پچھلے پندرہ مہینوں میں غزہ میں دنیا نے ایسے ایسے دل سوز مناظر دیکھے کہ زمین کانپ اٹھے اور آسمان پھٹ جائے، لیکن آفرین ہے فلسطین کے بہادر اور جری، باہمت اور پرعزم مسلمانوں پر کہ انہوں نے استقامت، سرفروشی اور بہادی کی ایسی مثال پیش کی کہ مشرق و مغرب کے انسانوں کو حیران کر دیا۔ جس طرح ان کے قائدین نے عام مجاہدین کے ساتھ مل کر صفِ اوّل میں لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، اسباب کی قلت کے باوجود بہترین حکمتِ عملی اور اقبال کے شاہین کے مصداق ’جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا ‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی مدد و نصرت سے صہیونیوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔
وہ دہشت گرد اسرائیل جس نے ۸ اکتوبر سے حماس کو ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ جنگ شروع کی، غزہ کا محاصرہ کر کے، ہر طرح کی رسد بند کر کے، پندرہ ماہ تک ہر طرح کے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا، لیکن بالآخر اسی حماس سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ظالم کو تمام تر طاقت کے باوجود پوری دنیا کے سامنے ذلیل و رسوا کیا۔
جنگ بندی شروع ہوتے ہی حماس نے بھرپور انداز میں پاور شوکیا اور پورے جاہ و جلال کے ساتھ غزہ کی سڑکوں پر دوبارہ نمودار ہو گئے۔ غزہ کے لوگوں کی خوشی دیدنی تھی اور ان کے نعروں نے دشمن کو یہ پیغام دیا کہ فلسطینی مسلمان صہیونی قابضین سے اپنی زمین واپس لینے اور قبلۂ اوّل کے تقدس کو بحال کرنے تک ہار نہیں مانیں گے۔ حالانکہ اس پوری جنگ میں حماس نے بہت سے قائدین کی قربانی دی لیکن جس منظم انداز میں حماس اس وقت ابھری ہے اس نے مغربی دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ حماس نے قیدیوں کے تبادلے میں جس منظم انداز میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا، اس نے دشمن کو پیغام دیا کہ حماس ایک نظریے کا نام ہے جو ہر فلسطینی کے دل میں بستی ہے اور اسے ختم کرنا ناممکن ہے۔
جنگ بندی معاہدہ
غزہ جنگ بندی معاہدہ ،جس میں قطر، مصر اور امریکہ نے ثالث کا کردار ادا کیا، تین مراحل پر مشتمل تھا۔
پہلا مرحلہ
معاہدے کے مطابق ۱۹ جنوری ۲۰۲۵ء سے شروع ہونے والا پہلا مرحلہ چھ ہفتوں پر مشتمل تھا۔ اس میں قابض صہیونی ریاست کی طرف سے مکمل جنگ بندی طے تھی اور اس مرحلے میں غزہ کی آبادی واپس اپنے گھروں کو لوٹ گئی، خصوصاً شمالی غزہ کی آبادی۔
اسرائیلی قیدی جنہیں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حملے میں حماس نے قیدی بنایا، ان میں سے ۳۳ افراد کو اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کے تبادلے میں رہا کیا گیا۔ یہ ۳۳ افراد عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور مریضوں پر مشتمل ہیں۔
غزہ کے اندر، خصوصاً شمال، جو غذائی اور ادویات کی قلت کے باعث قحط اور ایمرجنسی صورتحال کا شکار ہے، یومیہ چھ سو امدادی ٹرک آنے کی اجازت طے ہوئی جس میں غذائی و طبی ساز و سامان، خیمے، ایندھن اور ملبہ اٹھانے والی بھاری مشینری شامل تھے لیکن اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
دوسرا مرحلہ
پہلے مرحلے کے شروع ہونے کے سولہویں دن دوسرے مرحلے کو حتمی شکل دینے کے لیے مذاکرات کا آغاز کیا جانا تھا۔ دوسرے مرحلے ے متعلق یہ طے ہوا تھا کہ باقی ماندہ اسرائیلی قیدی ہزاروں فلسطینی قیدیوں کے تبادلے میں رہا کیے جائیں گے، اور اس مرحلے میں اسرائیلی قابض فوج غزہ کی سرزمین سے نکل جائے گی اور مزید امدادی سامان غزہ میں پہنچایا جائے گا۔
تیسرا مرحلہ
تیسرا مرحلہ فلسطین کی تعمیر نو کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے اور ان پر عمل درآمد کرنے سے متعلق تھا۔
لیکن جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی اور اسرائیل کی بد نیتی بھی واضح نظر آ رہی تھی یہ معاہدہ پہلے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اور پہلے مرحلے کے اختتام پر مقبوضہ صہیونی ریاست نے ٹرمپ کی شہ پر دوسرے مرحلے کی طرف پیش قدمی سے انکار کر دیا۔ اور حماس پر، قیدیوں کو رہا کروانے کے لیے ، دباؤ ڈالنے کے لئےغزہ میں آنے ولی امداد مکمل طور پر روک لی۔
نیتن یاہو کا دورۂ امریکہ اور ٹرمپ کی ہرزہ سرائی
شکست خوردہ نیتن یاہو، پندرہ ماہ مسلط کردہ جنگ کے بعد بھی جنگ کا کوئی ایک ہدف بھی حاصل نہ کر پایا، جبکہ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں چھ ہزار صہیونی قابض فوجی جہنم واصل ہوئے اور ہزاروں معذور ہو کر غزہ سے نکلے، جبکہ ناصرف ان کی بزدل فوج کا مورال گرا بلکہ فوجیوں کے اندر خودکشیوں کی شرح میں بہت اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ دورانِ جنگ ایک غیر سرکاری تحقیق کے مطابق پانچ لاکھ اسرائیلی فوجی اور شہری ’پی ٹی ایس ڈی‘ کا شکار ہوئے۔
قیدیوں کے لواحقین کے پرزور دباؤ اور فوج کی حالت دیکھ کر نیتن یاہو سیز فائر کے لیے راضی تو ہو گیا لیکن اس کی نیت اس جنگ بندی کو زیادہ عرصے جاری رکھنے کی نہیں، جیسا کہ نیتن یاہو کی کابینہ کے وزراء بار بار اس بات کو دہرا رہے ہیں کہ جنگ بندی پہلے مرحلے سے آگے نہیں بڑھے گی، اور اس جنگ بندی کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ اسرائیلی قیدیوں کو واپس لانا ہے، تاکہ اندرونی طور پر دباؤ کچھ کم ہو سکے۔
فروری کے شروع میں نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے موقع پر ٹرمپ نے اپنی طاقت کے زعم میں غزہ پر قبضہ کر کے وہاں کے لوگوں کو فلسطین سے جبری بے دخل کرنے کے ایسے منصوبے کا اعلان کیا کہ اقوام عالم بھی ششدر رہ گئیں۔ ٹرمپ کے اس جارحانہ، ناقابل قبول، ناقابلِ عمل اور ماوراء العقل منصوبے کے مطابق غزہ کی پٹی سے غزہ کے شہریوں کو زبردستی بے دخل کر دیا جائے کیونکہ ٹرمپ کے مطابق غزہ رہنے کے قابل نہیں اور امریکہ اس کو لیول کر کے رہنے کے قابل بنائے گا۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ غزہ کے شہریوں کو اپنے ملک میں آباد کریں تاکہ ٹرمپ غزہ کی تعمیر نو کر کے اسے ’رایویرا آف مڈل ایسٹ‘ 1(Riviera of Middle East) بنا دے۔
ٹرمپ کا مقصد فرینچ رایویرا کے طرز پر غزہ کو ایک عالی شان سیاحتی مقام میں تبدیل کرنا ہے جہاں دنیا کے امیر ترین لوگ سیر و سیاحت اور عیاشی کے لیے آئیں۔
ٹرمپ ابھی حال ہی میں دوبارہ صدر بنا ہے اور خود کو دنیا کا سب سے طاقتور انسان سمجھتا ہے۔ شاید بہت سوں کے نزدیک ایسا ہو بھی، لیکن اب دنیا یک قطبی (یونی پولر) نہیں رہی۔ دنیاوی اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ کے مقابلے میں چین ایک بہت بڑی طاقت کی صورت میں کھڑا ہے اور ہر سطح پر خصوصاً معاشی اور تجارتی سطح پر امریکہ کے مد مقابل آگیا ہے۔ ٹرمپ کا یہ زعم اس کے پچھلے دورِ صدارت میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ تب بھی اس نے افغانستان کے حوالے سے خوب ڈینگیں ماریں اور بلند و بانگ دعوے کیے لیکن اپنے دورِ صدارت کے آخر میں خود ہی اس نے افغانستان سے دم دبا کر بھاگنے میں عافیت جانی۔ بالکل اسی طرح ان شاء اللہ ٹرمپ کا یہ منصوبہ ایک ناقابل عمل اور مضحکہ خیز خیال ثابت ہو گا۔ جن فلسطینیوں نے ڈیڑھ سال مسلسل امریکی بموں کی گھن گرج، بھوک و پیاس اور بنیادی ضروریات کے بغیر صبر سے گزارے لیکن ان کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی، وہ اپنا حقیقی وطن کبھی نہیں چھوڑیں گے ان شاء اللہ۔ ایک نکبہ سے وہ سبق سیکھ چکے ہیں، دوسرا نکبہ دہرانے نہیں دیں گے۔
ٹرمپ کے اس منصوبے کو سراہتے ہوئے اسرائیل نے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے اختتام پر دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے بجائے پہلے مرحلے کی عارضی توسیع کا یک طرفہ اعلان کیا۔ ساتھ ہی حماس کو دھمکیاں دیں کہ اسی پہلے مرحلے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کو یک بارگی رہا کر دیا جائے ورنہ جنگ دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ دراصل اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ اپنے قیدیوں کو مکمل جنگ بندی کے بغیر ہی آزاد کروا لیں تاکہ دوبارہ اہلیانِ غزہ پر جنگ مسلط کرکے انہیں انکی سرزمین سےبزور بےدخل کر دیا جائے اس سلسلے میں امریکہ نے ۱۲ بلین ڈالر کے ہتھیار اسرائیل کو سپلائی کرنے کی منظوری دی ہے ۔
حماس نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی اور یہ واضح کیا کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی صرف جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں نیتن یاہو اور ٹرمپ نے باری باری حماس اور اہلیانِ غزہ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔
مصر کا تجویز کردہ پلان
ٹرمپ کی اس بھونڈی تجویز نے نہ صرف غزہ کے مکینوں بلکہ خطے کے ممالک میں بھی ہلچل مچا دی اور سب نے ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ ٹرمپ کا غزہ پلان دراصل غزہ کی تعمیر نو کو عرب ممالک کے ذمہ ڈالنا تھا۔ تاکہ امریکہ کو یہاں اربوں ڈالر خرچ نہ کرنے پڑیں اور اگر یہ تجزیہ درست ہے تو ٹرمپ اس مقصد میں کامیاب بھی ہو گیا کیونکہ اس کے نتیجے میں عرب ممالک فورا متحرک ہو گئے ۔
عرب لیگ کے اجلاس بلائے گئے اور ٹرمپ کی تجویز کے مدمقابل ۴ مارچ کو ہونے والے اجلاس میں مصر نے غزہ کی تعمیر نو سے متعلق اپنا ترتیب دیا ہوا لائحہ عمل پیش کیا۔ جس کو تمام عرب ممالک نے متفقہ طور پر منظور کیا۔
