زیرِ نظر مقالہ شہید مولانا سمیع الحق رحمۃ اللہ علیہ نے سقوطِ ڈھاکہ کے وقت ماہنامہ ’الحق‘ میں قلمبند کیا تھا۔(ادارہ)
وہ دیکھو ڈھاکہ فتح ہو گیا اور سقوطِ مشرقی پاکستان کے ساتھ…… اسلام کے لحاظ سے نہیں، مگر مسلمانوں کے لحاظ سے…… دنیا کی عظیم اسلامی مملکت سرنگوں ہوگئی۔
﴿وَمَا تَشَاۗءُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّشَاۗءَ اللّٰهُ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيْمًا حَكِيْمًا﴾
’’اور تم چاہوگے نہیں جب تک اللہ نہ چاہے۔ اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔‘‘
برّصغیرپر افقِ مغرب سے طلوع ہونے والا فتح وکامرانی کا روشن ستارہ، مشرق کی وادیوں میں ٹوٹ گیا ۔ آج دیبل کے ساحل پر محمد بن قاسم کا لہرایا ہوا پرچم سرنگوں ہے۔احمد شاہ ابدالی کی عظمتوں کا آبگینہ چکنا چور ہوگیا ہے۔ اور سومنات کا جامد اور ساکت بت محمود غزنوی کی ناخلف اولادپر قہقہہ لگا رہا ہے۔ جو گلشن محمد بن قاسم سے لے کراورنگزیب اور سید احمد شہید و محمود حسن (شیخ الہند)کے خون سے سینچا گیا،آج وہ اجڑا اجڑا سا ہے۔ پاکستان، ہمارے خوابوں کا آئینہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے اور اس کا ہر ذرّہ ہماری تصویر پر خندہ زن ہے۔ اللہ کی رسی، اسلام، کو کاٹ کر مشرق و مغرب کو ملانے کے لئے ہماری تمام تدبیریں نہ صرف ناکامی بلکہ اس شرمناک رسوائی میں اضافہ کا باعث بن گئیں اور آج ملتِ اسلامیہ کے سات کروڑ جگر پارے ہم سے جدا ہو چکے ہیں۔ إنَّا للہ وإنا إلیہ راجعون!
ایھا النفس اجملی جزعا
فان ما تحذرین قد وقعا
یارائے صبر و شکیب نہیں، نہ صبر کا مقام ہے۔ نالہ و شیون کا طوفان برپا کیجیے۔ اور اگر ضمیر احساسِ ندامت کا ساتھ نہ دے، اور غیرت کا پانی خشک ہو جانے سے آنکھیں اشکبار نہیں ہوتیں، تو مر جائیے، ڈوب مرنے کے لیےاس سے بہتر موقع نہ پاسکو گے۔
بہت سعی کیجیے تو مر رہیے میر
بس اپنا تو اتنا ہی مقدور ہے
سقوطِ ڈھاکہ سے ایک ہفتہ تک جب احساس و شعور کی ساری توانائی یاس و قنوط کے سامنےبےبس ہو چکی تھی اور پچھلے نقشِ آغاز میں قلم اعترافِ عجز پر مجبور تھا تو آج جبکہ یہ واقعۂ ہائلہ اور قیامتِ کبریٰ ایک حقیقت بن چکا ہے، تو کسے تاب ہےکہ برّصغیر کے تقریباً بیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ سانحۂ مرگ پر مجلس عزیٰ برپا کر کے بر صغیر میں اپنی ہزار سالہ عظمتوں کی مرثیہ خوانی کر سکے۔ اور کہنے کو رہ کیا گیا ہے……؟یلیتنی مت قبل ھذا وکنت نسیا منسیا!
