نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط

سورۃ العصر کی روشنی میں

عاصم عمر سنبھلی by عاصم عمر سنبھلی
9 جون 2025
in جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!, جون 2025
0

خالق کی زمین پر خالق کا قانون نہ ہونے کی سزا… اللّٰہ کی نعمتوں سے محرومی

﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ﴾

یوں تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اعلان فرمادیا ہے:

﴿وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ﴾ [إبراهيم: 7]

’’اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے اعلان فرما دیا تھا کہ اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یقین جانو کہ میرا عذاب بڑا سخت ہے۔‘‘

چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے سے ان میں اضافہ کیا جاتا ہے اور ناشکری کرنا اس کی نعمت سے محروم کر دیے جانے کا سبب بن جاتا ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان کی ہے۔ فرمایا:

﴿وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللهِ فَأَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ﴾ [النحل: 112]

’’اور اللہ تعالیٰ نے اس بستی کی مثال بیان کی جو امن سے تھی مطمئن تھی، جس کا رزق ہر طرف سے آتا تھا (یعنی معاشی فراوانی تھی) پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی، تو اللہ تعالیٰ نے اس پر بھوک و خوف مسلط کر دیا، بسبب اس کے جو وہ کرتے تھے۔‘‘

اللہ کے ساتھ اگر کسی کو شریک بنایا جائے گا تو اللہ آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی ان کے لیے تنگ کر دیں گے۔ جس دنیا کے لیے وہ اللہ کے ساتھ کفر و شرک کرتے ہیں، اللہ ا س دنیا میں ان پر بھوک و افلاس اور خو ف مسلط فرما دیں گے۔

جس زمین پر اللہ کی نافرمانی جس درجے میں ہو گی، اسی درجے میں زمین اپنی پیداوار روک لے گی۔ اللہ کی سب سے بڑی نافرمانی یہ ہے کہ اس کی زمین پر سے اس کی حاکمیت کا حق ہی ختم کر دیا جائے۔ اس کے ساتھ کفر کرنے کو ریاست کا اجتماعی نظام بنا دیا جائے۔

سو خالق کی زمین پر خالق کے نظام سے بغاوت و سرکشی اور اپنے بنائے قوانین پر اصرار کا انجام اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ آسمان و زمین بھی غضبناک ہو جائیں۔ آسمان اپنی رحمتیں نازل کرنا چھوڑ دے اور زمین اپنی برکتیں روک لے۔

سو آج دنیا کی حالت یہی ہو چکی ہے۔

سبحان اللہ! قرآن کریم کی ایک ایک آیت آج بھی اس جدید دنیا کے لیے چیلنج ہے، سورۂ اعراف کی آیت نمبر ۵۸ ایسا لگتا ہے جیسے آج ہی تازہ تازہ اسی نظام کے بارے میں نازل ہو رہی ہو۔ فرمایا:

﴿وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ﴾ [الأعراف: 58]

’’اور جو زمین اچھی ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اپنے رب کے حکم سے نکل آتی ہے اور جو زمین خراب ہو گئی ہو اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ اسی طرح ہم نشانیوں کے مختلف رخ دکھاتے رہتے ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو قدردانی کریں۔‘‘

اس آیت میں فرمایا گیا کہ اچھی زمین اپنی پیداوار اپنے رب کے حکم سے نکالتی ہے اور جو زمین خراب ہو گئی اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔

امام واحدی اور امام رازی﷮ ﴿نَکِدًا﴾کی تعریف میں فرماتے ہیں:

النَّكِدُ: الْعَسِرُ الْمُمْتَنِعُ مِنْ إِعْطَاءِ الْخَيْرِ عَلَى جِهَةِ الْبُخْلِ۔

’’نکد کے معنیٰ ہیں: بخل و کنجوسی کے طور پر خیر کو دینے (یعنی مال خرچ کرنے) میں دشواری ورکاوٹ۔‘‘

آیتِ بالا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کی مثال بیان کی ہے۔

انسان کے دل کے بارے میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:

إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي قَلْبِهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ فَإِذَا هُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صقِلَ قَلْبُهُ وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ ﴿كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴾

’’جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ پڑ جاتا ہے، سو اگر وہ توبہ و استغفار کر لے اس کا دل صاف ہو جاتا ہے، اور اگر دوبارہ گناہ کرے تو یہ نکتہ بڑھ جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے پورے دل پر پھیل جاتا ہے۔ اور یہی وہ ’زنگ‘ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے: (ہر گز نہیں! بلکہ ان کے کرتوتوں کے سبب ان کے دلوں پر زنگ لگ گیا ہے۔)‘‘

پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ پور ا دل ہی اس زمین کی طرح ہو جاتا ہے جسے نمکیات نے کھا لیا ہو، جو مکمل شوریدہ ہو گئی ہو۔

جس طرح اچھا دل وہ ہے جس پر اللہ کی محبت غالب ہو، ایسے دل پر تذکیر و وعظ سے رقت طاری ہو جاتی ہے، نتیجتاً اعمالِ صالحہ پھوٹنے لگتے ہیں، اسی طرح اچھی اور پاک زمین وہ ہے جس پر اللہ کا دین غالب ہو، اس پر چلنے والوں کے چوبیس گھنٹے شریعت کے احکام کے سائے میں گذرتے ہوں، عبادات میں بھی اور معاملات میں بھی،اس کے اوپر سودی نظام نافذ نہ ہو، اس پر فحاشی و عریانی ریاست کی سرپرستی میں نہ پھیلائی جاتی ہو، ایسی زمین اپنی فطرت پر ہوتی ہے جو بارش کے برسنے سے اپنی نباتات اگل دیتی ہے۔

جبکہ جس دل پر غیر اللہ کی محبت غالب ہو گی ،جس پر خواہشاتِ نفسانی کا غلبہ ہو گا وہ دل خراب ہو گا، اپنی فطرت سے ہٹا ہوا ہو گا، اسی طرح جس زمین پر کفر کا غلبہ ہو گا ،وہ بھی اپنی فطرت سے ہٹی ہو گی چنانچہ بارش بھی اسے کوئی فائدہ نہیں دے گی سوائے جھاڑ جھنکاڑ اگانے کے۔

جس طرح خراب دل خیر کو قبول نہیں کرتا اور اس سے گندگی ہی پھوٹتی ہے، اسی طرح جو زمین خراب ہو جائے اس سے خیر کم اور کانٹے دار جھاڑیاں ہی نکلتی ہیں…… اگر چہ اس پر بار ش بھی برستی رہے۔

سو ذرا سوچیے کہ اس زمین سے زیادہ خراب کون سی زمین ہو گی جس پر کفر کا غلبہ ہو، جس زمین پر اللہ کے ساتھ کھلا کفر کیا جاتا ہو، کفری نظام اس پر نافذ ہو، انسانوں کے فیصلے قرآن کے علاوہ سے کیے جاتے ہوں، اللہ کا کلمہ مغلوب ہو، ایسی زمین کیا پیداوار اگا سکتی ہے؟

کسی زمین کا کھاری یا شوریدہ ہونا جبکہ اس پر اللہ کی شریعت کی حاکمیت ہو بدرجہا بہتر ہے، اس زمین سے جس پر محمد ﷺ کی شریعت کے بجائے جمہوریت کی حاکمیت ہو۔

زمین کا اچھی پیداوار اگانا، اور اپنی پیداوار کو روک لینا اس کا اصل تعلق اللہ کی اطاعت و نافرمانی کے ساتھ ہے۔ اور اللہ کی سب سے بڑی نافرمانی کفر ہے، سو جس زمین پر کفر اور کفری قوانین نافذ ہوں گے اس زمین کی حالت زنا و شراب سے بھری زمین سے بھی بد تر ہو گی۔

چنانچہ اس مضمو ن کو قرآن کئی جگہ پر بیان کرتا ہے کہ جس زمین پر اللہ کی نافرمانی ہو گی، اس سے برکتیں اٹھا لی جائیں گی۔

آج ہر طرح کی زرعی ایجادات کے باجود دنیا بھر کی زراعت کی جو حالت ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اول تو پیداوار نکلتی ہی انتہائی تھکن کے بعد ہے۔ بیج کی محتاجی، اس کے بعد نت نئی دوائیاں ،اسپرے پر اسپرے، ڈیزل و بجلی کی گرانی، پھر کہیں جا کر نکلی تو ایسی کہ غذائیت سے خالی، جو فائدہ کم اور نقصان زیادہ دے رہی ہے، اب تو خود ہی سائنسدان اعلان کرنے لگے کہ جدید دوائیوں اور اسپرے سے تیار پیداوار انسانی جسم کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

