بے شک تعریف کی مستحق وہ ذات ہے جس نے موت و حیات کو ہماری آزمائش کے لیے پیدا کیا اور درود و سلام اور لاکھوں کروڑیں رحمتیں ہو اللہ ﷻ کے حبیب ﷺ پر، جن سے ہر ذی شعور کو محبت اتنی ہی عطا ہوئی جتنا اس کا ایمان ہے، یا یوں کہہ لیجیے کہ جو حضور ﷺ پر نور سے جس قدر محبت کرے گا وہ اسی قدر زیادہ صاحبِ ایمان ہو گا اور محبت کیا ہے؟ حضور ﷺ سے محبت یہ ہے کہ آپ ﷺ جو دین لے کر آئے ہیں اس کی پیروی کی جائے، صلی اللہ علیہ وسلم!
بچوں کا قتل، بے عدلی، بے انصافی اور ظلمِ عظیم ہے!
بچے بچے ہوتے ہیں۔ ان کو جنگ میں قتل کرنا رذالت، ذلالت اور ضلالت ہے۔
یہ بچے ۲۱ مئی کو خضدار، بلوچستان میں شہید ہوں، ۲۰ مئی کو ہرمز، وزیرستان میں شہید ہوں یا ہفتہ پیش تر جانی خیل، بنوں میں۔ یہ سب بچے ظالموں کے ہاتھوں شہید کیے گئے۔
ظلم کی کوکھ سے ظلم جنم لیتا ہے۔
ہمیں اللہ کی شریعت ایسے ظلم سے روکتی ہے۔ نہ کوئی بلوچ ظالم و مظلوم ہے، نہ کوئی پشتون اور نہ ہی کوئی پنجابی۔ بلکہ ظالم ظالم اور مظلوم مظلوم ہے۔
ہم ہر مظلوم کے ساتھ اور ہر ظالم کے خلاف ہیں!
وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓي اَلَّا تَعْدِلُوْا (سورۃ المآئدۃ: ۸)
’’کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ ہن کرے کہ انصاف نہ کرو۔‘‘
بچوں کا قتل، بے عدلی، بے انصافی اور ظلمِ عظیم ہے!
ہم کیسے عجیب زمانے میں جیتے ہیں؟
ابو حنیفہ و شافعی سے سرخسی و ابن تیمیہ تک سبھی علمائے حق کو تاریخِ اسلامی میں سلاطین نے قید میں ڈالا۔
لیکن آج صرف ’گمراہ خوارج‘ ،جو اپنے حکام پر تنقید کرتے ہیں، کو ہی زندانوں ڈالا جاتا ہے!
(شیخ ابو سامی کی ایک ٹویٹ کی ترجمانی)
حجاج کے قافلے رواں ہیں!
ابھی کچھ دیر قبل ایک ساتھی کا پیغام ملا کہ ’حج کے لیے جا رہا ہوں، دعا کرنا، تمہیں بھی دعاؤں میں یاد رکھوں گا‘۔
یہ پڑھا تو دل گرفتہ ہو گیا اور آنکھیں نم ناک۔
اس کی سعادت پر دل خوش اور اپنے حال پر غم ناک۔
لیکن یہ حال بھی تو ’اُسی‘ کی عطا ہے، ہم ’اُسی‘ کے عائد کردہ فرضِ عین میں نکلے اور ’اُس‘ کے دشمنوں کے یہاں مطلوب ہو گئے، کاش کہ ’اُس‘ کے طالب اور ’اُس‘ کے یہاں بھی مطلوب ہو جائیں، پھر وہ اپنے گھر کا دیدار دے دے اور پھر اپنے وجہِ کریم کا۔
کہاں وہ وجہِ کریم، کہاں یہ رُو سیاہ……
جو چاہو کرو؟!
ہم بنی اسرائیل نہیں ہیں، ہم امتِ محمد ہیں (علی صاحبہا ألف صلاۃ وسلام)۔ ہم جانتے ہیں کہ اللہ کا محبوب بنے رہنے کا طریقہ اتباعِ شریعت محمد ﷺ ہے۔ ہمارا نعرہ یہ نہیں ہے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں کہ ہم نے شام و عراق اور فارس و یمن فتح کر لیے اب ہم جو چاہیں کریں، ہمارا کوئی مؤاخذہ نہیں۔
نہیں! شام و عراق اور فارس و یمن ہی کیا، ہم پوری کائنات بھی فتح کر لیں تب بھی ہمیں ’جو چاہو کرو‘کا سرٹیفیکیٹ نہیں مل سکتا۔
ہم افغانستان سے امریکہ اور اس کے چالیس اتحادیوں کو شکستِ فاش دے کر نکالیں یا شام سے رافضی اتحاد کی کمر توڑ کر اقتدار میں آئیں، ہمارا امتحان تب تک جاری رہے گا، جب تک نزع کی گھڑی نہیں آ جاتی اور نزع کی گھڑی تک ہم سے مطلوب اتباعِ شریعت ہے۔
اہلِ کابل و قندھار کو عزت اقامتِ شریعت کے سبب ملی، آج اگر دمشق میں عزت ملے گی تو اسی سے ملے گی اور کل ٹمبکٹو اور مغادیشو میں عزت ملے گی تو وہ بھی اسی اتباعِ شریعت سے ملے گی۔
اسلام کا مقصدِ محض اقتدار نہیں، اسلام ایسا اقتدار چاہتا ہے جہاں اقامتِ صلاۃ و زکاۃ ہو، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہو اور حدود اللہ جاری ہوں، اللہ کے دشمن دشمن کہلائیں، اولیاء اللہ سے دوستوں سا برتاؤ ہو:
سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتانِ آزری!
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو!
پاک و ہند جنگ ختم ہوئی۔ معلوم ہوا کہ ۱۱ مئی کو پاکستان کے شہر بنوں کے علاقے جانی خیل میں ایک ڈرون حملہ ہوا اور ایک گھرانے کی عورتوں بچوں سمیت ۱۳ افراد شہید ہو گئے!
بنیان مرصوص بن کر جب اہلِ ایمان لڑا کرتے ہیں تو اس جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں۔ جہاد فی سبیل اللہ کوئی مبہم اصطلاح نہیں ہے۔ جہاد اس جنگ کو کہتے ہیں جس کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہوتا ہے اور یہ جنگ، لڑائی و صلح کے نشیب و فراز سے گزرتی رہتی ہے یہاں تک کہ اللہ کا کلمہ بلند نہ ہو جائے۔
یہ جنگ کرنے کا ’جرم‘ نہ کسی کلنٹن کے پاس فریادی بن کر، پہنچ کر اس جنگ کو رکواتا ہے اور نہ ہی کس زمانے کے ٹرمپ کی دھمکی سے اعلائے کلمۃ اللہ کی جنگ رکا کرتی ہے۔
لیکن ٹرمپ کی ایک فون کال پر یہ جنگ،جس کا نام بنیان مرصوص ہے روک دی جاتی ہے۔
ٹرمپ کا ایک حکم یہ ہے کہ ’غزوۂ ہند‘ کو روک دو تو اسی کی تہذیب کا دوسرا حکم یہ ہے کہ جانی خیل میں جنگ نہ رکنے پائے، وہاں اپنے ہی ہم قوم، ہم ملت، ہم مذہب لوگ…… صرف لوگ نہیں عورتیں اور بچے، اگر میزائلوں سے قیمہ ہوتے رہیں تو یہ جنگ خوارج کے خلاف ہے!
ذرا سوچیے! بنیان مرصوص تو مشرکین کے خلاف جہاد تھا، لیکن مشرکوں سے ایک صہیونی عیسائی مشرک ٹرمپ کے کہنے پر جنگ روک دی گئی اور کلمہ گوؤں……کلمہ پڑھتی عورتوں اور بچوں کو جانی خیل میں بھون دیا گیا……مشرکوں کو چھوڑ کر کلمہ گوؤں کو قتل کرنے کی صفت کس کی ہے؟
خوارج کی روش پر کون عامل ہے؟
ہندوستان سے جنگ ذرا تھمی تو دل و جان نے توجہ سے وزیرستان تا خیبر وہی منظر سجا دیا، وار آن ٹیرر……وار آن اسلام……مظلوموں کے خلاف جنگ!
بیس سال ہماری بیسوں سے جہازوں نے اڑ اڑ کر اہلِ افغانستان کو مٹی میں سلایا، پھر جب اس جنگ میں کچھ افغانوں نےپاکستان فوج کے افسروں اور جوانوں کے جاں بحق ہونے پر جشن منایا تو سبھی کو برا لگا۔ لیکن کیا ہمیں جانی خیل کے ان جاں بحق شہیدوں کی شہادتوں پر بھی غم ہوا ہے؟ کل اگر ہندوستان نے دوبارہ آپریشن سندور کا آغاز کیا اور جواب میں پھر کوئی بنیان مرصوص شروع ہوا تو جانی خیل، یہ اپنے ہی پاکستان کے جانی خیل کے لوگ افغانوں کی طرح صرف خوشیاں نہیں منائیں گے بلکہ یہ آتش و آہن میں لپٹ کر اپنی ہی قاتل، اپنے ہی ۱۳ عورتوں بچوں کے قاتلوں پر پھٹیں گے!
