رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ نعم إن قتلت في سبيل الله تعالیٰ… تیری شہادت قبول ہوگی، تیرے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے …إن قتلت في سبيل الله… اگر تو اللہ کے رستے میں مارا جائے۔ تو پہلی شرط کیا ہے کہ جو شخص مارا جا رہا ہو، وہ اللہ کے رستے میں مارا جا رہا ہو۔ اللہ کےرستے میں ماراجانے سے کیا مراد ہے؟ یہاں پہ اخلاص کے پہلو سے اور ریا سے بچنا، اس پہلو پہ بات نہیں ہورہی، اس پہ حدیث میں آگے چل کے جو تیسری شرط ہے وہ اس پہ بات کرے گی۔ یہاں خود نفس ِ سبیل کی بات ہو رہی ہے، کہ وہ جس رستے پہ چل رہا ہو وہ جہاد ِ شرعی کا رستہ ہو، وہ اللہ کارستہ ہو، وہ کسی اور مقصد کی طرف جانے والا رستہ نہ ہو۔
تو ہم فی سبیل اللہ کس کو کہتے ہیں، دوسری حدیث سے اس کی تشریح ہوتی ہے، کہ … من قاتل لتكون كلمة الله هي العليا فهو في سبيل الله… رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے اس لیے جنگ کی، اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جو لڑا وہ اللہ کے رستے میں ہے۔ تو اللہ کے رستے میں کون ہے، جو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑ رہا ہے۔ اب یہ اعلائے کلمۃ اللہ کیا ہوتا ہے؛ اعلاء کہتے ہیں کسی چیز کو بلند کرنے کو، اونچاکرنے کو۔ تو جس کی جنگ اس لیے ہے کہ وہ بلند کرے کس چیز کو، کلمۃ اللہ کو۔ اب یہ کلمۃ اللہ کیا ہے؟ تو کلمۃ اللہ کی تشریح میں شارحین ِ حدیث تین معنی بیان کرتے ہیں، تینو ں ایک دوسرے سے ملتے جلتے معنی ہیں۔ ایک معنی یہ ہے کہ کلمۃ اللہ سے مراد ہے دینُ اللہ، کہ اللہ کا دین۔ کہ جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لڑے، جیسا کہ ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں یا علامہ قرطبیؒ لکھتے ہیں کہ کلمۃ اللہ سے مراد ہے کہ اللہ کا دین، دینُ اللہ۔ تو جو اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے لڑے، وہ کس رستے میں لڑ رہا ہے؟ فی سبیل اللہ! وہ اللہ کے رستے میں ہے اور اگر وہ اس رستے میں مارا جائے گا تو وہ شہید ہوگا، اگر وہ باقی بھی تین شرائط پوری کرے۔ دوسرا علماء فرماتے ہیں کہ اس سےمراد ہے کہ توسیع دعوت الی اللہ، کہ جو اس لیے لڑے کہ اللہ کے دین کی دعوت پھیلے،اسلام کی دعوت عام ہو جائے، تو جو اس لیے لڑ رہا ہے وہ بھی اللہ کے رستے کے اندر لڑ رہا ہے جیسا کہ علامہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں۔ تو یہ دوسرا معنی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہ معنی کہ جو اللہ کے دین کے غلبے کے لیے لڑے، باقی سب دین پست ہو جائیں، اسلام غالب آجائے، جو اس لیے لڑ رہا ہے، اس کا لڑنا فی سبیل اللہ ہے۔ جو اس لیے لڑ رہا ہے کہ اسلام کی دعوت پھیلے اور کفر و شرک کی دعوت مٹے، وہ اللہ کے رستے میں لڑ رہا ہے۔ تیسرا معنی وہ کہتے ہیں کہ کلمۃ اللہ سے مراد ہے، لا الہ الا اللہ!۔۔۔ کہ جو لا الہ الا اللہ کے لیے لڑتا ہے، جو توحید کے لیے لڑتا ہے، جیسا کہ علامہ عینیؒ لکھتے ہیں، جیسا کہ صاحب ِ عون المعبود لکھتے ہیں کہ جو اس لیے لڑ رہا ہے کہ توحید کا بول بالا ہو، شرک ختم ہو، کفر ختم ہو، شرک کا ہر مظہر ختم ہو اور توحید اور لا الہ الا اللہ ہر سمت دنیا میں توحید کا کلمہ پھیل جائے، عملاً حاکمیت بھی توحید کی ہو اور قلوب کے اندر بھی توحید راسخ ہو، جو اس لیے لڑ رہا ہے اس کا لڑنا کس کے لیے ہے، اللہ کے لیے ہے، وہ اللہ کے رستے میں ہے۔ تو یہ تینوں معنی ملتے جلتے ہیں؛ جو اللہ کے دین کے لیے لڑے، وہ اللہ کے رستے میں ہے کہ دین غالب آئے اور باقی سب ادیان مغلوب ہوں۔ جو اس لیے لڑے کہ توحید غالب آئے، توحید پھیلے اور شرک ختم ہو، وہ اللہ کے رستے میں ہے۔ جو اس لیے لڑے کہ اسلام کی دعوت عام ہو جائے تو اس کا لڑنا جو ہے وہ اللہ کے رستے میں ہے۔
اس تعریف سے پیارے بھائیو! مجھے اور آپ کو مقصد سمجھ میں آجانا چاہیے کہ ہم جہاد کس لیے کر رہے ہیں۔ ہمارا جہا د اگر کسی ظلم کے خاتمے کے خلاف بھی اٹھنے سے شروع ہو تو یہاں پہ رکے گا نہیں۔ ہمارا جہاد اس لیے بھی شروع ہو کہ مسلمانوں کی سرزمین سے کفار کو نکالنا ہے تویہ جہاد ِ شرعی تب بنے گا کہ جب اس کا ہدف یہ ہو کہ جب کافر کو نکال دیں گے تو پھر کیا کریں گے؟ شریعت نافذ کریں گے، اسلام غالب کریں گے اور توحید کو قائم کریں گے اور شرک کو مٹائیں گے۔ اسی طرح مظلومین جب ظلم ختم کر دیں گے، ظالم کا ہاتھ توڑ دیں گے تو پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس کے بعد شرک ختم کریں گے، توحید قائم کریں گے، شریعت نافذ کریں گے۔ جو اس لیے لڑ رہا ہے، اسلام کی دعوت پھیلانے کے لیے، اسلام کو قائم کرنے کے لیے، تو اس کا لڑنا اللہ کے رستے کے اندر ہے۔
اس تعریف سے کچھ باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ پھر بعض جنگیں ایسی ہیں جو بظاہر کلمہ گو لوگ لڑ رہے ہیں لیکن وہ جہاد نہیں ہے۔ مثلاً کیا سمجھ میں آتا ہے؟ نمبر ایک تو یہ کہ جو وطنیت کی خاطر لڑے وہ جہاد نہیں کر رہا۔ جہاد کی تعریف بتا دی گئی، فی سبیل اللہ کی تعریف بتا دی گئی کہ جو فی سبیل اللہ نہیں ہے وہ کون ہے مثلاًجو وطنیت کی خاطر لڑ رہا ہے۔ ہم بھی زمین کی خاطر لڑتے ہیں لیکن صرف زمین پہ بات رکتی نہیں ہے ہماری۔ کیا ہم افغانستان کی زمین واپس نہیں لینا چاہتے؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ امریکا پاکستان کی سرزمین سے بے دخل ہوجائے؟ چاہتے ہیں۔ لیکن کیاہماری جنگ یہیں پہ ختم ہو جاتی ہے، کیا بس اتنا ہی مطلوب ہے؟ تو جو شخص بس اس لیے لڑ رہا ہے کہ غاصبوں کو نکال دے، باہر والوں کو، اجنبیوں کو، جو باہر سے فارنرز آئے ہوئے ہیں ان کو نکال دے اور ان کو نکالنے کے بعد کیانی حکومت کرتا ہو، اس کے بعد کفر کا یہی نظام چلتا ہو، اس کے بعد یہی نواز شریف، بے نظیر اور ان کی پارٹیاں چل رہی ہوں، اس کو اس سے غرض نہیں ہے، یہ جہاد نہیں کر رہا ہے، یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے، یہ وطن کی خاطر لڑ رہا ہے۔ پاکستان کی فوج کس لیے لڑتی ہے، پاکستان کی فوج میں کوئی فوجی بھی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے لڑ رہا ہوں، اس کو اس لفظ کا مطلب ہی نہیں پتہ ہوگا کہ یہ ہوتی کیا چیز ہے۔ وہ لڑ رہا ہے وطن کی خاطر، ملکی سالمیت کی خاطر، پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر، وطن بطور وطن اس کا خدا ہے، وہ اس کا معبود ہے، وہ اس کی خاطر لڑتا ہے۔ تو جب اس طرح لڑے گا تووہ کس طرح کا مجاہد ہے اور وہ کیسے اللہ کے رستے میں مارا جانے والا شہید کہلائے گا، کیسے اس پہ یہ لفظ منطبق ہوگا۔ اس لفظ کو بہت سہل جان لیا گیا نا۔ ہر ایک شہید ہو گیا مثلاً ابھی سلمان تاثیر گستاخ ِ رسول ہو نے کو باوجود، اس کا بیٹا کہتا ہے وہ شہید ہوا ہمیں اس پہ فخر ہے۔ تو شہید اتنے آرام سے بن جاتا ہے، شریعت نے شہید کے لیے کچھ اوصاف بتائے ہیں۔ اسی طرح پوری پیپلزپارٹی کیا کہتی ہے، ان کی اصطلاح میں شہید بی بی صاحبہ! تو وہ کس چیز کی شہید؟ یعنی اس قسم کی عورت کہ جس کا نہ دین نہ ایمان نہ کچھ اور، باقی تفصیلات بتانے کی ضرورت نہیں ہے، تو وہ بھی شہید ہوگئی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید، فلاں شہید، یعنی شہداء کی ایک لمبی فہرست ہے ہماری سیاست میں۔ کفریہ سیاست کرتے کرتے مرے، ساری زندگی اللہ کی ایک حد نہیں نافذ کی، دین کا تمسخر اپنے عمل اور اپنے قول سے اڑایا، اس کے بعد بھی وہ شہید رہتے ہیں۔ اور یہ سارے فوجی وزیرستان میں اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے آتے ہیں؟ یہ توحید پھیلانے کے لیے آتے ہیں؟ اور یہ سوات میں اس لیے گئے تھے کہ شریعت نافذ کریں گے؟ تو یہ فی سبیل اللہ نہیں ہے، یہ سبیل الطاغوت میں لڑ رہے ہیں، یہ کفر کی خاطر لڑ رہے ہیں، یہ وطن کی خاطر لڑ رہے ہیں۔ وطن کی خاطر پیارے بھائیو کافر بھی لڑتا ہے۔ کلمہ گو اگر وطن کی خاطر لڑنا شروع کر دے تو اس سے وہ لڑناجہاد نہیں ہو جاتا۔ تو مثال دیتا ہوں کہ اگر صرف کلمہ پڑھنے سے ہو جاتا تو بہت سے ڈاکو ہیں جو کلمہ پڑھتے ہیں، کیا وہ جہاد کر رہے ہوتے ہیں؟ بہت سے لوگ ہیں نا! بہت سے چور ہیں جو کلمہ پڑھتے ہیں، بندوق لے کے گھستے ہیں لوگوں کے گھروں میں اور سب کچھ لوٹ کے نکل جاتے ہیں تو وہ جہاد کررہے ہیں؟
ہر وہ بندوق جو مسلمان اٹھائے وہ جہاد نہیں کہلاتی، اس کے لیے شریعت نے کچھ حدود و قیود بتا دی ہیں۔ تو یہ فوجی جو یہ جنگ لڑ رہے ہیں، وہ کفر کی جنگ ہے، وہ وطنیت کی جنگ ہے، وطن کو آزادکرانے کی جنگ ہے۔ ایسی جنگ کوئی بھی کرے، مثال کے طور پہ؛ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ لڑتی ہے، کس لیے لڑتی ہے؟ جموں و کشمیر لبریٹ ہو جائے، آزاد ہو جائے۔ یہ اسلام کی جنگ تو نہیں ہے، ان کو اس سے نہیں غرض کہ اس کے بعد وہاں پہ فاروق عبداللہ حکومت کرتا ہے یا کون حکومت کرتا ہے اور کیا نظام چلتا ہے۔ ان کو صرف زمین چھڑانے سے غرض ہے، وطن آزاد کرانے سے غرض ہے، جس کو اس سے غرض ہوگی اس کی جنگ اسلام کے لیے نہیں ہے۔ الفتح لڑ رہی ہے فلسطین میں، کس لیے لڑ رہی ہے کہ زمین ِ فلسطین آزاد ہو جائے چاہے محمود عباس جیسا کافر وہاں پہ حاکم ہو، ان کو اس سے فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہر شرعی و غیر شرعی طریقے سے اپنے مقصد تک پہنچنا ہے تو وہ اللہ کے رستے میں نہیں لڑ رہے ہیں۔ جن کی جنگ اس لیے نہیں ہے کہ وہاں پہ اسلام آئے، جن کی جنگ اس لیے نہیں ہے کہ توحید آئے اور شرک و کفر مٹ جائے، جن کی جنگ شریعت کے نفاذ کے لئے نہیں ہے، وہ اللہ کے رستے میں نہیں ہے۔تو یہ پہلی چیز ذہن میں رکھیے کہ جو وطن کی خاطر لڑتا ہے، اس کی جنگ فی سبیل اللہ جنگ نہیں ہے اور اس کا مرنا شہادت نہیں ہے، مردار ہو رہا ہے، حرام موت مر رہا ہے وہ۔
اسی طرح جو شخص بھی قومیت یا لسانیت کی خاطر لڑتا ہے، تو ہمارے ملک میں ایسی تحریکات موجود ہیں جو قوم کی خاطر لڑتی ہیں۔ مثال کے طور پہ اپنے ملک سے باہر بھی نکلے، اگر کوئی آج افغانستان میں اس لیے لڑے کہ پشتون قوم کو میں نے آزاد کرانا ہے۔ الحمدللہ افغانستان میں جو مجاہدین موجود ہیں ان کی غالب اکثریت اس لیے نہیں لڑ رہی ہے۔ ان شاء اللہ وہ امارت اسلامیہ کے قیام کے لیے اور شریعت کی دوبارہ واپسی کے لیے لڑ رہی ہے۔ لیکن بالفرض، اگر کوئی ایسے لوگ ہوں کہ جو کہیں کہ ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ امریکا و نیٹو نکل جائیں اور ہماری کُل غر ض اس سے ہے کہ یہاں پہ ایک پشتون قوم آزاد ہو، اس کے بعد پھر جب وہ نکل جائیں تو وہ مذاکرات بھی اسی بنیاد پہ کر رہے ہوں کہ بھئی نکلنے کے بعد کرزئی بھی بیٹھ جائے، دوستم بھی بیٹھ جائے، شمالی اتحاد بھی بیٹھ جائے، ملا عمر بھی بیٹھ جائے، باقی بھی سب بیٹھ جائیں، مل ملا کے، مشورہ کر کے جو بہتر ہو وہ کر لیں۔ تو جس کی مستقبل کی یہ نظر ہے، جس کا ہدف ہی واضح نہیں ہے کہ اس نے کس کے لیے لڑنا ہےاور وہ صرف و صرف اپنی قوم کو آزاد کرانا چاہتا ہے، اس کی جنگ فی سبیل اللہ جنگ نہیں ہے، اس لیے کہ مقصد یہاں نہیں پورا ہوتا۔ باہر کے کافر کی جگہ اندر کا کافر آجائے تو کافر تو کافر ہی ہوتا ہے، جنگ ختم نہیں ہو گی، جنگ پھر بھی جاری رہے گی۔
تو یہ نقطہ ذہن میں واضح رہے کہ کوئی بھی، اسی طرح اے این پی ہے۔ اے این پی کا کیا جھگڑا ہے، اے این پی ایک پشتون قومیت کا نعرہ ہے، پختون خواہ کا نعرہ ہے۔ ایم کیو ایم ہے، یہ کیا ہے؟ متحدہ قومی موومنٹ ہے، تو یہ جو قومیت کی، عصبیت کی، لسانیت کی جتنی جنگیں ہیں، یہ سب کفر کی جنگیں ہیں، سب جاہلیت کی جنگیں ہیں، جو ان عصبیتوں پہ مرے گا، حدیث کہتی ہے کہ …فقتلته جاهلية…اس کا مرنا جاہلیت کی یعنی کفر کی موت ہوگا، وہ جنت کامستحق نہیں ہوتا اس کفر کی لڑائی لڑنے کے بعد۔
تو اس کے اوپر ہی قیاس کر لیں باقی سب۔ کوئی سرائیکی قومیت کا نعرہ بلند کرے، کوئی بے ایل اے، بلوچ لبریشن آرمی ہو، تو یہ ساری کی ساری جنگیں فی سبیل اللہ جنگیں نہیں ہیں، چاہے ظاہراً کلمہ گو لوگ ہی ان جنگوں کے اندر اتر رہے ہوں۔ اسی طرح کوئی اپنے قبیلے کی بلندی کی خاطر لڑے۔
الحمد للہ یہ بھی بالاصل یہاں نہیں موجود ہے، لیکن فرض کر لیں کہ کوئی اپنے قبیلے کی سربلندی کے لیے لڑے، کوئی اس لیے لڑے کہ وزیر قوم جو ہے وہ جیت جائے، وہ غالب آجائے، اس کااعلائے کلمۃ الوزیر ہو جائے، یا اعلائے کلمۃ المحسود ہو جائے۔ یا اسی طرح وہ یہ چاہ رہے ہوں کہ جو بھی قوم ہے، وہ داوڑ ہے، وہ آفریدی ہے، وہ مہمند ہے یا وہ پنجابی ہے یا وہ کسی اور نسل کے ہیں ، جو بھی مختلف نسلوں کے لوگ موجود ہیں ، اگر وہ اپنی قوم و قبیلے کی سربلندی کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنے قبیلے کو باقی سب پر غالب کرنے کے لیے۔ ان کو اسلام تو چاہیے لیکن اسلام اپنے قبیلے کے ہاتھ سے ہی چاہیے اور غلبہ تو چاہیے لیکن اس طرح چاہیے کہ بس ان کا قبیلہ سب کے اوپر حاکم ہو۔ جس کی جنگ اس بنیاد پہ ہے، اس کو شریعت سے پہلے کسی اور چیز سے غرض ہے تو وہ اللہ کی خاطر نہیں لڑ رہا اور وہ فی سبیل اللہ نہیں ہے ۔
(جاری ہے، ان شاء اللہ)
٭٭٭٭٭