مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ بطلِ اسلام، مجاہد قائد، شہیدِ امت، صاحبِ سیف و قلم شیخ یحییٰ ابراہیم السنوار رحمۃ اللہ علیہ کےایمان اور جذبۂ جہاد و استشہاد کو جلا بخشتے، آنکھیں اشک بار کر دینے والے خوب صورت ناول اور خودنوشت و سرگزشت ’الشوک والقرنفل‘ کا اردو ترجمہ، قسط وار شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔ یہ ناول شیخ نے دورانِ اسیری اسرائیل کی بئر سبع جیل میں تالیف کیا۔ بقول شیخ شہید اس ناول میں تخیل صرف اتنا ہے کہ اسے ناول کی شکل دی گئی ہے جو مخصوص کرداروں کے گرد گھومتا ہے تاکہ ناول کے تقاضے اور شرائط پوری ہو سکیں، اس کے علاوہ ہر چیز حقیقی ہے۔ ’کانٹے اور پھول‘ کے نام سے یہ ترجمہ انٹرنیٹ پر شائع ہو چکا ہے، معمولی تبدیلیوں کے ساتھ نذرِ قارئین ہے۔ (ادارہ)
ساتویں فصل
میرے بھائی محمود کے میٹرک کے امتحانات سے چند ہفتے قبل گھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کیا گیا تھا، جب بھی ہم میں سے کوئی اپنی آواز بلند کرتا، میری ماں چلا کر کہتیں کہ شور نہ مچاؤ اور اپنے بھائی محمود کے لیے سکون فراہم کرو، کیونکہ چند دنوں بعد اس کا میٹرک کا امتحان ہے، اگر ہم میں سے کوئی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتا، تو میری ماں چیختیں، اگر ہم میں سے کسی کی کوئی چیز گر جاتی، اگر ہم میں سے کوئی دوسرے کو دھکا دیتا یا چھیڑتا، جیسے کہ ہماری عادت تھی، جب ہم رات کو کپڑے دھونے کے طشت کے ارد گرد بیٹھ کر پڑھتے تھے، تو اسے اپنی حصے کی چپت یا کان مروڑنے کی سزا ملتی، ہم سب کو محمود کی پڑھائی کے لیے سکون فراہم کرنا ہوتا تھا اور اگر ہم میں سے کوئی دوسرے کو پھنسانا چاہتا تاکہ ماں سے مار کھائے، تو وہ چپکے چپکے اس کے سامنے مضحکہ خیز چہرے بناتا اور اکثر میری بہن اس میں پھنس جاتی کیونکہ وہ ہنسے بغیر نہیں رہ سکتی تھی، وہ اپنی ہنسی کو روکتی جتنی ممکن ہوتی، لیکن جب ہم ان مضحکہ خیز حرکات کو جاری رکھتے تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی اور ماں سے کئی چپتیں کھاتی، جو عام طور پر وجہ کی گہرائی میں نہیں جاتی تھیں اور اصل ذمہ دار کو نہیں پکڑتی تھیں۔
ہم نے اپنے سالانہ امتحانات مکمل کر لیے، لیکن محمود پڑھتا رہا کیونکہ میٹرک کے امتحانات ہمارے امتحانات کے تقریباً ایک ماہ بعد ہوتے تھے اور ہمارے امتحانات ختم ہونے کے باوجود ہنگامی حالت برقرار رہی، ہم محمود کے امتحانات کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگے، جیسے ہم قبضے کے خاتمے کا انتظار کر رہے ہوں، میٹرک کے امتحانات کے آخری دن جب محمود اسکول سے واپس آیا، تو ہم نے اس کا استقبال ایک زبردست پارٹی سے کیا، جو ایک بھائی کو اس کی واپسی پر دی جا سکتی ہے، ہم نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی جو تقریباً دو ماہ تک ہم نے دبائے رکھی تھی، گھر شور اور چیخوں سے بھر گیا، ہم سب لڑکے اور لڑکیاں محمود پر ٹوٹ پڑے، اسے مارنے، لاتیں مارنے اور چٹکی کاٹنے لگے، میری ماں ہمیں دیکھ رہی تھیں، کوشش کر رہی تھیں کہ سنجیدہ رہیں اور چلا رہی تھیں کہ اپنے بھائی کو چھوڑ دو، لیکن وہ اپنے چہرے پر مسکراہٹ چھپانے میں ناکام رہیں، جب ہم نے محمود کو چھوڑا تو ہم سب، محمود سمیت، ماں پر ٹوٹ پڑے، ان کے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگے، جبکہ وہ غیر سنجیدگی سے ہم سے بچنے کی کوشش کر رہی تھیں اور اپنی ہنسی کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں۔
