهُمُ الَّذِينَ كَانُوا يُزَيِّنُونَ لِلْكَفَّارِ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ۔

’’کلبی نے کہا: ان کفار کے معبودوں (یعنی صنم خانے)کے متولی اور خدام تھے جو کفار کے لیے ان کی اولاد کا قتل مزین کر دیا کرتے تھے۔‘‘

جمہوری پارلیمنٹ کے متولیوں اور مجاوروں نے بھی آج اپنے مفادات کی خاطر انسان کے لیے خود ہی ایک نیا دین ایجاد کیا ہے جس کے اپنے فرائض و واجبات (جنہیں کرنا ہر شہری کے لیے لازم ہے) ہیں، حرام و حلال (آئینی و غیر آئینی) ہیں، مستحبات و مکروہات ہیں۔

کیا یہ تغیر فی خلق اللہ (اللہ کے پیدا کردہ میں تبدیلی) نہیں؟ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء آیت ۱۱۹ میں فرمایا:

﴿وَّلَاُضِلَّنَّھُمْ وَلَاُمَنِّيَنَّھُمْ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ يَّتَّخِذِ الشَّيْطٰنَ وَلِيًّا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِيْنًا﴾ [النسآء:119]

’’اور میں انہیں راہِ راست سے بھٹکا کر رہوں گا، اور انہیں خوب آرزوئیں دلاؤں گا، اور انہیں حکم دوں گا تو وہ چوپایوں کے کان چیر ڈالیں گے، اور انہیں حکم دو ں گا تو وہ اللہ کی تخلیق میں تبدیلی پیدا کریں گے۔ اور جو شخص اللہ کے بجائے شیطان کو دوست بنائے، اس نے کھلے کھلے خسارے کا سودا کیا۔‘‘

اس آیت میں ﴿فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ﴾ [( شیطان نے کہا کہ میں انہیں حکم دوں گا) تو وہ اللہ کی خلق میں تبدیلی کریں گے] یہاں متقدمین مفسرین کے نزدیک خلق اللہ سے مراد ’دینُ اللہ‘ ہے یعنی وہ اللہ کے حرام کردہ کو قانونی(حلال) اور حلال کو حرام (غیر قانونی) کرنے کے ذریعہ اللہ کے دین میں تبدیلی کریں گے۔

چنانچہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی﷫ تفسیرِ مظہری میں فرماتے ہیں:

’’گویا شیطان نے اپنے اس قول میں اس طرف اشارہ کیا کہ میرے حکم کے مطابق وہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام بنا لیں گے اور جو جانور با لفعل یا بالقوۃ کامل پیدا کیا گیا ہے، اس کو ناقص بنا دیں گے۔ ‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ تشریع کا حق اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے خاص کرنا ایسا کفر ہے جس سے بغاوت کی دعوت ہر نبی نے اپنی قوم کو دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:

﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِيْ كُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَـنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ھَدَى اللّٰہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْہِ الضَّلٰلَۃُ﴾ [النحل:36]

’’اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جنہیں اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی مسلط ہو گئی۔‘‘

جمہوریت اور اکابر علماء کے بارے میں وضاحت

جمہوریت کے حق ہونے کی دلیل میں ایک بات یہ پیش کی جاتی ہے کہ اگر یہ جمہوریت باطل ہوتی تو بڑے بڑے بعض اکابر علماء اس میں شامل کیوں ہوتے؟

اس کے بارے میں ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ جمہوری نظام کھڑا کرنے والی قوتیں کوئی عام ذہن نہیں رکھتی تھیں، بلکہ ایسے شیطانی ذہن تھے کہ جتنا اس نظام کے دجل میں غور کرتے ہیں، اتنی ہی ان کے لیے بد دعائیں نکلتی ہیں۔

