انسانیت کی نجات کا راستہ: خالق کی مخلوق میں اسی خالق کے قانون کا نفاذ
اس کی واپسی کا صرف ایک ہی راستہ ہے، وہ راستہ جس پر چل کر انسانیت ہر دور میں کامیا ب رہی، یہ ایسا راستہ ہے کہ درماندہ و پسماندہ اقوام بھی اگر اس راستے پر آئیں تو دنیا کی امام و پیشوا بن بیٹھیں، عرب و عجم، شرق و غرب کے بادشاہوں کی بادشاہتیں ان کے گھوڑوں کے ٹاپوں تلے روندی گئیں، دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں ان کے قدموں میں جھک گئیں۔
جس راستے پر چل کر انسان نے اپنے خالق کو پہچانا، خود کو پہچانا، زندگی کے مقصد کو پہچانا، انسانی معاشرہ اعلیٰ اخلاقیات کے زیور سے آراستہ ہوا۔
جہاں امن و سکون، عزت و احترام، شرم و حیاء، عہد و وفا، ایثار و قربانی اور رشتوں کا تقدس، سب کچھ حاصل ہوتا ہے۔
تاریخِ انسانیت گواہ ہے کہ انسان کو یہ سب ایک ہی صورت میں حاصل ہو سکا، یعنی اللہ کی نازل کردہ کتاب کو نظامِ زندگی تسلیم کرکے، رحمۃ للعالمینﷺ کی لائی شریعت کو بطورِ نظام و طرزِ زندگی اپنے ملکوں میں نافذ کرکے، امام ِ انسانیتﷺ کے طرزِ زندگی کو اسوہ بنا کر۔
دنیا او ر جو کچھ دنیا میں ہے اسے خسارے سے بچانے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس دنیا کو اللہ کے نازل کیے نظام کے مطابق چلایا جائے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات تمام جہانوں کو پالنے والی ذات ہے، اس نے انسانیت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے، سب سے آخر میں محمد ﷺ کو رحمۃ للعالمین بناکر بھیجا گیا، جو شریعت آپ ﷺ کو دے کر بھیجی گئی وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام دنیا کے لیے رحمت ہے۔
خالقِ کائنات سے بہتر، انسا ن کے نفع و نقصان کو کون جان سکتا ہے؟ جس نے انسان کو پیدا کیا، جس نے اسے ماں کے پیٹ میں تین پردوں میں زندگی عطا فرمائی او ر کمزوری سے قوت عطا کی۔ چنانچہ اس نے جو طرزِ زندگی (دین) رحمۃ للعالمینﷺ کو دے کر بھیجا یہ صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ کافروں حتیٰ کہ چرند و پرند اور نباتات کے لیے بھی رحمت ہی رحمت ہے۔
چنانچہ اللہ کے قانونِ فطرت سے بغاو ت کر کے، اس کے نازل کردہ طرزِ زندگی کو چھوڑ کر، حکمراں طبقے کے ایجاد کردہ طرزِ زندگی کو دنیا میں نافذ کیا جائے گا تو اس کا انجام عمومی تباہی اور عظیم خسارے کی صورت میں دنیا کو دیکھنا ہو گا۔
انسانیت کو اس وقت تک مکمل خسارے سے نہیں بچایا جا سکتا جب تک کہ زمین پر اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ طرزِ زندگی غالب نہ کر دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے نظام کے طور پر انسان کے لیے پسند فرمایا ۔
﴿الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا﴾ (سورۃ المائدة: 3)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت کو مکمل فرما دیا، اور دین کے طور پر تمہارے لیے اسلام کو پسند کیا۔ اور تم پرا پنی نعمت پوری کر دی۔‘‘
انسانیت کو اس خسارے سےنکالنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟
انسانیت کو اس عظیم خسارے سے وہی بچا سکتے ہیں جو اس دعوت کے حامل ہیں جو رحمۃ للعالمینﷺ لے کر آئے، نبی کریمﷺ کے بعد جو اس دعوت کے امین ہیں۔
