نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

سیرتِ محمدی ﷺ کی عملی عزیمت | حصہ دوم(آخری)

علامہ سید سلیمان ندوی by علامہ سید سلیمان ندوی
21 دسمبر 2021
in نومبر و دسمبر 2021, ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
0

توکل و اعتماد کی روشن مثال

اللہ پر اعتماد، توکل اور بھروسے کی شان دیکھنا ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ میں دیکھو۔ حکم تھا …فاصبر کما صبر اولوا العزم من الرسل… ’جس طرح اولو العزم پیغمبروں نے صبر و استقلال دکھایا، تو بھی دکھا‘۔ آپ ﷺ نے وہی کر دکھایا۔ آپ ﷺ ایک ایسی جاہل اور اَن پڑھ قوم میں پیدا ہوئے تھے جو اپنے معتقدات کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتی تھی اور اس کے لیے مرنے مارنے پر تیار ہو جاتی تھی، مگر آپ ﷺ نے اس کی کبھی پروا نہ کی، عین حرم میں جا کر توحید کی آواز بلند کرتے تھے اور وہاں سب کے سامنے نماز ادا کرتے تھے۔ حرم محترم کا صحن قریش کے رئیسوں کی نشست گاہ تھا، آپ ﷺ ان کے سامنے کھڑے ہو کر رکوع و سجود کرتے تھے، جب آیت …فاصدع بما تؤمر… (اے محمدﷺ! جو تم کو حکم دیا جاتا ہے، اس کو علی الاعلان سنا دو) نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے کوہ ِ صفا پر کھڑے ہو کر تمام قریش کو پکارا اور اللہ تعالیٰ کا حکم پہنچایا۔

قریش نے آپ ﷺ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا، کس کس طرح کی اذیتیں نہیں پہنچائیں، جسم مبارک پر صحن حرم کے اندر نجاست ڈالی، گلے میں چادر ڈال کر پھانسی دینے کی کوشش کی، راستہ میں کانٹے بچھائے، مگر آپ ﷺ کے قدم کو راہ ِ حق سے لغزش ہونی تھی نہ ہوئی۔ ابو طالب نے جب حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے کا اشارہ کیا تو آپ ﷺ نے کس جوش اور ولولہ سے فرمایا کہ ’’چچا جان! اگر قریش میرے داہنے ہاتھ پر آفتاب اور بائیں ہاتھ پر ماہتاب بھی رکھ دیں، تب بھی میں اس فرض سے باز نہ آؤں گا‘‘۔ آخر آپ ﷺ کو مع بنی ہاشم کے پہاڑی درّے میں تین سال تک گویا قید رکھا گیا، آپ ﷺ کا اور آپ کے خاندان کا مقاطعہ کیا گیا۔ اندر غلّہ جانے کی روک تھام کی گئی، بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، جوان درخت کے پتے کھا کھا کر زندگی بسر کرتے تھے۔ آخر آپ ﷺ کے قتل کی سازش ہوئی، یہ سب کچھ ہوا مگر صبر و استقلال کا سرشتہ آپ ﷺ کے ہاتھ سے نہ چھوٹا۔ ہجرت کے وقت غار ِ ثور میں پناہ لیتے ہیں، کفار آپﷺ کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں، بے یار و مددگار نہتے محمد ﷺ اور مسلح قریش کے درمیان چند گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے، ابوبکر ؓ گھبرا کر اٹھتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ ہم دو ہی ہیں، لیکن ایک تسکین سے بھری ہوئی آواز آتی ہے، ابوبکر! ہم دو نہیں تین ہیں، لا تحزن إن اللہ معنا… گھبراؤ نہیں ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اسی ہجرت کے زمانہ میں اثنائے راہ میں آنحضرت ﷺ کی گرفتاری کے لیے سراقہ بن جعشم نیزہ ہاتھ میں لیے گھوڑا دوڑاتا ہوا آپ ﷺ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں؛ رسول اللہ ﷺ! ہم پکڑ لیے گئے، مگر وہاں محمد رسول اللہ ﷺ کے لب بدستور قرآن خوانی میں مصروف ہیں اور دل کی سکینت کا وہی عالم ہے۔

مدینہ پہنچ کر یہود کا، منافقین کا اور قریش کے غارت گروں کا ڈر تھا، لوگ آنحضرت ﷺ کے مسکن کا راتوں کو پہرہ دیتے تھے، کہ ایک دفعہ یہ آیت نازل ہوئی …واللہ یعصمك من الناس… یعنی اللہ تجھ کو لوگوں سے بچائے گا۔ اس وقت خیمہ سے سر باہر نکال کر پہرے کے سپاہیوں سے فرمایا؛ لوگو! واپس جاؤ، مجھے چھوڑ دو کہ میری حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ نے لے لی ہے۔

غزوۂ نجد سے واپسی میں آپ ﷺ ایک درخت کے نیچے آرام فرماتے ہیں، صحابہؓ اِدھر اُدھر ہٹ گئے، ایک بدو تلوار کھینچ کر سامنے آتا ہے، آپ ﷺ بیدار ہوتے ہیں، موقع کی نزاکت دیکھو۔ بدو پوچھتا ہے؛ بتاؤ اے محمدﷺ! اب کون تم کو میرے ہاتھ سے بچا سکتا ہے۔ اطمینان اور تسکین سے بھری ہوئی آواز آتی ہے کہ ’’اللہ‘‘۔ اس پُر اثر جواب سے دشمن متاثر ہوجاتا ہے اور تلوار نیام میں پہنچ جاتی ہے۔

بدر کا معرکہ ہے، تین سو نہتے مسلمان ایک ہزار لوہے میں غرق قریشی لشکر سے نبردآزما ہیں۔ مگر ان تین سو سپاہیوں کا سپہ سالار خود کہاں ہے؟ معرکۂ کارزار سے الگ اللہ کی بارگاہ میں دست بدعا ہے۔ کبھی پیشانی زمین پر ہوتی ہے اور کبھی ہاتھ آسمان کی جانب اٹھتے ہیں کہ ’’اے اللہ! اگر آج یہ چھوٹی سے جماعت صفحۂ عالم سے مٹ گئی تو پھر کوئی تیرا پرستار اس دنیا میں باقی نہ رہے گا‘‘۔

ایسے مواقع بھی آئے کہ مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے مگر اللہ کی نصرت اور مدد پر اعتماد کامل اور پورا بھروسہ رکھنے والا، پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پر قائم رہا۔ اُحد میں اکثر مسلمانوں نے قدم پیچھے ہٹا لیے، مگر محمد رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ پر تھے، پتھر کھائے، تیروں، تلواروں اور نیزوں کے حملے ہو رہے تھے، خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں دھنس گئی تھیں، دندان مبارک شہید ہو چکا تھا، چہرۂ اقدس زخمی ہورہا تھا، مگر اس وقت بھی اپنا ہاتھ لوہے کی تلوار پر نہیں رکھا، بلکہ اللہ ہی کی نصرت پر بھروسہ اور اعتماد رہا، کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری کا پورا یقین تھا۔ حنین کے میدان میں ایک دفعہ دس ہزار تیروں کا جب مینہ برسا تو تھوڑی دیر کے لیے مسلمان پیچھے ہٹ گئے، مگر ذات ِ اقدس ﷺ اپنی جگہ پر تھی، ادھر سے تیروں کی بارش ہو رہی تھی اور ادھر سے ’’أنا النبی لا کذب، أنا ابن عبدالمطلب‘‘ (میں پیغمبر ہوں جھوٹ نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں) کا نعرہ بلند تھا، سواری سے نیچے اتر آئے اور فرمایا: ’’میں اللہ کا بندہ اور پیغمبر ہوں‘‘ اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔

عزیزو! تم کو کسی اور ایسے سپہ سالار کا حال بھی معلوم ہے جس کی بہادری اور استقلال کا یہ عالم ہو کہ فوج کتنی ہی کم ہو، کتنی غیر مسلح ہو، وہ اس کو چھوڑ کر پیچھے بھی کیوں نہ ہٹ گئی ہو، مگر وہ نہ تو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگتا ہے اور نہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھاتا ہے، بلکہ ہر حال میں زمین کی طاقتوں سے غیر مسلح ہو کر آسمان کی طاقتوں سے مسلح ہونے کی درخواست کرتا ہے۔

یہ تھی اس راہ میں آپ ﷺ کی مثال۔

مخالفین اور دشمن سے برتاؤ

تم نے دشمنوں کو پیار کرنے کا وعظ سنا ہوگا لیکن اس کی عملی مثال نہیں دیکھی ہوگی، آؤ مدینہ کی سرکار میں میں تم کو دکھاؤں۔ مکہ کے حالات چھوڑتا ہوں کہ میرے نزدیک محکومی، بے کسی اور معذوری، عفو و درگزر اور رحم کے ہم معنی نہیں ہیں۔ ہجرت کے وقت قریش کے رئیس یہ اشتہار دیتے ہیں کہ جو محمد ﷺ کا سر قلم کر کے لائے گا، اس کو سو اونٹ انعام میں دیے جائیں گے۔ سراقہ بن جعشم اس انعام کی لالچ میں مسلح ہو کر آپ ﷺ کے تعاقب میں گھوڑا ڈالتا ہے، قریب پہنچ جاتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ گھبرا جاتے ہیں۔ حضور ﷺ دعا کرتے ہیں، تین دفعہ گھوڑے کے پاؤں دھنس جاتے ہیں، سراقہ تیر کے پانسے نکال کر فال دیکھتا ہے، ہر دفعہ جواب آتا ہے کہ ان کا پیچھا نہ کرو، یعنی سائیکولاجیکل حیثیت سے سراقہ مرعوب ہو چکتا ہے، واپسی کا عزم کر لیتا ہے، حضور ﷺ کو آواز دیتا ہے اور خط ِ امان کی درخواست کرتا ہے کہ جب حضور ﷺ کو خدا قریش پر غالب کرے تو مجھ سے باز پرس نہ ہو۔ آپ ﷺ یہ امان نامہ لکھوا کر اس کے حوالے کرتے ہیں، فتح مکہ کے بعد وہ اسلام لاتا ہے، تاہم آپ ﷺ اس سے یہ نہیں پوچھتے کہ سراقہ تمہارے اس دن کے جرم کی اب کیا سزا ہو؟

ابو سفیان کون ہے؟ وہ جو بدر، احد، خندق وغیرہ میں لڑائیوں کا سرغنہ تھا۔ جس نے کتنے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرایا، جس نے کتنی دفعہ خود حضور سرور عالم ﷺ کے قتل کا فیصلہ کیا، جو ہر قدم پر اسلام کا سخت ترین دشمن ثابت ہوا۔ لیکن فتح مکہ سے پہلے جب حضرت عباسؓ کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے آتا ہے تو لوگو! اس کا ہر جرم اس کے قتل کے مشورہ دیتا ہے مگر رحمت عالم ﷺ کا عفو ِ عام ابو سفیان سے کہتا ہے کہ ڈر کا مقام نہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہیں، پھر حضور ﷺ نہ صرف اس کو معاف فرماتے ہیں بلکہ یہ بھی فرماتے ہیں، …’’من دخل دار ابی سفیان کان امنا‘‘ (جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اس کو بھی امن ہے)۔

ہند، ابو سفیان کی بیوی، وہ ہند جو اُحد میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ گا گا کر قریش کے سپاہیوں کا دل بڑھاتی ہے، وہ جو حضور ﷺ کے سب سے محبوب چچا اور اسلام کے ہیرو حضرت حمزہؓ کی لاش کے ساتھ بے ادبی کرتی ہے، ان کے سینہ کو چاک کرتی ہے، ان کے کان ناک کاٹ کر ہار بناتی ہے، کلیجہ کو نکال کر چبانا چاہتی ہے، لڑائی کے بعد اس منظر دیکھ کر آپ ﷺ بیتاب ہو جاتے ہیں۔ وہ فتح مکہ کے دن نقاب پوش سامنے آتی ہے اور یہاں بھی گستاخی سے باز نہیں آتی، لیکن حضور ﷺ پھر بھی کچھ تعرض نہیں فرماتے اور یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تم نے یہ کیوں کیا۔ عفو ِ عام کی اس معجزانہ مثال کو دیکھ کر وہ پکار اٹھتی ہے ’’اے محمدﷺ! آج سے پہلے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی خیمہ سے مجھے نفرت نہ تھی لیکن آج تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی کا خیمہ مجھے محبوب نہیں ہے‘‘۔

وحشی، حضرت حمزہؓ کا قاتل، فتح طائف کے بعد بھاگ کر کہیں چلا جاتا ہے اور جب وہ مقام بھی فتح ہو جاتا ہے تو کوئی دوسری جائے پناہ نہیں ملتی۔ لوگ کہتے ہیں ’’وحشی! تم نے ابھی محمد ﷺ کو پہچانا نہیں، تمہارے لیے خود محمد ﷺ کے آستانہ سے بڑھ کر کوئی دوسری جائے امن نہیں ہے‘‘۔ وحشی حاضر ہوجاتا ہے، حضور ﷺ دیکھتے ہیں، آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں، پیارے چچا کی شہادت کا منظر سامنے آجاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، قاتل سامنے موجود ہے مگر صرف یہ ارشاد ہوتا ہے؛ ’’وحشی! جاؤ، میرے سامنے نہ آیا کرو، کہ شہید چچا کی یاد تازہ ہو جاتی ہے‘‘۔

عکرمہؓ اسلام، مسلمانوں اور خود محمد رسول اللہ ﷺ کے سب سے بڑے دشمن یعنی ابوجہل کے بیٹے تھے، جس نے آپ ﷺ کو سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، وہ خود بھی اسلام کے خلاف لڑائیاں لڑ چکے تھے، مگر جب مکہ فتح ہوا تو ان کو اپنے اور اپنے خاندان کے تمام جرائم یاد تھے، وہ بھاگ کر یمن چلے گئے، ان کی بیوی مسلمان ہوچکی تھیں اور محمد رسول اللہ ﷺ کو پہچان چکی تھیں۔ وہ خود یمن گئیں، عکرمہؓ کو تسکین دی اور ان کو لے کر مدینہ آئیں۔ حضورﷺ کو ان کی آمد کی خبر ہوتی ہے تو ان کے خیر مقدم کے لیے تیزی سے اٹھتے ہیں کہ جسم مبارک پر چادر تک نہیں رہتی، پھر جوش ِ مسرت میں فرماتے ہیں، ’’مرحبا باالراکب المھاجر‘‘ اے مہاجر سوار تمہارا آنا مبارک ہو۔ غور کرو! یہ مبارک باد کس کو دی جارہی ہے، یہ خوشی کس کے آنے پر ہے، یہ معافی نامہ کس کو عطا ہو رہا ہے۔ اس کو جس کے باپ نے آپﷺ کو مکہ میں سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، جس نے آپﷺ کے جسم مبارک پر نجاست ڈلوائی، جس نے بحالت ِ نماز آپﷺ پر حملہ کرنا چاہا، جس نے آپﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر آپﷺ کو پھانسی دینی چاہی، جس نے دارُالندوہ میں آپﷺْ کے قتل کا مشورہ دیا۔ جس نے بدر کا معرکہ برپا کیا اور ہر قسم کی صلح کی تدبیر کو برہم کیا، آج اس کی جسمانی یادگار کی آمد پر یہ مسرت اور شادمانی ہے۔

ہبار بن الاسود وہ شخص ہے جو ایک حیثیت سے حضورﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کا قاتل ہے اور کئی شرارتوں کا مرتکب ہوچکا ہے، مکہ کی فتح کے موقع پر اس کا خون ہدر کیا جاتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ بھاگ کر ایران چلا جائے لیکن پھر کچھ سوچ کر سیدھا در ِ دولت پر حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے’’یا رسول اللہ ﷺ! میں بھاگ کر ایران چلا جانا چاہتا ہوں، لیکن پھر مجھے حضورﷺ کا رحم و کرم اور عفو و حلم یاد آیا، میں حاضر ہوں، میرے جرائم کی جو اطلاعات آپ کو ملی ہیں وہ درست ہیں۔ اتنا سنتے ہی آپﷺ کی رحمت کا دروازہ کھل جاتا ہے اور دوست دشمن کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔

عمیر بن وہب بدر کے بعد ایک قریش رئیس کی سازش سے اپنی تلوار زہر میں بجھا کر مدینہ آتا ہے اور اس تاک میں رہتا ہے کہ موقع پا کر نعوذ باللہ آپﷺ کا کام تمام کردے، کہ ناگاہ وہ گرفتار ہوجاتا ہے، آپﷺ کے پاس لایا جاتا ہے، اس کا گناہ ثابت ہوجاتا ہے، مگر وہ رہا کر دیا جاتا ہے۔

صفوان بن اُمیّہ یعنی وہ رئیس جس نے عمیر کو آپﷺ کے قتل کے لیے بھیجا تھا اور جس نے عمیر سے وعدہ کیا تھا کہ اگر تم اس مہم میں مارے گئے تو تمہارے اہل و عیال اور قرضہ کا میں ذمہ دار ہوں۔ فتح مکہ کے بعد وہ ڈر کر جدہ بھاگ جاتا ہے کہ سمندر کا راستہ سے یمن چلا جائے، وہی عمیر خدمت ِ نبویﷺ میں آکر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ ﷺ! صفوان اپنے قبیلہ کا رئیس ڈر کر بھاگ گیا ہے کہ اپنے کو سمندر میں ڈال دے۔ ارشاد ہوتا ہے ’’اس کو امان ہے‘‘۔ عمیر دوبارہ گزارش کرتے ہیں کہ اس امان کی کوئی نشانی مرحمت ہو کہ اس کو یقین آئے۔ آپﷺ اپنا عمامہ اٹھا کر دے دیتے ہیں۔ عمیر یہ عمامہ لے کر صفوان کے پاس پہنچتے ہیں، صفوان کہتا ہے ’’مجھے محمدﷺ کے پاس جانے میں اپنی جان کا خطرہ ہے‘‘۔ وہ عمیر جو زہر میں تلوار بجھا کر محمد رسول اللہ ﷺ کو مارنے گئے تھے، صفوان سے کہتے ہیں ’’اے صفوان! ابھی تم کو محمد رسول اللہ ﷺ کے حلم اور عفو کا حال معلوم نہیں‘‘۔ صفوان آستانۂ نبوی ﷺ پر حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم نے مجھے امان دی ہے، کیا یہ سچ ہے؟ لیکن میں تمہارا دین ابھی قبول نہیں کروں گا، مجھے دو مہینے کی مہلت دو۔ آپﷺ فرماتے ہیں ’’تمہیں دو نہیں چار مہینے کی مہلت ہے‘‘۔ لیکن یہ مہلت ختم بھی نہ ہونے پائی کہ دفعۃً اس کے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے اور وہ مسلمان ہوجاتا ہے۔

آپﷺ خیبر جاتے ہیں، جو یہودی قوت کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ لڑائیاں ہوتی ہیں، شہر فتح ہوتا ہے۔ ایک یہودیہ دعوت کرتی ہے، آپﷺ بلا پس و پیش منظور فرما لیتے ہیں، یہودیہ جو گوشت پیش کرتی ہے اس میں زہر ملا ہوتا ہے، آپﷺ گوشت کا ٹکڑا منہ میں رکھتے ہیں کہ آپﷺ کو اطلاع ہو جاتی ہے، یہودیہ بلائی جاتی ہے، وہ اپنے قصور کا اعتراف کرتی ہے لیکن رحمت ِ عالم ﷺ کے دربار سے اس کو کوئی سزا نہیں ملتی حالانکہ اس زہر کا اثر آپﷺ کو عمر بھر محسوس ہوتا رہا۔

غزوۂ نجد سے واپسی کے وقت آپﷺ تنہا ایک درخت کے نیچے آرام فرما رہے ہیں، دوپہر کا وقت ہے، آپﷺ کی تلوار درخت سے لٹک رہی ہے، صحابہؓ اِدھر اُدھر درختوں کے سائے میں لیٹے ہیں، کوئی پاس نہیں ہے، ایک بدو تاک میں رہتا ہے، وہ اس وقت سیدھا آپﷺ کے پاس آتا ہے، درخت سے آپﷺ کی تلوار اتارتا ہے، پھر نیام سے باہر کھینچتا ہے، کہ آپﷺ کی آنکھ کھل جاتی ہے، وہ تلوار ہلا کر پوچھتا ہے کہ ’’محمد! بتاؤ اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتا ہے‘‘۔ ایک پُر اطمینان صدا آتی ہے، ’’اللہ‘‘۔ اس غیر متوقع جواب کو سن کر وہ مرعوب ہوجاتا ہے، تلوار نیام میں کر لیتا ہے، صحابہؓ آجاتے ہیں، بدو بیٹھ جاتا ہے، اور آپﷺ اس سے کوئی تعرض نہیں فرماتے ہیں۔

ایک دفعہ اور ایک کافر گرفتار ہو کر آتا ہے، کہ یہ قتل کے لیے آپﷺ کی گھات میں تھا، وہ سامنے پہنچتا ہے، تو آپﷺ کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے، آپﷺ اسے تسلی دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر تم قتل کرنا چاہتے بھی تب بھی نہیں کر سکتے تھے۔ غزوۂ مکہ میں اسّی آدمیوں کا دستہ گرفتار ہوا جو جبل تنعیم سے اُتر کر آپﷺ کو قتل کرنا چاہتا تھا، آپﷺ کو خبر ہوئی تو فرمایا، ان کو چھوڑ دو۔

دوستو! طائف کو جانتے ہو؟ وہ طائف جس نے مکہ کے عہد ستم میں آپﷺ کو پناہ نہیں دی، جس نے آپﷺ کی بات بھی سننی نہیں چاہی، جہاں کے رئیس عبدیالیل کے خاندان نے آپﷺ سے استہزاء کیا، بازاریوں کو اشارہ کیا کہ وہ آپﷺ کی ہنسی اڑائیں، شہر کے اوباش ہر طرف سے ٹوٹ پڑے، اور دو رویہ کھڑے ہو گئے اور جب آپﷺ بیچ سے گزرتے تو دونوں طرف سے پتھر برسائے، یہاں تک کہ پائے مبارک زخمی ہوگئے، دونوں جوتیاں خون سے بھر گئیں، جب آپﷺ تھک کر بیٹھ جاتے تو یہ شریر آپﷺ کا بازو پکڑ کر اٹھا دیتے۔ جب آپﷺ چلنے لگتے تو پھر پتھر برساتے، آپﷺ کو اس دن اس قدر تکلیف پہنچی کہ نو برس کے بعد حضرت عائشہؓ نے ایک دن دریافت فرمایا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ تمام عمر میں آپ پر سب سے زیادہ سخت دن کون سا آیا؟‘‘۔ تو آپﷺ نے اسی طائف کا حوالہ دیا تھا۔

۸ ہجری میں مسلمانوں کی فوج اسی طائف کا محاصرہ کرتی ہے، ایک مدت تک محاصرہ جاری رہتا ہے، قلعہ نہیں فتح ہوتا، بہت سے مسلمان شہید ہوتے ہیں، آپﷺ واپسی کا ارادہ کرتے ہیں، پُرجوش مسلمان نہیں مانتے، طائف پر بددعا کرنے کی درخواست کرتے ہیں، آپﷺ ہاتھ اٹھاتے ہیں مگر کیا فرماتے ہیں ’’اے اللہ! طائف والوں کو ہدایت دے اور اسلام کے آستانے پر جھکا‘‘۔ دوستو! یہ کس شہر کے حق میں دعائے خیر ہے، وہی شہر جس نے آپﷺ پر پتھر برسائے تھے، آپﷺ کو زخمی کیا تھا اور آپﷺ کو پناہ دینے سے انکار کیا تھا۔

اُحد کے غزوے میں دشمن حملہ کرتے ہیں، مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں، آپﷺ نرغۂ اعداء میں ہوتے ہیں، آپﷺ پر پتھر، تیر اور تلوار کے وار ہورہے ہیں، دندانِ مبارک شہید ہوتا ہے، خود کی کڑیاں رخسار مبارک میں گڑ جاتی ہیں، چہرہ مبارک خون سے رنگین ہوتا ہے، اس حالت میں آپﷺ کی زبان پر یہ الفاظ آتے ہیں، ’’وہ قوم کیسے نجات پائے گی جو اپنے پیغمبر کے قتل کے درپے ہے، اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے کہ وہ جانتی نہیں ہے‘‘۔ یہ ہے ’تو اپنے دشمن کو پیار کر‘ کے زیتونی وعظ پر عمل! جو صرف شاعرانہ فقرہ نہیں، بلکہ عمل کا خطرناک نمونہ ہے۔

وہی ابن عبدیالیل جس کے خاندان نے طائف میں آپﷺ کے ساتھ یہ مظالم کیے تھے، جب طائف کا وفد لے کر مدینہ آتا ہے تو آنحضرتﷺ اس کو اپنی مقدس مسجد میں خیمہ گاڑ کر اتارتے ہیں، ہر روز نماز عشاء کے بعد اس کی ملاقات کو جاتے ہیں، اور اپنی رنج بھری مکہ کی داستان سناتے ہیں، کس کو؟ اس کو جس نے آپﷺ پر پتھر برسائے تھے اور آپﷺ کو ذلیل کیا تھا۔ یہ ہے ’تو اپنے دشمن کو پیار کر اور معاف کر‘۔

مکہ جب فتح ہوا تو حرم کے صحن میں، کس حرم کے صحن میں؟ جہاں آپﷺ کو گالیاں دی گئیں، آپﷺ پر نجاستیں پھینکی گئیں، آپﷺ کے قتل کی تجویز منظور ہوئی، قریش کے تمام سردار مفتوحانہ کھڑے تھے، ان میں وہ بھی تھے جو اسلام کے مٹانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا چکے تھے، وہ بھی تھے جو آپﷺ کو جھٹلایا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپﷺ کی ہجویں کہا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو آپﷺ کو گالیاں دیا کرتے تھے، وہ بھی تھے جو خود اس پیکر قدسی ﷺ کے ساتھ گستاخیوں کا حوصلہ رکھتے تھے، وہ بھی تھے جنہوں نے آپﷺ پر پتھر پھینکے تھے، آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، آپﷺ پر تلواریں چلائی تھیں، وہ بھی تھے جنہوں نے آپﷺ کے عزیزوں کا خون ِ ناحق کیا تھا، ان کے سینے چاک کیے تھے اور ان کے دل و جگر کے ٹکڑے کیے تھے، وہ بھی تھے جو غریب اور بے کس مسلمانوں کو ستاتے تھے، ان کے سینوں پر اپنی جفاکاری کی آتشیں مہریں لگاتے تھے، ان کو جلتی ریتوں پر لٹاتے تھے، دہکتے کوئلوں سے ان کے جسم کو داغتے تھے، نیزوں کی انی سے ان کے بدن کو چھیدتے تھے۔ آج یہ سب مجرم سرنگوں سامنے تھے، پیچھے دس ہزار خون آشام تلواریں محمد رسول اللہ ﷺ کے ایک اشارہ کی منتظر تھیں، دفعۃً زبان مبارک کھلتی ہے، سوال ہوتا ہے ’’قریش بتاؤ، میں آج تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟‘‘۔ جواب ملتا ہے ’’محمد! تو ہمارا شریف بھائی اور شریف بھتیجا ہے‘‘۔ ارشاد ہوتا ہے ’’آج میں وہی کہتا ہوں جو یوسفؑ نے اپنے ظالم بھائیوں سے کہا تھا کہ ’’لا تثریب علیکم الیوم‘‘ آج کے دن تم پر کوئی الزام نہیں، ’’اذھبو فانتم الطلقاء‘‘ جاؤ تم سب آزاد ہو۔

یہ ہے دشمنوں کو پیار کرنا اور معاف کرنا۔ یہ ہے اسلام کے پیغمبر کا عملی نمونہ اور عملی تعلیم۔ جو صرف خوش بیانیوں اور شیریں زبانیوں تک محدود نہیں بلکہ دنیا میں واقعہ اور عمل بن کر ظاہر ہوتی ہیں۔

یہی نکتہ ہے جس کے باعث تمام دوسرے مذاہب اپنے پیغمبروں اور رہنماؤں کے میٹھے میٹھے الفاظ کی طرف دنیا کو بلاتے ہیں اور بار بار ان ہی کو دہراتے ہیں، ان کے سوا ان کے پاس کوئی چیز نہیں، اور اسلام اپنے پیغمبرﷺ کے صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل اور سنت کی دعوت دیتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت فرمایا تھا:

ترکت فیکم الثقلین کتاب اللہ و سنتی

’’میں تم میں دو مرکز ثقل چھوڑے جاتا ہوں، اللہ کی کتاب اور اپنا عملی راستہ۔‘‘

یہی دونوں مرکز ِ ثقل اب تک قائم ہیں اور تا قیامت قائم رہیں گے۔ اسی لیے اسلام کتاب اللہ کے ساتھ ساتھ اپنے پیغمبرﷺ کی سنت کی پیروی کی بھی دعوت دیتا ہے۔

﴿لقد کانا لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ﴾

’’لوگو! تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی میں بہتر پیروی ہے۔‘‘

پیغمبرِ اسلام مجسمۂ عمل

اسلام خود اپنے پیغمبر کو اپنی کتاب کا عملی مجسمہ، نمونہ اور پیکر بنا کر پیش کرتا ہے، تمام دنیا میں یہ فخر صرف اسلام کے پیغمبر کو حاصل ہے کہ وہ تعلیم اور اصول کے ساتھ ساتھ اپنا عمل اور اپنی مثال پیش کرتا ہے۔ طریقۂ نماز کے ناواقف سے کہتا ہے ‘‘صلوا کما رأیتمونی‘‘ تم اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے پڑھتا دیکھتے ہو۔ بیوی بچوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کی تعلیم ان الفاظ میں دیتا ہے، ’’خیرکم خیرکم لاھلہ وانا خیرکم لاھلی‘‘ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے بیوی بچوں کے لیے سب سے اچھا ہے اور میں اپنے بیوی بچوں کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔

آخری حج کا موقع ہے، شمع نبوت کے گرد ایک لاکھ پروانوں کا ہجوم ہے۔ انسانوں کو اللہ کا آخری پیغام سنایا جا رہا ہے۔ سب باطل رسوم اور نہ ختم ہونے والی لڑائیوں کا سلسلہ آج توڑا جا رہا ہے مگر تعلیم کے ساتھ ساتھ دیکھو کہ اپنی ذاتی نظیر اور عملی مثال بھی ہر قدم پر پیش کی جارہی ہے۔ فرمایا:

’’آج عرب کے تمام انتقامی خون باطل کر دیے گئے یعنی تم سب ایک دوسرے کے قاتلوں کو معاف کردو! اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کا خون، اپنے بھتیجے ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون معاف کرتا ہوں۔‘‘

’’جاہلیت کے تمام سودی لین دین اور کاروبار آج باطل کیے جاتے ہیں، اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سودی بیوپار توڑتا ہوں۔‘‘

مساوات اور اخوت انسانی

جان اور مال کے بعد تیسری چیز آبرو ہے۔ وہ غلط اور قابل اصلاح رسوم و رواج جن کا تعلق لوگوں کی عزت و آبرو سے ہوتا ہے، ان کو سب سے پہلے عملاً مٹانے کی ہمت گویا بظاہر اپنی بے عزتی اور بے آبروئی کے ہم معنی ہے، اسی لیے ملک کے بڑے بڑے مصلحین کے پاؤں بھی کسی ملکی رسم و رواج کی اصلاح کی جرأت مشکل سے کرتے ہیں۔ محمدﷺ نے لوگوں کو مساوات کی تعلیم دی۔ عرب میں سب سے زیادہ ذلیل غلام سمجھے جاتے تھے، آپﷺ نے مساوات، اخوت ِ انسانی اور جنس ِ انسانی کی برابری کی یہ عملی مثال پیش کی، ایک غلام کو اپنا فرزند متبنیٰ بنایا۔ عرب میں قبائل کی باہمی شرافت کی زیادتی اور کمی کا اس درجہ لحاظ تھا کہ لڑائی میں بھی اپنے سے کم رتبہ پر تلوار چلانا عار سمجھا جاتا تھا کہ ذلیل خون اس کی شریف تلوار کو ناپاک نہ کردے۔ لیکن آپﷺ نے آج یہ اعلان کیا کہ

’’اے لوگو! تم سب آدمؑ کے بیٹے ہو، اور آدمؑ مٹی سے بنے تھے۔ کالے کو گورے پر، گورے کو کالے پر، عجمی کو عربی پر، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں۔ تم میں افضل وہ ہے جو اپنے رب کے نزدیک سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘

تو اس تعلیم نے دفعۃً بلند و پست، بالا و زیر، اعلیٰ و ادنیٰ، آقا و غلام، سب کو ایک سطح پر لا کھڑا کر دیا، لیکن ضرورت تھی عملی مثالوں کی، یہ مثال خود آپﷺ نے پیش کی۔ اپنی پھوپھی زاد بہن کو، جو قریش کے شریف خاندان سے تھیں، اپنے غلام سے بیاہا، منہ بولے بیٹے کا قاعدہ جب اسلام میں توڑا گیا تو سب سے پہلے زید بن محمد، زید بن حارثہ کہلائے۔ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ بیوی سے نکاح عرب میں ناجائز تھا، مگر چونکہ یہ محض ایک لفظی رشتہ تھا، جس کا واقعیت سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس رسم سے بہت سی خاندانی رقابتوں اور خرابیوں کی بنیاد عربوں میں قائم ہوگئی تھی، اس لیے اس کا توڑنا ضروری تھا، لیکن اس کو توڑنے کے لیے عملی مثال پیش کرنا، انسان کی سب سے عزیز چیز آبرو سے تعلق رکھتا تھا، جو سب سے مشکل کام تھا۔ پیغمبرِ عرب ﷺ نے آگے بڑھ کر خود اس کی مثال پیش کی اور زید بن حارثہؓ کی مطلقہ بیوی حضرت زینبؓ سے شادی کرلی۔ جب ہی سے یہ رسم عرب سے ہمیشہ کے لیے مٹ گئی اور متبنیٰ کی بیہودہ رسم سے ملک نے نجات پائی۔ واقعات کی انتہا نہیں ہے، مثالوں کی کمی نہیں ہے، مگر وقت محدود ہے اور آج شاید میں نے سب سے زیادہ آپ کا وقت لیا ہے۔

دعوتِ فکر

میرے دوستو! میرے معروضات کی روشنی میں آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک اور شام سے لے کر ہندوستان تک، ہر ایک تاریخی انسان کی مصلحانہ زندگی پر ایک نظر ڈالو، کیا ایسی عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟

حاضرین! چند لفظ اور! بعض شیریں بیان واعظ شاعرانہ پیرائے میں اپنے اللہ تعالیٰ کی ربانی محبت اور الٰہی عشق کا تذکرہ کرتے ہیں مگر انہی کے مقولہ کے مطابق کہ ’درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے‘ ……اس پاک عشق و محبت کا کیا اثر ان کی زندگی میں نمایاں تھا، عرب کے دعویدار محبت کی سیرت پڑھو، راتیں گزرتی ہیں، دنیا سوتی ہے اور اس کی آنکھیں جاگتی ہیں، ہاتھ اللہ کے آگے پھیلے ہیں، زبان ترانۂ حمد گا رہی ہے، دل پہلو میں بیتاب تڑپ رہا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی تار جاری ہے……کیا محبت کی یہ تصویر ہے یا وہ ہے؟

حضرت عیسیٰؑ سولی پر چڑھتے ہیں تو بیتابانہ زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہیں:

ایلی ایلی لما سبقتی

’’اے میرے اللہ! اے میرے اللہ! تو نے مجھ کو کیوں چھوڑ دیا؟‘‘

لیکن محمد رسول اللہ ﷺ جب موت کے بستر پر ہوتے ہیں اور زندگی کی آخری سانسیں لیتے ہیں تو زبان پر یہ کلمہ ہوتا ہے:

اللھم الرفیق الاعلیٰ

’’اے میرے اللہ! اے میرے بہترین ساتھی!‘‘

ان دونوں فقروں میں سے کس میں محبت کا ذائقہ، عشق کی چاشنی اور ربانی سکینت کا لطف ہے۔

اللھم صلی علیہ و علیٰ سائرا الانبیاء والمرسلین

و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

٭٭٭٭٭

Previous Post

سانحۂ بابری مسجد: کوئی ہے جو اس سے عبرت حاصل کرے؟!

Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | دوسری قسط

Related Posts

خیر خواہی یا بد خواہی
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

خیر خواہی یا بد خواہی

24 ستمبر 2025
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

پیغمبر ﷺ کا حُسن و جمال

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

محمد رسول اللہ ﷺ

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

مروجہ طریقے سے میلاد منانا شرعاً درست نہیں!

15 نومبر 2024
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

ہمارے محبوب کا حلیۂ مبارک [صلی اللہ علیہ وسلم]

28 ستمبر 2023
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق
ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

28 ستمبر 2023
Next Post

مجاہد جہاد کیوں چھوڑ جاتا ہے؟ | دوسری قسط

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version