اسلامی نظامِ حکومت (خلافت اور امارت) کی اہمیت
خلیفہ اور سلطان کی امارت کے بغیر اسلامی بنیادوں پر قائم حکومت شرعی احکامات کی تطبیق نہیں کرسکتی۔ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ایک مکمل نظامِ حیات ہے جس میں مخلوق کے مصالح، معاملات، عقیدہ، جہاد، اوامر و نواہی،حدود، تربیت، امر بالمعروف و نہی عن المنکر، اخلاق اور آداب سمیت ہر چیز موجود ہےاور ان تمام امور کی تطبیق ایک ایسی اسلامی حکومت کے ساتھ جڑی ہے، جس کے اوپر ایک ایسا خلیفہ یا سلطان ہو، جو اللہ کی طرف سے بھیجے گئے نظام کو حکومت کے طور پر نافذ کرے۔
جب فرض احکامات کو عملی زندگی میں لانا اسلامی نظام کے ساتھ مربوط ہوگیا، تو اسلامی نظام کا قیام فرض ہوجاتا ہے، ایک اصولی قاعدہ ہے’’ما لا يتم الواجب إلا به فھو واجب‘‘، یعنی واجب کی تکمیل جس چیز پر موقوف ہو وہ بھی واجب ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (سورۃ البقرہ:۳۰)
’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔ ‘‘
امام قرطبیؒ اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں’’یہ آیت ایک ایسے امام و خلیفہ کے بارے میں ہے، جس کی بات سنی جائے اور اس کی اطاعت کی جائے، تاکہ جس پر مسلمان متحد ہوں اور جس پر خلافت کے احکام نافذ ہوجائیں، لہٰذا اس کے واجب ہونے میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں، نہ ہی اُمت میں اور نہ ہی ائمۂ امت میں ، لیکن صرف اور صرف ابو بکر اصم جو بڑے معتزلہ میں سے تھے وہ کہتے ہیں، کہ یہ واجب نہیں‘‘۔
ہمارے لیے اس کے واجب ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ قول مبارک ہے کہ ’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’اے داودؑ میں تمہیں زمین میں اپنا خلیفہ بناتا ہوں‘۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ وعدہ کیا ہے جوایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں، کہ انہیں زمین پر اپنا خلیفہ بنائے گا‘‘، اور ان جیسی اور آیات بھی موجود ہیں جو قیامِ خلافت کی دلیل ہے۔
امام قرطبی فرماتے ہیں’’جب خلیفہ کے انتخاب پر انصارومہاجرین کے مابین اختلاف پیدا ہوگیا، انصار نے کہا کہ ہمارے درمیان سے بھی ایک امیر کا انتخاب ہوگا اور آپ میں سے بھی ایک امیر منتخب ہوگا۔ پس اگر کوئی یہ کہے کہ خلافت واجب نہیں، تو پھر بھلا کیوں صحابہؓ کے درمیان غیر واجب عمل میں تنازع پیداہوا‘‘۔
محمد عمر النسفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’العقائد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کا ایک امیر ہونا چاہیے، جو احکامات نافذ کرے، حدود قائم کرے، سرحدات کی حفاظت کرے، ان کے لشکروں کو منظم کرے، مسلمانوں سے صدقات (عشر و زکوٰۃ) وصول کرے، ظالموں، چورں ، غاصبوں اور ڈاکوؤں کو روکے، جمعہ اور عیدین کی نمازوں کو قائم کرے، لوگوں کے درمیان جھگڑوں کو ختم کردے،لوگوں کے حقوق دینے کے معاملے میں شہادتوں کو قبول کرے، ایسے چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں جن کا کوئی ولی وارث نہ ہوان کا نکاح کرائے ، غنیمت تقسیم کرے اور ان جیسے کئی دیگر امور نافذ کرے۔‘‘
ابنِ خلدونؒ اپنے مقدمے میں کہتے ہیں:
’’امیر کا انتخاب کرنا واجب ہےاور شریعت میں اس کے واجب ہونے کا حکم صحابۂ کرام ؓاور تابعین کے اجماع سے ثابت ہے، جب نبی کریمﷺ نے رحلت فرمائی، تو صحابہ کرامؓ نے سب سے پہلے حضرت ابو بکرصدیقؓ کا انتخاب کیا، لہٰذا یہ ثابت ہے کہ ہر زمانے میں مسلمانوں نے اپنے اوپرامیر منتخب کیا ہے اور ایسا زمانہ نہیں گزرا جس میں مسلمان بغیر امیر کے رہے ہوں اور یہ اجماع امام کے انتخاب پر دلالت کرتا ہے۔ ‘‘
علمائے کرام کہتے ہیں:’’ امیر کا انتخاب دین کے اہم واجبات میں سے ہے، جب صحابۂ کرامؓ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریمﷺ کی تدفین سے قبل خلیفہ کا انتخاب کیااوراس کے بعدآپﷺ کی تدفین کی، آپؓ کے اس عمل سے خلافت و امارت کے قیام کی اہمیت واضح ہوتی ہےاور اس بابت علمائے کرام سے کئی اقوال نقل ہیں جن سے کوئی انکار نہیں کرسکتا‘‘۔
اگر حاکمیتِ اسلام نہ ہو، تو قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں موجود تمام شرعی احکامات معطل ہوجائیں گے، حالانکہ یہ شرعی احکامات نفاذ کے لیے آئے ہیں نہ کہ معطل کرنے کے لیے، لہٰذا مجاہدین کی طرف سے امارت اسلامیہ کے قیام کی جدوجہد دین اسلام کے اہم ترین واجب عمل کے لیے ہے۔
مجاہدین کو چاہیے کہ عشر و زکوٰۃ میں بلاوجہ اسراف سے بچیں
مجاہدین کو چاہیے کہ مسلمانوں کی طرف سے ادا کیے گئے صدقات یعنی عشراور زکوٰۃ کو مناسب جگہوں میں استعمال کریں، ان اموال میں سے ذاتی استعمال اور اسراف سے اپنے آپ کو بچائیں، نبی کریمﷺ کا فرمانِ مبارک ہے کہ حضرت خولہ انصاریہؓ کہتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:……
’’ بہت سے لوگ اللہ کے مال میں ناحق تصرف کرتے ہیں (یعنی زکوٰۃ، غنیمت اور بیت المال کے مال میں امام و حکمران کی اجازت کے بغیر تصرف کرتے ہیں اور اپنے حق اور اپنی محنت سے زیادہ وصول کرتے ہیں وہ قیامت کے دن دوزخ کی آگ کے سزاوار ہوں گے‘‘۔ ابنِ حجرؒ کہتے ہیں، کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے اموال کو باطل اور ناحق خرچ کرتے ہیں۔
حضرت خولہ بنت قیسؓ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ’’بلاشبہ یہ مال ایک سبز و شیریں چیز ہے (یعنی مال ایک ایسی چیز ہے جو انسان کی نظر کو بھاتا ہے اور دل کو لبھاتا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو حق یعنی حلال ذریعہ سے حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس میں برکت عطا کی جاتی ہے اور یاد رکھو بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مال یعنی مال غنیمت میں سے جس چیز کو ان کا دل چاہتا ہے اپنے تصرف میں لے آتے ہیں، قیامت کے دن ان کے لیے صرف دوزخ کی آگ ہوگی‘‘۔
صاحبِ مرقاۃ لکھتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مال سے مراد زکوٰۃ اور غنیمت ہے، یعنی اگر کوئی زکوٰۃ اور غنیمت کو بلاوجہ خرچ کردے اور جس طرح اس کادل چاہے اس مال کوخرچ کرے، تو اسے قیامت کے دن سوائے دوزخ کی آگ کے کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا مجاہدین کو چاہیے کہ ان جیسے اموال کے خرچ کے بارےمیں معتمد علمائے کرام اور مسئولین سے رہنمائی لیں تاکہ ہر مال کے خرچ کی جگہ ان کو معلوم ہوجائے، ایسانہ ہو کہ خدانخواستہ مجاہد کی نیت اور قربانی تو اللہ کی رضا کے لیےہو لیکن اس کاکام شریعت کے خلاف ہو اور اس کے عذاب کا سبب بن جائے۔
(وما علینا إلّا البلاغ المبین!)