غنڈہ ٹائپ لڑکوں نے عبداللہ اور اس کے چھوٹے بچوں کو گھیر لیا۔ عبداللہ نہتا بھی تھا اور کمزور بھی۔ بے بس بھی تھا اور تہی دامن بھی۔ ان غنڈوں کی تعداد اتنی زیادہ تو نہیں تھی، مگر ان کے پاس اسلحہ تھا ۔ انہوں نے عبداللہ اور اس کے بچوں کو بہت مارا ۔ ایک ننھے سے بچے نے عبداللہ کے ہاتھوں میں آخری سسکیاں لیں، وہ رو دیا اور چیخ پڑا:
’’میرے بھائیو! میری مدد کو آؤ ، کیا میرے بچے تمہارے بچے نہیں ہیں؟ میرے بھائیو! کیا تم تعداد میں ان غنڈوں سے زیادہ نہیں ہو؟ دیکھو! میرے بچے زخموں سے چور ہیں، دم توڑ رہے ہیں۔‘‘
وہ کہتا رہا۔ مگر اس کے بھائیوں سے کوئی بھی اس کی مدد کو نہ آیا، حالانکہ عبداللہ کے سب بھائیوں کے گھر قریب تھے ۔ بیشتر کے گھروں میں انٹرنیٹ تھا، لہذا دروازے بند رہتے اور وہ دن رات اسی میں غرق اور مست رہتے۔ انہیں اس سے زیادہ کسی کا ہوش نہ تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔ کہیں کسی بھائی کو ہماری مدد کی ضرورت تو نہیں، کہیں کسی پر کوئی افتاد تو نہیں، اس سے کسی بھائی کو کوئی مطلب نہیں تھا ۔
عبداللہ روتا ہوا اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر کو لوٹ گیا۔ اس حال میں کہ ایک مردہ بچہ اس نے اپنے ہاتھوں پر اٹھا رکھا تھا ۔
یہ کوئی ایک دن کی بات نہیں تھی۔ اکثر ہی یہ ہونے لگا تھا ۔ وہ غنڈے اسی گلی میں رہتے تھے اور جب چاہتے، جسے چاہتے، مار پیٹ کرتے۔ باقی لوگ اپنے ناچ گانوں میں اتنے بد مست ہوتے کہ ہاتھ سے روکنا تو دور کی بات ، احتجاج کرنے والوں کو بھی منع کر دیتے۔
اس روز عبداللہ سے چھوٹا بھائی یوسف اپنے گھر سے نکلا۔ غنڈے اسے دیکھ کر مسکرائے، پھر اسے چاروں طرف سے گھیر لیا ۔ یوسف مدد کے لیے پکارتا رہا مگر کوئی نہ آیا۔ انہوں نے یوسف کو مار کر وہیں پھینک دیا اور قہقہے لگاتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔
عبداللہ اور یوسف کے بڑے بھائی اتفاق سے اس وقت کھڑکی میں کھڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کے دل میں ایک لمحہ کے لیے مدد کا جذبہ جاگا مگر اگلے ہی لمحے انہیں حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم کا خیال آگیا جو وہ دیکھ رہے تھے۔ لہذا وہ مدد کو نہ پہنچ پائے ۔
اور پھر آئے دن یہی ہونے لگا۔ عبداللہ لہو لہان ہو گیا، اس کے معصوم بچے آئے دن ظلم و ستم کا شکار ہونے لگے، وہ روتا رہا، گڑگڑاتا رہا، اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کرنے لگا۔
ایک دن روتے روتے اسے اونگھ سی آ گئی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے کوئی آہستہ کھڑکی کے راستے داخل ہوا ہو، کوئی بزرگ آدمی۔
’’آپ کون ہیں بابا جی؟‘‘
اس نے پوچھا: ’’ کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟ میں بہت ستم رسیدہ ہوں بابا!‘‘
بزرگ نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بولے:
’’ میرے بچے اس وقت تمہاری مثال ایسی ہے جیسے فلسطین۔ فلسطینی اپنے ننھے ننھے بچوں کی لاشیں سمیٹ رہے ہیں، فلسطین کے بہت سارے مسلمان بہن بھائی ہیں۔ جیسا کہ تمہارے ہیں مگر کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ غزہ میں قتل عام پر 57 مسلم ممالک کے سر براہ خاموش ہیں۔
زندگی سے محبت اور موت کا خوف، اسی کو ہمارے نبی ﷺ نے ’وہن‘ کی بیماری کہا ہے کہ جب یہ بیماری مسلمانوں میں پھیل جائے گی تو تعداد میں کثیر ہونے کے باوجود ان کی حیثیت سمندر کی جھاگ کی طرح ہو گی۔ کفار ان پر اس طرح ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے دستر خوان پر۔ آج پورے عالمِ اسلام میں یہی صورتِ حال ہے۔ مسلمانوں کی تعداد ایک ارب سے بھی زیادہ ہے، لیکن کافر ان پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں، ہر ایک نوچ رہا ہے، بھنبھوڑ رہا ہے، خون چوس رہا ہے۔‘‘
عبداللہ خاموشی سے سنتا رہا۔
’’تمہارے بھائی بھی ان غنڈوں کے مقابلے میں تمہاری یا یوسف کی مدد پر قادر ہیں۔ مگر سب اپنی زندگی میں، عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ غنڈے صلیبی لشکر کی طرح دندناتے پھرتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ آج بھی ہر ایک تسلیم کرتا ہے کہ موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں، موت آ کے رہے گی، مگر پھر بھی زندہ رہنے کی آرزو میں مرے جاتے ہیں۔ چند روزہ زندگی کے لیے ایمان کا سودا کر بیٹھے ہیں۔‘‘ بابا کہہ رہے تھے۔
’’میرے! مم میرے تو بہت سارے بھائی ہیں، مم مگر!‘‘ عبداللہ کہہ نہ پایا۔
’’ہاں! تمہارے بہت سارے بھائی ہیں۔ مگر ان میں سے ایک بھی بہادر نہیں۔‘‘
’’کیا میرا ہمیشہ یہی حال رہے گا بابا؟‘‘
’’مسلمان کا مقدر ماتم کرنا نہیں، ظلم کا مقابلہ کرنا اور ظالم کا سر توڑنا ہے اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا، تو ایک کے بعد ایک نشانہ بنتا رہے گا، بنتا رہے گا، بنتا رہے گا۔ ہمیں میدان میں اترنا ہو گا، جہاد کی روح کو زندہ کرنا ہو گا!‘‘
بابا کہتے چلے گئے اور تھوڑی ہی دیر میں عبداللہ کو محسوس ہوا کہ بابا اب کمرے میں نہیں ہیں۔
اچانک اسے باہر سے شور محسوس ہوا ۔ یوسف باہر جا رہا تھا، غنڈے اس کی طرف لپکے ۔ اسی دوران عبداللہ کو فضا میں گونجتی ہوئی آواز محسوس ہوئی، ’’ظلم کا مقابلہ کرنا ہے اور ظالم کا سر توڑنا ہے، اگر ایسا نہ کیا تو ایک کے بعد ایک نشانہ بنتا رہے گا۔‘‘
عبداللہ سے برداشت نہ ہوا۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور گھر سے نکل آیا ۔ ساتھ ہی وہ بلند آواز میں چلایا۔
’’یوسف گھبرانا نہیں! میں آ رہا ہوں۔‘‘
یوسف کو حوصلہ ملا۔ اور وہ غنڈوں کے مقابلے میں ڈٹ گیا۔ بس پھر کیا تھا دھڑا دھڑ دروازے کھلنے لگے۔ اس کے باقی بھائی بھی ڈنڈے لے کر باہر نکل آئے اور غنڈوں پر ٹوٹ پڑے۔ اب غنڈے بری طرح پٹ رہے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں غنڈے ڈھیر ہو چکے تھے اور تمام بھائیوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا۔
مسلم روح آج بھی بیدار ہے۔ فلسطین ، کشمیر میں فتح ہمارا مقدر ہے۔ ایک دن ایسا ضرور ہو گا۔ جہاد کا علم بلند ہو گا۔ ان شاءالله
٭٭٭٭٭