تین دہائیاں قبل بابری مسجد شہید کردی گئی۔ حقیقتاً یہ واقعہ برِّ صغیر کی سیاست کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا نقطۂ آغاز تھا۔ تقریباً ساڑھے چار سو سالہ تاریخی مسجد کو دن دہاڑے ڈھایا گیا اور ہندو وادی کے منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ بابری مسجد کے سانحۂ شہادت کے بعد ہندوؤں نے اپنی مہلک طاقت میں اضافہ کیا اور مذہبی عقیدت اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے منصوبے کو آگے بڑھایا۔ اس منصوبے کا مقصد برِّ صغیر کے سب نظاموں خصوصاً اسلام کو زیر کر کے رام راج سے بدلنا ، مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنا، جلا وطن کرنا یا مکمل طور پر کچل دینا ہے۔
آج ہندو کونسل کے رہنما متھورا کی شاہی عید گاہ مسجد میں کرشنا کی مورتی رکھنے کی دھمکی دے رہے ہیں اور اس اعلان سے بابری مسجد کا واقعہ ایک بار پھر تازہ ہونے جا رہا ہے۔ اسی ہندو کونسل کے لوگ ۱۹۴۹ء میں رات کے اندھیرے میں بابری مسجد کے اندر گھس کر کرشنا کی مورتی رکھ آئے تھے۔ یہ وہ مکروہ و خطرناک فعل تھا جس سے دراصل بابری مسجد کی تباہی کا عمل شروع ہوا اور ۶ دسمبر ۱۹۹۲ء کو یہ عمل اپنی تکمیل کو پہنچا۔ لیکن غور کیجیے کہ ۱۹۴۹ء میں جو اندھیرے میں کیا گیا تھا وہ ۲۰۲۱ء میں دن دہاڑے کرنے کو کہا جارہا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صورتِ حال کس قدر سنگین ہو چکی ہے!
افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلمانانِ برِّصغیر اور کثیر مسلم سیاسی قیادت آج بھی اس حقیقت کو سمجھ نہیں سکی۔ لیکن کبوتر کے آنکھیں موند لینے سے خطرہ ٹل نہیں جاتا ،دشمن اب بھی اپنا کام کر رہا ہے اور ہم اب بھی بے خبر ہیں ۔
اس تحریر میں ہم کوشش کریں گے کہ بابری مسجد کی شہادت کے پیچھے اصل عوامل کی نشان دہی کریں، دشمن کی منصوبہ بندی پر نظر ڈالیں اور مسلمانوں کی موجودہ صورتِ حال کے بارے میں کچھ گفتگو کریں۔
ہندووادی
بھارت کی ہندووادی طاقت نے بابری مسجد کو توڑ کر رام مندر کو تعمیر کرنے کے منصوبے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ہندوؤں نے سب سے پہلے بابری مسجد کی بنیادوں میں ایک خیالی پوجا پاٹ کی جگہ ’رام مندر‘ کا شور اٹھایا۔ ۱۹۴۹ء میں مسجد میں ہندوؤں نے رام کی مورتی رکھی۔ ان کے اس اقدام سے’رامانی لنکا تحریک‘تیار کی گئی ، رتھ یاترا شروع ہوئی، اور ۱۹۹۲ء میں مسجد شہید کر دی گئی ۔
ہندوواد ایک نظریاتی تحریک ہے۔ اس کی مثال اسرائیل کے صہیونیوں کی سی ہے ۔ آر ایس ایس کے ہندوؤں نے کھلم کھلا اسرائیل کے طرز ِعمل کی تقلید کی۔
اس نظریاتی تحریک کا احاطہ ایک بڑا کام ہے۔ ہم اکثر بی جے پی یا آر ایس ایس کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن ہندووادی منصوبے کے مختلف شعبے اور مختلف ذیلی حصّے ہیں ۔ ان میں سے دو اہم حصے ’ اکھیل ہندوستانی ہندو مہاسبھا‘ اور ’ریاستی خودمختار سنگھ‘(آر ایس ایس) ہیں۔
ہندو مہاسبھا ۱۹۱۵ء میں قائم کیا گیا تھا۔ Binayak Damodar Savarkar سمیت کچھ دوسرے ہندو رہنما اس کے بانی تھے۔ دس سال بعد ۱۹۲۵ء میں آر ایس ایس قائم کی گئی ۔ ابتدائی طور پر ہندو مہاسبھا ہندووادی سیاست کی اہم تنظیم تھی۔ نظریات اور طریقۂ کار کے اعتبار سے ہندو مہاسبھا نسبتاً زیادہ شدت پسند ہے۔ گاندھی اسی تنظیم کی سازش کے سبب قتل ہوا۔اور اسی ہندو مہاسبھا کے منصوبے کے مطابق بابری مسجد میں رام کی مورتی رکھی گئی ۔