سو سورۂ عصر کی یہ آیت ﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾ ا ہلِ ایمان کو جھنجوڑ رہی ہے کہ اے وہ امت جسے ایک عظیم مقصد کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا تھا، جسے انسانیت کی قیادت و امامت کے منصب پر فائض کیا گیا، جنہیں دنیا کو باطل نظاموں کی تاریکیوں سے نکال کر محمدﷺ کے لائے نظام میں داخل کرنے کی ذمہ داری دی گئی، جنہیں افضل امت اس لیے بنایا تھا کہ انسانیت کو شرک و بت پرستی اور مختلف معبودوں کی عبادت سے نکال کر اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت میں داخل کریں گے، انہیں دنیا و آخرت کے خسارے سے نکال کر فوز مبین یعنی کھلی کامیابی کے راستے پر لے کر آئیں گے خواہ ان کی نجات کے لیے تمہیں اپنی جانوں کی بازی لگانی پڑے، اپنی زندگی کو جنگوں کی گھن گرج اور تلواروں کی چمک کے سائے میں گزارنا پڑے، اپنی عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیمی کے داغ دینا پڑیں، تم اس کے لیے قتال بھی کروگے، انسانیت کی ہدایت اور کامیابی و فلاح کا تمہارے اندر ایسا جذبہ ہو گا کہ تم اس کے لیے جان سے بھی گزر جاؤ گے، اسی صورت میں تم خیر امت بن سکتے ہو، جب اپنی ذات، اپنا سکون، اپنا وجود دوسروں کی فلاح و نجات کے لیے قربان کرنے والے بن جاؤ، اسی صورت میں تو خَيْرُ النَّاسِ لِلنَّاسِ یعنی لوگوں کے لیے سب سے اچھے بن سکتے ہو،یہاں تک کہ تم انہیں زنجیروں میں جکڑ بھی لاؤ اور یہ لانا ان کی ابدی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بن جائے۔
آیت کا یہ حصہ ہندوستان کے داعیانِ دین کو جھنجوڑ رہا ہے کہ اے بت کدۂ ہند میں توحید کی شمعیں جلانے والو! اس جدید دور میں بھی تمہارے ساتھ ایسی قوم رہتی ہے جو آج بھی پتھروں کو معبود مانتی ہے، اپنے ہاتھوں سے تراشے اور تراش کر بازاروں میں بیچے ہوؤں کو اپنا الہ و معبودبنالیتی ہے، انہیں بت پرستی کے اندھیروں سے نکال کر توحید کے اجالوں سے آشنا کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ انہیں جہنم سے بچانے اور ہدایت کے راستے پر لانے کے لیے تمہیں ہی فکرکرنی ہوگی، دعوت کے راستے میں رکاو ٹ ائمۃ الکفر کو راستے سے ہٹانا ہو گا، تاکہ باقی لوگوں کے لیے ہدایت کے راستے کھل جائیں اور تمہارا ان سے جہاد کرنا ان کے لیے رحمت کا سبب بن جائے۔
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دو فیصد برہمنوں نے کروڑوں اللہ کے بندوں کو اللہ کی عبادت سے روک کر بتوں کی عبادت پر لگایا ہوا ہے۔
اہلِ ایمان کو جھنجوڑنے اور انہیں ان کے فرض منصبی یاد دلانے کے لیے کیا یہ آیت کافی نہیں؟ کیا آج امت کا سنجیدہ طبقہ انسانیت کی حالت سے با خبر نہیں۔
پہلے تو یورپ ہی کو روتے تھے، اب تو یہ سیلاب اپنے گھروں کے اندر داخل ہو چکا ہے، کیا اب بھی ہم خوابِ غفلت میں پڑے، راحت و آرام کے متلاشی، اپنی جان بچانے کے لیے بقائے باہمی کے گھسے پٹے نظریے ہی سے چمٹے رہیں گے؟
ذرا اس چھوٹی سی سورت کی چھوٹی سی آیت کو دل کے کانوں سے سنیے، انسانیت کا درد رکھنے والوں کو یہ دعوتِ عمل دے رہی ہے۔
﴿وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾ زمانے کی قسم! اس جدید زمانے میں بھی انسانیت خسارے میں جا رہی ہے، تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے بلکہ فوج در فوج اس تباہی کا شکار ہو رہی ہے، جبکہ تمہیں تو اسے خسارے سے بچانے کے لیے بھیجا گیا،
اے مسجدوں کو آباد کرنے والو! سنو ﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾،
اے منبر و محراب کے وارثو! ذرا اس چار دیواری سے نکل کر دیکھو ﴿إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ﴾،
