عید کا دن قریب تھا میں اپنے بچوں کو خریداری کے لیے لے گیا۔ وہاں میرے بڑے بیٹے حمزہ نے عجیب فرمائش کی۔ اس نے کہا ’’ابو جی! مجھے جو بھی چیز دلوائیں، وہ دو دو دلوائیں‘‘۔
مجھے اس کی اس بات پر غصہ تو آیا لیکن پھر اس کے اصرار پر ہر چیز دو دو دلوا دیں۔ گھر آئے تو اس کی ماں نے اسے خوب ڈانٹا…… ’’ہر چیز دو دو کی تعداد میں لينے كی ضد كيوں كی؟ کیا ضرورت تھی؟ اتنی مہنگائی ہے؟ دیکھتے نہیں کہ ابو کتنی محنت سے پیسے کما کر لاتے ہیں؟‘‘۔ حمزہ ماں کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا۔
آخر عید کا دن آپہنچا۔ میں اپنے بچوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گیا۔ واپسی پر میں اپنے دوستوں سے عید ملتا ہوا آرہا تھا تو اچانک حمزہ نے ایک لڑکے کو آواز دی وہ اس کے نزدیک آیا تو میں حیران رہ گیا، اس نے بالکل حمزہ جیسے کپڑے اور جوتے پہنے ہوئے تھے، حمزہ نے بتایا اس کا نام عبداللہ ہے۔ میں نے عبداللّٰہ سے ہاتھ ملایا تو حمزہ نے میرے کان میں کہا:
’’اسے عیدی بھی تو دیں ناں!‘‘
میں نے جلدی سے چند نوٹ نکال کر اسے دے دیے۔ پہلے تو وہ لینے سے انکار کرتا رہا، لیکن پھر بے حد اصرار پر لے لیے۔ اس کے جانے کے بعد میں نے حمزہ سے پوچھا: ’’برخودار! یہ کون تھا؟‘‘۔
حمزہ نے بتایا:
’’ابو یہ عبداللّٰہ ہے، میرا کلاس فیلو ہے اور دوست بھی ہے، بہت ذہین ہے۔ مگر اس کے والد کشمیر میں شہید ہوگئے۔ اس کی والدہ لوگوں کے کپڑے سی کر بہت مشکل سے گزارا کرتی ہیں، مجھے اچھا نہ لگا کہ میں عید کے دن نئے کپڑے پہنوں اور عبداللہ کے بدن پر پرانے کپڑے ہوں۔ اس مرتبہ یہ کلاس میں اول آیا ہے۔ سو میں نے یہ کپڑے اور جوتے اسے اول آنے کی مبارک باد کے بہانے تحفے میں دے دیے، ورنہ تو یہ کبھی بھی نہ لیتا‘‘۔
اپنے بیٹے حمزہ کی باتیں سن کر میں نے کہا:
’’بیٹا! تم نے مجھے عید منانے کا صحیح طریقہ بتایا۔ عیدی تو مجھے دینا تھی تمہیں، الٹا تم نے مجھے عیدی دے دی۔ میرا مطلب ہے کہ تم نے مجھے اتنا اچھا پیغام دے کر مجھے عیدی دے دی۔ اللّٰہ میرے بیٹے کو مزید نیک بنائیں‘‘۔
یہ سن کے حمزہ کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا۔
٭٭٭٭٭