نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home آخرت

سفرِ آخرت (حصہ اول) | تیسرا درس

انور العولقی by انور العولقی
21 دسمبر 2021
in نومبر و دسمبر 2021, آخرت
0

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیّدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک طویل حدیث ہمیں اس سفر کے بارے میں بتاتی ہے جو بدن سے نکلنے کے بعد روح کو درپیش ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب ایک مومن کا وقتِ آخر آتا ہے تو فرشتےجنت سے اس کے لیے کفن اور خوشبو لے کر آتے ہیں۔ وہ اس مرنے والے مومن کے ارد گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں اور اس مومن سے کہتے ہیں:’’یا ایتھا الروح المطمئنۃ! ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ……‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ روح اتنی آسانی اور سہولت سے بدن سے نکلتی ہے جیسے کسی مَشک یا برتن سے پانی کا قطرہ پھسل جائے یا بہہ جائے۔جیسے ہی ملک الموت اس روح کو بدن سے نکالتے ہیں، ارد گرد بیٹھے تمام فرشتے لپک کر آتے ہیں ، کیونکہ ان میں سے ہر ایک اس خوش قسمت روح کو کفن میں لپیٹنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس روح کو آسمان کی جانب لے جاتے ہیں۔

جب بھی وہ ملائکہ کے کسی گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں، تو اس روح سے آتی حسین خوشبو کے سبب وہ فرشتے پوچھتے ہیں کہ یہ کس کی روح ہے؟ اس پر اس روح کو لانے والے فرشتے جواب دیتے ہیں کہ یہ فلاں ابن فلاں کی روح ہے۔ اور وہ اس کے لیے اس کے بہترین نام اور القاب استعمال کرتے ہیں۔پھر وہ پہلے آسمان کے دروازے تک جا پہنچتے ہیں اور داخلے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آسمان کے دروازے ان کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور وہ آگے بڑھتے ہیں۔ ہر آسمان سے گزرتے ہوئے اس آسمان کے فرشتے ان کے ہمراہ چلتے ہیں یہاں تک کہ وہ اگلے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ اور یونہی تمام آسمانوں سے گزرتے ہوئے آخر یہ روح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتی ہے۔ربّ العالمین اس روح کو کامیابی اور جنت کا مژدہ سناتے ہیں اور پھر اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس روح کو واپس زمین کی طرف لے جاؤ، کیونکہ وہیں سے ہم نے اسے پیدا کیا، وہیں یہ لوٹائی جائے گی اور وہیں سے ہم اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔ اور یوں یہ روح اللہ تعالیٰ کے پاس سے خوش و خرم اور بسعادت واپس لوٹتی ہے۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک کافر و فاسق کی روح کی بابت بتاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے ایسی روح کے لیے نارِ جہنم کا کفن لے کر آتے ہیں۔ وہ اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ملک الموت اسے مخاطب کر کے کہتے ہیں’’یاایتھا الروح الخبیثۃ!……(اللہ تعالی کی ناراضگی اور غضب کا سامنا کرنے کے لیے نکل!……)‘‘۔مگر یہ روح بدن کے اندر چھپتی پھرتی ہے اور ہر رگ و ریشے سے چمٹتی ہے کیونکہ یہ اندر ہی رہنا چاہتی ہے ، رب کے غیض و غضب کا سامنا کرنے کے لیے باہر نہیں آنا چاہتی۔ ملک الموت اسے نکالنے کے لیے کھینچتے ہیں اور نبی صادق علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس شخص کی موت کی تکلیف اتنی سخت ہوتی ہے گویا کانٹوں سے بھری ایک جھاڑی ہو اور اس سے گیلی روئی کوکھینچ کھینچ کر علیحدہ کیا جا رہا ہو۔ اس شخص کے تمام رگ و ریشے تار تار ہو جاتے ہیں، اور جیسے ہی روح بدن سے باہر آتی ہے، فرشتے جلدی سے اسے جہنم سے لائے ہوئے اس بدبودار چیتھڑے میں لپیٹ دیتے ہیں اور آسمان کی جانب لے چلتے ہیں۔ جب بھی وہ ملائکہ کے کسی گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں تو اس بری روح سے اٹھنے والی گلی سڑی بدبو کے باعث وہ فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ یہ کس کی روح ہے؟ اس کو لانے والے فرشتے اس کا اس کے بدترین ناموں اور القاب سے تعارف کراتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب وہ پہلے آسمان کے دروازوں تک پہنچتے ہیں اور داخلے کی اجازت طلب کرتے ہیں تو اجازت نہیں ملتی اور دروازے نہیں کھولے جاتے اور اللہ تعالی حکم دیتے ہیں کہ اس روح کو اسفل ترین زمین کی جانب پھینک دو،لہذا اس روح کو اللہ کی ناراضگی اور ذلت و رسوائی کے ساتھ نیچے پھینک دیا جاتا ہے۔

