مسجد کا قیام
۱۵۲۸ – ۱۵۲۹ء میں سلطنتِ مغلیہ کے مؤسس، ظہیر الدین محمد بابر کے حکم پر، بابر کے تابع فرمان اور ریاستِ اَوَدھ کے والی میر باقی تاشقندی نے، ضلع فیض آباد کے شہر ایودھیا میں ایک مسجد تعمیر کروائی، جسے بابر ہی کے نام کی نسبت سے’بابری مسجد‘ پکارا گیا۔
فنِ تعمیر؍ Architecture
اس مسجد کا طرزِ تعمیر ’سلطنتِ دہلی‘ کے شاہان کے انداز کا ہے۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے یہ تغلقوں کی بنائی مساجد کی نقل ہے۔ اس انداز کی مساجد پورے ہندوستان (برِّ صغیر) میں پائی جاتی ہیں۔مغلوں، تغلقوں، خلجیوں، سوریوں…… سب نے ہی اسی طرزِ تعمیر کو برِّ صغیرمیں پروان چڑھایا۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ جس زمانے میں برِّ صغیر کے اندر قلعے، محلات اور مساجد و منارے بنائے جا رہے تھے، اس وقت اہلِ یورپ فن و سائنس کا بلند زینہ چڑھ رہے تھے۔ جانتے بوجھتے یہ بات کرنا ایک تاریخی خیانت ہے۔ اسی کا ایک ثبوت خود بابری مسجد کا طرزِ تعمیر ہے۔ یاد رہے کہ بابری مسجد آج سے پانچ سو سال پہلے تعمیر کی گئی تھی۔ فنِ تعمیر کے لحاظ سے دو باتیں اس مسجد کا امتیازِ خاص ہیں۔
پہلا امتیاز: علمِ صوت کے اعتبار سے تعمیر
بابری مسجد کو تعمیر کرتے ہوئے اس کی دیواروں اور محراب میں کچھ’خلا‘ رہنے دیا گیا اور ایسے بھربھرے پتھر کا استعمال کیا گیا جو آواز کو جذب نہیں کرتا، بلکہ آواز اس سے ٹکرا کر آگے کو پھیل جاتی ہے، یعنی ایک گونج پیدا ہوتی ہے۔برِّ صغیر پر قابض دشمن، گورنر جنرل آف انڈیا ’لارڈ ولیم بنٹنک‘ کا ماہرِ فنِ تعمیرات ’گراہم پِک فورڈ‘ کہتا ہے کہ ’’بابری مسجد کے محراب میں کی گئی سرگوشی ، مسجد کے آخری کونے تک واضح سنائی دیتی تھی۔ یہ آواز لمبائی اور چوڑائی دونوں میں پھیلتی ہوئی ہر طرف واضح قابلِ سماعت ہوتی۔ بابری مسجد کے دو کونوں کے درمیان دو سوفٹ یا ساٹھ میٹر کا فاصلہ تھا۔‘‘۔ انگریز دشمن خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’سولہویں صدی میں تعمیر کی گئی عمارت کے اعتبار سے منبر سے لےکر باقی مسجد تک آواز کا پھیلاؤ مدارجِ ترقی میں اپنے زمانے سے آگے کی بات ہے، اس تعمیر میں آواز کے پھیلاؤ کا انداز دیکھنے والے کو حیران کر دے گا‘‘۔
دوسرا امتیاز: ہوا کی آمد و رفت کا انتظام
بابری مسجد میں ہوا کی آمد و رفت کا بہترین نظام تھا۔ اس کے لیے خاص انداز سے سے گنبدوں، محرابوں اور قبوں کو بنایا گیا۔ ٹھنڈی ہوا کے لیے اونچی چھتیں تعمیر کی گئیں جن کے ساتھ متعدد طاقیں تھیں اور چھ عدد جالی دار بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جو زیبائشی لحاظ سے بھی شاہکار تھیں۔
اصلی امتیاز عمارتوں کا نہیں ، ان کو آباد کرنے والوں کا ہوتا ہے!
بابری مسجد کا جو نقشہ اوپر کے الفاظ میں بیان کیا گیا، اس کا سبب یہ تھا کہ ہم اس کی عمارت سے، اس زمانے کے مسلمان حکمرانوں کی مساجد کو آباد کرنے کی کاوشوں وغیرہ کا اندازہ کر سکیں۔ لیکن اصلی امتیاز عمارتوں کا نہیں ہوتا، بلکہ ان عمارتوں کو آباد کرنے والوں کا ہوتا ہے۔ غرناطہ و قرطبہ کیا کم شاہکار تھے؟ کیا اشبیلیہ کم خوبصورت تھا؟ لیکن جب غرناطہ و قرطبہ کو آباد کرنے والے، غیرت و حمیت سے عاری ہونے لگے تو حسین و جمیل عمارتیں، ان کا فنِ تعمیر، وہاں کا انتظام و انصرام کہ جسے دیکھ کر آج بھی ایک لمحے کو یہ گمان ہونے لگے کہ شاید جنت ایسی ہو…… یہ سب بے کار گئے۔ مادی اسباب جتنے بھی ہو جائیں بے کار رہتے ہیں، یہاں تک کہ نگہبانی کرنے کے لیے ایمان اور غیرت کا عقیدہ و جذبہ پیدا ہو رہے۔
پھر کیا ہمیں بابری مسجد کے حسن و فنِ تعمیر سے محبت ہے؟ ہاں یہ فخر ضرور ہے کہ ہم دنیا کی بہترین جگہوں یعنی مساجد کو اپنے گھروں سے بہر لحاظ اچھا رکھتے ہیں…… لیکن محبت تو اس عمارت سے لاالٰہ الا اللہ کی وجہ سے ہے۔ یہ عمارت نہ ہوتی، یہ ایک خستہ سا جھونپڑا ہوتا، تب بھی ہمیں اس سے اسی قدر آشنائی ہوتی۔ بلکہ آج جب یہ مسجد نہیں رہی، جب یہ توڑ دی گئی ہے، تب بھی ہمیں اس سے اتنی ہی محبت ہے۔
جب تک ہمارا ایمان مضبوط رہا اور ہم غیرت کی فصیل پر پہرے دار بنے، اپنے مقدسات کی نگہداری کرتے رہے، کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ وہ مسجد ڈھا کر رام مندر بنانے کے خیال کو اپنی زبان پر بھی لا سکے، بلکہ خیال کو زبان پر لانا دور کی بات، کسی نے یہ سوچا بھی نہ تھا۔ اگر کسی نے کوشش کی تو اس کا فیصلہ ہماری تلوار کیا کرتی تھی۔
رام مندر کی کہانی
ہندو کہتے ہیں کہ ان کا ایک اوتار اور بعض کہتے ہیں کہ خدا ’رام‘ ایودھیا میں پیدا ہوا۔ خدا پیدا ہوا؟! ایک ماں سے! یہ لغویات موضوع نہیں۔ بہر کیف…… آج جو ہندوؤں کے دَل کے دَل بابری مسجد پر چڑھ دوڑ رہے ہیں یا ماضی میں چڑھے ہیں تو یہ اصل میں رام مندر کی ’بحالی‘ کی خاطر ایسا نہیں کر رہے، بلکہ یہ بابری مسجد اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف نفرت و دشمنی ہے۔
ایودھیا میں درجن سے زیادہ مندر ایسے تھے جس کے پجاری اور مجاور اس بات کا دعویٰ کرتے تھے کہ ’ہمارا‘ ہی مندر، رام کی جنم بھومی ہے۔ یہ سب دعوے کیا ہوئے؟ کہاں گئے؟
ایک ناٹکی مذہب جس کا ان ویدوں سے بھی کوئی تعلق نہیں جن کوہندو اپنا روحانی’صحیفہ‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ہندو مت جس میں کوئی بات مَت میں آنے والی نہیں۔ ہر ایک کا ’پرسنل‘ بت ہے، ذاتی خدا ہے۔ اور تو اور ایک نام کے مسلمان شاہ رخ خان کو بھی پوجنے والے ہندو موجود ہیں۔ ایک کرکٹ کے مہان کھلاڑی ’سچن ٹنڈولکر‘ کی پوجا کرنے والے جس مذہب میں پائے جاتے ہیں، جو اسے ’کرکٹ کا خدا‘ کہتے ہیں۔ ایسے مذہب پر چلنے والے جنونی صرف مسلمانوں اور ان کے متعلقات کے دشمن ہیں۔
کیسی لغو بات ہے کہ تاریخی کتابیں جو ہندوؤں ہی کی لکھی اور مرتب کردہ ہیں میں لکھا ہے کہ رام کب پیدا ہوا اس کی صحیح تاریخ معلوم نہیں، دو چار دن، مہینے، دو چار سالوں کا اختلاف نہیں، ایک کہتا ہے پانچ ہزار سال قبل مسیح میں رام ، ایودھیا میں ’جنا‘ گیا اور دوسرا کہتا ہے کہ ڈیڑھ سو برس قبل مسیح میں یہ ’پاپ‘ ہوا۔ یعنی بس زیادہ فرق نہیں ہے چار پانچ ہزار سال بِیتتے وقت ہی کتنا لگتا ہے؟!
پھر یہ بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ جس ایودھیا کا کتابوں میں ذکر ہے یہ یہی فیض آباد میں واقع ایودھیا ہے یا کوئی اور؟!
پھر کچھ کہتے ہیں کہ وہی رام جو پیدا ہوا، جس کی ماں تھی، باپ تھا، سِیتا جس کی بیوی تھی، لاوا اور کوشا جس کے بیٹے تھے جو بادشاہ بھی تھا اور بعد میں مر گیا۔ وہی رام ایک پجاری کو بابری مسجد میں نظر آیا۔ کہنے والے نے کہا ۲۳ دسمبر (۱۹۴۹ء) کی رات میں نے دیکھا کہ بابری مسجد میں یکایک چاندنی سی اٹھی، اور اس تیز روشنی میں مَیں نے دیکھا کہ چار پانچ سال کا ایک بے حد خوبصورت لڑکا کھڑا ہے۔ جب بے ہوشی ٹوٹی تو میں نے دیکھا کہ صدر دروازے کا تالا ٹوٹ کر زمین پر پڑا تھا۔ تخت پر بت رکھا ہوا تھا، اور لوگ اس کی پوجا کر رہے تھے ‘۔
جب کہ وہ پجاری جس نے ۲۲ اور ۲۳ دسمبر ۱۹۴۹ء کی رات بابری مسجد میں گھس کر بت اور مورتیاں رکھیں…… اس کا نام ماہنت رام سیوک داس شاستری ہے۔ یہ کہتا ہے کہ اس رات میں اکیلا نہیں تھا میرے اور بھی ساتھی میرے ہمراہ تھے۔ میں نے خواب میں خدا کا ظہور ہوتے دیکھا اور اس خواب کی تعبیر میں ہم نے بت مسجد میں رکھ دیے۔ ان سب کی سرپرستی کے کے نیئر (K. K. Nayyer)کر رہا تھا جو ایودھیا کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھا۔
بابری مسجد بند کر دی گئی
بابری مسجد کے پیش امام حاجی عبد الغفار صاحب کہتے ہیں کہ ’وہ عشاء کی نماز پڑھا کر گھر آئے اور صبح فجر کی نماز پڑھانے جانا تھا کہ رات میں ہی مسجد کے مؤذن صاحب آئے اور کہا کہ ہندو اس میں گھس گئے ہیں اور بت مسجد میں رکھ دیے ہیں‘۔ امام صاحب نے کہا کہ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اور خود گئے۔ وہاں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نیئر موجود تھا۔ اس نے کہا کہ آج جمعے کی نماز آپ کہیں اور پڑھ لیجیے، اس کے بعد دو چار جمعوں میں اس کا فیصلہ کر کے مسجد آپ کے حوالے کر دیں گے‘۔ یوں مسجد تو بند ہو گئی، فیصلہ نہیں آیا اور ہندو مسجد کے چبوترے پر چڑھ کر بت پوجتے رہے۔
مسلم کش فسادات اور مسجد کا انہدام
مسلمانوں نے کچھ احتجاج وغیرہ کیا۔ اس کے نتیجے میں سنہ ۱۹۸۶ء میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مسلمان شہید کیے گئے۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو صبح کے وقت ’رام رتھ یاترا‘ کے نام پر ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں جو تخریب کاروں اور دہشت گردوں کا کاروان روانہ ہوا تھا وہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر پہنچ گیا۔ یہاں ان ’یاتریوں‘ نے پوجا کی اور دوپہر بارہ بجے ایک پجاری مسجد کے ایک گنبد پر بھگوا (زرد)رنگ کےجھنڈے لے کر چڑھ گیا اور باقی بھگوا دہشت گردوں نے مسجد پر یلغار کر دی اور کچھ ساعتوں میں مسجد کا فقط ڈھانچہ یا شاید بنیادیں ہی رہ گئیں، انّا للہ و انّا الیہ راجعون۔