پھلوں کی دکانوں پر پھلوں کی شکل کی کوئی چیز تو موجود ہے لیکن ان میں ذائقہ نہیں، غذائیت نہیں، جب غذائیت ہی نہیں تو یہ رزق کیسے بنے گا، اسی لیے تو حاکم ِ مطلق نے فرمایا:﴿لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا﴾ اسے نبات ہی نہیں کہا، ’ردی ‘ جو فائدے سے خالی ہے۔

اللہ کی نازل کردہ شریعت کو نہ مان کر انسان نے ہر دور میں نقصان اٹھایا ہے۔ ہر طرح کا نقصان اخروی بھی اور دنیاوی بھی، خسارہ ہی خسارہ ہے، ان کے لیے بھی جن کے پاس سب کچھ ہو اور ان کے لیے بھی جو پہلے ہی سے بد حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اعلان کیا ہے:

﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ أَعْمٰى﴾ [طه: 124]

’’اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اسے بڑی تنگ زندگی ملے گی ، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔‘‘

اللہ کی نازل کردہ شریعت سے بغاوت کر کے اپنی معیشت پر ناز کرنے والی قوتوں کا انجام کیا ہوا، وہی خسارہ، معیشت کا بھی اور ابدی زندگی کا بھی، مسلمانوں کا قتلِ عام کرنے کے لیے اور افغانستان میں اللہ کی زمین سے اللہ کا قانون ختم کرنے کے لیے عالمِ کفر کا ساتھ اس لیے دیا تھا کہ معیشت کی حالت بہتر ہو جائے گی،یہ کتنا بڑا دھوکہ تھا کہ اللہ کے ساتھ کفر کر کے ،اللہ کی شریعت کے خلاف جنگ میں شرکت کر کے اور مسلمانوں کے قتل ِ عام کے لیے اپنی فوج پیش کر کے اللہ کا جو غضب نازل ہو گا اس سے معیشت کی حالت سدھرنے کے بجائے پہلے سے بھی ابتر ہو جائے گی۔ لیکن یقین کون کرے؟ جن کے دلوں میں یہ قرآن اترا ہو، جو امریکی حکم کے مقابلے اللہ کے حکم کو کوئی اہمیت دیتے ہوں۔

تاریخ شاہد ہے کہ اللہ کی نازل کردہ شریعت سے جنگ کرنے کے نتیجے میں ترقی کی راہوں پر دوڑتی معیشتیں بھی اللہ نے ایسی تبا ہ کیں کہ ان بستیوں میں بھی کبھی کوئی جا کر آباد ہونے کی ہمت نہیں کر سکا۔

﴿وَكَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَكُنَّا نَحْنُ الْوٰرِثِينَ﴾ [القصص: 58]

’’اور کتنی ہی بستیاں وہ ہیں جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں ہم نے انہیں تباہ کر ڈالا، اب وہ ان کی رہائش گاہیں تمہارے سامنے ہیں جو ان کے بعد تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر کبھی آباد ہی نہ ہو سکیں، اور ہم ہی تھے جو ان کے وارث بنے۔‘‘

ہر طرح کے عیش و آرام میں رہنے والی اقوام نے جب اللہ کی نازل کردہ شریعت کو ماننے سے انکار کر دیا تو اللہ نے اپنی نعمتو ں سے انہیں محروم کر دیا۔

محرومی سے محرومی ہے، مشرق کا تو کہنا ہی کیا، خود مغرب کی محرومی قابلِ عبرت ہے۔ اگر چہ دجل کے میڈیا نے اس کا ظاہر ہی دنیا کو دکھایا ہوا ہے، لیکن حقیقت کہیں زیادہ تاریک ہے۔ رزق کے نام پر جو کچھ وہ کھا رہے ہیں اس میں غذائیت کے سوا سب کچھ ہے، طرح طرح کے پھل لیکن لذت سے خالی، خالص مصنوعی بیج، مصنوعی کھاد اور بے شمار زہریلے اسپرے سے تیار ہونے والی گندم جس قوم کے لیے اگائی جاتی ہو، اور پھر اس کا بھی آخری کچرہ جس کا رزق بنتا ہو، جنہیں کوئی خالص اور فطری غذا میسر نہ ہو رہی ہو، یہ بھی محرومی کی ایک قسم ہے، اللہ جیسے چاہے اپنی نعمتوں سے محروم فرما دے، کہ چیز کے ہوتے ہوئے بھی اس کے کھانے سے محروم کر دیے گئے، کیوں؟

