بین الاقوامی مسلم سکالرزیونین کا اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتوی
علی القره داغی نے بین الاقوامی مسلم سکالرز کی یونین کی قیادت کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا ہے۔ یہ فتویٰ اس وقت سامنے آیا ہے جب غزہ جنگ کو ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔ علی القره داغی نے عرب اور مسلم ممالک کی حکومتوں پر تنقید کی ہےاور انہوں نے غزہ کی تباہی پر خاموش رہنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ خاموشی مذہبی اور اخلاقی ناکامی کی قبر ہے۔‘ 15اہم نکات پر مشتمل اس فتوے میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے منع کیا گیا ہے۔ جس میں اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت یا اس کے فائدے کے لیے سویز کینال جیسے آمدورفت کے راستوں کا استعمال شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ’اسرائیل کو ہتھیار فروخت کرنا، بندرگاہوں یا بین الاقوامی بحری راستوں جیسے سویز کینال، باب المندب، یا کسی اور زمینی، سمندری یا ہوائی راستوں سے آمد و رفت روکی جائے جس سے اسرائیل کی مدد ہو رہی ہو۔ علی القره داغی نے کہا ہے کہ یہ کمیونٹی فتویٰ جاری کرتی ہے کہ غزہ میں ہمارے بھائیوں کی حمایت میں دشمن کا فضائی، زمینی اور سمندری راستہ روکا جائے۔ اپنے مینڈیٹ کے مطابق اس نسل کشی اور بڑی تباہی کو روکنے کے لیے فوری طور پر فوجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر کام کریں۔
برطانوی شہریوں پر غزہ میں جنگی جرائم کا الزام
لندن کی میٹروپولیٹن پولیس میں ایک اعلیٰ بیرسٹر اور قانونی تحقیقاتی ٹیم نے محصور غزہ میں 10 برطانوی شہریوں پر جنگی جرائم کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 240 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ برطانیہ میں انسانی حقوق کے معروف بیرسٹر مائیکل مینس فیلڈ کے سی اور دی ہیگ میں مقیم محققین سمیت وکلاء کی ایک ٹیم نے مرتب کی ہے تاکہ میٹرو پلیٹن پولیس کاؤنٹر ٹیررازم کمانڈ میں جنگی جرائم کی ٹیم کے سامنے پیش کیا جا سکے۔
رپورٹ غزہ میں ہونے والے سنگین جرائم میں برطانوی شہریوں کے ملوث ہونے کے تفصیلی، مکمل تحقیق شدہ اور ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس نے خاص طور پر 10 برطانوی مشتبہ افراد کی نشاندہی کی اور اسرائیلی فوج کی طرف سے ’جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم‘ میں ان کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کا ایک ڈوزیئر پیش کیا۔ اس میں مزید مطالبہ کیا گیا ہے کہ برطانوی شہریوں کے خلاف تحقیقات کی جائیں، جس کا مقصد وارنٹ گرفتاری جاری کرنا اور برطانوی عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کرنا ہے۔
الشباب کے خوف سے سینکڑوں صومالی پولیس اہلکار فرار
صومالی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق سینکڑوں صومالی پولیس افسران اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر غائب ہو گئے ہیں اور ان پر شبہ ہے کہ وہ الشباب مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ دارالحکومت کی طرف الشباب کی پیش قدمی کا مقابلہ کرنے کے لیے ان اہلکاروں کی فرنٹ لائن پر تعیناتیاں ہوئی تھیں لیکن یہ اس سے پہلے ہی فرار ہو گئے۔ نیوز ایجنسی نے پولیس کی انٹرنل دستاویزات تک رسائی حاصل کی اور انہیں نام اور رینک کے لحاظ سے 145 لاپتہ افسران کی فہرست دی گئی، جبکہ دوسرے کئی ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ تعداد 600 تک ہو سکتی ہے۔ حکام نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ آیا وہ جنگی تعیناتی کے دوران غائب ہو گئے تھے یا فرنٹ لائن ڈیوٹی سے بچنے کے لیے شہری پوسٹنگ سے فرار ہو گئے تھے۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ لا پتہ اہلکاروں نے یا تو الشباب میں شمولیت اختیار کی ہے یا غیر قانونی طور پر اپنے ہتھیار فروخت کیے ہیں۔ صومالی حکومت نے حال ہی میں الشباب کے خلاف جنگی محاذوں کو تقویت دینے کے لیے ہزاروں پولیس افسران کو متحرک کیا تھا، جن میں سے بہت سے الشباب کے حملوں میں مارے گئے یا پکڑے گئے۔ سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے سبب کسٹوڈیل کور کے سربراہ مہاد عبدالرحمن نے حال ہی میں دھمکی دی تھی کہ عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد فرار ہونے والے کسی بھی اہلکار کو ان کے پورے خاندان سمیت پھانسی یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بڑے پیمانے پر گمشدگیاں صومالیہ کے سکیورٹی اپریٹس کے لیے گہرے چیلنجز کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حکام نے ابھی تک اس بحران پر کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔
عراق : ابوفاضل عباس بریگیڈ کے رہنما کی ایران پر تنقید
عراق کے ابو فاضل عباس بریگیڈ کے رہنما ’عوس حجّاجی‘ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایران عراق کی بھلائی نہیں چاہتا، وہ نہیں چاہتا کہ عراق میں کوئی اچھی چیز ہو۔ ایران نے بشار الاسد اور حسن نصراللہ کو بھی دھوکہ دیا، حتیٰ کہ کچھ حشد الشعبی رہنماؤں کو بھی امریکہ کے حوالے کر دیا۔ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے میزائل حیفا تک پہنچیں گے، اسرائیل کو مٹا دیں گے، لیکن کچھ بھی نہیں کرتے۔ عراقی رہنما کا یہ بیان اس خیال کو تقویت دے رہا ہے کہ ایران ، عراق کی حکومت کے مقابلے میں ایران سے وفادار رہنے والی ملیشیاؤں کو طاقتور دیکھنا چاہتا ہے۔ جسے عراقی حکومت بھی پسند نہیں کرتی۔ دی ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایران نے پہلی بار عراق میں اپنی پراکسی فورسز کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو منتقل کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ترسیل کا انتظام ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی فضائیہ نے کیا تھا۔ یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب ایران اپنے میزائل اور جوہری پروگرام پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں داخل ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ 2018ء میں صدر ٹرمپ کی جانب سے اوبامہ کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے بعد سے ایران امریکہ کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر پہلی باضابطہ بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ برسوں میں ایران عالمی سیاست میں قدرے کمزور سطح پر ہے۔ ایرانی پراکسیوں کے زوال کے بعد، اب ایران جوہری مقامات کے ارد گرد فضائی دفاعی قوت بھی کھو چکا ہے۔ دی ٹائمز کے مطابق دو دیگر قسم کے میزائل قدس 351 کروز اور جمال 69 بیلسٹک میزائل بھی گزشتہ ہفتے عراق میں سمگل کیے گئے تھے۔ ان کی رینج نئے سطح سے سطح پر مار کرنے والے میزائلوں کے مقابلے میں بہت کم تھی، جو یورپ تک ہدف کے لیے پوزیشن میں ہو سکتے تھے۔ یہ نئے ماڈل ماضی میں ان ملیشیا کو نہیں دیے گئے تھے۔ یمن میں حوثی باغی گروپ اور عراق میں ایران کی اتحادی ملیشیا کو ایران میں حکومت کی جانب سے لڑنے والی آخری قوت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
