نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home دیگر

سوشل میڈیا کی دنیا سے…… | مارچ و اپریل 2022

جمع و ترتیب: محمد سالم ملک

محمد سالم ملک by محمد سالم ملک
23 اپریل 2022
in مارچ و اپریل 2022, دیگر
0

 یہاں درج فاضل لكهاريوں کے تمام افکارسے ادارہ ’نوائے غزوۂ ہند‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔


رہنما اور راہزن کا فرق | فیض اللہ خان نے لکھا


عمر و اسامہ اور حقانی دوغلے نہ تھے، جو راہ چُنی اولاد سمیت چلے اور اسی پہ جان بھی دی۔ اختر عبدالرحمان جیسے صرف مالی بدعنوان نہیں فکری بددیانت بھی ہیں، جو افغان جہاد کی گنگا میں مال بناتے رہے۔ قوم کے بچے بھیجتے تھے اپنے سنبھال کر رکھے، حالیہ افغان جنگ کے راز کھلے تو کئی اختر عبدالرحمان ملیں گے۔

وَالَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبَّا لِّلَّہِ | شیخ حامد کمال الدین نے لکھا


ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں ’’اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت‘‘ پر اتنی ہی شدت اختیار کی جاتی ہے جتنی کہ آج کی کسی ماڈرن سوسائٹی میں ’’آئین‘‘ پر اختیار کی جاتی ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

دینی جماعتوں کیلئے یاد دہانی!

اگلے مرحلے میں مریخ کو قریب کر کے فتح کریں گے | محمد عبد اللہ نے لکھا


’’پیٹرول کی قیمت کم کرنا ناممکن ہے البتہ کلومیٹر کی تختیاں قریب قریب کرنے پر کام ہو رہا ہے تاکہ گاڑیوں کی ایوریج بڑھ سکے۔ جلد قوم کو خوشخبری سنائیں گے۔‘‘ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی

مکافاتِ عمل | ابوبکر قدوسی نے لکھا


انسان جب مظلوم ہوتا ہے تو اس کو اپنے کیے گئے ظلم بھول جاتے ہیں، تب اس کو صرف اپنا درد یاد رہتا ہے۔

یہی یوکرین تھا کہ جس کے فوجی نیٹو فورسز کا حصہ نہ ہونے کے باوجود اس ظلم میں اپنا حصہ شامل کرنے کے لیے مسلم ممالک میں آئے۔۔۔ دیکھا جائے تو یوکرین کی کسی مسلم ملک سے کیا دشمنی تھی یا جھگڑا تھا؟

لیکن جب امریکہ نے نان نیٹو فورسز کو اپنے ظلم میں ساجھے دار بنانے کے لیے ’ایساف‘ کو تشکیل دیا تو یوکرائن اس کا سرگرم حصہ تھا۔ اس کے فوجی شقاوت میں دوسروں سے بھی نسبتاً بڑھے ہوئے تھے۔ انہوں نے افغانستان اور عراق میں خون کی ندیاں بہا دی تھیں۔

دوسری طرف جب یہی روس اسی انداز میں شام پر بمباری کر رہا تھا اور یونہی خون بہہ رہا تھا تو اہل مغرب کی اکثریت اپنی حکومتوں کی خاموش تائید کننده تھی، جو اب روسی بمباری پر بلک بلک جا رہی ہے۔ کم از کم میں جمہوریت کے نظام میں عوام کو حکومتوں کے جرائم میں مکمل حصے دار سمجھتا ہوں کیونکہ حکمران ان کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد بھی جواب دہ ہوتے ہیں، اور بعد ازاں اگلے الیکشن کی تلوار بھی سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ سو اس ظلم میں ان کے عوام بھی برابر کے شریک تھے۔

رہی یہ جنگ۔۔۔۔۔ تو اللہ ظالموں کو ظالموں کے ذریعے ہلاک کر رہا ہے۔

تہذیب کے فرزندوں کے منافقانہ معیار | اشرف محمود نے لکھا


پچھلے ۲۰ سال میں ایک طعنہ بار بار دیا گیا کہ تم مامے لگتے ہو امت کے؟ کون سی امت، کہاں کی امت؟

اپنی فکر کرو، کوئی کسی کے لیے نہیں لڑتا۔ کشمیر، افغانستان میں لڑنے والے دہشتگرد ہیں۔ نیشن سٹیٹ دہشتگردی بارڈر کراسنگ کی اجازت نہیں دے گی۔

یوکرینی اپنے ملک کا دفاع کریں تو حریت پسند اور ہیرو کہلائیں اور اگر فلسطینی، کشمیری اور افغانی کریں تو دہشت گرد کہلائیں۔

یوکرین جنگ نے منافقوں کے چہروں سے سارے نقاب اتار دیے ہیں۔۔۔

پوٹن کی فراخ دلی | کامران علی خان نے لکھا

اگر میری وجہ سے مغربی دنیا عمران خان جیسے ایک عالمی لیڈر کے خلاف سازشیں کر رہی ہے تو میں یوکرین سے اپنی فوج واپس بلا لیتا ہوں یوکرین تو آنی جانی چیز ہے، دنیا ایسا ہیرا پھر کہاں سے لائے گی؟ ولادمیر پوٹن

کاہلی اور اس کا قدرتی علاج | زبیر منصوری نے لکھا


کہیں پڑھا تھا،

بڑے فشنگ ٹرالر ہفتوں بعد گہرے سمندروں سے واپس لوٹتے تھے تو برف لگی مچھلی باسی ہو چکی ہوتی تھی۔ پھر ٹرالرز میں بڑے بڑے ٹینک بنائے جانے لگے تاکہ زندہ مچھلی ساحل پر لائی جا سکے۔ مگر بات نہیں بنی اتنا لمبا عرصہ ٹینک میں کاہل پڑے رہ کر مچھلی کی لذت کم ہو جاتی تھی۔ پھر انہوں اس ٹینک میں ایک شارک مچھلی چھوڑنا شروع کر دی جس کا خوف، بچنے کے لیے بھاگ دوڑ اور جدوجہد انہیں تازہ دم رکھتی تھی۔ تبھی سے یہ کہا جانے لگا،

Put a Shark in the tank

کبھی لگتا ہے عورت مارچ، ڈاکٹر ہود بائے ٹائپ لوگ اور واقعات اسلام پسندوں کے کاہل پڑے ’ٹینک‘ میں دراصل وہ شارکس ہیں جن سے الجھنے، جھپٹنے، پلٹنے اور پلٹ کر جھپٹنے سے آہستہ آہستہ برسوں کی گرد جھڑ رہی ہے۔ اسلامی فکر کے خشک ہوتے سوتے پھر سے پھوٹ رہے ہیں، بے قراری بڑھ رہی ہے۔ بس مسئلہ تو صلاحیت اور اسکل(skill) کا بے سمت اور پلاننگ کا ہے ورنہ جذبات تو ابلے پڑ رہے ہیں۔

انسانیت | قاسم الطاف نے لکھا


آنکھیں کھول کر اور دیدے پھاڑ کر دیکھ لیں کہ مغربی میڈیا کس طرح یوکرائن اور روس کی جنگ پر رپورٹنگ کر رہا ہے ۔ جسے بھی لگتا ہے کہ انسانیت سے بڑا کوئی دھرم نہیں، وہ جان لے کہ اس فلسفے کے علمبر دار صرف اسے ہی انسان گنتے ہیں جو ان کے مفادات سے منسلک ہو۔ روسی فوج کو روکنے کے لئے پل سمیت خود کو بم سے اڑا لینے والا یوکرائینی فوجی ہیرو ہے لیکن امریکی ٹینک پر خودکش حملہ کرنے والا افغانی مسلمان دہشت گرد ہے۔

غمزدہ بیک گراؤنڈ میوزک کے ساتھ یوکرائن کے عوام کی تکلیف دہ کہانیاں سارا دن اسی بی بی سی پر چلتی رہتی ہیں جہاں کبھی مغربی جارحیت میں اجڑتے مسلمان گھرانوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔

منافقت | محمد سعد نے لکھا


’’یوکرینی فوجی اہلکار کی بہادری نے روسی افواج کو لمبا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا۔‘‘ جیو نیوز

اہم اصول سمجھ لیں۔۔۔

فدائی تدبیر تب ہی بہادری ہے جب وہ امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف نہ ہو، ورنہ دہشتگردی ہے۔ یہی کام اگر کشمیری مجاہد پلوامہ میں کرے تو پاکستانی ریاست، میڈیا اور سب دانشور اس کو ’دہشتگرد‘ کہیں لیکن اگر ایک گوری چمڑی والا کافر کرے تو بہادر۔

ایک نہیں دو پاکستان | خالد محمود عباسی نے لکھا


بندہ غائب کر دیا جائے تو خیال آیا اس نے کچھ تو کیا ہوگا مگر جب سوئس اکاونٹس میں نام آئے تو اب لگے کہ کوئی جرنیل ایسا کیسے کر سکتا ہے تو سمجھ لیں یا تو آپ شاہ دولھے کے چوہے ہیں یا غیر اللہ کی محبت بنی اسرائیل کے بچھڑے کی طرح آپ کے دل میں گھسی ہوئی ہے۔۔۔

ملفوظات | وسیم احمد نے لکھا


زیادہ متانت کا نام کبر ہے۔ متانت کی بھی ایک حد ہے۔ کچھ نہ کچھ شوخی بھی ہونی چاہیے۔ شوخی علامت ہے تواضع کی، شوخ آدمی متواضع ہوتا ہے۔

شوخ آدمی میں مکر و فریب نہیں ہوتا، بہت متانت میں بعض دفعہ یہ بات ہوتی ہے۔

(ملفوظاتِ حکیم الامت)

جج صاحب کی ذہنی بلوغت پر سوالیہ نشان | عبدالباسط نے لکھا


۱۸ سال سے کم عمر لڑکی بے حیائی کی ساری حدیں پار کر سکتی ہے، مگر جائز طریقے سے حیا کی حفاظت نہیں کر سکتی۔ کس طرح کے نامعقول لوگ ہمارے اوپر مسلط ہیں۔ جب شریعت نے بتا دیا کہ بلوغت کیا ہوتی ہے تو پھر یہ ۱۸ سال کو بلوغت کی حد کس طور پر مقرر کر رہے ہیں؟

حتی کہ امریکہ میں بھی ۱۶ سال کی عمر میں والدین کی اجازت سے شادی ہو سکتی ہے مگر یہ نجانے کس آقا کی غلامی میں اندھے بنے ہوئے ہیں۔

ترقی کہتے کسے ہو؟؟ | شیخ حامد کمال الدین نے لکھا


کچھ منطق سمجھ آئی کبھی اس #لبرل تبلیغ کی؟

گاڑیاں اور طیارے بنانے کا عمل اصل میں شروع ہوتا دین کو زندگی میں متروک ٹھہرانے، عورت کے بے پردہ ہونے، اور لچرپن کو عام کرنے سے!

اور یہ کہ

راتیں نماز اور ذکر کی بجائے نائٹ کلبوں اور شراب خانوں میں گزریں تو ترقی کا دور دورہ ہو سکتا ہے!!!

بندے دے پتر | رضوان اسد خان نے لکھا


ایسی بے شمار مزاحیہ ویڈیوز ہیں جن میں ماں کسی گڑیا یا بھالو وغیرہ کی پٹائی کرتی ہے تو بچہ، جو پہلے کھانے میں تنگ کر رہا ہوتا ہے، فوراً ڈر کے مارے منہ کھول کر بندے کا پتر بن جاتا ہے۔

ہنسنے کے بعد یہ بھی سوچیں کہ یہ عین انسانی نفسیات کے مطابق معاملہ ہے۔ سنگین جرائم پر عبرت ناک سزائیں دی جائیں تو معاشرے کے باقی افراد خود بخود بندے کے پتر بن جائیں۔

پر جن لوگوں کو بدترین مجرموں کو بھی سزائے موت دیتے موت پڑتی ہے، وہ ظلم کے سب سے بڑے حمایتی ہیں۔ انکے مقابلے میں قرآن تو کہہ رہا ہے کہ جان لو قصاص میں تمہارے لیے حیات ہے، اگر تمہارے اندر کوئی تھوڑی بہت عقل ہے تو۔ پر عقل ہوتی تو بندے کے پتر نہ بن چکے ہوتے۔۔۔!!!

خواتین کے حقوق اور عورت مارچ | علامہ ابتسام الہٰی ظہیر نے لکھا


دنیا بھر میں ۸ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے اس دن مختلف طرح کے اجتماعات، جلوسوں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بالعموم عورت کی آزادی سے متعلقہ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی مردوں کو بھی شدت سے معتوب کیا جاتا ہے اور عورت کے استحصال کے حوالے سے معاشرے کے ناہموار روّیوں کے خلاف اعلانِ بغاوت اور اظہارِ نفرت کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر لہرائے جانے والے پلے کارڈز اور بینرز پر جس قسم کی تحریریں کنندہ ہوتی ہیں وہ کسی بھی طور پر مشرقی روایات اور ہماری مذہبی اقدار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں۔

عورت مارچ کا مقصد یہ بتلایا جاتا ہے کہ عورت اپنے حقوق کی طلبگار ہے لیکن جو نعرے لگائے جاتے ہیں ان میں عام طور پر مردوزن کے اختلاط اور تعلقات کی حمایت نظر آتی ہے۔ کئی مرتبہ سرعام عورت مارچ کے شرکا شادی بیاہ کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ عورت کو اس وقت تک حقوق نہیں مل سکتے جب تک عورت نکاح کے بندھن سے آزاد نہیں ہو جاتی۔ یہ باتیں سن کر جہاں معاشرے کا ایک طبقہ طمانیت محسوس کرتا ہے، وہیں معاشرے کی ایک بڑی تعداد اس حوالے سے اضطراب اور بے چینی کا شکار ہو جاتی ہے کہ یہ نعرے نجانے ہمیں کہاں لے کر جا رہے ہیں؟

جب ہم ان معاشروں کے بارے میں مشاہدہ یا مطالعہ کرتے ہیں جہاں سے یہ نعرے ہمارے معاشرے میں درآمد کیے گئے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان معاشروں میں عورت کو چراغِ خانہ کی بجائے شمعِ محفل بنانے پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان معاشروں میں شادی بیاہ کی اہمیت بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے اور عورتیں بغیر شادی کے اپنی زندگی کو آسودہ محسوس کرتی ہیں۔ بعض مغربی معاشروں میں اس حوالے سے یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اولاد کی پیدائش کے لیے عورتیں آمادہ وتیار نہیں ہوتیں اور وہ بچوں کو نعمت سمجھنے کے بجائے اپنے اوپر ایک بوجھ تصور کرتی ہیں۔ ان کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ بچوں کے بغیر ہی اپنی زندگی کو گزار لیا جائے۔ بعض ممالک میں ہونے والی بیشتر شادیاں طلاق پر منتج ہوتی ہیں اور شادی کے باوجود بھی عورتیں اور مرد دیگر تعلقات استوار کیے رکھتے ہیں۔

عورت کی آزادی کا نعرہ یقیناً کئی اعتبارسے دلفریب ہے اور کم سن خواتین اس نعرے میں غیر معمولی کشش محسوس کرتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ کسی بھی طورپر عورت کے حقوق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا اور اس نعرے کے نتیجے میں عورت گھریلو نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے معاشرے کی آوارہ نگاہوں کا نشانہ بنتی چلی جاتی ہے۔ ہمیں اس ضمن میں اس بات کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات اس حوالے سے ہماری کیا رہنمائی کرتی ہیں۔

اسلام نے عورت کو ہر طرح کے حقوق دیے ہیں اور اس کو گھر کے ساتھ ساتھ معاشرے کی تطہیر کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے نہیں روکا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے اس بات کا بھی تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ معاشرے کی ضروریات یا معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی طور اپنے گھریلو امور میں کمی اور کوتاہی کی مرتکب نہ ہو۔ یہ بات انتہائی قابلِ توجہ اور غور طلب ہے کہ عورت اگر معاشرے میں اپنا معاشی کردار ادا کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کے شوہر اور اولاد کی حق تلفی ہوتی ہے یا اس کی اولاد مناسب تربیت سے محروم رہ جاتی ہے تو یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اس لیے کہ عورت کے شوہر اور اس کی اولاد کا اس پر سب سے پہلا حق ہے۔ اس کو چاہیے کہ وہ شوہر کی ضروریات اور اولاد کی کفالت کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز سے ادا کرے۔ ’میرا جسم، میری مرضی‘ کا نعرہ کسی بھی طور پر عورت کے حقوق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہماری رائے میں اس نعرے کے نتیجے میں معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہونے کے خدشات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اسلام میں برائی و فحاشی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ دینِ اسلام ان تمام راستوں سے عورتوں اور مردوں کومنع کرتا ہے جس کے نتیجے میں وہ بدکرداری کی دلدل میں اترنا شروع ہو جائیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۳۲ میں ارشاد فرمایا: ’’خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ برائی کا ارتکاب کرنا تو بڑی دور کی بات ہے، اسلام اس کے قریب جانے سے بھی منع کرتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے ہم جنس پرستی کی بات کا، تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر جن مغضوب قوموں پر آنے والے عذاب کا ذکر کیا ان میں قومِ لوط بھی شامل ہے۔ قوم لوط میں یہ برائی پائی جاتی تھی کہ وہ بدکرداری کا ارتکاب کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کے مختلف مقامات پر ان پر آنے والے عذاب کا ذکر کیا جن میں سورۂ ہود کی آیت نمبر ۷۷ سے ۸۳ کا مقام درج ذیل ہے:

’’جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس پہنچے تو وہ ان کی وجہ سے بہت غمگین ہو گئے اور دل ہی دل میں کڑھنے لگے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑی مصیبت کا دن ہے، اور ان کی قوم دوڑتی ہوئی ان کے پاس آ پہنچی کہ وہ تو پہلے ہی سے بدکاریوں میں مبتلا تھی۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: اے میری قوم کے لوگو! یہ ہیں میری (قوم کی) بیٹیاں جو تمہارے لیے بہت ہی پاکیزہ ہیں۔ اللہ سے ڈرو اور مجھے میرے مہمانوں کے بارے میں رسوا نہ کرو، کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم بخوبی جانتا ہو کہ ہمیں تمہاری بیٹیوں پر کوئی حق نہیں ہے اور تم ہماری اصلی چاہت سے بخوبی واقف ہے۔ لوط (علیہ السلام) نے کہا: کاش کہ مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا آسرا پکڑ پاتا۔ اب فرشتوں نے کہا: اے لوط! ہم تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں، ناممکن ہے کہ یہ تجھ تک پہنچ جائیں پس تو اپنے گھر والوں کو لے کر جب کچھ رات رہے نکل کھڑا ہو۔ تم میں سے کسی کو مڑ کر بھی نہ دیکھنا چاہیے؛ بجز تیری بیوی کے، اس لیے کہ اسے بھی وہی پہنچنے والا ہے جو ان سب کو پہنچے گا، یقیناً ان کے وعدے کا وقت صبح کا ہے، کیا صبح بالکل قریب نہیں؟ پھر جب ہمارا حکم آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر دیا، اوپر کا حصہ نیچے کر دیا اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے۔ تیرے رب کی طرف سے نشان دار تھے اور وہ ان ظالموں سے کچھ بھی دور نہ تھے۔‘‘

ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں ہم جنس پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس حوالے سے ہمیں اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کو گزارنا چاہیے۔

اسلام بنیادی طور پر انسان کے جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نکاح کے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے اورا س حوالے سے پیش آنے والی معاشی رکاوٹوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نکاح اگر غربت اور فقیری میں بھی کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو خوشحالی عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر ۳۲ میں ارشاد فرماتے ہیں: ’’تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح کے ہوں، ان کا نکاح کردو، اور اپنے نیک بخت غلام اور لونڈیوں کا بھی، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ انہیں اپنے فضل سے غنی بنا دے گا ، اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے‘‘۔

نکاح کے بندھن کے نتیجے میں انسان کو اولاد جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے جو انسان کے بڑھاپے کا سہارا بنتی ہے۔ جوانی کے ایام گزرنے کے بعد انسان اپنی اولاد کی خدمت کا طلبگار ہوتا ہے۔ اگر نکاح کے بندھن کو فراموش کر کے اولاد کی نعمت کو نظر انداز کر دیا جائے تو اس کے نتیجے میں انسان کو غیر معمولی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور بڑھاپے میں گزاری گئی تنہائی کی زندگی کے دکھ، تلخیاں اور کربناکیاں انسان کی روح کو گھائل کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔ میرا جسم، میری مرضی کا نعرہ ناپختہ ذہنوں کو ورغلانے کا سبب تو بن سکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں زندگی میں آنے والی تلخیوں اور تاریکیوں کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ ہمیں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے عورت مارچ میں لگائے گئے نعروں کو اہمیت دینے کے بجائے اسلامی تعلیمات کو اہمیت دینی چاہیے اور عورت کے جائز حقوق؛ یعنی حقِ وراثت، نکاح کے موقع پر اس کی رضامندی، زندگی کے دیگر اُمور اور معاملات میں اس کی ذات کو اہمیت، اس کے ساتھ حسن سلوک اور گھریلو سطح پر لڑکے اور لڑکی کے مابین تفریق جیسے اُمور کو ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہمارا معاشرہ حقیقی معنوں میں صحت مند معاشرے کی شکل اختیار کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں حقیقی معنوں میں عورت کے حقوق کو سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق دے، آمین!

٭٭٭٭٭

Previous Post

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ و اپریل 2022

Next Post

حقیقی عید

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

14 جولائی 2025
اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جون 2025

9 جون 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اپریل، مئی 2025

27 مئی 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | مارچ 2025

31 مارچ 2025
اِک نظر اِدھر بھی | اپریل و مئی 2024
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جنوری و فروری 2025

14 مارچ 2025
Next Post

حقیقی عید

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

اگست 2025ء
ستمبر 2025ء

ستمبر 2025ء

by ادارہ
23 ستمبر 2025

Read more

تازہ مطبوعات

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

ہم پر ہماری مائیں روئیں اگر ہم آپ کا دفاع نہ کریں

ڈاؤن لوڈ کریں  

اکتوبر, 2025
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version