عالمِ عرب میں اس کی بہترین مثال مصر کی موجود ہے۔ دریائے نیل کے کنارے کی زمینیں کسی دور میں دنیا کی بہترین کپاس اگایا کرتی تھیں، لیکن مصر کے مقتدر طبقے نے اللہ کی شریعت کے ساتھ جنگ کی، انہوں نے سوچا کہ اس دور میں رزق اللہ نہیں، امریکہ و اسرائیل دیتا ہے۔ سو بندروں اور خنزیروں کی اولاد کی رضا کی خاطر مصر کا حکمراں طبقہ اللہ کی شریعت کے ساتھ کھلی جنگ کرتا رہا ۔سو مزید رزق کیا ملتا، جو خزانے اللہ نے زمین میں رکھے بھی تھے وہ بھی اللہ کے حکم سے زمین نے روک لیے، آج وہی دریائے نیل ہے اور وہی اس کی زمینیں ہیں لیکن ذرا مصر کی زراعت کی حالتِ زار کا مطالعہ کیجیے اور اپنے رب سے توبہ و استغفار کیجیے کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں بھی رزق کا مالک وہی تنِ تنہا ہے۔ باقی شیطان اور اس کے حواری جھوٹے وعدے کے سوا کچھ نہیں دے سکتے۔

کیا بر صغیر کے لوگ اس حقیقت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کر رہے۔ جو زمینیں اسلامی دور میں سونا اگلتی تھیں آج کیا ہوا کہ ان کا کسان آئے روز خودکشی کرنے پر مجبور ہے؟ دنیا کا بہترین غلہ اگانے والا خطہ آج خود غلے کے لیے دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، کبھی چینی کا رونا تو کبھی گندم پر واویلا، کبھی چاول کی قلت تو کبھی کچھ اور ۔

بر صغیر میں دولت کی ایسی فراوانی تھی کہ انگریز لوٹ کر لے گئے تو یورپ میں صنعتی انقلاب آگیا، مسلمانوں کی دولت لوٹ کر مغرب کے چور و ڈاکو دنیا کی قیادت کرنے لگے۔1

تمام عالمِ اسلام کا یہی حال ہے، باوجودیکہ اللہ نے ہر قسم کے وسائل انہیں عطا کیے تھے تاکہ وہ انہیں کام میں لا کر دنیا کی قیادت کریں، جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ان پر عائد کی اسے پورا کریں، کافروں کی غلامی کرنے کے بجائے کافروں پر حکمرانی کے اصول اختیار کریں۔

لیکن جب انہوں نے اپنے اوپر اللہ کی شریعت کے بجائے اقوامِ متحدہ کے منظور کردہ دین (چارٹر) کو غالب کر لیا، تو اللہ نے ان تمام وسائل کے ہوتے ہوئے بھی انہیں عالمی سود خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، کیا ابھی بھی سمجھ میں یہ حقیقت نہیں آئی کہ سعودی عرب جیسا ملک کیوں معاشی بد حالی کا شکار ہو رہا ہے، کفری طاقتوں کا باجگزار بنا ہوا ہے؟

جس امت کے پاس دنیا کی عمدہ زرخیز زمینیں ہوں، قیمتی بحری گذرگاہیں، نہرِ سویز، وسط ایشیا میں ہر قسم کے معدنی ذخائر، لیکن اس سب کے باوجود بھی کفری طاقتوں کی غلامی، باجگزاری کہ سودی قرضوں میں اپنی عوام کو ایسا جکڑا کہ نسلیں تک غلام بنا دی گئیں، یہ سب آخر کیوں؟

اللہ کی شریعت سے جنگ کر کے خود مغربی دنیا کون سی خوشحال ہے جن کا نعرہ ہی دنیا کو خوشحال بنانا تھا۔ اب تو ساری لیپا پوتی اور معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں کو جہادی ضربوں نے اتار کر سارا پول کھول دیا ہے کہ یہ آشیانہ کیسی شاخِ نازک پر بنایا گیا تھا۔

یہ سزا ہے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے بغاوت کی۔ چنانچہ اللہ کی زمین غضبناک ہو کر اپنی برکتیں و خزانے روک بیٹھی، جدید زرعی ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے کوئی طاقت اس سے اس کے خزانے اس وقت تک نہیں اگلوا سکتی جب تک کہ اس پر دوبارہ رحمۃ للعالمینﷺ کی لائی شریعت نافذ نہ کر دی جائے۔

