نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | دوسری قسط

ابو البراء الابی by ابو البراء الابی
21 دسمبر 2021
in نومبر و دسمبر 2021, حلقۂ مجاہد
0

یہ تحریر یمن کے ایک مجاہد مصنف ابو البراء الاِبی کی تصنیف’تبصرة الساجد في أسباب انتكاسۃ المجاهد‘ کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے ایسے افراد کو دیکھا جو کل تو مجاہدین کی صفوں میں کھڑے تھے، لیکن آج ان صفوں میں نظر نہیں آتے۔ جب انہیں تلاش کیا تو دیکھا کہ وہ دنیا کے دیگر دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟یہ تحریر ان سوالوں کا جواب ہے ۔(ادارہ)


دوسری وجہ: خراب نیت اور دنیا کی خاطر جہاد

پس نیت پر ہر کام کا دار و مدار ہے۔ نیت ہی عمل کی روح ہے۔ عمل تب ہی صحیح ہوتا ہے جب نیت صحیح ہو ۔ اور اگر نیت فاسد ہو تو فاسد ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی کی سنت ہے جو کہ نہ تبدیل ہوتی ہے نہ بدلتی ہے کہ ہر انسان کو اس کی نیت ، اخلاص اور رب کے ساتھ معاملے کی بنا پر اجر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ریا کار کو اللہ تعالی اتنا قابل نفرت او ذلیل بناتا ہے جو اس کے لائق ہو۔ پس مخلص کے لیے ہیبت اور محبت ہوتی ہے اور ریاکار کے لیے نفرت اور بغض ۔

نبی اکرم ﷺ مسلمانوں کو جہاد میں نیت کی اصلاح پر توجہ دیتے تھے۔ کہ قتال کے پیچھے جذبہ غنیمت کا حصول ، یا شہرت حاصل کرنا، یا وطن اور ذات کی عزت نہ ہو۔ نبی اکرم ﷺسے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو شجاعت کی خاطر یا اپنی قومی غیرت کی خاطر لڑتا ہے۔ کہ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں ہے۔ آپ نے فرمایا:

من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله.

”جو اللہ تعالی کا کلمہ بلند کرنے کے لیے لڑتا ہے وہ فی سبیل اللہ ہے۔“

پس اللہ تعالی کے لیے نیت خالص کرنا ناگزیر ہے۔ جہاد کے ساتھ کوئی دوسرا دنیوی غرض شامل نہ ہونےپائے۔ کیونکہ اللہ تعالی وہی عمل قبول کرتا ہے جو اس کے لیے خالص ہو اور صرف اللہ کی خاطر کیا جائے۔

حضرت ابو ہریرہ سے مروی حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

تضمن الله لمن خرج في سبيله, لا يخرجه إلا جهادا في سبيله، وإيمانا بي ، وتصديقا برسلي، فهو علي ضامن أن أدخله الجنة، أو أرجعه إلى مسكنه الذي خرج منه. نائلا ما نال من أجر أو غنيمة. والذي نفس محمد بيده! ما من كلم (أي جرح) يكلم في سبيل الله إلا جاء يوم القيامة كهيئته حين كلم، لونه لون دم، وريحه ريح مسك، والذي نفس محمد بيده، لولا أن يشق على المسلمين ما قعدت خلاف سرية تغزو في سبيل الله أبدا، ولكن لا أجد سعة فأحملهم ولا يجدون سعة، ويشق عليهم أن يتخلفوا عني. والذي محمد بيده لوددت أن أغزو في سبيل الله فأقتل، ثم أغزو فأقتل، ثم أغزو فأقتل.

”اللہ تعالی ایسے شخص کی ضمانت کرتا ہے جو اس کی راہ میں صرف جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلے، اللہ پر ایمان لاتے ہوئے، پیغمبروں کی تصدیق کرتے ہوئے، کہ اسے جنت میں داخل کریں گے۔ یا اسے واپس جس ٹھکانے سے وہ نکلا تھا وہاں ایسی حالت میں پہنچا دیں گے کہ اسے اجر اور غنیمت سے اس کا حصہ مل چکا ہو۔

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! اللہ کی راہ میں جو بھی زخم پہنچتا ہے وہ قیامت کے دن اسی حال میں آئے گا۔ اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور اس کی خوشبو مشک کی ہو گی۔

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! اگر مسلمانوں پر شاق نہ گزرتا میں اللہ کی راہ میں نکلنے والے کسی سریہ کوچھوڑ کر ہرگز پیچھے نہ بیٹھتا۔ لیکن نہ میرے پاس اتنی گنجائش ہے کہ سب کو سفر پر بھیج سکوں اور نہ خود ان کے پاس ہے۔ اور ان کے لیے یہ انتہائی شاق ہے کہ مجھے بھیج کر خود پیچھے رہ جائیں ۔

قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے! میری تمنا ہے کہ میں فی سبیل اللہ غزا کروں اور قتل کر دیا جاؤں۔ پھر غزا کروں پھر قتل کر دیا جاؤں۔ پھر غزا کروں پھر قتل کر دیا جاؤں۔“

یہ مشکل ہو گا کہ ہم وہ بے شمار نمونے پیش کریں جن سے واضح ہو کہ ان نبوی ارشادات سے مسلم مجاہد کی نفسیات پر کیا اثر پڑا۔ یہاں ہم عام سپاہیوں میں سے محض دو نمونے پیش کرتے ہیں۔ غزوہ احد میں نبی اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو لڑائی کے وقت فرمایا:

قوموا إلى جنة عرضها السماوات والأرض

”اس جنت کی طرف بڑھو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔“

حضرت عمیرؓ بن حمام انصاری نے یہ سنا تو کہا:

’’اے اللہ کے رسولﷺ! آسمانوں اور زمین کے برابر عرض والی جنت!!‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘

حضرت عمیرؓ نے کہا: ’’واہ، واہ!‘‘

پیغمبر پاک ﷺ نے فرمایا: ”تم نے واہ واہ کیوں کہا؟“

حضرت عمیرؓ نے فرمایا: ’’اے رسول اللہ ﷺ میرا کوئی اور مقصد نہ تھا۔ بس میں نے تمنا کی کہ میں اس جنت والوں میں سے ہوں۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تو تم اس جنت والوں میں سے ہو۔“

حضرت عمیرؓ اپنے توشے میں چند کھجور نکال کر کھانے لگے تھے کہ فرمایا: ’’ان کھجوروں کو ختم کرنے تک عرصہ گزر جائے گا۔‘‘

چنانچہ انہوں نے وہ کھجوریں پھینک دیں اور دشمن سے اتنا لڑے کے شہید ہو گئے۔

یہ پہلا نمونہ تھا۔

اور دوسرا نمونہ؛ غزوہ خیبر میں ایک اعرابی نے بھی شرکت کی ۔ نبی اکرم ﷺ نے ارادہ کیا کہ اسے غنیمت کا کچھ حصہ دیں لیکن وہ موجود نہ تھا۔ جب آیا تو صحابہؓ نے اس کا حصہ اسے دیا ۔ تو وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا اور کہا :

’’ میں اس کی خاطر آپ کے پیچھے نہ ہوا تھا۔ میں نے تو آپ کی پیروی اس لیے کی کہ مجھے یہاں تیر مارا جائے (اپنی گردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) تاکہ میں جنت میں داخل ہو جاؤں۔‘‘

آپ ﷺ نے فرمایا:

إن تصدق يصدقك الله

”اگر تم سچ کہو گے تو اللہ بھی تمہارے ساتھ سچائی کا معاملہ فرمائیں گے۔“

کچھ عرصے بعد صحابہؓ دشمن سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ اور لڑائی کے بعد اس شخص کو لائے جب کہ اسے وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ پس نبی اکرم ﷺ نے اپنے جبے میں اسے کفنایا ، اس پر نماز پڑھی اور دعا دی۔ جس میں یہ فرمایا:

اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا في سبيلك فقتل شهيدا، وأنا عليه شهيد.