یہ کمائی ہماری اپنی ہی فوج کی ہے!
کاش سندور و بنیان مرصوص…… اس فوج کو حقیقی مجاہد بنا دیتے، لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی کے چوکیداروں کی پروفیشنل آرمی سے شروع ہونے والا سفر، انگریز کی بنائی رجمنٹوں اور یونٹوں کا غرور، وہ فطرت، وہ تربیت: کیسے بدل سکتی ہے!؟
افسوس صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات!
مہدی کا انتظار کیوں؟
اگر آج یہ غرباء اور سارے زمانے کے دھتکارے اور مطعون مجاہدین نہ بھی ہوں، تو ایک بات واضح ہے۔
قرآن و حدیث میں جو دین کی اقامت اور جہاد کا بیان موجود ہے، وہ پہلے نہ سہی تو مہدی کے ہاتھ پر تو ہو گا ہی۔ مہدی جو کریں گے اس کو اپنے اور پرائے دونوں ہی تسلیم نہیں کریں گے۔
تو مہدی کا انتظار کیوں؟
آج ہی مہدی کے طریق پر کیوں نہ چلیں؟
اب اس کو کوئی کچھ بھی نام دے، دہشت گردی کہے یا کچھ بھی اور۔
اور سچ یہی ہے کہ مہدی کے ہم راہی وہی ہوں گے جو ان کے آنے سے قبل ان کی راہ کے راہی ہوں گے۔
وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً (سوۃ التوبۃ: ۴۶)
’’اور اگر وہ (جہاد کے لیے) نکلنے کا ارادہ رکھتے تو اس کے لیے کچھ تیاری کرتے۔‘‘
بلکہ دیکھیے اسی آیت میں آگے وعید بیان ہوئی ہے کہ جنگ کے لیے نہ نکلنے والے بے توفیقے ہیں:
وَلَٰكِنْ كَرِهَ اللَّهُ انْبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ
’’لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسند نہ تھا، اس نے انہیں روک دیا اور کہہ دیا گیا کہ بیٹھ جاؤ بیٹھنے والوں کے ساتھ۔‘‘
اللہ ہمیں قاعدین میں شامل نہ کرے اور مہدی کے ساتھیوں میں شامل کر لے، آمین!
جنگ جیتنا آسان بات ہوا کرتی ہے
جنگ جیتنا آسان بات ہوا کرتی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ آزمائش کا اصل مرحلہ بعد از جنگ آتا ہے۔
اگر ہم ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے شعائر و نعروں تلے ایک جاں فشاں جنگ لڑیں، دشمن کے قلعوں کو تباہ کریں، خود اپنے شہادت ناموں پر دستخط کریں، مشرکین کے خلاف بنیان مرصوص ہو کر لڑیں اور پھر جب ہمیں فتح مل جائے اور اس کے بعد ہماری زندگی سے مظاہرِ ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ غائب ہو جائیں تو جان لیجیے یہ بڑے خسارے کا سودا ہے۔
ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ پر عاملین کا وصف تو یہ ہے کہ جب وہ جنگ جیت جاتے ہیں اور اقتدار کے مالک ٹھہرتے ہیں تو پھر وہ نظامِ صلاۃ، نظامِ زکاۃ قائم کرتے ہیں، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے ہیں، حدود اللہ کو ارض اللہ پر جاری کرتے ہیں، اسی سب کو جامع الفاظ میں نفاذِ شریعت و اقامتِ دین کہا جاتا ہے، ذات سے اجتماع تک، ہر جگہ نفاذِ شریعت و اقامتِ دین، بستر تا ایوانِ اقتدار۔
ورنہ یاد رکھیے، جنگ کے بعد مالِ غنیمت میں ایک رومال کی چوری مجاہد کو ’جنتی‘ سے ’جہنمی‘ بنا دیتی ہے، چاہے وہ شخص رسول اللہ ﷺ کا صحبت یافتہ ہی کیوں نہ ہو (بخاری و مسلم میں غزوۂ خیبر کے ذیل میں یہ واقعہ موجود ہے)۔
اگر ایک رومال میں خیانت کسی سے صحابیت کا درجہ چھین کر اس کو ثریا سے زمین پر پٹخ سکتی ہے، تو کھلم کھلا احکامِ شریعت سے انحراف اس سے بھی زیادہ بھیانک گڑھے میں دھکیل سکتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ سے متصف حقیقی مومن، متقی اور مجاہد بنائے، آمین!