ہمارے نتائج کا اعلان ہوا اور ہم سب پاس ہو گئے، سوائے میرے چچا زاد حسن کے، جو دسویں جماعت میں ناکام ہو گیا، ہمیں اب محمود کے میٹرک کے نتائج کا انتظار کرنا تھا، نتائج کے اعلان کے دن، ہنگامی حالت کا دوبارہ اعلان کیا گیا، ایک اور شدید ہنگامی صورتحال اس دن تک جاری رہی جب تک محمود واپس نہ آیا، اس کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا، دروازہ کھولتے ہی اس نے پہلی بات کہی : ’’امی 92‘‘۔ میری ماں کے گال پر ایک آنسو تیزی سے بہہ گیا اور پھر ان کی خوشی سے چیخ نکل گئی، ہم نے دوبارہ پر جوش جشن منایا کیونکہ محمود کی کامیابی ہم سب کی کامیابی تھی، جس میں ہم سب نے اپنا حصہ ڈالا تھا، میری ماں کچن میں گئیں، حلبہ ابالنے لگیں، اور اس کے پانی کے ساتھ آٹا اور چینی ملا کر حلبہ کی مٹھائی تیار کرنے لگیں تاکہ محمود اسے محلے کی بھٹی میں لے جا کر پکا سکے، جب وہ واپس آیا، تو ہم نے انتظار نہیں کیا کہ ماں اسے باورچی خانے سے لائے ہوئے برتنوں میں ڈالیں، ہم نے ہر طرف سے اسے لقمہ لقمہ کیا، وہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہی تھیں جیسے کہ کسی کو مارنے والی ہو، مگر کسی کو نہیں مارا پھر بھی، وہ پھر بھی کئی پلیٹیں اٹھانے میں کامیاب ہو گئیں اور جو ملنے اور مبارکباد دینے آتے، ان کو پیش کرتیں۔
میرے دادا شدید بیمار ہو گئے تھے اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ہمیں چھوڑنے والے ہیں، وہ کم ہی اپنے کمرے سے باہر نکلتے تھے، جمعہ کے علاوہ مسجد نہیں جاتے تھے، اور محلے کے معروف میدان میں روزانہ ہونے والے اجلاس میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ حسن کے فیل ہونے سے ان کی فکر اور بیماری میں اضافہ ہوا اور وہ ہماری تقریبات میں شامل ہونے کی خواہش نہیں رکھتے تھے، پھر بھی ہم سب ان کے پاس جمع ہوئے اور پہلی رات ان کے ساتھ گزارنے کی کوشش کی، انہیں ہنسانے اور ان کا دل بہلانے کی کوشش کی، محمود کو اپنی ثانوی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پورے سال کی چھٹی کا انتظار کرنا تھا تاکہ وہ مصری یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکے۔ یہ وقت اس کے لیے پیسے جمع کرنے کا بہترین موقع تھا، جو اس کے مصر جانے پر کام آنے تھے۔ 1948ء میں مقبوضہ زمین میں کام کرنے کا خیال بالکل مسترد کر دیا گیا تھا، اس لیے اسے اپنے ماموں کے کارخانے میں کام جاری رکھنا تھا اور کوئی اضافی کام تلاش کرنا تھا تاکہ وہ یہاں وہاں سے کچھ پیسے جمع کر سکے، محمود اور میری ماں نے طویل غور و فکر کیا، اور آخر کار انہوں نے فیصلہ کیا کہ محمود ماموں کے کارخانے میں کام چھوڑ دے اور اس کی جگہ میرا بھائی محمد لے لے، تاکہ میرے بھائی حسن اور محمد دونوں ماموں کے کارخانے میں کام کریں اور محمود زیادہ سنجیدہ اور بہتر کمائی والے کام میں مصروف ہو جائے۔
انہوں نے ایسا کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا جس میں زیادہ سرمایہ نہ لگے، محمود نے اپنے علاقے میں سبزیوں کا ایک سٹال لگانے کا فیصلہ کیا، جس میں صرف چند لیرات کی ضرورت تھی اور وہ تھوڑی سی کمائی کر سکتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ بچت کر کے معقول رقم جمع کر سکتا تھا۔ میری ماں صبح سویرے محمود کو بیدار کرتیں اور کرفیو ختم ہونے کا اعلان ہوتے ہی وہ شہر کے ہول سیل بازار کی طرف جاتا، جہاں وہ تین یا چار لیرات کے ساتھ دستیاب سبزیاں خریدتا، وہ اپنی ریڑھی پر سبزیاں سجاتا اور بیچنے لگتا، دوپہر کے وقت، جو سبزیاں بچ جاتیں، وہ گھر لے آتا اور والدہ ان کا استعمال گھر میں کرتی، ہر روز وہ اپنی کمائی میں سے بیس پیسے یا چوتھائی لیرہ بچا کر رکھتا، دن کے وقت کرفیو کا نفاذ بار بار ہوتا رہتا، لیکن چونکہ محلے والوں کو محمود کی سبزیوں کی ضرورت ہوتی تھی، کرفیو کے باوجود بھی اس کی کوئی سبزی خراب نہیں ہوتی تھی، وہ اپنی ریڑھی گھر لے آتا اور محلے کی گلیوں میں جا کر جو بھی سبزی درکار ہوتی، وہ پہنچا دیتا، قابض فوج کے سپاہی محلے میں داخل ہونے سے ڈرتے تھے کیونکہ وہاں مزاحمتی لوگوں کے حملوں کا خوف ہوتا تھا۔
