نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home عالمی منظر نامہ

بھارت کی ہندُتوا تحریک نسل کشی کی تیاری کے مراحل میں

ابو انور الہندی by ابو انور الہندی
21 جنوری 2022
in جنوری 2022, عالمی منظر نامہ
0

مسلمانانِ برِّ صغیر بتدریج تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔یہ ایک ایسا عمل ہے جس کا آغاز ہوئے ایک صدی سے زائد عرصہ بیت چکا ہے، اور آج یہ عمل ایک پریشان کن تیزی سے رفتار پکڑ رہا ہے۔وہ تحریک جس کا آغاز ہندو راشٹر(ہندو ریاست) کے مطالبے سے ہوا تھا، آج کھلے عام مسلمانوں کے قتلِ عام اور نسل کشی کی جانب دعوت دے کر اپنا اصل چہرہ ظاہر کر رہی ہے۔

یہ مسئلہ محض ہندوستان کا مسئلہ نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امّت، ایک امّت ہے۔ استعماری کفار کی نافذ کردہ حدود و سرحدیں مصنوعی لکیروں سے زیادہ کچھ نہیں اور شریعت کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ ان کا مقصد امّت کو تقسیم اور کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔لہٰذا مسلمانانِ ہندوستان(بھارت) کی سالمیت کو درپیش کسی بھی قسم کا خطرہ دراصل پوری امّت کو درپیش خطرہ ہے۔ پھر برِّ صغیر کے تقریباً ۷۰ کروڑ مسلمانوں کی قسمت باہم جُڑی ہوئی ہے۔آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے……لہٰذا پاکستان و بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے ہندوستان میں بسنے والے بیس کروڑ مسلمانوں کو درپیش نسل کشی کے خطرے کو نظر انداز کر دینا ممکن ہی نہیں۔

نسل کشی کی جانب دعوتِ عام

۲۰۲۱ء کے اختتام سے ذرا پہلے، ہندوستان کی ریاست اترکھنڈکے مقام ہری دوار میں ایک بڑا مذہبی اجتماع منعقد ہوا۔ ۱۷ تا ۱۹ دسمبر، تین دنوں کے دورانیے میں ہندومت کے مذہبی قائدین، سادھوؤں اور سَنتوں1 نے مسلمانوں کے بڑے پیمانے پر قتلِ عام کے لیے تیاریوں کا آغاز کرنے کی کھلے عام دعوت دی۔ انہوں نے ہندؤوں کو اسلحہ خریدنے اور اور اسے استعمال کرنے کی تربیت حاصل کرنے پر ابھارا اور صاف لفظوں میں ایک ’صفائی ابھیجن‘ (صفائی مہم)شروع کرنے کی تحریض دلائی۔یعنی بالفاظِ دیگر ہندوستان سے جہادیوں(مسلمانوں) کا صفایا کرنے کی۔

یہ نسل کشی کی جانب ایک کھلی دعوت تھی۔اجتماع میں مقررین اور قائدین نے صاف الفاظ میں مسلمانوں کو قتل کرنے، انہیں جبری طور پر دھرم تبدیل کرنے یا انہیں ان کے علاقوں سے مار بھگانے کے لیے مسلّح جتھےبنانے کے عزائم کا اظہار کیا تاکہ ایک ہندو راشٹر قائم کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکے۔ اس اجتماع کو دھرم سَنسَد (مذہبی پارلیمنٹ) کا نام دیا گیا اور ستم ظریفی کی حد یہ تھی کہ موضوعِ گفتگو کو ’اسلامی بھارت میں سَنَتَن کا بھوِش: سَمَسیا و سمَدھن‘ (اسلامی بھارت میں سَنَتَن دھرم کا مستقبل: مسائل و حل) کا عنوان دیا گیا۔

دھرم سنسد ہندؤوں کا ایسا مذہبی جلسہ ہوتا ہے جس میں ہندو مذہبی قائدین ایسے امور پر غور و فکر اور فیصلے کرتے ہیں جنہیں ہندو مت اور ہندو معاشرے کے لیے اہم اور ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ۱۹۸۴ء میں رام جنم بھُومی کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ بھی ایسے ہی ایک دَھرم سنسد میں ہوا، اور یہ تحریک اپنے آغاز کے آٹھ سال بعد بابری مسجد شہید کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی۔

ہری دوار میں جو کچھ کہا گیا اور جس وضاحت و صراحت سے کہا گیا، وہ حیران کن ہے۔ ہندوستان کے ملعون مشرکین نے اپنے مقاصد و اہداف کھول کھول کر بیان کر دیے، اور انہیں حاصل کرنے کا طریقہ بھی۔اس کے باوجود بھی اگر ہم مسلمان اپنے خوابِ غفلت سے جاگنے پر تیار نہ ہوئے اور آنے والے وقت کی تیاری نہ کی تو یاد رکھیے، وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنی اور اپنے بچوں کی قبریں، اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہوں گے۔

سنسد میں جو کچھ گفتگو ہوئی، آئیے اس کے چیدہ چیدہ اقوال پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔

یتی نرسنگھانند، اس اجتماع کے مرکزی قائدین میں سے ایک ، کا کہنا تھا :

’’ مسلمانوں کو قتل کرنے کے لیے تلواریں کافی نہیں۔ہمیں تلواروں سے بہتر ہتھیار چاہییں۔‘‘

یَتی نسل کشی پر آمادہ ہندُتوا تحریک کے مرکزی قائدین میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ چند سالوں میں عام نوجوانوں کو منظّم کرنے اور ان کے نیٹ ورک تشکیل دینے کی خاطر انتھک کام کیا ہے۔گویا صفائی ابھیجَن کی تکمیل کے لیے ملیشیا اور جتھے بنانے میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی، بلکہ نوجوانوں کی یہ تنظیمیں اور نیٹ ورکس جلد ہی مسلّح ملیشیاؤں کا روپ دھار لیں گے۔

اس اجتماع کے انعقاد میں ایک دوسرے کلیدی کردار سوامی پرَبھو دانند گیری، جو اتر پردیش کے حالیہ وزیرِ اعلیٰ یوگی ادتیاناتھ کے بے حد قریب ہے، نے میانمارمیں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا:

’’اب مزید کوئی وقت نہیں بچا……اب تو معاملہ یہ ہے کہ یا تو مرنے کے لیے تیار ہو جاؤ، یا پھر مسلمانوں کو قتل کرنے کی تیاری کرو……اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔اس لیے یہاں بھی میانمار کی طرح ، یہاں کی پولیس، سیاستدان ، فوج اور ہر ہندو کو چاہیے کہ ہتھیار اٹھا لے اور صفائی ابھیجَن میں شریک ہو جائے۔ اس کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔‘‘

ہندو مہاسبھا کی جنرل سیکرٹری، پُوجا شکن پانڈے نامی عورت نے بھی مسلمانوں کے قتلِ عام کی کھلے الفاظ میں دعوت دی اور کہا :

’’ہتھیار کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں……! اگر تم ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہو تو انہیں قتل کرنا پڑے گا۔ لہٰذا انہیں قتل کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لیے بھی۔ اگر ہم میں سے سو بھی ان کے بیس لاکھ کو قتل کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں تو جیت ہماری ہو گی……ناتھورام گوڈسے کی طرح ، میں بدنام ہونے کے لیے تیار ہوں لیکن میں ہندُتوا کا ہر اس شیطان سے دفاع کرنے کے لیے ہتھیار اٹھاؤں گی جس سے میرے دھرم کو خطرہ لاحق ہو گا۔‘‘

ساگر سِندھو نامی ایک مقرر نے ہندؤوں کو اپنے آپ کو کم از کم تلواروں سے مسلّح کرنے اور لاکھوں کی مالیت کے ہتھیار خریدنے کی ترغیب دلائی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کرنے کی بات کی اور ہندؤوں سے کہا کہ مسلمانوں کی زمینیں خرید کر پورے پورے دیہاتوں کو مسلمانوں سے پاک کیاجائے۔

ایک دوسرے ہندو لیڈر آنندسواروپ کا کہنا تھا:

’’اگر حکومت ہمارے مطالبے کو پورا نہیں کرتی(یعنی مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کے ذریعے ہندو راشٹر کا قیام) تو ہم ۱۸۵۷ء کی بغاوت سے کہیں زیادہ خونیں جنگ چھیڑ دیں گے۔‘‘

اس کے ساتھ ساتھ اس نے ہندؤوں کو ہتھیار خریدنے پر اکسایا اور کہا:

’’میں بار بار کہتا ہوں کہ موبائل چاہے پانچ ہزار کا رکھو، مگر ہتھیار ایک لاکھ روپے کا خریدو……‘‘

اجتماع کے اختتام پر بچوں نے ہتھیاروں سے مسلّح ہو کر نمائش کی جبکہ مائیکروفون پر یہ اعلان کیا جا رہا تھا:

’’مجرموں کو قتل کرنے کے لیے ہر ایک کا ہتھیار استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔ دیکھیں ، یہ کلہاڑیاں وِدھرمیوں 2کو قتل کرنے کے لیے ہیں ……‘‘

قصّہ مختصر یہ کہ اس اجتماع کا پیغام یہ تھا کہ :

  • ہندو راشٹر کے قیام کے لیے مسلمانوں سے تصادم لازمی ہے۔
  • ہندؤوں کو ہتھیار اٹھانے اور مسلّح تربیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
  • ہندؤوں کو مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کرنا چاہیے اور انہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کر دینا چاہیے۔
  • بھارت سے مسلمانوں کا صفایا کرنا ناگزیر ہے۔
  • دھرم سنسد جیسے جلسوں اور اجتماعات کے ذریعے صفائی ابھیجَن کے اس کا م کا آغاز اور اس کی قیادت کی جائے گی۔

اس اجتماع کے بعد ہندوستان کے مختلف گوشوں سے ایسی کئی ویڈیوز بن کر سامنے آ گئی ہیں کہ جن میں بچوں اور بڑوں کو سکولوں میں، دیہات کے کھیتوں اور میدانوں میں، یا ائیر کنڈیشنڈ کانفرنس ہالوں میں لڑنے اور قتل کرنے ، ہندو راشٹر کے قیام کے لیے مارنے اور مر جانے کی قسمیں کھاتا دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کا معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کرنے کا بھی عہد کیا گیا اور ان سے ہر قسم کی خرید و فروخت بند کرنے کا بھی۔ حتیٰ کہ پارلیمنٹ کے بعض ارکان تک نے مسلمانوں کی جبری تبدیلیٔ مذہب یا ان کو ان کے علاقوں سے نکالنے اور مار بھگانے کی تائید کی۔ نیز یہ امر کہ یہ اجتماع کوئی اپنی طرز و فکر کا منفرد اجتماع نہیں تھا، اجتماع کے بعد اسے حاصل ہونے والی بے تحاشا آن لائن تائید و حمایت سے ظاہر ہے۔

محققین کے مطابق نسل کشی کا عمل کوئی یک بیک شروع ہو جانے والا عمل نہیں، بلکہ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے نہایت احتیاط و عرق ریزی سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے انجام تک پہنچایا جاتا ہے۔ ان محققین کے نزدیک نسل کشی کے دس مراحل ہیں:

  1. تقسیم یا قسم بندی(یعنی کسی خاص گروہ کی تعیین و تخصیص ، ’ہم‘ اور ’تم‘ میں تقسیم کرنا)
  2. علامت بندی(اس گروہ کو کسی علامت سے جوڑ دینا)
  3. تفریق و امتیاز (اس خاص گروہ کو دیگر سے علیحدہ حیثیت دے دینا، بالعموم معاشرتی یا قانونی اعتبار سے)
  4. غیر انسانی تحقیر و تذلیل (صفاتِ انسانی سے محروم کر کے مثلِ حیوان یا قابلِ نفرت قرار دینا، یعنی اس گروہِ خاص کو انسانی اوصاف کا حامل ماننے سے انکار کرنا )
  5. تنظیم سازی (مسلّح ، تربیت یافتہ اور منظّم جتھے اور ملیشیا تیار کرنا)
  6. انتہا پسندی(’ہم اور تم ‘ کی تفریق کو پروپیگنڈے کے ذریعے دو متضاد انتہاؤں پر پہنچا دینا)
  7. تیاری (اہداف کی تعیین کر کے قتلِ عام کی تیاری و منصوبہ بندی کرنا)
  8. تعقیب و تعذیب( ہدف گروہ کی جائیدادیں ضبط کرنا، انہیں ان کے علاقوں سے بے دخل کرنا، جبری گمشدگیاں، قتل و غارت گری، کیمپو ں میں منتقلی)
  9. بیخ کنی (منظّم قتلِ عام)
  10. تردید(قاتل گروہ کی جانب سے کسی جرم کا ارتکاب کرنے کی تردید)

ہندُتوا تحریک کے نزدیک اس وقت وہ چھٹّے مرحلے سے گزر کر اب ساتویں یعنی ’تیاری‘ کے مرحلے میں داخل ہونے والی ہے۔ اس مرحلے کی وضاحت کرتے ہوئے بین الاقوامی ادارے ’Genocide Watch‘ کا کہنا ہے کہ :

’’قومی لیڈر یا نسل کشی کی منصوبہ بندی کرنے والے گروہ کے لیڈر اپنے پیروؤں کے سامنے ہدف گروہ (Targeted Group)کے مسئلہ کا حتمی حل پیش کرتے ہیں۔اپنے عزائم اور ارادوں کو خوشنما الفاظ کے لبادے پہنائے جاتے ہیں اور ’نسلی پاکیزگی‘، ’دہشتگردی کے خلاف جنگ‘ اور ’صفائی‘ جیسے الفاظ و اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ لوگ فوجیں اور مسلّح جتھے تیار کرتے ہیں، اسلحہ اور ہتھیار خریدتے ہیں اور اپنی ملیشیاؤں اور گروہوں کو عسکری تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ہدف گروہ کے حوالے سے عوام کے دلوں میں خوف، نفرت اور غصّہ بٹھایا جاتا ہے۔

لیڈر اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اگر ہم انہیں قتل نہیں کریں گے تو وہ ہمیں قتل کر دیں گے‘، اور اس طرح نسل کشی کو دفاعی تدبیر کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اشتعال انگیز خطابت اور نفرت انگیز پروپیگنڈا میں اچانک اضافہ دیکھنے میں آتا ہے جس کا مقصد ہدف گروہ کے حوالے سے خوف و ہراس پھیلانا ہوتا ہے۔‘‘

اگر اس تعریف کا موازنہ صفائی ابھیجَن ، مسلّح ہونے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کی دعوتِ عام سے کیا جائے، تو یقیناً بات سمجھنے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی۔

بلکہ نسل کشی کے ان دس مراحل کے مرتب اور Genocide Watch کے بانی،پروفیسر گریگوری ایچ سٹینٹَن (Gregory H Stanton)کے مطابق، بھارت نسل کشی کے آٹھویں مرحلے تک پہنچ چکا ہے، جو کہ تعذیب و تعقیب کا ہے۔ ۱۰ جنوری ۲۰۲۲ء کو انہوں نے بھارت کے لیے Genocide Emergency Alert جاری کر دیا اور ایک آن لائن کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت آج آٹھویں مرحلے پر پہنچ چکا ہے اور اپنے ہدف گروہ (یعنی مسلمانوں) کی بیخ کنی سے محض ایک قدم کے فاصلے پر ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں، کہ ہندُتوا قوت مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔

ردّ عمل

نسل کشی کی جانب اس کھلم کھلّا دعوت کے باوجود، بھارتی میڈیا نے اس معاملے کو نظر انداز کرنے اور اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ بھارت میں چار سو سے زیادہ چوبیس گھنٹے خبریں نشر کرنے والے ٹی وی چینل موجود ہیں اور ایک لاکھ سے زائد اخبارات، اس کے باوجود اس اجتماع اور اس کے بعدانٹرنیٹ پر اس کی حمایت میں مسلم مخالف پیغامات کے سونامی کے بارے میں خبریں اخبارات کے پہلے صفحے پر بھی جگہ نہ پا سکیں بلکہ اندرونی صفحات میں مدفون رہیں۔

مودی حکومت نے تو حسبِ توقع ان سادھوؤں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ چند ایف آئی آر کاٹی گئیں، مگر محض خانہ پری کے لیے۔ مقررین میں سے کوئی بھی اپنے الفاظ پر نادم یا شرمسار نہیں ، بلکہ اس کے برعکس انتہائی پُر اعتماد ہیں۔

یَتی نرسِنگھانند نے اجتماع میں ہونے والی تمام تقریروں پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ:’’مجھے کس بات کا افسوس ہو گا؟ ہندو پہلی بار جاگ رہے ہیں، مجھے (ان پر) فخر ہے۔‘‘

اسی طرح پرَبھو دانند گیری نے بھی اپنا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے الفاظ پر قائم ہے اور اسے کسی بات پر افسوس یا شرمندگی؍ ندامت نہیں ہے۔وہ محض اپنے حق آزادیٔ اظہارِ رائے کا استعمال کر رہا ہے۔

جنوری اور فروری کے مہینوں میں تین مزید دھرم سنسَدوں کے انعقاد کی تیاری کی جا رہی ہے۔ امکان ہے کہ مستقبل میں اور بھی ہوں گے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سادھوؤں کو یقین ہے کہ حکومت ان کے خلاف کوئی حقیقی قدم نہیں اٹھائے گی۔ اور اور یہ یقین رکھنے میں وہ حق بجانب بھی ہیں کہ آخر بی جے پی اورر آر ایس ایس بھی تو ہندوستان کے لیے ایسا ہی نظریہ رکھتی ہیں۔

بعض لبرل ناقدین نے اس واقعے کی مذمت بھی کی ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے سیکولر طبقے کی اکثریت کی گہری خاموشی محسوس کن ہے۔ کہ یہ خاموشی نیم رضامندی نہیں بلکہ پوری رضامندی پر دلالت کرتی ہے۔اسی کی ایک مثال سابق بھارتی نیوی چیف ارون پرَکاش نے فراہم کی جس نے تین دیگر سابق نیوی چیف اور ایک سابق ائیر فورس چیف کے ساتھ مل کردھرم سنسَد کے اس اجتماع کے بارے میں بھارتی صدر رام ناتھ کووِند اور وزیرِ اعظم مودی کو ایک کھلا خط لکھا۔ حسبِ توقع ،حکومت نے نہ اس خط کا کوئی جواب دیا اور نہ ہی اس کو وصول کرنے کا کوئی عندیہ دیا ……لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ارون پرَکاش کے مطابق……کوئی ایک بھی سابق آرمی چیف اس خط پر اپنے دستخط کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ پرَکاش اس امر کو بجا طور پہ ان کی جانب سے ان کی خاموش تائید گردانتے ہیں۔

انٹرویو میں ارون پرَکاش نے بھارت میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا، اور کہا کہ:

’’مسلمانوں کی جانب سے ردّعمل لازماً سامنے آئے گا……‘‘، اور ’’……اگلا مرحلہ تصادم کا ہو سکتا ہے……‘‘

جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کو خانہ جنگی کا سامنا ہو سکتا ہے، تو ایڈمرل پرَکاش نے جواب دیا:’’……ہاں! بالکل! ……کیا ہم یہ چاہتے ہیں؟……‘‘

اسی طرح بالی ووڈ اداکار نصیرالدین شاہ، جو کہ ایک مکمل طور پہ سیکولر انسان ہے، نے بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔اس اجتماع کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ :

’’جس چیزکی وہ دعوت دے رہے ہیں وہ ایک مکمل خانہ جنگی کی دعوت ہے۔ ہم بیس کروڑ افراد کااتنی آسانی سے صفایا نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ ہم بیس کروڑ افراد پلٹ کر لڑیں گے……اور مجھے یقین ہے کہ اگر اس قسم کی کوئی تحریک شروع ہو گئی تو اس کو بھرپور مزاحمت اور بے تحاشا غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

یہ ایک نہایت غیر معمولی اور لائقِ توجہ بیان ہے۔ کیونکہ اگر ایک مکمل طور پہ سیکولر ہندوستانی، گاندھی کے فلسفۂ عدم تشدد کا کٹر حامی بھی نسل کشی کے اس بے حد حقیقی خطرے کا ادراک کرنے اور اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوگیا ہے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صورتحال کس قدر شدید رخ اختیار کر چکی ہے۔

قتلِ عام کے عظیم کل پرزے

نسل کشی کا یہ لائحہ محض ہندو مذہبی لیڈروں یا بی جے پی و آر ایس ایس کے ممبران تک محدود نہیں ، بلکہ ایک شدید قسم کا اسلامو فوبیا3 پورے ہندوستانی معاشرے میں گردش کر رہا ہے۔ یونیورسٹیوں کے پڑھے لکھےنوجوان بھی ہندُتوا کی اس نسل کشی مہم میں بھرپور حصّہ لے رہے ہیں اور مسلمانوں ، بالخصوص مسلم خواتین کو جانوروں سے بدتر ثابت کرنے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔

جولائی ۲۰۲۱ء میں ’سُلّی ڈیلز(Sully Deals)‘ کے نام سے ایک موبائل ایپ شروع کیا گیا۔ ایپ بنانے والوں نے مسلم خواتین کی کھلے عام دستیاب تصاویرلے کر پروفائل بنائے جن میں ان خواتین کو ’آج کا بیوپار4‘ قرار دیا گیا۔ یعنی یہ ایپ اپنے استعمال کرنے والوں کو مسلمان خواتین کو خریدنے کا موقع فراہم کرنے کا ناٹک کرتا تھا! انّا للہ وانّا لیہ راجعون، ولا حول ولا قوۃ الّا باللہ۔

یہ کوئی حقیقی سودا نہیں تھا……لیکن اس ایپ کا مقصد مسلمانوں اور بالخصوص مسلم خواتین کی تحقیر و تذلیل کرنا تھا۔ اس قبیل کا ایک دوسرا ایپ نومبر ۲۰۱۲ء میں بھی بنا کر لانچ کیا گیا تھا جس کانام’ بُلّی بائی‘ تھا۔ یہ ایپ بھی مسلمان خواتین کی تصاویر لے کر پروفائل بناتا اور پھر ان کی بولی لگانے کا ڈرامہ کرتا۔

’سُلّی‘ اور ’بُلّی‘ درحقیقت مسلمان خواتین کے لیے استعمال ہونے والے توہین آمیز لفظ ’مُلّی‘ کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان مردوں کی تذلیل کرنے کے لیے انہیں ’ملّا‘ اور مسلمان خواتین کو ’مُلّی‘ کہا جاتا ہے۔

ان ایپس سے جن لوگوں کا واسطہ ہے وہ سب نوجوان، پڑھے لکھے، تعلیم یافتہ اور مڈل یا اَپر مڈل طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ ان ایپس کو ڈویلپ کرنے اور پھیلانے والے افراد میں ایک اٹھارہ سالہ ہندو لڑکی بھی شامل ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ محض عورت بیزارنفسیاتی مَردوں کی کاوش نہیں، بلکہ یہ عمومی طور پہ مسلمانوں اور بالخصوص مسلم خواتین کی تحقیر و تذلیل کرنے کا ایک ہتھکنڈا ہے ۔ مسلم خواتین کو جنسِ بازار بناکر پیش کرنا……ایک ایسی چیز جو خریدی اور بیچی جا سکے……مسلمان عورت کو انسانیت کے مقام و مرتبے سے گرا کر اس کی بدترین تذلیل نہیں تو اور کیا ہے؟!

مسلمانوں کو انسانی اوصاف سے عاری قرار دے کر انہیں جانوروں سے بدتر قرار دینا اور ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک و رویہ روا رکھنے کا سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔روانڈا میں توتسیوں کی نسل کشی سے پہلے انہیں’کاکروچ یا لال بیگ‘ کہا جاتا تھا، بعد میں ان کا لاکھوں کی تعداد میں قتلِ عام کیا گیا۔نازی جرمنی میں یہودیوں کو ’چوہا ‘ کہا جاتا تھا۔ اسی طرح بی جے پی اور آر ایس ایس ایک عرصے سے مسلمانوں کے ذکر کے لیے ’دیمک‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمان دیمک ہی ہیں جو بھارت کے وسائل کھا رہے ہیں اور ہندوؤں کو ان کی اپنی زمین پر ان کے حقوق سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ امِت شَا، بھارت کا دوسرا طاقتور ترین سیاستدان اکثر یہ اصطلاح استعمال کرتا ہے۔

ان تمام طریقوں اور ہتھکنڈوں کے ذریعے مسلمانوں کو انسانیت سے کمتر درجہ دے کر، ان کی تذلیل کی جاتی ہے اور عوام میں ان کے لیے نفرت و حقارت کے جذبات پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہی جذبات آگے چل کر قتلِ عام کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں۔

انہی ایپس سے مماثل، انٹرنیٹ و سوشل میڈیا پر ہندُتوا کا حامی ایک مضبوط اور معروف ٹرینڈ پیدا ہو گیا ہے جو بلا جھجک اور کھلے عام مسلمان مردوں کے قتل اور مسلمان عورتوں سے اجتماعی زیادتی کی دعوت دیتا ہے۔ اور ان خیالات کو پھیلانے والے تعلیم یافتہ اور معاشی اعتبار سے آسودہ حال لوگ ہیں۔ بلکہ بعض حلقوں میں تو یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ مودی اور بی جے پی مسلمانوں کے ساتھ بہت نرم رویہ رکھے ہوئے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ سرکاری سطح پر بھی بی جے پی اور آر ایس ایس نہایت ماہرانہ انداز سے پروپیگنڈا کرنے کے طریقے آزما رہی ہیں۔ ایک بے حد منظّم انداز میں نفرت کی فضا بنائی جا رہی ہے جس میں مسلمانوں کے خلاف پر تشدد کارروائیوں کے لیے زمین تیار کی جا رہی ہے اور جھوٹی خبروں کے ذریعے نسل کشی کو جواز بخش کے اس کی دعوت عام کی جا رہی ہے۔ پروپیگنڈا کا یہ جال بچھانے میں حقیقتاً و واقعتاً لاکھوں لوگ شامل ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ ہیں۔ اور یہ لوگ سوشل میڈیا پر دن رات ایک کر کے نسل کشی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔

امِت شا نے ایک بار کہا تھا کہ ’ہم عوام کو اپنی مرضی کا کوئی بھی پیغام دینے کی استعداد رکھتے ہیں، چاہے وہ میٹھا ہو یا کڑوا……سچا یا جھوٹا۔ کیونکہ ہمارے پاس واٹس ایپ کے گروپوں میں بتیس (۳۲)لاکھ افراد موجود ہیں‘۔

مگر اسی پر بس نہیں، بلکہ انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا کے ’ٹرینڈز‘ کو نہایت خوبی اور صفائی کے ساتھ اوپر نیچے کرنے کے لیے ’ٹیک فوگ5‘ جیسے خفیہ ایپس بھی بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔یہ ایپس فیس بک اور ٹوئٹر کے ’ٹرینڈز‘ ہائی جیک کر کے اپنی مرضی کے ٹرینڈز کو ترویج دیتے ہیں۔ یہ کام انجام دینے کے لیے اس ایپ کے اندر موجود ’آٹو ریٹویٹ‘(auto-retweet) اور ’آٹو شئیر‘(auto-share) کے خودکار فیچرکو استعمال کرتے ہوئے افراد اور گروپس کی پوسٹس اور ٹوئیٹس کو بے تحاشا پھیلایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس ایپ کو کنٹرول کرنے والے (دیگر)اکاؤنٹس استعمال کرتے ہوئے پہلے سے موجود ہیش ٹیگز (hashtags) کو سپیم (spam)6 کیا جاتا ہے۔اس طرح اس فیچر کے ذریعے ہندُتوا کا پیغام آگے بڑھانے اور پھیلانے کا کام لیا جا رہا ہے۔ یہ ایپ اپنے استعمال کرنے والوں کو عام شہریوں کے واٹس ایپ پر غیر فعال اکاؤنٹس ہیک کرنے اور ان کے فون نمبرز کے ذریعے ان کی کانٹیکٹ لسٹ میں موجود افراد کو پیغامات بھیجنے کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے۔

اس ایک مثال سے بھی یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے اس منصوبے کو کامیابی سے عملی جامہ پہنانے کے لیے کتنی دقیق اور گہری منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ محض چند جذباتی اور انتہا پسند لوگوں پر مشتمل ایک ٹولے کا کام نہیں، بلکہ یہ بہت منظّم، بہت عرق ریزی سے تیار کی گئی قتل عام کی ایک خونخوار مشینری ہے، جسے بہت مہارت اور خوش اسلوبی سے میدان میں اتارا جا رہا ہے۔

درحقیقت ہندُتوا کی تحریک کے سامنے رام جنم بھومی تحریک کی مثال ہےجو بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوئی۔ ہندُتوا ایک بار پھر اسی راستے پر چل کر ویسی ہی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ اس دفعہ وہ بڑے پیمانے پہ مسلمانوں کا قتلِ عام اور نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں دھرم سنسَد منعقد کر کر کے وہ عوامی افرادی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلّح و تربیت یافتہ ملیشیائیں پیدا کرنا اور پروا ن چڑھانا چاہتے ہیں۔ یہ کام اس لیے بھی آسان ہو گیا ہے کیونکہ آر ایس ایس اور اس سے وابستہ دیگر گروہ پہلے ہی پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر تنظیمی نیٹ ورکس کے حامل ہیں۔

یہ سب امور مل کر ایک ہی جانب اشارہ کر رہے ہیں اور وہ یہ کہ ہندُتوا تحریک اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ وہ جلد ہی نسل کشی کے اپنے منصوبے کی تنفیذ کا آغاز کر سکتی ہے۔

حل کیا ہے؟

برِّ صغیر میں مسلمانوں کی سیاسی فکر کا ایک بنیادی مسئلہ جمہوریت اور لبرل جمہوری عمل میں ان کا حیران کن حد تک غیر متزلزل یقین ہے۔ گزشتہ ایک صدی سے برِّصغیر میں مسلمانوں کی سیاسی فکر نمائندہ جمہوریت، الیکشن اور قومی سرحدوں میں مقیّد و محدود رہی ہے۔حتیٰ کہ آج جبکہ مسلمانوں کو نسل کشی کے شدید ترین خطرے کا سامنا ہے، اس کے باوجود مسلمان کفار کے بنائے انہی تصورات میں الجھے ہوئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل انہی میں تلاش کر رہے ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ ان تصورات اور نظریات نے مسلمانوں کو ہمیشہ ضرر ہی پہنچایا ہے۔ ان سے کبھی کوئی خیر برآمد نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ہو گی۔اس کے باوجود مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت، جس میں بدقسمتی سے علمائے دین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے،انہی نقصان دہ تصورات و نظریات سے چمٹی رہنا چاہتی ہے۔

جمہوریت مسلمانوں کے مسائل حل نہیں کر سکتی، ہندوستان کی حالیہ صورتحال اس امر کی عمدہ ترین مثال ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کثرتِ ووٹ کی بنیاد پر متواتر دو دفعہ اقتدار میں آ چکی ہیں۔ اس صورتحال سے باہر نکلنے کا کوئی جمہوری راستہ یا حل دستیاب نہیں۔ بھارت کے بظاہر سیکولر آئین و دستور پر بہت سوں نے تکیہ کیا اور بہت سوں نے اپنی امیدیں عدلیہ و پارلیمنٹ جیسے ’سیکولر ‘ اداروں سے وابستہ کیں، کہ یہ ہمارے حقوق اور مفادات کا تحفظ کریں گے، لیکن ایسی سب امیدیں بھی مسلمانوں کی خام خیالی ثابت ہوئیں۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد کے واقعات میں ہم نے دیکھ لیا کہ ہندوستان کے ’سیکولر‘ اعضائے ریاست نے کس طرح ہندُتوا کی تمام حرکتوں اور کارروائیوں کو قانونی جواز بخشا۔ پھر اسی ’سیکولر‘ عدالت نے کشمیر کی ۸ سالہ آصفہ بانو کے ساتھ زیادتی کرنے والوں اور اس کے قاتلوں کو ضمانت پر رہا کیا۔

درحقیقت واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان کے ان بظاہر ’سیکولر‘ اداروں کے وجود کا مقصد ہندُتوا کے کالے کرتوتوں کو جائز اور قانونی ثابت کرنا ہے۔ان اداروں کے قیام سے لے کر آج تک……یہ یہی کرتی چلی آئی ہیں۔پوری ریاستی مشینری……عدلیہ سے لے کر پارلیمنٹ تک اور پولیس سے لے کر مسلّح افواج تک……اس مشینری کا ہر جزو ہندُتوا کی تائید و حمایت میں کام کر رہا ہے، کہیں براہِ راست اور علی الاعلان اس میں حصّہ لے کر اور کہیں محض اپنی خاموش تائید و نصرت سے۔

یہ سارا منظر نامہ دیکھتے ہوئےہندوستان کے مسلمان علما اور قائدین …… بالخصوص سیاسی جماعتوں کے قائدین کا ریاست کے اس ’سیکولر عنصر‘ ہی سے اپنی امیدیں وابستہ رکھنا اور اس سے اپیلیں کرنا، جہاں ایک طرف عقل سے باہر ہےوہیں بے حد المناک بھی ہے۔ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ سیکولر ہندوستان ان کا ہندُتوا کے عفریت سےدفاع کرے گا، یہ سوچ اس قدر غالب ہے کہ ہری دوار کے اجتماع کی مذمت کرتے ہوئے بھی وہ حکّام کو سیکولرازم کے واسطے دیتے ہیں، جیسے اس طرح وہ صورتحال کو کسی طرح اپنے لیے کچھ بہتر بنا لیں گے۔

اس طرزِ فکر نے ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ہم آج بھی مسلم لیگ اور کانگرس کی عینکیں آنکھوں پر لگائے سیاست کرتے ہیں، یہ جانے سمجھے بغیر کہ یہ سو سالہ فرسودہ طریقِ سیاست ہمارے حقوق، تمناؤں اور خوابوں کا تحفظ کرنے میں یکسر ناکام رہا ہے۔ مسلمانانِ برِّصغیر شریعت کا نفاذ چاہتے تھے، وہ عزّت و احترام اور وقار چاہتے تھے۔ مگر آج پورے برّصغیر……پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں مسلمان ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ اسلام کا پرچم سرنگوں ہے۔ ریاست و اقتدار یا مشرکین کے ہاتھوں میں ہے یا سیکولر قوم پرستوں کے ہاتھوں میں۔زمین پر اللہ کا قانون اور اللہ کی شریعت نافذ کرنے کی دعوت دینا تو کجا، اس کا خواب دیکھنا بھی ممنوع ہے۔ آج ضرورت اس چیز کی ہے کہ ایک صدی سے ہم جن لکیروں کے فقیر بنے ہوئے ہیں، اب ان سے جان چھڑائیں۔

ایک مخلوط قسم کی قوم اور وطن پرستی کے نظریات، اور ضرورت کی بنا پر جمہوریت اور الیکشن میں حصّہ لینےکے تصورات کی بنیاد میں گو نیت و ارادہ اچھا ہی ہوتاہے، اس کے باوجود ان نظریات نے ہمیں مسائل در مسائل اور مصیبت در مصیبت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ پھر تباہ کن نتائج تو ایک طرف رہے، سب سے بڑا نقصان ان تصورات سے یہ پہنچا کہ مسلمانانِ برّصغیر میں ذہنی و نظریاتی غلامی راسخ ہو گئی۔ اور آج یہ تصورات اس طرح مسلمانوں کی سیاسی فکر کا جزو لا ینفک بن گئے ہیں کہ اکثریت کو جمہوریت کے علاوہ کوئی حل کہیں نظر ہی نہیں آتا۔

آج بیس کروڑ مسلمانوں کو نسل کشی کے بے حد حقیقی خطرے کا سامنا ہے۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں موجودہ نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس طرزِ فکر اور اس سیاسی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جس نے ہمیں آج اس مقام پر پہنچایا ہے۔ عامۃ المسلمین کے تحفظ کے لیے، مسلم خواتین کی عزت و عصمت کے تحفظ کے لیے، اپنی مقبوضہ و غصب شدہ زمینیں آزاد کرانے کے لیے، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے…… آج برّصغیر کو ایک نیا سیاسی وِژن دینے کی ضرورت ہے۔

گو کہ بدقسمتی سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کا رجحان خود کو جہاد کی مبارک عبادت سے دور رکھنے کارہا ہے، اس کے باوجود ان کا یہ طرزِ عمل نہ تو ان کی حفاظت کر سکا ہے اور نہ اس نے انہیں مشرکین کے لیے قابلِ اعتماد بنایا ہے۔ دھرم سنسَد کے ایک مقرر، پربھودانندگیری نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ :

’’ہم جہادیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہر وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور اس کا مطلب و مفہوم سمجھتا ہے، وہ ایک جہادی ہے۔‘‘

یہی شخص جون ۲۰۲۱ء میں بنی ایک ویڈیو میں یہ کہتا نظر آتا ہے:

’’پوری دنیا میں اگر انسانیت کو بچانا ہے تو جہادیوں کا خاتمہ کرنا ہو گا۔دنیا کو ان جہادیوں کا علاج کرنے، ان کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل کسی نے کہا کہ اسلام میں زبردستی زنا کرنے والے (rapists) پیدا ہوتے ہیں، جہادی پیدا ہوتے ہیں……جبکہ میں تو ایک عرصے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ہر مسلمان گھرانے میں ایک جہادی اور ایک دہشتگرد موجود ہوتا ہے۔ ہندؤوں کو اب اٹھ کھڑا ہونے اور ان جہادیوں کا علاج تلاش کرنےکی ضرورت ہے ورنہ یہ جہادی ہندؤو ں کے لیے علاج ڈھونڈ لیں گے، اور پھر اس دنیا میں رہنے کے لیے ہمیں کوئی جگہ نہیں ملے گی۔‘‘

یہ شخص آگے چل کر تمام ’جہادیوں‘ کو ہندو دھرم کی طرف لوٹ آنے اور معافی مانگنے کا مشورہ دیتا ہے۔سو چاہے آپ اپنے آپ کو جہاد سے دور کریں یاسیکولر بیانیہ اور طریقے استعمال کریں،دشمن آپ کو جہادی ہی کہے گا اور جہادی ہی سمجھے گا۔

تو اے مسلمان! جان لو کہ تم انہیں خوش اور راضی کرنے کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لو، تم کتنے ہی ’پر امن‘کیوں نہ بن جاؤ، تم ایک ’اچھے شہری‘بننے کے لیے کتنے ہی جتن کیوں نہ کرو، تم پھر بھی……ان کی نظروں میں ’جہادی ‘ہی رہو گے۔جب تک تم قرآن و سنّت سے بھی اپنا دامن نہ چھڑا لو گے،جب تک تم اللہ کے دین کی محبت کا دم بھرتے رہو گے، تم ان کی نظر میں ’جہادی‘ ہی رہو گے۔ تم ان کے نزدیک دیمک ہی رہو گے۔نہ وہ تم سے خوش ہوں گے، نہ راضی، یہاں تک کہ تم اللہ کے دین کو ترک کر دو اور ملّتِ ابراہیمیؑ سے نکل جاؤ۔

یہاں سمجھنے والوں کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ہمیں جمہوریت، الیکشن، گاندھی طرزِ فکر، قوم پرستی، سیکولرازم اور انسانی ساختہ سرحدوں کے جنجال سے خود کو چھڑانے کی ضرورت ہے۔اپنی بقا کے لیے، اپنے ایمان، عزت اور اولاد و نسل کی حفاظت کے لیے، ہمیں ایک نئی سیاسی فکر اپنانی ہو گی۔ایک ایسی فکر جس کی اساس جہاد اور شریعت ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ اور بعد میں آنے والے خلفا و سلاطین کے زمانے میں تھی۔

۱۹۴۷ء اور ۱۹۷۱ء کے سیاسی ڈھانچوں میں خود کو مقیّد کر کے سوچنے کا وقت گزر گیا۔اب ضرورت ہے کہ ہندوستان کو ایک کُل……ایک متحد میدان سمجھ کر منصوبہ بندی کی جائے۔ کیونکہ مسلمانانِ برِّ صغیر کی قسمت اور مستقبل باہم مربوط ہے۔ پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کو ایک دوسرے سے علیحدہ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ہاں، مقامی منظر نامے ، واقعات و صورتحال کو ضرور مدِ نظر رکھنا ہو گا، ایسی ترکیبیں اور حکمتِ عملیاں وضع کرنی ہوں گی جو اپنے اپنے مقام و صورتحال سے مطابقت رکھتی ہوں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک آنکھ ضرور مرکزی ہدف پر مرکوز رہنی چاہیے، اور وہ ہے مسلمانانِ ہند(برِّ صغیر) کی آزادی اور برّصغیر میں اللہ کی شریعت کا نفاذ۔ اور اس مقصد و ہدف کا حصول صرف اور صرف جہاد ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ کتاب یهدي وسيف ينصر،کتاب اللہ کے ذریعے جو رہنمائی فراہم کرتی ہے اور تلوار کے ذریعے جو بزورِ قوت اس کو نافذ کرتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے۔اور یہی وہ غزوۂ ہند ہے ، جو امّت کے لیے خوشخبریاں لے کر آئے گا ، جیسا کہ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی۔

مشرکین کے پنڈت اور سادھو طبلِ جنگ بجا رہے ہیں ، نفرت کے جو بیج بوئے گئے تھے، وہ نئی نسل میں جڑ پکڑ چکے ہیں۔ مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔بھارت کے اکابر و زعما کی گہری خاموشی ان کی تائید و حمایت کی عکّاس ہے۔ نسل کشی کی جانب یہ دعوت اور اس کی تیاریاں آنے والے دنوں میں مزید بڑھ جائیں گی۔ آخر ہم کب تک اپنی بقا سے بے نیاز، آنے والے اس خطرے سے آنکھیں بند کر کے پڑے رہیں گے۔ اگر ہندوستان میں ہندُتوا کی اس تحریک کا تدارک نہ کیا گیا اور یہ یونہی آگے بڑھتی گئی تو عین ممکن ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کا حشر بوسنیا و میانمار کے مسلمانوں سے بھی بدتر ہو۔

مسلمانانِ برّصغیر کو جہاد کا راستہ اپنانا ہو گا۔آج مجاہدین کے سوا کون ہے جو ہمارے لیے ہماری جنگ لڑے، اپنی جان قربان کرے اور اپنا خون بہائے؟ جہادی خطیب، قائدِ جہادِ برِّ صغیر مولانا عاصم عمر نے کہاتھا :

’’اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے مجاہد بھائیوں کو مدد کے لیے پکارا، تو مجاہدین مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے ہر ہاتھ کو کاٹ کے رکھ دیں گے۔‘‘

لیکن اے مسلمانانِ ہند! سب سے پہلے ہمیں اس بنیادی حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا کہ مجاہدین تب تک ہماری مدد نہیں کر سکتے جب تک ہم خود اپنی مدد نہ کرنا چاہیں۔جب تک ہم اپنے اندر حقیقت کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا نہ کریں اور اللہ سے مدد و نصرت طلب کرنے کے لیے اس کی جانب عاجزی و اخلاص سے رجوع کریں۔ اس صراطِ مستقیم پر قدم رکھ دیں جس پر چلنے کا ہمیں اللہ نے حکم دیا تھا۔اللہ رب العالمین، مالک الملک، الجبار و المتکبر کا فرمان یاد کریں، جب اس نے فرمایا:

كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئاً وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَيْئاً وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ؀(سورۃ البقرۃ: ۲۱۶)

’’ تم پر (دشمنوں سے) جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے، اور وہ تمہیں ناپسند ہے، اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔‘‘

اور

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَجِيبُواْ لِلّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُم لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ؀ (سورۃ الانفال: ۲۴)

’’ اے ایمان والو ! اللہ اور رسول کی دعوت پر لبیک کہو، جب رسول تمہیں اس بات کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے۔اور یہ بات جان رکھو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ۔ اور یہ کہ تم سب کو اسی کی طرف اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔‘‘

اور

وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدْوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لاَ تَعْلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعْلَمُهُمْ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لاَ تُظْلَمُونَ؀ (سورۃ الانفال: ۶۰)

’’ اور (مسلمانو) جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو جن کے ذریعے تم اللہ کے دشمن اور اپنے (موجودہ) دشمن پر بھی ہیبت طاری کرسکو، اور ان کے علاوہ دوسروں پر بھی نہیں ابھی تم نہیں جانتے، (مگر) اللہ انہیں جانتا ہے۔ اور اللہ کے راستے میں تم جو کچھ خرچ کرو گے، وہ تمہیں پورا پورا دے دیا جائے گا، اور تمہارے لیے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔‘‘

بھارت کے مشرکین ہم سے تباہی و بربادی کے وعدے کر رہے ہیں، جبکہ اللہ نے ہم سےعزت و ظفر کا وعدہ کر رکھا ہے ……تو کیا ہم اپنے ربّ کی اطاعت نہیں کریں گے؟

کیا ہم اب بھی نہیں جاگیں گے؟

اے اللہ! گواہ رہنا……میں نے اپنی قوم تک پیغام پہنچا دیا!

بھائی ’ابو اَنور الہندی‘ کا تعلق ’حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے ‘ہے، جسے بنگلہ دیش کے نام سے جانا جاتا ہے اور انہوں نے یہ تحریر وہیں قلم بند کی ہے۔

٭٭٭٭٭


1 سَنت: (ہندی)انگریزی زبان کے لفظ”saint“ سے ماخوذ

2 وِدھرمی: بے دھرم ، کافر (یعنی مسلمان)

3 اسلام اور مسلمانوں کا شدید خوف و نفرت

4 ڈیل آف دا ڈے: Deal of the day (یعنی آج کی بہترین جنس برائے فروخت )

5 Tek Fog: لغوی اعتبار سے ٹیکنیکل دھند

6 Spam: ایک ہی پیغام کوانٹرنیٹ پر مختلف لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو بلا تمیز و تفریق بھیجنا

Previous Post

عمل کا وقت

Next Post

جمہوریت اپنے آئینے میں | پہلا حصہ

Related Posts

علاجے نیست
عالمی منظر نامہ

علاجے نیست

17 اگست 2025
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!
عالمی منظر نامہ

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے!

17 اگست 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | اگست ۲۰۲۵ء

16 اگست 2025
خیالات کا ماہنامچہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

خیالات کا ماہنامچہ | اگست ۲۰۲۵ء

14 اگست 2025
اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل
عالمی منظر نامہ

اسرائیل اور امریکہ میں شیطان پرستی اور بچوں کا قتل

14 جولائی 2025
اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء
عالمی منظر نامہ

اخباری کالموں کا جائزہ | جولائی ۲۰۲۵ء

13 جولائی 2025
Next Post

جمہوریت اپنے آئینے میں | پہلا حصہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version