روسی حملے کا خوف اور امریکہ کی بے رخی کے سبب جرمنی میں جنگی تیاریوں میں تیزی
جرمنی کی فوج کو حال ہی میں دفاعی اخراجات پر سخت قرض کے قوانین سے استثنیٰ حاصل کرنے کے بعد بڑی سرمایہ کاری میں اضافے کی اجازت دی گئی ہے۔ ملک کے اعلیٰ ترین جنرل نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ مالی معاونت فوری طور پر ضروری ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ روسی جارحیت صرف یوکرین تک محدود نہیں رہے گی۔ جنرل کارسٹن بروئر نے کہا ’ہمیں روس سے خطرہ ہے۔ ہمیں پیوٹن سے خطرہ ہے۔ جو بھی ضروری اقدامات ہیں، وہ کرنا ہوں گے تاکہ اس جارحیت کو روکا جا سکے۔‘ بروئر نے خبردار کیا کہ نیٹو کو اگلے چار سالوں میں کسی بھی ممکنہ حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ روس کے حوالے سے جرمنی کا ایک خاص نقطہ نظر رہا ہے۔ جس وقت پولینڈ اور بالٹک ریاستوں جیسے ممالک ماسکو کے قریب جانے سے احتیاط برتتے تھے اور اپنے دفاعی اخراجات بڑھا رہے تھے، برلن میں سابق چانسلر اینجلا مرکل نے کاروبار کرنے کو ترجیح دی۔ جرمنی نے یہ سوچا کہ وہ جمہوری عمل جاری رکھے۔ لیکن روس نے ان سے پیسہ لیا اور پھر بھی یوکرین پر حملہ کر دیا۔ پھر فروری 2022ء میں چانسلر اولاف شولز نے ملکی ترجیحات میں ایک اہم تبدیلی کا اعلان کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب چانسلر نے ملک کی فوجی طاقت کو بڑھانے اور پیوٹن کی توسیع پسندانہ جنگی پالیسی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے 100 ارب یورو کی ایک بڑی رقم مختص کی۔ لیکن جنرل بروئر کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں تھا۔ جنرل بروئر کے بقول ’ہم نے تھوڑی بہت کمی پوری کی، لیکن صورتحال بہت خراب ہے۔‘ ایک حالیہ یوگوو پول میں یہ ظاہر ہوا کہ 79 فیصد جرمنوں کا خیال ہے کہ ولادیمیر پیوٹن یورپ کے امن اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ 74 فیصد لوگوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔
سعودی گرینڈ پرکس کا انٹرٹینمنٹ سیزن
جدہ کارنش سرکٹ (Jeddah Corniche Circuit) نے فارمولہ ون کے تیز ترین سٹریٹ سرکٹ سعودی گرینڈ پرکس ریس کے اختتام پر ہفتہ 18 اپریل سے اتوار 20 اپریل تک میوزک پرفارمنسز کی میزبانی کی۔ جس میں امریکی موسیقاروں سمیت بہت سے بین الاقوامی مشہور سنگرز نے پرفارم کیا۔ اس کے علاوہ بھی اب سعودی عرب کے مختلف شہروں سے مغربی خواتین کی رقص کرتی نیم برہنہ تصاویر منظر عام پر آنا معمول بن چکا ہے اور یہ سب ایک ایسے وقت میں سعودی عرب میں ہو رہا ہے جب غزہ پر صبح شام آگ برس رہی اور فلسطینی بچوں کے چیتھڑے ہوا میں اڑتے نظر آتے ہیں۔ ایک فلسطینی بہن کی بددعا پر کہ اے اللہ یہودیوں سے پہلے ان عربوں کو سزا دے، دل سے آمین نکلتی ہے۔
پاکستانی مصنوعات پر نیا امریکی ٹیرف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد ممالک سے امریکہ میں درآمد ہونے والی اشیا پر نئے ٹیرف (ٹیکس) کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کو بھی شامل کرتے ہوئے اس کی امریکہ برآمد کی گئی مصنوعات پر 29 فیصد ٹیرف عائد کرنے کا کہا گیا ہے۔ پاکستان کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کی امریکہ برآمد کی جانے والی مصنوعات پر نئے ٹیرف کا اعلان کیا گیا ہے جس میں انڈیا پر 26 فیصد اور بنگلہ دیش پر 37 ٹیرف عائد ہو گا۔ یہ دونوں ممالک عالمی سطح پر دو بڑی برآمدی منڈیوں امریکہ اور یورپی یونین میں پاکستان کا مقابلہ کرتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں میں جب پاکستان کی توجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مرکوز رہی اور پاکستان میں بجلی اور گیس کی بڑھتی قیمتوں کے سبب پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوا تو پاکستان میں ٹیکسٹائل اور گارمنٹس سیکٹر سے جڑے صنعتکاروں کی ایک بڑی تعداد اپنا سرمایہ اور سیٹ اپ بنگلہ دیش منتقل کرتی رہی۔ ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی جانب سے اس ٹیرف کا نفاذ پاکستان کے لیے مزید معاشی مشکلات کھڑی کرے گا ۔یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستانیوں کے لیے امریکی ویزے کا حصول بھی مزید سخت ہو گا۔ جنوری میں ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو امداد بند کرنے کے آرڈر جاری کیے تھے ان میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستان ٹیرف کم کروانے کے لیے ایک وفد امریکہ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ ٹرمپ کوئی لچک دکھائے سوائے اس کے کہ پاکستان اپنے قومی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کوئی بڑی خدمت امریکہ کے لیے سر انجام دے ۔
پاکستان 4 سالہ مدت کیلئے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے منشیات کا رکن منتخب
پاکستان کا انتخاب نیویارک میں یو این اقتصادی و سماجی کونسل کے انتخابات میں عمل میں آیا۔ پاکستان کو 2026ء سے 2029ء تک چار سالہ مدت کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ پاکستان یواین مشن کے اعلامیے کے مطابق پاکستان یو این اقتصادی و سماجی کونسل کی حمایت پر مشکور ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ کمیشن برائے منشیات کا رکن منتخب ہونا پاکستان پر اعتماد اور بھروسے کو ظاہر کرتا ہے، پاکستان عالمی انسداد منشیات کی کوششوں میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان عالمی سطح پر انسداد منشیات کی کوششوں میں پیش پیش رہا ہے۔ منشیات کے تدارک میں پاکستان نے جو خدمات سر انجام دی ہیں اس کا اندازہ تو ملک بھر کے تعلیمی اداروں ، اور ہر گلی اور چوک میں کھلے عام بکتی منشیات کو دیکھتے ہوئے ہی ہوجانا چاہیے۔ پاکستانی فوج، ایف سی، رینجرز، کسٹم ، اے این ایف سے لے کر ، جرنیلی مفادات کا تحفظ کرنے والے کٹھ پتلی سیاستدان وڈیرے ، حتی کہ سکیورٹی اداروں سے جڑے مخبر اور جاسوس تک منشیات کے دھندے سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی ادارے اور امریکہ ان حقائق سے واقف نہیں؟ ایک غیرملکی دفاعی تجزیہ نگار کے بقول امریکہ اور عالمی طاقتیں پاکستان کی کرپٹ فوجی اور سیاسی حکمرانوں کو بطور رشوت منشیات، تعلیم، صحت ، صنفی مساوات کے نام پر فنڈز دیتی ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ ان فنڈز اور قرضوں کا استعمال شفاف نہیں ہوتا اور بڑا حصہ پاکستان پر قابض افراد کی جیبوں میں ہی جاتا ہے ۔ اس رشوت کے عوض ہی یہ قابض ٹولہ مغربی طاقتوں کا غلام رہتا ہے۔
برطانوی تعمیراتی ادارے کی جانب سے لاہور میں طالبات کی رہائش کیلئے پراجیکٹ کا اعلان
پاکستان میں متعدد لگژری منصوبے مکمل کرنے والے برطانوی تعمیراتی ادارے ون ہومز نے لاہور میں طالبات کی رہائش کے لیے تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ لونا پراجیکٹ پیش کیا ہے۔ ون ہومز کے چیف کمرشل آفیسر عاقب حسن کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیز ڈسٹرکٹ پر رائے ونڈ روڈ پر جہاں لونا پروجیکٹ تعمیر کیا جارہا ہے، وہاں اطراف میں 12 بڑی یونیورسٹیز ہیں، جہاں ایک لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں اور ان میں نصف طالبات ہیں۔ پاکستان کے موجودہ تعلیمی نظام نے تعلیمی اداروں میں جس پیمانے پر فحاشی و بدکاری کو فروغ دیا ہے اس کے نتائج اخبارات اور سوشل میڈیا پر ہم آئے روز دیکھتے رہتے ہیں۔ ایسے میں طالبات کا گھر سے باہر سرکاری اور پرائیویٹ ہاسٹلوں میں رہنے کا کلچر پروان چڑھانا کتنا بڑا فتنہ ہے اس کے متعلق سوچتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کلچر کو روکنے کے لیے ہر سطح اور انداز سے بھرپور کوشش کی جائے ۔
معدنی وسائل کے لیے نئے قانون کی منظوری
اطلاعات کے مطابق خیبر پختونخوا کابینہ نے کان کنی اور معدنیات کا نیا قانون منظور کر لیا ہے، جسے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ مبینہ طور پر اس میں وفاقی حکومت کو ’سٹریٹجک معدنیات‘ کا تعین کرنے کا اختیار دیا گیا ہے، جو صوبائی اختیارات کو کمزور کرتا ہے۔ کچھ دن قبل ڈی جی آئی ایس پی ار صاحب کا پارہ بھی یہ کہتے ہوئے آسمان پر پہنچ گیا تھا کہ ’یہ معدنیات کیا آپ جہیز میں لے کرآئے ہیں؟ یہ معدنیات پاکستان کی ہیں‘۔ اور جب فوج کا ترجمان یا آرمی چیف لفظ ’پاکستان‘ استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب فوج خود ہی ہوتی ہے۔ اسی بیان کے جواب میں مفتی منیر شاکر نے فوج کو اسی زبان میں جواب دینے کی گستاخی کی تھی کہ یہ معدنیات کیا فوج جہیز میں لائی ہے؟ اور مبینہ طور پر اسی ’گستاخی‘ کے جواب میں انہیں شہید کر دیا گیا۔ جتنی سہولت سے خیبر پختونخواہ حکومت نے اس بل کے لیے پیشرفت دکھائی ہے یہ فوج اور علی امین گنڈاپور کے تعلق کا پردہ بھی چاک کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا اپنے رہنماؤں کو اس بل پر فوج کی سہولت کاری کرنے پر آڑے ہاتھوں لے رہا ہے اور سخت تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔
اس حوالے سے معید پیرزادہ نے لکھا:
’’خیبر پختونخواہ کے خلاف نئی سازش؟ جرنیلوں کو اور ٹرمپ کو خوش کرنے کی ایک اور بھر پور کوشش؟ تفصیلات اور background کو سمجھنے کی ضرورت ہے! تاہم ایک فائدہ بھی ہو رہا ہے! وہ کیا؟ PTI کے اندر جرنیلوں کے ٹٹو ایک ایک کر کے بری طرح ننگے ہو رہے ہیں! اس Mine & Minerals Act کو جلدی جلدی دھکا لگانے کی کوشش میں علی امین گنڈاپور اور اعظم سواتی نے اپنے آپ کو پورے طور پہ Expose کر دیا ہے!‘‘
محمود خان اچکزئی نے لکھا:
’’بلوچستان کی حکومت سے لکھوایا گیا ہے کہ 200 سے 400 میل کا علاقہ قلعہ عبداللہ سے قلعہ سیف اللہ، ژوب تک کے تمام منرلز OGDCL یا دو یا تین محکموں کو دے دیے گئے ہیں اور اس میں بلوچستان کا حصہ صرف 10فیصد ہو گا۔ یہ کون مانے گا؟ اس کے خلاف ہم عدالت جا رہے ہیں ہم یہ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
مفتی فضل غفور لکھتے ہیں :
اگر علی امین گنڈاپور نے خیبرپختونخوا اسمبلی سے مائنز اینڈ منرل قانون پاس کروا کر اپنے وسائل SIFC کو سرنڈر کیے تو اس کا مطلب پھر یہی ہو گا کہ فوج نے پی ٹی آئی کو اس صوبے پر اسی لئے مسلط کیا تاکہ صوبہ میں کھربوں ڈالرز مالیت کے معدنی ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لاسکے۔‘‘
حسین ندیم نے لکھا:
کے پی کے مائنز اینڈ منرلز بل 2025ء دیکھنے کا موقع ملا جسے معدنیات کے شعبے میں ’سرمایہ کاری‘ اور ’شفافیت‘ کے لیے ’’انتہائی ضروری‘‘ ریگولیٹری فریم ورک کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ 139 صفحات کی طویل دستاویز کی لائنوں کے درمیان کے پی کے میں کانوں اور معدنی وسائل کو غیر منتخب اداروں کو منتقل کرنے کی سیاست ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ KP معدنی صنعت کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے ’Milbus‘ کے لیے جگہ کھولنا ہے۔( مل بس کی اصطلاح دفاعی تجزیہ نگار فوج کے کاروباری دیو کے لیے استعمال کرتے ہیں)۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے بڑے حصوں میں زمین پر قبضہ، یا گلگت بلتستان میں سیاحت و ہوٹل انڈسٹری کی صنعت پر قبضہ۔ تصدیق کے لیے، میں نے یہ بل AI کے ذریعے دیکھا اور تجزیہ بالکل وہی ہے جس کی کوئی توقع کرے گا: اتھارٹی کی مرکزیت اور صنعت پر فوجی قبضے کا سنگین خطرہ۔ ایک ایسے صوبے میں جو پہلے ہی جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہے، اس طرح کی نوآبادیاتی قبضہ شورش کو مزید گہرا کرنے والا ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ براہ راست پاکستان میں جاری عسکریت پسندی کے فروغ کا سبب بنے گا۔‘‘
کے پی کے میں پی پی کے میڈیا ایڈوائزر اسامہ یاور نے لکھا:
’’اگر ان کے اینکرز کے پی کے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ 2025ء کا دفاع کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ میڈیا آؤٹ لیٹس کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔‘‘
میاں افتخار حسین، صدر عوامی نیشنل پارٹی پختونخوا نے کہا:
’’اے این پی اس بل کے خلاف عوامی عدالت میں بھی جائے گی اور اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کرے گی۔ اس ایکٹ کے خلاف اے این پی دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اعتماد میں لے گی۔ تمام سیاسی جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ڈاکے کے خلاف آواز اٹھائے۔‘‘
سابق سینیٹر مشتاق نے معدنیات کے حوالے سے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی جانب سے دیے جانے والے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’مبارک ہو! پاکستان ایک خود مختار ملک ہے ؟
ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کی معدنیات کو سٹرٹیجک اثاثے قرار دیا ہے اور وائسرائے المعروف با امریکی سفیر متعین اسلام آباد کے ذریعے اس کی حفاظت کی ہدایت جاری کی ہے؟‘‘
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری کیے جانے والے بیان میں امریکی محکمہ خارجہ کے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے بیورو کے سینئر عہدیدار ایرک میئر کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ نے واضح کیا ہے کہ اس مواد (پاکستانی معدنیات) کے متنوع اور قابل اعتماد ذرائع کو محفوظ بنانا ایک سٹریٹیجک ترجیح ہے۔ پاکستان کی وسیع معدنی صلاحیت اگر ذمہ داری اور شفاف طریقے سے تیار کی جائے تو دونوں ممالک کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ یہ اہم معدنیات امریکہ کی جدید ترین ٹیکنالوجیز کے لیے ضروری خام مال ہیں۔‘‘
انڈیپینڈنٹ اردو کے صحافی اظہار اللہ کی رپورٹ میں اس بل کی بعض شقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے:
’’خیبر پختونخوا میں 2017ء کے معدنیات ایکٹ کے تحت کسی بھی معدنیات کے ٹھیکے کا لائسنس محکمہ معدنیات میں لائسنسنگ ڈائریکٹریٹ جاری کرتا تھا اور اس میں معدنیات سے متعلق تمام بڑے و چھوٹے منصوبے شامل تھے۔ تاہم نئے مجوزہ قانون میں بڑے اور چھوٹے منصوبوں کے لائسنسنگ کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے اور اب بڑے منصوبوں کے ٹھیکے دینے کے لیے لائسنسنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ مجوزہ بل کی شق نمبر پانچ کے مطابق اس اتھارٹی کے پاس ’بڑے مائننگ‘ کے منصوبوں کے ٹھیکے یا لیز دینے کا اختیار ہو گا اور اس کا فیصلہ اتھارٹی کی میٹنگ میں دو تہائی اکثریت پر کیا جائے گا۔ اس اتھارٹی کے پاس یہ اختیار بھی ہو گا کہ وہ صوبے میں کسی بھی جگہ معدنیات کی نشاندہی کرے، اس کی قیمت لگائے اور اس کو نیلامی کے لیے پیش کر سکے۔ نئے مجوزہ قانون میں بل کے مطابق صوبے میں معدنیات سیکٹر کی ترقی کے لیے منرل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن اتھارٹی قائم کی جائے گی۔ اس اتھارٹی کو خود یا وفاقی حکومت کی تجاویز کے مطابق لیز اگریمنٹ میں تبدیلی، فیس رینٹ اور رائلٹیز میں تبدیلی، نیلامی کے دوران سکیورٹی ڈیپازٹ میں تبدیلی، معدنیات سیکٹر میں سامان بیرون ممالک سے درآمد کرنے پر ٹیکس میں رعایت اور صوبائی لائسنسنگ اتھارٹی کے طریقہ کار میں تبدیلی کا اختیار ہو گا۔ اس نئے مجوزہ بل میں واضح طور پر شق نمبر 26 میں لکھا گیا ہے کہ صوبے میں کسی جگہ پر بھی معدنیات کے ذخائر کی مالک حکومت ہو گی اور حکومت کو اس کی ہر طریقے سے استعمال کی اجازت ہو گی۔ مجوزہ قانون کے مطابق لیز ہولڈرز معدنیات کی کان کو استعمال کرنے کا حق دار ہو گا لیکن اس کی ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا جبکہ کان کی زمین کے مالک کو لیز ہولڈر باقاعدہ رینٹ ادا کرے گا اور اس حوالے سے مالک جائیداد اور لیز ہولڈر کے مابین باقاعدہ معاہدہ طے کیا جائے گا۔ اس مجوزہ قانون کے شق نمبر 65 میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی کمپنی صوبے میں معدنیات لیز لینے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اس کے ساتھ معاہدہ فیڈرل مائننگ ونگ اور منرل فیسلی ٹیشن اتھارٹی کے تجاویز پر کیا جائے گا۔
جرنیلوں کے مفادات کو تحفظ دیتی دوسری تمام قانون سازیوں کے مقابلے میں اس بل کو جتنی شدت کے ساتھ تمام سیاسی جماعتوں کی اکثریت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اس نام نہاد جمہوری سیٹ اپ کی حقیقت بھی سب کو سمجھ آ جانی چاہیے ۔الیکشن سمیت اس پورے جمہوری سیٹ اپ کو چلانے کی جو لاگت ہے وہ اس ملک کی غریب عوام کا خون چوس کر پوری کی جاتی ہے اور یہ نظام دے کیا رہا ہے ؟ لوٹ مار کے قانونی جواز ۔ یہ بھی حیرانگی کی بات ہے کہ جن جرنیلوں کے سامنے پاکستان کے کسی آئین وقانون کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے انہیں اس قانون سازی کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ؟
٭٭٭٭٭