امریکہ نے جنوبی افریقہ کے سفیر کو ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا
امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ امریکہ میں جنوبی افریقہ کے سفیر ابراہیم رسول کا اب ہمارے عظیم ملک میں خیرمقدم نہیں کیا جائے گا۔ ان کا الزام تھا کہ ابراہیم رسول ’ریس بیٹنگ‘( رنگ و نسل کی بنیاد پر لوگوں کو نشانہ بنانے والے) سیاست دان ہیں جو صدر ٹرمپ اور امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ متنازع ایکٹ کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں سفید فام افراد کی ملکیت والے زرعی فارمز پر قبضہ کر لیا جائے گا۔ جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے چند روز قبل ایک پوسٹ میں اپنی حکومت کے ان اقدامات کا دفاع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آئین سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جو ریاست پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ ماضی کے نسلی امتیاز کے اثرات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ جنوبی افریقہ کے باشندوں نے پانچ صدیوں پر محیط طویل جنگ لڑی ہے۔ جنوبی افریقہ کی پہچان بننے والا نیلسن منڈیلا کی قانونِ نسل پرستی کے خلاف جدوجہد سے افریقہ میں آنے والے انقلاب کو بیسویں صدی کا ایک عظیم انقلاب گردانا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ءکو سفید فام حکومتی باشندوں کی طرف سے جنوبی افریقہ میں باقاعدہ قانونِ نسل پرستی (Law Apartheid) بنایا گیاجس کے تحت سفید فام الگ، سیاہ فام الگ اور براؤن لوگ(ایشیاء کے لوگ) الگ الگ قانون کے تحت جیتے تھے۔ نیلسن منڈیلا اپنی کتاب ’’آزادی کا طویل سفر‘‘ (A Long Walk to Freedom ) میں تحریر کرتے ہیں کہ:
’’قانونِ زمین ۱۹۱۳ء ( Land Act 1913 ) کے تحت جنوبی افریقہ کی نوے فیصد (%۹۰)زمین کی ملکیت سفید فام لوگوں کو دے دی گئی۔‘‘
متحدہ عرب امارات کی خفیہ طور پر غزہ کے لیے مصری منصوبے کے خلاف لابنگ
مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات مبینہ طور پر جنگ کے بعد کے غزہ کے لیے مصر کے منصوبے کو مسترد کروانے کے لیے امریکہ میں لابنگ کر رہا ہے جو ابوظہبی اور قاہرہ کے درمیان تعلقات میں ایک اہم دراڑ کا اشارہ ہے۔ مارچ کے آغاز میں، مصر نے اسرائیل کے وحشیانہ جارحیت کے خاتمے کے بعد غزہ کی پٹی کی سیاسی منتقلی، تعمیر نو اور بحالی کے لیے اپنے منصوبے کو پیش کیا جس کے مطابق فلسطینی اتھارٹی (PA) کی طرز حکمرانی ہو گی، جو کہ اردن اور مصر کی طرف سے تربیت یافتہ غزہ کی سیکیورٹی فورس ہو۔ مصری منصوبے نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر امریکی قبضے اور فلسطینیوں کو علاقے سے جبری بے دخل کرنے کے لیے ایک متبادل کے طور پر کام کیا، جس کے نتیجے میں عرب لیگ نے قاہرہ کی تجویز کی حمایت بھی کی۔ متعدد یورپی ریاستوں نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی جبکہ امریکہ اور اسرائیل نے اسے اسے مسترد کر دیا۔ مڈل ایسٹ آئی کی ایک رپورٹ میں امریکی اور مصری حکام کا حوالہ دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکہ میں اماراتی سفیر، یوسف العتیبہ، قانون سازوں اور صدر ٹرمپ کے اندرونی حلقے کے اندر یہ لابنگ کر رہے ہیں کہ مصر کا منصوبہ بے اثر ہے اور فلسطینی مزاحمتی گروپ حماس کو بہت زیادہ راستہ فراہم کرتا ہے، متحدہ عرب امارات کا سفارتی مشن مبینہ طور پر واشنگٹن سے مصر کے لیے جاری فوجی امداد کو قاہرہ کے اپنے منصوبے سے دستبردار ہونے اور ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرنے سے مشروط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ قاہرہ کو امریکہ سے سالانہ 1.3 بلین ڈالر کی فوجی امداد مل رہی ہے، جس میں سے 300 ملین ڈالر پہلے سے ہی انسانی حقوق کے ایشو پر مشروط ہیں، ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے ہی اشارہ دیا ہے کہ اس طرح کی فنڈنگ کو مصر اور اردن کو ٹرمپ منصوبہ قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط لیےکت لیے پاکستان کو نئے مالیاتی اہداف ملنےکا خدشہ
ذرائع وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ورچوئل مذاکرات جاری ہیں، ایک ارب ڈالر کی قسط کیلیے آئی ایم ایف کڑی شرائط پیش کرسکتا ہے جبکہ پاکستان کو نئے مالیاتی اہداف ملنے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو نئے مالی سال میں فنانشل اسٹرکچرل بینچ مارک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، نئے بجٹ میں ٹیکس آمدن بڑھانے کے لیے نئے اہداف ملنے کا امکان ہے۔ آئی ایم ایف سے ٹیکس چوری روکنےکے لیے اقدامات پر بھی تبادلہ خیال ہوا، نئے بجٹ میں ٹیکس کا ہدف 15 ہزار ارب روپے سے زیادہ رکھنےکی تجویز کی گئی ہے۔ اگلے بجٹ میں ٹیکس ٹوجی ڈی پی کی شرح بڑھ کر 13 فیصد تک لے جانے پر بات چیت جاری ہے، نئے بجٹ میں نان ٹیکس ریونیو کی مد میں اگلے مالی سال 2745 ارب جمع کرنے پر بھی تبادلہ خیال ہوا۔ سینئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق مارچ کے مہینے سے ہی سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو 100 ملین ڈالر ماہانہ کی آئل فیسیلیٹی ملنا شروع ہو گئی ہے جو اگلے سال فروری تک ہر ماہ دستیاب ہو گی جس کی کل مالیت ایک ارب 20 کروڑ ڈالر ہے۔ مہتاب حیدر کا کہنا تھا کہ سعودی سہولت سے آئی ایم ایف کی اگلی قسط جلد ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دوست ممالک سے ڈالرز کی سہولت حاصل کرے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب سے ریکوڈک کے لیے سرمایہ کاری اگلے بجٹ سے پاکستان کو ملنے کا امکان ہے۔
خیبر پختونخواہ مانسہرہ میں طالبات کی نازیبا ویڈیوز بنانے والا سرکاری سکول کا اُستاد گرفتار
پولیس نے ملزم سے 32 جی بی پر مشتمل نازیبا ویڈیوز کا ڈیٹا برآمد کرنے کا دعویٰ کیا ہے، جس میں تقریباً 91 ویڈیوز شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق مذکورہ ویڈیوز کم ازکم تین طالبات کی ہیں جو ضلع مانسہرہ سے تقریباً 32 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود تھانہ لساں نواب کی حدود میں واقع سرکاری سکول کے احاطے اور کلاس روم میں بنائی گئی ہیں۔
ڈسٹرکٹ پولیس افسر مانسہرہ کا کہنا تھا کہ پولیس کو ایک طالبہ کے اہلخانہ کی جانب سے اس واقعے کی شکایت درج کروائی گئی۔ جس کے بعد مقدمہ درج کر کے پولیس نے تفتیش کا آغاز کیا تو ملزم تک پہنچنے کے بعد اُس کے موبائل سے دیگر نازیبا ویڈیوز بھی برآمد ہوئی ہیں ۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں اس قسم کے واقعات روٹین کا حصہ بن چکے ہیں۔ لیکن ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے نہ کوئی اقدام نظر آتا ہے نہ ہی حکومت اور تعلیمی اداروں کی جانب سے سنجیدگی ۔
وقف ترمیمی بل ؛ بھارتی مسلمانوں کے لیے نیا امتحان
بھارت کی تقریباً تمام مسلم جماعتیں وقف ترمیمی بل کی سخت مخالفت کر رہی ہیں لیکن حکومت اسے ہر حال میں منظور کرانے پر مصر نظر آ رہی ہے۔ آنے والے دن ملک میں مسلمانوں کے لیے ایک اور بڑے امتحان کی گھڑی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان اور وقف ترمیمی بل پر جوائنٹ پارلیمنٹ کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال نے واضح لفظوں میں کہا کہ کسی بھی قسم کے ’خطرات‘ سے قطع نظر بل کو منظور ہونے سے نہیں روکا جا سکتا۔ مسلم تنظیموں کا الزام ہے کہ بی جے پی ایسے قوانین لا کر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر انجینیئر محمد سلیم کے مطابق یہ بل وقف کی خود مختاری پر ایک سنگین حملہ ہے۔ یہ بل مسلمانوں کے اوقاف اور ان کے اداروں کو منظم طریقے سے کمزور کرنے کے لیے لایا گیا ہے۔ اس بل میں 1995ء کے موجودہ وقف ایکٹ میں وسیع پیمانے پر تبدیلیاں کی گئی ہیں جن کے ذریعے حکومت کو وقف املاک کے انتظام میں زیادہ مداخلت کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملک کا مین اسٹریم میڈیا فرقہ پرستوں کے اس بے بنیاد اور گمراہ کن پروپیگنڈے کو پھیلا رہا ہے کہ ملک میں ملٹری اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ املاک وقف کی ہیں، حالانکہ آندھرا پردیش اور تمل ناڈو کی مشترکہ ہندو وقف املاک اور اوڈیسہ میں مندروں کی املاک وقف کی مجموعی املاک سے کہیں زیادہ ہیں۔ بل کے سب سے متنازع پہلوؤں میں سے ایک ملکیت کے قوانین میں تبدیلی ہے، جس سے بورڈ کی ملکیت میں موجود تاریخی مساجد اور قبرستانوں پر اثر پڑے گا۔ رکن پارلیمان بیرسٹر اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ ان قوانین کا مقصد مسلمانوں سے ان کی زمین چھیننا ہے۔ اویسی کا کہنا تھا بہت سے لوگوں نے غیر قانونی طور پر وقف پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نئے قانون میں انہیں یہ دعویٰ کرنے کا موقع مل جائے گا کہ یہ جائیداد ان کی ہے۔ اویسی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ملک کے سب سے دولت مند شخص مکیش امبانی کا گھر ’انٹیلا‘ وقف کی زمین پر بنا ہوا ہے، جس کے خلاف عدالت میں ایک کیس زیر التوا ہے۔ مسلم تنظیموں کی جانب سے پرامن مظاہروں کی بات کی جا رہی ہے لیکن ماضی میں یہ دیکھنے میں آیا کہ بی جے پی کی متعصب حکومت نے پرامن مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بھی طاقت کا استعمال کیا حتی کہ بلڈوزر سے مظاہرین کے گھر مسمار کیے۔
بھارت میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی مہم کا پھیلاؤ
انڈیا میں پچھلے کچھ سالوں سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے اقتصادی اور سماجی بائیکاٹ کی طرح طرح کی ویڈیوز اور اپیلیں جاری کی جاتی رہی ہیں۔ سخت گیر ہندو تنظیموں اور حکمران جماعت بی جے پی سے وابستہ مقامی رہنما مسلمانوں کو دکان اور مکان کرائے پر نہ دینے اور ان سے خرید و فروخت نہ کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس مہم کو مؤثر بنانے کے لیے مزید کئی اقدامات سرکاری سطح پر لیے گئے ہیں مثلاً دکان کے اصل مالک کا نام بورڈ پر ہونا ضروری ہے اس طرح ہندو تنظیمیں دکانداروں کی شناخت کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں پھر انہیں ہراساں کیا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے، جو دکانیں ان راستوں پر ہیں جہاں کوئی ہندوؤں کا مندر یا مذہبی جگہ ہے، وہاں سے مسلمانوں کی دکانیں ختم کی جا رہی ہیں۔ گوشت کا کاروبار ایک ایسا بزنس ہے جس سے روایتی طور پر لاکھوں مسلمان وابستہ ہیں۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد بیشتر سلاٹر ہاؤسز غیر قانونی قرار دے کر بند کر دیے گئے۔ ریاست میں مسلم ملکیت والے میٹ کے بڑے بڑے ایکسپورٹنگ پلانٹ مختلف وجوہ سے بند پڑے ہیں۔ میرٹھ کے محمد عمران یعقوب قریشی کا کروڑوں روپے کا پلانٹ چھ برس سے بند پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری سالانہ آمدنی ایک ہزار کروڑ روپے تک ہوتی تھی۔ 1500 سے 2 ہزار لوگ ہماری کمپنی میں کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ سپلائر اور مزید 15 سے 20 ہزار لوگ بالواسطہ طور سے وابستہ تھے۔ وہ سب متاثر ہوئے ہیں۔ وہ سب بے روزگار ہو گئے اور مجبوری میں پھلوں کے ٹھیلے لگا رہے ہیں۔
ایغور مسلمانوں کے لیے رمضان کے حوالے سے چینی حکومت کی ہدایات
پولیس افسران اور ایغوروں کی سوشل میڈیا پوسٹس کے مطابق، چینی حکام نے سنکیانگ کے شمال مغربی علاقے میں ایغور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس بات کا ویڈیو ثبوت بھیجیں کہ وہ رمضان کے اسلامی مقدس مہینے میں روزہ نہیں رکھ رہے ہیں۔ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ڈوئین پر ایک پوسٹ میں، کاشغر صوبے کی پیزیوات کاؤنٹی کے رہائشی نے کہا کہ اسے عید الفطر تک ہر روز دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے خود کی ویڈیو ریکارڈ کرنی ہو گی۔ اس نے کہا کہ اس کے بعد اسے کمیونٹی میں رہنے والے لوگوں کی نگرانی کے لیے ذمہ دار گاؤں کے کیڈر کو ویڈیو لازمی بھیجنی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وہ یہ مصیبت سے دور رہنے کے لیےکر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، میں جہاں بھی جاتا ہوں، بازار ہو یا اسپتال، مجھے ہر روز دوپہر کے کھانے کی ویڈیو ریکارڈ کرنی اور اسے گاؤں کے کیڈر کو بھیجنا ہوتی ہے۔ میرے روزانہ کے یہ ثبوت میرے فون پر بھی محفوظ رہنے چاہئیں۔
بنگلہ دیش کی امریکی انٹیلی جنس سربراہ پر شدید تنقید، تبصرے مسترد
بنگلہ دیش نے امریکہ کی خاتون انٹیلی جنس سربراہ تلسی گبارڈ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک میں مذہبی تشدد کے بارے میں ان کے تبصرے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور کہا کہ تلسی گبارڈ کے تبصرے ’گمراہ کن‘ اور ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے ہیں ۔ تسلسی گبارڈ نے کہا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی امریکی حکومت کے لیے باعث تشویش ہے، ٹرمپ انتظامیہ پہلے ہی معاملہ اٹھا چکی ہے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے ردِّ عمل ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب امریکی انٹیلی جنس سربراہ بھارت کے سفارتی دورے پر تھیں۔ اس مسئلے کی شروعات بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی کے بعد سے ہوئی۔ جب ہندو انتہا پسندوں نے واٹس ایپ گروپوں میں یہ جھوٹی مہم چلوائی کہ بنگلہ دیش میں ہندو غیر محفوظ ہو گئے ہیں۔ اس مہم کا اتنا اثر ہوا کہ مغربی ممالک میں بھی مقیم بھارتی افراد نے احتجاج اور مظاہرے کیے اور حکومتوں پر زور ڈالا کہ وہ بنگلہ دیش پر دباؤ ڈالیں۔
ترکی یورپ کا ساتھ دینے کے لیے پرعزم
ٹرمپ کے ہاتھ ہتک آمیز رویہ سہنے کے بعد ترکی میں یوکرین کے سفارت خانے نے ترک صدر اردگان اور یوکرینی صدر کی ایک موقع پر ساتھ لی گئی تصویر کو جاری کیا۔ اس تصویر کے جاری کرنے کا مقصد دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ یوکرین کو ترکی کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ امریکہ اس بات کے واضح اشارے دے چکا ہے کہ اب یورپ کو اپنی سلامتی اور دفاع کے لیے خود پر انحصار کرنا ہو گا۔ ان حالات میں پورا یورپ بھی یوکرین کی حمایت میں ایک ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ ترکی کے پاس نیٹو میں امریکہ کے بعد دوسری سب سے بڑی فوج ہے ۔ اردگان نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ یورپ کے دفاع کے لیے ترکی اشد ضروری ہے، ترکی کو شامل کیے بغیر یورپ کے لیے عالمی سطح پر ایک شراکت دار بنے رہنا تیزی سے ناممکن ہوتا جا رہا ہے اور ترکی کے بغیر یورپ کی سلامتی ناقابل فہم ہے۔ ترکی یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی یوکرین کو ڈرون اور فوجی مدد فراہم کر رہا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ انقرہ کے روس سے تعلقات بھی برقرار ہیں اور وہ روس یوکرین جنگ میں ثالثی کے کردار کی بھی کوشش کرتا رہا ہے۔ ترکی کی دفاعی صنعت نے بھی خوب ترقی کی ہے اور اس نے گزشتہ کچھ عرصے میں ڈرون اور کم فاصلے کے میزائل کی ٹیکنالوجی میں ترکی نے بہت کام کیا ہے اور بہت سے ممالک کو برکتار ڈرون فروخت کیے جاچکے ہیں۔ ترک حکام نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ یوکرین میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ترک صدر اردگان نے یہ بھی کہا کہ یہ سب بغیر کسی قیمت کے نہیں ہو گا۔ ترکی جو ایک عرصے سے یورپ میں شمولیت کا خواہاں رہا ہے اب اسی ہدف کی سمت بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب ترکی افریقہ میں بھی اپنے اثر رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ اس وقت متعدد افریقی ممالک اور ان مغربی ممالک کی درمیان دوریاں بھی بڑھتی نظر آ رہی ہیں، جنہوں نے کبھی اس خطے میں اپنی نوآبادیاں قائم کر کے حکمرانی کی تھی۔ اس تناظر میں افریقہ میں ترک مفادات سے متعلق مکمل کیے گئے ایک مطالعاتی جائزے کے مصنف سیلین گجم کہتے ہیں کہ اردگان خود کو مغرب کے متبادل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یورپی ممالک کی نسبت ترکی افریقہ میں اپنی موجودگی کے حوالے سے اپنے ’مخلص‘ ہونے پر بھی اکثر زور دیتا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ ایسی بھرپور فوجی اور معاشی طاقت کے ساتھ ترکی جو یوکرین جیسی جنگ میں کودنے سے بھی نہیں کترا رہا اور افریقہ کے تنازعات میں بھی ملوث ہونے سے نہیں ہچکچا رہا، اس ترکی کا غزہ کے لیے کیا کردار ہے؟ یہ معاشی و فوجی قوت فلسطینیوں کے کسی کام کیوں نہیں آسکتی؟
سوڈان کا متحدہ عرب امارات کے خلاف عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ
ہیگ میں واقع عالمی عدالت انصاف نے جمعرات کو بتایا کہ سوڈان نے اقوام متحدہ کے اس اعلیٰ ترین عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا ہے جس میں الزام لگایا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے سوڈان کی مہلک جنگ میں باغی نیم فوجی گروپ ریپڈ سپورٹ فورسز(آر ایس ایف) کو اسلحہ اور مالی اعانت فراہم کر کے نسل کشی کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ سوڈان کا الزام ہے کہ مبینہ طور پر آر ایس ایف اور اتحادی ملیشیاؤں نے مسالیت نسلی گروپ کے لوگوں کو ’’نسل کشی، قتل، املاک کی چوری، عصمت دری، زبردستی نقل مکانی، بے دخلی، عوامی املاک کی توڑ پھوڑ، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘‘ جیسے جرائم کا نشانہ بنایا۔ مسالیت گروپ کے بیشتر لوگ مغربی سوڈان اور مشرقی چاڈ میں رہتے ہیں۔ سوڈان میں اپریل 2023ء کے وسط میں ایک مہلک تنازع کا سلسلہ شروع ہوا، جب اس کی فوج اور نیم فوجی باغیوں کے درمیان دیرینہ تناؤ نے دارالحکومت خرطوم کو اپنی زد میں لے لیا اور یہ ملک کے دوسرے علاقوں تک پھیل گیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اس جنگ میں چوبیس ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور 14 ملین سے زیادہ لوگ یا تقریباً 30 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 3.2 ملین سوڈانی ہمسایہ ممالک میں فرار ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ خونریزی مغربی دارفور میں ہوئی، جہاں بچ جانے والوں نے روئٹرز کو بتایا تھا کہ جنگ شروع ہونے کے فوراً بعد مسالیت لڑکوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ نوجوان خواتین کو عصمت دری کا نشانہ بنایا گیا۔
سوڈان 2019ء میں عدم استحکام کے ایک نئے دور میں داخل ہوا، جب سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں اور فوجی بغاوت نے عمر البشیر کی تقریباً تین دہائیوں کی حکمرانی کا خاتمہ کیا۔
ایک مشترکہ فوجی سویلین حکومت قائم کی گئی تھی، لیکن اکتوبر 2021ء میں فوج اور آر ایس ایف کی طرف سے ایک اور بغاوت میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ پھر یہ دونوں اتحادی شہری حکمرانی کی طرف مجوزہ نقشۂ راہ اور آر ایس ایف کو باقاعدہ مسلح افواج میں ضم کیے جانے کے معاملے پر آپس میں لڑ پڑے۔ آر ایس ایف نے اپنے کارکنوں کو ملک بھر میں دوبارہ بھیجا۔ سوڈانی فوج نے اس اقدام کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا، اور تشدد شروع ہو گیا۔ اس جنگ کی پیچیدگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ آر ایس ایف کو یمن جنگ میں سعودی اور اماراتی فورسز کے ساتھ بھیجا گیا ۔ لیکن سعودی عرب پر سوڈانی فوج کی حمایت کا الزام ہے جبکہ امارات آر ایس ایف کو مدد فراہم کر رہی ہے۔ اسی طرح روس اور یوکرین سوڈانی فوج کے حامی ہیں جبکہ روس کا ویگنر گروپ آر ایس ایف ملیشیا کا۔ سوڈانی فوج کو ترکی ایران اور الجیریا کی بھی حمایت حاصل ہے۔ اس جنگ میں دونوں فریقین پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام لگائے جاتے رہے ہیں۔
انڈونیشیا میں ملحدین کے خلاف کریک ڈاؤن
ملحدین اور کسی مذہب کو نہ ماننے والوں کی ایک غیر معمولی قانونی کوشش گزشتہ ماہ انڈونیشیا کی عدالت میں ناکامی سے دوچار ہوئی۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ ایک شہری، حتیٰ کہ اقلیتوں کو بھی، سرکاری دستاویزات پر اپنے عقیدے کی وضاحت کرنی چاہیے، اور یہ کہ شادی مذہب کے مطابق ہونی چاہیے۔۔انڈونیشیا، دنیا کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی ملک ہے اور سرکاری طور پر چھ مذاہب کو تسلیم کرتا ہے۔ یہ ہیں اسلام، پروٹسٹنٹ ازم، کیتھولک ازم، بدھ مت، ہندو مت، اور کنفیوشس ازم۔ لیکن قانون کے تحت ملحد اور کسی مذہب کو نہیں ماننے والوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ سال دو ہزار بارہ میں، ایک سرکاری ملازم الیگزینڈر عان کو فیس بک پر ملحدانہ مواد شیئر کرنے پر توہین مذہب کے جرم میں 30 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ انڈونیشیا کا ضابطہ فوجداری توہین مذہب اور الحاد کے پھیلاؤ کو قابل سزا قرار دیتا ہے۔ انڈونیشیا میں ان الحاد مخالف قوانین کو مغربی میڈیا نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کے ایک محقق آندریاس ہارسونو نے یہاں تک کہہ دیا کہ انڈونیشیا میں 1998ء میں صدر سہارتو کی آمرانہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسلامی بنیاد پرستی میں اضافہ دیکھا گیا ہے، اور ’’عدالت کے نو جج بھی اسلامی بنیاد پرستی سے محفوظ نہیں ہیں‘‘۔ مغربی ممالک اور ان کے زیر اثر چلنے والی عالمی تنظیموں کی جانب سے اسلامی ممالک میں الحاد کو فروغ دینا اور الحادی نظریات رکھنے والے افراد کی آواز بننا ان کے سازشی ایجنڈے کو بہت اچھی طرح ظاہر کرتا ہے ۔ پاکستان میں بھی الحادی نظریات والے افراد کو مظلوم بنا کر پیش کرنا میڈیا کا بنیادی وصف بن چکا ہے۔
انڈونیشیا: ہم جنس پسند مردوں کو سزا دینے پر ایمنیسٹی انٹرنیشنل کا واویلا
مسلم اکثریتی ملک انڈونیشیا میں آچے وہ واحد صوبہ ہے جہاں مجرموں کو سر عام لاٹھیاں یا کوڑے مارے جاتے ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق یونیورسٹی کے دو طلبا کو، جن کی عمریں 18 اور 24 سال تھیں، اسلامی مذہبی پولیس کے اہلکاروں نے علاقائی سرکاری ہال میں ہم جنس پرستی کے الزم میں کوڑے مارے گئے۔ اس موقع پر وہاں نہ صرف درجنوں افراد بلکہ ان دونوں مردوں کے اہلخانہ بھی موجود تھے۔ دریں اثنا ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈپٹی ریجنل ڈائریکٹر مونٹس فیرر نے ایک بیان میں کہا، ’’کوڑے مارنا امتیازی سلوک کا ایک خوفناک عمل ہے۔ بالغوں کے درمیان رضامندی کے ساتھ جنسی تعلقات کو کبھی بھی مجرمانہ قرار نہیں دیا جانا چاہیے‘‘۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تنظیموں کے نام پر مغرب نے جو فساد مسلم معاشروں میں مضبوط کیا ہے آج اس کا سامنا سبھی مسلم ممالک کو ہے۔ یہ تنظیمیں کتنی ڈھٹائی سے اس مکروہ جرم کے ارتکاب کی آزادی کی بات کرتی ہیں۔ فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ اس عمل میں مبتلاء شخص کو قاضی سخت سے سخت سزا دے۔ امام ابوحنیفہ سے یہاں تک منقول ہے کہ اس شخص کو پہاڑ سے نیچے گرا کراس پر پتھر برسائے جائیں اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس عمل میں مبتلاقوم کو یہی سزا دی ہے۔1
٭٭٭٭٭
1 فتوی نمبر : 144007200222 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن