بسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله رب العالمين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على رسولنا الأمين، وعلى آله وصحبه أجمعين، أما بعد.
ادارہ النّازعات: آج سے ڈیڑھ ماہ قبل، ہمارے معزز مجاہدین بھائیوں نے ملکِ شام کے علاقوں کو نصیری حکومت کے قبضے سے آزاد کروایا اور حلب، حماہ اور حمص سے لے کر دمشق، طرطوس، لاذقیہ اور ساحلِ سمندر تک کے اسلامی مراکز کو بشار الاسد کے ظالمانہ نظام سے آزادی دلائی۔
اس مہینے میں شام میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور پیچیدہ تغیرات دیکھنے کو ملے، جنہیں دیکھ کر اکثر مجاہدین اور شام کے محاذ پر برسرِ پیکار آزادی کے متوالے حیرت زدہ رہ گئے اور اس مرحلے کو سمجھنے میں الجھن اور تذبذب کا شکار ہو گئے جس کے نتیجے میں جہادی و اسلامی فکر و عمل کے میدان میں الجھے ہوئے سوالات کی ایک لہر اٹھی اور انقلابی بحثیں شروع ہو گئیں۔ اور پھر یہ ضروری ہو گیا کہ جو لوگ علم، ایمان، جہاد اور دعوت الی اللہ جیسی صفات کے حامل ہیں وہ مومنین کے دلوں میں یقین کو پختہ کرنے اور ابطالِ اسلام کے دلوں سے مایوسی اور بے چینی کی شدت کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ تاکہ وہ شام کی پوری سرزمین پر دینِ اسلام کی حمایت اور معزز اہلِ شام کی عزت اور ان کے تحفظ کے لیے معطل کیے گئے اقدامات کو دوبارہ منظم کر سکیں اور یہاں شام سے ہماری مراد شام کی عظیم تر سرزمین ہے: یعنی دمشق سے مسجدِ اقصی اور پورے فلسطین تک۔
ان واقعات کے متعلق گفتگو کرنے کے لیے ہم اپنے ایک معزز بھائی استاذ عبدالعزیز الحلاق حفظہ اللہ کی میزبانی کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ استاذ عبدالعزیز الحلاق حفظہ اللہ جہادی، دعوتی اور سیاستِ شرعیہ کے معاملات میں مہارت رکھتے ہیں، انہوں نے اس مکالمے کے انعقاد کے لیے ہماری دعوت کو قبول کیا جس میں ہم بالعموم شام میں اور بالخصوص سوریہ میں جہاد اور دعوت کے مستقبل پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اس دوران ہم ان اہم ترین موضوعات پر بھی روشنی ڈالیں گے جن میں آج کل مرابطین مجاہدین کے درمیان اور مجالس میں عام لوگوں کے درمیان گرما گرم بحث جاری ہے۔ یہ مکالمہ عموماً دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے معاملات میں دلچسپی رکھنے والے لوگوں کے لئے مفید ہو گا اور خاص طور پر مجاہدین اور داعیانِ اسلام کے لئے نافع اور متاثر کن ہو گا اور اللہ تعالیٰ ہی سے ہم مدد و توفیق حاصل کرتے ہیں۔
ہم اپنی بات کا آغاز کلمۂ خیر سے کرتے ہیں: محترم ابو اسامہ عبدالعزیز الحلاق صاحب: السلام علیکم ورحمۃ الله وبركاتہ، ہم آپ کو اس ملاقات میں خوش آمدید کہتے ہیں، جس میں ہم شام کے دعوتی و جہادی میدان سے متعلق اہم ترین علمی، فکری اور منہجی سوالات کا جائزہ لیں گے اور سب سے پہلے ہم آپ کو اس فیصلہ کن فتح پر مبارکباد دے کر آپ کے ساتھ مکالمے کا آغاز کرتے ہیں۔ پس اے ابو اسامہ ہم آپ کو اس عظیم فتح پر مبارک باد پیش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور ہماری امتِ مسلمہ کو جہاد کی برکت سے عطا فرمائی ہے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں مسجد اقصیٰ اور پورے فلسطین کی فتح سے نوازے اور اسے غاصب صہیونیوں کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلا کر ہماری آنکھوں کو ٹھنڈا کرے، آمین۔
استاذ عبدالعزیز الحلاق: وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبركاتہ، میرے پیارے بھائی! اللہ آپ کو برکت دے اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ وہ آپ کو اس نیک دعوت، مہمان نوازی اور حسنِ ظن کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور میں تو صرف اتنا دیکھتا ہوں کہ آپ نے میرے بارے میں بہت زیادہ حسنِ ظن سے کام لیا ہے، پس مجھے آپ کے بارے میں متنبی کا یہ شعر کہنے کا حق ہے:
میں صدقِ دل سے یہ سب تعریفیں آپ کی طرف لوٹاتا ہوں
تعریف کے حق دار وہی لوگ ہیں جن میں حقیقتاً ایسی صفات پائی جاتی ہیں
میں آپ کو اس خیرِ عظیم پر مبارکباد پیش کرتا ہوں جو اللہ نے ظالم بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ شام کے مسلمانوں اور ہماری پوری امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی ہے، پس تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس کے فضل و کرم سے اچھے کام انجام پاتے ہیں اور ہم اللہ کریم، عظیم عرش کے رب سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمارے مجاہدین بھائیوں کے ہاتھوں قابض طواغیت سے پورے خطۂ شام کو آزادی عطا فرمائے اور سوریہ کی تمام سرزمینوں پر مکمل اور جامع فتح کے ساتھ ہماری خوشی کو پورا فرمائے۔