مصر کے صدر السیسی نے، جنگ بندی کے بعد غزہ کی تعمیر نو کی لیے، ۳۵ بلین ڈالر کا منصوبہ پیش کیا ہے، جو تین مراحل پر مشتمل ہے۔ لیکن اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حماس کو غزہ کے حکومتی اور انتظامی نظام سے بالکل بے دخل کر دیا جائے اور وہاں کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کےٹیکنو کریٹس کے ہاتھ میں ہو۔ اس حوالے سے حماس کی قیادت نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کی تعمیر نو اور اہلیانِ غزہ کی سلامتی کے لیے حکومت سے سبکدوش ہونے پر راضی ہیں۔
اس منصوبے کے مطابق اقوام متحدہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور عرب ممالک کی امداد کے ذریعے غزہ میں پہلے پرحلے میں ملبہ اٹھایا جائے گا، ساتھ ہی لاکھوں موبائل گھروں میں وہاں کے رہائشیوں کو منتقل کیا جائے گا اور پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ چھ ماہ کے اندر دو لاکھ گھر تعمیر کیے جائیں گے اور ساٹھ ہزار عمارتیں مرمت کی جائیں گی۔
دوسرا مرحلے میں بیس بلین ڈالر کی مالیت درکار ہوگی جس میں مزید اداروں، گھروں، سڑکوں کی تعمیر اور بنیادی سہولیات کی باقاعدہ فراہمی شامل ہو گی۔ دوسرا مرحلہ ۳۰ مہینوں (ڈھائی سال)پر محیط ہو سکتا ہے، اس کا دارومدار مالی وسائل اور کام کی رفتار پر ہو گا۔
تیسرے مرحلے میں وہاں باقاعدہ حکومتی نظام قائم کیا جائے گا ۔
مغربی کنارے کے کشیدہ ہوتے حالات
غربِِ اردن کا فلسطینی علاقہ جو مغربی کنارہ یا ویسٹ بینک کہلاتا ہے، باقی ماندہ فلسطین پر صہیونیوں کے قبضے کے بعد فلسطینیوں کے پاس غزہ کے علاوہ بچا ہوا دوسرا علاقہ ہے جس کا غزہ کے ساتھ کوئی زمینی ربط موجود نہیں، اور جہاں غزہ ہی کی طرح ایک بہت بڑی آبادی مہاجر کیمپوں میں آباد ہے۔ یوں تو سات اکتوبر ۲۰۲۳ء کے حملوں کے بعد صہیونی قابضین نے مغربی کنارے پر بھی اپنی در اندازی شروع کر دی تھی لیکن غزہ میں جنگ بندی شروع ہوتے ہی اسرائیل نے تباہی و بربادی کا وہی فارمولا مغربی کنارے پر بھی لاگو کر دیا۔ وہاں بڑے پیمانے پر آپریشنز شروع کر دیے اور نا صرف آئے روز بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے بلکہ الجزیرہ کے مطابق اب تک چالیس ہزار لوگوں کو بے گھر کر کے ان کے گھر یا تو بمباری سے تباہ کر دیے ہیں یا بلڈوز۔ طولکرم کے مہاجر کیمپ کی ہی ۸۵ فیصد مہاجر آبادی کو بے گھر کر دیا گیا ہے، جبکہ وہاں مجاہدین سے بھی جگہ جگہ جھڑپیں جاری ہیں۔ وہاں جاری اسرائیلی دہشت گردی کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قریب بیس سال بعد صہیونی فوجوں نے وہاں ٹینکوں سے چڑہائی کی ہے۔
غزہ کے حالات کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے کے حالات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جہاں صہیونیوں نے نہ صرف آپریشنز کے نام پر تباہی مچا رکھی ہے بلکہ صہیونی آباد کاروں کو بھی نیتن یاہو کی حکومت نے فری ہینڈ دے رکھا ہے اور وہ تیزی سے فلسطینیوں کی املاک اور گھر بار ہتھیا رہے ہیں۔ صہیونی طاقتیں تیزی سے فلسطینیوں کو فلسطین سے بے دخل کرنے اور نسل کشی کرنے کی طرف بڑھ رہی ہیں جبکہ مسلم حکمران اس سب صورتحال پر بھی خاموش ہیں۔
ماہ رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی صہیونی دہشت گردوں نے وہاں کی مساجد پر حملے شروع کر دیے۔ الجزیرۃ کے مطابق رمضان المبارک میں اب تک آٹھ مساجد پر حملے کیے جا چکے ہیں جہاں مسلمانوں کو نماز سے روکا گیا جبکہ کچھ مساجد کو آگ لگا دی گئی۔ سب سے اہم بات یہ کہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ میں داخلے کے لیے صرف ۵۵ سال سے اوپر عمر کے مردوں اور ۵۰ سال سے اوپر عمر کی خواتین کو رسائی دی گئی جبکہ مسجد اقصیٰ کمپاؤنڈ میں موجود مسجد ابراہیمی میں نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا جو کہ بیت المقدس کے حوالے سے ’سٹیٹس کو‘ معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔
تازہ صورتحال
غزہ اور باقی فلسطین کی صورتحال بہت مخدوش اور غیر یقینی ہے جو دن بدن تیزی سے تبدیل بھی ہو رہی ہے۔ جنگ بندی میں بھی اسرائیل کی طرف سے مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک غاصب اسرائیلی فوج نے ۹۶۲ بڑی خلاف ورزیاں کی ہیں جن میں۹۸ افراد کو شہید اور ۴۹۰ کو زخمی کیا اور دوبارہ امدادی ٹرکوں کا غزہ میں داخلہ روک دیا گیا۔ آئے روز کسی بھی شہری کو ہراساں کیا جاتا ہے اور کسی بھی شہری کو گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں ہزاروں بے گناہ فلسطینی قید ہیں جنہیں اذیت ناک تشدد کا شکار کیا جاتا ہے۔
ماہ رمضان المبارک شروع ہوتے ہی نیتن یاہو نے فلسطین میں داخل ہونے والی بین الاقوامی امداد اور بنیادی ضروریات کا داخلہ مکمل طور پر روک دیا۔ جس کی وجہ سے خوراک، ادویات اور بنیادی وسائل کی پہلے سے ہی کمی کا شکار اہلیانِ غزہ میں بہت پریشانی اور بےچینی بڑھ گئی ہے۔
اسرائیل نے یہ حرکت ٹرمپ کے پلان کو آگے بڑھانے کے نقطہ نظر سے کی ہے اور اسے ٹرمپ کی مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ مزید ساتھ دینے کے لیے ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں نہ صرف حماس بلکہ اہلیان غزہ کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو انہیں بہت خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
غزہ پر جاری ظلم اور مقبوضہ فلسطین میں آپریشن کے نام پر لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر کے ان کی املاک تباہ کر دینا، شام اور لبنان میں بڑھتا ہوا قبضہ، ناجائز ریاست کے ’گریٹر اسرائیل‘ کے خواب کی تکمیل کے لیے کیے جانے والے اقدامات ہیں اور اللہ نے اب تک صرف فلسطین کے غیور مسلمانوں کو یہ اعزاز بخشا ہے کہ تن تنہا غاصب صہیونیوں کا مقابلہ کر کے جرأت و بہادری کی مثال قائم کر رہے ہیں، جبکہ امت مسلمہ کو اپنے ہی جھمیلوں سے فرصت نہیں اور ان کے منافق حکمران اپنی کرسیاں اور اپنی گردنیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ ایسے میں پوری دنیا کی جہادی تحریکات کے لیے ضروری ہے کہ وہ بیت المقدس کی سلامتی اور فلسطینی بھائیوں کی آزادی کے لیے بڑے اقدام کریں۔ کیونکہ یہی واحد طبقہ ہے جس سے کوئی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭
1 رایویرا (Riviera) کی اصطلاح فرانس اور اٹلی کے بعض ساحلی سیاحتی مقامات کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں ریزورٹس، کسینوز(قمارخانے)، اور سیاحوں کی عیاشی کے لیے قحبہ خانے موجود ہوتے ہیں۔