ہمارا ہدف ملک گیری نہیں!
مجاہدین، خاص کر برِّ صغیر میں بر سرِ پیکار مجاہدین کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ ہے۔ ان کے مقصد کو سمجھنے کے لیے امیر المومنین حضرت سید احمد شہید کی یہ بات کافی ہے کہ:
’’اس ملک کو مشرکین کی نجاستوں سے پاک کرنے اور منافقین کی گندگی سے صاف کرنے کے بعدحکومت و سلطنت کا استحقاق اور ریاست و انتظامِ سلطنت کی استعداد رکھنے والوں کے حوالے کر دیا جائے گا، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ احسان خداوندی کا شکر بجا لائیں گے اور ہمیشہ اور ہر حال میں جہاد کو قائم رکھیں گے اور کبھی اس کو موقوف نہیں کریں گے اور انصاف اور مقدمات کے فیصلے میں شرع شریف کے قوانین سے بال برابر بھی تجاوز و انحراف نہیں کریں گے اور ظلم و فسق سے کلیتاً اجتناب کریں گے۔” (سیرت سید احمد شہید از مولانا سید ابو الحسن علی ندوی )
آج بھی برِّ صغیر میں یہی دو کردار موجود ہیں، ہندوستان میں مشرک کردار اور پاکستان و بنگلہ دیش میں منافق کردار۔ مطلوب ہے کہ زمین کو اہلِ شرک و نفاق سے پاک کر کے اہل الحل والعقد کے حوالے کر دیا جائے، جو شرع شریف کو نافذ کریں اور جہاد کو جاری رکھیں!
آج صبح سنوار سے ملاقات ہوئی…… (واردات قلب)
آج صبح میں بیٹھا تھا۔ خیال آیا، آج تک، ساری زندگی، دنیا میں کسی کے جانے کا مجھے اتنا غم نہیں ہوا، نہ کسی سگے کے جانے کا نہ کسی پرائے کے جانے کا، جس قدر یحیی السنوار کی شہادت کا غم ہوا۔
رویا بھی۔
لیکن جتنا رونے کا دل چاہتا ہے اتنا رویا نہیں، اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں!
اسی خیال میں محو تھا کہ ایسے میں لگا کہ یحیی السنوار میرے ساتھ ہی کھڑے ہیں، پھر وہ کہنے لگے:
’’میں نہیں چاہتا کہ لوگ میرے غم میں روئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ جسے میری جدائی کا غم ہو وہ میرے دشمن کو رلائے!‘‘
یہ سنا تو تسلی ہوئی اور سوچا کہ اٹھو کوئی ایسا کام کریں جس سے یحیی السنوار کے دشمن روئیں!
محبت فاتحِ عالم!
ایک صحابی تھے۔ شراب پی، کوڑے لگے۔ پھر پی، پھر کوڑے لگے۔
بار بار یہ معاملہ ہوا۔
کچھ صحابہ نے کہا کہ یہ کیسا برا شخص ہے اور لعنت ملامت کی۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا یہ نہ کہو یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے!
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھنے کا مطلب تو اتباعِ شریعت ہے۔ لیکن شریعت پر عمل کے لیے کوشاں کچھ لوگوں سے گناہ سرزد ہو جایا کرتے ہیں، ان گناہوں کے سبب ان کو دھتکاریں نہیں! گناہ کے بقدر ہی ان کی اصلاح کریں، نظروں سے نہ گرائیں!
حق کی دعوت کے خریدار
مطلوب یہ ہے کہ ہم اپنا اسلوب غیر عادلانہ نہ رکھیں، ظلم کی بات نہ کریں، الزام، دشنام، بد اخلاقی سے اپنا دامن بچائیں۔ بہترین اسلوب برائے دعوت استعمال کریں۔
لیکن ساتھ میں یہ توقع بھی نہ رکھیں کہ ہمیں سفھاء سی مقبولیت ملے گی، ہم عمران خان و طیب اردگان جیسا charisma نہیں لا سکتے۔ ہاں ہم اہلِ حق ہی جیتیں گے، اس کا ہمیں یقین ہے، لیکن اس کا سببِ محض لوگوں کا جوق در جوق ہماری دعوت کو قبول کرنا نہیں، بلکہ، اللہ کی نصرت کا آنا ہو گا جس کے نتیجے میں لوگ جوق در جوق ہمارے ساتھ شامل ہوں گے!
حق کی دعوت کے خریدار ہمیشہ کم ہی ہوتے ہیں۔ کسی اللہ کے ولی سید زادے سے کسی نے حق کی دعوت کے عوام میں مقبول نہ ہونے پر پوچھا تو وہ بولے:
’’بازار میں ایک گھڑی ایک ہزار کی اور ایک گھڑی سو روپے کی ہو تو بتائیے کون سی زیادہ بکے گی؟ سامان وہی زیادہ بکتا ہے جس کی قیمت کم ہوتی ہے۔‘‘
معاہدۂ براہیمی کا حصے بننے کے خواہاں لوگوں کے نام
امریکہ کے ایما پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو نارملائز کرنے کے لیے ۲۰۲۰ء میں کچھ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا۔ جس کا معنی تھا کہ اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا جائے اور اسرائیل سے سفارتی و تجارتی تعلقات بنائے جائیں، یعنی اسرائیل جو مسجدِ اقصیٰ پر قابض ہے۔
اس کا قبضہ گویا ’جائز‘ ہے۔ اس معاہدے کی نسبت حضرتِ ابراہیم خلیل اللہ کی طرف کی گئی تھی کہ وہ ابراہیمی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام کے جد ہیں۔ اور اللہ کا قرآن واضح کہتا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ حنیف مسلم تھے۔
اللہ کی شریعت ارضِ شام خاص کر فلسطین میں کسی ’یہودی ریاست‘ کو تسلیم کرنے کی اجازت نہیں دیتی! اور اگر یہودی ریاست کو تسلیم ہی کرنا ہے، اس کے ساتھ نارملائزیشن ہی کرنی ہے تو دہائیوں سے جاری جہادِ فلسطین اور قدس کی آزادی…… نور الدین زنگی و صلاح الدین ایوبی سے، عز الدین القسام، عبد اللہ عزام، احمد یاسین، رنتیسی، اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری، اسماعیل ہنیہ اور یحیی السنوار کا جہاد……چہ معنی دارد؟
احساسِ زیاں پیدا کیجیے!
آج جس چیز کی کمی من حیث المجموع امت میں ہے وہ احساسِ زیاں ہے۔ یہ احساسِ زیاں نہ ہونا امت کے ہر طبقے میں موجود ہے، حتیٰ کہ مجاہدینِ عالی قدر جو اپنے گھر بار چھوڑ کر راہِ ہجرت و جہاد کو اختیار کرتے ہیں ان میں بھی کبھی کبھی اس کی کمی ہو جاتی ہے۔
دیکھیے اس امت کی سب سے زیادہ جہادی نسل کون ہے؟ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ان کے لیے بھی اللہ سات آسمانوں کے اوپر سے حکم و تحریضِ جہاد بلکہ جہاد کے لیے غیرت تک کی آیات اتار رہا ہے۔
ساتھ میں اپنے نبی (علیہ ألف صلاۃ وسلام) کو بھی کہہ رہا ہے کہ “وحرض المؤمنین“، جنگ پر مومنوں کو ابھاریں۔
جہاد کے لیے نکلنے کا فیصلہ وحی پر عمل اور عقل کا اس وحی پر لبیک کہنا ہے۔
لیکن اگر جذبات نہ ہوں، احساس نہ ہو، دعائیں نہ ہوں، غمِ امت نہ ہو تو جہاد میں آ کر بھی ہم دنیا دار ہو سکتے ہیں۔
اور آج، آج تو امت میں سب سے زیادہ مجاہدینِ عالی قدر کی مسئولیت ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ میں ایک ہجرتِ ثانیہ کریں، اہلِ غزہ کی خاطر۔
یہ مجاہدین ڈھاکہ و بمبئی میں ہوں یا سری نگر و لاہور میں یا کابل و دمشق میں، یہ ہجرت کا فیصلہ کریں، ان کے دل اہلِ غزہ کے ساتھ ہوں اور ہاتھ پیر اس عمل میں مصروف ہوں جو اہلِ غزہ کی نصرت اور قدس کی آزادی کی طرف لے جائے۔
کلیدی الفاظ یاد رکھیے: احساسِ زیاں۔
یہ احساس ہو تو گھر میں بیٹھے ایک تڑپتے شخص کو تبوک کی وادیوں اور گھاٹیوں میں چلنے کا اجر عطا کر دے اور اگر یہ احساس نہ ہو تو خطِ اول پر بیٹھا شخص بھی غافلین میں شامل ہو رہے!
احساس ہو تو قومیں زندہ رہتی ہیں، یہ مر جائے تو قصر الحمراء سے لال قلعے تک سبھی کچھ بے کار جاتا ہے!
٭٭٭٭٭