لیکن آہستہ آہستہ، اثر و رسوخ کے لحاظ سے آر ایس ایس ہندو مہاسبھا سے آگے نکل گئی۔ اس وقت، آر ایس ایس ایک بہت بڑا ہندو نیٹ ورک ہے۔ جس کی تقریباً ستاون (۵۷)ہزار شاخیں اور ساٹھ (۶۰)لاکھ ارکان ہیں۔ اس کے علاوہ آر ایس ایس کے پریوار کے حصے کے طور پر،ورلڈ ہندو کونسل ، بجرنگ ٹیم سمیت مختلف تنظیمیں ہیں۔ بھارت کی موجودہ حکمرانی پارٹی بی جے پی بھی آر ایس ایس کے ساتھ منسلک ہے، اگرچہ وہ باقاعدہ ایک علیحدہ تنظیم بھی ہے۔ بھارتی سیاست میں بی جے پی کو ہندو وادی پراجیکٹ کی خاص حمایت و توجہ حاصل ہے اور یہی بی جے پی کی سیاسی ترقی کے پیچھے ایک اہم عنصر ہے اور یہ سب ہندُتوا ایجنڈے کا حصہ ہے۔
ہندو مہا سبھا کے بانیوں میں ایک مغربی بنگال کا شیاما پرشاد مکھرجی اہم فرد تھا۔ ۱۹۴۷ء میں نہرو نے اسے وزیر بنا دیا، لیکن مسلمانوں کے بارے میں کانگریس کی ’نرم‘ پالیسی کے سبب اس نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا اور پھر ۱۹۵۱ء میں ’بھارتیا جانا سنگھ‘ کے نام کی ایک نئی پارٹی تشکیل دی۔ لیکن یہ نئی پارٹی بھارتی سیاست میں ایک مضبوط جماعت کے طور پر نہ ابھر سکی اور پھر ہندتوائی نظریے والی آر ایس ایس کے ذریعے بھارتیا جنتا پارٹی یعنی بی جے پی کا بطور ایک مضبوط سیاسی پارٹی جنم ہوا۔
دراصل ۱۹۷۷ء میں بھارتیا جانا سنگھ ٹوٹی اور اس سے ایک نئی پارٹی تیار ہوئی۔ ۱۹۸۰ء میں یہ پارٹی بھی ٹوٹ گئی۔ اس وقت بھارتیا جنتا پارٹی یا بی جے پی کی تشکیل ہوئی۔ ۱۹۸۴ء کے انتخابات میں بی جے پی نے صرف دو نشستیں حاصل کییں۔ لیکن ۱۹۹۱ء میں اسی پارٹی نے ایک سو بیس (۱۲۰)نشستیں حاصل کیں۔ محض سات (۷)سال میں دو (۲)سے ایک سو بیس (۱۲۰)! اس حیرت انگیز ترقی کے پیچھے اہم سبب ’رامانی لنکا تحریک‘ اور ’رتھ یاترا پروگرام‘ تھا ۔ ان دو پروگراموں کے ذریعہ، بی جے پی ہندوستانی سیاست کے بیرونی دائرے سے دو مرکزی دھاروں میں سے ایک دھارا بن گئی ۔ یوں بھارت میں ہندووادی سیاست کے عروج کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بابری مسجد کو شہید کر نے کے لیے یہ دو پروگرام براہ راست ہندو وادی منصوبہ بندی سے متعلق تھے۔
تاہم بی جے پی اور آر ایس ایس کے کھلم کھلا منظرِ عام پر ہونے کے باوجود ہندو مہاسبھا اور دیگر نسبتاً چھوٹی ہندو وادی تنظیموں کا کردار بھی ہندووادی منصوبے کے لیے بہت اہم ہے اور یہ بات بابری مسجد کے واقعے سے واضح ہوتی ہے۔
۱۹۴۹ء میں مسجد میں مورتی رکھنے کا کام ہندو مہاسبھا کے ذریعے شروع ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں ’رامانی لنکا تحریک‘ کو بھارتیا جانا سنگھ کے سب سے شدت پسند ارکان کے ایک گروپ ورلڈ ہندو پرشاد نے شروع کیا۔’ورلڈ ہندو پرشاد‘کی شروع کی ہوئی ’رامانی لنکا تحریک‘کو بی جے پی موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قومی سطح پر لے آئی۔ بی جے پی کے لال کرشنا ایڈوانی نے ہندوؤں کی شکست کی علامت کے طور پر بابری مسجد کو پیش کیا۔ اور ہندوؤں کی اس شکست کے کفارے کے طور پر بابری مسجد کو توڑ کر رام مندر کی تعمیر کے خیال پر زور دیا ۔
شروع سے ہندوؤں کا بنیادی تصور یہ رہا ہے کہ ہندوستان کی ریاست صرف ہندوؤں کی ہے۔ ہندوؤں کے علاوہ دوسروں کو ایک چھوٹی سی تعداد میں رکھا جا سکتا ہے، لیکن انہیں ایک دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہنا ہوگا۔ لہٰذا ہندووادی یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے کا حق نہیں ہے، اور اگر انہیں رہنا ہے ، تو انہیں ایک دوسرے درجے کے شہری کے طور پر رہنا ہوگا۔
بی جے پی اس وقت جو بھی قوانین بنا رہی ہے یا کارروائیاں کر رہی ہے وہ ہندووادی کی سیاست کا حصہ ہیں۔
