نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں
No Result
View All Result
نوائے غزوۂ ہند
No Result
View All Result
Home دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025

خباب ابن سبیل by خباب ابن سبیل
14 جولائی 2025
in دیگر, جولائی 2025
0

غزہ کا محاصرہ توڑنے کے لیے ملائیشیا سے’’ہزار بحری جہازوں کے بیڑا‘‘ کا اعلان

ملائیشیا کی سول سوسائٹی تنظیموں نے غزہ کے مظلوم عوام کی امداد اور قابض اسرائیل کے مسلط کردہ ظالمانہ محاصرے کو توڑنے کیلئے ایک غیر معمولی اور تاریخ ساز عالمی اقدام کا اعلان کر دیا ہے، جسے ’’ہزار جہازوں کا بیڑا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بیڑا دنیا بھر سے، مختلف براعظموں سے، ہزار سے زائد کشتیوں کے ذریعے قابض ریاست کے ظلم کے خلاف ایک بیدار انسانی ضمیر کی صدا ہوگا۔ یہ اعلان ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں منعقدہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کیا گیا جہاں اسلامی تنظیموں کے رابطہ بورڈ MAPIM کے صدر عزمی عبد الحمید نے بتایا کہ یہ عظیم الشان مہم دراصل غزہ کے عوام پر قابض اسرائیل کی جانب سے ڈھائے جانے والے نسل کشی جیسے جرائم کے ردعمل میں شروع کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مہم کو یورپ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کی کئی تنظیموں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔ عزمی عبد الحمید نے کہا کہ حال ہی میں قابض اسرائیلی افواج کی جانب سے ’’میڈلین‘‘ نامی امدادی کشتی کو روکے جانے کے واقعے نے دنیا بھر میں ایک بار پھر غزہ میں جاری انسانی المیے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے۔ اسی سانحے نے بین الاقوامی برادری کو جھنجھوڑا اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا۔

اسرائیل کی جانب سے روبڈوزر کا استعمال

اسرائیلی فوج نے برسوں سے کیٹرپلر ڈی 9 کا استعمال فلسطینی آبادیوں کو مسمار کرنے ، ملبہ ہٹانے، فوجیوں کو آگے بڑھانے کے لیے، سڑکوں کو کلیئر کرنے اور زمین کو ہموار کرنے جیسے فرنٹ لائن کاموں کو انجام دینے کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد، اسرائیلی فوج نے اپنی فیلڈ آپریشنز کو بڑھانے اور اپنے فوجیوں کو لاحق خطرات کو کم کرنے کے لیے کیٹرپلر ڈی 9 کے روبوٹک ورژن کو تیزی سے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ جسے سرکاری ملکیتی کمپنی اسرائیل ایرو سپیس انڈسٹریز کی ٹیم نے تیار کیا ہے۔ اس حوالے سے فرانس 24 کی خبر میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اگرچہ اس طرح کی مشینری اور دیگر نظام فی الحال انسان چلا رہے ہیں، مستقبل کے ورژن خود مختار ہو سکتے ہیں۔ یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی بنیاد پر مشینری اپنے کام کے طریقۂ کار کا فیصلہ خود کرے گی۔

ملائیشیائی کارکنوں نے کوالالمپور میں ملائیشین انویسٹمنٹ بورڈ کے دفتر کے سامنے ایک پُرامن مگر پراثر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا، جس میں انہوں نے امریکہ کی بدنام زمانہ کمپنی ’’کیٹرپلر‘‘ سمیت ان تمام کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا، جو قابض اسرائیل کی درندگی کی معاون ہیں۔

کیٹرپلر پر الزام ہے کہ اس کی مہیا کردہ بھاری مشینری فلسطینی گھروں کو مسمار کرنے اور غیر قانونی یہودی بستیوں کی تعمیر میں استعمال کی جاتی ہے۔ مظاہرین نے ان کمپنیوں کے ساتھ جاری تعلقات کو صریحاً نسل کشی میں شراکت داری قرار دیا۔ آرمی انجینئرز اور فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ روبڈوزر، کیٹرپلر کے D9 بلڈوزر کا روبوٹک ورژن، خود کار جنگ کا مستقبل ہے۔

شپنگ جائنٹ مرسک (Maersk) کمپنی نے اسرائیلی بستیوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے

شپنگ انڈسٹری کی بڑی کمپنی مرسک مقبوضہ مغربی کنارے میں غیر قانونی اسرائیلی بستیوں سے منسلک کمپنیوں سے دستبردار ہو رہی ہے۔ فلسطین کے حامی کارکنوں کے کئی مہینوں کے مسلسل دباؤ کے بعد، جنہوں نے شپنگ اینڈ لاجسٹکس کمپنی سے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں سے تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اپنے بیان میں، مرسک نے کہا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی کارروائیوں کا جائزہ لینے کے بعد، اس نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (OHCHR) کی ہدایات پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو ان بستیوں میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ناموں کا نقشہ تیار کرتا ہے جہاں پانچ لاکھ اسرائیلی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رہتے ہیں۔ مرسک کے اسرائیل کے ساتھ کام بند کرنے کے مطالبے کی حمایت کرنے والے کارکنوں نے اس پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کو اب اسرائیل کے لیے فوجی ساز و سامان کی نقل و حمل کو روکنے کی ضرورت ہے، جس میں اس کے F-35 لڑاکا طیاروں کے ضروری پارٹس بھی شامل ہیں، جو غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔ فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے والے کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ مرسک نے خاص طور پر گزشتہ 20 ماہ کے دوران اسرائیلی فوج کو سروس فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کی تحریک (PYM) سے منسلک عائشہ نزار نے ایک بیان میں کہا، مرسک ہمارے لوگوں کی نسل کشی سے فائدہ اٹھا رہا ہے، فلسطینیوں پر بمباری اور قتل عام کے لیے استعمال ہونے والے F-35 پارٹس کو باقاعدگی سے شپ کرتا ہے۔ ہم اس وقت تک دباؤ اور عوامی طاقت کو متحرک کرنا جاری رکھیں گے جب تک مرسک اسرائیل کو ہتھیاروں اور ہتھیاروں کے اجزاء کی نقل و حمل کو ختم نہیں کرتا۔ نزار نے مزید کہا کہ غیرقانونی بستیوں میں کمپنیوں کے ساتھ کام بند کرنے کے مرسک کے فیصلے نے عالمی جہاز رانی کی صنعت کو واضح پیغام دیا کہ بین الاقوامی قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اختیاری نہیں ہے۔ اسرائیل کی غیر قانونی بستیوں کے ساتھ کاروبار کرنا اب قابل عمل نہیں ہے، اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ آگے کون آتا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران، مرسک کو دنیا کے دیگر حصوں سے اسرائیل کو فوجی پرزہ جات کی منتقلی جاری رکھنے پر ڈنمارک میں انسانی حقوق کے گروپوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے، جہاں اس کا صدر دفتر ہے۔ فروری میں، تقریباً ہزار کارکنوں نے کوپن ہیگن میں اس کے صدر دفتر میں احتجاج کیا۔ نیویارک اور مراکش میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ مارچ میں، مرسک کو بائیکاٹ ڈیویسٹمنٹ اینڈ سیکشن (BDS) کی سرکاری فہرست میں بھی شامل کیا گیا۔

صومالیہ میں مصری فوج کی تعیناتی پر ایتھوپیا کی برہمی

ایتھوپیا کے آرمی چیف کی جانب سے خبردار کیا گیا ہے کہ پڑوسی ملک صومالیہ میں مصری فوجیوں کی تعیناتی ایتھوپیا کی قومی سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے اور علاقائی کشیدگی میں اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ ایتھوپیا کی پارلیمنٹ کے سامنے تقریر کرتے ہوئے، فیلڈ مارشل برہانو جولا نے کہا کہ صومالیہ میں غیر ملکی افواج کی موجودگی ایتھوپیا کی خودمختاری اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ تعاون کی آڑ میں صومالیہ میں غیر ملکی فوجی تعیناتیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اگست 2024ء میں مصر اور صومالیہ کے درمیان ایک متنازع فوجی معاہدے کے تحت دس ہزار مصری فوجیوں کو صومالیہ میں تعینات کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ توقع ہے کہ مصری دستوں کا کچھ حصہ صومالیہ میں افریقی یونین ٹرانزیشن مشن (ATMIS) کے تحت کام کرے گا، جبکہ بقیہ براہ راست مصری کمانڈ کے تحت ہو گا۔ اس معاہدے میں صومالیہ کو ہتھیاروں کی منتقلی کی دفعات بھی شامل ہیں۔ ایتھوپیا اسے مصر کی طرف سے ایک اسٹریٹجک گھیرے کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر جب کہ دونوں ممالک دریائے نیل پر گرینڈ ایتھوپیا رینیسانس ڈیم (GERD) پر اختلافات کا شکار ہیں۔ جہاں ایتھوپیا ڈیم کو اپنی ترقی کی بنیاد کے طور پر دیکھتا ہے جبکہ مصر کو خدشہ ہے کہ اس سے اس کی پانی کی فراہمی کو خطرہ ہو گا۔ برہانو نے کہا کہ بدلتا ہوا سکیورٹی منظر نامہ ایتھوپیا کو صومالیہ میں اپنی فوجی اور اسٹریٹجک پوزیشن کا دوبارہ جائزہ لینے پر مجبور کر رہا ہے، جہاں ایتھوپیا کی افواج طویل عرصے سے ملک کو مستحکم کرنے اور القاعدہ سے منسلک الشباب گروپ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کے حصے کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

واضح رہے کہ مصر-صومالیہ معاہدہ اس سال کے شروع میں ایتھوپیا اور صومالی لینڈ کے درمیان ایک علیحدہ معاہدے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، جس میں ایتھوپیا کو بحیرہ احمر تک رسائی کی اجازت دی گئی ہے، یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے صومالیہ کی وفاقی حکومت کو ناراض کیا اور علاقائی سفارتی تناؤ کو جنم دیا۔ کشیدگی کو کم کرنے کے مقصد سے ترکی کی ثالثی میں ہونے والی بات چیت کے باوجود، ایتھوپیا حکومت صومالی لینڈ کے معاہدے سے باضابطہ طور پر پیچھے نہیں ہٹی ہے۔

انڈونیشیا اور روس کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری پر دستخط

انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو نے سینٹ پیٹرزبرگ میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بات چیت کے بعد روس کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب انڈونیشیا روس کی حمایت سے برکس گروپ میں ایک مکمل رکن کے طور پر داخل ہو چکا ہے۔ برکس گروپ کا قیام مغرب کی قیادت والے جی سیون جیسے فورمز کا مقابلہ کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ اور اس نے پوٹن کو یوکرین پر حملے کے بعد بین الاقوامی سفارتی تنہائی سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا ہے۔ روس نے انڈونیشیا کے ساتھ فوجی، سکیورٹی، تجارتی اور جوہری تعلقات کو گہرا کرنے کی بھی تجویز پیش کی ہے۔ خودمختار مالیاتی ادارے دانتارا انڈونیشیا اور روسی ڈائریکٹ انوسٹمنٹ فنڈ نے 2.29 بلین ڈالرمالیت کا سرمایہ کاری فنڈ بنانے پر اتفاق کیا۔ انڈونیشیا کے صدر ایک نیوٹرل خارجہ پالیسی پر قائم ہیں۔ وہ روس اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ انڈونیشیا کسی فوجی بلاک میں شامل نہیں ہو گا، حالانکہ اس نے گزشتہ نومبر میں بحیرہ جاوا میں روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کی تھیں۔ جکارتہ کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات نے انڈونیشیا کے مغربی اتحادیوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ پرابوو سوبیانتو نے اس ہفتے کینیڈا میں ہونے والی جی 7 سربراہی کانفرنس میں اپنی شرکت کو روس میں پوٹن سے ملاقات کے سبب چھوڑ دیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک یعنی انڈونیشیا 2027ء تک معاشی میدان میں روس سے آگے نکل جائے گا۔ انڈونیشیا اپنے سیاحتی مقام بالی کی وجہ سے کافی مشہور ہے لیکن اب اس کی وجہ شہرت یہاں دنیا کے سب سے بڑے نِکل (ایک قسم کی سفید دھات) کے ذخائر بھی ہیں۔ نِکل نامی دھات الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں کا ایک اہم جزو ہے۔ جب صدر ویدودو نے پہلی بار 2019ء میں خام نکل کی برآمد پر پابندی لگائی تھی تو یورپی یونین نے عالمی تجارتی ادارے (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) میں انڈونیشا کے خلاف مقدمہ کر دیا تھا۔ صدر ویدودو نے اُس وقت کہا تھا کہ وہ انڈونیشیا میں اس دھات کی پروسیسنگ کی قابلیت کو بہتر کرنا چاہتے ہیں، جسے ’ڈاؤن سٹریمنگ‘ کہا جاتا ہے۔ خام نکل کو پگھلانے کے لیے انڈونیشیا چین پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔

نائیجر کا فرانسیسی فرم کے ذریعہ چلائی جانے والی یورینیم کان کو نیشنلائز کرنے کا اعلان

نائیجر نے فرانس کی نیوکلیئر فرم اورانو کی طرف سے چلائی جانے والی یورینیم کی کان کو نیشنلائز کرنے کا منصوبہ بنایا ہے کیونکہ نائجر سابق نوآبادیاتی حکمران فرانس سے بتدریج دوری اختیار کر رہا ہے۔ کمپنی، جس کا 90 فیصد حصہ فرانسیسی ریاست کی ملکیت ہے، نے جمعہ کو کہا کہ نائجر کے فوجی حکمرانوں کی جانب سے سومیر کان کو قومیانے کا منصوبہ ’’کان کنی کے اثاثوں کو چھیننے کی ایک منظم پالیسی‘‘ کا حصہ ہے، جس پر قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ فوجی حکومت جو 2023ء کی بغاوت میں اقتدار میں آئی تھی، کان کنی کی مراعات پر نظرثانی کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی تھی۔ حکومت کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ وہ سومیر کان کا کنٹرول سنبھالنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ حکومت نے اورانو پر الزام لگایا کہ وہ اس جگہ پر تیار کردہ یورینیم کا غیر متناسب حصہ حاصل کر رہی ہے۔ اورانو کے پاس سومیر میں 63 فیصد حصص ہے، جبکہ نائجر کی سرکاری ملکیت سوپامین کے پاس باقی حصہ ہے، لیکن حکومت نے کہا کہ اورانو نے 1971ء اور 2024ء میں پیداوار کا 86.3 فیصد لیا تھا۔ نائیجر کے فوجی رہنما اقتدار سنبھالنے کے بعد سے فرانس سے دوری اختیار کرتے ہوئے روس کے ساتھ قریبی تعلقات اختیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ 2024ء میں، نائیجر نے ملک میں اپنی تین اہم کانوں پر سے اورانو کے آپریشنل کنٹرول کو ہٹا دیا: سومیر، کومناک اور امورین، جو دنیا میں یورینیم کے سب سے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔ اورانو نے کہا کہ اس کا ارادہ ہے کہ ’’اپنے تمام نقصانات کے لیے معاوضے کا دعویٰ کرے اور Somair کی آج تک کی پیداوار کے مطابق اسٹاک پر اپنے حقوق کا دعوی کرے‘‘۔ اورانو، جو نائیجر میں 50 سالوں سے کام کر رہی ہے، پچھلے مہینے، اس نے اپنے ڈائریکٹر کے لاپتہ ہونے اور اس کے مقامی دفاتر پر چھاپے کے بعد نائجیرین حکام کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔

بھارت روہنگیا شہریوں کی غیر قانونی ملک بدری بند کرے،ایمنیسٹی انٹرنیشنل

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پناہ گزینوں کے عالمی دن سے پہلے جاری بیان میں کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کو فوری طور پر روہنگیا مردوں، عورتوں اور بچوں کی ملک بدری کو روکنا چاہیے، انہیں پناہ گزینوں کے طور پر تسلیم کرنا چاہیے اور ان کے ساتھ عزت کے ساتھ برتاؤ کرنا چاہیے اور نہیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے جس کے وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت مستحق ہیں۔ صرف پچھلے مہینے میں، بھارتی حکام نے مبینہ طور پر کم از کم 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا، جن میں بچے اور بوڑھے لوگ بھی شامل تھے۔ انہیں بحری جہاز سے زبردستی اتار کر اور انہیں لائف جیکٹس دے کر میانمار کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑ دیا گیا۔ ایک الگ واقعے میں حکام نے 100 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو سرحد پار بنگلہ دیش جانے پر مجبور کیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرنے والے ان کے رشتہ داروں کے مطابق، 8 مئی کو، ہندوستانی حکام نے دہلی میں رہنے والے کم از کم 40 روہنگیا پناہ گزینوں کو حراست میں لیا، جن میں سے اکثر کے پاس اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی (UNHCR) کی طرف سے جاری کردہ شناختی دستاویزات تھے۔ اس کے بعد پناہ گزینوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی، انہیں دور انڈمان اور نکوبار جزائر پر لے جایا گیا، اور انہیں ہندوستانی بحریہ کے جہاز میں منتقل کر دیا گیا۔ بحیرہ انڈمان میں، پناہ گزینوں کو مبینہ طور پر لائف جیکٹس دی گئیں اور زبردستی پانی میں ڈال دیا گیا، جس سے ان کے پاس میانمار کے علاقے میں واقع ایک جزیرے پر تیرنے کی کوشش کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے روہنگیا پناہ گزینوں میں سے ایک کے رشتہ دار نے کہا: ’’ایک بار جب وہ ساحل پر پہنچے تو انہوں نے ایک ماہی گیر کا فون استعمال کر کے ہمیں فون کیا، اس کے بعد ہمیں ان کا کچھ علم نہیں۔ ہم ان کی حفاظت کے بارے میں بہت پریشان ہیں‘‘۔ اگرچہ خیال کیا جاتا ہے کہ پناہ گزین بحفاظت ساحل پر پہنچ گئے ہیں، لیکن ان کی موجودہ جگہ اور حالت ابھی تک نامعلوم ہے۔

کچھ دنوں بعد، آسام کے ماتیا ٹرانزٹ ڈیٹینشن سینٹر میں زیر حراست 100 سے زیادہ روہنگیا پناہ گزینوں کو، جو کہ بھارت میں اس طرح کی سب سے بڑی جگہ ہے، کو بس کے ذریعے لے جایا گیا اور پھر مشرقی سرحد کے پار بنگلہ دیش میں زبردستی بھیج دیا گیا، مبینہ طور پر کسی بھی رسمی قانونی عمل تک رسائی حاصل کیے بغیر۔ 17 مئی کو، دو روہنگیا پناہ گزینوں نے ایک پٹیشن دائر کی جس میں ہندوستان کی سپریم کورٹ پر زور دیا گیا کہ وہ مداخلت کرے اور مزید ملک بدری کو فوری طور پر روکے۔ تاہم، سپریم کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ حیران کن طور پر جج نے حالیہ پاک بھارت تنازع کے دوران دائر کی گئی درخواست کے وقت پر تنقید کی۔

بھارت میں مقیم ایک روہنگیا پناہ گزین نے انتقامی کارروائی کے خوف کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایمنسٹی انٹرنیشنل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ملک بدر کیے جانے کے مسلسل خوف میں جی رہے ہیں، اگرچہ ہمارے پاس UNHCR کے پناہ گزین کارڈ ہیں، بھارتی حکومت ہمارے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں، میرے بہت سے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھارتی حکومت کی طرف سے بغیر کسی وارننگ کے کیسے لے جایا گیا؟‘‘ 8 مئی کو، روہنگیا پناہ گزینوں کے حالات زندگی اور ملک بدری سے متعلق ایک کیس میں، ہندوستانی حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ نہ تو UNHCR کے جاری کردہ پناہ گزین کارڈوں کو تسلیم کرتی ہے اور نہ ہی روہنگیا کو پناہ گزینوں کے طور پر، کیونکہ ہندوستان 1951ء کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کا دستخط کنندہ نہیں ہے اور اس لیے پناہ گزینوں کے تحفظ میں کوئی توسیع نہیں کرتا۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ ملک میں رہنے کا آئینی حق صرف بھارتی شہریوں کو ہے، اس لیے روہنگیا پناہ گزینوں کی صورت حال غیر ملکی قانون کے دائرے میں آتی ہے جو جبری ملک بدری کی اجازت دیتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کی بھارت کی عدم توثیق لوگوں کو خطرے، ظلم و ستم اور بے وطنی کے حالات پر مجبور کرنے کا بہانہ نہیں ہو سکتا۔ روایتی بین الاقوامی قانون میں ’نان ریفولمنٹ‘ کے اصول کے تحت ہندوستان کو اب بھی ضرورت ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی جگہوں پر واپس بھیجنے سے باز رہے جہاں انہیں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کا نشانہ بننے کا حقیقی خطرہ ہو۔ یہ شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کے تحت بھی ایک قانونی ذمہ داری ہے جس کا ہندوستان ایک فریق ہے۔