قبر

خلیفۂ ثالث حضرت عثمان ابن عفان ؓ کا جب بھی کبھی کسی قبر پر گزر ہوتا تو وہ رو پڑتے اور اس قدر روتے کہ داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ ان سے پوچھا گیا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ جنت و جہنم کو یاد کر کے اتنا نہیں روتے اور آپ کی وہ کیفیت و حالت نہیں ہوتی جو قبر کو یاد کر کے ہوتی ہے؟ آپ ؓ نے جواب دیا:

’’انی سمعت رسول اللہ ﷺ یقول : إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ‘‘۔1

’’قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ اگر اس سے بخیر و عافیت گزر گئے تو اس کے بعد آنے والی ہر منزل آسان ہو گی۔اور اگر اسے نہ پار کر سکے تو جو کچھ اس کے بعد آئے گا وہ اس سے زیادہ مشکل ہو گا۔‘‘

اور اس کے بعد آپ ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

’’مَا رَأَيْتُ مَنْظَرًا قَطُّ إِلَّا وَالْقَبْرُ أَفْظَعُ مِنْهُ.‘‘

’’میں نے کوئی چیز ہولناک نہیں دیکھی مگر قبر اس سے زیادہ ہولناک ہے۔‘‘

یعنی جتنی ہولناک چیزیں میں نے دیکھی ہیں قبر ان میں سب سےزیادہ ہولناک ہے۔

بہت جلد ہم سب وہاں ہوں گے۔ ہم میں سے ہر ایک کو وہاں جانا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس دنیا کا عیش و آرام چھوڑنا ہو گا، پھر ہمیں وہاں لے جایا جائے گا اور زمین کے اندر ایک تاریک گڑھے میں اتار دیا جائے گا۔

دورِ نبوی ﷺ میں ایک بوڑھی عورت تھی جو مسجدِ نبوی ﷺ کی صفائی کیا کرتی تھی۔ وہ بیمار تھی اور ایک رات جب رات کافی بیت چکی تھی، اس کا انتقال ہو گیا۔ صحابہ کرام ؓ نے اس کے کفن دفن کا انتظام کیا اور اسے دفنا دیا۔ بعد ازاں نبی کریم ﷺ نے اس کے بارے میں دریافت کیا کہ وہ بوڑھی عورت کہاں ہے ؟تو صحابہ کرام ؓ نے جواب دیا کہ مرض سے اس کا انتقال ہو گیا تو ہم نے اسے دفنا دیا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ’’تم نے مجھے کیوں نہ بلایا؟‘‘۔ رسول اللہ ﷺ اس امت کے لیے ایک شفیق باپ کی مانند تھے۔ وہ اپنی امت میں سے ہر ایک کی پروا کرتے تھے، طاقتور و کمزور، مردو عورت، جوان و بزرگ……ہر ایک کا یکساں طور پہ خیال رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے اس کی قبر دکھاؤ‘‘ اور آپ ﷺ اس بوڑھی عورت کی قبر پر تشریف لے گئے، اس کے لیے دعا فرمائی اور فرمایا:

’’ان ہذہ القبر ملیئۃ، ظلم علی اھلہا، وان اللہ عزو جل منورھا لھم بصلوٰتی علیھم.‘‘

’’ یہ قبریں تاریک ہیں لیکن اللہ تعالیٰ میری دعا کے سبب ان کو روشنی عطا فرمائیں گے۔‘‘

قبر ہی انسان کا اصل گھر ہے، کیونکہ انسان مٹی سے پیدا ہوا، اور مٹی ہی میں لوٹ کر جائے گا، سو ہر شخص جب قبر میں ڈالا جاتا ہے تو قبر اسے زور سے بھینچتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذؓ کی بابت فرمایاکہ ’’ان للقبر ضغطۃ، لو کان احدا ناجیا منہا، نجی سعد ابن معاذ‘‘، ’’قبر بھینچتی ہے اور اگر کوئی شخص اس کے بھینچنے سے بچ سکتا تو وہ سعد بن معاذ ؓ ہوتے‘‘۔’’هَذَا الَّذِي تَحَرَّکَ لَهُ الْعَرْشُ وَفُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَائِ وَشَهِدَهُ سَبْعُونَ أَلْفًا مِنْ الْمَلَائِکَةِ لَقَدْ ضُمَّ ضَمَّةً ثُمَّ فُرِّجَ عَنْهُ عَذَابُ الْقَبْرِ‘‘2۔سعد بن معاذ ؓ، جو اللہ کے ولی تھے، وہ بھی قبر کے بھینچنے سے بچ نہ سکے۔ یہ وہ شخص ہے کہ جس کے مرنے سے عرش الٰہی ہل گیا ، یہ وہ شخص ہے کہ جس کے لیے آسمان کے دروازے کھل گئے ……یہ وہ شخص ہے جس کے جنازے میں ستر ہزار فرشتے شریک ہوئے لیکن اس کی قبر نے ایک مرتبہ اس کو دبایا، اس کے بعد پھر وہ عذاب ختم ہوگیا۔ سعد بن معاذؓ انصار کے ان سرداروں میں سے ایک تھے جنہوں نے مدینہ میں نبی کریم ﷺ کا استقبال کیا، انﷺ کی بہترین میزبانی کی اور اپنی موت کے وقت تک ہر طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے رہے۔

اسی طرح ایک بار ایک چھوٹے بچے کو دفنایا جا رہا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی قبر کے بھینچنے سے بچ سکتا تو وہ یہ بچہ ہوتا لیکن یہ بھی بھینچا جاتا ہے۔

فتنۂ قبر

رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث ہمیں قبر میں مردے سے سوال و جواب کے بارے میں بتاتی ہے۔ قبر میں موجود انسان کے پاس دو فرشتے آتے ہیں……منکر اور نکیر۔ ان کی شکلیں خوفناک اور ہیبت ناک ہوں گی ، وہ اس شخص کو اٹھا کر بٹھا دیں گے اور مردہ ان کو دیکھ کر دہشت زدہ ہو جائے گا۔ پھر وہ اس سے سیدھے سادے تین سوال پوچھیں گے۔ وہاں کسی ٹال مٹول، کسی حیل و حجت کی گنجائش نہیں ہو گی، تین سوال ہوں گے جن کے جواب بھی فوری اور سیدھے سادے دینے ہوں گے۔

’’ما ربّک؟‘‘ تمہارا رب کون ہے؟

’’وما دینک؟‘‘ تمہارا دین کیا ہے؟

’’ومن نبیّک؟‘‘ اور تمہارا نبی کون ہے؟

محض تین سوال ہیں۔ اور یہ وہ اصل امتحان ہے جس کی تمام عمر تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنی زندگی کے کتنے ہی سال امتحانوں کی تیاری میں گزار دیتے ہیں۔ مگر اس اصل اور اہم ترین امتحان کی تیاری میں کتناوقت صرف کرتے ہیں؟سوال ہمیں بتا دیے گئے ہیں، اور جواب بھی ہمیں معلوم ہیں۔

مومن ان سوالوں کے یہ جواب دے گا: ’’ میرا ربّ اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے ، اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘‘۔ آسمان سے ایک آواز سنائی دے گی:’’قد صدق عبدی‘‘ اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے بیان کی فوری تصدیق کر دیں گے۔اسی لیے اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں: يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَةِ 3 ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں، اللہ ان کو اس مضبوط بات پر دنیا کی زندگی میں جماؤ عطا کرتا ہے اور آخرت میں بھی‘‘، اور یہ مضبوط بات کیا ہے؟ یہ مضبوط بات لا الٰہ الا اللہ ہے۔ اللہ تعالیٰ مومن و مسلم کو لا الٰہ الا اللہ پر استقامت عطا کرتے ہیں اور اس پر جما دیتے ہیں۔