نہیں ہے طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پر کہیے کہ مدعا کیا ہے
خلافتِ بغداد کی تباہی کا ماتم کرتے ہوئے مؤرخِ کبیر علامہ ابن اثیر کو کئی سال تردّد رہا۔قلبی کیفیت کو چھپا نہ سکے اور لکھا کہ اسلام اور مسلمانوں کی خبرِ موت سنانا کس کو آسان ہے اور کس کا جگر ہےکہ ان کی ذلت و رسوائی کی داستان سنائے۔ کاش! میں نہ پیدا ہوتا، کاش میں اس واقعہ سے پہلے مر چکا ہوتااور بھولا بسرا ہوجاتا(الكامل جلد ۱۲ ص ۱۴۷)۔ آج کی یہ ذلتِ فاضحہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ہماری پوری تاریخ کا ذلیل ترین سانحہ ہے۔ بابل کا جابر بادشاہ بخت نصر یروشلم سے ایک لاکھ یہودیوں کو قیدی بنا کر لے گیا تھا کہ ان کی ذلت و مسکنت کی انتہا ہو چکی تھی، مگر عہدِاسلام تو اس مثال سے ناآشنا ہے۔ مسلمان اور شکست، مومن اور ہتھیار ڈالنا تو اتنی متضاد چیزیں ہیں جتنا کہ خود اسلام اور کفر۔ اسلام کی تاریخ میں نہایت شاذونادر مثال فتوحات عراق میں صرف ایک جگہ ملتی ہے، کہ نہایت مجبوری کی وجہ سے چند لوگوں کو پیچھے ہٹنا پڑا جبکہ ساتھیوں نے میدان جیت کر دم لیا، پھر بھی اس واقعے کا اتنا افسوسناک اثر ہواکہ جن لوگوں کو پیچھے ہٹنا پڑا وہ مدتوں خانہ بدوش پھرتے رہے، شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے، اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منوّرہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ جو لوگ مدینہ پہنچ کر روپوش تھے اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے، حضرت عمر ان کے پاس جا کر تسلی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تم أوْ مُتَحَیِّزًا إلٰی فئة میں داخل ہو، مگر ان کو اس تاویل سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔ (الفاروق)
مگر چرخ نیلگوں نے یروشلم کے بعد پہلی مرتبہ ڈھاکہ سے ایک لاکھ قیدیوں کی شکل میں تاریخ کو دہراتے دیکھا، پھر کیا یہ ہماری بے مثال ذلت کی شہادت نہیں ؟
﴿ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ﴾
’’یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو اسے اس وقت تک بدلنا گوارا نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت تبدیل نہ کرلیں اور اللہ ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔‘‘
یہ قدرت کا قانون ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمتوں کی بے قدری کرنے والوں کو ذلت اور نامرادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ وہ قوم اپنی حالت نہ بدل ڈالے۔ پھر کیا یہ اسلام کی شکست ہے؟ کیا نصرتِ خداوندی اب عصر حاضر کے مظالم اور باطل کا سامنا نہیں کرسکتی؟ کیا حق باطل کے سامنے سپر انداز ہو چکا ہے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیا خدائے حى و قیوم سومنات کے مردہ اور جامد پتھروں کے سامنے عاجز اور بے بس ہو چکا ہے؟ نہیں! ہزار بار نہیں۔ اپنی رسوائی اور ناکامی کو اسلام کے سر تھوپنے والو! کیا یہ اسلام اور کفر کا مقابلہ تھا؟ اور کیا یہ آخری مقابلہ تھا؟ کیا بدروحنین اور یرموک و قادسیہ مسلمانوں کے نہیں ہندوؤں کے تھے؟ کیا بحرالکاہل کی متلاطم موجوں کو چیر کرجبل الطارق پر علمِ توحید نصب کرنے والے کوئی اور تھے؟ کیا پانی پت اور میسور کے میدان کسی اور کے خون سے لالہ زار بنے تھے؟ کیا برّصغیر میں پھیلے ہوئے شکستہ کھنڈرات کسی اور کے عہدِ اقبال کی شہادت دے رہے تھے؟ اور کیا جلال وجبروت کا سر چشمہ خدائے بزرگ و برتر ہندو کی بے جان مورتیوں سے شکست کھا سکتا ہے؟ کبھی نہیں! حق و باطل کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی شہادت نہ پاسکو گے۔ پھر یہ کیا تھا……؟ یہ شکست قانونِ مکافاتِ عمل کا ظہور اور شامتِ اعمال کا نتیجہ تھا۔
﴿وَمَا ظَلَمَھُمُ اللّٰهُ وَلٰكِنْ اَنْفُسَھُمْ يَظْلِمُوْنَ ﴾
’’ان پر اللہ نے ظلم نہیں کیا، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے رہے ہیں۔‘‘
نصرت اور قوتِ خداوندی تو ہمیشہ قائم اور دائم رہنے کے لیے ہے۔ اور کسی کو اس پر یقین نہ ہو تو پھر اسے چاہیے کہ اوپر کی طرف ایک رسی تان کر اس کا پھندا بنالےاور اس طرح اپنے گلے میں پھانسی لگالے۔
﴿مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهٗ مَا يَغِيْظُ﴾