”یا اللہ! یہ تیرا بندہ تیری راہ میں مہاجر بن کر نکلا اور شہید قتل ہوا۔ اور میں اس پر گواہ ہوں۔“

یہ روایت اس بات پر انتہائی زور سے دلالت کرتی ہے کہ ایک ایسے اعرابی پر ایمان کا کتنا اثر ہوا جس کی زندگی جاہلیت میں لوٹ مار سے بھر ی تھی۔ اور اب وہ اپنے جہاد کے بدلے جنت کے علاوہ کوئی قیمت نہیں قبول کرتا۔ تو سوچیے کہ رسول اللہ ﷺ کے خاص صحابہؓ کے دلوں میں ایمان کا کیا حا ل ہو گا؟ (بحوالہ نضرت النعیم)

نیت کے اثر کے حوالے سے یہاں سلف کے چند اقوال ذکر کرتے ہیں:

حضرت سفیان ثوری ﷫سے کہا گیا : کیا آپ جنازے میں شریک نہ ہو ں گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ: اگر میری نیت ہوتی تو میں چلا جاتا۔

جب حضرت حسن بصری ﷫وفات ہوئے تو حضرت ابن سیرین ﷫ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوئے۔ جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میری نیت نہیں تھی۔

علماء سے کسی کام کے بارے میں جب پوچھا جاتا تو فرماتے : اگر اللہ تعالی ہمیں نیت دیں تو ہم وہ کام کر لیں گے۔

حضرت یحیی بن کثیر ﷫ فرماتے ہیں : عمل میں حسن نیت خود عمل سے بڑھ کر ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض ﷫ نے فرمایا: بغیر نیت کے بات نہ کرنا۔

بعض یہ کہتے تھے: نیت کے خراب ہونے اور تبدیل ہو جانے کا ڈر خود عمل چھوڑنے سے زیادہ ہونا چاہیے۔

حضرت ابن القیم ﷫ اعلام الموقعین میں فرماتے ہیں:

حضرت عمرؓ بن الخطاب کا یہ کہنا کہ :

”اگر حق بات میں کسی کی نیت خالص ہو چاہے وہ بات اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو تو اللہ اس کے اور لوگوں کے درمیان معاملہ کے لیے کافی ہو جاتا۔ اور جو شخص ایسی خوبی سے اپنے آپ کو مزین کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اس میں نہ پائی جاتی ہو تو اللہ تعالی اسے بد نما کر دیتا ہے۔“

یہ کلام نبوی کے قریب قریب ہے۔ اور ایسا کلام الہام یافتہ شخص ہی کہہ سکتا ہے۔ یہ دونوں باتیں علم کے خزانوں میں سے ہیں۔ جو اس خزانے میں سے خرچ کرے گا دوسرے کو بھی نفع دے گا اور خود بھی انتہائی نفع اٹھائے گا۔

پہلی بات خیر کا منبع اور اصل ہے۔ جبکہ دوسری بات شر کا اصل اور اس کی تفصیل ہے۔ اگر بندے کی نیت خالص اللہ تعالی کے لیے ہو اور اس کا مقصد، اس کا ہم و غم اور عمل اللہ سبحانہ و تعالی کی خاطر ہو۔ تو اللہ متقین اور محسنین کا مددگار ہے ۔ [جیسا کہ اللہ تعالی کا فرما ن ہے]

﴿اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِيْنَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ﴾

تقوی اور احسان کی بنیاد یہ ہے کہ جب حق کی خاطر کھڑا ہونا ہو نیتیں اللہ تعالی کے لیے خالص کر دیں۔ اور چونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ پر کوئی غالب نہیں اس لیے جس کے ساتھ اللہ ہو جائے تو اس پر کون غالب آ سکتا ہے؟ یا اسے کون نقصان پہنچا سکتا ہے؟ اگر اللہ تعالی کسی بندے کے ساتھ ہوں تو وہ بندہ کسی سے کیوں ڈرے ؟ اور اگر نہ ہوں تو بندہ آخر کس سے توقع رکھے؟ اور کس پر اعتماد کرے؟ اللہ تعالی کے بعد کون اس کی نصرت کرے گا؟ اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر حق قائم کرے، اور اس سے بھی پہلے اپنے آپ پر قائم کرے، اور اس کا یہ کرنا اللہ کی مدد سے اور اللہ کی خاطر ہو، تو اس کے مقابل کوئی چیز نہیں آ سکتی۔ چاہے آسمان ، زمین اور پہاڑ اس کے خلاف چال چلیں تو ان کے سامنے اللہ تعالی اس بندہ کے لیے کافی ہو جائیں گے۔ اور ایسے شخص کے لیے خلاصی اور نجات کا راستہ بنا دیں گے۔ بندے کا کام تب خراب ہوتا ہے جب وہ ان تین ، دو یا کسی ایک بات میں تفریط اور کوتاہی کرے:

  • جو باطل کے لیے کھڑا ہو اس کی نصرت نہیں کی جائے گی۔ اور اگر نصرت ہو بھی جائے تو عارضی ہو گی اور بالآخر اس کا انجام برا ہو گا۔ آخر کا ر وہ ملامت زدہ اور رسوا ہو گا۔

  • اور اگر حق کے لیے کھڑا ہو لیکن اللہ تعالی کی خاطر نہیں بلکہ لوگوں کی ستائش، سپاس اور بدلے میں کچھ حاصل کرنے کے لیے، یا اس کا مقصود پہلے سے ہی کوئی دنیوی غرض ہو اور حق کو محض اس کے حصول کا ذریعہ بنائے، تو اس کے لیے بھی نصرت کی ضمانت نہیں۔ اللہ تعالی نے نصرت کی ضمانت اسے دی ہے جو اس کی راہ میں جہاد کرے اور کلمۃ اللہ بلند کرنے کے لیے قتال کرے۔ نہ کہ جو اپنی جان اور خواہشات کی خاطر کھڑا ہو۔ ایسا شخص نہ متقین میں سے ہے نہ محسنین میں سے۔ اگر اسے نصرت کی بھی جائے گی تو فقط جتنا وہ حق کا ساتھ دے گا۔ کیونکہ اللہ تعالی صرف حق کی نصرت کرتے ہیں۔

  • اور اگر اقتدار اہل باطل کا ہو تو یہ اقتدار اتنا ہی رہے گا جتنا وہ صبر کریں گے۔ کیونکہ صبر کو بھی ہمیشہ تائید حاصل ہوتی ہے۔ اب اگر صبر کرنے والا حق پر بھی ہو تو اس کی نصرت بھی ہو گی اور انجام کار بھی بھلا ہو گا“۔

کام زیادہ ہو لیکن خراب نیت سے کیا جائے تو یہ کام کرنے والے کو ہلاکتوں میں ڈالتا ہے۔ اللہ رب العزت نے منافقین کے بارے میں بتایا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں، مال خرچ کرتے ہیں، اور لڑتے بھی ہیں، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ کتاب اللہ کی تلاوت بھی کرتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے:

ومثل المنافق الذي يقرأ القرآن كالريحانة ريحها طيب وطعمها مر.

”ایسے منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو اس سیب کی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہے“۔ (متفق علیہ)

لیکن منافقین کے اخلاص میں کھوٹ کی وجہ سے ہی اللہ تعالی نے ان کے بارے میں فرمایا:

﴿اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ فِي الدَّرْكِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾

’’کچھ شک نہیں کہ منافقین دوزخ کے سب سے نیچے درجے میں ہوں گے۔ ‘‘ [النساء: 145]

اور حدیث میں آیا ہے:

وأول من تسعر بهم النار يوم القيامة قارئ القرآن والمجاهد والمتصدق بماله، الذين لم تكن أعمالهم خالصة لله، وإنما فعلوا ذلك ليقال فلان قارئ، وفلان شجاع، وفلان متصدق.

”سب سے پہلے جن سے قیامت کے دن آگ دہکائی جائے گی، قرآن کا وہ قاری ، وہ مجاہد اور مال خرچ کرنے والا وہ شخص جن کے اعمال اللہ تعالی کے لیے خالص نہ تھے۔ بلکہ انہوں نے اس لیے کیے تاکہ کہا جائے کہ فلاں قاری ہے۔ فلاں شجاع ہے، فلاں سخی ہے۔“ (بروایت مسلم)

اس کے برعکس عمل چاہے کم ہو لیکن حسن نیت ، سچائی اور اخلاص کے ساتھ کئی گنا ہو جاتا ہے اور جنت کےحصول کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

مر رجل بغصن شجرة علي ظهر طريق، فقال: والله لأنحين هذا عن المسلمين لا يؤذيهم، فأدخل الجنة.

”ایک شخص کا گزر راستہ میں درخت کی ایک ٹہنی پر ہوا۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم میں اس ٹہنی کو مسلمانوں کے راستہ سے ہٹاؤں گا تاکہ انہیں نقصان نہ دے۔ اس پر وہ جنت میں داخل کیا گیا۔“ (بروایت مسلم)

وامرأة بغي رأت كلبا يطيف بركية كاد يقتله العطش، فسقته بموقها ماء، فغر الله لها.

”اور ایک زناکار عورت نے ایک کتا دیکھا جو کہ کنویں کے کنارے گھوم رہا ہے اور نزدیک ہے کہ پیاس سےمر جائے۔ اس نے اپنے جوتے سے اس کتے کو پانی پلایا تو اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔“ (متفق علیہ)

حضرت عبد اللہ بن مبارک ﷫فرماتے ہیں:

”کتنے ایسے چھوٹے اعمال ہوتے ہیں جو نیت سے بڑھ جاتے ہیں۔ اور کتنے ایسے بڑے اعمال ہوتے ہیں جو نیت کی وجہ سے گٹھ جاتے ہیں۔“

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

﴿وَ اللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَآءُ﴾

’’اور خدا جس کو چاہتا ہے زیادہ کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ:۲۶۱)

امام ابن کثیر ﷫ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

”یعنی کہ اللہ عمل کو اخلاص کے حساب سے بڑھا دے گا۔“

تنبیہ:

امام ابن حجر ہیتمی ﷫ اپنی کتاب زواجر میں فرماتے ہیں:

”تین سو کے بعد سینتیسواں کبیرہ گناہ: کسی دنیاوی غرض کی وجہ سے امام کی بیعت توڑنا۔“

شیخان نے حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت کی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم ولا يزكيهم ولهم عذاب أليم: رجل على فضل ماء بالفلاة يمنعه ابن السبيل، ورجل بايع رجلا سلعة بعد العصر فحلف بالله لأخذها بكذا وكذا فصدقه وهو علي غير ذلك. ورجلا بايع إماما لا يبايعه إلا لدنيا، فإن أعطاه منها وفي وإن لم يعطه منها لم يف.

”تین شخص ایسے ہیں جن کے ساتھ اللہ تعالی قیامت کے دن نہ کلام کریں گے، نہ ان کی طرف دیکھیں گے، نہ انہیں پاک کریں گے۔ ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ایک وہ شخص جس کے پاس صحراء میں اضافی پانی ہو اور وہ راہ گزر کو نہ دیتا ہو۔ اور ایک وہ شخص جو عصر کے بعد کوئی چیز قسم کھا کر فروخت کرے کہ میں نے اتنے کی لی یا اتنے کی اور اس پر لینے والا اس کی بات مان لے ،لیکن حقیقت اس کے بر خلاف ہو۔ اور ایک وہ شخص جو کسی امام کی بیعت صرف دنیا کی خاطر کرے۔ اگر امام اسے دنیامیں سے دے تو بیعت پر قائم رہے اور اگر نہ دے تو بیعت توڑ ڈالے ۔“

نیز امام ابن ابی حاتم ﷫ نے حضرت علی ﷜ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

الكبائر: الإشراك بالله، وقتل النفس، وأكل مال اليتيم، وقذف المحصنة، والفرار من الزحف، والتعرب بعد الهجرة، والسحر، وعقوق الوالدين، وأكل الربا، وفراق الجماعة، ونكث البيعة.

” کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالی کے ساتھ شرک۔ قتل نا حق۔ مال یتیم کھانا۔ پاک دامن پر تہمت باندھنا۔ پیش قدمی کے وقت لڑائی سے بھاگنا۔ [فرض] ہجرت کے بعد پھر واپس لوٹ جانا [بعض نے اس سے مرتد ہو جانا مراد لیا ہے]۔ جادوگری۔ والدین کی نافرمانی۔ سود کھانا۔ [مسلمانوں کی] جماعت کو چھوڑنا۔ اور بیعت توڑنا۔“

اس مقام پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بیعتیں اور معاہدے جو مسلمان آپس میں کرتے ہیں اور اپنے اوپر لازم کرتے ہیں، چاہے وہ جہاد فی سبیل اللہ پر عہد ہو، یا علم نافع حاصل کرنے پر، یا کسی خاص کام ادا کرنے کے لیے کسی جماعت کے ساتھ حق پر عہد ہو، میں کہتا ہوں: کسی بھی حالت میں ایسے معاہدوں اور بیعتوں کو باندھنے کے بعد توڑنا جائز نہیں۔ الا یہ کہ کوئی شرعی وجہ ہو جس سے عہد اور بیعت توڑنا ضروری ہو جائے۔ اس کے سوا جو بھی عہد توڑتا ہے وہ کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس سے ایک بڑا جرم سرزد ہوتا ہے ۔ وہ اللہ رب العزت کی مقرر کردہ حدوں کو پار کرتا ہے جس کے سبب وہ اللہ کی ناراضگی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِ١ۚ اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـُٔوْلًا﴾

’’اور عہد کو پورا کرو کہ عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی۔‘‘ [الاسراء:34]

امام ابن کثیر ﷫ فرماتے ہیں:

”مراد وہ عہد ہیں جو تم لوگوں کے ساتھ کرتے ہو۔ اور وہ عقد ہیں جن پر تم ان کے ساتھ معاملات کرتے ہو۔ عہد اور عقد کے بارے میں طرفین سے ضرور پوچھا جائے گا۔ (عہد کے بارے میں ضرور پرسش ہوگی)۔“

نیز اللہ تعالی نے فرمایا:

﴿وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَيْكُمْ كَفِيْلًا﴾

’’اور جب خدا سے عہد واثق کرو تو اس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کرچکے ہو۔‘‘ (سورۃ النحل:۹۱)

امام قرطبی ﷫ نے اپنی تفسیر میں لکھا:

” (خدا سے عہد) لفظ عام ہے جس میں ہر وہ چیز شامل ہے جس پر زبان سے عقد کیا جائے اور انسان اپنے اوپر لازم کر دے ۔چاہے بیع ہو ، یا قرابت داری ہو ، یا دین کے موافق کسی بات پر اتفاق ہو۔“

(پس جس کی گردن میں بیعت یا عہد ہے،یا اس نے اپنے آپ کو کسی میثاق کا پابند کیا ہے تو اسے چاہیے کہ جس چیز کا اس نے خود اقرار کیا ہے اس کے بارے میں اللہ سے ڈرے ۔ اور کوئی بھی عقد کرنے کے بعد اسے نہ توڑے جب تک معتبر شرعی ضرورت نہ ہو۔

شیطان کے وسوسوں اور للچانے سے بچے۔ کیونکہ شیطان ایک شخص کے قریب ہوتا ہے اور دو سے دور ۔ چنانچہ کسی لڑائی ، جھگڑے یا اختلاف رائے کو عہد توڑنے کا سبب نہ بنائے۔ اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اس معاملے میں اللہ سے ڈرے۔

جو اپنے امیر کی جانب سے ایسی چیز دیکھے جو اسے پسند نہ ہو تو اسے چاہیے کہ صبر کرے اور اس پر اللہ سے اجر کی امید رکھے۔ اللہ تعالی بہترین ثواب دینے والا ہے۔ یہ باتیں اللہ کے دین کی نصرت کے لیے متحد ہونے والی صفوں کو توڑنے کے ہتھیار نہ بن جائیں ایسے زمانے میں جس میں فتنے بڑھ چکے ہیں)۔ (بحوالہ التذاکر الجیاد)

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

Previous Post

سیرتِ محمدی ﷺ کی عملی عزیمت | حصہ دوم(آخری)

Next Post

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۲

Related Posts

سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | سولھواں درس

26 ستمبر 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چھتیس (۳۶)

26 ستمبر 2025
نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری
حلقۂ مجاہد

نئے ساتھیوں کے لیے ہجرت و جہاد کی تیاری

17 اگست 2025
مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: چونتیس (۳۴)
حلقۂ مجاہد

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | وجہ نمبر: پینتیس (۳۵)

14 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | پندرھواں درس

12 اگست 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
Next Post

شہادت کی قبولیت کی شرائط | ۲

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version