مدیر انٹرویو: استاذِ محترم، براہِ کرم ہمیں سوریہ (شام) کی آزادی اور فتح کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیجیے، جس نے ہمارے سامنے فاتح اموی قائدین کی عظمت کی یادیں تازہ کر دیں، آپ اس فتحِ عظیم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ ہمارے ماضی کی شان کو کس حد تک شاندار حال سے جوڑتی ہے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میرے پیارے بھائی اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص اس مجرم نصیری حکومت کے خاتمے پر خوش نہیں ہے اس کے دل میں ایمان کا ذرّہ بھی نہیں ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ‘ردع العدوان‘ کے بابرکت معرکہ کے دوران، ظالموں کی جیلوں سے ہمارے بھائیوں اور بہنوں کی آزادی اور ظالم نصیری طاغوت کی حکمرانی سے ملک کی آزادی اور سوریہ (شام) کی سرزمین پر اللہ کے کلمے کی سربلندی اور شرک و کفر کی شکست اور لوگوں کا آزادی و انصاف کی فضا میں سکھ کا سانس لینا اور دعوتِ الی اللہ اور نورِ ہدایت کے دروازے کھلنا، ان سب نعمتوں پر ہم اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں اور تمام مسلمان اس پر دل کی گہرائیوں سے خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ سب جہاد فی سبیل اللہ کے بڑے مطالب و مقاصد میں سے ایک ہے جو صرف اللہ کے فضل سے حاصل کیا گیا ہے اور یہ تمام نعمتیں اور برکتیں امتِ مسلمہ کے لئے جہاد کے عظیم فوائد سے شمار ہوتی ہیں۔ پس اس منزل تک پہنچنے میں دنیا کے مختلف ممالک سے امتِ مسلمہ کے بہت سے فرزندوں نے حصہ لیا، چنانچہ مالداروں نے اپنے مال سے، علماء و داعیانِ دین نے اپنی دعوت سے، مجاہدین نے اپنی جانوں اور خون سے اور مظلوم امت کے عام افراد نے اللہ تعالیٰ سے اپنی دعاؤں اور آہ و زاری کے ساتھ اس مقام تک پہنچنے میں حصہ ڈالا۔ یہاں ہمیں غزہ کے مجاہدین بھائیوں اور ہمارے سروں کے تاج، ‘کتائب القسام‘ کے ابطال کو ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کیونکہ، اللہ تعالیٰ کی مدد و توفیق کے بعد، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ’طوفان الاقصیٰ‘ کا بابرکت معرکہ برپا کر کے وہ مؤثر ترین عامل پیدا کیا جس کے نتیجے میں سوریہ کے ادارۂ عسکری عملیات کے رہنماؤں کی قیادت میں ’ردع العدوان‘ کا طوفان آیا، اللہ انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ اس عظیم فتح کی تیاری میں حصہ لینے والے ہر شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ اپنے وفادار بندوں کے لیے ان عظیم فتوحات کے ثمرات محفوظ رکھنا آسان بنائے اور ملک و قوم کو ظالموں کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے جہادِ فی سبیل اللہ اور شامی انقلاب کے منصوبے کو مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جہاں تک 8 دسمبر کو پیش آنے والے واقعے (یعنی دمشق کی فتح) کے بارے میں میری ذاتی رائے کا تعلق ہے تو میرے پیارے بھائی، مجھے فتحِ دمشق کے متعلق لوگوں کی مبالغہ آمیز باتوں سے کچھ اختلاف کے اظہار کی اجازت دیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مجھے خدشہ ہے کہ یہ مبالغہ آرائیاں اہلِ سوریہ کے شعور اور بیداری کو کم کر دیں گی اور فتحِ دمشق کو اس کے واقعی اور حقیقت پسندانہ حجم سے بہت زیادہ بڑھانے کا ذریعہ بنیں گی۔ اس میں کسی مسلمان کو کوئی شک نہیں ہے کہ نصیری طاغوت کے تسلط سے دمشق کی آزادی اہلِ اسلام کے لئے ایک عظیم فتح اور ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن یقینی طور پر یہ اس شکل و صورت کی فتحِ عزیز نہیں ہے جس کی قائدینِ اسلام ہر وقت اور ہر جگہ امید رکھتے ہیں۔ پس یہ کہنا درست ہو گا کہ سوریہ (شام) کی سرزمین آج بھی عالمی تسلط اور بین الاقوامی غلامی کے بوجھ تلے کراہ رہی ہے، وہ اب بھی بین الاقوامی برادری کے بدمعاشوں اور عالمی نظام کے وحشیوں کے رحم و کرم پر ہے اور سابق نصیری حکومت کے عالمی آقاؤں کے زیرِ قبضہ ہے۔ پس یہی عالمی قابضین وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہم پر نصیری طاغوت مسلط کیا تھا اور نصف صدی تک اسے نصب کیے رکھا اور اس کی حفاظت کرتے رہے۔
سچ تو یہ ہے میرے پیارے بھائی کہ یہ فتح ایک جزوی فتح ہے اور یہ ایک ایسی مکمل اور جامع فتح نہیں ہے جس سے بڑھ کر کوئی فتح نہیں ہو سکتی جیسا کہ لوگ سمجھ بیٹھے ہیں۔ منظر نامے کا ہر مبصر گواہی دیتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فتح جہادی قوت کی طرف سے منظر عام پر نہیں آئی اور نہ ہی تمام شامی قابضین اور خطے کے کھلاڑیوں پر جہادی منصوبہ نافذ کرنے سے آئی ہے بلکہ یہ فتح تو (محض اتفاق سے) صلیبی – صہیونی استعماری منصوبے اور شرعی جہادی منصوبے کے ہم آہنگ ہو جانے کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔ پس انہوں نے اپنے رحم و کرم پر اور اپنی بالادستی کے تحت مجاہدین کے لیے ان کا مقصد حاصل کرنا آسان بنا دیا اور انہیں وہ موٹی چھڑی بننے کا موقع فراہم کیا جس کے ساتھ وہ خطے کے اُن کھلاڑیوں کو نظم و ضبط سکھاتے اور سزا دیتے ہیں جو ان کی سرخ لکیروں کا خیال نہیں رکھتے۔ عالمی کفر نے تو بس مجاہدین کے لیے محل و کرسی پر قبضہ کرنے اور ان زمینوں کو قابو کرنے کی راہ ہموار کی جو انہوں نے پہلے اپنے ایجنٹوں کو دی ہوئی تھیں جب وہ طے شدہ شرائط پر کاربند تھے۔ پس جب مجاہدین محل اور تخت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو مغرب نے اپنے گندے اور بوسیدہ طریقوں سے مجاہدین کو قابو کرنا شروع کر دیا اور دھمکیوں اور لالچ کے ذریعے ان کے عقیدے کو کچل ڈالا۔ پھر انہوں نے ان کے زیادہ تر عسکری و سٹریٹیجک سازوسامان اور مال غنیمت کو تباہ کر کے انہیں حیران کر دیا جو اصل میں شامی عوام کی ملکیت تھا اور مجاہدین کے افعال کی نگرانی کے لیے اور ان کے اقدامات پر قابو پانے کے لیے اپنی سرپرستی میں جائیداد کے مالک کا کردار ادا کیا اور مطلوبہ رعایتوں کی سطح کا اندازہ لگایا۔ کاش وہ اس حد پر ہی رک جاتے، لیکن وہ مجاہدین کی تذلیل کرتے رہے، ان کی عزت، غیرت اور نخوت کی توہین کرتے رہے اور انہیں اپنے اصولوں اور منہج کو ترک کرنے پر مجبور کرتے رہے، چنانچہ انہوں نے ان کے پاس ایک جرمن ہم جنس پرست طوائف بھیجی، جو مجاہدین کے قائد کو اس کے عقیدے اور اصولوں سے دستبردار کرنے کے لیے ورغلانے لگی۔ پس جب وہ مجاہدین کی عملداری میں آئی تو انہیں ان کے اصولوں کو ترک کرنے پر مائل کرنے لگی اور ان پر معاشی دروازے بند کر دیے اور دھمکی دی کہ جب تک وہ اس کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے اور اس کے مطالبات کی تعمیل نہیں کرتے، وہ انہیں خیرات نہیں دے گی۔ تو کون سی فیصلہ کن فتحِ عظیم سے ہم خود کو دھوکا دے رہے ہیں؟
میں بالکل واضح طور پر کہتا ہوں کہ سوریہ کے مجاہدین جو دمشق میں حکمرانی کے منظر نامے کی قیادت کر رہے ہیں اور وہ طے شدہ صہیونی – صلیبی مفاہمتی تسلط کے تابع ہیں، جس نے انہیں یہ فتح حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اور دمشق کی حکمران قیادت کا خود کو امارت اسلامیہ افغانستان پر قیاس کرنا، نہ صرف غلط ہے بلکہ محض دھوکا دہی ہے۔ پس افغانستان میں جو کچھ حاصل کیا گیا وہ ایک انقلابی جہادی فتح تھی جس کے نتیجے میں ایک آزاد طاقت پیدا ہوئی ہے جسے ہتھکڑیاں نہیں لگائی گئیں تھیں، کیونکہ اس نے اس عالمی نظام پر، افغان دلدل میں طویل تھکن کے بعد، پوری طاقت کے ساتھ اپنی مرضی مسلط کر دی تھی۔ میرے پیارے بھائی! میں اس بات کو رد نہیں کروں گا کہ صہیونی – صلیبی مغرب شام کے مجاہدین کو دہشت گردی سے لڑنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے امتحان میں آزمانے کے لئے انہیں وقت دے گا اور اسی لیے انہوں نے ان کے پاس طاقت کا یہ حاشیہ چھوڑ دیا کہ وہ دیکھ سکیں کہ وہ کیا کرتے ہیں، اور انہوں نے یہ بات مجاہدین سے صاف صاف کہی: ’’ہم آپ کی اچھی اور عمدہ باتیں سنتے ہیں، لیکن ہم آپ کے افعال کو دیکھیں گے۔‘‘ اور یہاں مجاہدین کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہی بات ان کے رب کی طرف سے بھی ان سے کہی گئی ہے:
قَالَ مُوْسٰي لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوْا بِاللّٰهِ وَاصْبِرُوْا ۚ اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰهِ ڐ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭوَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ قَالُوْٓا اُوْذِيْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِيَنَا وَمِنْۢ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا ۭ قَالَ عَسٰي رَبُّكُمْ اَنْ يُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْاَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ ۧ
’’موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین تو اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے اور انجام تو پرہیزگاروں ہی کا بھلا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا:آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں اذیتیں پہنچتی رہیں اور آپ کے آنے کے بعد بھی۔ موسیٰ نے کہا: قریب ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تمہیں زمین میں خلیفہ بنائے پھر دیکھے گا کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔‘‘
مجاہدین کی جماعت مغرب کی آزمائشوں اور امتحانات میں یقیناً ناکام ہو جائے گی اگر وہ اپنے دین کی بنیادوں اور اسلام کے اصولوں پر قائم رہیں گے اور پھر مغرب مجاہدین کے لیے وہ لال بتی جلا دے گا جو پہلے اس نے مجاہدین کے دشمنوں کو دکھا رکھی تھی اور ان کے دشمنوں کو ایک بار پھر گرین سگنل دے گا تاکہ وہ اسی فرقہ وارانہ جنگ کے محور پر واپس آ جائیں جس میں وہ ایک دہائی پہلے ان کے ساتھ لڑ رہے تھے۔ اس طرح صہیونی – صلیبی اتحاد ہماری امتِ مسلمہ کو فرقہ واریت کے بھنور میں داخل کرنا چاہے گا تاکہ ان کے لیے ہماری سرزمین پر اپنے تفرقہ انگیز استعماری منصوبوں کو انجام دینا اور ہماری صلاحیتوں کو تباہ کرنا آسان ہو جائے، اور اللہ ہی ہمارا مددگار ہے۔
مدیر انٹرویو: تو شاید آپ سمجھتے ہیں کہ یہ فتح، غزہ میں موجود ’مزاحمت کے محور‘ پر حملہ کرنے کے لیے ایک ڈرامے کی طرح ہے اور یہ شامی نوجوان فاتح مجاہدین خطے میں صہیونی – صلیبی منصوبے کو مضبوط کرنے کے لئے بین الاقوامی کرائے کے میدان میں کام کر رہے ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: نہیں میرے پیارے بھائی! معاذ اللہ، خدا نہ کرے کہ میں اپنے مجاہدین مرابطین بھائیوں کی حیثیت و شان کو کم کروں یا ان کے دین اور نیتوں پر شک کروں کیونکہ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں۔ میں نے معرکۂ ’ردع العدوان‘ کے مجاہدین میں جو کچھ دیکھا ہے وہ صرف اور صرف صدق و وفا ہے اور دین پر فدا ہونا ہے، لیکن میں نے آپ کے سامنے فتح کی تصویر اس کی حقیقت کے مطابق بیان کی ہے، نوعمر لڑکوں کی مبالغہ آرائی اور جذباتی بھائیوں کی بسیار گوئی کے بغیر اور چالاک، دھوکے باز لوگوں کی من گھڑت باتوں سے ہٹ کر، جو ہماری بیداری اور شعور کو مٹانا چاہتے ہیں، ہمارے خیالات کو موڑنا چاہتے ہیں اور ہمیں وہم اور خوابوں میں رکھنا چاہتے ہیں تاکہ حقائق اور اصل حالات ہمارے سامنے ظاہر نہ ہوں۔
میرے پیارے بھائی! دمشق پر مجاہدین کی حکمرانی اور سوریہ کے تقریباً نصف علاقے پر ان کے اختیار کے باوجود ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ در حقیقت وہ اب بھی قابضین کے تسلط کے تابع ہیں اور یہ کہ شام میں مجاہدین پر اور شامی عوام پر ایک سیاسی، ثقافتی اور معاشی قبضہ اب بھی مسلط ہے اور اس کے لاتعداد شواہد موجود ہیں۔ سچ کہوں تو اموی فتوحات جن کا آپ نے ذکر کیا اور فتحِ دمشق سے تشبیہ دی، وہ اسلامی بالا دستی اور تفوفق کے دور میں تھیں۔ وہ فتوحات نہ تو عالمی کفر کے سرغنوں کی اجازت، رضامندی اور ان کی طرف سے موقع فراہم کرنے سے ہوئیں تھیں اور نہ ہی مجاہدین کے قابل تعریف شرعی ارادے اور کفار کے نفرت انگیز، ملعون ارادے کے ملاپ سے۔
آپ مجھے اپنے رب کی قسم کھا کر بتائیں کہ کیا تاریخ میں کسی اموی خلیفہ یا وزیر کے بارے میں ایسا کوئی واقعہ لکھا ہے کہ اس نے روم کے بادشاہ ہرقل کو طاقت اور خوشحالی کی خواہش کے ساتھ مبارک باد اور برکتوں کا پیغام بھیجا ہو؟
مزید برآں بنو امیہ کی طرف لوٹنے اور انہیں اسلامی تاریخ میں اعلیٰ ترین مثال اور بہترین نمونہ قرار دینے کا نعرہ جمہور مسلم علماء کے نزدیک محلِ نظر ہے۔ ہمیں تو خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کی طرف لوٹنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ اموی خلفاء کی سنت کی طرف، جیسا کہ ہم سے منہاج النبوۃ کی طرف لوٹائے جانے کا وعدہ اور مطالبہ کیا گیا ہے نہ کہ منہاج بنی امیہ کی طرف۔
مدیر انٹرویو: درست، لیکن ابو اسامہ، آپ کے جن الفاظ نے مجھے حیران کیا ہے وہ یہ ہیں کہ آپ کو اس فتح یا اس کے طریقے اور انداز کے بارے میں کچھ تحفظات ہیں، آپ کے الفاظ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ شام کی نئی انتظامیہ کا جو رویہ ہے اس سے آپ کچھ غیر مطمئن ہیں یا پھر بات اس کے برعکس ہے؟ آپ کو نئی شامی انتظامیہ کے بارے میں کیا تحفظات ہیں اور آپ اس پر کیا نقد کرتے ہیں؟ وہ ان بڑے ممالک کے سامنے کیا کر سکتے ہیں جو شام میں اپنے مفادات کے حصول کے خواہاں ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: دیکھیئے میرے پیارے بھائی! جب ہم سوریہ کے موجودہ منظر نامے، اس کی حقیقت اور سنہ 2024ء کے آخر میں پیش آنے والے واقعات کے نتائج کا جائزہ لیتے ہیں، تو سوریہ میں جو کچھ ہوا وہ اس کے چند اہم تاریخی شہروں کی آزادی کے سوا کچھ نہیں ہے، جن میں سب سے اہم دارالحکومت دمشق ہے، جس پر مجاہدینِ اسلام کے دھڑوں کا اسلامی اقتدار ہے۔ اس قدر آزادی کو فیصلہ کن فتح اور حقیقی ظفر مندی قرار دینا، میری ذاتی رائے میں، ایک پُر امید استعاراتی نام کے طور پر تو جائز ہو سکتا ہے جسے ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ امتِ مسلمہ اور اہلِ شام کے لیے مکمل کرے گا۔ تاہم جس حقیقت کو درست الفاظ میں مرتب کیا جانا چاہیے اور اس کی شرعی موافقت کو علمی، فقہی، شرعی اور منطقی انداز میں بیان کیا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ شام (سوریہ) ابھی تک فتح نہیں ہوا ہے اور جو کچھ بھی ہوا ہے وہ صرف اس کے چند اہم شہروں کی آزادی زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اور یہ مجاہدین اور انقلابیوں پر عائد تمام فرائض میں سے کچھ فرائض کی ادائیگی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اہلِ علم و دانش کو عالمی کفر کے ائمہ کی طرف سے مسلط کردہ داخلی ایجنٹ (بشار الاسد) سے دمشق کو آزاد کرانے کی خوشی میں اندھا نہیں ہونا چاہیے، انہیں وقت سے پہلے کسی چیز پر جلدی نہیں کرنی چاہیے اور انہیں چاہئے کہ وہ انقلاب کے خاتمے، شامی جہاد کے دور کے اختتام اور ریاست کی تعمیر کے دور کے آغاز کا اعلان کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں۔ کیونکہ یہ جہاد اور انقلاب کے جلتے ہوئے انگاروں پر ٹھنڈا پانی ڈالنے کے مترادف ہے اور ایک منصف مزاج سمجھدار شخص کو احساس ہے کہ سوریہ کی فقہی اور حقیقت پسندانہ سچائی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ اس پر اب بھی قبضہ ہے اور یہ کہ حملہ آور دشمن کو ابھی تک اس سے بے دخل نہیں کیا گیا ہے اور صہیونی – صلیبی قبضہ اب بھی شام کے بیشتر علاقوں پر مسلط ہے۔
مزید برآں، باشعور اور دیانت دار قیادت کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے انقلابی عوام اور اپنے مجاہدین سپاہیوں کے سامنے صحیح تصویر پیش کرے جو حقیقت سے مطابقت رکھتی ہو اور ان سب کو بتاتی ہو کہ شام کی سرزمین پر آپس میں گتھم گتھا بیرونی قابضین کا ایک پیچیدہ قبضہ تھا جنہوں نے پہلے شام کی سرزمین کی دولت و وسائل بانٹنے کے لئے ایک اندرونی ایجنٹ بشار الاسد کو قبول کرنے پر اتفاق کیا تھا اور جب انقلابیوں نے سنہ 2011ء میں بغاوت کی تو ان قابضین نے اپنی صہیونی – صلیبی امریکی–روسی جنگ کا آغاز کر دیا اور ان میں سے ہر ایک اپنے اتحادیوں کو جنگ میں لے آیا تاکہ وہ آپس میں شامی اثر و رسوخ اور اس کے وسائل کی تقسیم کا انتظام کر سکیں۔ پھر جب یوکرین میں ان بڑے ممالک کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور ان میں اختلافات پیدا ہو گئے تو اللہ نے ان کے دلوں میں پھوٹ ڈال دی یہاں تک کہ ان کا اختلاف پوری زمین میں اپنی آخری حد تک پہنچ گیا، خاص طور پر شامی سرزمین پر۔ اس کے بعد سات اکتوبر کو ان پر علاقے ویران کرنے والی بڑی مصیبت آئی یعنی طوفان الاقصیٰ کا بابرکت آپریشن، جس نے ان میں سے بیشتر معاہدوں اور سمجھوتوں کو اکھاڑ پھینکا جن پر پہلے وہ متفق تھے، اس کے بعد سلامتی کونسل میں دنیا کو کنٹرول کرنے والے ان پانچ دیوتاؤں کے درمیان ان اختلافات، تنازعات اور جنگوں کے تناظر میں ’ردع العدوان‘ کا بابرکت معرکہ شروع ہوا، تب شامی مجاہدین نے سب سے چھوٹے طاغوت بشار الاسد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اگرچہ وہ ہمارے سوریہ کے مسلمان بھائیوں کے خلاف سب سے زیادہ ظالم اور جابر تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اہلِ شام اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے صرف بشار الاسد سب سے بڑا مجرم اور سب سے بڑا خطرہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ سوریہ کو بیرونی قابضین میں سے بھی سب سے کمزور قابض یعنی صرف ایران سے ہی آزاد کرایا گیا ہے جبکہ بڑے بڑے بیرونی قابضین ابھی بھی شام کی سرزمین پر اپنا قبضہ باقی رکھے ہوئے ہیں اور شام پر اثر و رسوخ آپس میں بانٹے بیٹھے ہیں۔ اس لیے ایک دیانتدار قیادت اپنے عوام اور سپاہیوں کو تمام معاملات صحیح تناظر میں دکھاتی ہے، حالات اور انجام کی حقیقت کو واضح طور پر بیان کرتی ہے اور غاصبوں سے بلا خوف و خطر ملکِ شام کو درپیش خطرات اپنے عوام کے سامنے ظاہر کرتی ہے، چاہے وہ غاصب معاصر صہیونی – صلیبی جنگ کے آقا ہوں یا ان کے مقامی ایجنٹ۔
جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے تو میں جو دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مجاہدین کی قیادت، شام کی سرزمین کی طمع اور لالچ رکھنے والے صہیونی – صلیبی ممالک کا مقابلہ کرنے کے لئے، بہت سے اقدامات کر سکتی ہے۔ اسے سب سے پہلے اپنے عوام، سپاہیوں اور امت کے ساتھ ایماندار ہونا چاہیے، انہیں صاف صاف بتانا چاہیے کہ ہمیں اب بھی سوریہ کی سرزمین پر ایک عظیم قبضے کا سامنا ہے اور یہ کہ انہیں سوریہ کی اسلامی حکومت کا تختہ الٹے جانے کی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا سامنا ہے اور یہ کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مجاہدین کے ہاتھوں حاصل کردہ جہادی کامیابیوں کو چوری کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ کہ جہادی انقلاب ابھی زندہ ہے اور تپ رہا ہے اس کے شعلے اور انگارے اس وقت تک جلتے رہیں گے جب تک کہ سوریہ کا تمام علاقہ صہیونی – صلیبی جنگ کے آخری بیرونی قابض اور اندرونی ایجنٹ سے آزاد نہیں ہو جاتا۔ نئی شامی انتظامیہ کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اپنے عوام، سپاہیوں اور عرب و اسلامی امت کے سامنے حقائق بیان کرے اور کھل کر اور صاف صاف کہے کہ ابھی تک ہم نے ظلم کا پہلا خول ہی اکھاڑ پھینکا ہے جو درحقیقت سب سے بڑی بیماری کی علامت ہے لیکن شام کے خطے میں سب سے بڑا جھگڑا، اس سرزمین پر صہیونی – صلیبی قبضہ ہے پس یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ایجنٹوں کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ انہیں شامی عوام کے سینے پر بٹھا سکیں، اور اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
مدیر انٹرویو: درست! میں نے سوریہ کی حقیقت کے بارے میں آپ کے مایوس کن نقطہ نظر سے جو سمجھا وہ یہ ہے کہ انقلاب کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک انقلابی غلطی اور شامی عوام کے لئے ایک گمراہ کن فیصلہ تھا۔ لیکن کیا آپ کو نہیں لگتا کہ نئی قیادت اس مشکل حقیقت سے آگاہ ہے لیکن خطے کے ان متکبر اور قابض ممالک کے خطرات کو شامی عوام سے زیادہ سے زیادہ بے اثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کمزوری کے سائے میں اور ان پیچیدہ رکاوٹوں اور شدید دباؤ کے تحت جن کا ہماری امت کو سامنا ہے، نئی انتظامیہ کو بہترین طریقے سے منظم کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ خطے کو کنٹرول کرنے والی بڑی طاقتوں کو دھوکا دینا ایک دانشمندانہ اور سیاسی طور پر معقول فیصلہ ہے؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: میں بالکل بھی مایوسی کا شکار نہیں ہوں میرے پیارے بھائی! بلکہ میں تو، خدا کی قسم، ایک محتاط شخص کی طرح پُر امید ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اور نئی قیادت میں میرے بھائی، اپنے آپ کے ساتھ، اپنے عوام کے ساتھ اور اپنے وفادار مجاہد سپاہیوں کے ساتھ مخلص اور سچے رہیں۔ سو آپ انقلاب کے خاتمے کا اعلان کیوں کرتے ہیں جبکہ اس کے تقاضوں کی تکمیل نہیں ہوئی اور آپ جہاد کے خاتمے کا دعویٰ کیوں کرتے ہیں جبکہ اس کی ذمہ داریاں اور تقاضے موجود ہیں۔ یہ شرعی، فقہی، انقلابی اور سیاسی میزان میں ایک بہت بڑی غلطی اور خطا ہے۔ میرے پیارے بھائی! اس طرح وہ بابرکت انقلاب کے جلتے ہوئے شعلے پر ٹھنڈا پانی ڈال رہے ہیں اور جہادی غصے کی آگ کو اپنے ہاتھوں سے بجھا رہے ہیں، حالانکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ انہوں نے جو رعایتیں دی ہیں (اور اپنے مقاصد سے تنازل اختیار کیا ہے) ان سے مغرب خوش ہو رہا ہے اور ان کی تعریف کر رہا ہے!
یہ کسی بھی حالت میں جائز نہیں ہے اور انہیں کبھی بھی ایسے طریقوں سے ان ممالک کے خطرے کو بے اثر کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو سیاسی و شرعی دونوں لحاظ سے غلط ہوں، ایسے طریقے انہیں، مجاہدین کو اور پورے انقلاب کو تباہی کی کھائی تک لے جا سکتے ہیں۔
میرے پیارے بھائی! اگر وہ ایک زبردست اور فیصلہ کن فتح چاہتے ہیں تو انہیں اپنے منہ سے ظالموں کو ’’نہیں‘‘ کہنا چاہئے اور انہیں بتانا چاہئے کہ آپ ہماری سرزمین اور مٹی پر قابض ہیں اور یہ کہ ہمارے لوگ اس غاصبانہ قبضے اور اس متکبرانہ سرپرستی کو قبول نہیں کریں گے۔
اور ہاں، وہ باقی مقبوضہ شامی سرزمین کو آزاد کرانے کے لئے اپنی جہادی اور انقلابی تحریک کو اس وقت تک مؤخر کر سکتے ہیں جب تک کہ وہ اپنی سانسیں نہ پکڑ لیں اور اپنی صفوں کی تنظیم نو نہ کر لیں، تاہم اس کے باوجود انہیں اپنے عوام، سپاہیوں اور امت کے ساتھ ایماندار ہونا چاہیے۔ اس کے بعد موجودہ کمزوری کے سائے میں ان بڑے ممالک کو اس بیان کے ساتھ سنبھالنا ٹھیک ہے کہ ہمیں شامی سرزمین پر تمہارے قبضے کا سامنا ہے۔ اب یا تو قابضین سفارتی ذرائع اور سیاسی مذاکرات کے ذریعے شامی سرزمین چھوڑ دیں گے یا پھر مجاہدین کی قیادت قابضین کے سامنے اعلان کرے گی کہ وہ آسمانی اور زمینی قوانین میں بیان کیے گئے ہر جائز طریقے سے ان کے خلاف مزاحمت کریں گے اور یہ کہ چاہے کتنی ہی دیر کیوں نہ ہو جائے، وہ لامحالہ اپنی انقلابی اور جہادی تحریک دوبارہ شروع کریں گے تاکہ اپنی سرزمین کے آخری ذرّے کو ہر قابض اور ایجنٹ سے آزاد کرایا جا سکے۔
جہاں تک ہماری اسلامی دنیا پر قابض ان ممالک کو دھوکا دینے کے امکانات کے بارے میں آپ کا سوال ہے تو میری حقیر سی رائے میں یہ تصور ہمارے متکبر دشمنوں کی حقیقت کے بارے میں پائے جانے والے سادہ اسلامی تصورات میں سر فہرست ہے۔ میرے بھائی! یہ ممالک کوئی خیراتی ادارے یا دعوتی گروہ نہیں ہیں جنہیں اہلِ اسلام دھوکا دے سکیں اور ان کو اس طرح چکما دے سکیں جس طرح کچھ لوگ خواب دیکھتے ہیں اور وہم و گمان رکھتے ہیں۔ یہ وہ بڑے بڑے ظالم ممالک ہیں جو ہمارا گوشت کھا کر، ہمارا خون پی کر اور ہمارے بچوں اور عورتوں کو قتل کر کے بڑے ہوئے ہیں اور اب بھی بڑھ رہے ہیں اور جی رہے ہیں۔ یہ ممالک جنگجو ممالک ہیں جو جارحیت اور جنگوں کو پسند کرتے ہیں۔ وہ تباہی پھیلانے میں ماہر ہیں، اور ان کی خونی تاریخ ان بات کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ استعماری ممالک ہیں جو اپنے دشمنوں کو شکست دینے اور کچلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، یہاں تک کہ مسابقتی انسانی تہذیبوں کو تباہ کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور جو کوئی بھی ان کے بارے میں ایسا سادہ سا تصور رکھتا ہے، آخر کار اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے غلاموں کا غلام، ان کے ایجنٹوں کا ایجنٹ اور ان کے گماشتوں کا گماشتہ بن جاتا ہے۔
میرے پیارے بھائی! ہمیں ایسی سلطنتوں کا سامنا ہے جنہوں نے لاکھوں لوگوں کا قتل کیا ہے۔ جب ہم میں سے کوئی مسلمان، ان کے رحم و کرم پر اور خود پر مسلط بین الاقوامی برادری کے احسان سے، اقتدار میں آئے گا، تو وہ ہمیں اپنی سانسیں بحال کرنے یا اپنی صفوں کو دوبارہ منظم کرنے کے لیے ایک لمحہ بھی اقتدار میں رہنے نہیں دیں گے، بلکہ وہ تو ہمارے لیے سازشیں اور کھیل تیار کر رہے ہیں، اور ہم اس دائرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جس میں بشار الاسد نصف صدی تک جیتا رہا، اور بد قسمتی سے پھر اس کے بعد ہم مجاہدین کے قائدین کو تلاش کریں گے جو اسے رغبت اور خوف سے پکاریں اور اس کے تئیں عاجزی کا مظاہرہ کریں۔
مدیر انٹرویو: محترم استاذ عبدالعزیز الحلاق! آئیے اس موضوع کی گہرائی میں جاتے ہیں۔ آپ کی رائے میں دمشق کی آزادی کے تقریباً دو ماہ بعد پورے خطے میں بالعموم اور خاص طور پر سوریہ میں ہونے والے اثرات کی روشنی میں آپ شام میں کیا خطرہ دیکھتے ہیں؟
استاذ عبدالعزیز الحلاق: پورے خطے میں بالعموم اور خاص طور پر سوریہ میں صہیونی – صلیبی خطرے سے بڑھ کر کوئی خطرہ نہیں ہے اور اس خطرے کا موازنہ نصیری خطرے سے بالکل بھی نہیں کیا جا سکتا جس کی نمائندگی پہلے بشار الاسد کر رہا تھا، جبکہ شامی انقلابی یہ سوچ کر بغاوت کر رہے تھے کہ سوریہ میں ان کو درپیش واحد خطرہ مقامی نصیری حکومت اور اس کے اتحادی ہیں، لیکن اب ان پر واضح ہو گیا کہ صہیونی – صلیبی دشمن نے ان پر ہر طرف سے پنجوں کی طرح اپنا محاصرہ سخت کر دیا ہے۔
سب سے پہلا خطرہ اسرائیلی – صہیونی خطرہ ہے جسے ’خطے کا آقا‘ سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ معلوم ہے کہ اس نے جنوبی سوریہ کے علاقوں سمیت عظیم تر شام کی سرزمین کے اہم حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔ یہ قبضہ اب بھی جنوب سے پھیل رہا ہے اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ درعا، قنیطرۃ اور سویدا میں غداروں کے بہت سے حامی اور مددگار ہیں، جن میں کچھ سنی گروہ، دروز وغیرہ کے فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ خطرہ پورے عظیم تر شام کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ وہ اپنے عزائم اور آرزوؤں کی وضاحت کرنے سے کبھی نہیں تھکتا اور اس نے اپنے لیے دستیاب تمام طریقوں اور ذرائع سے ان عزائم کا کھلا اظہار کیا ہے۔ اسرائیل کی عظیم ریاست کے وہ نقشے جو صہیونی فوجی اپنے کندھوں پر لٹکائے ہوئے ہیں، ان اشتعال انگیز ذرائع کے سمندر میں صرف ایک قطرہ ہیں۔ اور اس خطرے کا سب سے خطرناک پہلو ’احمد العودۃ‘ کی قیادت میں عرب – صہیونی افواج کا خطرہ ہے، جو دمشق میں داخل ہونے والا اور اس کا تختہ الٹنے والا پہلا شخص تھا۔ تب تک ہیئۃ تحریر الشام حمص کو بھی مکمل طور پر آزاد نہیں کرا پائی تھی۔ اور پھر وہ کمانڈر احمد الشرع (سابقہ جولانی) کے ساتھ فور سیزن ہوٹل میں اپنی عجیب و غریب ملاقات کے بعد دمشق کے منظر نامے سے غائب ہو گیا اور پھر بعد میں وہ سوریہ کے منظر نامے میں سب سے آگے نکل گیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم نے جو خطرہ لیبیا میں حفتر اور سوڈان میں حمیدتی سے دیکھا ہے یہ خطرہ اس کے متوازی ہے، پس احمد العودہ ’شام کا حمیدتی‘ ہے اور ’سوریہ کا حفتر‘ ہے کیونکہ اسے متحدہ عرب امارات، اردن اور خطے کے دیگر انقلاب مخالف ممالک کی بھرپور حمایت حاصل ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اسے ایک ہی وقت میں روس اور امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جو کہ ایک عجیب و غریب بات ہے۔ ہمسایہ ممالک نے دمشق کی آزادی کے فورا بعد ان کے لیے تربیت، بھرتی اور اسلحے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ پس کیا ہم جنوب کی طرف سے ردِ انقلاب کے دہانے پر ہیں؟
دوسرا خطرہ امریکی – صہیونی – صلیبی خطرہ ہے جو اپنے عرب اور کرد ایجنٹوں کے ذریعے شامی سرزمین کے کچھ حصوں پر قابض ہے۔ ’سالم ترکی العنتری‘ کی قیادت میں فری سیرین آرمی، امریکی – صہیونی – صلیبی جنگ کے عرب ایجنٹوں میں سے ہے، اور ان کا کیمپ عراق اور اردن سے متصل شامی مثلث میں واقع امریکی اڈے ’التنف‘ پر ہے۔ اگرچہ وہ اس وقت نئی انتظامیہ اور نئی شامی فوج میں شامل ہیں، لیکن درحقیقت وہ سنہ 2008ء میں عراق میں امریکی جنرل پیٹریاس کی طرف سے تشکیل کردہ صحوات (نام نہاد امن لشکروں) میں سے ایک لشکر ہے۔ یہ خطے میں صحوات کے منصوبے کی توسیع ہے اور شام میں امریکی فوج کا ایک ہراول جنگی دستہ ہے جن کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے اور ان کا اسلحہ اور مکمل تربیت امریکی محکمہ دفاع کی نگرانی میں کی جاتی ہے۔ جہاں تک امریکی – صہیونی – صلیبی جنگ کے کرد ایجنٹوں کا تعلق ہے، تو وہ سیرین ڈیموکریٹک فورسز ہیں جنہیں (SDF) یا (قسد) کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی قیادت ظالم مجرم ’مظلوم عبدی‘ کر رہا ہے۔ یہ ملحد گروہ شام کے بدترین کافروں میں سے ایک ہے اور یہ لوگ اسلام اور اہلِ اسلام سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ہیں، ان کے علاقوں میں قرآن کریم حفظ کرنے کی اجازت نہیں ہے اور نہ ہی اسلام کا رنگ رکھنے والے بہت سے شعائر کی اجازت ہے، ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو آج بھی آگ، سورج اور چاند کی پوجا کرتے ہیں۔ شام میں اِن ملحد کُردوں اور نصیری رافضیوں سے زیادہ بڑا کوئی کافر نہیں ہے اور ان دونوں گروہوں سے زیادہ کوئی بھی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت نہیں کرتا۔ یہ گروہ شام کے ان وسیع و عریض علاقوں پر قابض ہیں جو اسٹریٹیجک ہیں اور معاشی لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ ان میں کالے سونے یعنی شامی تیل کے ذخائر موجود ہیں۔ وہ اپنے علاقوں میں امریکی اڈوں کی حفاظت اس سے زیادہ کرتے ہیں جتنا کہ وہ اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ مجاہدین کی طرف سے دمشق کو آزاد کرانے کے بعد انہوں نے حال ہی میں امریکی اڈے نمبر 29 اور 30 تعمیر کیے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ شام کی سرزمین کے بعض حصوں پر اپنا قبضہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور نئی شامی انتظامیہ کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
تیسرا خطرہ روسی – صلیبی اور اس کے روایتی اتحادیوں کا خطرہ ہے جو نصف صدی سے دمشق کے منظر نامے پر اور اس پر حکمرانی میں سب سے آگے رہے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت لاذقیہ کے پہاڑوں اور ساحلی علاقوں میں فوجی اڈے اور قلعہ بند عمارتیں قائم کر رہے ہیں اور ان کے پاس ایک مقبول فرقہ وارانہ بیانیہ ہے جسے وہ پالتے ہیں، جس کی صلاحیتیں ادلب، عفرین اور شمالی شام کے ان لوگوں کی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہیں جنہوں نے انقلاب کے تیرہ سالوں کے دوران شامی انقلابیوں کو گلے لگایا۔ انہیں ایران، روس، لبنان، یمن وغیرہ کی طرف سے زبردست مالی امداد ملتی رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس بات کا امکان ہے کہ ہم ان کی تخریبی کارروائیوں کے ایک بڑے پھیلاؤ کا مشاہدہ کریں، کیونکہ وہ اب اپنی صفوں کو ترتیب دینے اور انقلابی نصیری ڈھانچے کو دوبارہ تعمیر کرنے کے عمل میں ہیں اور طرطوس میں روسی حمیمیم اڈے کا باقی رہنا اور طرطوس کی بندرگاہیں، اس خطرے کو طاقت، بقاء اور استحکام فراہم کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔1
چوتھا خطرہ داعشی – صہیونی خطرہ ہے جو پیدا کیا گیا اور اس وقت اس کی سرپرستی کی جا رہی ہے، اسے تحفظ دیا جا رہا ہے اور داعش کی افزائش کے فارموں اسے اُگایا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے داعش کے عسکریت پسندوں کو گمراہی کے دائرے سے نکال کر مزدوری کے دائرے میں منتقل کرنے کے لئے زبردست صہیونی – صلیبی کوششیں کی جا رہی ہیں اور جو داعشی صرف اپنی خارجیت کی گمراہی پر قائم رہنا چاہے اور مزدوری کے دائرے میں داخل ہونے سے انکار کرے تو اس کے سرپرست اور محافظ صحرائے شام (بادیہ) اور تدمر اور حمص کے مضافات میں اسے نشانہ بناتے ہیں تاکہ داعش کے مزدور محاذ کو گمراہی کے محاذ پر غالب رکھا جا سکے۔ شام کے اہلِ سنت کے منصوبے کے لیے یہ خطرہ زہر آلود خنجر کی مانند ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ یہ خطرہ بھی اوپر بیان کیے گئے خطرات سے کسی صورت کم نہیں ہے بلکہ یہ جہادی صفوں میں موجود لوگوں میں زیادہ عداوت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اسی وجہ سے صہیونی – صلیبی مہم اب بھی اپنے کیمپوں میں ان کی مناسب دیکھ بھال کر رہی ہے جو اس نے ان کے لیے بنائے تھے تاکہ وہ اس کی آنکھوں کے نیچے پلتے بڑھتے رہیں اور ان میں امتِ مسلمہ کے خلاف نفرت کے عوامل پیدا کرتے رہیں اور ان میں اہلِ سنت کے خلاف رنجش و بغض کے اسباب کو مزید گہرا کرتے رہیں۔ جلد ہی ہم صہیونی – صلیبی جہنمیوں کو سیٹی بجاتے ہوئے دیکھیں گے اور سنیں گے کہ وہ اپنے داعشی کتوں کو سیٹی بجاتے ہیں تاکہ وہ شام کے اہل سنت مجاہدین کے گوشت کا شکار کرنے کے مناظر سے لطف اندوز ہو سکیں۔ پس ہم اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور عافیت کے طالب ہیں۔ عالمی صہیونی – صلیبی جنگ کے لئے داعش کی خدمات اور ایک فعال آلہ کار ہونے کی حقیقت پر مبنی سچی ترین مثال وہ ہے جس میں امتِ مسلمہ نے افغانستان میں ان کے افعال کا مشاہدہ کیا اور اب بھی کر رہی ہے۔ انہیں امریکہ اور خطے میں امریکی آلہ کاروں کی حمایت حاصل تھی اور آج بھی ہے۔ پس جب مجاہدین کسی علاقے سے انہیں ختم کرنے کے قریب پہنچتے تو کافر فوجیں فوری طور پر حرکت کرتیں، انہیں اپنے طیاروں سے امداد فراہم کرتیں اور انہیں ان کے لیے پیشگی تیار کردہ کیمپوں میں منتقل کرتیں، تاکہ ان کی افزائش کی دیکھ بھال کر سکیں، ان کی اولاد کی پرورش کریں اور انہیں مناسب فکری غذا فراہم کریں۔ اور اب افغانستان میں امارتِ اسلامیہ کی جانب سے داعش کے کیمپوں کا خاتمہ کرنے کے بعد پاکستان اور تاجکستان میں ان کی پرورش کا انتظام کیا گیا ہے اور کچھ پڑوسی ممالک کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے معسکرات کو اپنے یہاں منتقل کریں تاکہ انہیں ضرورت کے مطابق اسلامی شریعت کے منصوبے پر حملہ کرنے کے لیے ملازمت دی جا سکے اور اس طرح صہیونی – صلیبی منصوبے کو مکمل کیا جا سکے۔
پانچواں خطرہ سیکولر ترکیا کا خطرہ ہے، جسے ’نیٹو میں ارتداد کا سربراہ‘ سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا خطرہ جو اب بھی شمالی شام کے ساتھ اس کے اڈوں میں جڑا ہوا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اب ظاہری طور پر سوریہ کا سرپرست ہاتھ اور اس کی پشت کا مالک بن چکا ہے اور شام کے لئے صہیونی – صلیبی پولیس اہلکار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ شام پر اس کا اثر و رسوخ فکری، سماجی، سیاسی اور عسکری محاذ پر حد سے تجاوز کرے گا اور ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس کے پاس ’آزاد شامی فوج‘ اور ’وطنی فوج‘ جیسے مختلف ناموں کے ساتھ ہزاروں شامی جنگجو ہیں۔ سیکولر ترکیا کے منصوبے کے خطرے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اس دور میں مسلم ممالک کے خلاف صہیونی – صلیبی جنگوں میں نہ صرف ایک قابل اعتماد ایجنٹ ہے بلکہ صہیونی – صلیبی اتحاد یعنی ’نیٹو‘ کا ایک لازمی جزو اور مسلمانوں کی طرف سے سب سے مضبوط اور سب سے بُرا تیر ہے۔ اس منصوبے نے گزشتہ دو دہائیوں میں افغانستان کے قبضے کے دوران حملے اور دورے کیے ہیں۔ اس نے کمزور مسلمانوں کے خون اور گوشت کو اتنا کھایا کہ وہ سیراب ہو گیا، چاہے وہ افغانستان میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون اور گوشت ہو یا شامی حدود میں ترکیا کی سرحد پر ترکیا کی جندرما فوج کے ذریعے پناہ لینے کے خواہش مند ہمارے شامی بھائیوں اور بہنوں کا خون ہو۔ یا جیسا کہ آج ہم معمولی سی بھی انسانیت سے عاری ترکیا کو مالی، صومالیہ اور افریقی ساحل کے خطے میں غریب اور کمزور مسلمانوں کا خون بہاتے ہوئے دیکھتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک باشعور شخص مستقبل قریب میں شام میں مسلمانوں کے خون کی ضمانت دینے کے ترک منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔2
میری رائے میں یہ پانچ محاذ شام کے مستقبل کو درپیش خطرناک ترین محاذ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اندرونی و بیرونی خطرات بھی ہیں لیکن فی الحال ان سخت ترین خطرات پر ہی بات کرنا کافی ہے۔
مدیر انٹرویو: آپ کی ان مفید باتوں پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ آپ نے ہماری توجہ ان خطرات کی جانب مبذول کرائی ہے جن کے بارے میں ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ اتنے بڑے ہیں اور اتنے بڑے پیمانے پر آپس میں جڑے ہوئے اور الجھے ہوئے ہیں۔ میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ان کا خلاصہ اس طرح پیش کیا کہ مبصرین کو شام کی موجودہ حقیقت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 ایک ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا کہ محترم استاذ کا یہ خدشہ درست ثابت ہوا اور اب اس مکالمے کے اردو ترجمے کی اشاعت تک اس خطرے نے اپنی تخریبی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔
2 ایک ماہ سے بھی کم عرصہ گزرا کہ محترم استاذ کا یہ خدشہ بھی درست ثابت ہوا اور اب اس مکالمے کے اردو ترجمے کی اشاعت تک سوریہ کا تدمر فضائی اڈا (ٹی فور) ترکیا کے حوالے کیا جا چکا ہے۔