’’ جس شخص کو یہ گمان ہو کہ اللہ ہرگز اس کی مدد نہیں کرے گا دنیا اور آخرت میں تو اسے چاہیے کہ وہ ایک رسی آسمان کی طرف تانے ‘ پھر اسے کاٹ دے پھر دیکھے کہ کیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کردیتی ہے جو اسے غصہ میں لاتی ہے ؟‘‘
پس یہ اسلام کی شکست نہیں جو ایک ابدی حقیقت اور سرمدی صداقت ہے، بقاء اس کی معیت اور فنا اس سے گریز میں ہے۔ بلکہ یہ عروج وزوالِ امم کے لیے اللہ کے اٹل قوانین اور سنت اللہ کا ٹھیک ٹھیک ظہور ہے۔ ذرا بھی اپنے شکستہ دل کے گوشوں میں اس المیہ کے اسباب ٹٹولو گےتو یہ نتائج تعجب خیز نہیں بلکہ سنت اللہ کے عین مقابل معلوم ہوں گے۔ ایسا نہ ہوتا تو اس سنت کی تبدیلی سب کو محوِ حیرت کر دیتی۔ پس یہ رسوائی اسلام کی نہیں اللہ کے مخلص بندوں کی ہے بلکہ اعمال کا سنگدلانہ رد عمل اور گھناؤنا انتقام ہے۔ نفاق اور کھوکھلے نعروں کی شکست، قول و عمل کے تضاد، اسلام کو نعرۂ فریب و استحصال بنانے کی شکست ہے۔ یہ عیاری، فحاشی اور بے حیائی کی شکست ہے۔ یہ اختلاف و انتشار اور اقتدار کے لیے رسہ کشی کا نتیجہ ہے۔ سیاست کی موت ہے کہ فاروقی سیاست توغالب رہنے کے لیے تھی۔ یہ خود غرضی اور ہوسِ اقتدار کا وبال ہےاور گاڑی ہلاکت اور بربادی کی اپنی اسی منزل میں جا گری ہے، جس کی راہ پر ہم نے اسے ڈال دیا تھا۔ اب ہم لاکھوں تحقیقاتی کمیشن قائم کریں، جنگی اور سیاسی اسباب ٹٹولیں، ایک دوسرے کو قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مجرم ضمیر کی آسودگی کا سامان کریں، ہماری عظمت کا قصرِ رفیع، جو پیوندِ خاک ہو چکا ہے، بلند نہیں ہو سکتا۔حـتّٰی یغیِّــرُوْا مـَا بـأنْفُسِھِــمْ۔لٹی ہوئی آبرو تحقیقاتی کمیشنوں سے واپس نہیں ہو سکتی۔ نہ نفس اور قوم کو فریب دینے کے لیے اس سعی لاحاصل کی ضرورت ہے۔
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اپنی حالت بدلنے کے بجائے ان ابلہ فریبیوں میں پڑنے والو! کہیں کلکِ تقدیر نے یہ کہہ کر پوری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا حکم تو نہیں دیا، ایں دفتر بے معنی غرق مئے ناب اولی۔ بیشک مایوسی کفر اور یاس وقنوط پیغامِ موت ہے۔ مسلمان مایوس نہیں ہوتا لیکن وہ اسلام جو مردہ قوموں کے لیے حیاتِ جاودانی کا مژدہ بنتا تھا، اس پورے عرصہ آزادی میں کبھی اپنایا گیا؟ اگر اپنایا ہوتا تو یہ روزِ بد کیوں دیکھتے؟ پھر آج امید کی دنیا بسائی جائے بھی تو کیسے؟ ہمارے پاس رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند حسرتیں اور چند آہیں؟ قوم کا سازِ حیات ٹوٹ چکا ہے اور وہ جسے ہم عالمِ اسلام کا حصار کہتے تھے، خود ہمارے ہاتھوں ٹوٹ چکا ہے۔ ہم نے صلاح الدین کی آبرو، مسجد اقصیٰ، یہودیوں کے ہاتھوں لٹادی، وسط ایشیاء، سمرقند وبخارا میں اپنی سر خروئیوں کا خزانہ اپنے ہاتھوں دفن کیا۔
اسپین اور سسلی میں اپنی متاعِ عظمت و شوکت تاراج کرنے والو! آج ہند میں محمود غزنوی کی قبائے عزت و افتخار بھی ہمارے ہاتھوں تار تار ہو چکی ہے۔ مگر ہماری عشرتناکی اور ہوس ناکیوں میں لمحہ بھر کے لیے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں اس مصیبتِ کبریٰ کا واقعی احساس ہے؟ کتنی آنکھیں خونبار ہو چکی ہیں؟ کتنے قلوب فرطِ غم سے پھٹ چکے ہیں؟ کتنے ہیں جو زندگی کی رنگینیوں کو چھوڑ کر دشت و صحراء کے ویرانوں کو اپنی آہ وبکاء سے آباد کر چکے ہیں؟ اور کتنے ہیں جنہیں اب اس ’’عظیم المیہ‘‘ سے سبق لینا ہے……
اٹھو! دیکھو پورا برصغیر اسلام کا غربت کدہ بن چکا ہے۔ اور اگر تمہارے مقدر میں رونا ہی رہ گیا ہے، تو اٹھو اور اپنے نالہ و شیون سے عالمِ افلاک میں تہلکہ مچادو۔ شاید رب السموات والأرض کو ہماری پستی اور بے بسی پر ترس آجائے ۔ مسلمانو! سقوطِ ڈھاکہ وقتی حادثہ نہیں، یہ ہند میں تمہارے اسلاف کی تیرہ سو سالہ عظمتوں اور قربانیوں کا جنازہ ہے۔ اب تمہیں روٹی کپڑا اور مکان کی نہیں کھوئے ہوئے لباسِ مجدوشرف کی ضرورت ہے۔ اور اگر اس حال پر خوش ہو تو یاد رکھو کہ خدا کی بستی میں اس لباس سے ننگی قوم کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔
یہی ہے زندگی تو زندگی سے موت اچھی
کہ انسان عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
٭٭٭٭٭