اللہ کا قرآن مختلف طاقتور و خوشحال قوموں کی مثالیں بیان کر رہا ہے جنہوں نے اللہ کی نازل کردہ شریعت سے دشمنی کی، تاکہ موجودہ دور کے شریعت کے دشمن ابھی بھی عبرت پکڑ کر باز آ جائیں اور شریعت یا شہادت کے نعرے کو تسلیم کر لیں۔

اللہ تعالیٰ نے قومِ سبا کی ترقی و خوشحالی کو بیان فرمایا:

﴿لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ جَنَّتٰنِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمَالٍ كُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّكُمْ وَاشْكُرُوا لَهُ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ﴾ [سبأ: 15]

’’حقیقت یہ ہے کہ قوم سبا کے لیے خود اس جگہ ایک نشانی موجود تھی جہاں وہ رہا کرتے تھے ۔ دائیں اور بائیں دونوں طرف باغوں کے دو سلسلے تھے ۔ اپنے پروردگار کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور اس کا شکر بجا لاؤ، ایک تو شہر بہترین، دوسرا پروردگار بخشنے والا۔‘‘

﴿فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنٰهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِنْ سِدْرٍ قَلِيلٍ﴾ [سبأ:16]

’’پھر بھی انہوں نے (ہدایت سے) منہ موڑ لیا، اس لیے ہم نے ان پر بند والا سیلاب چھوڑ دیا، اور ان کے دونوں طرف کے باغوں کو ایسے دو باغوں میں تبدیل کر دیا جو بدمزہ پھلوں، جھاؤ کے درختوں اور تھوڑی سی بیریوں پر مشتمل تھے۔‘‘

﴿ذَلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِمَا كَفَرُوا وَهَلْ نُجٰزِي إِلَّا الْكَفُورَ﴾ [سبأ:17]

’’یہ سزا ہم نے انہیں اس لیے دی کہ انہوں نے ناشکری کی روش اختیار کی تھی ، اور ایسی سزا ہم کسی اور کو نہیں ، بڑے بڑے ناشکروں ہی کو دیا کرتے ہیں۔‘‘

﴿وجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بٰرَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا اٰمِنِينَ ﴾ [سبأ:18]

’’اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا (اور کہا تھا کہ) ان (بستیوں) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو۔‘‘

اللہ کے نازل کیے طرزِ زندگی (دین) کو چھوڑ کر انسان خسارے سے بچ ہی نہیں سکتا۔ ہر طرح کی خیر سے محروم کر دیا جائے گا۔ جو نعمتیں اسے پہلے حاصل بھی تھیں، وہ بھی چھین لی جائیں گی۔

اللہ نے یہود کو ان کی بغاوت کی پاداش میں کتنی نعمتوں سے محروم فرمایا:

﴿فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبٰتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ وَبِصَدِّهِمْ عَنْ سَبِيلِ اللهِ كَثِيرًا﴾ [النسآء : 160]

’’غرض یہودیوں کی سنگین زیادتی کی وجہ سے ہم نے ان پر وہ پاکیزہ چیزیں حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال کی گئی تھیں۔ اور اس لیے کہ وہ بکثرت لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکتے تھے۔‘‘

سورۂ انعام میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی تفصیل بیان فرمائی:

﴿وَعَلَى الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا كُلَّ ذِي ظُفُرٍ وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَا إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَا أَوِ الْحَوَايَا أَوْ مَا اخْتَلَطَ بِعَظْمٍ ذَلِكَ جَزَيْنٰهُمْ بِبَغْيِهِمْ وَإِنَّا لَصٰدِقُونَ﴾ [الأنعام:146]

’’اور یہودیوں پر ہم نے ہر ناخن والے جانور کو حرام کر دیا تھا، اور گائے اور بکری کے اجزاء میں سے ان کی چربیاں ہم نے حرام کی تھیں، البتہ جو چربی ان کی پشت پر یا آنتوں پر لگی ہو، یا جو کسی ہڈی سے ملی ہوئی ہو وہ مستثنی تھی۔ یہ ہم نے انہیں ان کی سرکشی کی سزا دی تھی ۔ اور پورا یقین رکھو کہ ہم سچے ہیں۔‘‘