مزاحمت اور فدائی کارروائیوں کی وجہ سے فوجی کمانڈروں کو احساس ہونے لگا کہ کیمپوں کی تنگ گلیوں میں کارروائی کرنا مشکل ہے، اسی لیے انہوں نے سوچا کہ کیمپوں کو چوڑی سڑکوں سے تقسیم کیا جائے تاکہ ان کا کنٹرول اور تلاشی آسان ہو سکے، ایک دن کرفیو نافذ ہوا اور بڑی تعداد میں فوجی جیسے نیا قبضہ کرنے آ گئے ہوں، کچھ فوجیوں کے پاس لال رنگ کے پینٹ کی بالٹیاں اور برش تھے وہ کچھ گھروں کی دیواروں پر بڑے لال کراس کے نشان بناتے، کچھ دیواروں پر عمودی لکیریں کھینچتے اور پھر کچھ گھروں پر چھوٹے کراس کے نشان بناتے، ہر نشان کے بعد متعلقہ گھر کے مالک کو نوٹس دیا جاتا کہ جن گھروں پر بڑے کراس ہیں، انہیں مکمل طور پر گرا دیا جائے گا، جن گھروں پر عمودی لکیریں اور چھوٹے کراس ہیں، ان کے کچھ حصے گرائے جائیں گے، ہر نوٹس کے بعد چیخ و پکار اور گالیاں شروع ہو جاتیں۔ یہ لوگ اپنے بچوں، بیٹیوں اور بیویوں کو لے کر کہاں جائیں گے ؟ وہ دوبارہ سڑک پر آ جائیں گے۔
خوش قسمتی سے ہمارے گھر پر کوئی نشان نہیں لگا، اس لیے ہمارا گھر بچ گیا، اب ہمارا گھر تنگ گلی کے بجائے چوڑی سڑک پر ہو گا، ہمارے پڑوسی کا گھر مکمل طور پر گرایا جائے گا، یہ خاص طور پر میرے بھائی محمود کے لیے خوش قسمتی تھی، کیونکہ اگر ہمارا گھر یا اس کا کوئی حصہ منہدم ہو جاتا تو مصر میں تعلیم کے لیے محمود کی ساری جمع پونجی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کافی نہ ہوتی اور اس کے لیے ممکن نہ ہوتا کہ وہ غزہ چھوڑ کر ہمیں سڑک پر چھوڑ دے، لیکن اللہ اسے اور میری غریب ماں کو پسند کرتا ہے جیسا کہ میں نے ان دونوں کو بات کرتے ہوئے سنا، چند دن بعد بلڈوزر اور بڑی فوج آئی اور انہوں نے اعلان کیا کہ ان گھروں کو خالی کر دیا جائے جو منہدم کیے جائیں گے۔ بلڈوزر نے گھروں کو اس طرح پیسا جیسے کوئی دیو اپنے شکار کی ہڈیاں پیستا ہے، اور اس سے سینکڑوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے دل ٹوٹ گئے جو ایک بار پھر خود کو سڑک پر بے یار و مددگار پاتے تھے۔
بلڈوزر کیمپ میں آتا جاتا رہا اور ہر بار کسی نہ کسی مرد کا دل ٹوٹ جاتا یا کوئی عورت اپنے بال نوچنے اور اپنے گالوں پر تھپڑ مارنے کے بعد گر جاتی، یا کسی مرد کو فوجیوں نے بری طرح مارا پیٹا جب اس نے اپنے جسم کو بلڈوزر کے سامنے رکھ کر اسے اپنے بچوں اور بیٹیوں کو پناہ دینے والی چھت کو منہدم کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ شام تک سینکڑوں المیے دوبارہ کھل گئے تھے اور لوگوں نے اپنے زخموں کو بھرنا تھا، میرے چچا کا گھر شادی کے بعد سے خالی تھا کیونکہ میرے چچا کے بیٹے حسن اور ابراہیم میرے دادا کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتے تھے، لہذا میری ماں نے ہمارے دو پڑوسی خاندانوں کو عارضی طور پر وہاں رہنے کی اجازت دی جب تک کہ وہ اپنے معاملات کو ٹھیک نہ کر لیں اور شکر گزاری اور تعریف کے الفاظ کی کوئی کمی نہ رہی جو ہمیں موصول ہوئے۔ اگلے دن ریڈ کراس کے نمائندے آئے تاکہ حالات کا جائزہ لیں اور حقائق کو ریکارڈ کریں، اس کے اگلے دن UNRWA کے ہاؤسنگ سیکشن کے اہلکار آئے، انہوں نے معلومات جمع کیں اور لوگوں کو بتایا کہ انہیں نئے گھروں میں آباد کیا جائے گا جو ایجنسی دوسرے علاقوں میں بنا رہی ہے۔ یہ خبر لوگوں کے لیے آسمان سے نازل ہونے والی ایک کشادگی تھی، لوگوں نے بہت سے سوالات پوچھنے شروع کر دیے کہ کب ہم منتقل ہوں گے؟ کہاں؟ کیسے؟ وغیرہ اور ملازمین کے پاس واضح جوابات نہیں تھے۔ لیکن پہلے مہینے کے دوران ہی خاندانوں نے اپنے نئے گھروں میں منتقل ہونا شروع کر دیا جو غزہ کے علاقے میں یا العریش شہر میں تعمیر کیے گئے تھے، جہاں اسرائیل نے 1967ء میں پورے سینا پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس دوران وہ دونوں خاندان بھی چلے گئے جو میرے چچا کے گھر میں رہ رہے تھے اور ہر خاندان کو ایک نیا گھر ملا۔ 1948ء میں مقبوضہ ہونے والے علاقوں میں کام کے مواقع نے لوگوں میں بڑی ہلچل مچا دی، لیکن اپنے بچوں کی بھوک مٹانے اور ان کی عزت کی حفاظت کے لیے معقول گھروں میں رہائش کی اشد ضرورت نے لوگوں کو ان علاقوں میں کام کرنے پر مجبور کر دیا۔