یہ وہ لوگ تھے جو اسلام و شریعت اور عقائد و فقہِ اسلامی کا اچھی طرح بلکہ بہت گہرا علم رکھتے تھے۔ ابتدائی دور میں انگریزوں نے اس جمہوریت کو اسی انداز میں رائج کرنے کی کوشش کی جس طرح یہود نے اسے مغرب میں رائج کیا تھا، لیکن چونکہ یہاں علماء تو کیا عوام بھی اس بات کو اچھی طرح جانتی تھی کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ کے سوا کسی کے لیے مان لینا یا قانون سازی کا حق اللہ کے علاوہ کسی کو دے دینا، یہ صرف گناہ کبیرہ نہیں بلکہ کفر ہے۔ اس لیے اسلامی دنیا میں یہ پہلی کوشش ابتداء ہی میں ناکام ہو گئی۔

اس کے بعد اسلامی دنیا کے لیے جمہوریت کا یہ ترمیم شدہ ایڈیشن بھیجا گیا جس میں اسلامی اصطلاحات کو استعمال کیا گیا تھا، جس کا مقصد اسے اسلام سے ہم آہنگ ثابت کرنا تھا۔

چنانچہ جن علماء نے اس میں شرکت کی، وہ اسی نیک نیتی پر مبنی تھی کہ وہ اس نظام میں شامل ہو کر ملک میں شریعت نافذ کریں گے۔ لیکن اسے قریب سے دیکھ لینے کے بعد اور جن قوتوں کے ہاتھ میں اس نظام کی ڈوریاں ہیں، ان کی حقیقت سمجھ لینے کے بعد ان علماء پر واضح ہوگیا کہ یہ سوائے دھوکے کے کچھ نہیں۔

نیز ایک اور تاریخی حقیقت سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان اکابر علماء کے ساتھ اس وقت کی مقتدر قوتیں دن رات یہ وعدے کرتی تھیں کہ ہم اس ملک میں شریعت نافذ کریں گے، اس بنیاد پر ان علماء نے اس نظام میں شرکت کی، اب اگر مقتدر قوتیں اپنے وعدے سے مکر گئیں تو اس میں ان علماء کا کیا قصور؟

لہٰذا اہلِ علم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ جمہوریت کے حق ہونے کی دلیل میں صرف یہ کہتے پھریں کہ جمہوریت غلط ہوتی تو اکابر علماء اس میں کیوں شریک ہوتے۔

یہ غلط ہے کہ مقتدر قوتوں کے خوف کی وجہ سے آپ بغیر دلیل کے اس کفر کو اسلام ثابت کر تے پھریں اور دلیل میں اکابر علماء کا نام استعمال کریں۔ (اور کیا آپ ایسا کر سکتے ہیں؟) اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ اس نظام میں شمولیت کی وجہ سے کوئی طامع ان علماء کی ہی تکفیر کرنے لگ جائے۔ یہ معتدل رائے ہے کہ ان علماء کو عذر دیا جائے اور جمہوریت کے کفر کو مسلمانوں کے سامنے واضح کیا جائے۔

۳۔ اللہ کی غیر قانونی و حرام قرار دی ہوئی چیزوں کو قانونی و حلال بنا لینا، اور اللہ کے لازم کردہ فرائض کو حرام و غیر قانونی قرار دینا

جاہلی نظام میں ایک بڑا منکر یہ رائج ہے کہ خود ہی جس چیز کو چاہتے ہیں قانونی قرار دے دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں غیر قانونی بنا دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ حق تو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔

﴿وَقَالُوا هَذِهِ أَنْعَامٌ وَحَرْثٌ حِجْرٌ لَا يَطْعَمُهَا إِلَّا مَنْ نَشَآءُ بِزَعْمِهِمْ وَأَنْعَامٌ حُرِّمَتْ ظُهُورُهَا وَأَنْعَامٌ لَا يَذْكُرُونَ اسْمَ اللّٰهِ عَلَيْهَا افْتِرَاءً عَلَيْهِ سَيَجْزِيهِمْ بِمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ﴾ [الأنعام:138]