جبکہ یہی سوال جب غیر مسلم یا منافق سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارا نبی کو ن ہے؟ تو وہ کہتا ہے:’’……کیا؟ میں نہیں جانتا!……میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا اور میں نے بھی یہ کہہ دیا……‘‘۔ تو فرشتے لوہے کا بھاری گرز اس کے سر پر دے ماریں گے جو اسے مٹی میں ملا دے گا۔ اس شخص نے کیا کیا؟ محض یہ کہ جو لوگوں کو نبیوں کے بارے میں کہتے سنا اس نے بھی وہی دہرا دیا۔’ میں نے ابو جہل کو محمدؐ کے بارے میں یہ کہتے سنا…‘’…میں نے ابو لہب کو سنا…‘’…میں نے اے بی سی نیوز پر دیکھا…‘’…میں نے سی این این پر سنا……‘۔مگر یہ وہ جواب نہیں ہے جو قبر میں فرشتے آپ سے سننا چاہتے ہیں۔ وہ توصرف ایک صاف اور سیدھا جواب سننا چاہتے ہیں کہ ’’محمد ﷺ میرے نبی ہیں‘‘۔ اور وہاں صرف یہی جواب قبول ہو گا۔

قبر میں جو تین سوال پوچھے جائیں گے،ان تینوں سوالوں کے جواب دینا لازم ہو گا، وہاں محض یہ کہنا کفایت نہیں کرے گا کہ میں ایک خدا پر یقین رکھتا ہوں۔خدا کے نمائندوں یعنی اس کے نبیوں ، محمد ﷺ، عیسیٰؑ، موسیٰؑ، ابراہیم ؑ……علیہم السلام……اور تمام انبیاؑ جنہوں نے خدا کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچایا ،ان پر ایمان لانا قبر و آخرت میں عذاب سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے۔

یہ وہ امتحان ہے جس کا قبر میں سامنا کرنا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ وہ آخری ابتلاء ہے جس کا مومن کو سامنا کرنا ہو گا۔

اسماء بنت ابی بکرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر فتنۂ قبر کے بارے میں خطبہ دیا یہاں تک کہ مسجد میں (صحابہ کے رونے سے) ایک بلند شور پیدا ہو گیا۔ اسماءؓ فرماتی ہیں کہ شور اتنا بلند تھا کہ میں نبی ﷺ کی بات سن نہ سکی۔ پھر جب شور ذرا کم ہوا تو میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا تھا ؟تو اس نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اوحی الی انکم تفتنون فی قبورکم قریبا من فتنۃ دجال‘‘۔

رسول اللہ ﷺ نے قبر کی آزمائش کو اپنی شدت اور سختی میں فتنۂ دجال سے مماثل قرار دیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ما من فتنۃ منذ عن خلق آدم الی قیام الساعۃ اشد من فتنۃ دجال۔ ’’آدم ؑ کی پیدائش سے لے کر قیامت کے دن تک، کوئی فتنہ دجال کے فتنے سے بڑا اور سخت نہیں ہے‘‘۔ اور ہم میں سے ہر ایک اپنی قبر میں ایسے سخت ترین امتحان سے گزرنے والاہے۔ یہ کوئی امکانی بات نہیں ، بلکہ یقینی امر ہے۔ یہاں کسی اور کی نہیں بلکہ میری اور آپ کی بات ہو رہی ہے۔ بہت جلد، میں اور آپ اس فتنہ اور ابتلاء سے گزرنے والے ہیں۔

جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ سنا تو مسجد میں ان کی آہ و زاری سے ایک شور مچ گیا۔ وہ اس لیے رو رہے تھے کیونکہ ان کے دل نرم تھے اور قبر و آخرت کا تذکرہ سن کر پسیج جاتے تھے، بھر آتے تھے۔ مگر ہم ……ہم اس تذکرے سے متاثر نہیں ہوتے۔ اور اگر متاثر ہوتے بھی ہیں تو یہ تاثر بے حد عارضی ہوتا ہے، جو بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے انسانی زندگی ختم ہوتے دیکھتے ہیں، مردہ انسان کو قبر کے گڑھے میں ڈلتا دیکھتے ہیں، اپنی آنکھوں سے قبر اور موت کا مشاہدہ کرتے ہیں، مگر اس کے باوجود اسی قبرستان میں ہم آپس میں ہنسی مذاق بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ قسوۃ القلب کی علامت ہے۔ دلوں کی سختی کی، یہ دل ایسے سخت ہیں جیسے پتھر کی چٹانیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ حال تھا کہ ان کے سامنے محض قبر کا تذکرہ ہوتا اور ان کی آہ و بکا سے مسجد میں ایسا شور بپا ہو جاتا کہ کہنے والے کی بات سننا مشکل ہو جاتا۔

ہم قسوۃ القلب کی بیماری کا شکار ہیں، جس کا ہمیں علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مرض جو ہمیں لاحق ہے شدید سے شدید تر امراضِ دل سے کہیں زیادہ سنگین نوعیت کا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہم لوگ جو دل کے معمولی سے مسئلے پر بھی انتہائی جان فشانی سے اپنا وقت، محنت اور پیسہ لگا کر علاج کرتے ہیں، دل کی ان (روحانی) بیماریوں کی جانب بالکل توجہ نہیں دیتے اور انہیں یونہی اندر ہی اندر بڑھنے اور پھیلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’ إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ تُبْتَلَی فِي قُبُورِهَا فَلَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللَّهَ أَنْ يُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِي أَسْمَعُ منہ.‘‘

’’اس جماعت کو ان قبروں میں عذاب ہو رہا ہے، کاش کہ اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی قبر کا عذاب سنا دے جسے میں سن رہا ہوں ۔‘‘4

ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبر میں مردے کو ملنے والے عذاب کو سن سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مردے کی آوازیں سن سکتے تھے بلکہ ہم ایسے واقعات سن چکے ہیں جن میں عام لوگوں نے قبر سے مردوں کو باہر نکلتے، عذاب پاتے ہوئے چیختے چلّاتے سنا ہے اور ان کے جسموں پر ان کو ملنے والے عذاب کے نشان نظر آ رہے ہوتے۔
ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ جب انسان نیند کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کی روح اس کے جسم سے علیحدہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بعض اوقات سویا ہوا شخص جو خواب دیکھ رہا ہوتا ہے وہ اس قدر قوی و شدید ہوتا ہے کہ جسم اس خواب کی تاثیر سے حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے اور حالتِ خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے، حقیقت میں اس پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ (اللہ تعالی فرماتے ہیں یتوفاکم عند منامکم……) روح اس جسم سے جدا ہوتی ہے اور اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں۔ اسی طرح، عذابِ قبر کی شدت اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی شدت سے جسم حرکت پر مجبور ہو جاتا ہے اور قبر سے مردے نکل کر بھاگتے ہوئےنظر آتے ہیں جبکہ فرشتے انہیں عذاب دے رہے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے، ان شاء اللہ)

[یہ سلسلۂ مضامین نابغۂ روزگار، مجاہد و داعی، مبلغ و مقاتل فی سبیل اللہ شیخ انور العولقی شہید رحمۃ اللہ علیہ کے انگریزی میں ارشاد کیے گئے سلسلۂ دروس ’Al-Aakhirah – The Hereafter‘ کا اردو ترجمہ ہیں، جو بِتوفیق اللہ، قسط وار مجلّہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ میں شائع کیے جا رہے ہیں ۔ ]


1 سنن ابن ماجہ

2 سنن النسائی

3 الابراہیم: ۲۷

4 صحیح مسلم:۲۷۱۲

Previous Post

امیر المومنین شیخ ہبۃ اللہ اخوند زادہ نصرہ اللہ کی ہدایات…… مجاہدین کے نام | نومبر و دسمبر ۲۰۲۱

Next Post

ریا اور حُبِّ دنیا اور ان کا علاج

Related Posts

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چھبیسواں درس

26 ستمبر 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | پچیسواں درس

14 اگست 2025
موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | چوبیسواں درس

14 جولائی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | تئیسواں درس

9 جون 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | بائیسواں درس

25 مئی 2025
موت وما بعد الموت | سترھواں درس
آخرت

موت وما بعد الموت | اکیسواں درس

14 مارچ 2025
Next Post

ریا اور حُبِّ دنیا اور ان کا علاج

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version