تعلیم، دوا اور مہنگائی کی ضروریات اس کام کی مخالفت کرنے والے تمام اعتراضات سے زیادہ مضبوط تھیں، لہذا زندگی کی روانی نے زندگی کو جاری رکھنے اور اس کی سطح کو بہتر بنانے کی خواہش کو زندہ کر دیا اور والدین کی کوشش کہ اپنے بچوں کی زندگی اور مستقبل کو یقینی بنائیں، اس روانی کو تدریجاً بڑھنے دیا یہاں تک کہ یہ ایک معمول بن گیا، اور فدائیوں کے لیے اسے روکنا یا بند کرنا ممکن نہ تھا۔
سڑکوں کی کھدائی اور اندر کام کے مواقع کھلنے کے بعد، اور قابضین کی انٹیلی جنس اور فوج کی جانب سے مزاحمت پر جاری جنگ کے باوجود، یہ واضح ہو گیا کہ وہ کچھ ریلیف محسوس کرنے لگے ہیں۔ صبح کے وقت کرفیو ہٹانا عام ہو گیا تاکہ مزدور جلدی نکل کر اپنے کام پر وقت پر پہنچ سکیں، جو کہ مغربی کنارے اور غزہ سے حيفا، يافا وغیرہ میں کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد ممکن ہوتا تھا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ جن خاندانوں کے سربراہ اندرون ملک کام کرتے تھے ان کی زندگی کا معیار بتدریج بہتر ہونے لگا، اور کچھ ہی عرصے میں یہ آدمی اپنے گھر کی چھت کو ٹائلوں سے بدل کر لوہے کی چادروں سے ڈھانپنے لگے، کوئی اپنی دیوار کو اونچا کرنے لگا، کسی نے اپنے گھر کے لیے مضبوط دروازہ لگایا، کسی نے سیمنٹ کا تھیلا اور سمندر کی کھردری ریت خریدی اور ایک مزدور کو بلا کر اپنے گھر کی زمین کو پختہ کرایا۔ اس طرح ہمارے اردگرد کے مکانات دوبارہ ترقی کرنے لگے اور ان کا معیار بلند ہونے لگا، جب کہ ہمارا گھر ویسے ہی رہا۔ جنگ سے قبل یہ محلے کے بہترین گھروں میں سے ایک تھا، مگر اب اس کی حالت دوسرے گھروں کی ترقی کے مقابلے میں پیچھے رہ گئی تھی۔
وہ پڑوسی جن کے پاس گھر کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنے کے وسائل نہیں تھے، انہوں نے بڑی بڑی پلاسٹک کی چادریں خرید کر انہیں چھت پر بچھا دیا، پھر ان کے کناروں کو موڑ کر لکڑی کے ٹکڑوں سے کیلوں کے ذریعے باندھ دیا، ہر کیل پلاسٹک کی چادر کے دونوں اطراف میں باندھا گیا تاکہ وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹے، اس طرح کی چادریں پلاسٹک پر وزن ڈال کر اسے حرکت سے روک دیتی ہیں اور گرنے سے بچاتی ہیں، اس منصوبے کی لاگت زیادہ نہیں تھی اور یہ بارش کے پانی کے کمرے میں رسنے اور بستر پر گرنے کے مسئلے کا مناسب حل تھا، جس کی وجہ سے ہمیں سونے کے دوران اپنے بستروں کے درمیان برتن رکھنے پڑتے تھے تاکہ قطرے ان میں جمع ہو سکیں۔ جب میری ماں نے اس مسئلے پر میرے بھائی محمود سے مشورہ کیا اور اس کی لاگت معلوم کی، تو انہوں نے چھت پر پلاسٹک ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ محمود نے پلاسٹک، لکڑی کے ٹکڑے اور کیلیں خریدیں، اور ایک پڑوسی سے ہتھوڑا اور سیڑھی ادھار لی، میرے دونوں بھائی حسن اور محمد نے اس کام میں مدد کی۔ چھت پر پلاسٹک ڈالنا ہماری زندگی میں ایک حیران کن تبدیلی تھی، خاص طور پر سردیوں میں، ہم پانی کے رسنے اور برتنوں میں گرنے والی بوندوں کی آواز سے نجات پا گئے اور ہماری نیند پرسکون ہو گئی۔
جب میں تیسری جماعت میں پہنچا تو عموماً ہوتا یہ تھا کہ ایجنسی کے کلینک کا ڈاکٹر کبھی کبھار اسکول کا دورہ کرتا اور کلاسوں کا جائزہ لیتا، طالب علموں کی صحت کا معائنہ کرتا اور جسے واضح طور پر غذائی قلت اور جسمانی کمزوری نظر آتی، اس کا نام نوٹ کر لیتا۔ چند دنوں بعد ان طالب علموں کو ’کرونا‘ کے طور پر ایک کارڈ دیا جاتا جو انہیں پناہ گزینوں کے کیمپ میں موجود ایجنسی کے مرکز صحت میں ایک بار کھانے کی اجازت دیتا۔ اس بار ڈاکٹر آیا اور اسکول کا دورہ کیا، جب وہ ہماری کلاس میں داخل ہوا تو اس نے میرا نام پوچھا اور نوٹ کر لیا۔ مجھے معلوم ہوا کہ چند دنوں میں مجھے کھانے کا کارڈ ملے گا۔ جب میں نے وہ کارڈ حاصل کیا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا، ایسا لگا جیسے میرا سر چھت سے جا لگا ہو۔ میں کارڈ لے کر گھر واپس آیا اور اپنے بہن بھائیوں کو خوشخبری دی، فاطمہ کو بہت غصہ آیا اور وہ مجھ سے کارڈ چھیننے کی کوشش کرنے لگی اور چیخنے لگی کہ ہم غریب نہیں ہیں۔ میں نے مدد کے لیے اپنی ماں کو پکارا، جنہوں نے فاطمہ کو بلایا اور اسے سمجھایا کہ کارڈ لینے میں کوئی عیب نہیں ہے، ہم پناہ گزین ہیں اور یہ فطری بات ہے کہ بچوں میں سے کسی کو کھانے کا کارڈ مل جائے، ہم ویسے بھی ایجنسی کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں، گھر ایجنسی کا ہے، اسکول ایجنسی کے ہیں، صحت کی سہولتیں ایجنسی فراہم کرتی ہے، جب لوگوں کے گھر تباہ ہو گئے تو انہیں دوبارہ کس نے آباد کیا ؟ ایجنسی نے۔ اس پر فاطمہ مجبوراً خاموش ہو گئی، مگر یہ بات اس کی مرضی کے خلاف اور بغیر قائل ہوئے ہوئی۔
ہر روز کلاسوں کے دوران یا ان کے ختم ہونے کے بعد، سینکڑوں بچے اور بچیاں کھانے کے مرکز کی طرف دوڑتے، ہم ایک لمبی قطار میں کھڑے ہوتے اور اندر جانے کے لیے دھکم پیل، مداخلت اور لڑائی جھگڑے کرتے، کھانے کے مرکز کے اندر جاتے تو وہاں خاموش رہنا پڑتا کیونکہ کھانے کے مرکز کا انچارج میز کے پیچھے بیٹھا ہوتا۔ وہ ہر ایک سے اس کا کارڈ لیتا، اس پر آج کی تاریخ درج کرتا، اسے واپس کرتا اور ایک چھوٹی روٹی دیتا، پھر ایک اور کارکن ہمیں ایک پلیٹ دیتا جس میں مختلف قسم کے کھانے ہوتے، تین یا چار اقسام جن میں پھل یا مہلبیہ1 بھی شامل ہوتی، ہم وہ کھانا لے کر ہال میں جاتے جہاں میزیں اور کرسیوں پر بیٹھ کر وہ لذیذ کھانا کھاتے، پھر پلیٹ لے کر اسے کچن کی کھڑکی سے پھینک دیتے تاکہ وہ اسے دھو سکیں اور ہم باہر نکل جاتے۔ باہر کے دروازے پر ایک کارکن یا کارکنہ کھڑے ہو کر یہ دیکھتے کہ کہیں ہم کھانا چھپا کر تو نہیں لے جا رہے ہیں، کیونکہ وہ کھانا ہمارے لیے صحت کی بنیاد پر مخصوص ہوتا تھا، اگر کسی کو پکڑ لیا جاتا تو اس سے کھانا لے کر کچرے کے ڈبے میں ڈال دیا جاتا تاکہ وہ سیکھ سکے کہ اپنا کھانا اندر ہی کھانا ہے۔
میرا چچا زاد بھائی ابراہیم میرا سب سے عزیز دوست تھا اور ہم ہمیشہ ساتھ ہوتے تھے، ایک روز منگل کے دن ہم نے طے کیا کہ میں اس کے لیے آدھی روٹی میں کفتہ بھر کر دوں گا کیونکہ منگل کا دن کفتہ کے لیے مخصوص ہوتا تھا، میں اپنے ساتھ ایک چھوٹا سا نائلون کا تھیلا لے کر گیا، میں میز پر بیٹھا تھا اور ابراہیم دروازے کے قریب میرا انتظار کر رہا تھا، میں نے آہستگی اور بڑی احتیاط سے اپنی آدھی کفتہ کے حصے کو آدھی روٹی میں بھر کر نائلون کے تھیلے میں ڈال دیا اور اسے اپنی پتلون میں چھپا لیا، باقی کھانا کھا کر میں نے پتلون کا جائزہ لیا تاکہ تلاشی کے دوران کچھ ظاہر نہ ہو، میں نے پلیٹ کو باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا اور مؤدب بچے کی طرح تلاشی کے لیے دروازے پر کھڑی مس عائشہ کے پاس پہنچ گیا، میں نے اپنے ہاتھ سر کے اوپر اٹھا دیے، انہوں نے جلدی سے میری تلاشی لی اور میں باہر نکل گیا، میں نے ابراہیم کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھا اور پتلون میں ہاتھ ڈال کر آدھی روٹی نکالنے لگا، جیسے ہی روٹی میرے ہاتھ میں آئی، میں نے دیکھا کہ قریباً تیس بچوں کا ایک گروہ، جو ایک قریبی علاقے میں رہتا تھا اور جنہیں ہم ان کی زیادہ مشکلات کی وجہ سے ہیکسوس کہتے تھے، میری طرف بڑھ آیا، وہ میری روٹی چھیننے کی کوشش کر رہے تھے، میں نے اپنی پوری قوت سے دوڑنا شروع کر دیا اور کافی دور دوڑنے کے بعد مجھے لگا کہ میں ان سے دور ہو گیا ہوں، میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تاکہ یہ یقین کر سکوں کہ وہ رک گئے ہیں یا واپس چلے گئے ہیں، لیکن جیسے ہی میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ایک بڑا پتھر کسی نے میری آنکھ پر مار دیا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور آدھی روٹی میرے ہاتھ سے گر کر مٹی میں مل گئی، میں نے اسے اٹھانے کے لئے جھکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ میں نے کارڈ کو پکڑا اور امی امی چیختے ہوئے گھر کی طرف دوڑنے لگا، میں نے ایک لمبا فاصلہ طے کیا اور اپنی آنکھ پر ہاتھ رکھ کر گھر پہنچا، میری ماں نے خوف سے چیخ ماری اور میری آنکھ سے ہاتھ اٹھا کر دیکھا کہ کیا ہوا ہے، چیخ کر بولی : افسوس، بچے کی آنکھ گئی۔
اس نے اپنا دوپٹہ لیا اور مجھے کبھی گود میں اٹھا کر اور کبھی میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے ایجنسی کی کلینک کی طرف دوڑ پڑی، بڑی مشقت اور تکلیف کے بعد ہم کلینک پہنچے اور آنکھوں کے علاج کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک ماہر نرس موجود تھی۔ جب ہم پہنچے تو انہوں نے میری ماں سے کلینک کا کارڈ (راشن کارڈ) مانگا جسے دکھائے بغیر کسی کا علاج نہیں کیا جاتا اور کچھ معمول کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ لیکن میری ماں فکر اور خوف کی وجہ سے وہ کارڈ ساتھ لینا بھول گئی تھی، انہوں نے بہت منتیں کیں اور کوشش کی مگر بے سود، انہوں نے کہا کہ راشن کارڈ لے کر آؤ، بغیر اس کے بچے کا علاج نہیں ہو سکتا۔ میری ماں نے مجھے آنکھوں کے کلینک کے سامنے لکڑی کے بینچ پر بٹھا دیا اور کارڈ لانے کے لیے دوڑ پڑی تاکہ کلینک بند ہونے سے پہلے واپس آ سکے۔
جب نرس کو یقین ہو گیا کہ وہ واقعی کارڈ لینے گئی ہے، تو اس نے مجھے بلایا اور کرسی پر بٹھا دیا اور میری آنکھوں کا معائنہ شروع کر دیا، اس نے میری آنکھ پر ایک موٹا کپڑا (پٹی) رکھ دیا اور اسے چپکا دیا، میں اپنی ماں کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا، میری ماں واپس آئی تو وہ ہانپ رہی تھی اور لمبے فاصلے تک چلنے کی وجہ سے تھکی ہوئی تھی، انہوں نے رجسٹریشن کی تمام کاروائیاں مکمل کر لیں اور نرس سے میری آنکھ کے بارے میں تسلی کر لی کہ وہ ٹھیک ہے، پھر میری ماں نے محبت سے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم گھر واپس آ گئے۔
میرا مسئلہ اور میری ماں کا مسئلہ اس وقت صرف میری آنکھ کی چوٹ نہیں تھی بلکہ یہ تھا کہ میری بہن فاطمہ نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور کھانے کا کارڈ پھاڑ دیا۔ اس طرح جیسے اس نے میری دوسری آنکھ پھوڑ دی ہو کیونکہ اس نے مجھے کھانے سے محروم کر دیا تھا۔ ہماری مالی حالت اس دور میں درمیانی تھی، کچھ لوگ ہم سے آگے بڑھ گئے تھے کیونکہ ان کے خاندان کے سربراہ مقبوضہ زمینوں میں کام کرتے تھے، اور کچھ لوگ ہم سے بہت پیچھے تھے، جیسے ہماری پڑوسن ام العبد کی فیملی۔ وہ چار بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں تھی اور ان کا کوئی کفیل نہیں تھا، ان کے شوہر 1967ء میں شہید ہو گئے تھے اور اپنے بچوں اور بیوی کو (ان کی ماں کے بقول) بے یار و مدد گار چھوڑ گئے تھے۔
اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی زندگی کے زیادہ تر پہلوؤں کا احاطہ کرتی تھی، لیکن کچھ گوشے ایسے تھے جن کے لیے مالی امداد کی ضرورت تھی، جو ایجنسی فراہم نہیں کر سکتی تھی، ام العبد کو اپنی فیملی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر جائز ذریعہ استعمال کرنا پڑتا تھا، اس کے بیٹے ہر جمعہ کو خالی بورے لے کر 1948ء کی حدود کے قریب ایک علاقے میں جاتے تھے جہاں یہودی بستیوں کا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا، وہاں سے پرانے جوتے، استعمال شدہ ڈبے، خالی بیئر کی بوتلیں اور جو کچھ بھی بیچنے یا استعمال کرنے کے قابل ہوتا تھا، جمع کرتے تھے اور انہیں اپنے بوروں میں ڈال کر واپس لاتے تھے۔
ان کی ماں بوتلوں کو اچھی طرح دھوتی اور انہیں ایک عورت کو بیچ دیتی تھی، جو کلینک کے سامنے بیٹھ کر انہیں فروخت کرتی تھی۔ لوگ انہیں خرید کر کلینک سے حاصل کردہ دوائی ڈالنے کے لیے استعمال کرتے تھے، وہ جوتے صاف کرتی اور جوڑوں میں بیچ دیتی تھی، جو انہیں بازار میں فروخت کر دیتا تھا۔ اسی طرح وہ ہر صبح کھانے کی تقسیم کے مقام پر جاتی تھی اور ان عورتوں سے دودھ خریدتی تھی جنہیں وہ استعمال نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اس دودھ سے وہ جمید (نیم سخت دہی) بناتی تھی اور اسکول کے دروازے پر بیٹھ کر بچوں کو بیچتی تھی۔ جب بچوں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے، تو وہ انہیں روٹی کے ٹکڑوں کے بدلے فروخت کرتی تھی۔ وہ اس روٹی میں سے اپنے خاندان کے لیے ضرورت کی روٹی رکھ کر باقی فروخت کر دیتی تھی، تاکہ تھوڑا تھوڑا پیسہ جمع کر سکے اور اپنے بچوں کی ضروریات پوری کر سکے۔ وہ اپنی قسمت سے خوش اور مطمئن تھی اور بچوں کی پرورش اپنی جان کی بازی لگا کر کر رہی تھی۔
میرے بھائی محمود کا قاہرہ یونیورسٹی میں انجینئرنگ کالج میں داخلہ ہو گیا۔ جس دن ہمیں اس کا علم ہوا، ہم نے معمول کے مطابق اس کا جشن منایا، چیخ و پکار کی اور محمود پر حملہ کر کے اسے مارا پیٹا اور چٹکی کاٹی۔ ہماری ماں نے اس کے لیے حلبہ کی مٹھائی تیار کی اور مبارکباد دی اور مبارکبادیں وصول کیں۔ محمود نے مصر جانے کی تیاری شروع کر دی۔ سبزی کی دکان کو جاری رکھنا ضروری تھا کیونکہ اس سے آنے والے سالوں کی تعلیم کے اخراجات پورے ہونے تھے، اس لیے اسے اپنی پڑھائی اور اسکول کے وقت کے مطابق اس کا انتظام کرنا تھا۔ یہ یقیناً محمود کے مصر جانے کے آخری دن سے پہلے تک تھا، کیونکہ وہ اپنے سفر کے دن تک اپنے کام میں مگن رہا، اور مجھے اپنے چچا کے کارخانے میں اپنے بھائی محمد کے ساتھ صفائی اور ترتیب میں اپنی باری لینی پڑی۔ مصر جانے سے پہلے، ہماری ماں نے اس کے لیے بہت سی چیزیں تیار کیں جو اس نے اپنے ساتھ لے جانی تھیں۔ اس کے لیے کچھ زیتون کا تیل، چائے، خشک ملوخیا، خشک بھنڈی اور اسی طرح کی دوسری چیزیں تیار کیں۔ انہوں نے اپنی جمع شدہ رقم سے مصری پاؤنڈز خریدے اور محمود نے انہیں ایک درزی کے پاس لے گیا جس نے انہیں پتلون کے کپڑے کے اندر بیلٹ میں ڈال دیا اور کپڑے پر سلائی کر دی، تاکہ محمود مصر میں اپنے اخراجات لے جا سکے۔ کیونکہ یہودی کسٹمز اہلکار پیسہ ضبط کرتے ہیں اور مسافروں کو مصر لے جانے سے روکتے ہیں۔
محمود ریڈ کراس کے دفتر بار بار گیا جو قبضے کے حکام اور مصری حکام کے درمیان طلباء کے غزہ سے مصر سفر اور واپسی کے عمل کو منظم کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اسے اپنے سفر کی تاریخ معلوم ہوئی، اسے دوسرے طلباء کی طرح سرايا میں انٹیلی جنس کے شعبے میں جانا پڑا، جہاں ان سے تفتیش کی گئی اور تنظیم کے ساتھ کام کرنے سے متنبہ کیا گیا اور جسے وہ بھرتی کر سکتے تھے، کرنے کی کوشش کی گئی۔ مصر جانے سے ایک رات پہلے ہم سب اس کے ساتھ زیادہ دیر تک جاگتے رہے جتنا ہم عادی تھے کیونکہ وہ ہم سے رخصت ہونے والا تھا۔ اور تقریباً ایک سال تک اس نے ہم سے دور رہنا تھا۔ یہ رات ہنسی، رونے، خوشی اور غم کے جذبات کا ایک عجیب امتزاج تھی اور خاص طور پر میری ماں کی ہدایات اور احکامات سے بھری ہوئی تھی۔
صبح ہم جلدی اٹھ گئے، میری ماں نے دو بڑے استعمال شدہ بیگ تیار کیے تھے، جو محمود نے خریدے تھے، جس میں اس نے تمام چیزیں اور سامان رکھا تھا۔ میرے بھائی حسن نے ایک بیگ اٹھایا اور میرے چچا زاد حسن نے دوسرا بیگ اٹھایا اور میری ماں ان کے ساتھ محمود کو الوداع کہنے نکلیں۔ ہم نے اسے گلی کے کنارے تک الوداع کہا، اور اداس دلوں کے ساتھ واپس لوٹ آئے، کیونکہ ہم نے اب اچھی طرح سمجھنا شروع کر دیا تھا کہ پیاروں کی جدائی کا کیا مطلب ہے۔
انہوں نے اسے ریڈ کراس کے دفتر تک پہنچایا جہاں بہت سے لوگ اپنے بچوں کو الوداع کہنے آئے تھے۔ طلباء بسوں کے اندر انتظار کر رہے تھے اور والدین ان کے سامنے دور سے ان کو ہاتھ ہلا رہے تھے۔ پھر بسیں روانہ ہو گئیں اور والدین ہاتھ ہلاتے رہے یہاں تک کہ بسیں نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ محمود کے سفر کے چند دن بعد ہماری ایک پڑوسن آئی اور شکایت کی کہ میرا چچا زاد حسن اس کی بیٹیوں کو تنگ کر رہا ہے۔ میری ماں شرمندگی سے سرخ ہو گئیں اور وعدہ کیا کہ اس معاملے کا حل نکالیں گی۔ میرے دادا بیماری اور بڑھاپے کی وجہ سے بستر پر تھے، اور محمود مصر جا چکا تھا، گھر میں صرف حسن سے چھوٹے بچے تھے جن پر قابو پانا مشکل ہو گیا تھا۔ اس لیے میری ماں نے حیلہ اور قائل کرنے کا سوچا۔
جب شام کا وقت آیا تو اس نے حسن کو بلایا اور بیٹھ کر بات کرنے لگی۔ (میرے پیارے، پڑوسی کا حق اور تمہارے شہید والد کی عزت، خاندان کی عزت، ہماری ساکھ اور ہماری عزت) آخر میں حسن نے وعدہ کیا کہ وہ پڑوسی کی بیٹی کے قریب نہیں جائے گا، اس نے پوچھا : کیا یہ پکا وعدہ ہے، حسن؟ حسن نے کہا : وعدہ پکا ہے چچی ۔
چند دنوں بعد، پڑوسن کانپتی ہوئی واپس آئی اور گھر میں چیختی ہوئی داخل ہوئی : اے ام محمود، اس لڑکنے نے لڑکی کو سڑک پر پکڑا اور اس پر ہاتھ ڈال دیا۔ میری ماں غصے سے بھر گئیں اور اس کو تسلی دینے کی کوشش کی اور اسے یہ کہتی ہوئی گھر کے اندر لے آئیں کہ ام العبد، تم جانتی ہو کہ نہ تمہارے ہاں اور نہ میری طرف کوئی مرد ہے جو اس کو سدھار سکے، اللہ جانتا ہے کہ تمہاری بیٹیاں میری بیٹیوں جیسی ہیں۔ آؤ سوچتے ہیں کہ اس لڑکے کو کیسے روکا جائے۔ ہم بیٹھ گئے اور میری ماں نے تجویز دی کہ وہ اسے سوتے وقت باندھ دے اور وہ اور لڑکے اسے ماریں گے۔ اگر اس نے دوبارہ ایسا کیا تو وہ فدائیوں سے مدد لیں گی اور اس کا ہاتھ اور ٹانگ توڑ دیں گے۔
میری ماں نے رسی اور لاٹھی تیار کی اور جب حسن واپس آیا اور کھانا کھا کر سونے چلا گیا تو میری ماں اور میرے بھائی حسن اور محمد نے اس کے سو جانے کا اطمینان کر لیا، پھر میری ماں نے آہستہ سے اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ دیے۔ پھر انہوں نے دادا کو جگایا اور انہیں حسن کی حرکت کے بارے میں بتایا۔ دادا کانپتے ہوئے کہنے لگے، اللہ تمہارا چہرہ کالا کرے حسن، اللہ تمہارا چہرہ کالا کرے حسن! اسے مارو اس کے ہاتھ اور ٹانگیں توڑ دو۔ حسن جاگ گیا اور خود کو بندھا ہوا پایا تو وہ دھمکیاں دینے لگا۔ پھر لاٹھی اس کی پسلیوں پر پڑنے لگی، وہ گالیاں دینے لگا اور دھمکیاں دیتا رہا۔ انہوں نے اسے خوب پیٹا اور میری ماں نے اسے سمجھایا کہ انہوں نے یہ سب گھر کے اندر کیا تاکہ بدنامی نہ ہو، اور اگر وہ دوبارہ سعاد کو تنگ کرے گا تو وہ فدائیوں کو بتائیں گی اور ان سے کہیں گی کہ اس کے ہاتھ اور ٹانگ توڑ دیں۔ پھر اسے صبح تک بندھا ہوا چھوڑ دیا اور میرے چچا زاد ابراہیم سے کہا کہ اسے کھول دے۔
ابراہیم اچھا، فرمانبردار، ذہین اور پڑھائی میں محنتی تھا، وہ گیا اور اپنے بھائی کی رسیوں کو کھول دیا، تو حسن نے اسے مارا اور دھمکیاں دینے لگا۔ پھر وہ ہمارے کمرے کی طرف بڑھا تاکہ ہماری ماں کو دھمکائے اور خوف زدہ کرے۔ ماں نے اس پر چیخ کر کہا :ہوش میں آؤ، تم سمجھتے ہو کہ تم مجھے ڈرا سکتے ہو؟ تم ایک ناکارہ ہو، اور ناکارہ کسی کو نہیں ڈراتے۔ اور تم کبھی آدمی نہیں بنو گے، نہ ہی مرد۔ حسن غصے میں گرجا اور ماں کی طرف بڑھا اور انہیں دھکیل دیا تو وہ زمین پر گر گئیں۔ ہم سب بچے اور بچیاں حسن پر حملہ آور ہو گئے، اسے زمین پر گرا دیا اور مارا، اس کے بال نوچ لیے اور اسے کاٹا۔ حسن لاتیں مارتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے گھر سے باہر نکل گیا، حسن چلا گیا اور واپس نہیں آیا۔ ہم نے اس کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں (اسرائیل کے اندر) چلا گیا ہے اور وہاں کام کر رہا ہے اور اس نے دوبارہ پڑھائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دادا کی صحت بگڑ گئی اور انہوں نے اپنی روح اللہ کے سپرد کر دی۔ ہم نے انہیں آنسوؤں اور رونے کے ساتھ الوداع کہا، اللہ ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ دادا اس بات کو جانے بغیر فوت ہو گئے کہ والد کا کیا ہوا جو پانچ سال سے زیادہ عرصہ سے غائب تھے نہ ہی انہوں نے اپنے پوتے کو دیکھا جو غزہ سے بھاگ کر اسرائیل میں کام کرنے چلا گیا تھا، اور نہ ہی محمود ان کے پاس تھا۔ لیکن ہم نے اپنا فرض ادا کیا اور پڑوسیوں نے ہمارا ساتھ دیا۔ مہاجر کیمپ خوشی اور غم میں ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭
1 مہلبیہ ایک مشہور مشرقی میٹھا ہے جو عرب ممالک، ترکی، ایران اور برصغیر پاک و ہند میں بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کی دودھ کی کھیر ہے جو عام طور پر دودھ، چینی، چاول کا آٹا یا کارن فلور اور خوشبو دار اجزاء جیسے کہ عرق گلاب یا الائچی کے ساتھ تیار کی جاتی ہے۔