مسجد کے انہدام کے بعد ایک بار پھر ہندوستان بھر میں فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں دو ہزار مسلمان شہید کیے گئے۔
ہائی کورٹ کا فیصلہ
ان سب واقعات کے بعد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کروایا گیا اور ۲۰۱۰ء کے ستمبر کی آخری تاریخ (۳۰)کو عدالت نے فیصلہ دیا کہ بابری مسجد کی زمین کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ ایک تہائی حصہ ’ہندو مہا سبھا‘ کو دے دیا جائے جو رام مندر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ایک تہائی مسلمانوں کے سنی وقف بورڈ کو دے دیا جائے، جہاں وہ اپنی مسجد تعمیر کر لیں۔ جبکہ آخری ایک تہائی ’نرموہی اکھاڑہ‘ والے ہندوؤں کو دے دیا جائے۔ یہ فیصلہ بھی ایسا تھا کہ دو تہائی حصہ عملاً ہندؤوں کو دیا جائے اور ایک تہائی مسلمانوں کو۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں نے بھی اور ہندوؤں نے بھی یعنی فریقین نے ماننے سے انکار کر دیا اور مقدمہ سپریم کورٹ آف انڈیا میں دائر کیا گیا۔ بالآخر ۹ نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس مقدمے کا فیصلہ ’رام مندر‘ کے حق میں سنا دیا۔ اس فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کی طرف سے شہادتیں ناقص رہیں، فریقین میں سے کوئی بھی اپنا دعویٰ (بابری مسجد یا رام مندر کا) ثابت نہیں کر سکا۔ لہٰذا اس کے باوجود ’سیکولر‘ ہندوستان کے ’سیکولر‘ ججوں نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں دے دیا۔ اور آج بابری مسجد کی جگہ رام مندر کھڑا ہے۔
بابری مسجد دوبارہ تعمیر ہوتی ہے اور غزوۂ ہند جاری ہے!
غزوۂ ہند، یعنی جس معرکے کی آخری لڑائی کو آخر الزمان میں برپا ہونا ہے، کشمیر اور ہند و سندھ میں اس وقت جاری ہے ۔ باذن اللہ اسی غزوۂ ہند کی ایک کَڑی رام مندر اور اس کے پجاریوں کی چِتا کو خاکستر کر کے گنگا میں بہانا ہو گی۔
بابری مسجد کے خطِ تاریخ کی آخری بات، مسلمانوں کا پھر سے بیدار ہونا، سندھ و ہند کو تاراج کرنا اور بابری مسجد کا پوری شان و شوکت کے ساتھ دوبارہ قیام ہے، جس کے بعد ان شاء اللہ کبھی کسی مسجد کی میلی آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی کسی کافر میں ہمت نہ ہو گی!
’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا، حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں (حاکموں) کو بیڑیوں کو جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان (مجاہدین) کی مغفرت فرما دیں گے۔‘‘ (کتاب الفتن از نعیم بن حماد )
٭٭٭٭٭