مثال کے طور پر، شیاما پرشاد کی جانا سنگھ نے ۱۹۵۳ء میں جموں و کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرنے کے لیے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ ۶۰ء کی دہائی کے آخر میں انہوں نے گائے کے ذبیحے پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے پورے ہندوستان کے لیے یکساں سول کوڈ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔ ان میں سے کچھ تجاویز کو حال ہی میں نافذ کیا جا چکا ہے اور دوسروں کو لاگو کیا جا رہا ہے۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی، گائے کے ذبیحے پر زبردستی ، یکساں سول کوڈ(uniform civil code) ، شہریت ترمیمی بل (NRC)……یہ سب ہندوستان کو ایک ’ہندو ریاست‘بنانے کے منصوبے کا حصہ ہیں۔
ہندُتوا تنظیمیں تقریباً سو سال سے نہایت صبر، استقامت اور حکمت عملی کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مختلف اوقات میں سیاسی وجوہات کی بنا پر ان مسائل کو چھپایا، لیکن انہوں نے کبھی بھی اصل مقصد کی طرف سے آنکھ نہیں ہٹائی۔ موقع ملتے ہی انہوں نے دوبارہ کام شروع کر دیا۔ اور اس منصوبے کی پہلی اور سب سے بڑی کامیابی بابری مسجد کی تباہی تھی۔
’سیکولر‘ انڈیا
لیکن بابری مسجد کے انہدام اور رام مندر کے تعمیراتی منصوبے کو صرف ہندتوا تنظیموں کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ اس میں سیکولر کانگریس اور ہندوستانی عدالت کا بھی کردار ہے۔ یہ کانگریس کی حکومت تھی جس نے مسجد کے اندر رام مورتی رکھنے کے ساتھ’وشو ہندو سبھا‘ اور’آر ایس ایس‘ کی شمولیت پر پردہ ڈالا۔ کانگریس کا ایک طبقہ بھی پردے کے پیچھے رہتے ہوئے ایسی تنظیموں کو اپنی حمایت دیتا ہے۔ ۱۹۸۶ء میں راجیو گاندھی کے فیصلے پر بابری مسجد کا صحن ہندوؤں کے لیے کھولا گیا تھا۔ بابری مسجد کے انہدام کے وقت کانگریس کا ’نرسنگ راؤ‘ ہندوستان کا وزیر اعظم تھا۔ وہ ہندتوا نظریے کے فروغ میں معاون کا کردار ادا کرتا رہا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ مسجد کو مسمار کرنے کی تیاریاں جاری ہیں، کانگریس حکومت نے کام کو خاموشی سے آگے بڑھنے دیا۔
اس کے علاوہ ۱۹۴۹ء سے ہندوستانی سیکولر عدالت نے بار بار ہندتوا کا ساتھ دیا ۔ عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہندتوا کے مطالبات کو نافذ کیا گیا۔ دراصل سیکولر کانگریس اور سیکولر عدالتوں کی مدد کے بغیر آج ہندتوا کا منصوبہ اس مرحلے پر نہیں آسکتا تھا۔
افسوسناک حقیقت
تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ بابری مسجد کو تباہ کرکے رام مندر کی تعمیر کسی ایک فریق کا منصوبہ نہیں ہے۔ ہندوستانی ہندو جماعتوں اور رہنماؤں کا ایک بڑا طبقہ براہ راست اس سے وابستہ ہے۔ باقی سب حامی ہیں۔ لیکن افسوس کہ برِّ صغیر میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی ناکامی ہے کہ اس بات کا تصور بھی صحیح سے موجود نہیں ہے کہ یہ ہندتوا سکیم مسلمانوں کے لیے کتنی خطرناک ہے؟!افسوس کہ روایتی سیاسی جماعتوں سے لے کر اسلامی جماعتوں تک کوئی بھی اس خطرے کو صحیح طور پر شناخت نہیں کرسکا ۔
خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اور سیاست میں حصہ لینے والے اہلِ دین کا ایک بڑا حصہ اب بھی گمان کرتا ہے کہ ’سیکولر ہندوستان‘مسلمانوں کی حفاظت کرے گا۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ سیکولر ہندوستان کی سیکولر آئینوں، سیکولر عدالتوں، سیکولر اداروں اور سیکولر فوجوں کے ذریعے مسلمانوں پر بار بار حملوں کی تاریخ موجود ہے۔ سیکولر ہندوستان کشمیر کا گلا گھونٹ کر مسلمانوں کو قتل کرتا رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان میں مسلمان ایک ایسی حکومت اور فوجی جرنیلوں کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی نصرت کی امید لے کر بیٹھے ہیں جنہوں نے اپنے قیام سے لے کر آج تک صرف مسلمانوں کے مفادات پر ضرب لگائی۔ اور ہندوتوا کی جارحیت اور بھارتی ایجنٹوں کے ظلم و ستم کے باوجود بنگلہ دیش کے مسلمان اب بھی انتخابات اور جمہوریت کے اندر حل نکالنے کا بے فائدہ خواب دیکھ رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی سیاسی جماعتوں سے لے کر مذکورہ بالا دینی قائدین تک ہر کوئی دینِ اسلام اور امتِ مسلمہ کی فلاح وکامیابی چاہتا ہے۔ لیکن وہ اب بھی کچھ خاص دائروں کے اندر رہ کر سوچ رہے ہیں جو بہت پہلے سے غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ برصغیر میں موجودہ حکومتیں اس خطے میں مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ موجودہ حکومتیں مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ بلکہ ان کا تعلق حملہ آوروں کے ایک گروہ سے ہے۔ ان حقائق کی محض تردید کر دینا ممکن نہیں ہے۔ یہ باتیں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش تمام ممالک کے لیےدرست ہیں۔
ستّر سال سے زیادہ عرصے سے جمہوریت، سیکولر آئین، قوم پرست اصولوں اور ’ریاست کے قوانین‘ پر عمل کے ذریعے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ، ایمان وعزت کے تحفظ، اور اسلامی شریعت کے قیام کا خواب دیکھا گیا ہے ۔ نتائج ہمارے سامنے واضح ہیں۔یہ خواب آج ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔آخر کب ہم پر اس راستے کا عبث ہونا واضح ہوگا؟
کیا ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے سامنے کوئی خطرہ نہیں ہے؟ جہاں ہندتوا پراجیکٹ کھلے عام موجود ہے اور اس کے مطابق ریاست قائم ہو رہی ہے ؟ یا کیا ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ نظام کسی نہ کسی طرح ہماری حفاظت کرے گا؟ ہماری ماؤں اور بہنوں کی حفاظت کرے گا ؟ کیا ہم آج بھی سیکولر آئین، عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں یا اقوام متحدہ پر بھروسہ کریں گے؟
کیا بوسنیا یا میانمار میں قتل عام کے دوران مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کوئی آگے بڑھا ؟ پچھلے دس سالوں سے شام کے اہل سنت کا بے دردی سے قتل ، عصمت دری، تشدد، کیمیکل ہتھیار، بیرل بم ہمارے سامنے نہیں؟کیا ابھی تک کوئی اور ان مسلمانوں کے تحفظ کے لیے آگے آیا ہے؟ مصر میں ایک دن میں چودہ سو (۱۴۰۰)مسلمانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ کیا کسی نے کچھ کہا؟ ہم ستّر سال سے زیادہ عرصے سے صہیونیوں کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔ کیا کسی نے کچھ کیا؟
آئین، اقوام متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عالمی برادری کیا مسلمانوں کے کام آئی ہیں؟
ہمیں مزید کتنی مثالوں کی ضرورت ہے؟ چین کے خلاف امریکی نئی سرد جنگ(new cold war) میں اس خطے میں بھارت امریکہ کا اہم حلیف ہے۔ بھارت کے اسرائیل کے ساتھ بھی گہرے تعلقات ہیں۔ کشمیر میں بھارتی جارحیت فلسطین میں اسرائیل کی جارحیت کی مقلد ہے۔ بھارت کے روس کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ اگر عالمی برادری شام جیسے ملک کی حکومت کو نہیں روکتی تو ہم کس بنیاد پر توقع کرتے ہیں کہ بھارت کو کوئی روکے گا؟ کس دلیل سے یہ سوچا جاسکتا ہے کہ کوئی بھی ہندتوا کے تباہ کن منصوبے کو روک دے گا؟
آخری بات
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی حفاظت کے لیے کوئی آگے نہیں آئے گا۔ جس طرح اس سے پہلے کوئی نہیں آیا ہے۔ ملک کا کوئی آئین یا عدالت مسلمانوں کی حفاظت نہیں کرے گی۔ جس طرح پہلے بھی کبھی نہیں کی گئی ۔ عالمی برادری مسلمانوں کے لیے اسی طرح اب بھی نہیں روئے گی جس طرح وہ پہلے کبھی نہیں روئی۔ کشمیر اور آسام میں جو کچھ ہو رہا ہے، جو کچھ ہوا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ دنیا نے دیکھا ہے کہ فسادات کے نام پر دہلی میں کیا ہوا۔ لیکن کوئی نہیں آیا،نہ ہی کوئی آئے گا!
ہندتوا پراجیکٹ اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ایک صدی پر محیط تیاریوں کو اب عملی قالب میں ڈھالا جا رہا ہے۔ چھوٹی موجوں نے وقت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سونامی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ یہ لہر یں اب برِّ صغیر کی طرف بڑھ رہی ہیں، خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کی جانب، ان کو بہا لے جانے کے لیے۔ یہ سونامی بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کی وطنی سرحدوں کی پابندی نہیں کرے گا۔ اس کا اثر پورے خطے میں پھیل جائے گا۔
موجودہ نظاموں کے اندر ہمارے لیے کوئی حل نہیں ہے۔ ان نظاموں میں صرف ہماراقتل ہوتا ہے، ہم پر تشدد ہوتا ہےاور ہماری توہین کی جاتی ہے۔ انگریزوں کی آمد سے شروع ہونے والی ذلت اور شکست کا باب ابھی تک جاری ہے۔ اگرچہ انگریز چلے گئے لیکن پیچھے رہ جانے والے نظام نے ہمیں اسی پنجرے میں قید کر رکھا ہے۔
چنانچہ برِّصغیر کے مسلمانوں کو نئے سرے سے سوچنا ہوگا۔ حقیقت کو سمجھنا ہوگا۔ جیسے بچوں کو بہلاوا دیا جاتا ہے اس طرح کی طفل تسلّیوں سے کام نہیں چلے گا۔ کسی بھی حکومت، فوج یا ادارے کی طرف دیکھنے سے کام نہیں چلےگا۔ مزاحمت پیدا کرنے کے لیے مسلمانوں کو کھڑا ہونا ہوگا۔
اپنے وجود کو باقی رکھنے کے لیے ،کھوئی ہوئی شان وشوکت اور عزت کو دوبارہ حاصل کرنے کےلیے برِّصغیر کے مسلمانوں کے پاس جہاد فی سبیل اللہ کے سوا کوئی متبادل نہیں ہے ۔ اور اس جہاد کا مقصد ایمان کی حفاظت اور اسلامی شریعت قائم کرناہے نہ کہ کسی ریاست کے مفاد کو پورا کرنا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو ’سیکولر انڈیا‘ کے جھوٹے وعدے سے منہ موڑنا ہوگا۔ اپنے دفاع کے لیے انہیں خود تیار ہونا ہوگا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو سوچنا ہوگا کہ آیا وہ قومی و وطنی سرحدوں کے اندر اپنے ایمان کو قید ہونے دیں گے یا وہ اپنے اعمال کا فیصلہ خدائے عظیم کی شریعت کے مطابق کریں گے؟
ہمارے سامنے ایک مشکل وقت ہمارا منتظر بیٹھاہے۔ غلط فہمی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کے راستے سے زیادہ آسان اسلامی شریعت قائم کرنے کے سفر میں کوئی دوسرا راستہ نہیں ۔ یہ راستہ طویل ہے، خون آلودہ ہے، لیکن دوسرے کسی راستے سے تو یہ منزل حاصل ہو ہی نہیں سکتی! اور اسی راستے پر چل کر سفر کے آخر میں برابری، عزت اور فتح حاصل ہو گی۔ باقی تمام راستے ہمیں رسوائی، ذلت اور تباہی کی طرف لے جائیں گے۔ بابری مسجد نے یہی سبق ہمارے لیے چھوڑ ا ہے۔
٭٭٭٭٭