نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جنوری ۲۰۲۲

شاہین صدیقی by شاہین صدیقی
21 جنوری 2022
in جنوری 2022, عالمی منظر نامہ
0

پاکستان

قومی سیاست

دسمبر کی شدید سردی میں ملکی سیاست کا ماحول خاصا گرم رہا۔ دسمبر ۲۰۲۱ء میں میڈیا پر سیاست کی گرما گرمی چھائی رہی۔ ایک طرف پاکستان تحریکِ انصاف اپنے مضبوط گڑھ خیبر پختون خوا میں بلدیاتی الیکشن بری طرح ہار گئی۔ تو دوسری طرف نا اہل ہوکر ملک سے مفرور نوازشریف کی واپسی کی خبریں گونج رہی ہیں۔ ملک میں مہنگائی ریکارڈ توڑ زوروں پر ہے اور معیشت تقریباً دیوالیہ ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضے لینے کے لیے بڑے ملکی وسائل کڑی شرطوں پر گروی رکھوادیے جانے کی بازگشت سننے میں آ رہی ہے۔ ایسے میں وزیراعظم کو اپنی کرسی بچانے کی فکر لاحق ہے۔ اور ’اسلامی جمہوریہ‘ میں فیصلے ہمیشہ کی طرح ’کہیں اور‘ سے ہو رہے ہیں۔

اس سلسلے میں مختلف کالم نویس کیا کہتے ہیں، اس کی جھلک ملاحظہ ہو:

زرداری صاحب کا انکشاف اور ن لیگ | اجمل خٹک کاشر

’’بلدیاتی انتخابات کے نتائج کے ساتھ ہی جناب زرداری کا سیاسی منظر نامے پر یوں برق رفتاری سے نمودار ہونا، سیاسی قد کاٹھ کے حامل دیگر جماعتوں کے اصحاب کے حوالے سے ’فارمولوں‘ کی بازگشت، میاں صاحب کی واپسی کے چرچے اور خاص طور پر مولانا فضل الرحمٰن صاحب کا یہ فرمانا کہ ’’قوتوں نے ذرا ہاتھ ہٹایا تو ان کا حشر نشر سب کے سامنے ہے ‘‘۔ اس بحث سے لگتا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔

اس سب کا اجمال یہ ہے کہ اس مرتبہ ووٹ کی قوت کے بل بوتے کی بجائے اہم کھلاڑی دیگر ’ذرائع‘ پر نظریں مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جب مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ذرا ہاتھ ہٹایا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہاتھ کس مجبوری میں ہٹایا یا کس کے لیے ہٹایا؟ دیگر جمہوری ممالک میں تو دور کی بات ہے، ہمارے پڑوس میں بھی اقتدار کے بناؤ سنگھار کے حوالے سے اس طرح کی ہل چل کا کہیں تصوّر نہیں۔ جناب زرداری کی اس بات پر تو بڑی لے دے ہوتی رہی کہ انہوں نے یہ کہا کہ ’’اب تم کرو اس کی چھٹی، پھر کرو ہم سے بات‘‘ گویا موجودہ حکومت کو غیر آئینی طور پر ختم کرنے کا کہا۔ لیکن یہ سوال نہیں اٹھایا جا رہا کہ آخر سیاستدان کب تک اس طرح کے امکانات کے آسرے پر رہیں گے؟‘‘

[روزنامہ جنگ | ۲۹ دسمبر ۲۰۲۱ء]

تحریکِ انصاف: ڈرامائی اڑان، مضحکہ خیز انجام | امتیاز عالم

’’محترم عمران خان کی جماعت مجھے اس طرح منتشر ہوتی دکھائی پڑتی ہے جس طرح کسی تباہ شدہ جہاز کا ملبہ۔ اور شاید اگلا انتخاب اس کا آخری انتخاب ہو، جس سے قبل اس پارٹی کے جہاز پر چڑھائے گئے ابن الوقتوں کے انخلاء کا ایسا منظر دکھائی پڑے گا جیسے ہمیں کابل ائیر پورٹ پر نظر آیا تھا۔

’تبدیلی آئی نہیں‘ واقعی آ چکی ہے۔ بس تجہیز و تدفین کے مناظر ترتیب پانے کو تیار ہیں۔‘‘

[روزنامہ جنگ | ۲۶دسمبر ۲۰۲۱ء]

ڈیل اور سیاست | انصار عباسی

’’ہر کوئی یہی بات کر رہا ہے کہ نواز شریف واپس آرہے ہیں یا نہیں؟ جب واپسی کی بات ہو رہی ہے تو پھر ڈیل کی بات لازم ہے، جس پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا ڈیل ہو چکی یا پھر ابھی کچھ رکاوٹیں ہیں؟……

……اس ماحول میں جیو کے سینئر اینکر سلیم صافی صاحب کا ایک ٹویٹ بڑی اہمیت اختیار کر گیا جس میں وہ لکھتے ہیں:

’ایک ضروری اعلان سنیے: میاں نواز شریف جنوری میں پاکستان آنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ منصوبے کے مطابق واپسی پر جیل جائیں گے، پھر عدالتوں سے ریلیف اور سابقہ سزاؤں کے خاتمے کی اپیلیں ہوں گی۔

ڈی جی نیب لاہور کا تبادلہ اسی سلسلے کی کڑی ہے، جبکہ نواز شریف سکرپٹ سے مطمئن ہیں۔ اعلان ختم ہوا۔‘

ڈیل ہو چکی یا ڈیل ہو رہی ہے، سکرپٹ فائنل ہو چکا یا ابھی اس پر کام ہو رہا ہے، ان سب سوالات پر ہر طرف بحث و مباحثہ جاری ہے۔ نام کوئی نہیں لے رہا۔‘‘

[روزنامہ جنگ | ۲۷دسمبر ۲۰۲۱ء]

حیرت اس پورے جمہوری نظام پر ہے کہ تین دفعہ وزیر اعظم بننے والا نا اہل قرار دیا گیا کرپٹ شخص اب چوتھی دفعہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اور یہ سارے فیصلے پسِ پردہ ایک ’طاقتور عنصر‘ کر رہا ہے۔ پاکستانی تاریخ کے ان کرپٹ سیاستدانوں اور لٹیرے حکمرانوں کی فہرست بہت طویل نہیں ہے ، جو بار بار نکالے جاتے ہیں اور بار بار منتخب ہو کر دوبارہ لوٹنے آجاتے ہیں۔ اسی فہرست میں عمران خان کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بلاشبہ اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں، لیکن ہم بھی تو اندھے ہیں کہ بار بار ٹھوکر کھاتے ہیں اور پھر دوبارہ انہیں ہی منتخب کرلیتے ہیں۔

پاکستان 

’گوادر کو حق دو‘ دھرنا

جہاں پاکستان کا صوبہ بلوچستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے وہاں گوادر کا ساحل جغرافیائی اعتبار سے ایک بیش بہا سرمایہ ہے۔ روس و چین سے لے کر بہت سے ممالک کی نظریں گوادر کی بندرگاہ پر لگی رہی ہیں۔ جن گرم پانیوں تک رسائی کے لیے روس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، اس تک چین کو سی پیک کے ذریعے بآسانی رسائی حاصل ہو چکی ہے۔

لیکن یہ گوادر کے مکینوں کے لیے ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ان کو بنیادی سہولیات تک رسائی نہیں دی جا رہی جبکہ ان کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ گوادر کے مکینوں کا بنیادی پیشہ ماہی گیری ہے، جو صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اب اس پیشے کو بھی ان سے چھینا جا رہا ہے۔ اسی مصیبت میں گرفتار ماہی گیروں نے اپنی خواتین و بچوں سمیت ۱۵ نومبر سے اپنے بنیادی حقوق کے لیے دھرنا دیا۔ اس دھرنے کو پہلے پہل تو نہ حکومت اور نہ ہی میڈیا نے کوئی توجہ دی۔ لیکن ماہی گیر لاکھوں کی تعداد میں ڈٹے رہے اور ’گوادر کو حق دو‘ کا نعرہ بلند کیا۔ جب ایک مہینہ ہونے کو آیا کہ عوام مسلسل دھرنے میں کھلے آسمان تلے موجود رہے تو حکومت پر دباؤ بڑھا اور مجبوراً حکومت کو ان ماہی گیروں کے مطالبات سننے پڑے۔ اور ۱۵ دسمبر کو ایک معاہدہ طے پایا جس میں ماہی گیروں کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کر لیے گئے جن پر عمل درآمد اب بھی ایک اہم ایشو ہے۔

یہ واقعہ اس لیے بھی اہمیت اختیار کر گیا کیونکہ اس کی قیادت کسی سیاسی یا قوم پرست جماعت نے نہیں بلکہ ایک عالمِ دین مولانا ہدایت الرحمن نے کی، جن کا خود خاندانی پیشہ ماہی گیری ہے، اور عام عوام نے ان کے ساتھ آواز اٹھائی۔

اس حوالے سے بہت سے کالم نویسوں نے قلم اٹھایا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

گوادر کا معاہدہ محض سراب | ڈاکٹر توصیف احمد خان

’’گوادر کے ماہی گیروں کے بیشتر مطالبات کا تعلق وفاق سے ہے۔ ماہی گیر سمندر میں جانے کے لیے ۵ دن کی اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت ٹرالر کمپنیوں سے معاملات طے کر چکی ہے۔ یہ ٹرالر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے سمندر کی تہہ تک سے مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔ ایران سے آنے والے سامان کو سمگلنگ کی تعریف میں شامل کیا جاتا ہے مگر مکران ڈویژن کے لوگوں کی زندگی کا انحصار ایران سے آنے والے سامان کے کاروبار پر ہے۔ بلوچستان کے بارے میں مسلسل لکھنے والے صحافی عزیز سنگھور کہتے ہیں کہ ایران سے تیل مکران ڈویژن میں نہ آئے تو بلوچستان کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ وفاقی حکومت اگر چیک پوسٹ ختم کرا دے تو ان کے دور کا سب سے بڑا کارنامہ ہو گا۔‘‘

[روزنامہ ایکسپریس | ۲۵ دسمبر ۲۰۲۱ء]

۱۶ دسمبر، گوادر کا دھرنا، تاریخ کا المیہ | حیدر جاوید سید

’’دھرنے والوں کا اہم ترین اور پہلا مطالبہ، ٹرالرز کے ذریعے ہونے والی غیر قانونی ماہی گیری کو بند کروانے کا ہے۔ اس غیر قانونی ماہی گیری کی وجہ سے صدیوں سے کشتیوں کے ذریعے ماہی گیری سے منسلک ہزاروں خاندانوں کے روزگار پر حملہ ہوا ہے، لیکن دوسرے مطالبات، بجلی، پینے کے صاف پانی، جدید ہسپتال کا قیام، یونیورسٹی کو جدید خطوط پر منظم کرنا، چیک پوسٹوں کا خاتمہ، سمگلنگ کی روک تھام، بھتہ گیری کا صفایا اور شہر میں جدید سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ مقامی لوگوں کو ملازمتوں میں حصہ دینے کا مطالبہ ۔

کیا یہ سارے مطالبات اپنی صوبائی اور وفاقی حکومت سے کیے جا رہے ہیں یا کسی فاتح سے مفتوحین کر رہے ہیں؟ تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ہم اس سے سبق سیکھنے کی بجائے نئے المیوں کا راستہ ہموار کرتے ہیں اور رونما ہونے پر مرثیہ خوانی شروع۔‘‘

[۱۷ دسمبر ۲۰۲۱]

گوادر: قوم پرست قیادت کا ٹوٹتا طلسم | اوریا مقبول جان

’’۱۵ نومبر سے دھرنا شروع ہوا اور اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔ ایک ماہ کے دھرنے کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ وہی مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں جن کا سو فیصد تعلق گوادر کی مقامی آبادی سے ہے۔ وہ غیر ضروری چیک پوسٹیں ،جو گوادر کے عوام کی عزتِ نفس مجروح کرتی تھیں، ان کے خاتمے کا وعدہ پورا ہوا ہے۔ گوادر کی اِس تحریک کا ایک ہی سبق ہے۔ اگر عوام اپنے مفاد کے لیے متحد ہو جائیں تو پھر کوئی قومی، صوبائی، علاقائی یا نسلی لیڈر ان کے مفاد کا سودا نہیں کر سکتا۔‘‘

[روزنامہ ۹۲ نیوز | ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء]

کشمیر 

نئی زرعی اراضی پالیسی

۵ اگست ۲۰۱۹ء کو آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے ذریعے بھارت کا اپنے مقبوضہ جموں و کشمیر کو وفاق کے زیر انتظام لانا کشمیریوں کے خلاف ایسی سازش تھی جس کے پیچھے کارفرما منصوبے اب حکومتی اقدامات میں نظر آ رہے ہیں۔ ان اقدامات کا بنیادی مقصد جموں و کشمیر سے مسلمان اکثریت کا خاتمہ، ان پر اپنی مرضی کے کٹر ہندو حکمران مسلط کرنا اور زرعی طور پر خودکفیل کشمیر کو معاشی طور پر دہلی کا محتاج بنانا ہے۔

آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد مسلسل لاک ڈاؤن، پابندیاں اور سختیاں کشمیری عوام کے عزم کو متزلزل نہ کرسکیں۔ اس کی اہم وجہ کشمیر کی زرعی خودمختاری ہے، جسے پہلے ریونیو ایکٹ ۱۹۹۹ء میں ترمیم کر کے اور اب نئی زرعی اراضی پالیسی کے ذریعے کشمیریوں سے زرعی اراضی چھین کر یا تو ہندوؤں کو دی جا رہی ہے یا پھر ان پر غیر زرعی تعمیرات شروع کر دی گئی ہیں۔ اس حوالے سے پاکستانی اخبار اوصاف میں غلام اللہ کیانی لکھتے ہیں:

کشمیر دشمن بھارتی اقدامات(۱) | غلام اللہ کیانی

’’کبھی زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال ایک جرم تھا۔ مگر اب کشمیر کے زرعی رقبہ جات پر رہائشی منصوبے شروع کیے گئے ہیں۔ سرینگر کے قریب پانپور اور پلوامہ کے علاقے کبھی عالمی سطح پر بہترین زعفران کی پیداوار کے لیے مشہور تھے۔ اب یہاں بھارتی پیٹرولیم کمپنیاں اور دیگر تعمیرات ہو رہی ہیں۔ یہ رقبہ جات بھارتی شہریوں کو سو سالہ لیز پر فروخت کیے جا رہے ہیں……

…… لوگوں سے زمین چھین لینے کے لیے صنعتی پالیسی بھی تبدیل کی جا رہی ہے۔ کشمیر کی زمین نجی صنعت کاری کے نام پر بھارتی صنعت کاروں کو دینے کے لیے صلاح مشورے ہو رہے ہیں۔ گو کہ کشمیر کے مقامی افسران حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے شدید تشویش میں مبتلا ہیں مگر انہیں دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔‘‘

[روزنامہ اوصاف | ۲۸ دسمبر ۲۰۲۱ء]

کشمیر 

حد بندی کمیشن رپورٹ

کشمیر کے حوالے سے دوسرا اہم اقدام بھارتی حکومت کی طرف سے جسٹس رنجنا ڈیسائی کی سربراہی میں قائم کیے گئے حد بندی کمیشن کی رپورٹ ہے جس کے تحت ریاستی اسمبلی میں ہندو اکثریت والے جموں میں، مسلم اکثریتی کشمیر کی نسبت نشستیں بڑھانے کی سفارش کی گئی ہے۔ حالانکہ آبادی کے اعتبار سے کشمیر کی آبادی جموں کی آبادی سے زیادہ ہے۔ ۲۰۱۱ء کی سرکاری مردم شماری کے مطابق وادیٔ کشمیر کی آبادی ۶۸ لاکھ تھی جبکہ جموں کی آبادی ۵۳ لاکھ ریکارڈ کی گئی۔ جس کے تحت وادیٔ کشمیر کی سیٹیں جموں سے زیادہ تھیں۔ اس سازش کے پیچھے جو سوچ کارفرما ہے وہ یہ ہے کہ کشمیری مسلمان سیاسی طور پر اپنی حیثیت کھو دیں اور ان کے اوپر ایک ہندو کو حکمران بنا کر بٹھا دیا جائے۔ جو ہندُتوا منصوبے کو آگے بڑھائے۔

اس حوالے سے پاکستانی اخباری کالموں سے اقتباسات درج ذیل ہیں:

کشمیر دشمن بھارتی اقدامات(۲) | غلام اللہ کیانی

’’نئی حد بندی کے تحت جموں کی ۵۸ اور وادی کی ۴۷ نشستیں ہو جائیں گی۔ اس کے بعد اسمبلی الیکشن کا اعلان ہو سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ کشمیر کو جموں سے کنٹرول کیا جائے۔ جو کہ پہلے ہی عملی طور پر جموں اور دہلی براہ راست کشمیر پر حکومت کر رہے ہیں۔ جمہوریت کا نعرہ ڈرامہ ہے۔ لدّاخ مقبوضہ ریاست سے الگ کر کے اسے بھی دہلی کے براہ راست قبضے میں دیا گیا ہے۔ حد بندی کمیشن کا مسودہ بالکل غیر شفاف، غیر منصفانہ اور حد بندی اصولوں کے برخلاف ہے۔ بی جے پی جموں و کشمیر میں اپنے سیاسی ایجنڈے کو حد بندی کمیشن کے ذریعے آگے بڑھا رہی ہے۔ ایسے کالے قواعد و ضوابط بنائے گئے ہیں جن کے تحت جموں کو زیادہ سیٹیں ملتی ہیں۔ مودی حکومت ایک بار پھر کشمیر میں مسلمانوں کا قتلِ عام کرانے کے لیے ماحول سازگار بنا رہی ہے۔‘‘

[روزنامہ اوصاف | ۲۹ دسمبر ۲۰۲۱ء]

حد بندی کمیشن: کشمیر کے سیاسی تابوت میں آخری کیل | افتخار گیلانی

’’شاید محبوبہ مفتی اس خطے کی آخری مسلم وزیر اعلیٰ کے بطور تاریخ میں درج ہو جائیں گی۔ وزیر اعلیٰ اور اسمبلی کی صورت میں یہ واحد ادارے باقی تھے، جہاں کسی صورت میں تعداد کے بل بوتے پر کشمیری مسلمانوں کو رسائی حاصل تھی۔ اگر مقامی بیوروکریسی کا جائزہ لیا جائے تو فی الوقت ۲۴ سیکریٹریوں میں بس پانچ ہی مسلمان ہیں۔ اسی طرح ۶۶ اعلیٰ پولیس افسران میں بس ۷ ہی مسلمان ہیں۔ دوسرے درجے کے ۲۴۸ پولیس افسران میں ۱۰۸ ہی مسلمان ہیں۔ اس خطے کے ۲۰ اضلاع میں بس ۶ یعنی بانڈی پورہ، بڈگام، کلگام، پلوامہ، رام بن اور سرینگر میں ہی ڈپٹی کمشنر یا ضلعی مجسٹریٹ مسلمان ہیں۔ کمیشن نے اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندی میں آبادی کی بجائے رقبہ کو معیار بنایا ہے۔ اس کا استدلال ہے کہ چونکہ جموں کا رقبہ چھبیس ہزار دو سو ترانوے مربع کلومیٹر ، کشمیر کا رقبہ ۱۵ ہزار نو سو چالیس مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، اس لیے اس کی سیٹیں بڑھائی گئیں ہیں۔ اگر یہ معیار واقعی افادیت اور معتبریت رکھتا ہے تو اس کو پورے بھارت میں نافذ کردینا چاہیے۔‘‘

[۲۸ دسمبر ۲۰۲۱]

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ لداخ کو کشمیر سے علیحدہ کر کے وفاق کے زیر انتظام دیا گیا ہے۔ لداخ کے دو اضلاع ہیں لیھ اور کارگل۔ کارگل کی زیادہ آبادی مسلمان ہے جبکہ لیھ کی زیادہ آبادی بدھ مت کو ماننے والی ہے۔ لیکن لداخ کو وفاق کے زیر انتظام دینے کے بعد مودی حکومت نے لیھ کے بدھوں سے وعدہ کیاتھا کہ حکومت انہیں دی جائے گی۔ اگرچہ یہ وعدہ ابھی تک وفا نہیں کیا گیا اور لیھ کے بدھ اس پر آج کل احتجاج کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہندوستانی کالم نگار ندیم عبد القدیر لکھتے ہیں:

لداخ بھی ناراض ہو گیا!!! | ندیم عبد القدیر

’’دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی پر لیھ ضلع کی بودھ تنظیموں نے فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا اور اسے خطہ کی ترقی کی جانب ایک قدم بتایا تھا۔ لیھ کے عوام میں خوشی اس بات کی تھی کہ اب ان کی علیحدہ ریاست ہو گی جہاں کا پورا انتظام خود ان کے ہاتھ میں ہو گا۔ یعنی وزیراعلیٰ اور چیف سیکریٹری سمیت پوری حکومت ان کی ہو گی۔ لیکن آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ ہو کر دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا اور اب تک ان کے سپنے پورے ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۶دسمبر ۲۰۲۱ء]

انڈیا 

دھرَم سَنسَد کا انعقاد

دسمبر کا مہینہ ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے آزمائشوں اور مشکلات سے بھرا ہوا تھا۔ اس کی وجہ مسلمانوں پر مسلسل پر تشدد حملے ، ہجوم زنی (ماب لنچنگ)، جمعہ کی نماز سے روکنا اور ہر جگہ بڑے بڑے ہندو مذہبی پیشواؤں کا مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک بڑا مذہبی اجتماع ’’دھرم سنسد‘‘ ریاست اُتَر کھنڈ میں ہندوؤں کے مقدس مقام ’ہری دوار‘ میں ہوا ، جس کا موضوع تھا، ’’اسلامک بھارت میں سَنَتَن دھرم کا بَھوِش1‘‘۔ پورے ہندوستان سے یہاں بڑے بڑے پنڈتوں اور سادھوؤں نے شرکت کی اور مسلمانوں کے خلاف ایک ایکشن پلان پیش کیا گیا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں کے خلاف ہر مقرر نے ہندوؤں کو اشتعال دلایا اور مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے لوگوں کو ورغلایا۔ سوامی پرَبھو دانند گیری نے کہا کہ جہاد کے نام پر آتنک2 پھیلانے والوں کے خلاف ہندوؤں کے پاس مارنے اور مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ جس طرح میانمار میں مسلمانوں کا نسلی صفایا کیا گیا اسی طرح یہاں بھی پولیس، فوج اور سیاستدانوں کو ہندوؤں کے ساتھ اس مہم میں شریک ہو جانا چاہیے۔ یتی نرسنگھانند نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اگر ۲۰۲۹ء میں کوئی مسلمان وزیر اعظم بن گیا تو اسلام کی تاریخ کے مطابق ۵۰ فیصد ہندوؤں کو مسلمان بنا دیا جائے گا، ۴۰ فیصد کو قتل کر دیا جائے گا۔ اس طرح اگلے ۲۰ برسوں میں ہندوستان میں صرف ۱۰ فیصد ہندو رہ جائیں گے۔ ایک اور ہندو سَنت دھرم داس مہاراج نے کہا کہ اگر وہ ایم پی (ممبر پارلیمنٹ) ہوتا تو پارلیمنٹ میں منموہن سنگھ کے اس بیان ،کہ قومی وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کا ہے، کے جواب میں ریوالور سے چھے کی چھے گولیاں اس کے سینے میں اتار دیتا، جس طرح ناتھو رام گوڈسے نے باپو (گاندھی) کے سینے میں گولیاں اتاری تھیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ جو کوئی پربھاکرن جیسا بننا چاہے تو اسے ایک کروڑ روپے دیے جائیں گے۔ پربھاکرن ہندو دہشت گرد تنظیم تامل ٹائیگرز کا سربراہ تھا جس نے اُس وقت کے وزیر اعظم راجیوّ گاندھی کو قتل کروایا تھا۔

یہ ایک دھرم سنسد ہری دوار میں ہوئی جبکہ ایک اور دھرم سنسد رائے پور میں ہوئی۔ وہاں بھی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے مارنے اور مرنے کی قسم لی گئی۔ اب سنا جا رہا ہے کہ علی گڑھ ، کروکشیتر اور شملہ میں بھی اس کا انعقاد کیا جائے گا۔

جو کچھ ان دونوں جگہوں پر منعقد کیے گئے دھرم سنسد میں کہا گیا اس کے بارے میں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اندھے گونگے بہرے بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی اردو اخبارات میں مسلمان کالم نویسوں نے اس حوالے سے قلم اٹھایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے جس سے چند اقتباسات درج ذیل ہیں۔

ہری دوار کی دھرم سنسد اور ہندو راشٹر کے خدوخال | ندیم عبدالقدیر

’’سیاسی جماعتیں اس معاملے پر خاموش رہی ہیں۔ شاید انہیں بھی ڈر ہے کہ نسل کشی کی اس آواز کے خلاف کچھ کہنے سے انہیں ووٹ کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اور یہی بات سب سے زیادہ ڈراؤنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہری دوار میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جو بات ہوئی اسے کہیں نہ کہیں اکثریتی سماج کی تائید حاصل ہے ورنہ سیاسی جماعتوں کو اپنےووٹ کا ڈر نہیں ہوتا۔ ہندو راشٹر کی سوچ صرف چند شرپسندوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اکثریتی سماج بھی اس کا کسی نہ کسی طرح حامی ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان اُس نقطہ پر پہنچ گیا ہے جہاں سے واپسی تقریباً ناممکن ہے۔ ’پراجیکٹ ہندو راشٹر‘‘ کوئی خواب نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت کے قریب ہے اور یہ ہندو راشٹر آپ کی اور ہماری سوچ و گمان سے زیادہ خونخوار ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس کا یک نکاتی ایجنڈہ مسلمانوں کی نسل کشی ہی ہے۔ وہ سارے ممالک جہاں کسی قوم کی نسل کشی ہوئی ، وہاں نسل کشی سے پہلے جو حالات تھے، ہندوستان اُن ہی حالات سے گزر رہا ہے۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۶ دسمبر ۲۰۲۱ء]

ہندُتوا قیادت کی اشتعال انگیزی | ناظم الدین فاروقی

’’اس بات سے ہرگز اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ انتہا پسند ہندو قیادت کی اشتعال انگیز تقاریر وقتی اور صرف انتخابی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اس کے ہندوستانی سماج پر بڑے گہرے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان بیانات سے میڈیا کے ذریعے دور دراز رہنے والے دیہی غریب مسلمان بھی سائیکالاجیکل، خوفزدہ اور پست ہمت ہو جاتے ہیں۔ بعض نام نہاد مذہبی قائدین کے سَنگھ کی قیادت سے اچھے گہرے تعلقات ہیں۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں پائی جاتی کہ وہ اس طرح کی اشتعال انگیزی اور مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں اور ہندو بریگیڈ کے ظلم و استبداد پر فوری روک لگانے کا انتہا پسند ہندُتوا قیادت سے مطالبہ کر سکیں۔ ہندُتوا بریگیڈ تکثیر سماج کو ملک کے مقتدرِ اعلیٰ اور اقلیتوں کو صغراً تصغیر بنانے میں جُتے ہوئے ہیں۔ کوئی لمحہ اور موقع ایسا نہیں جاتا جس میں مسلمانوں پر نکتہ چینی یا لعن طعن، طنز، سب و شتم اور ان کے خلاف اشتعال انگیز باتیں نہیں کی جاتیں۔‘‘

[روزنامہ اعتماد | ۲۶ دسمبر ۲۰۲۱ء]

انڈیا 

خود کو بڑا ہندو ثابت کرنے کی دوڑ

دسمبر کے آغاز میں مودی نے اُتر پردیش کے علاقے کاشی (سابقہ بنارس) میں کاشی وِشوا ناتھ کوریڈور کا افتتاح کیا۔ یہ کوریڈور کاشی کے مشہور وِشوا ناتھ مندر کو گنگا کی گھاٹ سے جوڑتا ہے۔ اسی مندر کے نزدیک گیان واپی مسجد بھی موجود ہے۔ تقریب کے دن اس مسجد کو بند کر دیا گیا اور وہاں نماز پر پابندی لگا دی گئی اور اسے مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا۔ مودی نے اس تقریب میں گنگا کے پانی میں ڈبکی لگائی اور مندر میں پوجا بھی کی۔ اور پھر اپنی تقریر میں مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی بھی کی۔

اس حوالے سے ندیم عبد القدیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں:

کاشی وشواناتھ کوریڈور کا راستہ کہاں جاتا ہے؟ | ندیم عبد القدیر

’’وزیر اعظم مودی کا بیان کہ ’’جب جب کوئی اورنگزیب آتا ہے، تب تب شیوا جی بھی جنم لیتا ہے اور جب جب کوئی غازی مسعود جیسا آتا ہے تب تب سہل دیواٹھ کھڑے ہوتے ہیں‘‘، یہ پیغام دیتا ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے۔ اس پر صرف ہندوؤں کا حق ہے، مسلمانوں کی حیثیت غیر ملکی جیسی ہے۔ یہ بیان ہندوؤں کو یہ باور کرانے کے لیے تھا کہ ۸۰۰ سال تک ہندو غلام رہے ہیں۔ حتیٰ کہ آزادی کے بعد بھی غلامانہ سوچ ان پر حاوی رہی اور انہوں نے اپنے گلے میں سیکولرازم کا طوق ڈالے رکھا۔ لیکن اب وہ دور ختم ہو گیا ہے اور ایک مسیحا آگیا ہے جس نے ہندوؤں کو غلامانہ ذہنیت سے آزادی دلائی ہے۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء]

دوسری جانب اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی کانگریس جس سے مسلمانوں نے ساری امیدیں باندھ رکھی ہیں، اس کے لیڈر راہُل گاندھی نے جےپور میں ایک قومی ریلی کے دوران کہا کہ ’’میں ہندو ہوں، لیکن ہندُتوا وادی نہیں ہوں۔ مہاتما گاندھی ہندو تھے، اور ناتھو رام گوڈسے ہندُتوا وادی‘‘۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو بھی شاید قابل قبول ہوتی لیکن راہُل گاندھی نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’یہ دیش ہندوؤں کا ہے، ہندُتوا وادیوں کا نہیں۔‘‘

اس حوالے سے معصوم مراد آبادی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں:

کیا یہ ملک صرف ہندوؤں کا ہے؟ | معصوم مراد آبادی

’’بی جے پی کی پیروی کرتے ہوئے اس ملک کی سیکولر کہی جانے والی پارٹیاں بھی اب ہندُتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں اور وہ کوئی بھی ایسا بیان دینے سے پرہیز کر رہی ہیں جس کی ضرب ہندُتوا پر پڑتی ہو۔ ملک کی سب سے بڑی سیکولر جماعت گانگریس کے لیڈر راہُل گاندھی نے بھی سیکولرازم کا دفاع کرنے کی بجائے خود کو ہندو کہنا ضروری سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ملک ہندوؤں کا ہے اور میں ہندو ہوں۔‘‘……

……ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے درمیان خود کو زیادہ بڑا ہندو ثابت کرنے کی مقابلہ آرائی ہو رہی ہے……

……اب یہاں اکثریتی طبقے کو ذہن میں رکھ کر ہی سب کچھ ہو رہا ہے اور اس کا سب سے منفی اثر ان مسلمانوں پر پڑا ہے جو اس وقت ملک کی سب سے پسماندہ قوم ہیں۔ آج انہیں سیاسی طور پر اچھوت بنا دیا گیا ہے۔ اب وہ سیاسی پارٹیاں بھی مسلمانوں کا نام لینے سے ڈرتی ہیں جنہوں نے اپنی ساری طاقت مسلمانوں کے ووٹوں سے حاصل کی ہے۔ مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے سیکولرازم کے نام پر جن سیاسی پارٹیوں کے ہاتھوں کو مضبوط کیا، اب وہ پوری طرح ’ہندُتوا‘ کی سیاست کر رہی ہیں۔‘‘

[روزنامہ اعتماد | ۱۹ دسمبر ۲۰۲۱ء]

انڈیا

 مَتُھرا اور کاشی کی مساجد اور گڑ گاؤں میں نماز جمعہ کا مسئلہ

گزشتہ شمارے میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ اُتر پردیش کے علاقے مَتُھرا کی شاہی عید گاہ مسجد میں بھگوا تنظیموں کی جانب سے کرشن کی مورتی نصب کرنے اور اس پر جل ابھیشک (گنگا کے پانی کا چھڑکاؤ) کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جو کہ ۶ دسمبر کو ہونا تھا۔ لیکن سیاسی مصلحت کے تحت اس منصوبے کو فی الوقت روک دیا گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ اُتر پردیش کے نائب وزیر اعلیٰ نے یہ وعدہ بھی کیا ہے کہ مَتُھرا اور کاشی کی مساجد کو ضرور مندر میں تبدیل کیا جائے گا۔ تاخیر کا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلے کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ہندو اکثریتی ووٹ حاصل کیے جائیں اور دوبارہ اُتر پردیش میں یوگی ادتیہ ناتھ کی حکومت سازی کی راہ ہموار کی جائے اور اس منصوبے پر عمل درآمد اس کے بعد ہی کیا جائے۔ جس طرح بابری مسجد کو رام مندر بنانے کا منصوبہ بی جے پی نے قسطوں میں پورا کیا اور اس سے بھرپور سیاسی فوائد سمیٹے۔

اس حوالے سے چند کالموں کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:

ایک تھی بابری مسجد! | ندیم عبد القدیر

’’حالانکہ مَتُھرا کی شاہی عید گاہ مسجد اور گیان واپی مسجد(کاشی) کا معاملہ سلگانے میں فی الوقت چند بھگوا تنظیمیں ہی ہیں اور بھگوا بریگیڈ کا سیاسی بازو یعنی بی جے پی ابھی تک اس سے دور ہے لیکن اس بارے میں مسلمانوں کو بہت خوش گمانی میں بھی نہیں رہنا ہے، کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ بی جے پی اسے کبھی بھی موضوع نہیں بنائے گی۔ جب بھی پارٹی کو ضرورت محسوس ہوگی وہ مَتُھرا اور کاشی معاملے میں بابری مسجد کی تاریخ دہرا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ بابری مسجد کا معاملہ بھی پہلے ہندو مہاسبھا تک ہی محدود تھا لیکن بعد میں اسے بی جے پی نے اُچک لیا تھا۔ بابری مسجد شہید کرنے والے مسجد کو شہید کرتے وقت اس بات کا اعلان کر چکے ہیں کہ ’’یہ تو ابھی جھانکی ہے کاشی مَتُھرا باقی ہے۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۵دسمبر ۲۰۲۱ء]

مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کی جا رہی ہے | خالد شیخ

’’یو پی کے نائب وزیر اعلیٰ موریہ کا عیدگاہ اور کرشن جنم بھومی سے متعلق بیان، مودی کی جانب سے کاشی وشواناتھ کوریڈور کا افتتاح کرتے وقت اورنگزیب کا حوالہ اور یوگی کا مَتُھرا سے ’جن وشواس یاترا‘ کا آغاز اس کا اشارہ ہے کہ ۲۰۲۲ء میں اگر بی جے پی اقتدار بچانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو جلد یا بدیر مَتُھرا کی عیدگاہ اور اس کے بعد کاشی کی مسجد کو نشانہ بنایا جائے گا۔ گروگرام (گڑ گاؤں) میں نماز جمعہ کو لے کر جو شر انگیزی ہو رہی ہے اس سے سب واقف ہیں۔ پھر یونیفارم سول کوڈ کا معاملہ ہے۔ کیا ہمارے قائدین کے پاس ان حالات سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل ہے؟‘‘

[روزنامہ انقلاب | ۲۳دسمبر ۲۰۲۱ء]

دوسری طرف گُڑ گاؤں میں بھی نمازِ جمعہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس کے علاوہ کرسمس کے موقع پر عیسائی عبادت گاہوں پر بھی بھگوا دہشت گردوں کے حملے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے پرویز حفیظ رقم طراز ہیں:

نفرت کے وائرس کا مقابلہ کیسے کریں؟ | پرویز حفیظ

’’صرف مسلمان ہی نہیں وہ تمام کمزور طبقے اس وقت نشانے پر ہیں جو ہندُتوا کے نظریے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ گڑگاؤں میں جمعہ کی نماز میں رخنہ ڈالنے والے شرپسندوں نے کرسمس کی تقریبات میں بھی رخنہ اندازی کی۔ مسجدوں میں ہی نہیں بلکہ گرجا گھروں میں بھی توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ ہم ہندوستانی اتنے بے حس یا شاید اتنے خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ مذہبی منافرت کا مظاہرہ اور نسلی تشدد کی دھمکی ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی۔‘‘

[روزنامہ انقلاب | ۲۹دسمبر ۲۰۲۱ء]

انڈیا

ہجوم زنی (ماب لنچنگ) اور پولیس گردی

اسی طرح کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فاروق انصاری لکھتے ہیں:

یہ سلسلہ آخر کب رکے گا یا اس کے ردّعمل کا انتظار ہے؟ | فاروق انصاری

’’ہر دوسرے تیسرے دن ملک میں کسی نہ کسی علاقے میں ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) کے واقعات ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہر روز ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں پولیس کی بربریت کا واقعہ ہو رہا ہے۔ تازہ واقعہ کانپور کا ہے جہاں ایک شخص اپنی گود میں ایک بچہ لیے ہوئے تھا اور پولیس اس شخص پر لاٹھیاں برسا رہی تھی۔ حالانکہ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تھانہ انچارج کو معطل کر دیا گیا لیکن معطلی کیا ہوتی ہے یہ سب جانتے ہیں کہ معاملے کی مبینہ لیپا پوتی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۲دسمبر ۲۰۲۱ء]

اسی طرح مدھیا پردیش کے شہر اِندور میں ایک چوڑی فروش تسلیم کو ایک ہجوم نے تشدد کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔ اس متعلق ندیم عبد القدیر لکھتے ہیں:

مظلوم کے خلاف پولیس کی مستعدی | ندیم عبد القدیر

’’ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کیا جاتا اور ان کے خلاف سخت کاروائی کی جاتی۔ لیکن پولیس نے حملہ آوروں کو گرفتار نہیں کیا۔ جب حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کا دباؤ بڑھا اور احتجاج ہونے لگے تو پولیس نے ان احتجاج کرنے والوں کو ہی گرفتار کر لیا۔ پولیس نے یہاں پر اپنا سب سے پرانا حربہ استعمال کیا اور تسلیم پر حملہ آوروں کو بچانے کے لیے خود تسلیم ہی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔ مسلمانوں پر ظلم و جبر کے ہر معاملے میں یہ پینترا بہت کام آتا ہے۔ اس سے مظلوم کو ڈرا دھمکا کر اسے شکایت واپس لینے کے لیے آسانی سے مجبور کیا جا سکتا ہے۔ مظلوم کے خلاف ہی معاملہ بنا دینے سے مظلوم کی ساری فکر اور کوشش خود کو چھڑانے تک محدود ہو جاتی ہےا ور ظالم بہت ہی آسانی سے بچ نکلتے ہیں تاکہ آئندہ کسی کو شکار بنا سکیں۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۱۱دسمبر ۲۰۲۱ء]

اسی طرح ہریانہ میں ایک اور مسلم نوجوان راحیل خان کو اس کے اپنے ہندو دوستوں نے قتل کر ڈالا اور ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر نشر کر دی جس میں وہ راحیل خان سے کہہ رہے تھے کہ ’’ہم ہندو ہیں ہندو اور تو مُلّا ہے مُلّا‘‘۔ اس حوالے سے ندیم عبد القدیر لکھتے ہیں:

ہجوم زنی میں مسلمانوں کے قتل کا معمول | ندیم عبد القدیر

’’ملک میں ہجوم زنی کے ذریعے مسلمانوں کے قتل کی وارداتیں انتہائی عام ہو چکی ہیں اور ہر واردات ڈرا دینے والی ہے۔ ہریانہ میں راحیل خان کے قتل کی واردات لیکن ان سب سے زیادہ خوفناک ہے۔ کیونکہ اس میں مسلم نوجوان کو کسی اجنبی یا بھگوا تنظیم سے تعلق رکھنے والے اعلانیہ شرپسندوں نے نہیں بلکہ خود اس کے دوستوں نے قتل کیا۔ وہ دوست جن پر وہ اعتماد کرتا تھا ، انہوں نے ہی راحیل خان کو اس کے اعتماد کا بدلہ کلہاڑی کے وار سے دیا اور اس کی وجہ صرف اور صرف راحیل خان کا مسلمان ہونا تھ……

…… مسلمانوں سے نفرت اس جگہ پہنچ گئی ہے جہاں ہندو دوست ہی اب اپنے مسلمان دوستوں کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔‘‘

[روزنامہ اردو ٹائمز | ۲۱دسمبر ۲۰۲۱ء]

انڈیا

حل کیا ہے؟

موجودہ حالات و واقعات اس بات کا شدت سے احساس دلا رہے ہیں کہ اگر مسلمانانِ ہند اپنی بقاء کے لیے متحد ہو کر ظلم کے خلاف نہ اٹھے تو اس کے خمیازہ کے طور پر یا تو دین کو کھونا پڑےگا یا اپنے وجود کو۔ اس سلسلے میں کالم نگاروں کی سنجیدگی اور تشویش واضح ہے۔ لیکن کسی بھی مضبوط قائد اور لائحہ عمل کی عدم موجودگی میں ایک مربوط سوچ کا فقدان نظر آ رہا ہے۔

بعض تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ اپنے گھر میں رہیں، اپنے گھر والوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں، نظر انداز کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح سے ہندُتوا کا ایجنڈا رک جائے گا؟ کیا اس طرح سے ہندو مسلمانوں کی نسل کشی سے رک جائیں گے؟ اسی طرح کسی نے کہا کہ دشمن کو ایسا کوئی موقع فراہم نہ کریں جس سے اسے اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کا بہانہ ملے تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے ہندو دوست صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے دوست کو قتل کر رہے ہیں تو کیا اپنی اسلامی شناخت ختم کر دیں کہ اس سے دشمن کو بہانہ ملتا ہے؟ کیا نماز جمعہ پڑھنا ترک کر دیں کہ اس سے دشمن کو بہانہ ملتا ہے؟ کیا مَتُھرا اور کاشی کی مساجد کو مندر بننے دیں اور اس کے بعد پورے ہندوستان کی ساری مساجد کو مندر بننے دیا جائے کہ اگر ایسا کرنے میں رکاوٹ ڈالی گئی تو دشمن کو اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کا بہانہ ملے گا؟ اسی طرح بات کی جا رہی ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر خود کو مضبوط کریں لیکن کشمیر میں تو نیشنل کانفرنس کی ہمیشہ حکومت رہی ہے لیکن وہ کشمیری مسلمانوں کے لیے کیا کر پائی؟ جب تک وہ حکمران جماعت کا دم چھلا بنی رہتی ہے تب تک چلتی ہے جیسے ہی اس کی بات ماننے سے انکار کرتی ہے اسے اس کی اوقات دکھا دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیکولر آئین کی وجہ سے اپنے حقوق حاصل کریں تو سوال یہ ہے کہ ایسے ملک میں جہاں ۸۰ فیصد آبادی ہندو ہےجسے یہ تعلیم دی جا ریہ ہے کہ آپ خارجی حملہ آور ہیں اور اس ملک سے آپ کا کوئی تعلق نہیں اور آپ کی نسل کشی کرنا ضروری ہے وہاں جمہوری سیاست کے ذریعے اور سیکولر آئین کے سراب کے سہارے آپ کتنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر پورے ملک میں مسلمانوں کے لیے مایوسی اور غیر یقینی کی صورتحال ہے اور تمام راستے مسدود نظر آتے ہیں۔ ضروری ہے کہ اس سے قبل کے ہندو قوم پرست مسلمانوں کی نسل کشی کے ایجنڈے پر پورے زور و شور کے ساتھ عمل درآمد شروع کر دیں ہنگامی بنیادوں پر اپنے دفاع اور اپنی بقاء کے لیے تیاری شروع کی جائے۔ اپنے علاقوں کی سطح پر مسلمان منظم اور متحد ہوں اور نوجوانوں کی تنظیم سازی کریں اور انہیں ہندو بلوائیوں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کریں۔ اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری علماء پر آتی ہے کہ وہ وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور مسلمانوں کو متحد کریں، اور منظم ہو کر مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کریں۔کیونکہ اس وقت حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ ’ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘۔

٭٭٭٭٭


1 یعنی اسلامی ہندوستان میں ہندو مت کا مستقبل۔ ہندو، ہندومت کو ’’سَنَتَن دھرم‘‘ کہتے ہیں یعنی ازلی مذہب

2 دہشت

Previous Post

دگرگوں ہے جہاں……

Next Post

عمل کا وقت

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post

عمل کا وقت

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version