بھارت کی آبی جارحیت، ڈیموں کی اسٹوریج اور نظام آبپاشی متاثر ہونے لگا

سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کے بعد بھارت کی جانب سے پانی روکے جانے کی وجہ سے پاکستان میں خریف کی فصل شدید متاثر ہو رہی ہے، منگلا اور تربیلا ڈیم میں پانی کے ذخیرے میں تیزی سے کمی آ رہی ہے، ارسا کے تازہ اعداد وشمار کے مطابق پانی کے بہاؤ میں مجموعی طور پر21 فیصد کمی اور دو اہم ڈیموں منگلا اور تربیلا میں تقریباً 50 فیصد لائیو اسٹوریج کی کمی کا سامنا ہے۔ منگلا اور تربیلا پنجاب اور سندھ میں آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرنے اور ہائیڈرو پاور پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ میں روزانہ کمی و بیشی معمول بن چکی ہے، جس کے باعث پاکستان میں ڈیموں کی اسٹوریج صلاحیت متاثر ہونے لگی ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے حکام کے مطابق بھارت کبھی پانی کے بہاؤ میں اچانک کمی کر دیتا ہے اور کبھی غیر متوقع اضافہ، جس کا براہِ راست اثر پاکستان کے آبی ذخائر پر پڑ رہا ہے۔ حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو منگلا ڈیم میں پانی بھرنے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے، جو آئندہ موسمِ خریف میں زرعی ضروریات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ ارسا کے مطابق پانی کی کمی کے پیشِ نظر منگلا سے اخراج 10 ہزار کیوسک سے بڑھا کر 25 ہزار کیوسک کر دیا گیا ہے تاکہ متوازن فراہمی جاری رکھی جا سکے۔ دوسری جانب پاکستان نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ہندوستانی آبی جارحیت سے نمٹنے کی خاطر دو میگا واٹر اسٹوریج ڈیموں کی فنڈنگ ​​کے لیے ملک میں پیدا ہونے والی ہر قابل ٹیکس مصنوعات پر (سوائے برقی توانائی اور ادویات کے) خصوصی ایک فیصد ٹیکس لگانے کی اجازت طلب کی ہے۔ وزارت آبی وسائل اور وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق، دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی جلد تکمیل کے لیے صوبائی حکومتوں کی اکثریت کی جانب سے مالی اعانت سے ہچکچاہٹ کے بعد نیا ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ تاہم، حکومت کو آئی ایم ایف کی مخالفت کا بھی سامنا ہے، جس نے وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ منظور شدہ ایک ٹریلین روپے کے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے اندر جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرے۔ دیامر بھاشا ڈیم جس کی لاگت 480 ارب روپے ہے اور مہمند ڈیم جس کی لاگت کا تخمینہ 310 ارب روپے ہے 2018ء میں منظور کیا گیا تھا لیکن ان کی تکمیل کے لیے ابھی بھی کم از کم 540 ارب روپے درکار تھے۔ یہ بھی واضح رہے کہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت کی جانب سے اس ایشو پر سخت بیان دئیے گئے لیکن ٹرمپ کی ثالثی میں اسے مکمل نظر انداز کیا گیا، کیونکہ شاید وہ ثالثی نہیں بلکہ حکم نامہ تھا جس پر فوراً سے پیشتر بلا چون و چرا عمل درآمد کیا گیا۔

فوجی فرٹیلائزر کا پی آئی اے کے حصص خریدنے میں دلچسپی کا اظہار

پاکستان کی سب سے بڑی کھاد ساز کمپنی فوجی فرٹیلائزر کمپنی لمیٹڈ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز یعنی پی آئی اے کے حصص خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، یہ پیش رفت پی آئی اے کی مجوزہ نجکاری کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق فوجی فرٹیلائزر کمپنی، جو پاکستان میں کھاد اور کیمیکل سازی کے علاوہ سیمنٹ، فوڈ پروسیسنگ، توانائی اور بینکاری کے شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کرتی ہے، اب قومی ایئرلائن میں شمولیت کی خواہش مند ہے۔ حکومت اس نجکاری کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یعنی آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر کے اصلاحاتی پروگرام کا حصہ قرار دے رہی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ عرصہ دراز سے میڈیا کی شہ سرخیوں کا مرکز بن رہا ہے۔ گزشتہ سال یہ معاملہ اس وقت مضحکہ خیر صورتحال اختیار کر گیا جب 85 ارب کے ڈیمانڈ کے جواب میں 10 ارب کی بولی لگائی گئی۔ ترجمان قومی ایئر لائن کا کہنا تھا صرف لندن ہیتھرو کے روٹ کی مالیت 100 ملین ڈالر ہے جو 30 ارب روپے بنتے ہیں، پراپرٹیز، اثاثہ جات اور 33 جہاز الگ ہیں۔ واحد بولی دہندہ کا تجربہ رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کچھ نہیں، غیر سنجیدہ بولی ایک جہاز کی قیمت کے لیے بھی ناکافی ہے۔ یہ بات تو معروف ہے کہ جن بولیوں اور ٹینٹڈرز میں کوئی فوجی کمپنی شریک ہو وہاں کسی عام سویلین کمپنی کے لیے مقابلہ کرنا ممکن ہی نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر فوجی فرٹیلائزر یہ ڈیل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ کھاد کے سیکٹر میں فوجی فرٹیلائزر کے پاس اجارہ داری ہے، سبسڈی بھی ملتی ہے، گیس کی پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ہو، لیکن فوجی فرٹیلائزر کو ہر صورت ملے گی۔ اجارہ داری کے سبب کھاد مارکیٹ سے غائب ہو کر بلیک میں منہ مانگی قیمت پر بکتی ہے۔ اس کمپنی کے مالیاتی سکینڈلز بھی منظر عام پر آ چکے ہیں کہ کیسے کمپنی کے منافع کو نامعلوم جگہ پر ڈونیشنز کے نام پر غائب کیا گیا۔ اگر یہ کمپنی پاکستان کی ائیرلائنز انڈسٹری میں مذکورہ ہتھکنڈوں کے زور پر اجارہ داری حاصل کرتی ہے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

حکومت کا ایف بی آر میں ریٹائرڈ فوجی افسران کو تعینات کرنے کا فیصلہ: مسلمانوں کے 7000 گھر مسمار کر دیے گئے

وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اب کسٹمز کے خالی عہدوں پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر ریٹائرڈ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو بھرتی کر سکے گا۔

مالیاتی بل کے مطابق ایف بی آر کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ملک کے مختلف مقامات کو ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن قرار دے، تاکہ اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت کی روک تھام کی جا سکے۔ ایف بی آر کسی بھی موجودہ کسٹمز چیک پوسٹ کو بھی ڈیجیٹل انفورسمنٹ اسٹیشن کا درجہ دے سکتا ہے۔

بل میں واضح کیا گیا ہے کہ بورڈ ان اسٹیشنز کے لیے عملے کی بھرتی، طریقہ کار اور ٹیکنالوجی سے متعلق ضابطے بھی خود وضع کرے گا۔ مالیاتی بل میں شامل دفعات کے مطابق بورڈ قواعد کے تحت کسٹمز کے خالی عہدوں پر مسلح افواج کے ریٹائرڈ جونیئر کمیشنڈ افسران اور سپاہیوں کو کنٹریکٹ پر بھرتی کر سکتا ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ دوسرے سرکاری محکموں کی طرح ایف بی آر بھی ایک کرپٹ ترین ادارہ ہے لیکن کیا فوجی افسران کی اس محکمے میں تعیناتیوں سے ٹیکس کلیکشن اور شفافیت میں بہتری آئے گی؟

پاکستان کا بزنس سیکٹر فوجی کاروبار کی وجہ سے پہلے ہی مفلوج ہے۔ ایسے میں فوجی افسران کو ہی ٹیکس کلیکشن کے پراسیس کا حصہ بنانا مزید خرابیوں کا سبب بنے گا۔ یوں لگتا ہے مذکورہ منصوبے کی راہ ہموار کرنے کے لیے باقاعدہ ذہن سازی بھی کی جا رہی ہے۔ سینیٹر افنان اللہ لکھتے ہیں:

’’ایف بی آر کی سینئر مینجمنٹ کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں۔ اسی لیے یہ کبھی بھی اپنے اثاثے قوم کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ سالانہ ایف بی آر میں ایک ہزار ارب سے زیادہ کی کرپشن ہوتی ہے۔ کیا یہ لوگ اہل ہیں کہ یہ پاکستانیوں کے ٹیکس کا پیسہ اکٹھا کر سکیں؟‘‘

افغان اور ایران دونوں بارڈرز پر تجارت کو قانونی حیثیت نہ دے کر سمگلنگ کو فروغ دینے میں سب سے بڑا حصہ بارڈر پر تعنیات فوجی افسران ہی حاصل کرتے ہیں اور یہ حقیقت تو کئی ریٹائرڈ فوجی افسران بتا چکے ہیں کہ ان جگہوں پر پوسٹنگ کے لیے بھاری رشوت دی جاتی ہے۔ ان بارڈرز پر اگر قانونی تجارت ہو تو اس سے نہ صرف صوبائی و وفاقی حکومت کو آمدن ہو گی بلکہ مقامی افراد کو بھی با عزت روزگار ملے گا ۔ لیکن کرپٹ جرنیل کیونکر ایسا چاہیں گے؟ صرف یہی نہیں بلکہ کراچی پورٹ سے ہونے والی امپورٹس میں بھی امپورٹرز ڈیوٹی بچانے کے لیے کرپٹ فوجی و کسٹم افسران کو رشوت کھلاتے ہیں اور ڈیوٹی بچاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک بہت بڑا سکینڈل بے نقاب کرنے کے جرم میں کسٹم آفیسر عاشر عظیم کو سی آئی اے ایجنٹ قرار دے کر ملازمت سے فارغ کر دیا گیا تھا۔

آڈٹ رپورٹ میں پنجاب میں 10؍ کھرب روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف

آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ سال 2024-25ء کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کے اخراجاتی کھاتوں میں دس کھرب روپے سے زائد کی سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا ہے، جن میں فراڈ، رقم کا غلط استعمال، زائد ادائیگیاں، مالی بد انتظامی، غلط خریداری، اور کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی وصولیوں کا کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر رکھنا شامل ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، آڈٹ کی اہم دریافتوں میں 14 کیسز شامل ہیں جن میں فراڈ اور رقم کا غلط استعمال شامل ہے، جن کی مالیت 3.1 ارب روپے بنتی ہے۔ 50 کیسز زائد ادائیگیوں، ریکوریز اور غیر مجاز ادائیگیوں کے ہیں جن کی مالیت 25.4 ارب روپے ہے۔ 21کیسز مالی بد انتظامی کے ہیں جن کی مالیت 10.6 ارب روپے ہے، جب کہ 45 کیسز غلط خریداری (mis-procurement) سے متعلق ہیں جن کی مالیت 43 ارب روپے ہے۔ 12 کیسز کنسولیڈیٹڈ فنڈ کی وصولیوں کو کمرشل بینکوں میں غیر مجاز طور پر رکھنے اور خود مختار اداروں کی جانب سے عوامی رقوم کو بغیر منافع والے اکاؤنٹس میں رکھنے سے متعلق ہیں، جن کی مجموعی مالیت 988 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ، ہیومن ریسورس سے متعلق بے ضابطگیوں کے 24 کیسز کی مالیت 8.2ارب روپے اور کارکردگی سے متعلق خامیوں کے 7کیسز کی مالیت 3.6ارب روپے ہے۔

رواں سال کسانوں کو مختلف فصلوں میں ہونے والا نقصان

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی زرعی آمدنی ملکی معیشت کا ایک اہم جز سمجھی جاتی ہے، دنیا بھر میں زرعی شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اور کم سے کم قابل کاشت زمین کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کی جا رہی ہے۔ لیکن حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اہم فصلوں کی پیداوار میں بڑی کمی ہوئی ہے۔ کپاس کی فصل کی پیدوار میں 30 فیصد، مکئی میں 15.4 فیصد، گندم کی فصل میں 8.9 فیصد، چاول کی فصل میں 1.4فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ تواتر سے ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہو رہی ہیں جس میں کسان کہیں احتجاجاً اپنی اجناس ضائع کر رہے ہیں یا جانوروں کو کھلا رہے ہیں۔ ملک میں ہر سال فصلوں کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا ہے، تاہم گزشتہ سال گندم کی فصل میں کسانوں کو بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ گندم کی فی من قیمت 5 ہزار روپے سے 2300 روپے تک گر گئی جس سے کسانوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین بتھ کے مطابق صرف گندم کے ریٹ میں کمی سے کسانوں کا 2000 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، کسانوں نے مہنگے داموں بیج اور کھاد خریدے، پھر فصل کو پانی لگانے کے لیے ڈیزل کی مد میں اخراجات اور پھر فصل کی تیاری کے بعد فی من ریٹ میں 50 فیصد سے زائد کمی ہو گئی۔ اس سال بھی گندم کی پیداوار میں 8.9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور آئندہ سال تو اس سے بھی زیادہ کمی ہو گی۔ کسانوں کے فصل پر تیاری کے دوران آنے والے اخراجات بھی موجودہ ریٹس میں پورے نہیں ہوتے۔ راولپنڈی کے معروف راجہ بازار میں اشیائے خورد و نوش کے کاروبار سے منسلک سردار عمیر حیدر نے بتایا کہ گندم کے کاشتکاروں کا تو انتہائی زیادہ نقصان ہوا ہے۔ سبزیاں کاشت کرنے والوں کو ابھی بھی نقصان ہو رہا ہے اور مستقبل میں بھی نقصان کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ میڈیا میں اصل وجہ پر کم ہی بات ہوتی ہے، ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے پاکستانی سبزیاں، اجناس اور پھل افغانستان بھیجی جاتی تھیں جہاں ریٹ بھی زیادہ ملتا تھا ۔ وہاں سے بھی بہت سے پھل پاکستان آتے تھے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان سے تجارت کو حتی الامکان ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ سب ہی کے سامنے ہے۔ لیکن یہ صورتحال دیکھتے ہوئے بھی حکومت بے حسی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اس پورے معاملے میں ایک اہم زاویہ سمجھنے کا اور بھی ہے۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا عمومی مزاج ہے کہ چونکہ اپنی نوکری ، کاروبار ، منافع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے کہ ہماری زندگیاں متاثر نہ ہوں اس لیے ہم ظالم حکمرانوں کے تمام معاملات سے لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ کسی اہم پلیٹ فارم پر بولنا تو درکنا آپس میں بھی اس متعلق بات نہیں کرنا چاہتے ۔ جس طرح سیاسی اشرافیہ، بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا اور دیگر شعبوں میں اہم شخصیات کو پاکستان پر قابض جرنیل اپنے بیانیے کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں یہی صورتحال بزنس سیکٹر میں بھی ہے ۔ کرپٹ اہم کاروباری شخصیات فوج کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور فوج انہیں چور راستے فراہم کرتی ہے، بطور معاوضہ کہ وہ اپنے کاروبار کو پھیلائیں ۔ لیکن ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ جھوٹ، فریب، ظلم اور انصافیوں پر مبنی اس گھن چکر کو واپس ہم ہی پر پلٹ دے ۔ آج ہم میں سے ہر شخص اپنے گریبان میں جھانکے کہ اس کا اپنا طرز عمل کیا ہے؟ یہی کہ اپنی نوکری اور کاروبار محفوظ رہے ۔ اپنے سامنے غلط ہوتا ہوا دیکھو لیکن خاموش رہو۔ کیا اس ظالمانہ نظام پر دل میں کوئی کڑھن بھی ہے؟ کوئی فکر و پریشانی بھی ہے؟ کوئی جستجو بھی ہے کہ اسے ٹھیک کیا جائے ؟

٭٭٭٭٭

Previous Post

الشوک والقرنفل (کانٹے اور پھول) | چھٹی قسط

Next Post

مع الأستاذ فاروق | تیسویں نشست

Related Posts

اِک نظر اِدھر بھی! | جولائی 2025
دیگر

اِک نظر اِدھر بھی! | اگست 2025

17 اگست 2025
احکامِ الٰہی
گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال

احکامِ الٰہی

15 جولائی 2025
ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب
اوپن سورس جہاد

ٹیلی گرام: پرائیویسی کا فریب

14 جولائی 2025
امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط
الدراسات العسکریۃ

امنیت (سکیورٹی) | پہلی قسط

14 جولائی 2025
سورۃ الانفال | چودھواں درس
حلقۂ مجاہد

سورۃ الانفال | چودھواں درس

14 جولائی 2025
عمر ِثالث | ساتویں قسط
افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ

عمر ِثالث | آٹھویں قسط

14 جولائی 2025
Next Post
مع الأستاذ فاروق | انتیسویں نشست

مع الأستاذ فاروق | تیسویں نشست

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تازہ شمارہ

جولائی 2025

اگست 2025

by ادارہ
12 اگست 2025

Read more

تازہ مطبوعات

مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

حیاتِ امام برحق

ڈاؤن لوڈ کریں

جولائی, 2025
جمہوریت کا جال
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

جمہوریت کا جال

    ڈاؤن لوڈ کریں    

جون, 2025
وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

وحدت و اتحاد کی اہمیت و ضرورت

    ڈاؤن لوڈ کریں    

مئی, 2025
قدس کی آزادی کا راستہ
مطبوعاتِ نوائے غزوہ ہند

قدس کی آزادی کا راستہ

    ڈاؤن لوڈ کریں      

مئی, 2025

موضوعات

  • اداریہ
  • تزکیہ و احسان
  • اُسوۃ حسنۃ
  • آخرت
  • دار الإفتاء
  • نشریات
  • فکر و منہج
  • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
  • صحبتِ با اہلِ دِل!
  • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
  • عالمی منظر نامہ
  • طوفان الأقصی
  • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
  • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
  • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
  • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
  • …ہند ہے سارا میرا!
  • علیکم بالشام
  • نقطۂ نظر
  • حلقۂ مجاہد
  • الدراسات العسکریۃ
  • اوپن سورس جہاد
  • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
  • ناول و افسانے
  • عالمی جہاد
  • دیگر
تمام موضوعات

مصنفین

  • ابن عمر عمرانی گجراتی
  • ابو انور الہندی
  • ابو محمد المصری
  • احسن عزیز
  • احمد فاروق
  • ادارہ
  • ادارہ السحاب مرکزی
  • اریب اطہر
  • اسامہ محمود
  • انور العولقی
  • ایمن الظواہری
  • جلال الدین حسن یوسف زئی
  • حسن ترابی
  • خبیب سوڈانی
  • ذاکر موسیٰ
  • راشد دہلوی
  • زین علی
  • سیف العدل
  • شاکر احمد فرائضی
  • شاہ ادریس تالقدار
  • شاہین صدیقی
  • طیب نواز شہید
  • عارف ابو زید
  • عاصم عمر سنبھلی
  • عبد الہادی مجاہد
  • عبید الرحمن المرابط
  • عطیۃ اللہ اللیبی
  • قاضی ابو احمد
  • قیادت عامہ مرکزی القاعدہ
  • محمد طارق ڈار شوپیانی
  • محمد مثنیٰ حسّان
  • مدیر
  • مصعب ابراہیم
  • معین الدین شامی
  • مہتاب جالندھری
  • نعمان حجازی
  • یحییٰ سنوار

© 2008-2025 | نوائے غزوۂ ہِند – برِصغیر اور پوری دنیا میں غلبۂ دین کا داعی

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password? Sign Up

Create New Account!

Fill the forms below to register

All fields are required. Log In

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In
No Result
View All Result
  • صفحۂ اوّل
  • اداریہ
  • موضوعات
    • تزکیہ و احسان
    • اُسوۃ حسنۃ
    • آخرت
    • نشریات
    • فکر و منہج
    • جمہوریت…… ایک دجل، ایک فریب!
    • صحبتِ با اہلِ دِل!
    • گوشۂ افکارِ شاعرِ اسلام: علامہ محمد اقبال
    • عالمی منظر نامہ
    • طوفان الأقصی
    • افغان باقی کہسار باقی……الحکم للہ والملک للہ
    • پاکستان کا مقدر…… شریعتِ اسلامی کا نفاذ!
    • حاجی شریعت اللہ کی سرزمینِ بنگال سے
    • کشمیر…… غزوۂ ہند کا ایک دروازہ!
    • …ہند ہے سارا میرا!
    • علیکم بالشام
    • حلقۂ مجاہد
    • الدراسات العسکریۃ
    • اوپن سورس جہاد
    • جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں!
    • عالمی جہاد
    • ناول و افسانے
    • دیگر
      • ذکرِ حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
      • شهر رمضان الذی أنزل فیه القرآن
      • تذکرۂ محسنِ امت شیخ اسامہ بن لادن شہیدؒ
      • تذکرۂ امیر المومنین سیّد احمد شہیدؒ
      • عافیہ تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
      • یومِ تفریق
      • سانحۂ لال مسجد…… تفریقِ حق و باطل کا نشان!
      • یوم یکجہتی کشمیر
      • سقوط ڈھاکہ
  • ہماری مطبوعات
  • شمارے
    • 2025ء
    • 2024ء
    • 2023ء
    • 2022ء
    • 2021ء
    • 2020ء
    • 2019ء
    • 2018ء
    • 2017ء
    • 2016ء
    • 2015ء
    • 2014ء
    • 2013ء
    • 2012ء
    • 2011ء
    • 2010ء
    • 2009ء
    • 2008ء
  • ادارۂ حطین
    • مجلۂ حطّین
    • مطبوعاتِ حطّین
  • دار الإفتاء
  • ہمارے بارے میں
    • نوائے غزوۂ ہند کیا ہے؟
    • ویب سائٹ کا تعارف
  • رابطہ کریں

Go to mobile version