مغربی جاہلیِ تہذیب کو نظامِ زندگی کے طور پر اختیار کر لینے والوں کے لیے ان آیات میں بڑی عبرت ہے کہ آج اللہ نے انہیں اپنی کتنی ہی فطری نعمتوں سے محروم کر دیا ہے۔ یورپ و امریکہ کی معاشرت کو دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کی سرکشی اور اللہ کی شریعت سے جنگ کے سبب اللہ نے ہر قسم کی نعمت سے انہیں محروم کیا ہے۔

تازہ پھلوں اور میوہ جات، خالص دودھ، گھی، مکھن اور دیگر اللہ کی نعمتوں سے جدید جاہلی معاشرہ محروم ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ خالص گندم اور پینے کے پانی سے بھی کہ اللہ کے عطا کیے تازہ پانی سے محروم ہو کر بوتلوں میں بند پانی پیتے ہیں۔ خالص گندم چھوڑ کر میدہ کھاتے ہیں جو اصل میں معدے کی غذا نہیں بلکہ خود معدے کو کھا جانے والا ہے۔

غرض جو جتنا اس تہذیب میں ڈوبا ہوا ہے، اتنا ہی اللہ کی نعمتوں سے محروم ہے۔

مذکورہ آیت میں یہود کو جن چیزوں کے کھانے سے روک دیا گیا وہ سب عمدہ ،لذیذ اور صحت کے لیے انتہائی مفید چیزیں ہیں۔ ہر پنجوں والے پرندے……

ذر ا سوچیے، تیتر، بٹیر، کبوتر، کاجیں، مرغ، مور، اسی طرح ہرن، نیل گائے وغیرہ۔ ان چیزوں سے روک کر انہیں اونٹ، شتر مرغ اور بطخ کی اجازت دی گئی، آپ طب کی کتابوں میں ان کے مستقل کھانے سے پیدا ہونے والے مسائل کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔

جبکہ گائے اور بکری کی چربی ان کے لیے حرام کر دی گئی اور جس چربی کی اجازت دی گئی وہ جانور کی چربی میں اچھی نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً آنتوں کے ساتھ لگی چربی حلق پر جا کر جم جاتی ہے، اس لیے اس چربی کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

اللہ کی نعمتوں سے محرومی کے مختلف انداز

خالقِ ارض و سماء جب کسی قوم سے ناراض ہو جائے تو وہ جیسے چاہتا ہے ا س قوم کو نعمتوں سے محروم کر دیا کرتا ہے،کبھی تشریعی طور پر یعنی ان کے دین میں اسے حرام کر دیتا ہے، اور کبھی تکوینی طور پر جس کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں۔ کبھی خود وہی لوگ اسے اپنے لیے حرام کر لیتے ہیں، ان کی عقلیں ماردی جاتی ہیں اور انہیں اس میں اپنا کوئی نقصان (طبی یا معاشی)نظر آنے لگتا ہے۔ یہ ان کے جرائم کے سبب ہوتا ہے جو وہ اللہ کے حق میں کیا کرتے ہیں۔

چنانچہ تفسیر ’انوار البیان‘ میں مولانا عاشق الٰہی بلند شہری﷫ فرماتے ہیں:

’’پھر فرمایا ﴿ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ﴾ کہ [ہم نے انہیں یہ سزا ان کے ظلم و زیادتی کی وجہ سے دی]۔ ﴿وَإِنَّا لَصٰدِقُوْنَ﴾ [اور بلاشبہ ہم سچے ہیں]۔

یہ مضمون سورۂ نساء میں بھی گزر چکا ہے، وہاں ارشاد ہے:

﴿فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِیْنَ ھَادُوْا حَرَّمْنَا عَلَیْھِمْ طَیّْبٰتٍ اُحِلَّتْ لَھُمْ﴾

’’سوہم نے یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ان پر حرام کر دیں پاکیزہ چیزیں جو ان کے لیے حلال تھیں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بغاوت کرنا اور گناہ کر کے اپنی جانوں پر ظلم کرنا پاکیزہ چیزوں سے محرومی کا سبب ہے۔ یہودیوں پر تو تشریعی طور پر پاکیزہ چیزیں حرام کر دی تھیں لیکن خاتم النّبیین(صلی اللہ علیہ وسلم) پر نبوت ختم ہو جانے کی وجہ سے اب تشریعی طور پر کوئی حلال چیز حرام نہیں ہو سکتی۔ لعدم احتمال النسخ۔ البتہ تکوینی طور پر طیبات سے محرومی ہو سکتی ہے اور ہوتی رہتی ہے، جس کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے اسباب مختلف بن جاتے ہیں‘‘۔

اسی طرح امام ابو منصور ماتریدی﷫ سورۂ نساء کی آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ :

ثم المنع لهم يكون من وجهين:

أحدهما: منع من جهة منع الإنزال؛ لقلة الأمطار والقحط؛ كسني يوسف – عليه السلام – وسني مكة، على ما كان لهم من القحط۔

والثاني: منع من جهة الخلق: ألا يعطوا شيئًا، لا بيعًا ولا شراء ولا معروفًا۔2

’’(نعمتوں سے) روکا جانا کبھی بارش کے نہ ہونے اور قحط کے سبب ہوتا ہے، جیسا کہ یوسف کے دور کا قحط اور اہلِ مکہ پرقحط۔

دوسرا مخلوق کی جانب سے روک دینے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ وہ کچھ نہیں دیتے، نہ بیچنے کے لیے، نہ خریدنے کے لیے اور نہ ہی احسان کے طور پر۔‘‘

اسی طرح امام قتادہ﷫ نے فرمایا:

عوقب القوم بظلم ظلموه وبَغْيٍ بَغَوْه، حرمت عليهم أشياء ببغيهم وبظلمهم۔3

’’قوم کو ان کے کسی ظلم اور ان کی سرکشی کی وجہ سے سزا دی گئی۔ ان کی سرکشی و ظلم کی وجہ سے مختلف چیزیں ان پر حرام کر دی گئیں۔‘‘

اسی طرح امام ابن کثیر﷫ فرماتے ہیں:

عَنِ ابْنِ خِيرَةَ –وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَلِيٍّ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ–قَالَ: جَزَاءُ الْمَعْصِيَةِ الْوَهْنُ فِي الْعِبَادَةِ، وَالضِّيقُ فِي الْمَعِيشَةِ، وَالتَّعَسُّرُ فِي اللَّذَّةِ. قِيلَ: وَمَا التَّعَسُّرُ فِي اللَّذَّةِ؟ قَالَ: لَا يُصَادِفُ لَذَّةً حَلَالًا إِلَّا جَاءَهُ مَنْ يُنَغِّصه إِيَّاهَا۔4

’’حضرت ابن خِیرہ ،جو کہ حضرت علی کے ساتھیوں میں سے تھے، فرماتے ہیں: گناہوں کا بدلہ یہی ہوتا ہے کہ عبادتوں میں سستی آ جائے، روزگار میں تنگی واقع ہو، لذتوں میں سختی آ جائے یعنی جہاں کسی راحت کا منہ دیکھا فوراً کوئی زحمت آ پڑی اور مزہ مٹی ہو گیا۔‘‘

عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْعَبْدَ لَيُحْرَمُ الرِّزْقَ بِالذَّنْبِ يُصِيبُهُ وَلَا يَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ وَلَا يَزِيدُ فِي الْعُمُرِ إِلَّا الْبِرُّ۔5

حضرت ثوبان سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’انسان اس گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے جسے وہ کر بیٹھتا ہے، اور تقدیر کو صرف دعا ہی ٹال سکتی ہے، اور نیکی عمر میں زیادتی کرتی ہے۔‘‘

ربِ کائنات نے اعلان جو کردیا:﴿ ذٰلِکَ جَزَیْنٰھُمْ بِبَغْیِھِمْ وَإِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ﴾،میرے رب کے کلام کا ایک ایک حرف آج بھی ترو تازہ ہے۔

انسانیت کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

یہ جرم اس طبقے کا ہے جو عالمی سودی نظام کے ذریعہ جمہوری و غیر جمہوری نظام چلا رہا ہے، اور اللہ کے بندوں کو اس کفری ظالمانہ نظام کا بندہ بنائے ہوئے ہے، عالمی بینکار، کثیر القومی کمپنیاں، ابلیس کو اپنا خدا ماننے والے، دو فیصد خواہش پرست مقتدر طبقہ کہ خواہش ہی ان کا دین، ان کا ایمان اور ان کا معبود ٹھہرا، جنہوں نے ساری انسانیت کو سودی شکنجے میں جکڑا ہوا ہے اور اللہ کی شریعت کے مقابلے جمہوریت کے ذریعہ اپنا وضع کردہ نظام دنیا پر مسلط کیا ہے۔ اس عالمی کفری نظام کی حفاظت کے لیے اقوامِ متحدہ کے تحت قائم کیے گئے ممالک میں مقامی کرائے کی پیشہ ور فوجیں بنائی ہیں، جن کا اعلیٰ طبقہ اپنے اپنے ملکوں میں اس سودی نظام کی حفاظت کا پابند ہے،خواہ حکومت کسی کی بھی ہو لیکن نظام یہی باقی رہے گا۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ یورپ و امریکہ پر قابض مقتدر قوتوں نے وہاں کی عوام کے ساتھ وہی کیا جو فرعون نے اپنی قوم کے ساتھ کیا تھا۔

﴿فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوهُ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فٰسِقِينَ﴾ [الزخرف: 54]

’’اس طرح اس (فرعون) نے اپنی قوم کو بےوقوف بنایا اور انہوں نے اس کا کہنا مان لیا، حقیقت یہ ہے کہ وہ گناہگار لوگ تھے۔‘‘

چنانچہ ان مقتدر قوتوں نے عوام کو، عوام کی حاکمیت کے نام پر کولہو کا ایسا بیل بنایا کہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ، انقلابِ فرانس و امریکہ کو آج صدیاں گزر گئیں، لیکن عوام کی حالت کولہو کے بیل ہی کی رہی۔ ان کی آخرت تو تباہ کی ہے، دنیا میں بھی اس عوام کو عالمی سود خوروں کی مزدوری و چاکری کے سوا کچھ نہ ملا۔

اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی طبقے کے بارے میں فرمایا:

﴿أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ جَهَنَّمَ يَصْلَوْنَهَا وَبِئْسَ الْقَرَارُ﴾ [إِبْرَاهِيمَ: 28]

’’کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھوں نے اللہ کی نعمت کے شکر کو ناشکری میں بدل دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی جگہ جا اتارا، جہنم میں، جہاں یہ پہنچ جائیں گے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘

مغرب میں اپنے پنجے جمانے کے بعد عالمی سود خوروں نے عالمِ اسلام کے خلاف اپنی سازشوں کاآغاز کیا۔ خلافتِ عثمانیہ کو توڑا، امتِ مسلمہ کو خلافت کی لڑی سے نکال کر قومیتوں میں تقسیم کیا اور ان پر اپنے غلام حکمران و جرنیل مسلط کر دیے، جو خود محمدﷺ کی لائی شریعت کے دشمن ثابت ہوئے ۔

جنہوں نے ظاہراً مسلمانوں جیسے نام رکھے لیکن ان کے دل دشمنانِ اسلام کے ساتھ، ملک و قوم سے غداری اور کافروں سے وفاداری، محمد ﷺ کی لائی شریعت سے بے زاری اور مغرب سے در آمد نظام سے وارفتگی۔ یہ ایسا طبقہ تھا جس نے اپنی عوام کو کنگال کر کے اپنی اور عالمی مالیاتی اداروں کی تجوریاں بھرکے رکھ دیں، اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کے لیے قوم کا مستقبل تاریک کر گئے۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

٭٭٭٭٭

1 اسلامی بر صغیر کی معاشی خوشحالی کی تفصیل کے لئے دیکھیے: ’’نقشِ حیات‘‘ از مولانا سید حسین احمد مدنی﷫

2 تفسير الماتريدي ’تأويلات أهل السنة‘ (3/ 414)

3 تفسير الطبري (9/ 391)

4 تفسير ابن كثير ت سلامة (6/ 508)

5 رواه أحمد في المسند (5/80) وابن ماجة في السنن برقم (90) من حديث ثوبان رضي الله عنه، وحسنه العراقي كما في الزوائد للبوصيري (1/61)

Previous Post

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

Next Post

سورۃ الانفال | تیرہواں درس

Related Posts

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | گیارہویں قسط
جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!

اکیسویں صدی میں جمہوری نظام تباہی کے دہانے پر! | بارہویں اور آخری قسط

14 جولائی 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: تینتیس (۳۳)

9 جون 2025
الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط
ناول و افسانے

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | پانچویں قسط

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025

9 جون 2025
سورۃ الانفال | نواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | تیرہواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
Next Post
سورۃ الانفال | نواں درس

سورۃ الانفال | تیرہواں درس

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version