جبکہ تمہیں تو انبیاء کا وار ث بنایا گیا، اس دین کا حامل بنایا گیا جو کامل و مکمل نظامِ زندگی ہے۔ اور اس پر لوگوں کو لانے کی ذمہ داری تمہارے ہی کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ فرمایا:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ ﴾ (سورۃآل عمران:110)
’’تم بہترین لوگ ہو جنہیں لوگوں کے لیے بھیجا گیا ہے، تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان لاتے ہو۔‘‘
امام بخاری اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ﴿ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ﴾ قَالَ خَيْرَ النَّاسِ لِلنَّاسِ تَأْتُونَ بِهِمْ فِي السَّلَاسِلِ فِي أَعْنَاقِهِمْ حَتَّى يَدْخُلُوا فِي الْإِسْلَامِ۔1صحيح البخاري (14/ 28)
حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا: ’’لوگوں کے لیے سب سے بہترین تم ہو، تم انہیں ان کی گردنوں میں بیڑیاں ڈال کر لاتے ہو یہاں تک کہ وہ اسلام میں داخل ہوجاتے ہیں۔‘‘
علامہ آلوسی نے اس کی تفسیر میں بیان فرمایا:
عن ابن عباس في الآية أن المعنى تأمرونهم أن يشهدوا أن لا إله إلا الله ويقرّوا بما أنزل الله تعالى وتقاتلونهم عليهم ولا إله إلا الله هو أعظم المعروف وتنهونهم عن المنكر والمنكر هو التكذيب وهو أنكر المنكر۔2روح المعاني (2/ 244)
حضرت ابن عباس نے اس کی تفسیر میں فرمایا: ’’تم لوگوں کو یہ امر کرتے ہو کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیں اورجو کچھ اللہ تعالیٰ نے (اپنے حبیبﷺ پر) نازل کیا اس کا اقرار کریں ،اور تم اس کے لیے ان سے قتال کرتے ہو۔ اور لا الٰہ الا اللہ سب سے بڑا معروف ہے۔اور تم انہیں منکر سے روکتے ہو،اور منکر اللہ کا انکار ہے جو کہ سب بڑا منکر ہے۔‘‘
یعنی تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے کافرو ں سے جہاد کرتے ہو۔ یہاں امر بالمعروف کا اعلیٰ درجہ یعنی اسلام کی طرف دعوت اور جو شریعت رحمۃ للعالمینﷺ پر نازل کی گئی اس کا اقرار کرنا ہے۔
اور نہی عن المنکر یعنی بدترین منکر کفر سے تم روکتے ہو، جیسا کہ امام ابوا للیث سمرقندی نے اس کی تفسیر فرمائی، پھر تم ان پر غالب آ جاتے ہو اور انہیں گرفتار کر کے لے آتے ہو، یہ گرفتاری ان کے لیے رحمت بن جاتی ہے اور تمہارے قریب رہ کر وہ اسلام کا اصل چہرہ دیکھ لیتے ہیں، ا س طرح وہ اسلام اپنی خوشی سے قبول کر لیتے ہیں، اور انہیں دنیاوی و اخروی دونوں کامیابیاں حاصل ہو جاتی ہیں۔
چنانچہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اعلیٰ درجہ یعنی قتال فی سبیل اللہ کرنے کی وجہ سے یہ امت افضل امت قرار پائی، کہ یہ انسانیت کی کامرانی و فلاح کا ضامن ہے۔ چرند و پرند اور نباتات و جمادات کی بقا کا ذریعہ ہے، یہ کائنات کے نظام کی بقا کا ضامن ہے، یہ الارض کو فساد سے پاک کر کے اسے اس کی اصل فطرت پر قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔
قرآن نے ایک آیت کے حصے میں اسے یوں بیان فرمایا:
﴿ وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعٰلَمِينَ﴾ (سورۃالبقرة: 251)
’’اور اگر اللہ کی بعض کو بعض کے ذریعہ ختم کر کی سنت نہ ہوتی تو زمین فساد زدہ ہو جاتی لیکن اللہ تمام جہانوں پر فضل فرمانے والا ہے۔‘‘
سو اللہ تعالیٰ نے تمام جہانوں پر اس طرح فضل فرمایا کہ رحمۃ للعالمینﷺ کو قتال کا حکم دے کر بھیجا تاکہ ان قوتوں سے قتال کیا جائے جورحمت والے نظام کو نافذ ہونے سے روکتی ہیں، ان کا خاتمہ کر کے سارا کا سارا نظام اللہ کا بھیجا ہوا نافذ کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّٰهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرٌ﴾ (سورۃالأنفال:39)
’’اور (مسلمانو!) ان سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے ، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے ۔ پھر اگر یہ باز آ جائیں تو ان کے اعمال کو اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔‘‘
کیونکہ اللہ کی نازل کردہ شریعت پاک ہے اور غیر اسلامی نظام ناپاک۔ سو پاک و ناپاک ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، اس لیے پہلے اسلام کے علاوہ ہر نظام کو ختم کرنے کا حکم فرمایا۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جہاد کے ذریعہ اسلام اول تو یہی چاہتا ہے کہ کافر کلمہ پڑھ کر پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جائیں اور محمدﷺ کے لائے طرزِ زندگی کو دین کے طور پر اختیار کر لیں۔ لیکن اگر وہ کلمہ پڑھنے پر راضی نہیں ہوتے لیکن جزیہ دینے پر راضی ہیں تو اب انہیں کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ ان سے جزیہ لینا قبول کر لیا جائے گا (اگر وہ ان کافروں میں سے ہیں جن سے جزیہ لینا جائز ہے)۔ جزیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اپنے پرانے دین پر باقی رہیں گے لیکن ان کے ملک میں محمد ﷺ کی لائی شریعت نافذ ہو گی اور یہ جزیہ ادا کیا کریں گے، اس کے بدلےاسلامی حکومت ان کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ لیکن اگر وہ جزیہ پر بھی تیار نہ ہوں تو پھر ان سے جنگ کی جائے گی یہاں تک کہ مذکورہ باتوں میں سے وہ کسی پر راضی ہو جائیں۔
یہاں غور کرنے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو ان کے کفر پر باقی رہنے کی اجازت دے رہا ہے (اگرچہ حقیقتاً یہ کفر پر باقی رہنے کی اجازت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ اسلام کے نظام کو قریب سے دیکھ لینے کے بعد یہ لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے، چنانچہ انہیں اسلام کی طرف لانے کے لیے یہ انتظام کیا گیا ہے)، جبکہ وہ جزیہ دے کر اپنے ملک میں شریعت کے نفاذ کے لیے تیا ر ہوں، لیکن اس کی ہرگز اجازت نہیں دے رہا کہ وہ اپنے ملک میں نفاذ ِ شریعت پر راضی نہ ہوں۔
معلوم ہوا کہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ کافروں پر بھی محمد ﷺ کی لائی شریعت ہی بطورِ قانون بالا دست رہے، کیونکہ اسلام بلند اور غالب ہونے کے لیے آیا ہے، الإسلام یعلو ولا یعلٰی۔ اسلام کو غالب کرنے کے بعد ہی منکرات کو ہر سطح پر روکنا ممکن ہو گا، انفرادی سطح پر تذکیر و وعظ کے ذریعہ بھی اور جو اس سے نہ مانے اسے شریعت کی قوتِ حاکمہ کے ذریعہ روکا جائے۔ ان دروازوں کو بند کر دیا جائے جہاں سے منکرات پھیلائے جاتے ہیں۔ اور پھر معاشرے کی اصلاح کے لیے وعظ و نصیحت، دعوت و تبلیغ اور درس و تذکیر کا سہارا لیا جائے۔ یوں انسان اپنی فطرت پر واپس آنا شروع ہوتا ہے اور اس کی طبیعت فساد سے پاک ہو کر اللہ کے رنگ میں رنگنی شروع ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منکرات کو ختم کرنے کے لیے قوت کے استعمال کی اجازت دی، گندگی سے بھرے ماحول کو صاف کرنے کے لیے جہاد کو فرض فرمایا تاکہ اس کے ذریعہ کفر کے غلبے کو ختم کر کے اسلام کو غالب کر دیا جائے۔ کیونکہ معاشرے کو برائیوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے ان اسباب کو پہلے ختم کیا جائے جو ان کے پھیلنے کا سبب بن رہے ہیں، اس ماحول کو تبدیل کیا جائے جو ماحول خود برائیوں کا سر چشمہ ہے۔ جہاں ہر طرف برائیوں کی دعوت، ایسی دعوت کہ لپک لپک کر شرفاء کے دامن کو بھی اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے، اس حقیقت کو سمجھنے میں کسی عقل مند کو مشکل نہیں کہ اگر کسی ماحول میں کوئی برائی عام ہو چکی ہو، تو وہاں کوئی کتنے صالح شخص ایسے ہوں گے جو اپنے نفس سے مطمئن ہو کر اس ماحول میں بے فکر بیٹھے رہیں۔ مثلاً ہمارے اس دور میں سود عام ہے۔ ریاست کے ذریعہ مسلمانوں پر لازم کیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں سود ادا کریں۔ چنانچہ ایسے سودی ماحول میں کوئی شخص نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو کس طرح اس سود میں مبتلا ہونے سے بچا سکتا ہے؟ اسی طرح گانے بجانے اور موسیقی کا حال ہے۔
معاشرے میں موجود غالب ماحول پورے معاشرے کوجلد یا بدیر بالآخر اپنے رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ اگر ہر جگہ زبانی دعوت و تبلیغ سے معاشرے کی اصلاح ہو جایا کرتی تو اللہ اپنے انبیاء کو گناہوں سے بھرے ماحول سے ہجرت و جہاد کا حکم نہ دیا کرتے۔
چنانچہ اللہ کی بھیجی ہوئی شریعت کے نفاذ کی اہمیت کو یہ آیت بتا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو یہ دین دے کر بھیجنے کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا:
﴿هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدٰى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾(سورۃ الصف: 9)
’’وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچائی کا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام دوسرے دینوں پر غالب کر دے، چاہے مشرک لوگوں کو یہ بات کتنی بری لگے۔‘‘
جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ اسلا م کافرِ اصلی کو کلمہ پڑھنے پر مجبور نہیں کرتا لیکن اس پر شریعت کے نظام کو لازم کرتا ہے۔ ان ملأ القوم (مقتدر طبقے) کی گردنیں اڑانے کا حکم دیتا ہے جو معاشرے میں ظلم و زیادتی، بے شرمی و بے حیائی اور بددیانتی و ناانصافی کے ماحول کو باقی رکھنا چاہتے ہیں۔
شریعت کے نفاذ کے لیے یہ جنگ کرنے کا حکم تو ان کافروں کے بارے میں ہے جو کہ ابھی اسلام بھی نہیں لائے، سو آپ ان حکمرانوں کے بارے میں شریعت کے حکم کا اندازہ لگایے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں، زبان سے کلمہ پڑھتے ہیں، لیکن اللہ کی نازل کردہ شریعت کے دشمن ہیں، اس کے نفاذ کو قوت سے روکتے ہیں، بلکہ اس کا مطالبہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کرتے ہیں۔ پھر یہی نہیں کہ اس جنگ کو مباح سمجھتے ہیں بلکہ اسے جہاد کہتے ہیں، مسلمانوں کو قتل کرنے، ان کی سرزمینوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافروں کی مدد کرنا، انہیں اپنی زمین، اپنی فوج، اپنے اڈے فراہم کرنا، ان کی پارلیمنٹ کے نزدیک مباح قرار دیا گیا ہے۔
جن کا نظامِ حکومت کفر کا سر چشمہ ہے، جس میں اللہ کے ساتھ ایک کفر نہیں بلکہ کفر در کفر ہے۔ جن کی عدالتوں کا مرجع وہ قرآن نہیں جسے محمد ﷺکو دے کر بھیجا گیا بلکہ وہ ہے جسے جمہوریت کی دیوی پسند کر لے، جن کی معاشیات و اقتصادیات کی روح اور بنیاد سود پر قائم ہے جسے ان کی پارلیمنٹ نے حلال (قانونی) قرار دیا ہے، یہ محمدﷺ کی لائی شریعت کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
زمانہ تقاضا کر رہا ہے کہ انسانیت کو کفر و شرک کی تاریکیو ں سے نکال کر اسلام کی تجلیات سے منور کر دیا جائے، جاہلی نظاموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر اللہ کے نازل کردہ نظام کو غالب کر دیا جائے، دنیا کی قیادت شیطانی ٹولے سے چھین کر اللہ کی کتاب کے حاملین کے سپرد کر دی جائے، اس ظالمانہ سودی نظام اور ان ملک و ملت کے غداروں سے نہ صرف مسلمانوں کو نجات دلائی جائے بلکہ کافروں کو بھی عظیم خسارے سے بچا کر انہیں ابدی کامیابی کی طرف لایا جائے۔ یہ ہر مسلمان سے قرآن کا تقاضا ہے، وقت کا تقاضا ہے، اس دین کا تقاضا ہے۔
اللہ کو دل میں اتار کر، اعمالِ صالحہ سے اپنے کردار کوسنوار کر، پورے کے پورے قرآن کی دعوت لے کر اٹھنا اور پھر اسی کی تبلیغ اور اسی پر ثابت قدمی، دنیا پھر سے آپ کی منتظر ہے، انسانیت کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہی ہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا، امانت کا، دیانت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
سارے نظام ناکام ہو چکے، ہر طرزِ حکومت و طرزِ زندگی کا دجل آشکارا ہو چکا،سب ملمع سازی اور دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں۔
بس امتِ توحید ہی ہے جو انسانیت کی ڈولتی اس کشتی کو اس منجدھار سے نکال سکتی ہے، ظلم و جبر کے اس سودی نظام میں آبلہ پائی کرتی اس دنیا کو امن و انصاف والے نظام میں داخل کر کے سکون پہنچا سکتی ہے،کیونکہ تمہارے علاوہ کوئی اس نظام کا حامل نہیں جو اللہ کا نازل کردہ ہو، رحمت والا ہو، طبقاتی تفریق اور لسانی و قومی تعصبات سے پاک ہو،جو انسان کو صرف مفادات پر نہ تولتا ہو۔
یہ درست ہے کہ انسانیت کو عالمی بھیڑیوں نے اپنے نرغے میں لیا ہوا ہے، وہ کسی طرح اسے چھوڑنا نہیں چاہتے، کہ ان کے جبڑوں کو انسانی خون لگ چکا ہے، اسی لیے ہر اس مسلمان سے انہوں نے اعلانِ جنگ کیا ہے جو ان کے نظام کو للکار رہا ہے، جو اللہ کے نازل کردہ نظام کی دعوت دے رہاہے، جو انسانیت کو دنیا و آخرت کے خسارے سے بچانا چاہتا ہے۔
بین الاقوامی ساہوکار، عالمی سود خور اور انسانیت کو شیطان کا غلام بنانے والے کہاں یہ برداشت کریں گے کہ کوئی اور آ کر انسانوں کو بچا کر لے جائے،اسی کے لیے تو دنیا بھر میں دہشت گردی کے نام پر جنگ چھیڑی گئی ہے، اسی شیطانی مشن کی خاطر تو دنیا بھر میں نئے نئے اتحادی، کوئی فرنٹ لائن تو کوئی خفیہ، بنائے گئے ہیں،اپنا آخری زور تک اس ہاری جنگ کو جیتنے کے لیے دنیا بھر میں لگایا جا رہا ہے، سو ا س راستے میں کچھ تکالیف تو آئیں گی، کچھ مشکلات کا سامنا تو کرنا ہو گا، لیکن اگر سامنے عظیم مقصد ہو کہ انسان کو انسان بنانا، اسے اس کے رب کی پہچان کرانا،اسے مقتدر قوتوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں داخل کرنا، پوری انسانیت کو عظیم خسارے سے بچانا ہے، اور اللہ کی ذات پر کامل ایمان، اعمالِ صالحہ سے کردار کی پختگی،اور وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر کا منہج۔
اس میں اگر جان ہارنی پڑے تو پھر بھی بازی جیت گئے، اگر تکالیف اٹھانی پڑیں، جیل، کال کوٹھریاں، پھانسی کے پھندے،زمانے کی قسم! خیر الناس للناس، لوگوں میں بہترین لوگ، سب سے شریف و کریم، سب سے مخلص و وفادار وہی تو ہے جو صرف اپنے بھائی یا اپنی قوم و قبیلے یا وطن کے لیے جنگ نہیں کرتا بلکہ اس لیے کرتا ہے جو نعرہ اللہ کے رسولﷺ کے صحابہ کرام لگایا کرتے تھے، لنخرج العباد من عبادۃ العباد إلی عبادۃ رب العباد کہ ہم اس لیے قتال کرتے ہیں کہ اللہ کے بندوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر بندوں کے رب کی غلامی میں داخل کر دیں، آج صحابہ کے جانشینوں نے اسی عظیم مشن کے لیے دنیا بھر کی دشمنی مول لی ہے، اسی کی خاطر مشقتیں، تکلیفیں، ہجرتیں اور دربدریاں، صرف اس غم میں کہ یہ امت سو فیصد اللہ کی کتاب پر عمل کر کے سو فیصد کامیاب ہو جائے، یہ کافر وں سے لڑ جھگڑ کر، انہیں جہنم میں گرنے سے روک رہے ہیں، حالانکہ ائمۃ الکفر انہیں مار رہے ہیں، ان پر بم برسا رہے ہیں، ان سے عالمی جنگ چھیڑے ہوئے ہیں، لیکن کیسے شریف ہیں، کیسے شفیق ہیں، خیر الناس للناس، انہیں اسی بات کا غم ہے کہ انسانیت خسارے سے بچ جائے، دینِ اسلام میں داخل ہو کر ابدی خسارے سے نجات پا جائے، یہ انہیں اسلام کی طرف بلاتے ہیں اور کفر سے روکتے ہیں، یہ انہیں جہنم کی آگ سے روک کر اللہ کی ابدی جنت کی نعمتوں کی طرف کھینچ کر لاتے ہیں، اپنی جان کی بازی لگا کر۔
انہی جیسے دیوانوں کے بارے میں تو اعلان ہوا:
﴿كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ﴾
امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا اعلیٰ درجہ یعنی قتال بھی کرنا پڑے تو قتال بھی کرتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا: وتقاتلونهم علیہ۔
یہی کامیاب لوگوں کی پہچان ہے، یہی اللہ کی مخلوق پر شفقت کرنے والے ہیں جو کافروں کی ہدایت کے لیے بھی اپنی جانیں قربان کر جاتے ہیں، اللہ کی مخلوق کو فساد سے بچا کر فطرت پر واپس لوٹانے کے لیے دنیا بھر میں جانیں لٹاتے پھرتے ہیں، صحرا صحرا، وادی وادی، دشت و جبل اور بحر و بر، ہر طرف انہی کے لہو نے رونق سجائی ہے، یہی دیوانے ہیں جو سر دھڑ کی بازی لگا کر ظلم و جبر کے اس نظام کو ڈھانے لگے ہیں۔
ورنہ جب سے مسلمانوں میں یہ قربانی کا جذبہ ختم ہوا تو دنیا سے شریعت کی بالادستی بھی ختم ہو گئی، اور پھر خلافتِ عثمانیہ کو توڑ دیا گیا۔ تب سے عالمِ اسلام پر تاریکیوں نے ایسے ڈیرے ڈالے تھے کہ کچھ سجھائی ہی کہاں دیتا تھا کون اپنا ہے، کون پرایا، کون دوست ہے، کون دشمن، کون قاتل ہے، کون منصف، کون رہزن ہے، کون رہبر؟
لیکن الحمد للہ چودہویں صدی ہجری (بیسویں صدی عیسوی) کا خاتمہ اور پندرہویں صدی ہجری کا سورج طلوع ہوا تو سرزمینِ خراسان سے اللہ نے قومِ افغان کو اپنا دین بچانے، اسے مضبوط کرنے اور اللہ کی کتاب کو اللہ کی سرزمین پر نافذ کر نے کے لیے منتخب فرمایا۔ اور غیور قوم کی غیرت مند سرزمین کو اسلامی تحریکات کے لیے ایک گہوارا بنا دیا۔
خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمان اجتماعی طور پر کہیں جہاد کے لیے کھڑے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے قربانیوں کی ایک ایسی تاریخ رقم کی جس نے تاریخ کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا، قومِ افغان نے جس طرح سوویت یونین کے مقابلے میں قربانیاں دیں، یہ تاریخِ اسلام کا ایسا سنہری باب ہے جو اہل ِ قلم پر قرض ہے جسے دنیا کے سامنے لانا ان پر فرض ہے، داستانیں ہیں، قندھار و ہلمند کی داستانیں، کڑیل جوانوں، سفید ریش بزرگوں اور کمسن مجاہدوں کی بہادری کی داستانیں، ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی ایسی قربانیاں جو اب پشتو ادب کا حصہ بن چکیں۔
اس حقیقت سے کوئی دیانت دار انکار نہیں کر سکتا کہ سرزمینِ افغا ن پر گرنے والے شہیدوں کے لہو نے وطن اور قومیت کی لکیروں میں بکھر ے مسلمانوں کے دلوں میں امت محمدیہﷺ کا حصہ ہونے کا احساس زندہ کیا، یہ اس قوم کی قربانیاں ہی تھیں جس نے لٹی پٹی اور حیران و سرگرداں امت کو تمام مسائل کے حل کا ایک واضح راستہ دکھایا، سوشلزم و جمہوریت کی بھول بلیوں میں راہِ حق تلاش کرتی امت کو منزل کی جانب صراطِ مستقیم دکھایا، امتِ مسلمہ کو جہاد پر ابھارا، انہیں کمزوری کے باوجود طاقتور دشمن سے ٹکرانے کا حوصلہ عطا کیا، اللہ کی اس سنت کو سمجھایا کہ اللہ کمزوروں ہی کے ذریعہ طاقتوروں کو شکست کی ذلت سے دوچار کیا کرتا ہے، اللہ کے قرآن کو مساجد و مدارس کے ساتھ ساتھ ایوانوں، عدالتوں اور معاملات میں نافذ کیا، پھر ایک اور ﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلیٰ﴾ (میں تمہارابڑا رب ہوں) کے دعویدار امریکہ کو اسی کے قلب میں گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں کے ذریعہ رسوا کیا، اور اس کے بعد اس کی ساری عزت کو افغانستان کے پہاڑوں اور صحراؤں میں دفن کرنے کا انتظام کیا۔
اعلائےکلمۃ اللہ کے لیے تواصوا بالحق کی راہ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیاں جھونک دینے والوں کی تاریخ تو ایسی اُجلی ہے کہ انہی کے دم سے اس تاریک دنیا میں اجالا باقی ہے۔ یہ ہر دور میں اپنے خونِ جگر سے ایسے وقت میں چراغ جلاتے رہے جب کہ منہ زور طوفانوں کے سامنے کوئی ٹھہرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا، چراغ سے چراغ جلتے رہے، آسمان گواہ ہے کہ آندھی و طوفان اور اندھیری کالی گھٹاؤں کے باوجود ان چراغوں کے اجالے ہر دور میں تاریکیوں پر غالب رہے اور راہ نوردوں کو راہِ منزل دکھاتے رہے، انہی دیوانوں کے نقشِ قدم پر چل کر تو قافلے منزل پر پہنچتے رہے، اور الحمد للہ آج پہنچ رہے ہیں۔
یہ عملی تفسیر ہیں رحمۃ للعالمینﷺ کے اس فرمانِ مبارک کی:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ عَلَى مَنْ نَاوَأَهُمْ حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ۔3رواہ الحاکم وقال هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاه
’’میر ی امت کی ایک جماعت حق کے لیے قتال کرتی رہے گی، جو ان کی مخالفت کرے گا یہ اس پر غالب رہیں گے، یہاں تک کہ ان کے آخر والے دجال سے قتال کریں گے۔‘‘
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لايبالون من خالفهم۔
’’اس بات سے بے نیاز ہوکر کہ کون ان کے حق کے راستے کی مخالفت کررہاہے‘‘۔
آئیے! ان کے ساتھ شامل ہوکر انسانیت کو عظیم خسارے سے بچالیجیے، مسلمانوں کو دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار کیجیے، اللہ کی زمین پر اللہ کی شریعت کے نفاذ کی خاطر، ان دیوانوں کا ساتھ دیجیے، خواہ کسی بھی درجے میں ہو، جان سے، مال سے، زبان سے حتیٰ کہ دعاؤں سے ہی کیوں نہ ہو۔
کیونکہ ہر گزرتی سانس کے ساتھ وقت ہاتھوں سے پگھلا جا رہا ہے، سرمایہ ہاتھ سے چھوٹا جا رہا ہے، ہر گزرتا لمحہ یا تو نفع میں یا نقصان میں، پھر وہ دن قریب سے قریب تر آتا جا رہا ہے جس دن نفع و نقصان دکھا دیا جائے گا، اعلان کر دیا جائے گا، کس کی تجارت کامیاب رہی، کس کا سرمایہ نفع بخش رہا، اور کون خسارے میں گیا۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو خسارے سے بچا کر کامیاب لوگو ں میں شامل فرمائے اور اس امت کو عزت و عظمت عطا فرمائے، آمین۔
وصل اللہ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
٭٭٭٭٭
- 1صحيح البخاري (14/ 28)
- 2روح المعاني (2/ 244)
- 3رواہ الحاکم وقال هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاه