ہیلووین، کرسمس، نیو ائیر نائٹ (نئے سال کا جشن) اور آنے والا ویلنٹائن ڈے…… ان تہواروں کے موجدوں اور مالکوں سے بڑھ کر جوش و خروش سے مناتے ’مسلمان‘ پوری دنیا میں جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ اگر وہ غیر مسلم ممالک میں ہوں تو آپ ان کے لباس، ان کی زبان اور ان کی حرکات سے اندازہ نہیں لگا سکتے کہ یہ مسلمان ہیں یا عیسائی، یہودی، ہندو، سکھ یا کچھ اور۔ اور اگر یہ اپنے مسلمان ممالک میں ہوں تو ان کے مرد و زن کے تن پر مقامی و روایتی لباس اور ان کی زبان ان کے دیسی اور مسلمان ہونے کی چغلی تو کھاتی ہے مگر ان کی بدیسی حرکتیں ان کی مسلمانیت پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو وہ ہیں جو اپنے دین سے بالکل بےزار ہیں اور اس کا حوالہ تک دینا پسند نہیں کرتے، مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جوراہ گم کردہ ہیں اور ’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی ‘کے مصداق بغیر سوچے سمجھے بس چلے جارہے ہیں، ارد گرد کا ماحول جس رنگ میں رنگتا جائے یہ بھی اسی رنگ میں رنگے جانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش میں یہ بھول چکے ہیں کہ ان کے رب نے انہیں کس مقصد کے لیے اس دنیا میں پیدا کیا تھا اور ان کی منزل کیا ہے……؟!
مگر وہ…… جو ان مسلمانوں کے اور ان کے دین کے دشمن ہیں، وہ ہرگز یہ نہیں بھولے کہ مسلمان وہ قوم ہیں کہ جن کو اللہ رب العزت نے اس قدر مکمل، مضبوط، مدلل اور چھا جانے والا دین عطا کیا ہے کہ ادنیٰ ترین مسلمان کے دل میں بھی اپنے رب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اپنے دین پر غیرت کی چنگاری ہمہ وقت سلگتی رہتی ہے، بظاہر دین سے دوری کی راکھ اس پر پڑی ہوتی ہے مگر اسے بھڑکانے کے لیے فقط ننھا سا محرک ہی کافی ہوتا ہے۔ لہٰذا خود کو پرامن کہلانے والے کفار کی اسلام مخالف کوششیں ظہورِ اسلام سے اب تک پیہم جاری ہیں۔ وہ اپنی ان سرگرمیوں پر جس قدربھی پردہ ڈالنے کی کوشش کریں، یا جن بھی خوش نما اور گمراہ کن ناموں سے اپنی ان کارروائیوں کو موسوم کریں، حقیقت بہرحال ظاہر ہوکر ہی رہتی ہے۔ آج بھی پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مہم جابجا جاری ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اب اس پر پردہ ڈالنے اور اسے چھپانے کی بھی کچھ خاص کوشش نہیں کی جاتی اور ببانگ دہل اہلِ اسلام سے دشمنی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ثبوت کے طور پر دنیا بھر سے چند مثالیں پیش خدمت ہیں1۔
فرانس میں Generation Identity ، جس سے منسلک اور متاثر افراد خود کو Identitarian کہلواتے ہیں، انتہائی دائیں بازو کی تنظیم ہے اور اس کا رسوخ اتناہے کہ فرانس کی بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک، نیشنل ریلی، اسی کے نظریات کی پیرو ہے ۔ فی الوقت اقتدار میں نہ ہونے کے سبب اس تنظیم اور اس کے نظریات سے یہ سیاسی پارٹی برأت کا اظہار کرتی ہے مگر اس کے افراد نجی محفلوں میں علانیہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم اسی تنظیم کے نظریات کے پیرو ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد ہم انہی خطوط پر حکومت کریں گے۔ اس تنظیم کے بنیادی منشور میں اسلام اور اہل اسلام کی دشمنی رچی بسی ہے۔ انہوں نے جگہ جگہ اپنے خفیہ اڈے بنا رکھے ہیں جن میں یہ اپنے کارکنان کو ذہنی اور جسمانی تربیت کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس تنظیم کو شہرت بھی ان کے اسلام مخالف مظاہروں سے ہی ملی ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم ہی اس ملک کے وارث ہیں اور تمام مسلمان، خواہ قانونی طور یہاں رہ بس رہے ہوں یا غیر قانونی، انہیں یہاں رہنے اور یہاں کی سہولیات سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں اور ہم انہیں اس ملک سے نکال کر رہیں گے۔ اسی جماعت کا ایک رکن تقریر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مسلمانوں سے ہمیں یہی کہنا چاہیے کہ تمہارے لیے ہمارے پاس سر میں (ماری جانے والی) ایک گولی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس تنظیم سے منسلک غنڈے گلیوں محلوں میں، بالخصوص تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو تاک تاک کر نشانہ بناتے ہیں، ان پر آوازے کستے، ان پر حملے کرتے ہیں اور انہیں اشتعال دلاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے لیے محض کسی کا عرب (یعنی مسلمان) ہونا ہی کافی ہے، خواہ اس کا عرب ہونا محض اس کی رنگت سے ہی واضح ہو اور اس کے علاوہ اس میں غیر فرانسیسی ہونے کی کوئی علامت موجود نہ ہو۔ ایک موقع پر اس تنظیم کے غنڈے چند ایسے عرب نوجوانوں سے لڑ بھڑ کرآئے جو خود بھی رات کو آوارہ گردی کے لیے باہر نکلے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں شراب کی بوتلیں تھیں۔ نیز ایک اور واقعے میں، نئے سال کے جشن کے موقع پر جب اس تنظیم کے غنڈے سڑکوں پر آوارہ گردی کررہےتھے، تو ایک عرب لڑکی (جو نہ اپنے حال حلیے سے عرب نظر آتی تھی اور نہ ہی اپنی حرکتوں سے اور نہ ہی اس کا اسلام سے کوئی تعلق نظر آتا تھا اور وہ اتنی ہی فرانسیسی دکھائی دیتی تھی جتنی وہاں موجود دیگر فرانسیسی لڑکیاں) نے عربی زبان میں کوئی عامیانہ لفظ (slang) استعمال کیا ، جس پر اس تنظیم کے غنڈے نے یہ جان کر کہ یہ لڑکی عرب ہے اسے گالیاں بکتے ہوئے اس زور کا مکا رسید کیا کہ بقول اس کے اس کا اپنا ہاتھ دُکھنے لگا۔ نیز یہ مکا مارنے والا شخص ایک نجی محفل میں کہتا ہے کہ اگر مجھے کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہونے کا پتا چل جائے تو میں مسلمانوں کے بڑے بازار میں (جہاں بیشتر دکاندار اور خریدار مسلمان ہی ہوتے ہیں) گاڑی لے جا کر پھاڑ دوں گا اور اگر میں اس کارروائی میں بچ گیا تو دوبارہ ایسی ہی کارروائی کروں گا۔واضح رہے کہ یورپ بھر میں بسنے والے مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد فرانس میں بستی ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دشمن کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کون عملی مسلمان ہے اور کون نہیں، بس جو مسلمان قوم میں پیدا ہوا اس سے ان کو دشمنی ہے ۔
سری لنکا میں، جو سنہالی بدھوں کی اکثریت رکھنے والا ملک ہے ، دس فیصد مسلمان آبادی ہے۔ سری لنکا کی موجودہ حکومت کا سیاسی نعرہ ہی ’ایک وطن ، ایک قانون‘ رہا ہے۔ لہٰذا ۲۰۱۹ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ حکومت اسی جانب گامزن ہے۔ ایک وطن ایک قانون کا اصول لاگو ہونے کا مطلب یہ ہوگا کہ سری لنکا میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ اپنے اپنے دین کے مطابق، نکاح، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات نہیں طے کرسکیں گے بلکہ ان سب پر سری لنکن قانون کی پیروی کرنا لازم ہوگا۔ اس مقصد کے لیے صدر نے ایک ایسے بدھ جوگی کو قوانین کا جائزہ لینے اور ان میں تبدیلیاں کرنے کے لیے قائم کردہ تیرہ رکنی کمیٹی (ٹاسک فورس) کا سربراہ بنایا ہے جو اپنی اسلام دشمنی کے لیے مشہور ہے اور جس کی سرکردگی میں گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کی مساجد اور املاک کے خلاف تشدد آمیز کارروائیاں بھی کی گئی ہیں اور جس نے کچھ عرصہ قبل ہی سری لنکا میں مزید پرتشدد کارروائیوں کے خدشے کا اظہار بھی کیا ہے۔ نیز یہی وہ جوگی ہے جس نے کچھ عرصہ قبل سرکاری میڈیا پر علانیہ کہا کہ ’پوری دنیا میں دہشت گردی کا سبب (نعوذباللہ) اللہ (رب العزت) خود ہے‘۔ اس کمیٹی میں چار مسلمانوں کو بھی رکن بنایا گیا ہے مگر لگ یہی رہاہے کہ وہ بس نام ہی کےمسلمان ہیں ۔سری لنکا میں مسلمان اور دیگر اقلیتیں پہلے ہی یہ محسوس کررہی ہیں کہ گویا وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں اور یہ ملک صرف بدھ مذہب کے پیروکاروں ہی کا ہے۔ وہاں مسلم پرسنل لاء ریفارم بھی زیر بحث ہے اور وہاں کے مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ بات صرف اس لاء ریفارم تک نہیں رکے گی بلکہ اس کے بعد مدرسے بھی گرائے جائیں گے، برقع اور داڑھی پر، گائے کے ذبیحہ اور حلال غذا پر پابندی بھی لگے گی، نیز عربی خط اور تراجم کی جانچ پڑتال بھی ہوگی اورمسلمانوں کو انتہا پسندقرار دے کر اس کمیٹی کو یہ اختیار بھی دیا جائے گا کہ انہیں غیر انتہا پسند بنانے کے لیے جو حربے چاہے اختیار کرے۔
چین جو ہمارے پڑوس میں واقع ہے میں موجود ترکستانی مسلمانوں کی حالت زار سے کون واقف نہیں ہے۔ چین مسلمان اور اسلام دشمنی میں غالباً سب سے ہی آگے ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو نکالنا نہیں بلکہ جڑ سے ختم کرنا ہے۔ دسیوں کیمپوں میں رکھے گئے مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کے سینوں سے ان کا دین کھرچ دینے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ، ترکستانی عورتوں کو بانجھ بنا دیا جاتا ہے، ان مردوں عورتوں پر قطع نظر ان کی عمر، جنس اور جرم کے بدترین تشدد روا رکھا جاتا ہے اور ادنی ترین اسلامی شعار پر عمل کرنے پر مسلمانوں کو اٹھا کر ان کیمپوں میں ڈال دیا جاتا ہے، خواہ وہ مسلمان ڈاکٹر ہوں، پروفیسر ہوں یاکسی بھی باعزت پیشے سے وابستہ ہوں ۔نیز ایسے مسلمانوں تک کو ان کیمپوں میں ڈالا جاتا ہے جو چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے وفادار کارکن ہیں۔ پھر جو مسلمان ان کیمپوں سے باہر ہیں وہ بھی آزاد زندگی نہیں گزار رہے۔ مسلمانوں کے گھر گھر میں چینی استخباراتی ارکان گھس کر رہتے ہیں اور گھر والوں کی حرکات و سکنات کی چوبیس گھنٹے نگرانی کرتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ انہی گھر میں گھس کر رہنے والے چینیوں کے ہاتھوں انہی گھروں کی مسلمان ایغور خواتین اپنے باپوں، بھائیوں اور شوہروں کی موجودگی میں ہر رات ریپ کی جاتی ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ چین مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے لیکن اگر(نام نہاد جمہوریت کی لاج رکھنے کے لیے) کہیں سے چند ایک بار چین کے خلاف آواز بلند بھی کی جاتی ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ چین کے خلاف اقوام متحدہ کے فورم پر صرف باتیں تو کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی قرارداد نہیں پاس کی جاسکتی کیونکہ چین سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھتا ہے۔ ایغور مسلمانوں نے آئی سی سی (International Criminal Court) میں بھی اپنا کیس پیش کیا مگر چین آئی سی سی کی عمل داری میں نہیں آتا۔ نیز چین نے مسلمان ممالک میں ملٹی بلین ڈالرز کے اتنے بڑے بڑے منصوبے شروع کررکھے ہیں کہ وہاں کی مسلمان حکومتیں اپنے مفاد کی خاطر چین کے سامنے خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔
ہمارے دوسرے پڑوسی ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار بھی سب کے سامنے ہے۔ اب تو غالباً ’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘ کا دور بھی لد گیا اور ہندو کی اسلام و مسلمان دشمنی چھپائے نہیں چھپتی۔ لاکھوں مسلمانوں کو بیٹھے بٹھائے ان کی اپنی ہی زمینوں سے اجنبی اور پردیسی بنا کر انہیں دیس نکالا دینے کی مہم سے کون واقف نہیں ہے۔ بوڑھے بوڑھے مرد اور عورتیں جو انہی گلیوں محلوں میں پیدا ہوئے، اور اب ان کی اولادیں بھی بچوں والی ہیں، انہوں نے اپنے والدین کو انہی زمینوں میں دفن کیا، آج پچاس، ساٹھ، ستّر سال کی عمر میں ان کو یہ بتایا جارہا ہے کہ وہ تو یہاں کے شہری ہی نہیں ہیں اور یہ ان کا وطن نہیں۔ وہاں بسنے والے مسلمان ہمہ وقت خوف کی کیفیت میں ہیں کہ نجانے کب انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جائے اور وہ بے گھر ہو کر رہ جائیں۔ ایک شخص تیس پینتیس سال ہندوستانی فوج میں ملازم رہتا ہے اور اب فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسے بتایا جارہا ہے کہ وہ تو اس ملک کا شہری ہی نہیں ہے، خواتین اپنے ننھے ننھے بچوں کے ساتھ کئی کئی سال جیل میں گزارتی ہیں کہ ان کے پاس اپنی شہریت ثابت کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ لوگ حیران ہیں پریشان ہیں کہ جس کے ماں باپ بھائی شوہر بیٹا سب ہی ہندوستانی شہری ہیں، وہ عورت اور اس کا ایک بچہ کیسے غیر ہندوستانی ہوسکتے ہیں ۔ مگر بات یہ ہے کہ یہ سب عقل کے معیار پر پرکھنے کی باتیں نہیں ہیں،اتنی عقل ہندو کے اندر ہوتی تو وہ بتوں اور بندروں کی پوجا نہ کرتا، یہ تو صریح شیطانیت ہے جس میں عقل و خرد کو کنارے پر رکھ دیا جاتا ہے۔
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں اور وہ بھی حالات کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتیں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت زار اس سے کہیں ابتر ہے اور نظر آرہاہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنی میں اضافہ ہورہاہے اور حالات کے یہ تھپیڑے گویا ہمیں بتا رہے ہیں کہ ہم نام کے مسلمان صحیح معنوں میں اہل ایمان بن جائیں ، کیوں کہ ان آ ندھیوں کا مقابلہ ایمان و کردار کی شمعیں جلائے بغیر کبھی نہیں ہوسکے گا، یہ جنگ اور یہ آگ کسی ایک جگہ محدود نہیں رہے گی؛ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں کو مہنگائی کے اس طوفان میں تن ڈھانپنے اور پیٹ بھرنے کی فکر میں اس قدر مبتلا کردیا گیا ہے کہ انہیں اپنے دین ایمان اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر گزرتے بدترین حالات کی طرف توجہ دینے کا ہوش ہی نہیں ہے۔ حالانکہ ہوش کا وقت تو یہی ہے، یہ گزر گیا تو پھر ہوش میں آئے بھی تو کیا فائدہ ہوگا؟
آج یہ وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، آج ہمارے پاس مہلت ہے، ہم دشمن کے خلاف تیاری کرسکتے ہیں، اپنی اور اپنے پیاروں کی ذہن سازی کرسکتے ہیں، شریعت پر عمل کو اپنی زندگی میں ترجیح اول بنا سکتے ہیں، اپنے اور اپنے دین کے دشمنوں کی چالوں کو سمجھنے اور ان کے سد باب کی کوشش کرسکتے ہیں…… مگر یہ وقت گزر گیا تو محض ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ جاگنے کا وقت یہی ہے، عمل کا وقت یہی ہے، اپنے رب سے اپنے دین سے جڑنے کا ،اس پر عمل کا وقت یہی ہے۔
آج وہ دور ہے کہ جو راہ پانا چاہے اس کے پڑھنے سننے دیکھنے کے لیے بھی کافی شافی مواد موجود ہے اور راہ پانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ماسوا اس کے اپنے نفس کے، اور جو راہ گم کرنا چاہے اس کے لیے بھی پھسلنے کے رستے بہت۔
فیصلہ آپ کا ہے، چوائس آپ کی ہے، وقت بھی فی الحال آپ کے ہاتھ میں ہے، لیکن یہ وقت اور یہ مہلت کب پوری ہوجائے گی، اسے اللہ رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پس لپکیے، دوڑیے اور سبقت کیجیے رب کی رضا کی طرف، اس کی جنتوں کی طرف، ان کی طرف جو ان جنتوں کے خریدار بنے اور ان راہوں کی طرف جو ان جنتوں کی طرف لے کر جاتی ہیں۔
٭٭٭٭٭
1 اس مضمون میں ذکر کیے گئے تمام حقائق الجزیرہ ٹی وی کی نشریات سے لیے گئے ہیں۔