’’اور یوں کہتے ہیں کہ ان چوپایوں اور کھیتیوں پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ ان کا زعم یہ ہے کہ انہیں سوائے ان لوگوں کے کوئی نہیں کھا سکتا جنہیں ہم کھلانا چاہیں، اور کچھ چوپائے ایسے ہیں جن کی پشت حرام قرار دی گئی ہے ، اور کچھ چوپائے وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ پر یہ بہتان باندھتے ہیں کہ ان پر اللہ کا نام نہیں لیتے۔ جو افترا پردازی یہ لوگ کر رہے ہیں ، اللہ انہیں عنقریب اس کا پورا پورا بدلہ دے گا۔‘‘

پھر افسوس کہ اس جمہوری کفری نظام کو اسلامی ثابت کرنے کے لیے آخر میں وہی بات کہہ دیتے ہیں جو کفارِ مکہ دلائل سے ہار جانے کے بعد کہا کرتے تھے:

ؤ﴿وَقَالَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَيْءٍ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَہَلْ عَلَي الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ﴾ [النحل:35]

ؤ’’اور جن لوگوں نے شرک اختیار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت نہ کرتے، نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کوئی چیز حرام قرار دیتے۔ جو امتیں ان سے پہلے گزری ہیں، انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ لیکن پیغمبروں کی ذمہ داری اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ صاف صاف طریقے پر پیغام پہنچا دیں۔‘‘

۴۔ امر بالمنکر و نہی عن المعروف

اس نظام میں یہ کام ریاست کی سرپرستی میں کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۂ توبہ میں فرماتے ہیں:

﴿اَلْمُنٰفِقُوْنَ وَالْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُہُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَيَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَہُمْ نَسُوا اللّٰہَ فَنَسِيَہُم اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ﴾ [التوبة: 67]

’’منافق مرد اور منافق عورتیں سب ایک ہی طرح کے ہیں۔ وہ برائی کی تلقین کرتے ہیں اور بھلائی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے تو اللہ نے بھی انہیں بھلا دیا۔ بلاشبہ یہ منافق بڑے نافرمان ہیں۔‘‘

خلافتِ عثمانیہ کے ٹوٹ جانے کے نتیجے میں روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کلی طور پر محکوم و مغلوب بنا دی گئی۔ مسلم خطوں میں شریعت کا خاتمہ کر کے انگریزی، فرانسیسی اور دیگر مخلوط نظام نافذ کر دیے گئے۔

پھر جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد (1939-1945) سامراجی قوتیں اپنے اپنے مسلم مقبوضہ علاقوں سے واپس ہونا شروع ہوئیں تو انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ ان کے جانے کے بعد بھی کسی مسلم ملک میں دوبارہ شریعت ِ محمدیہ ﷺ کا نفاذ نہ ہو سکے۔ چنانچہ اکثر مسلم ملکوں میں جمہوری نظام نافذ کیا گیا اور اس بات کو یقینی بنا لیا گیا کہ کسی مسلم ملک میں شریعت نافذ نہ کی جا سکے گی۔ اس کے لیے اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو بطورِ نظامِ زندگی (دین) کے تمام قومی ریاستوں میں نافذ کیا گیا۔ ریاستیں اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کی پابند قرار پائیں، اور ریاست کی محافظ قوتوں(فوج و پولیس)نے اسے اپنے ذمہ لیا۔

نتیجتاً مسلم ممالک سے اسلام کا غلبہ ختم ہوا اور جو نظام دنیا پر مسلط کیا گیا، وہ ایک ایسا طرزِ زندگی لے کر آیا جس کا لباس نیا لیکن حقیقت اتنی ہی بوسیدہ و فرسودہ تھی جتنی کہ فرعون و نمرود، سامری و شداد اور ابو جہل و ابولہب کی، یہ طرزِ زندگی در حقیقت تاریک دور کی جاہلیتِ اولیٰ کا جدید ایڈیشن ہے، اس کے غلبے کی صورت میں صرف یہی نہیں کہ لوگ برائیوں میں مبتلا ہوئے بلکہ برائیوں کو عام کرنے کی دعوت، اس کی جانب رغبت، اس کی حوصلہ افزائی اور منکرات کو پھیلانے کے لیے ریاستی ذرائع مہیا کیے جاتے رہے ہیں۔ منکرات کی محفلوں میں شرکت کی دعوت، ریاست کی سرپرستی میں ان کی تشہیر اور حفاطت، ریاست کی ذمہ داری قرار پائی ہے۔ سودی مراکز (بینک) ہوں یا فحاشی پھیلانے کے ذرائع (مساج سینٹر، سینما، کیبل، ٹی وی، انٹرنیٹ کیفے، وغیرہ) یا گانے بجانے کی محفلیں، ان میں سے کسی کو بھی خطرہ لاحق ہو تو ریاست کی محافظ قوتیں ان کی حفاظت کرنے کو اپنا فرض سمجھتی ہیں۔ ایسے میں کوئی ایمان والا خود اٹھ کر کسی منکر کو روکنا چاہے تو اسے لال مسجد و جامعہ حفصہ کی طرح نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

محمد ﷺ کی لائی شریعت سے روکنے کے لیے ریاست کے تمام ستون (مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ) اپنے اپنے انداز میں کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح اسلام کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنا، شعائرِ اسلام (داڑھی، پردہ، حدود وغیرہ) کا مذاق اڑانا، امت کو جہاد سے روکنے کے لیے مختلف انداز میں محنت کرنا اور مدارس، علماء اور علمِ دین کی تحقیر ان کے بنیادی مشن میں شامل ہے۔

۵۔ سودی نظام کا غلبہ

سود جس کی قرآن و حدیث میں بے انتہا مذمت بیان کی گئی اور جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ جنگ کہا گیا، موجودہ نظام، خواہ عالمی ہو یا قومی، وہ کھڑا ہی سودی نظام پر ہے۔ یعنی جمہوریت ہو یا آمریت، دار الحرب ہو یا دار الامن، اس وقت وہ تمام ممالک جو اقوامِ متحدہ کے رکن ہیں، ان کے سارے نظام کا محور سود ہے۔ گویا عالمی نظام نے ہر قومی ریاست کے لیے سود کو لازم کیا ہے۔ پھر ہر ریاست اپنے عوام پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کر کے اپنا سود ادا کرتی ہے۔ ٹیکس کی شکل میں جو رقم شہریوں سے وصول کی جا رہی ہے، اس کا خاصہ حصہ عالمی مالیاتی اداروں کی سودی قسطوں کی شکل میں واپس کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا:

﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ﴾ [البقرۃ:279]

’’پھر بھی اگر تم نے ایسا نہ کیا (یعنی سود سے باز نہ آئے) تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو، اور اگر تم نے توبہ کر لی تو رأس المال تمہارا ہی ہے، (یوں نہ) تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔‘‘

﴿الَّذِينَ يَأكُلُونَ الرِّبٰوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ [البقرۃ:275]

’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنا دیا ہو، یہ اس لیے ہو گا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے کتنے سخت الفاظ میں اس کی برائی کو بیان فرمایا:

عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’الرِّبَا اثْنَانِ وَسَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا مِثْلُ إِتْيَانِ الرَّجُلِ أُمَّهُ، وَأَرْبَى الرِّبَا اسْتِطَالَةُ الرَّجُلِ فِي عِرْضِ أَخِيهِ‘‘۔

حضرت براء بن عازب سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سود کے بہتّر دروازے ہیں، اس کا ادنیٰ یہ ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے بد فعلی کرے، اور سب سے بڑا سود یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی عزت کے درپے ہو جائے۔‘‘

عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ حَنْظَلَةَ غَسِيلِ الْمَلَائِكَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’دِرْهَمٌ رِبًا يَأْكُلُهُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَشَدُّ مِنْ سِتَّةٍ وَثَلَاثِينَ زَنْيَةً“۔

 عبد اللہ بن حنظلہ غسیلِ ملائکہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سود کا ایک درہم جسے کوئی آدمی جان بوجھ کر کھاتا ہے، چھتیس زنا سے بدتر ہے۔‘‘

عَنْ جَابِرٍ قَالَ لَعَنَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ هُمْ سَوَاءٌ۔

حضرت جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور فرمایا: یہ سب برابر ہیں۔

عَن عَمْرو بن الْعَاصِ سَمِعت رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: مَا من قوم يظْهر فيهم الرِّبَا إِلَّا أخذُوا بِالسنةِ وَمَا من قوم يظْهر فيهم الرشا إِلَّا أخذُوا بِالرُّعْبِ۔

حضرت عمرو بن عاص نے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس کسی قوم میں سود عام ہوا وہ قحط کا شکار ہو گئی،ا ور جس کسی قوم میں رشو ت عام ہوئی وہ رعب میں مبتلا کر دی گئی‘‘۔

سو اس موجودہ جمہوری نظام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس کی بنیاد ہی سود پر رکھی گئی ہے، بلکہ اس کی گہرائی میں جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کے بنیادی مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی انسان سود کھانے کھلانے سے بچ نہ سکے۔ چنانچہ سود میں ملوث رکھنے کا انتظام انتہائی نچلی سطح تک کیا گیا ہے۔

آپ دیکھ رہے ہیں کہ سودی معاملات صرف انفرادی سطح پر نہیں کیے جا رہے بلکہ ریاست نے سودی معاملات کو صرف مباح ہی نہیں کیا بلکہ بہت سے معاملات میں فرض (لازم) کیا ہوا ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے اسے اس نظام میں رہنا ہے تو سودی معاملات میں شامل ہونا ہو گا۔

۶۔ جبریہ ٹیکس

خلقِ خدا سے ٹیکس وصول کرنا ایسا بد تر گناہ ہے جسے علماء نے سود سے زیادہ بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ لیکن عالمی نظامِ کفر نے ہر ریاست (خواہ جمہوریت ہو یا آمریت) کے شہریوں پر ظالمانہ ٹیکس مسلط کیے ہوئے ہیں۔ یہ ریاستوں کے سودی لین دین ہی ہیں جسے عوام پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جاتا ہے۔ اس طرح اس میں دونوں ناپاکیاں اور ظلم جمع کر دیا گیا ہے۔

امام حاکم﷫ نے یہ روایت نقل کی ہے:

عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ’’لَا يَدْخُلُ صَاحِبُ مَكْسٍ الْجَنَّةَ’’۔

حضرت عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ٹیکس وصول کرنے میں ظلم کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘

اور قاضی عیاض﷫ حدیثِ غامدیہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وقوله : لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له : فيه دليل على عظيم ذنب صاحب المكس۔

نبی کریمﷺ کا یہ فرمان کہ: ’’اس (غامدیہ ) نے ایسی توبہ کی ہے، اگر ٹیکس وصول کرنے والا بھی ایسی توبہ کر لے تو اس کی مغفرت کر دی جائے۔ یہ ٹیکس وصول کرنے والے کے بڑے گناہ ہونے پر دلیل ہے۔‘‘

اور امام ابو بکر جصاص﷫ فرماتے ہیں:

وكذلك حكم من يأخذ أموال الناس من المتسلطين الظلمة وآخذي الضرائب واجب على كل المسلمين قتالهم وقتلهم إذا كانوا ممتنعين وهؤلاء أعظم جرمًا من آكلي الربا لانتهاكهم حرمة النهي وحرمة المسلمين جميعًا وآكل الربا إنما انتهك حرمة الله تعالى في أخذ الربا ولم ينتهك لمن يعطيه ذلك حرمة لأنه أعطاه بطيبة نفسه وآخذوا الضرائب في معنى قطاع الطريق المنتهكين لحرمة نهي الله تعالى وحرمة المسلمين إذ كانوا يأخذونه جبرًا وقهرًا لا على تأويل ولا شبهة فجائز لمن علم من المسلمين إصرار هؤلاء على ما هم عليه من أخذ أموال الناس على وجه الضريبة أن يقتلهم كيف أمكنه قتلهم وكذلك أتباعهم وأعوانهم الذين بهم يقومون على أخذ الأموال۔

’’اور (جس طرح کہ سود کے کاروبار پر اصرار کرنے والوں سے اس وقت قتال کیا جائے گا جبکہ وہ امام المسلمین کے دائرے سے باہر قوت و شوکت کا حامل گروہ ہو،) اسی طرح ان لوگوں کا حکم ہے جو لوگوں سے ظلماً جبراً مال وصول کرتے ہیں اور ٹیکس لیتے ہیں۔ جب ان کی قوت کی وجہ سے ان پر حکمِ اسلام نافذ کرنا ممکن نہ ہو تو ہر مسلمان پر ان سے قتال کرنا اور انہیں قتل کرنا واجب ہے۔ اور یہ (مذکورہ) تو سود لینے والے سے بھی زیادہ بڑے مجرم ہیں، کیونکہ یہ اللہ کے حرام کردہ حکم کو بھی پامال کرتے ہیں اور مسلمانوں کی عزت بھی پامال کرتے ہیں۔ سود لینے والا تو صرف اللہ کے حرام کردہ حکم کو پامال کرتا ہے لیکن سود لینے والا سود دینے والے کی عزت پامال نہیں کرتا بلکہ سود دینے والا اپنی مرضی سے سود دیتا ہے۔ اور ٹیکس لینے والے ڈاکوؤں کے حکم میں ہیں کیونکہ یہ اللہ کے حکم کی حرمت اور مسلمانوں کی حرمت پامال کرتے ہیں، کیونکہ یہ جبریہ طاقت کے زور پر مسلمانوں کے مال بغیر کسی تاویل و شبہ کے وصول کرتے ہیں۔ سو ہر اس مسلمان کے لیے ان کا قتل کرنا جائز ہے جیسے بھی ممکن ہو، جس مسلمان کو بھی یہ پتہ لگے کہ یہ ٹیکس کے طور پر زبردستی لوگوں کا مال لے رہے ہیں، اسی طرح ان ٹیکس لینے والوں کے معاونین اور ساتھی جو اس کام میں ان کے ساتھ ہوں۔ ‘‘

۷۔ فحاشی

اس وقت قومی ریاستوں میں (خواہ مسلم اکثریتی ہوں یا کفری) جو طرزِ زندگی رائج ہے ،اس کی حقیقت کو سمجھنے والے کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ مکمل نظام کھڑا ہی شہوتوں کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ اس نظام کی باگ ڈور بلکہ شہ رگ جن کے ہاتھ میں ہے ( کارپوریٹ، عالمی بینکرز یا ملٹی نیشنلز) ان کا مقصدِ اول یہی لگتا ہے کہ نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پوری انسانیت کو فحاشی کے اس جوہڑ میں گرا دیا جائے جہاں انسانیت خود انسان پر شرمسار ہوتی ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کو دیکھ کر ابلیسیت نازاں و فرحاں ہوتی ہے ۔

جبکہ اسلام کے غلبے کی صورت میں شریعت جس نزاکت کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے، وہ یہی فحاشی ہے۔ اس کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’زنا‘ ایک انسان ڈھکے چھپے کرتا ہے۔ اگر گواہ نہ ہوں اور یہ خود اقرار بھی نہ کرے تو باوجود قرائن کے شریعت اس پر حد جاری نہیں کرتی، حالانکہ جرم تو ہوا ہے۔ لیکن یہی جرم اگر کھلے عام کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کی سزا انتہائی سخت ہے۔

معلوم ہوا کہ گناہ سے زیادہ اس کے عام کرنے کو شریعت سخت قرار دیتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿ إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ اٰمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾ [النور: 19]

’’یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

موجودہ جمہوری ریاستوں میں چونکہ خواہشات ِ ملأ القوم (مقتدر طبقے کی خواہشات) ہی اصل ہیں، اس لیے شہوانی خواہشات کو عام کرنے کے لیے ریاست اپنے تمام تر ذرائع استعمال کرتی ہے۔ بے حیائی کی خبروں کو کتنے نئے نئے انداز میں پھیلایا جاتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے کہ اس نظامِ جمہوریت کا ستون سمجھے جانے والے ادارے شیطانیت کا کتنا بھرپور عکس ہیں۔

فحاشی پھیلانے کی اہمیت و حساسیت اس نظا م میں کس قدر ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر کوئی غیور دیندار بندہ فحاشی گھر گھر پہنچانے والے کیبل کاٹنے کی کوشش کرے، یا ناچنے، گانے بجانے یا مساج سینٹر کی محفلوں کو روکنا چاہے اور اس کے لیے ایمانی غیرت کا اعلیٰ درجہ ’ہاتھ‘ استعمال کرے تو ریاست اسے کس طرح عبرت کا نشان بنا دیتی ہے۔ ریاست کی محافظ قوتیں حرکت میں آتی ہیں اور اس کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا جاتا ہے۔ لال مسجد تحریک کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ان کا قصور صرف یہی تھا کہ وہ اس غلاظت سے معاشرے کو بچانا چاہتے تھے جو ملک کے دارالحکومت میں پھیلا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ ایسے واقعات رونما ہو رہے تھے جنہیں سن کر ہی دماغ کو جھٹکے لگتے ہیں۔ باپ بیٹی اور بہن بھائی کی تمیز ختم ہوتی جا رہی تھی۔ لیکن ریاست کو اس پر غصہ نہیں آیا ،غصہ آیا تو اس گندگی روکنے والے دیندار طبقے اور غیور طلبہ و طالبات پر آیا۔

دیندار قوتوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فحاشی اس نظام میں بطورِ طرزِ زندگی (Life Style) شامل ہے۔ نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لیے مردوں کے راستے سے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کر دینا جو عورت تک پہنچنے سے روکتی ہیں، اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ عالمی نظامِ کفر کا بنیادی مقصد ہے۔ جبکہ قومی ریاستیں (نیشن اسٹیٹس) اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی پابند ہیں۔

چنانچہ کسی دینی قوت کا اللہ کے حکمِ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو انجام دینا، اور اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے حرام کام کو روکنے کے لیے قوت کا استعمال کرنا، ریاست کو کسی حال قابلِ قبول نہیں ہے۔

خلاصہ

یہ تو صرف چند برائیوں کا ذکر ہوا، ورنہ اس جمہوری معاشرے میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ۔

یہاں ایک سوال ہے کہ معاشرے میں مختلف اصلاحی تحریکوں کے ترقی کرنے کے باوجود معاشرے میں منکرات کا غلبہ کیوں بڑھتا جا رہا ہے؟ یعنی ایک طرف ہم مذہبی اصلاحی قوتوں (مثلاً تبلیغی جماعت، مدارس اسلامیہ، خانقاہوں) کو دیکھتے ہیں تو الحمد للہ دل خوش ہوتا ہے کہ کس طرح اس فتنے کے دور میں ہماری یہ دینی قوتیں امت کو اسلامی رنگ میں رنگنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ اور ایسے ماحول میں جبکہ فحاشی و منکرات کو نہ صرف ریاستی بلکہ عالمی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے، یہ دینی قوتیں بڑے بڑے شہروں میں بھی نوجوانوں کو اسلامی رنگ میں رنگ رہی ہیں۔

لیکن اس سب کے باوجود معاشرے کی مجموعی صورتِ حال پر فحاشی و منکرات ہی کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یعنی بعض ایسی برائیاں جنہیں کل تک دینی طبقے میں ’فتنہ‘ سمجھا جاتا تھا، اب بہت سے دیندار خود یا ان کے بچے ان کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔

اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جس نظام کا غلبہ ہو گا اسی کا طرزِ زندگی غالب رہے گا، باوجود یہ کہ نظام کے سائے میں رہتے ہوئے جزوی اصلاح کے لیے کتنی بھی کوششیں کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ خود اس حقیقت کو جانتے ہیں، اسی لیے انہوں نے دین کو پھیلانے سے پہلے کفر کا غلبہ توڑنے کا حکم دیا۔ ﴿وقاتلوھم حتیٰ لا تکون فتنۃ﴾

کہ ان شریعت کے دشمنوں سے قتال کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔

سو جب تک فتنہ یعنی غیر اللہ کا نظام موجود ہو گا اس کے ہوتے ہوئے محمدﷺ کا نظام نافذ نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے پہلے اس قوت کو توڑنے کا حکم فرمایا جو ان تمام منکرات کی سرپرستی کرتی ہے۔ آپ سود کے خلاف جتنی چاہیں مہم چلاتے رہیں، دعوت و تبلیغ کرتے رہیں، لیکن جب دوسری جانب ریاست اپنی مقتدر قوتوں کے بل بوتے پر زندگی کے ہر شعبے میں سود کو لازم قرار دے چکی اور اس سود کو ادا کرنا ریاست کے قانون میں فرض قرار دیا گیا، سو اب اس کا انکار ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا کہلائے گا، اس لیے مسلمان چار و ناچار اس نظام میں مجبور کر دیا گیا کہ وہ ان سود ی معاملات سے گزر کر اپنی روزی کمائے۔

بعض لوگ اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ سود پاکستان یا کسی بھی ریاست کا داخلی معاملہ ہے، سو اگر یہ چاہیں تو اس سودی نظام کو ملک سے ختم کر سکتے ہیں تو ایسا سمجھنا اس عالمی کفری نظام اور اس اقوامِ متحدہ کے چارٹر کو سمجھنے میں غلطی ہے۔ ملکی نظام کے پیچھے عالمی کفری نظام کھڑا ہے اور عالمی کفری قوتوں نے ہر ریاست کو قانونی طور پر اس کاپابند بنایا ہے۔ اس لیے بغیر جہاد کے یہ کسی کے بس کی بات نہیں کہ صرف سمجھانے بجھانے سے اس نظا م سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔ اس کے لیے پہلے اس قوت کو توڑنا ہو گا جس نے دنیا کو اپنا غلام بنایا ہوا ہے، اور دنیا پر لازم کیا ہے کہ وہ ان سودی معاملات سے گزر کر اپنی روزی حاصل کریں۔

منکرات کی محافظ قوتیں جب تک موجود ہیں، تب تک ان منکرات کا زور ٹوٹ نہیں سکتا۔ پہلے ان کی قوت ٹوٹے گی، پھر اس کے بعد سارا کا سا را ماحول اللہ والا بن جائے گا۔ اس سے پہلے ناممکن ہے کہ کفر کا غلبہ توڑے بغیر سارا کا سارا ماحول اللہ والا بنا دیا جائے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

Previous Post

شام میں جہاد کا مستقبل | حصہ اوّل – پہلی قسط

Next Post

خیالات کا ماہنامچہ | اپریل و مئی ۲۰۲۵ء

Related Posts

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | ساتویں قسط

9 جون 2025
اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چوتھی قسط

27 مئی 2025
مسلم روح
ناول و افسانے

مسلم روح

27 مئی 2025
Next Post
خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۴ء

خیالات کا ماہنامچہ | اپریل و مئی ۲۰۲۵ء

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version